الف عین
لائبریرین
مہر و مہتاب صفت ناقہ سوار اچّھے تھے
قافلے ان کے بصد گرد و غبار اچھے تھے
ہاں کبھی خواب میں دیکھا تھا مری آنکھوں نے
اک گھر جس کے سبھی نقش و نگار اچھے تھے
شام ہوتی تھی تو اک حشر بپا ہوتا تھا
اِن جزیروں سے وہ پرشور دیار اچھے تھے
جب قریب آئے تو الجھن کا سبب بھی نکلے
جتنے چہرے تھے پسِ گرد و غبار اچھے تھے
اب تو جیسے کسی آشوب کا بستی ہے شکار
لوگ پہلے کے سبھی کوہ وقار اچھے تھے
بس تری شکل سے خالی تھے دریچے سارے
ویسے پردیس کے منظر مرے یار اچھے تھے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
قافلے ان کے بصد گرد و غبار اچھے تھے
ہاں کبھی خواب میں دیکھا تھا مری آنکھوں نے
اک گھر جس کے سبھی نقش و نگار اچھے تھے
شام ہوتی تھی تو اک حشر بپا ہوتا تھا
اِن جزیروں سے وہ پرشور دیار اچھے تھے
جب قریب آئے تو الجھن کا سبب بھی نکلے
جتنے چہرے تھے پسِ گرد و غبار اچھے تھے
اب تو جیسے کسی آشوب کا بستی ہے شکار
لوگ پہلے کے سبھی کوہ وقار اچھے تھے
بس تری شکل سے خالی تھے دریچے سارے
ویسے پردیس کے منظر مرے یار اچھے تھے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