داستان خواجہ بخارا کی

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اس دوران میں سود خور نے اپنے تھیلے سے ایک چوبی سورج گھڑی نکالی اور وقت دیکھا۔

”کمھار میرے اس درخت کے نیچے انتظار کر ۔ میں ایک گھنٹے میں لوٹ آؤنگا۔ دیکھ چُھپنے کی کوشش نہ کرنا کیونکہمیں تجھے سمندر کی تہہ سے بھی ڈھونڈ نکالوں گااور تیرے ساتھ مفرور غلام جیسا برتاؤ کرونگا۔ اور تو حسین گل جان ، میری بات کے بارے میں سوچ، تیرے باپ کی قسمت کا انحصار اس بات پر ھے کہ تو میرے ساتھ کیسا برتاؤ کرتی ھے۔“

اور اپنے بدنما چہرے پر اطمینان بخش مسکراھٹ کے ساتھ وہ جوھریوں کے بازار سے اپنی نئی داشتہ کے لئے زیورات خریدنے روانہ ھو گیا۔

غم سے چُور کمھار اپنی بیٹی کے ساتھ سڑک کے کنارے درخت کے نیچے بیٹھا رھا۔

خواجہ نصرالدین ان کے پاس گئے:

” کمھار، میں نے فیصلہ سنا تھا۔ تمھارے اوپر بڑی مصیبت آن پڑی ھے لیکن شاید میں تمھاری مدد کرسکوں۔“

”نہیں ، مہربان“ کمھار نے ناامیدی سے جواب دیا ” میں تمھارے پیوند لگے ھوئے کپڑوں سے ھی دیکھ سکتا ھوں کہ تم امیر نہیں ھو اور مجھے چار سو تانگوں کی ضرورت ھے۔ میرے دوست امیر نہیں ھیں ، سب ٹیکسوں اور محصولوں سے تباہ غریب لوگ ھیں ۔“


” بخارا میں میرے بھی دوست امیر نہیں ھیں“ خواجہ نصرالدین نے کہا ” پھر بھی میں یہ رقم جمع کرنے کی کوشش کرونگا۔“


” بخارا میں میرے بھی دوست امیر نہیں ھیں“ خواجہ نصرالدین نے کہا ” پھر بھی میں یہ رقم جمع کرنے کی کوشش کرونگا۔“

”چار سو تانگے ایک گھنٹے میں !“ بڈھے نے اپنا سفید سر ھلایا اور تلخی سے مسکرایا۔ ” اجنبی، تم مجھے چڑھا رھے ھو۔ صرف خواجہ نصرالدین ھی یہ کارنامہ کر سکتے ھیں۔“

”اجنبی، ھم کو بچائیے، بچائیے!“ گل جان نے اپنے باپ سے لپٹتے ھوئے کہا۔

خواجہ نصرالدین نے گل جان کی طرف دیکھا۔ اس کے ہاتھ بہت خوبصورت تھے ۔ اس نے خواجہ کو نظر بھر کر دیکھا اور نقاب کے اندر ھی اندر خواجہ نصرالدین نے ان آنکھوں کی پگھلی ھوئی چمک کو دیکھ لیا جن میں التجا اور امید تھی۔ خواجہ نصرالدین کی رگوں میں خون آگ کی طرح دوڑ گیا اور ان کی محبت ھزار گنا فروزاں ھو گئی۔ انھوں نے کمھار سے کہا:

”بڑے میں ، یہیں ٹھہرو، اگر میں سود خور کی واپس سے پہلے چار سو تانگے حاصل نہ کرسکا تو میں اپنے کو دنیا کا انتہائی قابلَ نفرت اور ذلیل آدمی سمجھونگا۔“

وہ کُود کر اپنے گدھے پر بیٹھے اور بازار کے مجمع میں غائب ھوگئے۔


(13)​



اس وقت بازار میں صبح کے مقابلے میں ، جبکہ انتہائی مصروف گھنٹوں میں ھر شخص اس ڈر سے بھگتا دوڑتا، چیختا اور عجلت میں ھوتا ھے کہ کہیں موقع ہاتھ سے جاتا نہ رھے ، سناٹا تھا اور مج

طرف اچھل اچھل کے دانے دنے چُگ رھی تھیں اور خوشی خوشی چہچہا رھی تھیں۔

” اللہ بھلا کرے، بھلے آدمی ھم کو بھی کچھ دیتے جاؤ“ فقیر اپنے پھوڑے اور جسمانی عیب دکھا کر خواجہ نصرالدین سے بھیک کے لئے گھگھیا رھے تھے۔

انھوں نے جھڑک کر جواب دیا:




"الگ رہو، میں خود بھی تمھاری طرح غریب ھوں اور کوئی ایسی آسامی ڈھونڈ رھا ھوں جو مجھ کو چار سو تانگے دے سکے۔"

فقیروں نے یہ خیال کرکے کہ وہ ان کو چڑھا رھے ھیں خوب گالیں دیں لیکن خواجہ نصرالدین اپنے خیالات میں ایسے منہمک تھے کہ ان کو ان باتوں کے جواب دینے کا موقع کہاں۔

چائے خانوں کی قطار میں انھوں نے ایک ایسا چائے خانہ چنا جو سب سے بڑآ تھا اور جہاں مجمع بھی زیادہ تھا لیکن وھاں قیمتی قالین اور ریشمی گدے نہ تھے۔ وہ اس میں داخل ھوئے اور اپنے گدھے کو باھر باندھنے کی بجائے زینوں پر کھینچتے ھوئے لے آئے۔

لوگوں نے ان کا محتیر کن خاموشی سے خیر مقدم کیا۔ اس سے وہ ذرا بھی نہیں گھبرائے۔ انھوں نے اپنی خورجین سے وہ مقدس کتاب نکالی جو دو دن پہلے ان کو بڈھے نے دی تھی اور اس کو کھول کر گدھے کےک سامنے رکھ دیا۔

انھوں نے یہ کام بڑے اطمینان سے ذرا بھی مسکرائے بغیر کیا جیسے یہ بالکل فطری بات ھو۔ چائے خانے میں جو لوگ تھے انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔

گدھے نے چوبی فرش پر گونجدار آواز میں اپنے پیرپٹکے۔

"ابھی سے؟" خواجہ نصرالدین نے ورق الٹتے ھوئے کہا "تو نے نمایاں ترقی کی ھے۔"

اب چائے خانے کا توندیل اور زندہ دل مالک اپنی جگہ سے اٹھا اور خواجہ نصرالدین کے پاس آیا۔

"دیکھو، بھلے آدمی، کیا یہ تمھارے گدھے کے لئے مناسب جگہ ھے؟ اور تم نے یہ مقدس کتاب گدھے کے سامنے کیوں کھول رکھی ہے؟"

"میں اس گدھے کو دینیات کی تعلیم دے رھا ھوں" خواجہ نصرالدین نے اطمینان سے جواب دیا "اب یہ مقدس کتاب ختم ھونے والی ھے پھر ھم شریعت کا مطالعہ کریں گے۔"

سارے چائے خانے میں کھسر پھسر ھونے لگی۔ بہت سے لوگ اچھی طرح دیکھنے کے لئے کھڑے ھوگئے۔ چائے خانے کے مالک کی آنکھیں پھیلی اور منہ کھلا رہ گیا۔ اس نے اپنی زندگی میں ایسا عجوبہ نہیں دیکھا تھا۔ اس موقع پر گدھے نے پھر پیر پٹکے۔

"شاباش" خواجہ نصرالدین نے ورق الٹتے ھوئے کہا "بہت اچھے، تھوڑا سا اور پڑھ لے تو تو مدرسہ میر عرب مٰں صدر معلم دینیات کی جگہ لے سکے گا۔ صرف یہ ورق خود سے نہیں پلٹ سکتا ے اور اس کو کسی کی مدد کی ضرورت ھوتی ھے۔ اللہ نے اس کو تیز فہم بنایا ھے اور یاداشت بھی لاجواب ھے لیکن خدا نے اس کو انگلیاں نہیں دیں" خواجہ نصرالدین نے چائے خانے کے مالک سے کہا۔

"یہ کوئی معمولی گدھا نہیں ھے!" انھوں نے بتایا "یہ بذات خود امیر کی ملکیت ھے۔ ایک دن امیر نے مجھے طلب کیا اور پوچھا: کیا تم میرے محبوب گدھے کو دینیات پڑھا سکتے ھو تاکہ وہ اتنا ھی جان جائے جتنا میں جانتا ھوں؟ لوگوں نے مجھے گدھا دکھایا، میں نے اس کی لیاقت کی جانچ کی اور جواب دیا: اے تقدس مآب امیر! یہ لاجواب گدھا عقل و دانش میں آپ کے کسی وزیر سے کم نہیں ھے بلکہ آپ سے بھی۔ میں اس کو دینیات پڑھاؤں گا اور وہ اتنا ھی قابل ھو جائے گا جتنے آپ ھیں بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ لیکن اس میں بیس سال لگیں گے۔ امیر نے حکم دیا کہ خزانے سے مجھے سونے کے پانچ ھزار تانگے دے دئے جائیں اور کہا: گدھے کو لے جاؤ اور اسے پڑھاؤ لیکن میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ھوں کہ اگر بیس سال ختم ھونے پر اسے دینیات کا علم نہ ھوا اور وہ مذھبی کتابیں حفظ نہ کرسکا تو میں تمھارا سر اڑادونگا!"

"تو پھر تم اپنے سر کو سلام کرلو!" چائے خانے کے مالک نے کہا "کس نے سنا ھے کہ گدھا دینیات سیکھ سکتا ھے اور مذھبی کتابیں زبانی سنا سکتا ھے!"

"بخارا میں ایسے کافی گدھے ھیں" خواجہ نصرالدین نے جواب دیا "میں یہ بھی بتا دوں کہ سونے کے پانچ ھزار تانگے اور اچھا گدھا روز روز نہیں ملتے۔ اور رھا میرا سر تو اس کے لئے فکر نہ کرو کیونکہ بیس سال میں ھم میں سے کوئی نہ کوئی مریگا ضرور۔ یا تو میں یا امیر یا پھر گدھا۔ اس وقت یہ پرکھنے کا وقت گذر چکا ھوگا کہ ھم تینوں میں سے دینیات کا بڑا عالم کون ھے۔"

چائے خانہ قہقہوں سے گونج اٹھا۔ چائے خانے کا مالک تو ھنسی سے بےقابو ھو کر نمدوں پر گرپڑا اور اتنا ھنسا کہ اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر ھوگیا۔ وہ بڑا ھنس مکھ اور زندہ دل انسان تھا۔

"یہ سنا آپ نے" اس نے گھٹے ھوئے گلے سے خرخراتے ھوئے کہا "اس وقت یہ پرکھنے کا وقت گذرچکا ھوگا کہ کون دینیات کا بڑا عالم ھے!" یقینا ھنسی میں اس کا پیٹ پھٹ جاتا اگر اچانک اس کو ایک خیال نہ آگیا ھوتا۔

"ٹھہرئے، ٹھہرئے٬!" اس نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف کرنے کے لئے ھاتھ ھلائے "تم کون ھو؟ کہاں سے آئے ھو، دینیات کے استاد؟ کیا تم خود خواجہ نصرالدین ھو سکتے ھو؟"

"کیا یہ کوئی حیرت کی بات ھے؟ تمھارا قیاس صحیح ھے۔ میں خواجہ نصرالدین ھوں۔ بخارا شریف کے شہریو، سلام علیکم!"

ذرا دیر کے لئے ایسی خاموشی چھا گئی جیسے کسی نے جادو کر دیا ھو۔ یکدم ایک پرمسرت آواز نے خاموشی توڑی:

"خواجہ نصرالدین!"

