درست ہے۔ سائنس کی رو سے سوچنے کے عمل کو خیال کہا جاتا ہے
مطلب سوچ سے خیال پیدا ہوتا ہے ؟
مطلب سوچ سے خیال پیدا ہوتا ہے ؟
پھر دل اور دماغ کی تفریق کیسے ہو ؟ سوچ دل میں خیال ذہن میں ؟
جو بات ذہن میں آ جائے اس پر دل میاں کی ملکیت کب رہتی ہے؟پھر دل اور دماغ کی تفریق کیسے ہو ؟ سوچ دل میں خیال ذہن میں ؟
ایسا تو نہیں دل ریم ہے اور دماغ ہارڈ ڈسک ؟جو بات ذہن میں آ جائے اس پر دل میاں کی ملکیت کب رہتی ہے؟
ایسا تو نہیں دل ریم ہے اور دماغ ہارڈ ڈسک ؟
تکنیکی حوالے سے تو زیادہ علم نہ ہے تاہم اس قدر ضرور معلوم ہے کہ جب معاملہ غور و فکر کی طرف چل پڑے تو اس حوالے سے دماغ میاں سے ہی رابطہ کرنا پڑتا ہےحتیٰ کہ قلبی کیفیات کا ادراک بھی تبھی ہو پاتا ہے جب اس پر تفکر و تدبر کیا جائے جو بہرحال دماغ کی ڈومین ہے۔ایسا تو نہیں دل ریم ہے اور دماغ ہارڈ ڈسک ؟
تکنیکی حوالے سے تو زیادہ علم نہ ہے تاہم اس قدر ضرور معلوم ہے کہ جب معاملہ غور و فکر کی طرف چل پڑے تو اس حوالے سے دماغ میاں سے ہی رابطہ کرنا پڑتا ہےحتیٰ کہ قلبی کیفیات کا ادراک بھی تبھی ہو پاتا ہے جب اس پر تفکر و تدبر کیا جائے جو بہرحال دماغ کی ڈومین ہے۔
دل اور دماغ کا باقاعدہ فزیکل مقابلہ تو آج دیکھنے میں آیا۔سائنسدانوں کے مطابق انسانی دماغ کائنات کی پیچیدہ ترین شے ہے۔ دل تو اسکے مقابلے میں ایک معمولی سا پمپ ہے جو شریانوں میں کلیسٹرول، فیٹ اور دیگر کچرہ جم جانے پر کمزور و ناکارہ ہو جاتا ہے۔ اسکے مقابلہ میں انسانی دماغ بلڈ برین بیریئر اور دیگر قدرتی حفاظتی تدابیر کی وجہ سے محفوظ رہتا ہے۔ اسکی قوت اور اہمیت کا اندازہ صرف اس بات سے لگا لیں کہ حرکت قلب بند ہو جانے کے بعد بھی دماغ کئی کئی منٹ تک زندہ رہتا ہے۔ یعنی انسان کے پاس شعور ہوتا ہے بیشک وہ جسمانی طور پر مر چکے ہوں
فَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَھُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِھَآ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِھَا فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَ لٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِعباس اعوان جیسے جسم کے باقی اعضا درد، تکلیف و راحت محسوس کرتے ہیں وہی معاملہ دل کا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ دل میں سوچنے، سمجھنے، خیالات اجاگر کرنے کی صلاحیت ہے۔ دل صرف دماغی معاملات کا رد عمل دے سکتا ہے۔ اسمیں اپنی کوئی ذہین صلاحیت نہیں ہے
اس حوالے سے حال ہی میں مغرب میں کئی ریسرچز ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر!فَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَھُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِھَآ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِھَا فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَ لٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ
کیا وہ زمین میں چلتے پھرتے نہیں کہ ان کے دل ہوتے جن سے وہ عقل کا کام لیتے یا کان ہوتے جن سے وہ سنتے لیکن (حقیقت یہ ہے کہ ان کی ) آنکھیں نابینا نہیں ہیں بلکہ (ان کے)وہ دل اندھے ہیں جو سینوں میں ہیں۔(۲)
اسکا کیا مطلب ہے
اسکا کیا مطلب ہے
یعنی دل کا کام عقل استعمال کرنا ہے قرآن کے مطابق. آپ سے یہ کس نے کہ دیا کہ یہاں سائنس کی کلاس ہورہی ہے. Anatomy, physiology مجھے شاید آپ سے زیادہ آتی ہے. مجھے تو یہ سمجھنے میں مشکل نہیں کہ اس لڑی میں کیا بات ہورہی ہے. یہاں اگر کسی بیچارے نے دل کی بات کی ہے تو اسے میڈیکل والا دل کیوں بنا رہے ہیںمیرے خیال میں یہ قرآنی آیات علم طب سے متعلق نہیں ہیں بلکہ انسانی اعمال و افعال کو تمثیلی رنگ میں انتہائی خوبصورتی کیساتھ بیان کر رہی ہیں۔
ساتھ مرحوم و مغفور کہنا نہ بھولیںشاہد صاحب آپ سے ابھی تک شناسائی نہیں مگر نہ جانے کیوں آپ کے خیالات جان کر عارف کریم یاد آتا ہے ۔ ۔ ۔ کتنی مشابہت ہے ۔ ۔ ۔
یعنی دل کا کام عقل استعمال کرنا ہے قرآن کے مطابق. آپ سے یہ کس نے کہ دیا کہ یہاں سائنس کی کلاس ہورہی ہے. Anatomy, physiology مجھے شاید آپ سے زیادہ آتی ہے. مجھے تو یہ سمجھنے میں مشکل نہیں کہ اس لڑی میں کیا بات ہورہی ہے. یہاں اگر کسی بیچارے نے دل کی بات کی ہے تو اسے میڈیکل والا دل کیوں بنا رہے ہیں
واہبڑے بوڑھے کہہ گئے ہیں:
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
مرغے کی ایک ٹانگمیرے خیال میں پوچھے گئے سوال کا درست جواب دینا ضروری ہے بیشک وہ پیچیدہ اور کٹھن کیوں نہ ہو۔ اوپر سوچ اور خیال کی بحث میں دل و دماغ کا حوالہ دیا گیا تھا۔ یہاں یہ بتایا ضروری تھا کہ دل میں سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ سارا کام دماغ سے ہوتا ہے جسکا اثر یا رد عمل دل میں ہوتا ہے۔ چونکہ دماغ و دل جسم کے کیلئے اہم ترین ہیں اسلئے انکی باہم کیمیسٹری و بیالوجی جانے بغیر آپ سوال کے درست جواب تک نہیں پہنچ سکتے۔
آسانی کیلئے چند روز مرہ کی مثالیں دیتا ہوں۔ جب ہمارے کسی بہت قریبی کی یکدم موت ہوتی ہے یا تعلق ختم ہوتا ہے تواس جذباتی سٹریس کی شدت کو ہم دل میں محسوس کرتے ہیں۔ اسے عام زبان میں دل کا ٹوٹنا، صدمہ، غم یا ڈپریشن کا نام دیتے ہیں۔ بعض کمزور دل والے تو اسے برداشت نہیں کر پاتے اور چل بستے ہیں۔
مگر دل کیساتھ یہی حال اچانک شدید غیر متوقع خوشی مل نے پر بھی ہوتا۔ جیسے کسی کی لاٹری لگ جائے، گمشدہ قریبی مل جائے یا مرتے مرتے جان بچ جائے، تب بھی دل اسی طرح کا رد عمل دیتا ہے جیسا صدمہ و غم کے وقت ہوتا ہے۔
اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ دل محض دماغی تناؤ و ہیجان کو پروسیس کرتا ہے۔ اسمیں اگر خود سوچنے سمجھنے یعنی عقلی قوت ہوتی تو یہ خوشی و غم میں الگ الگ طور پر رد عمل دیتا۔ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
خوب نکتہ دیا آپ نے۔ ۔ ۔بڑے بوڑھے کہہ گئے ہیں:
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے