بدن واماند و جانم درتگ و پوست
سوئے شہرے کہ بطحا در رہِ اوست
تو باش اینجا و با خاصاں بیا میز
کہ من دارم ہوائے منزلِ دوست


(علامہ محمد اقبال ۔۔۔ ارمغانِ حجاز)


میرا جسم تھک گیا اور میری روح اس شہر کی طرف بھاگ دوڑ کر رہی ہے‘ جس کے راستے میں بطحا یعنی مکّہ آتا ہے۔ تو یہاں مکّہ میں اپنے خاص بندوں کے ساتھ مل بیٹھ میں اپنے محبوبؐ کی منزل ( مدینہ) کی آرزو رکھتا ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
من بودم و کنجے و حریفے و سرودے
غم را کہ نشاں داد؟ بلا را کہ خبر کرد


امیر حسن سجزی دہلوی

میں تھا، گوشۂ تنہائی تھا، محبوب تھا، سرود و سماع تھا، پھر کس نے غم کو میرا پتا بتا دیا؟ بلاؤں کو کس نے خبر کر دی؟
 
کسی دیوانه باشد کز سر کویت رود جایی
دل اینجا ,دولت اینجا, مدعی اینجا, امید اینجا
(عالم شیرازی)

کوئی ہی ہوگا جو تیرے کوچے سے کہیں چلاجائے۔دل ادھر(تیرے کوچے میں ہے)،دولت ادھر،مدعاادھر،امید ادھر۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
ای سروِ سهی ماهِ تمامت خوانم
یا کبکِ دریِ خوش‌خرامت خوانم
زین هر سه بگو که تا کدامت خوانم
کز رشک نخواهم که به نامت خوانم
(عین‌القُضات همدانی)

اے سروِ سہی، میں تمہیں ماہِ تمام پکاروں، یا تمہیں خوش خرام کبکِ دری پکاروں، اِن تینوں میں سے کہو میں تمہیں کیا پکاروں، کہ رشک کے باعث میں نہیں چاہتا کہ تمہیں نام سے پکاروں۔
× کَبْک/کَبْکِ دری = کوہساروں میں زندگی بسر کرنے والا ایک خوش خرام پرندہ
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
غیرت نگُذارد که بگویم که مرا کُشت
تا خلق ندانند که معشوقه چه نام است
(سعدی شیرازی)

غیرت اجازت نہیں دیتی کہ میں بتاؤں کہ مجھے کس نے قتل کیا ہے، تاکہ مردُم کو معلوم نہ ہو کہ [میری] معشوقہ کا کیا نام ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
شاعران جان در تنِ مضمونِ رنگین کرده‌اند
انتخابِ شعر کردن، شاعر احیا کردن است
(تأثیر تبریزی)

شاعروں نے [اپنی] جان مضمونِ رنگین کے تن میں ڈال دی ہے؛ شعر کا انتخاب کرنا، شاعر کو احیاء کرنے [جیسا] ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
دیده از دیدارِ خوبان برگرفتن مشکل است
هر که ما را این نصیحت می‌کند بی‌حاصل است
(سعدی شیرازی)

خُوبوں کے دیدار سے چشم بند کرنا اور صرفِ نظر کرنا مشکل ہے؛ جو شخص بھی ہمیں یہ نصیحت کرتا ہے، بے حاصل ہے۔
 
جلوہ مستانہ کر دی دور ایام بہار
شد نسیم و بلبل و نہر و گلزار مست


(بو علی قلندر)


تو نے بہار کے دنوں میں اپنا جلوہ مستانہ دکھایا
جس کی وجہ سے ہوا و بلبل ، نہر و باغ سبھی مست ہو گئے۔
 
اندر دل او گاؤ خر و ذکر بلبہا
قاضی بتصور کہ ہمین حق نماز است


(بو علی قلندر)

دل میں گائے اور گدھا ہے اور لبوں پر ترا ذکر ہے
قاضی اپنے خیال میں اسی کو نماز حق سمجھتا ہے!
 