"خواجہ نصرالدین! خواجہ نصرالدین!" یکے بعد دیگرے ھر ایک کی زبان پر آتا گیا۔ یہ آواز دوسرے چائے خانوں تک پہنچی اور پھر سارے بازار میں گونج گئی۔ ھر جگہ یہ آواز پھیل کر گونج رھی تھی:

"خواجہ نصرالدین! خواجہ نصرالدین!"

لوگ ھر طرف سے دوڑ دوڑ کر اس چائے خانے آنے لگے۔ ان میں ازبک، تاجک، ایرانی، ترکمان، عرب، ترک، جارجیائی، آرمینیائی اور تاتار سبھی تھے۔ وہ اپنے محبوب خواجہ نصرالدین کو، مشہور، زندہ دل اور ھوشیار خواجہ نصرالدین کو زور زور سے خوش آمدید کہہ رھے تھے۔

مجمع بڑھتا گیا۔

کہیں سے جئی کا ایک بورا، ایک گٹھا گھاس اور صاف پانی کی بالٹی بھی آگئی۔ یہ سب چیزیں گدھے کے سامنے پیش کردی گئیں۔

"خوش آمدید، خواجہ نصرالدین!" مجعمع نے کہا "آپ کہاں گھومتے پھرتے رھے، ھمیں کچھ بتائیے خواجہ نصرالدین!"

وہ برآمدے کے کنارے تک آغئے اور مجمع کے سامنے کافی خم ھوکر بولے:

"بخارا شریف کے شہریو، تم کو سلام! دس سال تک میں تم سے جدا رھا اوراب میرا دل اس ملاپ سے باغ باغ ھے۔ تم نے مجھ سے کچھ بتانے کو کہا ھے۔ بہتر ھوگا کہ میں اس کو گا کر سناؤں!"

انھوں نے ایک بڑآ سا مٹی کا گھڑا لے لیا، اس کا پنی انڈیل دیا اور اس کو اپنے ھاتھ سے بجاتے ھوئے گانا شروع کیا:

باج باج، گھڑے رے باج
اور کر امیر کے گن گان
کہہ سارے سنسار سے کتھا
ھمرے سندر جیون کی، امیر کے راج

گھڑا بھن بھنایا، ٹھن ٹھنایا
او رآکر تاؤ میں گھڑ گھڑایا
گرما کر گھوما چاروں طرف
اونچے سر میں سب سے فرمایا

ھاں، اونے سر میں فرمایا:
دیکھو! یہ کمھار نیاز ھمارا
برتنوں کا استاد نیارا
لیکن روزی سے بالکل ھارا
پیٹ سے ٹوٹا، پیسے کا مارا

اور جعفر کبڑے کو نیند نہ آئے
ڈر اپنی سونے کی دیگوں کا ستائے
خزانہ امیر کا بھی سونے سے امڈا آئے
اس کی گنتی بھیا کون تمھیں بتائے
 

قیصرانی

لائبریرین
اک دن بوڑھے نیاز پہ جو بپتا آئی
برق اندازون نے کی چپکے سے چڑھائی
اور کچھ نہ سنی اس کی دھائی
پیشی امیر کی عدالت میں کرائی
پیچھے پیچھے جعفر کبڑا دوڑا آیا
منحوس شکل اپنی سرکار میں لایا

ھم ظلم کب تک برداشت کریں گے
کہہ رے گھڑے، سب تو سنیں گے
تیری مٹی کی جیبھ ھے سچی پیارے
اس سے سب نیاز کا دوش سنیں گے

گھڑا اونچے سر میں بولا
سارا ماجرا سچ سچ کھولا
دوش تو ھے کمھار کا سارا
جو اس جال میں آیا
اب تو وہ ھے جال میں مکڑے کے
اور مکڑے نے اس کو اپنا داس بنایا

نیاز نے دی اممیر کی دھائی
آنسو بھر کر آنکھ قدموں سے لگائی
پھر بولا "ساری دنیا کو ھے گیا
امیر اپنا مہربان، مہان
اور وہ دیگا مجھ کو امان"

"مت رو بڈھے" بولا امیر والا شان
"میں کرتا ھوں تجھ کو پوار گھنٹہ دان
ساری دنیا کو ھے گیان
میں ھوں مہربان، مہان"

ھم ظلم کب تک برداشت کریں گے
کہہ رے گھڑے، سب تو سنیں گے

گھڑا اونچے سر میں بولا
سارا ماجرا سچ سچ کھولا
سچ مچ وہ ھے دیوانہ
جس نے امیر کو منصف جانا
ایسا نیچ ھے مشکل پانا
سر اس کا کوڑا خانہ

کب تک ھم یہ نراج سہیں گے؟
کب تم ھم مریں کھپیں گے؟
کب لوگ اٹھیں گے؟
کب خوشی سے گلے ملیں گے؟

گھڑا اونچے سر میں بولا
سارا ماجرا سچ سچ کھولا
"ابھی تو امیر ھے بڑا بلوان
لیکن گریگا منہ کہ بل آن

تب یہ دکھ کے دن بیتیں گے
برس برس میں دن آئے گا
جب وہ مٹی کے گھڑے سمان
ٹکڑے ٹکڑے ھو جائے گا!"

گھڑے کو سر سے اونچا اٹھا کر خواجہ نصرالدین نے اس کو زمین پر پٹک دیا اور اس کے سیکڑوں ٹکڑے ھوگئے۔ مجمع کے شور شرابے کے اوپر اپنی آواز بلند کرتے ھوئے انھوں نے کہا:

"اچھا، ھم سب کو چاھئے کہ ھم سود خور اور امیر کے رحم سے نجات دلانے کے لئے کمھار نیاز کی مدد کریں! تم تو خواجہ نصرالدین کو جانتے ھی ھو! ان کو دیا ھوا قرض کبھی ڈوبتا نہیں! تھوڑے دن کے لئے ان کو چار سو تنگے کون دیگا؟"

ایک سقہ جو ننگے پاؤں تھا سامنے آیا:

"خواجہ نصرالدین! ھمارے پاس پیسہ کہاں؟ ھمیں بہت بھاری ٹیکس ادا کرنے پڑتے ھیں۔ لیکن میرے پاس ایک پٹکہ ھے، تقریبا بالکل نیا، اس سے کچھ ھاتھ لگ سکتا ھے۔"

اور اس نے اپنا پٹکہ خواجہ نصرالدین کے قدموں پر ڈال دیا۔ مجمع میں ہلچل مچ گئی۔ ٹوپیاں، جوتے، پٹکے، رومال، حتٰی کہ قبائیں تک خواجہ نصرالدین کے قدموں پر برسنے لگیں۔ خواجہ نصرالدین کی مدد ھر ایک اپنی عزت خیال کرتا تھا۔ چائے خانے کا موٹا مالک اپنی دو بہترین چائے دانیاں لے اور تانبے کی ایک کشتی لے آیا۔ اس نے اپنی اس فیاضی کے لئے دوسروں کی طرف فخر سے دیکھا۔ تحفوں کا انبار بڑھتا جا رھا تھا۔ خواجہ نصرالدین نے اپنی پوری طاقت سے چلا کر کہا:

"کافی ھے، کافی، بخارا کے فیاض شہریو! کافی ھے۔ سن رھے ھو نا؟ زین ساز اپنی زین واپس لے لو۔ بس کافی ھے، میں کہتا ھوں کیا تم اپنےخواجہ نصرالدین کو پرانے کپڑوں کا بیوپاری بنا دینا چاھتے ھو؟ اب میں نیلام شروع کرتا ھوں۔ یہ رھا سقے کا پٹکہ، جو اسے خریدے گا اسے پیاس کبھی نہیں ستائے گی۔ آؤ، آؤ، سستا مال ھے۔ یہ رھے کچھ پرانے پیوند لگے جوتے۔ کم از کم یہ دو بار تو ضرور مکہ شریف کا سفر کرچکے ھیں۔ جو ان کوپہنے گا وہ یہی محسوس کرے گا کہ وہ زیارت کے لئے جا رھا ھے۔ یہ رھے چاقو، ٹوپیاں، قبائیں اور جوتے!آؤ، آؤ سستا مال ھے، کوئی طے توڑ کی بات نیہں ھے۔ وقت بہت قیمتی ھے!"

لیکن وزیر اعظم بختیار وفادار رعایا کی برابر فکر رکھتا تھا اور اس نے بڑی محنت سے بخارا میں ایسا انتظام کیا تھا کہ لوگوں کی جیب میں ٹکا بھی نہ رھے اور سب کا سب امیر کے خزانے میں پہنچ جائے۔ خواجہ نصرالدین کی یہ سب تعریف بے سود ثابت ھوئی۔ کوئی خریدار نہیں ملا۔

(14)

ٹھیک اسی وقت اتفاق سے جعفر سود خور کا ادھر سے گذر ھوا۔ اس کی تھیلی سونے چاندی کے زیورات سے بھری ھوئی تھی جو اس نے جوھریوں کے بازار سے گل جان کے لئے خریدا تھا۔

حالانکہ ایک گھنٹے کی مدت ختم ھوچکی تھی اور سود خور اپنی عیاشانہ خواھشات سے چور جلدی جلدی جا رھا تھا لیکن جب اس نے خواجہ نصرالدین کو سستا مال بیچتے سنا تو لالچ غالب ایا۔

سود خور کو دیکھتے ھی سارا مجمع کھسک گیا کیونکہ ھر تیسرا آدمی اس کا ضرور قرضدار تھا۔

جعفر نے خواجہ نصرالدین کو پہچان لیا۔

"اچھا تو یہ تم ھو، جس نے مجھ کو کل پانی سے نکالا تھا؟ تم یہاں کاروبار کرتے ھو؟ اتنا سامان تم کو بیچنے کے لئے کہاں سے مل گیا؟"

"عزت مآب جعفر! آپ کو یاد نہیں ھے کہ کل آپ نے مجھے آدھا تانگہ دیا تھا؟" خواجہ نصرالدین نے جواب دیا " اور میں نے اس سے پیسہ بنایا۔ کام اور قسمت نے میرے کاروبار کا ساتھ دیا۔"

"اور تم نے ایک ھی دن میں یہ سارا سامان جمع کر لیا؟" سود خور نے حیرت سے کہا "واقعی میرے پیسے نے تمھیں بڑی برکت دی!اچھا تو سب سامان کے لئے تم کیا مانگتے ھو؟"

"چھ سو تانگے۔"

"پاگل ھو گئے ھو؟ تمھیں اپنے محسن سے اتنی بڑی رقم مانگتے شرم آنی چاھئے! میری بدولت ھی یہ خوش حالی آئی ھے؟ دو سو تانگے۔ یہ ھیں میرے دام۔"

"پانچ سو" خواجہ نصرالدین نے کہا "آپ کا لحاظ کرکے، معزز جعفر، پانچ سو تانگے!"

"ارے ناشکرے! ایک بار پھر یاد دلاتا ھوں۔ کیا یہ خوشحالی میری بدولت نیہںھے؟"

"اور مہاجن، کیا تمھاری زندگی میری وجہ سے نیہں بچی؟" خواجہ نصرالدین نے جواب دیا۔ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ھوچکا تھا "یہ سچ ھے کہ تم نے مجھ کو آدھا تانگہ اپنی جان بچانے کے لئے دیا تھا لیکن تمھاری زندگی اس سے زیادہ قیمت نہیں رکھتی اس لئے مجھے برا نہیں لگا۔ اگر تمھیں خریدنا ھے تو ٹھیک دام لگاؤ۔"

"تین سو"!

