حسان خان

لائبریرین
«سُلطان محمود غزنوی» کی مدح میں تین ابیات:
بر همه مردُمانِ رُویِ زمین
مِهرِ او واجب است چون ایمان
کافر است آن‌ که او به پنج نماز
جانِ او را نخواهد از یزدان
جان‌هایِ جهانیان بسته‌ست
در بقا و سلامتِ سُلطان
(فرُّخی سیستانی)

رُوئے زمین کے تمام مردُم پر اُس کی محبّت اِس طرح واجب ہے جیسے ایمان۔
وہ شخص کافر ہے کہ جو پانچ نمازوں میں خُدا سے اُس کی جان و حیات کی اِستِدعا نہ کرے۔
[کیونکہ] اہلِ جہان کی جانیں سُلطان کی بقا و سلامتی سے بستَگی رکھتی ہیں۔
(یعنی سُلطان سلامت تو اہلِ جہان سلامت)
 
آدمی دید است باقی پوست است
دید آں باشد کہ دید دوست است
جملہ تن را در گداز اندر بصر
در نظر رو در نظر رو در نظر
علامہ اقبال نے اس کی یوں تشریح کی ہے
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
وادیِ عشق بسی دور و درازست ولی
طی شود جادهٔ صد ساله به آهی گاهی
 
نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بایں ذوقے کہ پیشِِ یار می رقصم
مجھےنہیں معلوم کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں ناچ رہاہوں، لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے ناچتا ہوں

تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خونخوار می رقصم
تُو وہ قاتل ہے کہ تماشے کے لیے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خونخوار خنجر کے نیچے ناچتا ہوں

بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم
آ، اے محبوب ! اورتماشا دیکھ کہ جانبازوں کی بھِیڑ میں، میں سینکڑوں رسوائیوں کےسامان کےساتھ ،سر بازار ناچتا ہوں

خوشا رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم
واہ ! مے نوشی کہ جس کیلیے میں نے سینکڑوں پارسائیوں کو پامال کر دیا، خوب! تقویٰ کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ ناچتا ہوں

اگرچہ قطرۂ شبنم نپوئید بر سرِ خارے
منم آں قطرۂ شبنم بنوکِ خار می رقصم
اگرچہ شبنم کا قطرہ کانٹے پر نہیں پڑتا لیکن میں شبنم کا وہ قطرہ ہوں کہ کانٹے کی نوک پر ناچتا ہوں

تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم
بہر طرزے کہ رقصانی منم اے یار می رقصم
توہر وقت جب بھی مجھے نغمہ سناتا ہے، میں ہر بار ناچتا ہوں، اور جس طرز پر بھی تو رقص کراتا ہے، اے یار میں ناچتا ہوں

سراپا بر سراپائے خودم از بیخودی قربان
بگرد مرکزِ خود صورتِ پرکار می رقصم
سر سے پاؤں تک جو میرا حال ہےاس بیخودی پر میں قربان جاؤں،کہ پرکار کی طرح اپنے ہی گرد ناچتا ہوں

مرا طعنہ مزن اے مدعی طرزِ ادائیم بیں
منم رندے خراباتی سرِ بازار می رقصم
اے ظاہر دیکھنے والے مدعی !مجھے طعنہ مت مار،میں تو شراب خانے کا مے نوش ہوں کہ سرِ بازار ناچتا ہوں

کہ عشقِ دوست ہر ساعت دروں نار می رقصم
گاہےبر خاک می غلتم , گاہے بر خار می رقصم
عشق کا دوست تو ہر گھڑی آگ میں ناچتا ہے،کبھی تو میں خاک میں مل جاتا ہوں ،کبھی کانٹے پر ناچتا ہوں

منم عثمانِ ھارونی کہ یارے شیخِ منصورم
ملامت می کند خلقے و من برَ،دار می رقصم
میں عثمان ھارونی ،شیخ حسین بن منصور حلاج کا دوست ہوں، مجھے خلق ملامت کرتی ہے اور میں سولی پر ناچتا ہوں
 
دلِ بے قیدِ من با نورِ ایماں کافری کردہ
حرم را سجدہ آوردہ، بتاں را چاکری کردہ
اقبالؒ
میرے بے قید دل نے ایمان کے نور کے ساتھ کافری کی ہے کہ سجدہ تو حرم کو کرتا ہے لیکن چاکری اور غلامی بتوں کی کرتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
چشمِ تو بہ حالِ من، گر نیم نظر خندد
خارم بہ چمن نازد، عیبم بہ ہنر خندد


ابوالمعانی میرزا عبدالقادر بیدل

تُو اگر میرے حال پر ایک اُچٹتی ہوئی نظر بھی ڈال دے تو میرے کانٹے چمن پر ناز کریں، اور میرے عیب ہنر پر مسکرائیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
رسید عید که عقدِ ملال بِگْشاید
درِ فرح به کلیدِ هِلال بِگْشاید