حسان خان

لائبریرین
خواهم که کنم تازه‌تر، از بوسه رُخانت
آن‌گونه که بارانِ سحر بر چمن اُفتد
(فریدون تولّلی)

میں چاہتا ہوں کہ بوسے سے تمہارے رخساروں کو اُس طرح تازہ تر کر دوں جس طرح بارانِ صبح چمن پر گر کر اُسے تازہ تر کر دیتی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اِمروز روئے یار بسے خوبتر از دیست
اِمسال کارِ من بتر از پار بنگرید


شیخ سعدی شیرازی

آج کے دن میرے محبوب کا چہرہ کل کے مقابلے میں بہت زیادہ خوبصورت (لگ رہا) ہے، اِس سال میرا حال پچھلے سال کے مقابلے میں اور بھی زیادہ خراب دیکھنا۔
 
از چشم خود بپرس که ما را که می‌کشد
جانا گناه طالع و جرم ستاره نیست

(حافظ شیرازی)


اپنی آنکھ سے پوچھ کہ ہمیں کون قتل کر رہا ہے؟ میری جان یہ نصیبہ کی خطا یا ستارے کا جرم نہیں (بلکہ تیری آنکھ کا ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
ندیده‌ام رخِ خوبِ تو، روزکی چند است
بیا، که دیده به دیدارت آرزومند است
(شیخ فخرالدین عراقی)

چند روز ہو گئے ہیں کہ میں نے تمہارا چہرۂ خوب نہیں دیکھا ہے؛ آ جاؤ، کہ [میری] چشم تمہارے دیدار کی آرزومند ہے۔
 
کفر و ایمان از نشان زلف و رخسار ویست
زان نشان روز و شب در کفر و در ایمان بماند
(سنایی غزنوی)

کفر و ایمان اس کے زلف و رخسار کے نشان سے (متعلق)ہے۔ اسی نشان سے روز و شب کفر اور ایمان میں رہتے تھے۔
 
ما به عهد حسن تو ترک دل و جان گفته‌ایم
با رخ و زلف تو شرح کفر و ایمان گفته‌ایم
(عطار نیشاپوری)

ہم تیرے حسن کے عہد میں دل و جاں ترک کرچکے ہیں۔تیرے رخ و زلف سے ہم نے کفر و ایمان کی شرح کہی ہے۔
 
کرد فارغ گلِ رویت ز گلستان ما را
کفرِ زلف تو برآورد ز ایمان ما را
(عبیدزاکانی)

تیرے چہرے کے گُل نے ہمیں گلستان سے فارغ کردیا۔تیرے زلف کے کُفر نے ہمیں ایمان سے خارج کردیا۔
 
جهان بی عشق چیزی نیست جز تکرارِ یک تکرار
اگر جایی به حالِ خویش باید گریه کرد اینجاست
(فاضل نظری)
عشق کے بغیر دنیا کچھ بھی نہیں بجز ایک تکرار کی تکرار کے ،(وہ تکرار یہ ہے کہ) کہ اگر کسی جگہ گریہ کرنا چاہیے تو وہ یہاں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
جهان بی عشق چیزی نیست جز تکرارِ یک تکرار
اگر جایی به حالِ خویش باید گریه کرد اینجاست
(فاضل نظری)
عشق کے بغیر دنیا کچھ بھی نہیں بجز ایک تکرار کی تکرار کے ،(وہ تکرار یہ ہے کہ) کہ اگر کسی جگہ گریہ کرنا چاہیے تو وہ یہاں ہے۔
ترجمے میں 'بہ حالِ خویش' کا مفہوم نہیں آیا ہے۔ یعنی ترجمہ اگر یوں ہو تو بہتر ہے:
۔۔۔اگر کسی جگہ اپنے حال پر گریہ کرنا چاہیے تو۔۔۔
 
عشق بازی را چه خوش فرهادِ مسکین کرد و رفت
جانِ شيرين را فدای جانِ شيرين کرد و رفت
(فرخی یزدی)

عشق بازی کو فرہادِ مسکین نے کیسے بخوبی انجام دیا اور چلاگیا۔اپنی شیریں جان کو شیریں کی جان پر فدا کیا اور چلاگیا۔
 
Top