محمد وارث

لائبریرین
زہے شادی کہ اُو آید، ببیند حالِ من، لیکن
من ایں شادی نمی خواہم کہ اُو غمناک خواہد شد


امیر خسرو

زہے یہ خوشی کہ وہ (میرے پاس) آئے اور میرا حال دیکھے، لیکن میں ایسی خوشی نہیں چاہتا کہ وہ (میرا حال دیکھ کر) غمناک ہو جائے گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دیدہ را فائدہ آں است کہ دلبر بیند
ور نہ بیند چہ بوَد فائدہ بینائی را


شیخ سعدی شیرازی

آنکھوں کا فائدہ اور حاصل یہ ہے کہ وہ دلبر کو دیکھیں اور اگر نہ دیکھیں تو پھر بینائی کا کیا بھی فائدہ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہ قمار خانہ رفتم، ہمہ پاکباز دیدم
چو بہ صومعہ رسیدم، ہمہ یافتم دغائی


شیخ فخرالدین عراقی

میں قمار خانے میں گیا تو وہاں میں نے سارے کے سارے پاکباز لوگ دیکھے (جو اپنا کام ایمانداری سے کر رہے تھے)، اور جب میں عبادت گاہوں میں پہنچا تو وہاں مجھے سارے کے سارے ریا کار اور دغا باز ملے۔
 

حسان خان

لائبریرین
نه در خلافتِ بوبکر دم زنم به خِلاف
نه در امامتِ فاروق در مجال نُطَق
نه در نِشَستنِ عُثمان چو رافضی بدگوی
نه در شَجاعتِ حَیدر چو خارجی احمق
(انوَری ابیوَردی)


نہ میں ابوبکر کی خِلافت کی مُخالفت میں حَرف کہتا ہوں۔۔۔ نہ فاروق کی اِمامت سے اِختِلاف کرنے کی میرے نُطق کو طاقت و قُدرت ہے۔۔۔ نہ میں رافضی کی مانند عُثمان کے جُلوس بر مسنَدِ خِلافت کے بارے میں بدگوئی کرتا ہوں۔۔۔ اور نہ میں خارجی کی مانند حَیدر کی شَجاعت کے باب میں حماقت کا اِظہار کرتا ہوں۔۔۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
«میرزا اسداللہ خان غالب دهلَوی» کے دیوانِ اشعارِ فارسی میں ایک جالبِ توجُّہ قِطعہ نظر آیا ہے۔ یہ قِطعہ ایک معروف فارسی-اُردو شاعر «نواب مُصطفیٰ خان» - جِن کا اُردو شاعری میں تخلُّص «شیفتہ» اور فارسی شاعری میں «حسرَتی» تھا - کو مُخاطَب کر کے لِکھا گیا تھا، اور اُس کا موضوع «الطاف حُسَین حالی» تھے، جو اُس زمان و مکان کے ایک دیگر مشہور شاعر و ادیب، اور شاید «میرزا غالب» کے ایک شاگرد تھے۔ قِطعے سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا «حالی» کسی باعث «غالب» سے رنجیدہ‌خاطِر ہو گئے تھے، اور اُسی لیے «غالب» نے یہ قِطعہ «شیفتہ/حسرَتی» کو اِرسال کر کے اُن کو شفیع بنانا چاہا تھا اور اُن سے درخواست کی تھی کہ «حالی» کا دل «غالب» کی جانب صاف کر دیں اور «حالی» و «غالب» کے مابین مُصالحہ کرا دیں، اور قطعے کے آخِر میں اُنہوں نے «حالی» سے معذرت کرنے کی خواہش کا بھی اِظہار کیا تھا:‌

تو ای که شیفته و حسرتی لقب داری
همی به لُطفِ تو خود را اُمیدوار کُنَم
چو حالی از منِ آشُفته بی‌سبب رنجید
تو گر شفیع نگردی بِگو چه کار کُنَم
دوباره عُمر دِهَندم اگر به فرضِ مُحال
بر آن سرم که در آن عُمر این دو کار کُنَم
یکی ادایِ عباداتِ عُمرِ پیشینه
دِگر به پیش‌گهِ حالی اِعتِذار کُنَم
(میرزا غالب دهلوی)


