حسان خان

لائبریرین
(رُباعی)
عشقِ تو که آزُرد دلِ زارِ مرا
پُر ساخت ز خون، دیدهٔ خون‌بارِ مرا
خواهم که بِسوزد دلِ بیمارِ مرا
آزاد کند جانِ گرفتارِ مرا
(محمد فضولی بغدادی)

تمہارے عشق نے، کہ جس نے میرے دلِ زار کو آزُردہ کر دیا، میری چشمِ خوں‌بار کو خُون سے پُر کر دیا۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ (تمہارا عشق) میرے دلِ بیمار کو جلا ڈالے اور میری جانِ گرفتار کو آزاد کر دے!
 

محمد وارث

لائبریرین
ہرگز نگشتہ جمع بہم عشق و سرکشی
خواہی کہ بارِ عشق کشی، بُردبار شو


شیخ علی حزیں لاھیجی

عشق اور سرکشی ہرگز بھی ایک جگہ باہم جمع نہیں ہو سکتے، لہذا اگر تُو چاہتا ہے کہ بارِ عشق اُٹھائے تو پھر بُردبار و صابر و متحمل ہو جا۔
 

منہاج علی

محفلین
ہرگز نگشتہ جمع بہم عشق و سرکشی
خواہی کہ بارِ عشق کشی، بُردبار شو


شیخ علی حزیں لاھیجی

عشق اور سرکشی ہرگز بھی ایک جگہ باہم جمع نہیں ہو سکتے، لہذا اگر تُو چاہتا ہے کہ بارِ عشق اُٹھائے تو پھر بُردبار و صابر و متحمل ہو جا۔
واہ واہ بیشک
 

حسان خان

لائبریرین
عُثمانی شاعر «نفْعی ارضرومی» کے ایک فارسی قصیدے سے ایک بیت:
دل است و عشق و حُسنِ بی‌زوال و حسرتِ دائم
که حسرت مایهٔ عشق است و وصلت عینِ نُقصانش

(نفْعی ارضرومی)
دل ہے، اور عشق ہے اور حُسنِ بے زوال ہے اور حسرتِ دائم ہے۔۔۔
کہ حسرت مایۂ عشق ہے، اور وصل عَین کمی و خسارۂ [عشق]۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
عُثمانی شاعر «نفْعی ارضرومی» کے ایک فارسی قصیدے سے ایک بیت:
عجب نبْوَد گر اُستادی کند بر عقل و اندیشه
دِلی کو مایه می‌گیرد مُدام از سِرِّ سُبحانش

(نفْعی ارضرومی)
جو دل ہمیشہ رازِ [خُدائے] سُبحان سے مایہ حاصل کرتا ہے، اگر وہ عقل و فکر پر اُستادی کرے تو عجب نہیں ہے۔
 

منہاج علی

محفلین
عُثمانی شاعر «نفْعی ارضرومی» کے ایک فارسی قصیدے سے ایک بیت:
عجب نبْوَد گر اُستادی کند بر عقل و اندیشه
دِلی کو مایه می‌گیرد مُدام از سِرِّ سُبحانش

(نفْعی ارضرومی)
جو دل ہمیشہ رازِ [خُدائے] سُبحان سے مایہ حاصل کرتا ہے، اگر وہ عقل و فکر پر اُستادی کرے تو عجب نہیں ہے۔
واااہ واااہ حقیقت ہے !
 
السلام وعلیکم محمد وارث صاحب
شیخ سعدی کے اس شعر کا اردو ترجمہ کیا ہو گا۔
به دریا در منافع بی شمار است
و گر خواهی سلامت بر کنار است
 

حسان خان

لائبریرین
شریعتِ اسلامی کے رُو سے حُدودِ حرمِ کعبہ میں، خصوصاً حالتِ احرام میں، شکارِ جانور ممنوع ہے۔‌ آپ آگاہ ہیں کہ ہماری فارسی شاعری میں کُوئے محبوب کو بھی حرمِ کعبہ جیسا حریمِ مُقدّس مانا جاتا ہے، لہٰذا جو احکامِ شریعت حرمِ کعبہ سے اختصاص رکھتے ہیں، شاعرِ عاشق کی نظر میں وہی احکام کُوئے معشوق پر بھی اِجرا ہوتے ہیں۔ ہمارے شُعَراء احرامِ عشق باندھ کر کُوئے یار کا طواف کرتے اور معشوق کے دیدارِ مُبارک و سعید سے کم از کم ایک بار فیض‌یاب ہونے کے لیے حریمِ یار میں مُعتَکِف ہو جاتے ہیں۔ اور ذہن‌نشین رہے کہ ہمارے اکثر شُعَراء کو یار کے خنجر سے ذبح ہو جانے کا بھی اشتیاق ہوتا ہے، اور جن کو یہ اشتیاق نہیں بھی ہوتا اُن کو بھی اُن کے محبوبان خنجرِ ستم سے ذبح کر ڈالتے ہیں، لہٰذا شُعَراء خود کو صَیدِ معشوق بھی تصوُّر کرتے ہیں۔ پس جو عاشقِ صادق خود کے یار کے کُوچے میں ساکن ہو گیا ہو وہ گویا صَیدِ حرم ہے جس کے شِکار کو شریعتِ اسلامی نے حرام قرار دے دیا ہے۔ حالا (اب) جنابِ «محمد فُضولی بغدادی» (سلام بر او باد!) کی ایک خوب‌صورت فارسی بیت دیکھیے جس میں اُنہوں نے اِن چیزوں کی جانب زیبا اشارہ فرمایا ہے:

