ذرا غور کریں الفاظ کی شکلیں سیم نہیں ہیں، فی کا نقطہ چیک کریں ہر جگہ مختلف ہے۔ یا تو ان کو ٹائپ رائٹر وغیرہ سے مینولی ٹائپ کیا گیا ہے اور نقاط صفحہ ایڈجسٹ کر کے الگ لگائے گئے ۔ کچھ الفاظ لگیچرز ہیں وہ بھی مکمل نہیں بلکہ مختلف طرز کے اور بعض جگہ و کو ہی دو حصوں میں کاٹ کر لکھا گیا جس کی لاجک سمجھ نہیں آتی یا شاید سیاہی مٹ گئی۔ پھر الفاظ کی کمپوزیشن تو ساری مینول ہے ۔۔۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ لکھا کس چیز سے گیا ہے؟ ٹائپ رائٹر یا کمپیوٹر؟
بھائی، ۱۸۵۵ء میں بھلا کون سا کمپیوٹر ہوا کرتا تھا؟
یہ تصویر دیکھیے (
ویکیمیڈیا کامنز سے) :
یہ ایک ’
sort‘ یا ’
type‘ کا خاکہ ہے۔ یہ سورٹس یا ٹائپس عموماً دھات کے ہوتے ہیں (چنانچہ ’دھاتی ٹائپ‘ یا ’
metal type‘)۔ دو مزید تصاویر دیکھیے:
(ویکیمیڈیا کامنز سے)
(ویکیمیڈیا کامنز سے)
کسی بھی ٹائپفیس کی اشکال کو دھاتی ٹائپ کے انہی ٹکڑوں کی صورت میں مختلف پوائنٹ سائزز میں کاٹ کر محفوظ کر لیا جاتا تھا، اور ہر پوائنٹ سائز کی کلیکشن کو ’فونٹ‘ کہا جاتا تھا۔
مثلاً، ذیل کی تصویر بلیکفرایرز ٹائپ فونڈری کے ’بولڈ لیٹِن سیریز‘ ٹائپفیس کے ۲۷ پوائنٹ فونٹ کی ہے:
’ٹائپ‘ کے انہی ٹکڑوں کو آپس میں ’سیٹ‘ کر کے ان سے الفاظ، الفاظ سے سطریں، اور سطروں سے صفحہ بنایا جاتا تھا (’ٹائپسیٹنگ‘ کی وجۂ تسمیہ یہی ہے)۔ ایک مثال یہ رہی، جس میں ’کمپوزنگ سِٹک‘ پر ٹائپ کو سیٹ کیا جا رہا ہے:
اور ایک مکمل صفحہ کچھ یوں ہوا کرتا تھا:
پرنٹنگ پریس میں اِسی صفحے کو داخل کر کے اس پر روشنائی لگائی جاتی تھی، اور پھر اُسے کاغذ کے ساتھ پریس کر کے پرنٹنگ کی جاتی تھی (’
لیٹرپریس پرنٹنگ‘)۔
اب آتے ہیں بولاق پریس کی جانب۔
بولاق پریس نے بھی اپنی مطبوعات کے لیے عربی خط کے دھاتی ٹائپ کے فونٹس تیار کیے تھے۔ میرے پچھلے مراسلے میں ٹائپوفائل کا ربط دیکھیے: وہاں دو تصاویر موجود ہیں جن میں بولاق پریس کے نسخ اور نستعلیق فونٹس کے نمونے دکھائے گئے ہیں۔
عربی خط کے دھاتی ٹائپس کی تصاویر ٹوئٹر پر وقتاً فوقتاً دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں۔ کچھ مثالیں:
اور
ویکیپیڈیا پر بولاق پریس کے بلاکس کی یہ تصویر (یہ بلاکس دھات کی بجائے لکڑی کے ہیں):
سو اوپر موجود دیوانِ ابنِ عربی (اور دیگر کتب جن کے روابط میں نے دیے ہیں) بولاق پریس نے دھاتی ٹائپ کے ذریعے ہی شائع کی تھیں۔ رہا سوال ان کے کیلیگرافی یا ٹائپوگرافی ہونے کا، تو یہ ٹائپوگرافی ہی ہے؛ ٹائپوگرافی کی تعریف یہ ہے کہ حروف کی پہلے سے تیارکردہ اشکال (دھاتی ٹائپ، یا آجکل ڈیجیٹل گلفس) کو کسی فونٹ (چاہے دھاتی یا ڈیجیٹل) میں محفوظ کر لیا جائے، اور پھر ان اشکال کو بار بار کسی بھی کمبینیشن میں استعمال کیا جائے۔ دھاتی ٹائپسیٹنگ ہاتھ سے ہی کی جاتی تھی (جسے بعد میں
لائنوٹائپ مشین نے آٹومیٹ کیا)، اور بولاق پریس کے ٹائپسیٹرز یقیناً خطاطی کا علم بھی رکھتے تھے، ورنہ اتنی خوبصورت ٹائپسیٹنگ نہ کر پاتے۔