ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہ معنث وہ مذکر مشکلیں اندر لغات
ہیں کوئی خواجہ سرائی لفظ اندر این لغات
علیشا رضوی

دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو میں لفظ خواجہ سرا بھی بطور مذکر استعمال ہوتا ہے۔ :) جیسا کہ حسان خان صاحب نے فرمایا اکثرالفاظ کی تجنیس کا دارومدار اہل زبان کے استعمال پر ہے ۔ آپ اردو نثر باقاعدگی سے پڑھتی رہئے ۔ انشاءاللہ اردو آپ سے زیادہ دور نہیں ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
رفتی از خویش وکف پائےکرا بوسیدی
ای دل پاک !!!!گناه تو خوشم می آید
تو از خود رفتگی میں کس کی پابوسی کرتا ہے ۔
اے مقدس دل ! تیرا یہ گناہ مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
(قطعه)
من موی خویش را نه از آن می‌کنم سیاه
تا باز نوجوان شوم و نو کنم گناه
چون جامه‌ها به وقتِ مصیبت سیه کنند
من موی از مصیبتِ پیری کنم سیاه
(رودکی سمرقندی)

میں اپنے بالوں کو اس لیے سیاہ نہیں کرتا کہ میں دوبارہ نوجوان ہو جاؤں اور پھر سے گناہ کرنا شروع کر دوں، (بلکہ) چونکہ پوشاکوں کو مصیبت کے وقت سیاہ کیا جاتا ہے، میں بالوں کو بڑھاپے کی مصیبت کے باعث سیاہ کرتا ہوں۔
میں دوستوں کی توجہ اس بات کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ ابوعبداللہ جعفر بن محمد رودکی سمرقندی کا انتقال ۳۲۹ ہجری میں یعنی آج سے گیارہ سو سال قبل ہوا تھا۔ لیکن چونکہ فارسی کی ادبی زبان میں تاریخی طور پر بہت کم تغیر واقع ہوا ہے، اس لیے اس گیارہ سو سالہ قدیم شعری قطعے کی زبان اور آج کی ادبی زبان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
رشتهٔ سُبحه که از گوهرِ اخلاص تهی‌ست
مُهره‌اش گرچه هزار است کم از زُنّار است

(عبدالرحمٰن جامی)
جو تسبیح کا دھاگا گوہرِ اخلاص سے تہی ہے، اُس میں خواہ ہزار دانے ہوں تو بھی وہ زُنّار سے کم تر ہے۔
 
آخری تدوین:
تو لاہوتی ز دل نالی، دل از تو :)

اسی غزل سے ایک اور شعر:
ز عقل و دل، دگر از من مپرسید
چو عشق آمد، کجا عقل و کجا دل

(ابوالقاسم لاهوتی)
مجھ سے اب عقل و دل کے بارے میں مت پوچھیے گا۔۔۔ جب عشق آ گیا تو عقل کہاں اور دل کہاں؟

از ما دگر حکایتِ عقل و خرد مپرس
چوں دادہ ایم دیں ز دست و اختیار ز کف
(خوشحال خان خٹک)
 

حسان خان

لائبریرین
(حمدیہ شعر)
کَی رسایی یابد اندر حضرتِ تو چون و چند
گرچه زین‌ها رونق است و گرمیِ بازارِ ما

(شاه نیاز بریلوی)
اگرچہ چون و چند سے ہمارے بازار کی رونق اور گرمی ہے، (تاہم) یہ تیرے دربار اور تیرے حضور میں کب رسائی پا سکتے ہیں؟

خیالِ دوست در دل آنچنان است
که عالم جمله از چشمم نهان است

(شاه نیاز بریلوی)
(میرے) دل میں دوست کا خیال اِس طرح ہے کہ کُل عالَم میری چشم سے نہاں ہے۔
 
آخری تدوین:
مُستَمِع چوں تشنہ و جویندہ شُد
واعظ اَر مُردہ بوَد گویندہ شُد


سُننے والا جب پیاسا اور طلبگار ہو، تو مُردہ (بے جان) واعظ بھی بولنے لگتا ہے۔

- رومی


اِس سے اقبال کا ایک شعر ذہن میں آتا ہے

خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تُجھ کو
سکوتِ لالہ و گُل سے کلام پیدا کر


- اقبال
 

حسان خان

لائبریرین
دلِ من روشن و مُقبِل ز چه شد؟ با تو بگویم
که در این آینهٔ دل رخِ زیبای تو دارم

(مولانا جلال‌الدین رومی)
میرا دل کس چیز سے روشن اور اقبال مند ہوا ہے؟ میں تمہیں بتاتا ہوں۔۔۔ کیونکہ میں اِس آئینۂ دل میں تمہارا رخِ زیبا رکھتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر که شد مقتولِ ابرویت حیاتِ خضر یافت
آبِ حیوان کشتهٔ تیغِ ترا درکار نیست

(نادر اکبرآبادی)
جو بھی تمہارے ابرو کا مقتول ہوا، وہ حیاتِ خضر پا گیا؛ تمہاری تیغ کے کُشتے کو آبِ حیات درکار نہیں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
گنج اگر یابد کسے، معمور گردد خانہ ای
گنجِ عشقِ اُو ہزاراں خانہ را ویرانہ کرد


اہلی شیرازی

اگر کسی کو خزانہ مل جائے تو اُس کا گھر آباد اور معمور ہو جاتا ہے، لیکن اُس کے عشق کے خزانے نے ہزاروں گھروں کو ویرانہ بنا دیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
غالب! به سخن گرچه کست همسر نیست
از نشهٔ هوش هیچت اندر سر نیست
مَی خواهی و مفت و نغز وانگه بسیار
این باده‌فروش ساقیِ کوثر نیست

(غالب دهلوی)
اے غالب! اگرچہ شاعری میں کوئی تیرا ہمسر نہیں، مگر عقل کا نشہ تیرے دماغ میں بالکل نہیں ہے؛ شراب چاہتا ہے اور وہ بھی مفت اور وہ بھی عمدہ، اور پھر کثرت سے! یہ بادہ فروش ہے ساقیِ کوثر نہیں کہ تیری سب خواہشیں پوری کر دے گا۔
(مترجم: الطاف حسین حالی)
 
Top