ساکنِ خاکِ درِ او شده‌ام لیک چه سود
گرچه دارم صِفَتِ صَیدِ حرم، می‌کُشَدم
(محمد فضولی بغدادی)


میں نے اُس (یار) کے در کی خاک پر سُکونت اختیار کر لی ہے، لیکن کیا فائدہ؟۔۔۔۔ [کہ] اگرچہ میں صَیدِ حرم کی صِفَت رکھتا ہوں، [لیکن] وہ مجھے [پھر بھی] قتل کرتا ہے۔

اب یہاں ایک نُکتہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگرچہ عموماً عاشق کو یار کے بدست ذبح ہونے کی شدید خواہش رہتی ہے، لیکن یہاں «فُضولی» یار کے کُوچے میں سُکونت اختیار کرنے اور دیدارِ یار کے برائے آئے ہیں، ذبح ہونے کے برائے نہیں۔ اُن کو یہ گُمان تھا کہ چونکہ اُن کا یار شریعت کی پیروی کرتے ہوئے حرم میں شکار کو قتل و ذبح کرنے سے اِجتِناب کرے گا، لہٰذا وہ حریمِ یار کی حُدود میں جان کی امان پا لیں گے۔ لیکن اُن کا گُمان غلط ثابت ہوا اور اُن کو صَیدِ حرم ہونے سے بھی کوئی فائدہ نہ ہوا، اور بالآخر اُن کے محبوب نے اُن کو کُشتۂ تیغِ سِتم کر دیا۔ اُمید ہے کہ جس لمحہ «فُضولی» بدستِ یار قتل ہو رہے تھے تو اُنہوں نے یارِ خود کے رُوئے جمیل کا نظارہ کر لیا ہو گا، اور اِس طرح اُن کا قتل ہونا ضائع نہیں گیا ہو گا!
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
بر زمینِ دل سحابِ عشق می بارد سخن
فیض عاشق شو اگر خواہی سخن گستر شدن


فیض کاشانی

دل کی زمین پر، عشق کا بادل سخن کا مینہ برساتا ہے۔ اے فیض اگر تُو سخنور و شاعر ہونا چاہتا ہے تو پھر عاشق ہو جا۔
بہت اعلیٰ سر
 

حسان خان

لائبریرین
از فُضولی نصیحتی بِشْنَو:
تَرکِ خوبانِ گُل‌عِذار مکُن
(محمد فضولی بغدادی)

«فُضولی» سے اِک نصیحت سُنو: خُوبانِ گُل‌رُخسار کو تَرک مت کرو!
 

منہاج علی

محفلین
شریعتِ اسلامی کے رُو سے حُدودِ حرمِ کعبہ میں، خصوصاً حالتِ احرام میں، شکارِ جانور ممنوع ہے۔‌ آپ آگاہ ہیں کہ ہماری فارسی شاعری میں کُوئے محبوب کو بھی حرمِ کعبہ جیسا حریمِ مُقدّس مانا جاتا ہے، لہٰذا جو احکامِ شریعت حرمِ کعبہ سے اختصاص رکھتے ہیں، شاعرِ عاشق کی نظر میں وہی احکام کُوئے معشوق پر بھی اِجرا ہوتے ہیں۔ ہمارے شُعَراء احرامِ عشق باندھ کر کُوئے یار کا طواف کرتے اور معشوق کے دیدارِ مُبارک و سعید سے کم از کم ایک بار فیض‌یاب ہونے کے لیے حریمِ یار میں مُعتَکِف ہو جاتے ہیں۔ اور ذہن‌نشین رہے کہ ہمارے اکثر شُعَراء کو یار کے خنجر سے ذبح ہو جانے کا بھی اشتیاق ہوتا ہے، اور جن کو یہ اشتیاق نہیں بھی ہوتا اُن کو بھی اُن کے محبوبان خنجرِ ستم سے ذبح کر ڈالتے ہیں، لہٰذا شُعَراء خود کو صَیدِ معشوق بھی تصوُّر کرتے ہیں۔ پس جو عاشقِ صادق خود کے یار کے کُوچے میں ساکن ہو گیا ہو وہ گویا صَیدِ حرم ہے جس کے شِکار کو شریعتِ اسلامی نے حرام قرار دے دیا ہے۔ حالا (اب) جنابِ «محمد فُضولی بغدادی» (سلام بر او باد!) کی ایک خوب‌صورت فارسی بیت دیکھیے جس میں اُنہوں نے اِن چیزوں کی جانب زیبا اشارہ فرمایا ہے:

ساکنِ خاکِ درِ او شده‌ام لیک چه سود
گرچه دارم صِفَتِ صَیدِ حرم، می‌کُشَدم
(محمد فضولی بغدادی)


میں نے اُس (یار) کے در کی خاک پر سُکونت اختیار کر لی ہے، لیکن کیا فائدہ؟۔۔۔۔ [کہ] اگرچہ میں صَیدِ حرم کی صِفَت رکھتا ہوں، [لیکن] وہ مجھے [پھر بھی] قتل کرتا ہے۔

اب یہاں ایک نُکتہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگرچہ عموماً عاشق کو یار کے بدست ذبح ہونے کی شدید خواہش رہتی ہے، لیکن یہاں «فُضولی» یار کے کُوچے میں سُکونت اختیار کرنے اور دیدارِ یار کے برائے آئے ہیں، ذبح ہونے کے برائے نہیں۔ اُن کو یہ گُمان تھا کہ چونکہ اُن کا یار شریعت کی پیروی کرتے ہوئے حرم میں شکار کو قتل و ذبح کرنے سے اِجتِناب کرے گا، لہٰذا وہ حریمِ یار کی حُدود میں جان کی امان پا لیں گے۔ لیکن اُن کا گُمان غلط ثابت ہوا اور اُن کو صَیدِ حرم ہونے سے بھی کوئی فائدہ نہ ہوا، اور بالآخر اُن کے محبوب نے اُن کو کُشتۂ تیغِ سِتم کر دیا۔ اُمید ہے کہ جس لمحہ «فُضولی» بدستِ یار قتل ہو رہے تھے تو اُنہوں نے یارِ خود کے رُوئے جمیل کا نظارہ کر لیا ہو گا، اور اِس طرح اُن کا قتل ہونا ضائع نہیں گیا ہو گا!
کمال ہے !
 

محمد وارث

لائبریرین
دل نقدِ جاں بخاکِ درِ دلسِتاں سپرد
بوسید آستانش و با بوسہ جاں سپرد


طالب آملی

دل نے نقدِ جاں، درِ محبوب کی خاک کے سپرد کی، یعنی اُس کے آستانے کو بوسہ دیا اور بوسے کے ساتھ ہی جان بھی دے دی۔
 

حسان خان

لائبریرین
جنابِ «محمد فُضولی بغدادی» (سلام و رحمت بر او باد!) کا ایک فارسی قطعہ:

اوّلِ عُمرم که هنگامِ سُرور و ذَوق بود
عاری از علم و عمل، در جهل و نادانی گُذشت
از طُفولیّت جو بِگْذشتم، اسیرِ غم شدم
بعضی آن هم در خیالِ عالَمِ فانی گُذشت
آخرِ عُمرم که ایّامِ صلاح است و ورَع
در ندامت صَرف گشت و در پشیمانی گُذشت
آه! از این عُمری کز او ذَوقی ندیدم هیچ گه
غافل از کیفیّتِ لذّاتِ روحانی گُذشت

(محمد فضولی بغدادی)

میری عُمر کا ابتدائی حِصّہ، کہ جو وقتِ سُرور و نشاط و لذّت تھا، علم و عمل سے عاری و خالی اور جہل و نادانی میں گُذر گیا۔۔۔ جب میں نے زمانۂ طُفولیت کو عُبور کیا [اور جوانی میں داخل ہوا] تو اسیرِ غم ہو گیا، اور، علاوہ بریں، اُس [زمانے] کا بعض [حِصّہ] عالَمِ فانی (دُنیا) کے خَیال میں گُذر گیا۔۔۔ میری عُمر کا اختتامی حِصّہ، کہ جو ایّامِ نیکوکاری و تقوا و پارسائی ہے، ندامت میں صَرف ہو گیا اور پشیمانی میں گُذر گیا۔۔۔ اِس عُمر و زندگانی کے باعث آہ! کہ جس سے میں نے کسی بھی وقت کوئی نشاط و مسرّت نہ دیکھی، اور جو کیفیّتِ لذّاتِ روحانی سے غافل گُذر گئی!
 

حسان خان

لائبریرین
السلام وعلیکم محمد وارث صاحب
شیخ سعدی کے اس شعر کا اردو ترجمہ کیا ہو گا۔
به دریا در منافع بی شمار است
و گر خواهی سلامت بر کنار است
به دریا در مَنافِع بی‌شُمار است
وگر خواهی سلامت بر کنار است

(سعدی شیرازی)
[اگرچہ] بحر کے اندر بے شمار فوائد ہیں، [لیکن] اگر تم سلامتی چاہو تو وہ ساحل پر ہے۔
 
Top