توتیائے چشم سازم خاکپائے نقشبند
تابیابم سر حق از لطف سائے نقشبند
روبدرگاہ بہاؤ الدین نظر کن زانکہ ہست
نہ فلک مانند درباں در سرائے نقشبند
مشکلات ماہمہ ہرگز نیاید در عدد
المدد یا خواجہ مشکلکشائے نقشبند


میں تو شاہِ نقشبند (رح) کی خاکِ پا کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناتا ہوں۔ اس عمل کا فائدہ یہ ہو گا کہ الله کریم کے اسرار حضرت خواجہ نقشبند (رح) کے لطف و کرم سے پا لوں گا۔ اے مخاطب! تو جا کر درگاہِ خواجہ بہاؤ الدین نقشبند (رح) کی زیارت کر، تجھے پتا چل جائے گا کہ نو آسمان نقشبند کے در اقدس پر دربان بنے ہوئے ہیں۔ ہماری مشکلات تو شمار سے باہر ہیں۔ (اے بندہ نواز خواجہ) شاہِ نقشبند (رح) آپ مشکل کشا ہیں مدد فرما کر ان ساری مشکلات کو دور فرما دیجئے۔

(خواجہ حافظ شیرازی)
یہ حافظ شیرازی کے دیوان میں موجود نہیں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مَبیں بچشمِ حقارت بہ خونِ دیدۂ ما
کہ آبروئے صراحی بہ اشکِ خونیں است


رھی معیری

ہماری آنکھوں کے لہو کو حقارت بھری نظروں سے مت دیکھ کہ صراحی (اور جام اور میکدے) کی آبرو (انہی) خونی اشکوں سے (قائم) ہے۔
 
ہر کہ را گفتار بسیارش بود
دل درونِ سینہ بیمارش بود


جو شخص زیادہ بولتا ہے، اس کا سینہ میں رہنے والا دل مردہ ہو جاتا ہے۔

عاقلاں را پیشہ خاموشی بود
پیشہِ جاہل فراموشی بود


عقل مندوں کا طریقہ خاموش رہنا ہے، جاہلوں کا طریقہ بھول جانا ہے۔

آنکہ سعی اندر فصاحت می کند
چہرہِ دل را جراہت می کند


جو زیادہ بولنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے، دل کے چہرے کو زخمی کر لیتا ہے۔

(شیخ فرید الدین عطار)
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
جامی بخواب دید کہ مہ در کنارِ اُوست
تعبیرِ خواب عاشقِ بے خواب را بپرس


مولانا عبدالرحمٰن جامی

جامی نے خواب میں دیکھا کہ چاند اُس کے پہلو میں ہے، اِس خواب کی تعبیر کسی اُس عاشق سے پوچھ جس کی قسمت میں نیند (اور خواب) نہیں۔
 
رباعی از حضرت ابو سعید ابو الخیر

از بار گنہ شد تن مسکینم پست
یا رب چہ شود اگر مراگیری دست
گر در عملم آنچہ ترا شاید نیست
اندر کرمت انچہ مرا باید نیست

منظوم ترجمہ از حامد حسن قادری

تیر ہوس و ہوا کا آماج ہوں میں
یا رب مددے کہ بے نوا آج ہوں میں
مجھ میں وہ عمل نہیں جو لائق ہو ترے
تجھ میں وہ کرم ہے جسکا محتاج ہوں میں
 
آخری تدوین:
رباعی ازحضرت ابو سعید ابو الخیر

گر دور فتادم از وصالت بضرور
دارد دلم از یادِ تو صد نوعِ حضور
خاصیتِ سایہ تو دارم اگرچہ می افتم
نزدیک تو ام اگرچہ می افتم دور

منظوم ترجمہ از حامد حسن قادری

گو دور ہوں، رنجور ہوں، مجبور ہوں میں
ہر وقت تیری یاد میں مسرور ہوں میں
خاصیتِ سایہ آ گئی ہے مجھ میں
ہوں پاس ہی گو پڑا ہوا دور ہوں میں
 
