الف عین
لائبریرین
کیا زمانہ تھا کہ سب عرصۂ جاں میرا تھا
خیمۂ خواب سرِ جوئے رواں میرا تھا
منظرِ ہجر سے آگے بھی کئی منظر تھے
میں نہ سمجھا تو سراسر یہ زیاں میرا تھا
جس سے روشن ہوئی بستی وہ چمک کس کی
دور تک دشت میں پھیلا جو دھواں میرا تھا
ہر سیہ رات میں روشن تھا مری جاں کا چراغ
ہر چمکتے ہوئے ذرّے میں نشاں میرا تھا
برگِ آوارہ صفت دوش ہوا پر تھے یقیں
یار تھا کوئی تو دنیا میں گماں میرا تھا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خیمۂ خواب سرِ جوئے رواں میرا تھا
منظرِ ہجر سے آگے بھی کئی منظر تھے
میں نہ سمجھا تو سراسر یہ زیاں میرا تھا
جس سے روشن ہوئی بستی وہ چمک کس کی
دور تک دشت میں پھیلا جو دھواں میرا تھا
ہر سیہ رات میں روشن تھا مری جاں کا چراغ
ہر چمکتے ہوئے ذرّے میں نشاں میرا تھا
برگِ آوارہ صفت دوش ہوا پر تھے یقیں
یار تھا کوئی تو دنیا میں گماں میرا تھا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