خواجہ نصرالدین کچھ نہیں بولے۔

سود خور رکا۔ اس نے تجربے کار نگاہ سے سامان کو آنکا اور یہ اطمینان کرکے کہ یہ سب قبائیں، جوتے اور ٹوپیاں کم از کم سات سو تانگے کی ھونگی بولی بڑھانے کا فیصلہ کیا

"ساڑھے تین سو۔"

"چار سو۔"

"پونے چار سو۔"

"چار سو۔"

خواجہ نصرالدین اپنی ضد پر اڑگئے۔ کئی مرتبہ سود خور نے یہ بناوٹ کی کہ وہ جا رھا ھے لیکن پھر لوٹ آیا اور ایک ایک تانگہ بڑھاتا رھا یہاں تک کہ آخر وہ راضی ھوگیا۔ سودا ھوگیا۔ طوعاً و کرھاً سود خور نے رقم گنی۔

"خدا کی قسم، میں مال سے دگنی رقم دے رھا ھوں۔ لیکن میری فطرت ھی یہی ھے کہ مہربانی کرکے نقصان اٹھاؤں۔"

"یہ سکہ جعلی ھے" خواجہ نصرالدین نے بیچ میں لقمہ دیا "اور چار سو تانگے بھی نہیں ھیں۔ صرف تین سو اسی تانگے ھیں۔ نگاہ کمزور ھو گئی ھے، معزز جعفر۔"

سود خور کو مجبوراً بیس تانگے اور دینے پڑے اور جعلی سکہ بھی بدلنا پڑا۔ سودا ھونے کے بعد اس نے ایک قلی چوتہائی تانگے پر لیا، اس پر سارا سامان لادا اور اپنے پیچھے پیچھے آنے کا حکم دیا۔ بیچارہ قلی تو سامان کے بوجھ سے گرا جا رھا تھا۔

"ھم ایک ھی طرف جا رھے ھیں" خواجہ نصرالدین نے کہا۔

خواجہ گل جان کو دیکھنے کے لئے بےتاب تھے اور تیزی سے آگے چل رھے تھے۔ سود خور اپنی لنگڑے پن کی وجہ سے پیچھے رہ گیا۔

"تم کہاں جلدی جلدی جارھے ھو؟" سود خور نے آستین سے پسینہ پونچھتے ھوئے پوچھا۔

"جہاں تم جا رھے ھو" خواجہ نصرالدین نے جواب دیا، ان کی سیاہ آنکھوں میں شرارت کی جھلک تھی "معزز جعفر، تم اور میں یاک ھی جگہ اور ایک ھی کام سے جا رھے ھیں۔"

"لیکن تم میرے کام کے بارے میں نہیں جانتے ھو" سود خور نے کہا "اگر تم جانتے ھوتے تو مجھ پر رشک کرتے۔"

اس بات کے اندر جو مطلب پنہان تھا اس کو خواجہ نصرالدین سمجھ گئے اور انھوں نے زندہ دلی سے ھنس کر جواب دیا:

"لیکن مہاجن، اگر تمھیں میرے کام کا پتہ ھوتا تو تم مجھ پر دس گنا رشک کرتے۔"

جعفر نے گستاخانہ جواب کو محسوس کرکے گھورا اور کہا "تمھاری زبان بہت تیز ھے۔ تمھارے ایسے آدمیوں کو مجھ ےس بات کرتے ڈرنا چاھئے۔ بخارا میں چند ھی ایسے لوگ ھیں جن پر میں رشک کر سکتا ھوں۔۔ میں دولتمند ھوں اور میری مرضی کسی طرح سے پابند نہیں ھے۔ میں نے بخارا کی حسین ترین دوشیزہ کی خواھش کی اور آج وہ میری ھوگی۔"

اسی وقت ایک آدمی ٹوکری میں بیریاں بیچتے ھوا ادھر سے گذرا۔ خواجہ نصرالدین نے ایک لمبے ڈنٹھل کی بیری ٹوکری سے چن کر سود خور کو دکھائی اور بولے

"معزز جعفر، میری بات سنو، کہتے ھیں کہ ایک دن ایک گیدڑ نے درخت میں اونچے پر ایک بیری دیکھی اور اس نے اپنے آپ سے کہا کہا"ممیں تو اس کو کھائے بغیر چین نہیں ہوں گا۔" تو اس نے درخت پر چڑھنا شروع کیا اور دو گھنٹے تک چڑھتا رھا اور اس کے شاخوں سے بہت سے کھرونچے بھی آگئے۔ اور ٹھیک اسی وقت جب وہ بیری کھانے جا رھا تھا اور منہ بھاڑ سا کھول چکا تھا اچانک ایک باز جھپٹا اور بیری لیکر اڑ گیا۔ اس کے بعد گیدڑ کو اترنے میں دو گھنٹے اور لگے اور اس کے بدن پر اور زیادہ خراشیں آگئیں۔ وہ رو رھا تھا اور کہہ رھا تھا: "ھائے میں بیری کے لئے کیوں درخت پر چڑھا کیونکہ یہ سبھی جانتے ھیں کہ بیریاں درختوں پر گیدڑوں کے لئے نہیں لگتی ھیں!"

"تم احمق ھو" سود خور نے حقارت سے کہا "تمھارے قصے کا کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آتا۔"

"گہرے معنی فوراً سمجھ میں نہیںآتے" خواجہ نصرالدین جھٹ سے بولے۔

بیری ان کے کان کے پیچھے لٹک رھہ تھی اور ڈھنٹھل ٹوپی میں دبا ھوا تھا۔

سڑک کی موڑ آئی۔ موڑ کے دوسری طرف کمھار اور اس کی بیٹی پتھروں پر بیٹھے تھے۔

کمھار کھڑا ھوگیا۔ اس کی آنکھیں جن میں امید کی روشنی جھلکی تھی دھملی پڑ گئیں کیونکہ اس نے سوچا کہ اجنبی رقم نہیں حاصل کرسکا۔ گل جان نے ھلکی آہ کے ساتھ پیٹھ موڑ لی۔

"ابا، ھم تباہ ھوگئے!" اس نے ایسی درد بھری آواز میں کہا کہ پتھر بھی اس کو سن کر پگھل جاتا۔ لیکن سود خور کا دل تو پتھر سے بھی سخت تھا۔ صرف ظالمانہ فتح اور عیاشی کا اظہار اس کے چہرے سے ھورھا تھا۔ وہ بولا:

"کمھار، مدت ختم ھوگئی۔ اب سے تو میرا غلام ھے اور تیری بیٹی بھی میری کنیز اور داشتہ۔"

خواجہ نصرالدین کو چرکا لگانے اور ذلیل کرنے کے لئے اس نے مالکانہ غرور کے ساتھ لڑکی کے چہرے سے نقاب ھٹا دی۔

"دیکھو، کیا یہ حسین نہیںھے؟ آج میں اس کے ساتھ ھم بستر ھوں گا۔ اب بتاؤ کون کس پر رشک کریگا؟"

"واقعی حسین ھے" خواجہ نصرالدین نے کہا "لیکن کیا تمھار ےپاس کمھار کا پرونوٹ ھے؟"

"ضرور ھے، پرونوٹ کے بغیر کاروبار کیسے ممکن ھے؟ سب آدمی دھوکے باز اور چور ھوتے ھیں۔ یہ رھا پرونوٹ، اس میں قرض کی رقم اور ادائیگی کی تاریخ حاضر ھے۔ نیچے کمھار کا انگوٹھا نشانی ھے۔"

اس نے پرونوٹ خواجہ نصرالدین کو دکھایا

"پرونوٹ تو ٹھیک ھے" خواجہ نصرالدین نے تصدیق کی "اچھا، اب اس پرونوٹ کے مطابق اپنی رقم لو۔ آپ حضرات ذرا ٹھہر جائیے اور گواہ بن جائیے" انھوں نے کچھ راھگیروں کی طرف مڑتے ھوئے اضافہ کیا۔

انھوں نے رسید کے دو ٹکڑے کردئے، پھر چار اور پھر اس کے پرزے پرزے چاک کرکے ھوا میں بکھیر دئے۔ اب انھوں نے پٹکہ کھولا اور سود خور کو وہ سب رقم واپس لوٹا دی جو ذرا دیر پہلے اس سے لی تھی۔

ایسا معلوم ھوتا تھا جیسے کمھار اور اس کی بیٹی حیرت اور خوشی سے جم کر پتھر ھو گئے ھیں اور سود خور کا بھی غصے سے یہی حال تھا۔ گواہ ایک دوسرے کو آنکھ مار رھے تھے۔ وہ نفرت انگیز سود خور کی پریشانی پر ھنس رھے تھے اور اس سے لطف اٹھا رھے تھے۔

خواجہ نصرالدین نے کان کے پیچھے سے بیری نکالی اور اپنے منہ میں رکھ لی۔ پھر سود خور کی طرف آنکھ مار کر اپنے ھونٹ چاٹے۔

سود خور کے بھدے جمس میں ھلکی سی کپکپاھٹ کی لہر دوڑ گئی، اس کے ھاتے چنگلوںکی طرح بھیچ گئے، اس کی کانی آنکھ غصے سے ابل پڑی اور اس کے کوبڑ میں لرزش ھوئی۔

کمھار اور گل جان نے التجا کی:

"اجنبی، ھمیں اپن انام تو بتا دو تاکہ ھم تمھارے لئے دعا کرسکیں۔"

"ھاں!" سود خور نے جسکا منہ کف سے بھرا تھا اس بات پر صاد کیا۔ "اپنا نام بتادو تاکہ میں اس پر لعنت بھیج سکوں!"

خواجہ نصرالدین کا چہرہ چمک اٹھا۔ انھوں نے صاف اور زور کی آواز میں جواب دیا:

"بغداد میں اور طہران میں، استنبول اور بخارا میں۔ ھرجگہ مجھ کو لوگ ایک ھی نام سے جانتے ھیں۔ خواجہ نصرالدین!"

سود خور پیچھے ھٹ گیا۔ وہ زرد پڑ گیا تھا:

"خواجہ نصرالدین!" کے نعروں نے ان کا استقبال کیا۔ گل جان کی آنکھیں نقاب کے اندر چمک رھی تھیں۔ کمھار کے حواس ابھی تک درست نہیں ھوئے تھے اور وہ کچھ بڑبڑا رھا تھا اور ھاتھ ھلا رھا تھا۔


(15)


امیر کی عدالت ابھی جاری تھی۔ جلاد کئی بار بدلے جا چکے تھے۔ جسمانی سزا پانے والے بدقسمت لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رھی تھی۔ دو مصیبت زدہ ستونوں پر چیخ رھے تھے، تیسرے کا خون آلود سر زمین پر پڑا تھا۔ لیکن لوگوں کی چیخ و پکار اور آھیں اونگھتے ہوئے امیر کے کانوں تک نہیں پہنچ پاتی تھیں ۔ وہ درباری خوشامدیوں کے کورس میں ڈوب جاتی تھیں ، تعریف کرتے کرتے جن کے گلے بیٹھ گئے تھے۔ اپنی تعریفوں میں وہ اس بات کا لحاظ رکھتے تھے کہ وزیر اعظم ، دوسرے وزراء اور ارسلان بیک کو بھی شامل کر لیں۔ حتٰی کہ وہ مورچھل بردار اور حقہ بردار کو بھی نہیں بھولتے تھے کیونکہ وہ بجا طور پر یہ سمجھتے تھے کہ ھر شخص کو خوش رکھنا ھی سلامتی کی ضمانت ھے ، کچھ کو اس لئے کہ وہ کار آمد ثابت ھوسکتے ھیں اور دوسروں کو اس لئے کہ وہ خطرناک نہ بن سکیں۔

کچھ دیر سے ارسلان بیک ایسی آوازوں کی عجیب بھن بھناھٹ بے چینی سے سن رھا تھا جو دور سے آ رھی تھیں۔ اس نے اپنے دو بہت لائق اور تجربے کار جاسوسوں کو بلایا اور کہا ”جا کر معلوم کرو کہ لوگوں میں اتنا جوش و خروش کیوں ھے۔ جاؤ اور فورا مجھے خبر دو۔“