اے تم کہ جِس کا لقب «شیفتہ» اور «حسرَتی» ہے!۔۔۔ میں تمہارے لُطف کی اُمید کرتا ہوں۔۔۔ چونکہ «حالی» مجھ آشُفتہ سے بےسبب رنجیدہ ہو گیا ہے، تو اگر تم شفیع نہ بنو تو پھر بتاؤ مَیں کیا کروں گا؟۔۔۔ اگر بہ فرضِ مُحال مجھ کو دوبارہ عُمر دی جائے تو میرا اِرادہ یہ ہے کہ مَیں اُس عُمرِ دوبارہ میں یہ دو کار کروں گا: یکے یہ کہ عُمرِ گُذشتہ کی عِبادات کی ادائیگی کروں گا، اور دیگر یہ کہ مَیں «حالی» کے حُضور میں اور اُس کے آستان پر عُذرخواہی کروں گا!۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہرِ قطعِ گفتگو تیغِ زبانَت دادہ اند
تو گماں داری کہ از بہرِ بیانت دادہ اند


صائب تبریزی

یہ تیغِ زباں تجھے گفتگو قطع اور ختم کرنے کے لیے دی گئی ہے اور اور تُو اِس وہم و گمان میں ہے کہ یہ تجھے بیان بازیوں کے لیے دی گئی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
بہرِ قطعِ گفتگو تیغِ زبانَت دادہ اند
تو گماں داری کہ از بہرِ بیانت دادہ اند


صائب تبریزی

یہ تیغِ زباں تجھے گفتگو قطع اور ختم کرنے کے لیے دی گئی ہے اور اور تُو اِس وہم و گمان میں ہے کہ یہ تجھے بیان بازیوں کے لیے دی گئی ہے۔
بہت بہترین:flower:
 

محمد وارث

لائبریرین
اے مُرغِ دل ز شبنمِ اشکم بہار شد
تا کے فغان و نالہ بہ کنجِ قفس کنی


شاہزادی زیب النسا مخفی

اے طائرِ دل، میرے اشکوں کی شبنم سے (ہر طرف) بہار کا منظر ہو گیا، تُو کب تک قفس کے گوشے میں نالہ و فغاں کرتا رہے گا۔
 

سیما علی

لائبریرین
اے مُرغِ دل ز شبنمِ اشکم بہار شد
تا کے فغان و نالہ بہ کنجِ قفس کنی


شاہزادی زیب النسا مخفی

اے طائرِ دل، میرے اشکوں کی شبنم سے (ہر طرف) بہار کا منظر ہو گیا، تُو کب تک قفس کے گوشے میں نالہ و فغاں کرتا رہے گا۔
بہت خوب :)بہت عرصے کے بعد آج آپ کی بدولت دوبارہ شاہزادی زیب النساء مخفی کے بارے میں پڑ ھا تاریخ میراپسندیدہ موضوع اور یہ اُن پسندیدہ خواتین میں ہیں جنکے بارے میں بار بار پڑھنے کو دل کرتا ہے ۔مہر النساء ملکہ نور جہاں اور اِنکی شخصیت
مغلیہ دور کی نامور خواتین میں سے ہیں۔۔۔۔۔
مقبرہ نورجہاں
بر مزارِ ما غریباں، نے چراغِ نے گلے
نے پرِ پروانہ سوزد نے صداے بلبلے
مجھ اجڑے ہوئے کے مزار پر نہ ہی کوئی چراغ (جلتا) ہے اور نہ کوئی پھول(کھلتا) ہے،(اسی لیے) نہ ہی پروانہ اپنا پر جلاتا ہے اور نہ ہی بلبل کی کوئی آواز سنائی دیتی ہے - (یعنی میرے مزار پر ویرانی اور حسرت و یاس کے سوا کچھ نہیں)
وارث صاحب کہیں غلطی ہو اصلاح ضرور۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بابائے ادبیاتِ پشتو «خوشحال خان خټک» کے پِسَر «عبدالقادر خان خټک» کے دیوانِ اشعار کی ورَق‌گردانی اور اُن کے سوانحِ زندگی کے سرسری مُطالعے کے اَثنا میں معلوم ہوا ہے کہ وہ نقش‌بندی صوفی طریقت کے پَیرَو تھے، اور اُس سِلسِلے میں اُن کے مُرشِد «شیخ سعدی لاهوری» تھے، جِن کی وفات کے ہنگام پر اُنہوں نے زبانِ فارسی میں ایک قِطعہ لِکھ کر اُن کا مادّۂ تاریخِ وفات نِکالا تھا۔