(محمد فضولی بغدادی)
عید پہنچ (آ) گئی تاکہ ملال کی گِرہ کھول دے [اور] کلیدِ ہِلال سے درِ فرح و شادمانی کھول دے۔
 

فہد اشرف

محفلین
رسید عید که عقدِ ملال بِگْشاید
درِ فرح به کلیدِ هِلال بِگْشاید

(محمد فضولی بغدادی)
عید پہنچ (آ) گئی تاکہ ملال کی گِرہ کھول دے [اور] کلیدِ ہِلال سے درِ فرح و شادمانی کھول دے۔
کسی مغل شہزادی کے بیت میں ہلال عید کو کلید میخانہ سے بھی تشبیہ دی گئی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کسی مغل شہزادی کے بیت میں ہلال عید کو کلید میخانہ سے بھی تشبیہ دی گئی ہے۔
جس بیت کی جانب آپ نے اشارہ کیا ہے، وہ «شیخ یعقوب صَرفی کشمیری» کی بیت ہے۔ تیموری ملِکہ «نورجہان» سے اُس کا انتساب میری نظر میں ایک دل‌چسپ افسانے سے بیش نہیں ہے۔ :)
 

حسان خان

لائبریرین
روزِ عید است، ای حریفان، باده در ساغر کُنید!
مِحنتِ سی‌روزه با یک جام دُور از سر کُنید!

(صدرالدین عَینی)
روزِ عید ہے، اے ندیمو، شراب ساغر میں کیجیے (ڈالیے)!۔۔۔ تیس‌روزہ رنج و تعَب کو ایک جام کے ساتھ (ذریعے) سر سے دُور کر دیجیے!
 

حسان خان

لائبریرین
روزِ عید است و مرا جُز یار و مَی درکار نیست،
مَی چه کار آید، اگر اِمروز با من یار نیست؟!

(صدرالدین عَینی)
روزِ عید ہے، اور مجھ کو یار و شراب کے بجُز [کچھ] درکار نہیں ہے۔۔۔ اگر اِمروز میرے ساتھ یار نہ ہو تو شراب کس کام آئے [گی]؟
 

حسان خان

لائبریرین
اقرار می‌کنم که در این‌جا بِدونِ تو
حتّیٰ برایِ آه کشیدن هوا کم است

(محمد سلمانی)
[اے محبوب!] میں اقرار کرتا ہوں کہ تمہارے بغیر اِس جگہ حتّیٰ آہ کھینچنے کے لیے [بھی] ہوا کم ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
حافظ منِشین بی مَی و معشوق زمانی
کایّامِ گُل و یاسمن و عیدِ صیام است

(حافظ شیرازی)
اے حافظ! کسی بھی وقت شراب و معشوق کے بغیر مت بیٹھو کیونکہ ایّامِ گُل و یاسَمَن اور عیدِ صِیام ہے۔
 

فہد اشرف

محفلین
حافظ منِشین بی مَی و معشوق زمانی
کایّامِ گُل و یاسمن و عیدِ صیام است

(حافظ شیرازی)
اے حافظ! کسی بھی وقت شراب و معشوق کے بغیر مت بیٹھو کیونکہ ایّامِ گُل و یاسَمَن اور عیدِ صِیام ہے۔
عیدِ صیام فارسی میں عید الفطر کے لیے استعمال ہوتا ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
باز آ بِبین که بی‌تو در این شهرِ پُرملال
احساس، عشق، عاطِفه، یا نیست یا کم است

(محمد سلمانی)
واپس آ جاؤ [اور] دیکھو کہ تمہارے بغیر اِس شہرِ پُرملال میں احساس، عشق، شفقت و مہربانی یا [تو] نہیں ہے یا [پھر] کم ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
زُلالِ وصلت شرابِ کوثر، حریمِ کُویت فضایِ جنّت
بلایِ هجرت عذابِ دوزخ، شبِ فراقت صباحِ محشر

(محمد فضولی بغدادی)
تمہارے وصل کا آبِ شیرین و خوش‌گوار، شرابِ کوثر ہے۔۔۔ تمہارے کُوچے کی حریم فضائے جنّت ہے۔۔۔ تمہارے ہجر کی بلا عذابِ دوزخ ہے۔۔۔ تمہارے فراق کی شب صُبحِ محشر ہے۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
اشکِ چشم و حالِ زارم دید و رفت
حَیف او فریادِ من نشْنید و رفت

(مقصود جعفری)
اُس نے [میرے] اشکِ چشم اور میرا حالِ زار دیکھا اور چلا گیا۔۔۔ افسوس! اُس نے میری فریاد نہ سُنی اور چلا گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
«امیر مودود احمد عصمی» کی مدح میں ایک بیت:
خدمتِ تو چو نماز است مرا واجب و فرض
به خُدایی که جُز او را نتوان بُرد نماز

(انوَری ابیوَردی)
اُس خُدا کی قسم کہ جس کے بجُز کسی کے لیے نماز [و پرستِش] نہیں کی جا سکتی!۔۔۔ [کہ] تمہاری خدمت میرے لیے نماز کی مانند واجب و فرض ہے۔
 
Top