رباعی
بختی نه که با دوست در آمیزم من
صبری نه که از عشق بپرهیزم من
دستی نه که با قضا در آویزم من
پایی نه که از دست تو بگریزم من

(حضرت ابو سعید ابو الخیر)
نصیبا جو دوست سے نہ ملے وہ میرا ہے۔ جو عشق کی تکلیف سے پرہیز نہ کرے وہ صبر میرا ہے۔ہاتھ جو قضا سے نہ لٹکے وہ میرا ہے۔ پائوں جو جنگ سے نہ بھاگے میرا ہے۔
 
آخری تدوین:
به که گویم غمِ دل؟ پیشِ که بگشایم راز
یارِ هرکس که شدم، از غمِ من بی خبر است .
(فضولی بغدادی)

میں اپنا غمِ دل کسے کہوں؟ کس کے سامنے افشائے راز کروں۔جس کا بھی میں دوست ہوا، میرے غم سے بےخبر ہے
 
آخری تدوین:
کمال گر طلبی در مقامِ عشق طلب
که فیضِ عشق ز علم و ز عقل بیشتر است
(فضولی بغدادی)

اگر تو کمال کا خواہاں ہے تو مقامِ عشق میں طلب کر کہ فیضِ عشق علم و عقل(کے فیض) سے زیادہ ہے
 
نیست در عالم مقامی خوشتر از خاكِ نجف
آری! آری! آن مقامِ مقتدای عالم است
دامن ِپاكِ علی موجی است از دریای فیض
فیضِ دریای علی مانندِ پای مدغم است
تا بود دل را تمیزِ اعتبارِ نیک و بد،
تا زبان را قدرتِ گفتار در مدح و ذم است ،
باد وردش هر زمان ذکرِ امیرالمؤمنین
زان که ذکر او جراحت های دل را مرهم است
(فضولی بغدادی)

دنیا میں خاکِ نجف(جائے آرامِ حضرت علی کرم اللہ وجہہ) سے زیادہ خوش تر مقام نہیں ہے۔ہاں ہاں! وہ دنیا کے پیش رو کا مقام ہے۔حضرت علیؑ کا دامنِ پاک دریائے فیض کی ایک لہر ہے،حضرت علیؑ کا دریائے فیض پائے مدغم کی مانند ہے۔جب تک دل کو نیک و بد کی قدر و منزلت کی تمیز ہے (اور) جب تک زبان کو ستائش و مذمت میں قدرتِ گفتار ہے، امیر المومنین حضرت علیؑ کا ذکر ہر وقت اس کا ورد رہے اس لئے کہ ان کا ذکر زخم ہائے دل کا مرہم ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
در شیوہ ہائے عشق نَیَم کمتر از کسے
لافِ وفا نمی زنم ایں خود فنِ من است


نورالدین ظہوری ترشیزی

عشق کے طور طریقوں اور روشوں اور قاعدوں میں میں کسی سے بھی کم نہیں ہوں، لیکن میں وفا کی ڈینگیں نہیں مارتا (خود ستائی نہیں کرتا) اور یہ میرا اپنا ہی فن ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
به یک ساغر کند سرخوش گر آن شوخِ چِگِل ما را
به چینِ زلفِ هندویش دهم تاتار و یغما را
(واصل کابلی)

اگر وہ ترکستانی شوخ ایک ساغر سے ہمیں سرخوش و سرمست کر دے تو میں اُس کی سیاہ زلف کی شکن کے عوض تاتار و یغما کے علاقے بخش دوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
جامی بخواب دید کہ مہ در کنارِ اُوست
تعبیرِ خواب عاشقِ بے خواب را بپرس


