اِس بیت کے وزن کے بارے میں جاننے کے لیے یہ دھاگا دیکھیے، جس میں جنابِ محمد وارث نے اِس بیت کا مُفصّل عَروضی تجزیہ کیا ہے۔«نِظامی گنجوی» نے اپنی مثنوی «مخزن الاسرار» کا آغاز اِس بیت سے کیا ہے:
بسم الله الرّحمٰن الرّحیم
هست کلیدِ درِ گنجِ حکیم
(نظامی گنجوی)
«بسم الله الرّحمٰن الرّحیم» [خُدائے] حکیم کے خزانے کے در کی کلید ہے۔
× بیت کے مصرعِ اوّل کا وزن «مفعولن مفعولن فاعلن» اور مصرعِ ثانی کا وزن «مفتعلن مفتعلن فاعلن» ہے۔ کسی بیت کے مصرعوں میں اِن دو اوزان کا باہم آنا جائز ہے۔
یہ بیت صائب تبریزی کی ہے۔اگرچہ وعدہء خوباں وفا نمی داند
خوش آں حیات کہ در انتظار می گزرد
اگرچہ خوباں کے وعدے کو ایفا کا پتہ نہیں ہوتا۔
وہ زندگی پھر بھی خوبصورت ہے جو انتظار میں گزرے۔
اگرچه وعدهٔ خوبان وفا نمیداند
خوش آن حیات که در انتظار میگذرد
(صائب تبریزی)
اگرچہ حسینوں کا وعدہ وفا نہیں جانتا، (لیکن اس کے باوجود) وہ زندگی کیا ہی خوب ہے کہ جو (وفائے وعدہ کے) انتظار میں گذرتی ہے۔
حضور میرے ناقص خیال میں مِشکیں یعنی میم کے نیچے زے کے ساتھبسم الله الرّحمٰن الرّحیم
گیسویِ مُشکینِ نِگارِ قدیم
(عبدالعلیم عاصم)
«بسم الله الرّحمٰن الرّحیم» نِگارِ قدیم کی زُلفِ مُشک آلود ہے۔
× «نِگار» یہاں «معشوقِ زیبا» کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
× شاعر کا نام «عبدالحلیم عاصم» بھی نظر آیا ہے۔
«مُشک» سیاہ رنگ مادّہ ہے، اِس لیے «مُشکین» مجازاً سیاہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔حضور میرے ناقص خیال میں مِشکیں یعنی میم کے نیچے زے کے ساتھ
انتہائی کالے چمکدار سیاہ کو کہتے ہیں جیسے اسپ مشکیں یا گیسوئے مشکیں
میں نے ایک بار خانہ فرہنگ ایران پشاور صدر میں مِشکیں کو مُشکیں پڑھ دیا یعنی پیش کے ساتھ تو فورا اسسٹنٹ ڈائریکٹر سید غیور صاحب نے تصحیح کی کہ زیر کے ساتھ ہوتا ہے پیش کے ساتھ نہیں۔
بہرحال یہ تو تقریبا بیس سال پرانی بات ہے۔