جاسوس روانہ ھوگئے۔ ایک فقیر کے بھیس میں تھا اور دوسرا دروش بن گیا۔ لیکن قبل اس کے کہ وہ لوٹیں سود خور بھاگتا ھوا آیا۔ وہ زرد تھا اور اس کے پیر لڑکھڑا رھے تھے ۔ وہ خود اپنی قبا کے دامنوں میں پھنس رھا تھا۔

”کیا ھوا ، معزز جعفر؟“ ارسلام بیک نے گھبرا کر پوچھا۔

”مصیبت آگئی!“ سود خور نے آہ بھرتے ھوئے کہا۔ اس کے ھونٹ کانپ رھے تھے ” معزز ارسلان بیک، ھمارے اوپر بڑی بلا نازل ھو گئی ھے۔ خواجہ نصرالدین ھمارے شہر میں ھے ۔ میں نے ابھی ابھی اس کو دیکھا ھے اور اس سے باتیں کی ھیں۔“

ارسلان بیک کی آنکھیں نکل پڑیں۔ چبوترے کے زینے اس کے قدموں تلے چرچرا رھے تھے ۔ وہ دوڑ کر گیا اور اپنے نیند میں ماتے آقا کے کان میں کچھ کہا۔

امیر اس طرح چونک کر سیدھا ھوا جیسے اس کے کسی نے سوئی کچو دی ھو۔

”جھوٹ کہتے ھو!“ وہ چیخا۔ اس کا چہرہ خوف اور غصے سے بگڑ گیا ” یہ جھوٹ ھے ۔ خلیفہ بغداد نے مجھے چند ھی دن ھوئے لکھا ھے کہ انھوں نے اس کا سر قلم کروا دیا ! ترکی کے سلطان نے لکھا ھے کہ انھوں نے اسے ستون پر چڑھوا کر مار دیا! شاہِ ایران نے خود اپنے قلم سے لکھا کہ انھوں نے اس کو پھانسی دلوا دی! خان خیوا نے عام اعلان کیا ھے کہ انھوں نے زندہ اس کی کھال کھنچوالی! یہ ملعون خواجہ نصرالدین کیسے چار بادشاہوں کے ہاتھ سے بچ کر نکل سکتا ھے؟“

خواجہ نصرالدین کا نام سنتے ھی وزراء اور عمائدین کے چہرے فق ھوگئے ۔ مورچھل بردار اچھل پڑا اور اس کے ہاتھ سے مورچھل گر گئی ۔ حقے بردار کا گلا دھوئیں سے گھٹ گیا اور وہ کھانسنے لگا اور خوشامدیوں کی زبانیں مارے خوف کے تالو سے چپک گئیں۔

”وہ یہاں ھے“ ارسلان بیک نے دھرایا۔

” تم جھوٹے ھو!“ امیر نے چلا کر شاھی ھاتھ سے اس کے ایک زوردار چانٹا جڑ دیا ”تم جھوٹ کہتے ھو۔ لیکن اگر وہ واقعی یہاں ھے تو وہ بخارا میں کیسے داخل ھوا اور تمھارے پہرے داروں اور تم سے کیا فائدہ ھے ؟ تو پھر وھی ھے جس نے رات کو بازار میں سارا ھنگامہ برپا کیا! وہ لوگوں کو میرے خلاف اکسانا چاھتا تھا جبکہ تم سو رھے تھے اور کچھ نہیں سن رھے تھے!“

امیر نے ارسلان بیک کے پھر چانٹا مارا۔ ارسلان بیک نے کافی جھک کر امیر کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور کہا:

”میرے آقا ، وہ یہاں ھے۔ آپ سن نہیں رھے ھیں؟“

سور کی گھڑگھڑاھٹ رفتہ رفتہ بڑھ اور پھیل رھی تھی جیسے کوئی زلزلہ آرھا ھو۔ اور پھر عدالت کے چاروں طرف مجمع نے بھی عام ھیجان میں مبتلا ھو کر ھنگامہ شروع کر دیا۔ پہلے تو آہستہ اور مدھم آواز میں ، پھر زور سے یہاں تک کہ امیر کو محسوس ھونے لگا جیسے سارا چبوترہ اور اس کا مرصع تخت ھل رھا ھے۔ اچانک آوازوں کی بھن بھناھٹ اور گھن گرج سے ایک نام اُبھرا ، جو ایک سرے سے دوسرے سرے تک ھر شخص کی زبان پر تھا:

”خواجہ نصرالدین !“
”خواجہ نصرالدین !“

پہرے دار دھواں دھار مشعلیں لئے ھوئے توپوں کی طرف دوڑے۔ امیر کا چہرہ جذبات سے بپھرا ھوا تھا۔

”برخاست کرو!“ وہ چیخا ”محل واپس چلو!“

اپنے مرصع لباس کے دامن سمیٹتے ھوئے وہ عجلت کے ساتھ محل واپس چلا گیا۔ اس کے پیچھے خالی پالکی لئے ھوئے لڑکھڑاتے اور بھاگتے ھوئے ملازمین تھے۔ آگے نکل جانے کی کوشش میں ایک دوسرے کو ڈھکیلتے ھوئے خوف زدہ وزیر ، جلاد ، طائفے، پہرے دار ، مورچھل اور حقہ بردار سبھی اپنی جان بچانے کے لئے بھاگ رھے تھے ۔ جن کے جوتے اتر گئے تھے وہ انھیں اٹھانے کے لئے بھی نہیں رک رھے تھے۔

صرف ہاتھی ھی اپنے روایتی وقار کے ساتھ سست رفتاری سے چل رھے تھے کیونکہ امیر کے عملے میں ھونے کے باوجود ان کو آدمیوں سے ڈر نہیں لگتا تھا۔

پیتل سے منڈھے ھوئے محل کے بھاری پھاٹک امیر اور اس کے درباریوں کے داخلے کے بعد جھنکار کے ساتھ بند ھو گئے۔

اس دوران میں سارے بازار میں جو کھچا کھچ بھرا ھوا تھا خواجہ نصرالدین کے نام کی گونج گرج سنائی دے رھی تھی۔



--×---------- اختتام حصہ اول ----------×--




 

قیصرانی

لائبریرین
2ndpart.jpg


[align=left:54039a8553]
” یہ عجیب واقعات ہیں،
کچھ تو میری موجودگی ھی
میں ھوئے اور کچھ مجھ سے
معتبر اشخاص نے بیان کئے۔“

عثمان ابن منقض
” کتاب پندو نصیحت“[/align:54039a8553]



(16)​



بہت ھی قدیم زمانے سے بخارا کے کمھار شہر کے مشرقی پھاٹک کے قریب ، ایک بڑے مٹی کے ٹیلے کے اطراف میں بس گئے تھے اور ان کے لئے اس جگہ سے اور کوئی بہتر جگہ ھو بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ چکنی مٹی قریب تھی اور ایک نالی سے جو شہر کی فصیل کے برابر چلی گئی تھی پانی بھی افراط سے مل جاتا تھا۔ کمھاروں کے داداؤں ، پرداداؤں اور نگڑ داداؤں نے اس ٹیلے کو آدھا کر دیا تھا ۔ وہ اپنے گھر مٹی سے بناتے تھے، برتن مٹی سے بناتے تھے اور پھر خود بھی اعزا و اقربا کو ماتم کناں چھوڑ کر اسی مٹی میں آرام کرنے چلے جاتے تھے ۔ اور اس کے برسہا برس بعد متعدد بار ایسا ھوتا رھا کہ کسی کمھار نے کوئی برتن یا صراحی بنائی ، دھوپ میں سکھائی اور آگ میں پکائی اور اس کی صاف اور زور دار کھن کھناھٹ پر متحیر رہ گیا لیکن اسے کبھی یہ شبہ نہیں ھوا کہ کسی بہت زمانے پہلے کے بزرگ نے ، جو اپنی نسلوں کی بہبودی اور اپنے برتنوں کی بکری کی بڑی فکر رکھتا تھا ، اس مٹی کو اپنی خاک کے ایک ذرے سے پاکیزہ بناتا ھے تاکہ اس میں خالص چاندی جیسی کھنک پیدا ھو سکے۔

یہاں ایک زبردست اور پرانے چنار کے درخت کے سائے میں بالک نالی کے کنارے کمھار نیاز کا گھر تھا۔ ھوا میں پتیوں کی سرسراھٹ ھوتی تھی ، پانی قلقل کرتا بہتا تھا اور باغیچے میں صبح سے رات تک حسین گل جان کے نغمے گونجتے تھے

خواجہ نصرالدین نے نیاز کے گھر میں رھائش اختیار کرنے سے انکار کر دیا۔

” نہیں ، نیاز“ انھوں نے کہا ” میں تمھارے گھر میں گرفتار ھو سکتا ھوں۔ میں یہاں سے قریب ھی کسی محفوظ جگہ میں رات کو رھونگا جو میں نے تلاش کرلی ھے۔ دن کو آکر میں تم کو کام میں مدد کردونگا۔“

اور انھوں نے یہی کیا ۔ ھر صبح سورج نکلنے سے پہلے وہ نیاز کے یہاں پہنچ جاتے تھے اور چاک پر بڈھے کمھار کے ساتھ کام کرنے لگتے تھے۔ دنیا میں کوئی ایسا پیشہ نہ تھا جس سے خواجہ نصرالدین واقف نہ ھوں۔ کمھار کا پیشہ اچھی طرح جانتے تھے اور ان کی بنائی ھوئی صراحیوں میں چکنا پن اور گمک ہوتی تھی ۔ ان میں انتہائی گرمی کے موسم میں بھی پانی برف کی طرح ٹھنڈا رھتا تھا ۔ پہلے بڈھا کمھار جس کی نگاہ چند برسوں سے کمزور پڑنے لگی تھی ، مشکل سے روزانہ پانچ چھ گھڑے بنا پاتا تھا لیکن اب اس کے یہاں تیس چالیس اور کبھی کبھی پچاس گھڑوں اور صراحیوں کی لمبی قطار دھوپ میں سوکھتی نظر آتی۔ بازار کے دن جب بڈھا گھر لوٹتا تو اس کی تھیلی بھری ھوتی اور رات کو پلاؤ کی اشتہا انگیز مہک اس کے گھر سے ساری سڑک پر پھیل جاتی۔ پڑوسی بڈھے کی خوشحالی پر خوش ھوتے اور کہتے:

” آخر کار نیاز کے دن پھرے اور غریبی نے اس کا پنڈ چھوڑا ، خدا کرے یہ ہمیشہ کے لئے ھو !“

”کہتے ھیں کہ اس نے ایک اور کاریگر ملازم رکھا ھے جو لاجواب کسگر ھے۔“

” ھاں میں نے بھی یہ سنا ھے۔ ایک دن میں نیاز کے یہاں گیا تاکہ اس کے کاریگر اٹھا اور چلا گیا اور پھر سامنے نہیں آیا۔“

” ھاں بڈھا اپنے کاریگر کوچھپاتا ھے۔ وہ ڈرتا ھوگاکہ ھم کہیں اس کے ماھر کاریگر کو پھسلا نہ لیں۔ عجیب آدمی ھے! جیسے ھم سب کمھار بالکل بے حیا ھیں اور بڈھے کی قسمت خراب کرنے پر تلے ھیں جو ابھی تو جاگی ھے۔“

