دوسری طرف ایک غزل تھی۔ آج تقریباً 50 سال بعد بھی اس کے دو شعر من و عن یاد ہیں:
گلشن گلشن دام بہت ہیں
اب یہ منظر عام بہت ہیں
مے خانے آباد ہیں دل کے
ٹوٹے پھوٹے جام بہت ہیں
۔۔۔ شاعر کا نام مت پوچھئے گا۔ تب اتنا شعور ہی نہیں تھا کہ شاعر کا نام کتنا اہم ہوتا ہے۔
ایک مزے دار واقعہ ہمیں بھی یاد ہے جو ہماری پہلی نوکری کے زمانے کا ہے۔ اس وقت ہم کراچی میں ٹرینی انجینئر کے طور پر کام کررہے تھے۔ ہمارے ایک ساتھی ٹرینی انجینئر کو کسی کام سے اندرونِ سندھ کے ایک ہسپتال بھیجا گیا۔ رخصت کرتے ہوئے ہمارے باس نے انھیں ایک بل کی رقم کا کراسڈچیک بھی وصول کرکے ساتھ لانے کے لیے کہا۔ ہمارے بھولے دوست نے ہامی بھرلی۔کام ختم کرکے جب وہ وہاں سے واپس چلنے لگے تو انھوں نے رقم کے چیک کا مطالبہ کیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ ہمیں رقم کا کراسڈ چیک چاہیے۔اب چیک تیار کرتے وقت مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ کسی کو کراسڈ چیک بنانا نہیں آتا تھا۔ مآلِ کار چیک بنایا گیا اور اس پر ایک بہت بڑا کراس لگا کر ہمارے انجینئر کو دے دیا گیا جو خوشی خوشی اس چیک کو لے کر دفتر پہنچے۔
اب للہ مت پوچھیے کہ دفتر میں ان کے ساتھ کیا ہوا۔
۔۔۔ پانچ سو روپے میں بوری بھر گاجریں!!!! ؟ اور وہ بھی گدھا ریڑھی پر؟۔۔۔واقعات تو بہت سے ہیں۔لیکن میں دو واقعات سنانا چاہوں گا ۔
میری ایک خالہ فیصل آباد رہتی ہیں۔انہوں نے اپنے بیٹے کو ٹماٹر لینے بھیجا اور ساتھ کہا کہ دھنیا ضرور لے کے آنا ۔میرا وہ کزن کافی دیر بعد واپس تو خالی ہاتھ تھا۔خالہ نے پوچھا کہ ٹماٹر نہیں لاے ۔کہنے لگا آپ نے خود کہا تھا کہ دھنیا ضرور لانا تو دھنیا نہیں ملا ۔اس لیے میں ٹماٹر بھی نہیں لایا ۔
اس طرح کا ایک اور واقعہ میری شیخوپورہ والی خالہ کے ساتھ بھی پیش آیا انہوں نے اپنے بیٹے کو 500 کا نوٹ دے کر کہا کہ جاو گاجریں لے آو حلوہ بنانا ہے وہ کافی دیر بعد واپس آیا اور دروازہ کھٹکھٹایا ۔دروازہ کھولا تو سامنے عجیب منطر تھا اس نے گدھا ریڑھی پر بوری لادی ہویی تھی میری خالہ دیکھ کر بہت ہنسی اور محلے میں بانٹ کر گاجریں ختم کیں۔
ملے جُلے آنسو
ابھی کوئی گھنٹہ بھر پہلے کی بات ہے۔ بہو نے کہا: ابو جی، کھانا لگا دیا ہے۔ لاؤنج میں ایک چھوٹی سی میز پر میرا اکیلے کا کھانا لگا ہوا تھا۔ میں بیٹھنے ہی والا تھا کہ برآمدے میں چھوٹے دونوں (پوتا: عبدالباسط، اور پوتی: وَردَہ) بیٹھے دکھائی دئے۔ وردہ چھوٹی ہے، دونوں کی عمروں میں یہی کوئی پندرہ دن کا فرق ہے (دونوں گزشتہ برس اگست میں پیدا ہوئے)۔
منظر کچھ یوں ہے۔
عبدالباسط زمین پر آلتی پالتی مارے بیٹھا ہے، اس کی گود میں بڑی بہن (مدیحہ) کی پکچر بُک رکھی ہے، ایک ایک تصویر پر انگلی رکھتا ہے
اور بہت جوشیلے انداز میں کچھ کہتا جاتا ہے۔ وَردَہ اس کے پاس خاموش بیٹھی پورے انہماک سے پکچر بُک کو دیکھ رہی ہے
اور گاہے گاہے عبدالباسط کے چہرے کی طرف دیکھ لیتی ہے،
جیسے کوئی ہونہار شاگرد کوئی مشکل سوال سمجھ رہا ہو۔
چھوٹی بہو (عبدالباسط کی ماں) کچن کی جالی سے بچوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہی ہے۔
