شیخ سعدی (رح) کی غزلوں کے چند اشعار:
هر کو به همه عمرش سودای گلی بودست
داند که چرا بلبل دیوانه همیباشد
جس شخص نے ساری زندگی کسی پھول کے عشق میں گزاری ہو وہ جانتا ہے کہ بلبل کیوں دیوانہ رہتا ہے۔
دل و جانم به تو مشغول و نظر در چپ و راست
تا ندانند حریفان که تو منظور منی
میرے دل و جان تو تیری طرف مشغول ہیں، پر آنکھیں دائیں بائیں پھیرتا رہتا ہوں، تاکہ حریفوں کو یہ نہ معلوم ہو سکے کہ تو میرا محبوب ہے۔
قادری بر هر چه میخواهی مگر آزار من
زان که گر شمشیر بر فرقم نهی آزار نیست
تو ہر چیز پر قادر ہے سوائے مجھے آزار دینے کے، کیونکہ اگر تو میرے سر پر تلوار مارے تو اس سے (بھی) مجھے تکلیف نہیں ہو گی۔
شربتی تلختر از زهر فراقت باید
تا کند لذت وصل تو فراموش مرا
تیرے وصل کی لذت کو بھلانے کے لیے تیرے فراق سے بھی تلخ تر شربت چاہیے۔
چنان به موی تو آشفتهام به بوی تو مست
که نیستم خبر از هر چه در دو عالم هست
میں تیری زلفوں میں ایسا الجھا اور انکی خوشبو میں ایسا مست ہوں کہ مجھے دونوں جہانوں کی کچھ خبر ہی نہیں۔
دلی که عاشق و صابر بود مگر سنگست
ز عشق تا به صبوری هزار فرسنگست
جس دل میں عشق کے ساتھ صبر بھی ہے وہ پتھر ہے۔ (کیونکہ) عشق اور صبر میں ہزار فرسنگ کا فاصلہ ہے۔
چه تربیت شنوم یا چه مصلحت بینم
مرا که چشم به ساقی و گوش بر چنگست
میں کسی کی نصیحت کیا سنوں اور کیا مصلحت کا خیال کروں؛ میری آنکھیں تو ساقی کی طرف اور کان چنگ کی طرف لگے ہوئے ہیں۔