اس طرح پڑوسیوں نے معاملے کو آپس میں نبٹ لیا اور کسی کے دماغ میں یہ بات نہ آئی کہ بڈھے نیاز کا کاریگر خود خواجہ نصرالدین تھے ۔ سب کو قطعی یقین تھا خواجہ نصرالدین بہت دن ھوئے بخارا چھوڑ کر چلے گئے ھیں۔ انھوں نے خود یہ افواہ پھیلائی تھی کہ جاسوس دھوکے میں آجائیں اور تلاش و جستجو میں ڈھیل ڈال دیں ۔ اور ان کا مقصد حاصل ھو گیا تھا۔ اس کا ثبوت اس بات سے ملا کہ دس دن کے بعد شہر کے تمام پھاٹکوں سے مزید چوکیاں ھٹا لی گئیں اور رات کو گشت کرنے والے پہرے دار اب بخارا کے باشندوں کو مشعلوں کی روشنی اور ھتیاروں کی جھنکار سے پریشان نہیں کرتے تھے۔

ایک دن بڈھا نیاز خواجہ نصرالدین کی طرف ٹکٹکی لگائے دیکھتا اور کراھتا رھا اور پھر بولا:

” خواجہ نصرالدین تم نے مجھے غلامی سے اور میری بیٹی کو بے عزتی سے بچایا، تم میرے ساتھ کام کرتے ھو اور مجھ سے دس گنا۔ یہ رھے ساڑھے تین سو تانگے خالص منافع کے ۔ یہ مجھ کو ان برتنوں کی بِکری سے ملے ھیں جب سے تم نے میری مدد کرنی شروع کی۔ یہ رقم لے لو۔ یہ تو تمھارا حق ھے۔“

خواجہ نصرالدین اپنا چاک روک کر بڈھے کی طرف حیرت سے دیکھنے لگے۔

”نیاز میاں، تمھارا دماغ کچھ چل گیا ھے جو ایسی عجیب باتیں کرتے ھو۔ تم مالک ھو اور میں تمھارا کاریگر۔ اگر تم مجھے منافع کا دسواں حصہ یعنی 35 تانگے دے دو تو میرے لئے بہت کافی ھوں گے۔“

نیاز کی پرانی تھیلی لے کر انھوں نے 35 تانگے گنے اور ان کو اپنی جیب میں رکھا اور باقی بڈھے کو واپس کرنے لگا ۔ لیکن نیاز نے رقم لینے سے قطعی انکار کر دیا۔

”یہ ٹھیک نہیں ھے ، خواجہ نصرالدین، یہ رقم تمھاری ھے ۔ اگر ساری نہیں لیتے تو آدھی تو لے لو۔“

خواجہ نصرالدین کو غصہ آگیا۔

”نیاز ، اپنی تھیلی ھٹاؤ، دنیا میں جو ریت چلی آتی ھے اس کو نہ بگاڑو “

”اگر سب مالک اپنے کاریگروں سے آدھے کا ساجھا کرنے لگے تو کیا ھوگا؟ اس دینا میں نہ تو مالک رھیں گے اور نہ نوکر ، نہ امیر رھیں گے ، نہ غریب، نہ پہرے دار رھیں گے اور نہ امیر رھے گا۔ ذرا سوچو تو قدرت اس گڑبڑ کو کیسے برداشت کرسکتی ھے؟ ھم پر فورا ایک اور طوفان نوح نازل ھو جائے گا! لو، اپنی تھیلی اچھی طرح چھپا دو نہیں تو تمھارے پاگل پن کے خیالات انسانیت پر خدا کا قہر نازل کر دینگے اور ساری بنی نوعِ انسان تباہ ھو کر رہ جائے گی۔“

یہ کہہ کر خواجہ نصرالدین نے پھر اپنا چاک چالو کر دیا۔


” یہ بہترین گھوڑا ھوگا“ انھوں نے ہاتھوں سے نم مٹی کو تھپ تھپاتے ھوئے کہا ”یہ ھمارے امیر کے سر کی طرح بجتا ھے۔ میں یہ گھڑا لیکر محل جاؤنگا۔ ان کو اسے رکھنا چاھئے، ممکن ھے کہ امیر کا سر غائب ھو جائے۔“

” دیکھو، خواجہ نصرالدین ، کہیں تمھارا سر ایسی باتوں کی وجہ سے کسی دن نہ غائب ھو جائے۔“


”ارے، تمھارے خیال میں خواجہ نصرالدین کا سر غائب کرنا ایسا آسان ھے؟“
 

قیصرانی

لائبریرین
ھوں میں خواجہ نصرالدین، آزاد سدا کا
یہ جھوٹ نہیں، میں نہ مرا ھوں نہ مرونگا

تیشے کو تیز کرکے کہتا ھے مجھے امیر
لٹیرا، فتنہ عالم، زمانے کا شریر

ھوں میں خواجہ نصرالدین، آزاد سدا کا
یہ جھوٹ نہیں، میں نہ مرا ھوں نہ مرونگا

میں زندہ رہ کر گاونگا
روشن دنیا میں موج اڑاؤں گا

دنیا بھر میں نعرہ یہ لگاؤنگا
"مردہ باد امیر، مردہ باد!"

ھاں سلطان بھی کہتا ھے میرا سر کٹوانے کو
اور شاہ نے فرمایا مجھ کو پھانسی پر لٹکانے کو

خیوا میں ھے تیار چتا میرے جلانے کو

ھوں میں خواجہ نصرالدین، آزاد سدا کا
یہ جھوٹ نہیں، میں نہ مرا ھوں نہ مرونگا

غربت کا مارا، آوارہ ھوں ضرور
پر فکر پھٹکتی نہیں نزدیک و دور

جگت کی آنکھ کا تارا
قسمت کا راج دلارا

ھوں گے سلطان و خان و امیر
سب کو جوتی کی نوک پہ مارا

ھوں میں خواجہ نصرالدین، آزاد سدا کا
یہ جھوت نہیں، میں نہ مرا ھوں نہ مرونگا

نیاز کی پیٹھ کے پیچھے گل جان کے ھنستے ھوئے چہرے کی جھلک انگور کی بیلوں میں دکھائی دی۔ خواجہ نصرالدین کا گیت بیچ میں رک گیا اور گل جان سے رمز و کنائے ھونے لگے۔

"تم کیا دیکھ رھے ھو؟" نیاز نے پوچھا "ادھر کیا دیکھ رھے ھو؟"

"میں جنت کی چڑیا دیکھ رھا ھوں، دنیا کی حسین ترین چڑیا!"

بڈھا کراھتے ھوئے پچھے مڑا لیکن گل جان ھری بھری بیلوں کے درمیان غائب ھوچکی تھی اور صرف دور سے نقرئی ھنسی کی جھنکار سنائی دے رھی تھی۔ بڑی دیر تک بڈھا تیز دھوپ کی روشنی سے بچنے کے لئے اپنی کمزور آنکھوں پر ھاتھ کا سایہ کرکے ھر طرف گھورتا رھا لیکن اسے صرف ایک گوریا دکھائی دی جو ایک شاخ سے دوسری شاخ پر پھدک رھی تھی۔

"ھوش کی دوا کرو، خواجہ نصرالدین، کیسی جنت کی چڑیا، یہ تو گوریا ھے!"

خواجہ نصرالدین نے دل کھولکر کر ٹھٹھا لگایا۔ بےچارہ نیاز اس خوشی کیوجہ نہ سمجھکر سر ھلاتا رھا۔

رات کو کھانے کے بعد جب خواجہ نصرالدین چلے گئے تو نیاز چھت پر ھلکی ٹھنڈی ھوا میں لیٹ گیا۔ جلد ھی خراٹے لینے لگا۔ اب نیچی باڑ کے پیچھے سے کھنکھارنے کی آواز آئی۔ خواجہ نصرالدین لوٹ آئے تھے۔

"سو گئے ھیں" گل جان نے چپکے سے کہا۔

ایک چھلانگ میں وہ باڑ کے اس پار تھے۔

وہ تالاب کے کنارے حور کے درختوں کے سائے میں بیٹھ گئے۔ ان کو لگا جیسے درخت اپنے لمبے سبز لباسوں میں لیتے ھلکے ھلکے سے اونگھ رھے ھیں۔ صاف آسمان پر چاند چمک رھا تھا اور چاندنی نے ھر چیز کو پراسرار نیلگوں بنا دیا تھا۔ بہتا ھوا پانی گنگنا رھا تھا اور روشنی کی کرنوں سے کہیں کہیں چمک اٹھتا تھا اور پھر سائے میں غائب ھو جاتا تھا۔

گل جان بھرپور چاندنی میں خواجہ نصرالدین کے ساتھ کھڑی تھی۔ وہ خود ماہ کامل کی طرح نورانی تھی۔ نازک اور لچکیلی، اپنی زلفوں کے پیچ و خم میں لپٹی ھوئی۔ خواجہ نے چپکے سے کہا:

"میں تجھے پیار کرتا ھوں، میری ملکہ، صرف تجھ سے پہلی مرتبہ میں نے پیار کیا ھے، میں تیرا غلام ھوں، تیرے آنکھ کے اشارے پر چلنے کے لئے تیار ھوں۔میں ساری زندگی تیرا انتظار کرتا رھا ھوں اور اب میں نے تجھے ڈھونڈ نکالا ھے۔ میں تجھے کبھی دل سے نہیں نکلا سکتا۔ میری زندگی تیرے بغیر ممکن نہیں ھے!"

"مجھے یقین ھے کہ تم یہ بات پہلی بار نہیں کہہ رھے ھو" گل جان نے حسد آمیز لہجے میں کہا۔

"میں؟" خواجہ نے ناراضگی سے کہا " ارے گل جان! تو نے یہ بات کیسے کہی؟"

خواجہ کی باتوں میں اتنا خلوص تھا کہ گل جان نے ان پر اعتبار کرلیا۔ وہ نرم پڑ گئی اور خواجہ کے پاس مٹی کے چبوترے پر بیٹھ گئی۔ انھوں نے اس کا ایسا طویل بوسہ لیا کہ وہ ھانپ گئی۔

"سنو" گل جان نے ذرا رک کر کہا "ھمارے ھاں یہ رواج ھے کہ جس لڑکی کو چومتے ھیں اسے کوئی تحفہ دیتے ھیں اور تم ھو کہ مجھے ایک ھفتے سے زیادہ سے چوم چاٹ رھے ھو لیکن ایک تاگہ تک نہیں دیا۔"

"صرف اس وجہ سے کہ میرے پاس پیسے نہیں تھے" خواجہ نصرالدین نے جواب دیا "لیکن آج تمھارے باپ نے مجھے تنخواہ دی ھے اور کل میں تمھارے لئے ایک اچھا سا تحفہ لاؤنگا۔ تمھیں کیا پسند ھے۔ ھار یا رومال یا پھر یاقوت کی انگوٹھی؟"

"اس کی کوئی بات نہیں" گل جان نے چپکے سے کہا "اس کی کوئی بات نہیں ھے، پیارے، مجھے تو تمھارے تحفے سے مطلب ھے۔ مجھے تو تم سے اسی دن محبت ہوگئی تھی جب تم بازار میں ھمارے پاس آئے تھے اور جب تم نے اس پاجی سود خور کو بھگا دیا تھا تو یہ محبت اور بھی زیادہ ھوگئی۔"

نالی میں نیلگوں پانی گنگناتا رھا اور صاف آسمان پر روشن ستارے جھلملاتے رھے۔ خواجہ نصرالدین لڑکی سے اور ٹھس کر بیٹھ گئے اور اپنی ھتھیلی اس کے گرم سینے پر رکھ دی۔ ان کے اوپر ایک مدھوشی کا عالم طاری ھوگیا کہ اچانک ان کو ایسا محسوس ھوا کہ جیسے ان کی آنکھوں سے چنگاریاں چھوٹ رھی ھیں۔ ان کا گال ایک زور کے تھپڑ سے جل اٹھا۔ انھوں نے پیچھے کھسک کر اپنے کو ھاتھ آڑا کرکے بچایا۔ گل جان غصے سے اٹھ کر کھڑی ھوئی۔