شَیخ سعدی قُدوهٔ اهلِ یقین
چون مُنَوّر گشت ازو زیرِ زمین
از خِرَد جُستم حِسابِ رحلَتش
در جوابم گُفت "شَیخِ مومِنین"
(عبدالقادر خان خټک)

۱۱۰۶ھ

شَیخ سعدی، کہ جو سرمَشق و پیشوائے اہلِ یقین تھے۔۔۔ جب اُن سے زیرِ زمین مُنوّر ہوا (یعنی جب وہ وفات پا کر مدفون ہوئے) تو میں نے خِرَد سے اُن کی رحلَت کا حِساب چاہا۔۔۔ اُس نے مجھ سے جواب میں کہا: "شَیخِ مومِنین"۔۔۔ (شیخِ مومنین = ۱۱۰۶ھ)
 

حسان خان

لائبریرین
به اُمّیدِ وِصالِ تو دِلم را شاد می‌دارم
(فخرالدین عِراقی)


‏‏میں تمہارے وصل کی اُمید سے اپنے دِل کو شاد رکھتا ہوں
 

حسان خان

لائبریرین
طاقتِ رفتنم نمی‌مانَد
چون نظر می‌کُنَم به رفتارش
(سعدی شیرازی)


جب میں اُس یار کے چلنے (یعنی اُس کے خِرام) پر نظر کرتا ہوں تو مجھ میں چلنے کی طاقت نہیں رہتی۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
زاہد برو از باغ کہ چوں مہرۂ تسبیح
از چشمِ بدَت دانۂ انگور شود خشک


غنی کاشمیری

اے زاہدِ خشک، باغ سے چلا جا کہ تسبیح کے دانوں کی طرح، تیرے بُری نظر لگنے سے، انگور کے دانے بھی خشک ہو جاتے ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
زاہد برو از باغ کہ چوں مہرۂ تسبیح
از چشمِ بدَت دانۂ انگور شود خشک


غنی کاشمیری

اے زاہدِ خشک، باغ سے چلا جا کہ تسبیح کے دانوں کی طرح، تیرے بُری نظر لگنے سے، انگور کے دانے بھی خشک ہو جاتے ہیں۔
بہت خوب :):)
 

حسان خان

لائبریرین
مُبتلایِ هِجرِ یارم، الغِیاث ای دوستان
از فِراقش سخت زارم، الغِیاث ای دوستان
(فخرالدین عِراقی)


میں مُبتَلائے ہِجرِ یار ہوں۔۔۔ فریاد! اے دوستو!۔۔۔ میں اُس یار کے فِراق کے باعث سخت زار و پریشان‌حال ہوں۔۔۔ فریاد! اے دوستو!۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
در جهان این شور و غَوغا از چه خاست
گر جمالِ خود به کس ننْموده‌ای
(فخرالدین عِراقی)


اے یار! اگر تم نے اپنا جمال کِسی شخص کو نہیں دِکھایا ہے، تو پھر دُنیا میں یہ شور و غَوغا اور یہ فِتنہ و آشوب کِس لیے اُٹھا ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
نِگارا، از وِصالِ خود مرا تا کَی جُدا داری؟
چو شادم می‌توانی داشت، غم‌گینم چرا داری؟
(فخرالدین عِراقی)


اے محبوب! تم اپنے وصل سے مجھ کو کب تک جُدا رکھو گے؟۔۔۔ جب تم مجھ کو شاد رکھ سکتے ہو تو پس مجھ کو غمگین کِس لیے رکھتے ہو؟۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ہر گُل از روئے تو یادم داد و آتش زد بہ دل
ایں ہمہ گُلہا کہ دیدم خار بُودے کاشکے


ہلالی چغتائی

ہر ایک پھول نے مجھے تیرے چہرے کی یاد دلا دی اور میرے دل میں آگ لگا دی، اے کاش کہ یہ سارے پھول جو میں نے دیکھے، پھول نہ ہوتے بلکہ کانٹے ہوتے۔
 
Top