الف عین
لائبریرین
میں جھوٹا حرف گواہی کا ، میں کاذب لفظ کہانی کا
کیوں اب تک رشتہ باقی ہے ، مری آنکھوں سے حیرانی کا
میں ابرِ وصال میں بھیگ چکا ، میں ہجر کی آگ میں راکھ ہوا
دل دریا اب بھی جوش میں ہے عالم ہے وہی طغیانی کا
میں تنہائی کے ساحل پر ، مصروفِ نظارہ ہوں کب سے
اک اپنا حُسن نرالا ہے یاں ہر موجِ امکانی کا
مرے شہر دکھوں کی لہر میں ہیں ، مرے لوگ زیاں کے بحر میں ہیں
کوئی اسم عطا کر خوشیوں کا کوئی رستہ دے آسانی کا
اے دشت کے مالک مُجھ کو بھی ، تو دست عطا سے ارزاں کر
کچھ جھونکے سرد ہواؤں کے ، اک چشمہ میٹھے پانی کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کیوں اب تک رشتہ باقی ہے ، مری آنکھوں سے حیرانی کا
میں ابرِ وصال میں بھیگ چکا ، میں ہجر کی آگ میں راکھ ہوا
دل دریا اب بھی جوش میں ہے عالم ہے وہی طغیانی کا
میں تنہائی کے ساحل پر ، مصروفِ نظارہ ہوں کب سے
اک اپنا حُسن نرالا ہے یاں ہر موجِ امکانی کا
مرے شہر دکھوں کی لہر میں ہیں ، مرے لوگ زیاں کے بحر میں ہیں
کوئی اسم عطا کر خوشیوں کا کوئی رستہ دے آسانی کا
اے دشت کے مالک مُجھ کو بھی ، تو دست عطا سے ارزاں کر
کچھ جھونکے سرد ہواؤں کے ، اک چشمہ میٹھے پانی کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