یہ منظر دیکھ کر میرا تشکر دل کو لبریز کرکے آنکھوں سے بہہ نکلتا ہے۔ بڑی بہو (وردہ کی ماں) پانی لے کر آتی ہے، میں اُس کی توجہ بچوں کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں مگر الفاظ میرا ساتھ نہیں دیتے۔ بہو کی نظریں میری انگلی کے اشارہ کے پیچھے ’’ننھے استاد شاگرد‘‘ پر مرکوز ہو جاتی ہیں۔
’’آج اِن کی دادی زندہ ہوتی تو اس کے ماتھے کی دمک اور آنکھوں کی چمک کس قدر جاں فزا ہوتی! ‘‘ اس خیال کے ساتھ ہی میرے آنسووں کی نوعیت بدل جاتی ہے۔
مدیحہ گیلانی
صدائے رفتگاں پھر دل سے گزری’’آج اِن کی دادی زندہ ہوتی تو اس کے ماتھے کی دمک اور آنکھوں کی چمک کس قدر جاں فزا ہوتی! ‘‘ اس خیال کے ساتھ ہی میرے آنسووں کی نوعیت بدل جاتی ہے۔
مدیحہ گیلانی
واردات قلب کو الفاظ کا روپ دینا بہت دشوار کام ہے اور اس کے لئے انتہا درجے کا رقیق القلب ہونا درکار ہے۔
جو منظر کشی آپ نے کی ہے میں نے چشم تصور میں گویا خود دیکھا یقین کریں آنسو نکل آئےملے جُلے آنسو
ابھی کوئی گھنٹہ بھر پہلے کی بات ہے۔ بہو نے کہا: ابو جی، کھانا لگا دیا ہے۔ لاؤنج میں ایک چھوٹی سی میز پر میرا اکیلے کا کھانا لگا ہوا تھا۔ میں بیٹھنے ہی والا تھا کہ برآمدے میں چھوٹے دونوں (پوتا: عبدالباسط، اور پوتی: وَردَہ) بیٹھے دکھائی دئے۔ وردہ چھوٹی ہے، دونوں کی عمروں میں یہی کوئی پندرہ دن کا فرق ہے (دونوں گزشتہ برس اگست میں پیدا ہوئے)۔
منظر کچھ یوں ہے۔
عبدالباسط زمین پر آلتی پالتی مارے بیٹھا ہے، اس کی گود میں بڑی بہن (مدیحہ) کی پکچر بُک رکھی ہے، ایک ایک تصویر پر انگلی رکھتا ہے
اور بہت جوشیلے انداز میں کچھ کہتا جاتا ہے۔ وَردَہ اس کے پاس خاموش بیٹھی پورے انہماک سے پکچر بُک کو دیکھ رہی ہے
اور گاہے گاہے عبدالباسط کے چہرے کی طرف دیکھ لیتی ہے،
جیسے کوئی ہونہار شاگرد کوئی مشکل سوال سمجھ رہا ہو۔
چھوٹی بہو (عبدالباسط کی ماں) کچن کی جالی سے بچوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہی ہے۔
یہ منظر دیکھ کر میرا تشکر دل کو لبریز کرکے آنکھوں سے بہہ نکلتا ہے۔ بڑی بہو (وردہ کی ماں) پانی لے کر آتی ہے، میں اُس کی توجہ بچوں کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں مگر الفاظ میرا ساتھ نہیں دیتے۔ بہو کی نظریں میری انگلی کے اشارہ کے پیچھے ’’ننھے استاد شاگرد‘‘ پر مرکوز ہو جاتی ہیں۔
’’آج اِن کی دادی زندہ ہوتی تو اس کے ماتھے کی دمک اور آنکھوں کی چمک کس قدر جاں فزا ہوتی! ‘‘ اس خیال کے ساتھ ہی میرے آنسووں کی نوعیت بدل جاتی ہے۔
مدیحہ گیلانی
اب اس ترجمہ گا بھی کوئی ترجمہ کر دیوے تو اس اس فقیر کوبھی کچھ سمجھ آوےآج فیس بک پر جناب محمد وارث نے ملا نورالدین ظہوری کا یہ شعر پوسٹ کیا
بَگو حدیثِ وفا، از تو باوَرست، بَگو
شَوَم فدائے دروغے کہ راست مانندست
اور اِس فقیر سے فی البدیہہ ترجمہ سرزد ہو گیا:
یار پیار نبھان دے قول کُوڑے، ایویں چاردا ایں بار بار سانوں
انج بولدا ایں جِویں سچ ہووے، تیرے جھوٹھ تے آندا اے پیار سانوں
احباب کی خدمت میں پیش کر دیا ہے۔
یہ تو آپ نے کافئ محنت کیا بھائی جان ۔۔۔کچھ دن قبل میں اپنے کالج کے سرور کا معائینہ کرنے گیا تو وہاں تہہ خانے میں دیوار پر چپکا ایک کاغذ دکھائی دیا۔ اسے پڑھا تو وہ کچھ ایسے تھا