طالب سحر

محفلین
در دشتِ تحیّر جہتے نیست معیّن
ماراچہ ضروراست بدانیم کجایم


میرزا عبدالقادر بیدل دهلوی

تحیّر کے دشت میں کوئی سمت مقرر نہیں اور ہم پر ضرور نہیں کہ یہ جانیں کہ کہاں ہیں
 

حسان خان

لائبریرین
چندان که جهد بود دویدیم در طلب
کوشش چه سود چون نکند بخت یاوری

(سعدی شیرازی)
جس قدر (ہم میں) طاقت تھی ہم نے (یار کی) طلب میں بھاگ دوڑ کی، (لیکن) کوشش کا کیا فائدہ جب قسمت ہی یاوری نہ کرے۔
 

حسان خان

لائبریرین
چنان زهرِ فراقی ریختی در ساغرِ جانم
که مرگ از تلخیِ آن گِردِ جانِ من نمی‌گردد

(منسوب به کلیم کاشانی)
تم نے میرے ساغرِ جاں میں کوئی ایسا زہرِ فراق اُنڈیلا ہے کہ موت اُس کی تلخی کے سبب میری جان کے گِرد نہیں گھومتی۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
کدام کوہ نوردے کہ سر بسنگ نزد
کدام بادیہ گردے کہ خار در پا نیست


ابوالفیض فیضی دکنی

وہ کونسا کوہ نورد (فرہاد) ہے کہ جس نے (عشق میں) اپنا سر پتھر پر نہیں دے مارا؟ اور وہ کونسا بادیہ گرد (مجنوں) ہے کہ جس کے پاؤں میں کانٹے نہیں ہیں؟
 

حسان خان

لائبریرین
به جز هلاکِ خودش آرزو نباشد هیچ
کسی که یافت چو پروانه ذوقِ جان‌بازی

(اهلی شیرازی)
جس شخص نے پروانے کی طرح جاں بازی کا ذوق پا لیا اُسے اپنی فنا و نیستی کے بجز کوئی آرزو نہیں ہوتی۔
 

حسان خان

لائبریرین
چون کاغذِ آتش‌زده مهمانِ بقاییم
طاووسِ پرافشانِ چمن‌زارِ فناییم

(بیدل دهلوی)
ہم آتش زدہ کاغذ کی طرح بقا کے مہمان ہیں؛ ہم فنا کے چمن زار میں پر پھیلانے والے طاؤس ہیں۔
 
گدائے مے کدہ ام لیک وقتِ مستی بیں
کہ ناز بر فلک و حکم بر ستارہ کنم

(حافظ شیرازی)
میں شراب خانے کا فقیر ہوں لیکن مستی کے وقت دیکھ کہ فلک پر ناز اور ستارے پر حکم کرتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
ناز را روئے بباید ہمچو وَرد
چوں نداری گرد بدخوئی مگرد
ناز را رویی بباید همچو وَرد
چون نداری، گِردِ بدخویی مگرد

(حُسن پر) غرور کے لیے پھول جیسا کوئی چہرہ لازم ہے؛ جب تمہارے پاس (ایسا چہرہ) نہ ہو تو پھر بدمزاجی کے گِرد مت گھومو۔
میرے خیال سے شعر کا مفہوم واضح ہے اور کسی مزید تشریح کی ضرورت نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
یہ صنعتِ لف و نشر مرتب کی ذرا وضاحت فرمائیں کہ یہ کیا ہے۔
"نظم یا نثر میں چیزوں کا مفصل یا مجمل ذکر کرنا، اس کے بعد چند اور چیزوں کا ذکر کرنا جو بالترتیب یا بلا ترتیب پہلی چیزوں سے نسبت رکھتی ہوں.."
ماخذ
"صنعت لف و نشر سے مراد یہ ہے کہ کلام میں چند چیزوں کا ذکر کیا جائے اور پھر ان چیزوں کے مناسبات کو بغیر تعین کے بیان کیا جائے۔ لف کا لغوی مفہوم لپیٹنا اور نشر کا مطلب ہے پھیلانا۔ اس کی تین صورتیں ہیں۔ مرتّب، غیرمرتّب اور معکوس الترتیب۔ اگر ایک لف اور اُس کے بعد ترتیب سے نشر بیان کیا جائے یا ایک لف و نشر بیان کر کے اسی لف و نشر کو لف قرار دے کر اس کا نشر مذکور کریں تو یہ لف و نشر مرتّب ہو گا۔ لف و نشر غیرمرتّب میں مناسبات کی ترتیب کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ معکوس الترتیب میں ہر جز کی مناسبت کی ترتیب الٹی ہوتی ہے۔"
ماخذ
 

سید عمران

محفلین
ناز را رویی بباید همچو وَرد
چون نداری، گِردِ بدخویی مگرد

(حُسن پر) غرور کے لیے پھول جیسا کوئی چہرہ لازم ہے؛ جب تمہارے پاس (ایسا چہرہ) نہ ہو تو پھر بدمزاجی کے گِرد مت گھومو۔
میرے خیال سے شعر کا مفہوم واضح ہے اور کسی مزید تشریح کی ضرورت نہیں ہے۔
بہت نوازش حسان صاحب۔
 