مولانا عبدالرحمٰن جامی

جامی نے خواب میں دیکھا کہ چاند اُس کے پہلو میں ہے، اِس خواب کی تعبیر کسی اُس عاشق سے پوچھ جس کی قسمت میں نیند (اور خواب) نہیں۔
جس سے کوئی چیز پوچھی جا رہی ہو اُس کے لیے فارسی میں عموماً 'را' نہیں آتا، بلکہ جو چیز پوچھی جا رہی ہو اُس کے لیے 'را' آتا ہے۔ یعنی فارسی میں عام طور پر محاورہ یہ ہے: 'چیزی را از کسی پرسیدن'۔
لہٰذا، میری رائے یہ ہے کہ مصرعِ ثانی میں خواب اور عاشق کے مابین بھی اضافت آنی چاہیے اور مصرعِ مذکور کا ترجمہ یہ ہونا چاہیے:
عاشقِ بے خواب کے خواب کی تعبیر پوچھو۔


اِس غزلِ مسلسل کے دو ایسے ہی اشعار دیکھیے:

از ما که کرده‌ایم چو دریا ز گریه چشم
آن دُرِّ ناب و گوهرِ نایاب را بپرس
-----
جان کز تنم رمید ز نوشین لبش بجوی
از حالِ طوطی آن شَکَرِ ناب را بپرس
 
آخری تدوین:

لاریب مرزا

محفلین
به که گویم غمِ دل؟ پیشِ که بگشایم راز
یارِ هرکس که شدم، از غمِ من بی خبر است .
(فضولی بغدادی)

میں اپنا غمِ دل کسے کہوں؟ کس کے سامنے افشائے راز کروں۔جس کا بھی میں دوست ہوا، میرے غم سے بےخبر ہے
بہت خوب!!
 

حسان خان

لائبریرین
رباعی
بختی نه که با دوست در آمیزم من
صبری نه که از عشق بپرهیزم من
دستی نه که با قضا در آویزم من
پایی نه که از دست تو بگریزم من

(حضرت ابو سعید ابو الخیر)
نصیبا جو دوست سے نہ ملے وہ میرا ہے۔ جو عشق کی تکلیف سے پرہیز نہ کرے وہ صبر میرا ہے۔ہاتھ جو قضا سے نہ لٹکے وہ میرا ہے۔ پائوں جو جنگ سے نہ بھاگے میرا ہے۔
میری نظر میں بہتر ترجمہ یہ ہے:
نہ میرا بخت ایسا ہے کہ میں دوست سے واصل ہو جاؤں؛ نہ مجھ میں ایسا صبر ہے کہ عشق سے پرہیز کروں؛ نہ میرا دست ایسا ہے کہ قضا کے ساتھ الجھ سکوں؛ اور نہ میرے پاس ایسا پاؤں ہے کہ تم سے فرار کر جاؤں۔
 

حسان خان

لائبریرین
نه جادویی چو چشمِ اوست در بنگاله و بابِل
نه طرّاری چو زلفِ اوست خارَزم و بخارا را
(واصل کابلی)

نہ اُس کی چشم جیسا کوئی جادوگر بنگال و بابِل میں ہے، اور نہ اُس کی زلف جیسا کوئی چور خوارَزم و بخارا میں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
"مرگ را بیهوده کاهش می‌کنند،
برعبث از دستِ او فریاد و نالش می‌کنند.
جرمِ او نیست!
جرم جرمِ زندگی‌ست!
زندگی از روزِ زادن تا به بعد
مردنِ پَی در پَی است.
مرگ بر آن نقطهٔ تمّت گُذارَد."
(لایق شیرعلی)

"موت کی بلاوجہ سرزنش کرتے ہیں،
فضول میں اُس کے ہاتھوں فریاد و نالش کرتے ہیں۔
اُس کا جرم نہیں ہے!
جرم زندگی کا جرم ہے!
زندگی متولّد ہونے کے روز سے تا بہ بعد
پے در پے مرنا ہے۔
موت اُس پر نقطۂ تمّت لگاتی ہے۔"
 
آخری تدوین:
به انگشتِ عصا هردم اشارت می کند پیری
که مرگ این جاست یا این جاست یا این جاست یا این جا
(بیدل دهلوی)

عصا کی انگلی سے ہر دم بوڑھا یہ اشارہ کرتا ہے۔
کہ موت اس جگہ ہےیا ادھر ہے یا ادھر ہےہا ادھر

مترجم: عین بیخود
 
Top