"میرے خیال میں میں نے ایک تھپڑ کی آواز سنی ھے" خواجہ نصرالدین نے سہم کر کہا۔ "اگر زبان سے کہنے سے کام چل جائے تو بھلا مار پیٹ کی کیا ضرورت ھے؟"

"زبان سے!" گل جان نے بات کاٹتے ھوئے کہا "یہی بڑی بری بات ھے کہ میں نے شرم و حیا کو طاق پر رکھ کر تمھارے سامنے نقاب اتار دی۔ پھر تمھارے لمبے ھاتھ وہاں تک پھیلنے لگے جہاں تک نہ چاھئے۔"

"اور مہربانی کرکے یہ تو بتاؤ کہ یہ فیصلہ کس نے کیا ھے کہ کہاں تک ھاتھوں کو پھیلانا چاھئے اور کہاں تک نہیں؟" خواجہ نصرالدین نے حاضر جوابی سے کہا لیکن وہ کافی گھبرائے ھوئے تھے "اگر تم نے دانش مند ابن طفیل کی کتابیں پڑھی ھوتیں۔۔۔"

"شکر ھے خدا کا" گل جان نے غصے میں بیچ میں بولتے ھوئے کہا "شکر ھے خدا کہ میں نے ایسی آوارگی کی کتابیں نہیں پڑھیں ھیں۔ میں اپنی عصمت کی حفاظت اسی طرح کرتی ھوں جیسی ایک اچھی لڑکی کو کرنی چاھئے۔"

وہ اس کی طرف سے مڑ کر چلی گئی۔ زینے اس کے ھلکے قدموں تلے چرچرائے اور جلد ھی بالکونی کی جھلملیوں سے روشنی چمکنے لگی۔

"میں نے اس کے جذبات کو ٹھیس لگا دی" خواجہ نصرالدین نے سوچا "میں کیسا احمق ھوں۔ خیر کوئی بات نہیں۔ مجھے یہ تو پتہ چل گیا کہ وہ کیسے مزاج کی ھے۔ اگر وہ میرے گال پر چانٹا رسید کرسکتی ھے تو اس کا مطلب ھے کہ وہ دوسرے کے بھی تھپڑ مارسکتی ھے اور وہ وفادار بیوی ھوگی۔ ھاں، اگر شادی کے بعد وہ دوسرے مردوں کے ساتھ اپنے تھپڑوں سے ایسے ھی فیاضی برتے تو میں شادی سے پہلے اس کے سیکڑوں چانٹے سہنے کو تیار ھوں۔"

وہ پنجوں کے بل بالکونی تک گئے اور دھیمے سے پکارا:

"گل جان!"

کوئی جواب نہیں ملا۔

"گل جان!"

مہک، تاریکی اور خاموشی۔ خواجہ نصرالدین افسردہ ھوگئے۔ انھوں نے ایسی مدھم آواز میں گانا شروع کردیا کہ بڑے میاں کی نیند نہ کھلے:

چرالے گئیں دل تیری حسین پلکیں
گراتی ھو اپنی نظروں سے

اور چراتی ھو اپنی پلکوں سے
اور ستم پر ستم تو دیکھو

ھمیں سے معاوضے کی طالب
اچھا، کچھ پیار ھو جائے

آؤ، بوس و کنار ھوجائے
لیکن ان کا تلخ شربت

بھڑکاتا ھے شعلہ الفت
دروبام بند کئے مجھ پر

زندگی حرام کی مجھ پر
اب نیند کہاں سے لاؤں

بتاؤ، چین کہاں سے پاؤں
تیری اک نگاہ کی آرزو

تیر بے پناہ کی آرزو
تیری زلف مشک بو کا شیدائی
تیری گیسوئے عنبریں کا سودائی
اس طرح وہ گاتے رھے اور حالانکہ نہ تو گل جان آئی اور نہ اس نے کوئی جواب دیا لیکن خواجہ جانتے تھے کہ وہ توجہ سے سن رھی ھے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ایسے گیت سے ھر عورت ضرور متائثر ھوگی اور ان کا خیال ٹھیک ھی تھا۔ کواڑ کا پٹ تھوڑا سا کھلا۔

"آجاؤ" گل جان نے چپکے سے کہا "ذرا چپکے سے آنا، کہیں ابا کی آنکھ نہ کھل جائے۔"

وہ زینوں پر چڑھ گئے اور اب اس کے پاس بیٹھے تھے۔ چربی سے بھرے ھوئے چراغ کی لو صبح تک لہراتی اور جلتی رھی۔ وہ باتیں کرتے رھے لیکن ان کا دل نہیں بھرا۔ مختصر یہ کہ سب کچھ وھی ھوا جیسا کہ ھونا چاھئے اور جیسا کہ ابو محمد علی ابن حزم نے اپنی کتاب "قمری کے ھار" کے محبت کی فطرت والے باب میں بیان کیا ھے۔

"محبت، اللہ اس کو سلامت رکھے، ایک کھیل کی طرح شروع ھوتی ھے لیکن بہت سنگین معاملے پر ختم ھوتی ھے۔ وہ اتنی اعلٰی خوبیوں کی حامل ھے کہ ان کا بیان امکان سے باھر ھے اور اس کے اصل جوھر کو سمجھنا مشکل ھے۔ جہاں تک اس کا سوا ھے کہ محبت زیادہ تر حسن ظاھر کی وجہ سے کیوں ھوتی ھے تو اس کا سمجھنا مشکل نہیں ھے کیونکہ روح خود حسین ھے اور بے عیب شکل و صورت کی طرف کھینچتی ھے۔ ایسی شکل کو دیکھ کر روح اس کا جائزہ لیتی ھے اور اگر سطح سے نیچے بھی کوئی ایسی چیز نظر آتی ھے جو اس سے یگانگت رکھتی ھے تو سنجوگ ھوجاتا ھے اور پھر سچی محبت جنم لیتی ھے۔ واقعی، ظاھری شکل و صورت حیرت انگیز طریقے سے روح کے دور افتادہ ذرات کو بھی متحد کردیتی ھے!"
 

قیصرانی

لائبریرین
(۱۷)​

چھت پر بڈھے نے کروٹ لی۔ وہ چھینکا اور کھانسا اور نیند ھی میں گلج ان سے پینے کے لئے ٹھنڈا پانی لانے کو کہا۔ گل جان نے خواجہ کو دروازے کی طرف ڈھکیلا اور وہ زینوں پر اس طرح بھاگے کہ ان کے پیر مشکل سے قدمچوں کو چھو رھے تھے۔ پھر وہ کود کر باڑ کے پار ھوگئے اور تھوڑی دیر بعد، وہ قریب کی نہری نالی سے منہ دھو کر اور اپنی قبا کے دامن سے چہرہ پونجھ کر پھر لکڑی کے پھاٹک کو کھٹکھٹا رھے تھے۔

"صبح بخیر، خواجہ نصرالدین" بڈھے نے چھت ھی پر سے ان کو خوش آمدید کہا "پچھلے چند دنوں سے تم کتنے سویرے اٹھنے لگے ھو۔ تم سوتے کب ھو۔ اچھا، کام شروع کرنے سے پہلے ھم چائے پی لیں۔"

دوپہر کو خواجہ بڈھے کو چھوڑ کر گل جان کے لئے دوپہر لئے تحفہ خریدنے بازار گئے۔ انھوں نے حسب معمول یہ احتیاط کی کہ بدخشاں کا رنگین عمامہ باندھا اور مصنوعی داڑھی لگا لی۔ اس بھیس میں وہ پہچانے نہیں جاسکتے تھے اور جاسوسون سے نڈر ھوکر وہ دوکانوں اور چائے خانوں میں جاسکتے تھے۔

انھوں نے مونگے کا ایک ھار منتخب کیا جس کے رنگ نے ان کو اپنی محبوبہ کے ھونٹوں کی یاد دلا دی۔ جوھری معقول آدمی ثابت ھوا اور صرف ایک گھنٹہ خوب طے توڑ کرکے خواجہ نے تیس تانگے کا ھار خریدا۔

واپسی میں خواجہ نصرالدین نے بازار کی مسجد کے قریب بڑی بھیڑ دیکھی۔ لوگ گھس گھس کر ایک دوسرے کے کندھوں کے اوپر سے اپنی گردنیں نکال کر دیکھ رھے تھے۔ جب وہ قریب پہنچ گئے تو انھوں نے ایک درست اور تیز آواز سنی:

"مومنو، خود دیکھ لو! اس پر فالج گرا ھے او ریہ دس سال سے بے حس و حرکت پڑا ھے۔ اس کے تمام عضو مفلوج اور ٹھنڈے پڑ چکے ھیں۔ دیکھو، یہ اپنی آنکھیں تک نہیں کھولتا۔ یہ بہت دور سے ھمارے شہر آیا ھے۔ خدا ترس رشتے دار اور دوست اسے یہاں صرف اس علاج کے لئے لے آئے ھیں جس کے سوا اور کچھ ممکن نہیں ھے۔ ایک ھفتےمیں مقدس ترین اور بے مثال بزرگ حضرت بہاالدین کے عرس کے دن اس کو مزار کے زینوں پر لٹادیا جائے گا۔ اس طرح اندھے، لنگڑے اور صاحب فراش مریض متعدد بار شفا پاچکے ھیں۔ اس لئے اے مومنو آئیے ھم دعا کریں کہ مقدس شیخ اس پر رحم کھائیں اور اس بدقسمت انسان کو شفا عطا فرمائیں۔"

مجمع نے دعا پڑھی اور پھر اس تیز آواز نے شروع کیا:

"مومنو، خود دیکھ لو! اس پر فالج گرا ھے او ریہ دس سال سے بے حس و حرکت پڑا ھے!"

خواجہ نصرالدین نے دھکم پیل کرکے مجمع میں اپنے لئے راستہ بنایا اور پنجوں پر کھڑے ھو کر ایک لمبا، سوکھا سا ملا دیکھا جس کی آنکھوں میں کمینگی جھلک رھی تھی۔ اس کی داڑھی چھدری تھی۔ وہ چلا چلا کر بیماروں کی ایک ڈولی کی طرف انگلی سے اشارہ کر رھا تھا جس پر مفلوج آدمی پڑا تھا۔

"دیکھو، اے مسلمانو! دیکھو، یہ کیسا قابل رھم اور بدقسمت آدمی ھے! لیکن ایک ھفتے میں مقدس بہاالدین اس کو شفا بخشیں گے اور اس کو دوبارہ زندگی عطا فرمائین گے!"