حسان خان

لائبریرین
غبارم در عدم هم گر هوایی دارد این دارد
که بر گِردِ سرِ او گردم و بر خود کنم نازی
(بیدل دهلوی)

میرے غبار کو اگر عدم میں بھی کوئی آرزو ہے تو یہی ہے کہ اُس کے سر کے گِرد طواف کروں اور خود پر ایک ناز کروں۔

ندانم ماجرای کاف و نون کَی منقطع گردد
درین کهسار عمری شد که پیچیده‌ست آوازی
(بیدل دهلوی)

میں نہیں جانتا کہ کاف و نون (کُن) کا ماجرا کب منقطع ہو گا۔۔۔۔ ایک عمر ہو گئی کہ اِس کہسار میں ایک آواز گونجی ہوئی ہے۔

بیدل کا شعر پڑھ کر ذہن میں اقبال کا یہ شعر آیا ہے:
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
وہم خاکے ریخت در چشمم، بیاباں دیدمش
قطرۂ بگداخت، بحرِ بیکراں نامیدمش


مرزا غالب دہلوی

وہم نے میری آنکھوں میں خاک ڈال دی تو وہ خاک مجھے بیاباں بن کر نظر آئی، ایک قطرہ تھا جو پگھل گیا اور میں نے اسے بحرِ بیکراں کا نام دے دیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
دَر عشق غُنچہ ایم کہ لرزَد ز بادِ صُبح
در کارِ زندگی صِفَتِ سنگِ خارہ ایم


عشق میں ہم ایک غنچہ (کی مانند) ہیں کہ نسیمِ صبح سے (بھی) لرزتے ہیں اور کارِ زندگی میں (انتہائی) سخت پتھر کی مانند!

(شاعر نا معلوم)

آج اتفاقاً اس شعر پر نظر پڑی تو سب سے پہلے میرے ذہن میں اقبال کا یہ شعر آیا کہ اسی شعر کا پرتو ہے!

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
یہ فارسی شعر اقبال ہی کا ہے۔ :)
http://ganjoor.net/iqbal/payam-mashregh/sh254/
 

حسان خان

لائبریرین
صورتِ این انجمن گر محو شد پروا کِراست
خامهٔ نقاشِ ما نقشِ دگر خواهد نمود

(بیدل دهلوی)
اگر اِس انجمن کی صورت محو ہو گئی تو کسے پروا ہے؟ ہمارے نقاش کا خامہ ایک دیگر نقش نمودار کر دے گا۔
 
حافظ شیرازی کی ایک خوبصورت غزل پیشِ خدمت ہے۔

ہنگامِ نوبہار گل از بوستاں جدا
یارب مباد ہیچ کس از دوستاں جدا
نوبہار کے وقت پھول چمن سے جدا ہوا۔اے خدا ایسا کبھی نہ ہو کہ اور کوئی بھی دوستوں سے جدا ہو۔
بلبل بنالہ در چمن آمد بہ صبح دم
از وصلِ گل ہمے شدہ اندر خزاں جدا
خزاں کے موسم میں صبح کے وقت بلبل پھول کے وصل سے جدا ہوکر فریاد کرتی ہوئی آئی۔
دنیاست باغِ کہنہ و انساں چو نو گلند
ہر یک ز شاخِ عمر کند باغباں جدا

دنیا پرانا باغ ہے اور انسان ایک نئے پھول ہیں۔۔ہر ایک کو باغبان عمر کی شاخ سے جدا کردیتا ہے۔
افسوس کیں حیاتِ جہاں رایگاں گذشت
افسوسِ دیگر آں کہ شود تن ز جاں جدا

افسوس کہ یہ دنیا کی زندگی رائگاں گذرگئی۔دوسرا یہ افسوس ہے کہ جسم جان سے جدا ہوگیا۔
بسیار خفتہ اند دریں خاک سیم تن
شاہان و نوعروس بسے از جہاں جدا

بہت سے چاندی کے جسم والے بادشاہ اور دولہا دنیا سے بہت دور اس خاک میں سوئے ہوئے ہیں۔
ہشدار و پائے بر سرِ ایں مردگاں مَنِہ
تنہا بخاک خفتہ و از خانماں جدا

ہوش میں رہ اور ان مُردوں کے سر پر پیر مت رکھ،جو گھر سے دور،تنہا خاک میں سوئے ہوئے ہیں۔
ترکِ ہوا و حرص بکن حافظا کنوں
بہرِ وصالِ دوست شو از این و آں جدا
اے حافظ! اب ہوا و حرص کو چھوڑدے۔دوست کے وصال کے لئے اِس سے اور اُس سے جدا ہوجا۔
 

حسان خان

لائبریرین
یادِ آزادی‌ست گلزارِ اسیرانِ قفس
زندگی گر عشرتی دارد امیدِ مردن است
(بیدل دهلوی)

آزادی کی یاد اسیرانِ قفس کا گلزار ہے؛ زندگی اگر کوئی عشرت رکھتی ہے تو وہ مرنے کی امید ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خواہی کہ دگر حیات یابم
یکبار بگو کہ "کشتۂ ماست"


شیخ سعدی شیرازی

اگر تُو چاہے کہ مجھے دوسری بار زندگی مل جائے تو بس ایک بار کہہ دے کہ "یہ ہمارا مارا ہوا ہے"۔
 
Top