مفلوج آدمی پڑا تھا، اس کی آنکھیں بند تھیں اور ایک افسردہ اور قابل رحم تائثر اس کے چہرے پر تھا۔ خواجہ نے حیرت سے آہ ب ھری۔ وہ ھزاروں آدمیوں میں بھی یہ چیچک بھرا چہرہ اور چپٹی ناک پہنچا سکتے تھے۔ بظاھر یہ آدمی کافی دن سے مفلوج تھا کیونکہ سستی اور بے کاری سے وہ زیادہ موٹا ھو گیا تھا۔

اس دن سے جب بھی خواجہ نصرالدین اس مسجد کی طرف سے گزرتے وہ ھمیشہ ملا اور مفلوج کو وھاں ضرور پاتے جس کا چیچک دار چہرہ روز بروز زیادہ موٹا اور چکنا ھوتا جا رھا تھا۔

آخر کار مقدس شیخ کے عرس کا دن آیا۔ یہ پرانی روایت چلی آتی ھے کہ ان کی وفات مئی کے مہینے میں ٹھیک دوپہر کو ھوئی تھی اور حالانکہ دن بہت صاف تھا اور آسمان پر بادل کا کوئی ٹکڑا تک نہ تھا لیکن ان کی موت کے وقت سورج سیاہ پڑ گیا اور زمین کانپنے لگی اور بہت سے گنہ گاروں کے مکانات مسمار ھو گئے جن میں یہ گنہ گار بھی دفن ھوگئے تھے۔ یہ تھی وہ کہانی جو ملا لوگ مسجدوں میں کہتے تھے اور مسلمانوں سے اپیل کرتے تھے کہ وہ شیخ کے مزار پر ضرور آئین اور ان کو خراج عقیدت پیش کریں تاکہ ان کا شمار منکروں میں نہ ھو اور ان کا حشر بھی ان گنہ گاروں جیسا نہ ھو۔

رات رھے سے ھی زائرین روانہ ھونا شروع ھو گئے اور سورج نکلتے نکلتے مقبرے کے چاروں طرف بڑے میدان میں زبردست مجمع ھوگیا اور بہت سے لوگ ابھی چلے آرھے تھے۔ پرانے رواج کے مطابق سب ننگے پیر تھے۔ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو دور دراز سے آئے تھے۔ خصوصا متقی اور پرھیز گار اور ایسے لوگ جنھوں نے سنگین گناہ کئے تھے اور بخشائش کے امیدوار تھے۔ شوھر اپنی بانجھ بیویوں کو لائے تھے، مائیں بیمار بچوں کو لئے تھیں، بڈھے بیساکھیوں کے سہارے چل کر آئے تھے۔ تھوڑے فاصلے پر کوڑھیوں کا مجمع تھا جو آس لگئے مقبرے کے سفید گنبد کی طرف دیکھ رھے تھے۔

عبادت کافی دیر تک شروع نہیں ھوئی کیونکہ امیر کا انتظار تھا۔ مجمع تپتی ھوئی دوپہر میں ٹھسا ٹھس کھڑا تھا۔ کوئی بیٹھنے کی جرآت نہیں کرسکتا تھا۔ ان کی انکھوں میں حریص اور گرسنہ شعلے تھے۔ دنیاوی مسرتوں پر ان کا عقیدہ اٹھ گکا تھا، آج وہ کسی معجزے کی توقع کرتے تھے اور ھر زور کی آواز پر چونک پڑتے تھے۔ شدید اشتیاق ناقابل برداشت ھو گیا تھا اور دو درویش تشنج میں مبتلا ھوکر دانتوں سے مٹی کھرچ رھے تھے، ان کے منہ سے جھاگ نکل رھا تھا۔ مجمع میں ھلچل تھی، ھر طرف عورتیں چیخ اور رو رھی تھیں۔ اچانک ھزاروں گلوں سے ایک غلغلہ بلند ھوا:

"امیر! امیر!"

مجمع کے درمیان راستہ بنانے کے لئے شاھی پہرےداروں نے ڈنڈوں سے کام لیا اور اس چوڑے راستے پر امیر ننگے پیر، سر جھکائے، استغراق کی حالت میں دنیا کے ھنگامے سے بے خبر اور بے نیاز زیارت کے لئے چلا جا رھا تھا۔ خدام تیزی کے ساتھ ادھر ادھر دوڑ کر اس کے پیچھے قالین لپیٹتے جاتے تھے اور پھر ان کو تیزی سے آگے لے جا کر بچھاتے تھے۔

اس نظارے کو دیکھ کر بہت سے لوگوں پر رقت طاری ھو رھی تھی اور ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ امیر اس مٹی کے چبوترے پر چڑھا جو مزار کے دامن میں تھا۔ جانماز اس کے سامنے بچھا دی گئی اور اپنے وزیروں کی مدد سے جو دونوں پہلوؤں سے اس کو سنبھالے تھے امیر اس پر گھٹنوں کے بل جھک گیا۔ سفید عباؤں میں ملبوس ملاؤں نے ایک نیم حلقہ سا بنا لیا اور اپنے ھاتھ گرمی سے سنولائے ھوئے آسمان کی طرف اٹھا کر دعا پڑھنا شروع کردی۔

یہ عبادت ختم ھی نہیں ھو رھی تھی۔ بیچ بیچ میں وعظ ھوتے۔ خواجہ نصرالدین مجمع سے چپکے سے کھسک گئے اور اس الگ تھلگ چھوٹے سے گھر کی طرف چلے جہاں اندھے، لنگڑے اور صاحب فراش مریض تھے جن سے آج کے دن شفا کا وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ اپنی باری کے منتظر تھے۔

اس مکان کے دروازے پٹوپٹ کھلے تھے۔ متجسس لوگ اندر جھانک کر دیکھتے اور آپس میں تبادلہ خیال کرتے۔ جو ملا یہاں ڈیوٹی پر تھے وہ چڑھاوے کے لئے بڑے بڑے تابنے کے طبق لئے کھڑے تھے۔ بڑا ملا کہہ رھا تھا:

"۔۔۔اور اس وقت سے تقدس مآب شیخ بہاالدین مقدس بخارا اور اس کے آفتاب زماں امیروں پر سدا کے لئے مستقل طور پر مہربان ھیں۔ اور ھر سال اس دن مقدس بہاالدین ھم کو، خدا کے حقیربندوں کو معجزے دکھانے کی طاقت عطا فرماتے ھیں۔ یہ تمام اندھے، لنگڑے، آسیب زدہ اور معذور لوگ شفا پانے کے منتظر ھیں اور ھمیں امید ھے کہ ھم مقدس بہاالدین کی عنایت سے ان کو مصیبتوں سے نجات دلا سکیں گے۔"

ایسا معلوم ھوتا تھاجیسے ان باتون کے جواب میں مکان سے رونے، چیخنے اور دانت کٹکٹانے کی آواز آرھی ھے۔ اپنی آواز بنلد کرتے ھوئے ملا نے بیان جاری رکھا:

"اے مومنو، دل کھولکر مسجدوں کی آرائش کے لئے دو، آپ کی خیرات خدا کے یہاں مقبول ھوگی۔"

خواجہ نصرالدین نے مکان کے اندر جھانک کر دیکھا۔ دروازے کے قریب چیچک رو موٹا نوکر ڈولی پر لیٹا ھوا تھا۔ دھندلکے میں اس کے پیچھے بہت سے لوگ بیساکھیوں کے سہارے کھڑے، پٹیوں میں لپٹے یا ڈولیوں پر پڑے تھے۔ اچانک مقبرے کی طرف سے بڑے ملا کی آواز گونجی جس نے ابھی وعظ ختم کیا تھا۔

"اندھے کو! اندھے کو میرے پاس لاؤ۔"

خواجہ نصرالدین کو راستے سے ڈھکیلتے ھوئے ملا امس بھرے تاریک مکان میں گھس گئے اور ایک فقیروں کی طرح چھیتھڑوں لگے اندھے کو اپنے ساتھ باھر لائے۔ وہ ھاتھ پھیلا کر ٹٹولتا اور پتھروں پر ٹھوکریں کھاتا چل رھا تھا۔

اندھا بڑے ملا کے پاس پہنچا، اس کے سامنے منہ کے بل گر پڑا اور مقبرے کی چوکھٹ کو بوسہ دیا۔ بڑے ملا نے اس کے سر پر ھاتھ رکھا اور آنکھ جھپکاتے وہ بینا ھوگیا۔

"میں دیکھ سکتا ھوں! میں دیکھ سکتا ھوں!" وہ زوروں سے کانپتی آواز میں چیخنے لگا "مقدس بہاالدین! میں دیکھ سکتا ھوں، دیکھ سکتا ھوں، ارے زبردست اور حیرت انگیز معجزہ ھے!"

عبادت کرنے والوں کے ایک بڑے مجمع نے اس کو گھیر لیا اور چاؤں چاؤں کرنے لگے۔ بہت سے لوگ اس کے قریب آکر پوچھنے لگے:

"اچھا بتاؤ، میں نے کون سا ھاتھ اٹھایا ھے، دایاں یا بائیاں؟"

اس نے صحیح جواب دئے جس سے سب لوگ مطمئین ھو گئے کہ اس کو شفا ھوئی ھے۔

اب ملاؤں کی پوری فوج کی فوج تابنے کے طبق لیکر مجمع میں یہ چلاتی ہوئی گھس گئی:

"اے سچے مومنو، تم نے اپنی آنکھوں سے معجزہ دیکھ لیا۔ کچھ مسجدوں کی آرائش کے لئے دو!"

سب سے پہلے امیر نے مٹھی بھر اشرفیاں طبق میں پھینکیں۔ پھر وزیروں اور عمائدین کی باری آئی جنھوں نے ایک ایک اشرفی دی۔ اب مجمع نے بڑی فیاضی کے ساتھ چاندی اور تابنے کے سکوں کی بارش شروع کردی۔ طبق جلد ھی بھر گئے اور ملاؤں کو انہیں تین بار بدلنا پڑا۔

جیسے ھی چندے کا سیلاب دھیما پڑا ایک لنگڑا آدمی مکان سے لایا گیا۔ وہ بھی مقبرے کی چوکھٹ چومتے ھی فورا تندرست ھوگیا اور اپنی بیساکھیاں پھینک پیر اچھال اچھال کر ناچنے لگا۔ اور پھر ملا خالی تھالیاں لئے یہ پکارتے ھوئے آگے بڑھے "خیرات کیجئے، سچے مومنو!"

ایک سفید داڑھی والا ملا خواجہ نصرالدین کے پاس پہنچا جو اپنے خیالات میں ڈوبے تھے اور ان کی آنکھیں مریضوں والے مکان پر لگی تھیں۔

"اے سچے مومن، تو نے یہ زبردست معجزہ دیکھا ھے۔ خیرات کر، اللہ اس کا اجر دے گا!"

اس طرح زور سے بولتے ھوئے کہ ان کے قریب کے لوگ سن سکیں خواجہ نصرالدین نے جواب دیا "تم اس کو معجزہ کہہ کر مجھ سے پیسے اینٹھنا چاھتے ھو۔ پہلی بات تو یہ ھے کہ میرے پاس پیسے نہیں ھیں اور دوسری بات یہ ھے ملا جی کہ میں بھی بہت بڑا بزرگ ھوں اور اس سے بڑا معجزہ دکھا سکتا ھوں!"

"تو مرتد ھے!" ملا نے غصہ سے کہا "مسلمانو، اس کی بات مت سنو، اس کے منہ میں شیطان بیٹھ گیا ھے!"

خواجہ نصرالدین نے مجمع کی طرف رخ کرکے کہا:

"ملا کو یہ یقین نہیں ھے کہ میں معجزہ دکھا سکتا ھوں۔ میں نے جو کچھ کہا ھے اس کا ثبوت دونگا۔ اس مکان میں اندھے، لنگڑے، بیمار اور معذور جمع ھیں اور میں ان سب کو بلا چھوئے ھوئے اچھا کرنے کی ذمہ داری لیتا ھوں۔ میں صرف دو لفظ کہوں گا اور بس وہ چنگے ھو جائیں گے۔ وہ ادھر ادھر پھیل جائیں گے اور اتنے تیز بھاگیں گے کہ صبا رفتار عرب گھوڑا بھی ان کو نہ پکڑ سکے گا۔"

مکان کی دیواریں پتلی تھیں اور جس مٹی کی وہ بنی ھوئی تھیں وہ کئی جگہوں پر کافی چٹخ گئی تھی۔ خواجہ نصرالدین نے ایک ایسی جگہ منتخب کرلی تھی جہاں دیوار میں کئی دراڑیں تھیں اور انھوں نے یہاں اپنے بازو سے اسے دھکا دیا۔ مٹی ٹوٹ گئی۔ تھوڑی سی لیکن پراسرار سرسراہٹ ھوئی۔ انھوں نے اور زور سے ڈھکیلا اور دیوار کا ایک بڑا حصہ دھڑام سے گر گیا۔ گری ھوئی تاریک جگہ سے زبردست گرد کا بادل اٹھا۔

"زلزلہ! بھاگو!" خواجہ نصرالدین زور سے چلائے۔ انھوں نے دیوار کا ایک اور حصہ گرا دیا۔

جھونپڑی کے اندر ایک لمحہ تو بالکل خاموشی رھی اور پھر ھنگامہ ھوگیا۔ چیچک رو مفلوج سب سے پہلے دروازے کی طرف معہ اپنی ڈولی کے بھاگا لیکن اس کی ڈولی دروازے میں پھنس گئی اور دوسروں کے لئے راستہ رک گیا۔ اندھے، لنگڑے اور معذور ایک دوسرے کو ڈھکیلنے، ھنگامہ کرنے اور چلانے لگے۔ جب خواجہ نصرالدین نے دیوار کا تیسرا حصہ گرادیا تو مریضوں نے ایک زبردست ریلے سے چیچک رو آدمی، دروازہ اور اس کے چوکھٹ وغیرہ کو اکھاڑ پھینک دیا اور اپنی معذوری کو بھول کر چاروں طرف نکل بھاگے۔

مجمع غل مچا رھا تھا، سیٹیاں بجا رھا تھا، ھنس رھا تھا اور مذاق اڑا رھا تھا۔ خواجہ نصرالدین نے اس مجمع کی کاؤں کاؤں کے اوپر اپنی آواز بلند کی:

"مسلمانو! تم نے دیکھ لیا نا۔ میں نے یہ بات بالکل بجا کہی تھی کہ وہ چند الفاظ سے شفایاب ھوسکتے ھیں!"

اب وعظوں سے کسی کو دلچسپی نہیں رھی۔ ھر طرف سے لوگ ادھر دوڑنے لگے۔ جب ان کو واقعہ معلوم ھوتا تو وہ خوب قہقہے لگاتے اور قصہ دوسروں سے بیان کرتے۔ تھوڑی ھی دیر میں معتقدین کے پورے معجمع میں مکان والے واقعہ کی خبر گشت کرگئی اور جب بڑے ملا نے اپنا ھاتھ اٹھا کر خاموشی کے لئے کہا تو مجمع نے اس کا جواب لعنت ملامت، شوروغل اور سیٹیوں سے دیا۔

اور پھر جیسے اس یادگار دن بازار میں ھوا تھا مجمع میں کھسر پھسر اور ھنگامہ اور چرچا ھونے لگا:

"خواجہ نصرالدین! واپس آگئے ھیں وہ! وہ یہاں ھیں، ھمارے خواجہ نصرالدین!"

آوازوں اور فقروں سے گھبرا کر ملا لوگ اپنے طبق چھوڑ کر مجمع سے بھاگ کھڑے ھوئے۔

اس وقت تک خواجہ نصرالدین دور پہنچ چکے تھے۔ انھوں نے اپنا رنگین عمامہ اور مصنوعی داڑھی قبا میں چھپا لی کیونکہ اب ان کو جاسوسوں سے مڈبھیڑ ھونے کا کوئی خطرہ نہیں ھتا جو مقبرے کے اطراف میں مصروف تھے۔

بہرحال، وہ یہ نہ دیکھ سکے کہ جعفر سودخور گھروں کے کناروں اور سڑک کے درختوں کی آڑ لے کر ان کا پیچھا کر رھا ھے۔

ایک سنسان گلی میں خواجہ نصرالدین باڑ کے پاس گئےاور ھاتھوں کے بل اوپر اٹھکر ھلکے سے کھنکھارے۔ فورا ھی ھلکے قدموں کی چاپ سنائی دی اور زنانی آواز آئی:

"تم ھو، پیارے؟"

درخت کے پچھے سے جہاں سود خور چھپا ھوا تھا اس کو حسین گل جان کی آواز پہنچاننے میں کوئی دشواری نہ ھوئی۔ پھر اس نے کھسر پھسر، ھلکی ھنسی اور بوسوں کی آواز سنی۔

"اچھا تو تم نے اس کو مجھ سے اپنے لئے چھینا تھا!" سود خور نے بہت جل کر سوچا۔

گل جان سے رخصت ھوکر خواجہ نصرالدین اتنی تیزی سے نکل گئے کہ سود خور ان کا پیچھا نہ کرسکا اور تنگ گلیوں کی بھول بھلیوں میں ان کا نشان کھو بیٹھا۔

"اچھا اب تو اس کی گرفتاری کا انعام مجھے ملنے سے رھا" سود خور نے پریشان ھو کر سوچا "لیکن کوئی بات نہیں! خواجہ نصرالدین ھوشیار رھنا، میں تم سے اس کے لئے عبرتناک انتقام لوں گا۔"
 

قیصرانی

لائبریرین
(۱۸)​

امیر کے خزانے کو زبردست خسارہ ھوا۔ پچھلے برسوں کے مقابلے میں حضرت بہا الدین کے مقبرے سے رقم کا دسواں حصہ بھی نہیں آیا۔ اور اس سے بری بات تو یہ تھی کہ لوگوں کے دماغوں میں دلیرانہ آزاد خیالی کی پھر سے آبیاری ھوگئی۔ جاسوسوں نے مخبری کی کہ مقبرے کے واقعے کی خبر ریاست کے کونے کونے تک پہنچ گئی اور اس کے نتائج بھی برآمد ھوئے۔ تین گاؤں میں باشندوں نے مسجدوں کی تکمیل سے انکار کردیا اور چوتھے میں انھوں نے اپنے ملا کو بہت ذلیل کرکے نکال دیا۔

امیر نے وزیراعظم بختیار کو حکم دیا کہ وہ دیوان یعنی ریاستی کونسل کا جلسہ طلب کرے۔ کونسل کا جلسہ محل کے باغ میں ھوا۔ یہ بھی عجیب و غریب باغ تھا، دنیا کا سب سے حسین باغ۔ شاندار چھتنارے درختوں پر نایاب پھل لگے تھے۔ بہت سے اقسام کے شفتالو، بادام، آلوچے، انجیر اور نارنگیاں اور بہت سے دوسرے پھل جن کا بیان مشکل ھے۔ گلاب اور طرح طرح کے پھول پودوں کی چمن بندیاں تھیں جن سے ساری فضا معطر رھتی تھی۔ کوڑیالے کے پھول مسکرا رھے تھے اور نرگس ان کی طرف محبت سے دیکھ رھی تھی۔ فوارے اچھل رھے تھے اور سنگ مرمر کے حوضوں میں طرح طرح کی سنہری مچھلیاں تیر رھی تھیں۔ ھرجگہ نقرئی پنجروں میں نایاب چڑیاں چہچہا رھی تھیں۔

لیکن وزرا، عمائدین اور حکما بے پروائی سے گذر رھے تھے۔ وہ حسن کے جادو سے بے خبر اور ناآشنا تھے کیونکہ ان کے خیالات بالکل اپنے مفادات پر مرکوز تھے کہ کس طرح اپنے دشمنوں کی چوٹوں سے بچا جائے اور اپنی بارے آنے پر کیسے ان کو چوٹ کی جائے۔ اس طرح ان کے سخت اور مرجھائے ھوئے دلوں میں اس کے سوا کسی اور بات کے لئے جگہ ھی نہ تھی۔ اگر اچانک دنیا کے تمام پھول مرجھا جاتے اور ساری چڑیاں چہچہانا بند کردیتیں تب بھی وہ توجہ نہ کرتے کیونکہ وہ اپنی ذاتی خواھشات اور حریصانہ چالوں میں مبتلا تھے۔

ان کی آنکھوں میں افسردگی تھی اور خون سے عاری ھونٹ بھنچھے وھئے تھے اور ریتلے راستوں پر اپنی جوتیاں گھسیٹتے چلے جا رھے تھے۔ وہ ایک کنج میں داخل ھوئے جو سرسبز، گھنی اور مہک دار بیلوں سے گھرا ھوا تھا۔ یہاں وہ اپنی مرصع عصائیں دیوار کے سہارے کھڑی کرکے ریشمی گدوں پر بیٹھ گئے۔ بڑے عماموں کے بوجھ سے سرجھکائے وہ خاموشی سے اپنے آقا کا انتظار کرنے لگے۔

وہ بھاری قدموں سے اندر داخل ھوا، غمگین خیالات سے اس کی تیوریوں پر بل تھا۔ سب اٹھ کھڑے ھوئے اور تقریبا زمین تک جھک گئے اور اس وقت تک جھکے رھے جب تک اس نے ھلکا سا اشارہ نہ کیا۔ اب آداب کے مطابق وہ گھٹنوں کے بل ھوگئے اور اپنے جسم کا سارا وزن ایڑیوں پر ڈالد یا۔ ان کی انگلیاں قالین پر تھیں۔ ھر ایک اندازہ لگانے کی کوشش کر رھا تھا کہ اج امیر کا قہر کس پر نازل ھوگا اور اس سے کیا فائدہ اٹھایا جاسکتا ھے۔

درباری شاعروں نے حسب معمول آداب کے مطابق امیر کے پیچھے نصف حلقہ بنا لیا اور ھلکے ھلکے کھنکھار کر اپنے گلے صاف کرنے لگے۔

ان میں سب سے لائق شاعر جس کو "ملک الشعرا" کا خطاب مل چکا تھا دل ھی دل میں وہ قصیدہ دوھرا رھا تھا جو اس نے آج ھی صبح تیار کیا تھا اور امیر کو اس طرح سنانا چاھتا تھا جیسے اس نے مافوق الفطرت جوش کے ماتحت اس کو فی البدیہہ کہا ھے۔

شاھی مورچھل اور حقہ برداروں نے بھی اپنی اپنی مقررہ جگہیں سنبھال لیں۔

"بخارا میں کس کی حکومت ھے؟" امیر نے دھیمی آواز میں ابتدا کی جس سے سامعین کو جھرجھری آگئی۔ "بخارا میں کس کی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
حکومت ھے ، ھم تم سے پوچھتے ھیں۔ ھماری یا اس ملعون ، ناپاک خواجہ نصرالدین کی؟“ یہاں تقریبا اس کی آواز گھٹ گئی ۔ پھر اپنے غصہ پر قابو حاصل کر کے دھمکی آمیز آواز میں اس نے کہا ”امیر تمھاری آواز سن رھا ھے! بولو !“

مورچھل اس کے سر پر ھلتی رھی ۔ درباری خاموش اور خوف زدہ تھے ۔ وزراء گھبرا گھبرا کے ایک دوسرے کو کہنیاں مار رھے تھے ۔

” اس نے ریاست میں ھنگامہ برپا کر رکھا ھے“ امیر نے اپنی بات جاری رکھی ”تین بار اس نے ھمارے دارالحکومت کے امن و امان میں رخنہ ڈالا ھے۔ اس نے ھمارا خواب و آرام لوٹ لیا اور ھمارے خزانے کو جائز آمدنی سے محروم کر دیا۔ وہ اعلانیہ عوام کو سرکشی اور بغاوت کے لئے اکساتا ھے۔ اس پاجی سے کس طرح نبٹیں ، ھم تم سے پوچھتے ھیں۔“

وزراء ، عمائدین اور حکما سبھی نے یک آواز ھو کر جواب دیا :
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
”اے مرکزِ کائنات ، محافظِ امن ، وہ بلاشبہ سخت سے سخت سزا کا مستحق ھے!“

”تو پھر وہ ابھی تک کیوں زندہ ھے؟“ امیر نے دریافت کیا۔ ” یا یہ کام پھر ھمارے لئے ، تمھارے حکمران کے لئے ھے جس کا نام تمھیں خوف اور ادب سے اور وہ بھی بلا سربسجود ھوئے نہیں لینا چاھئے جو ھمیں کہنا پڑتا ھے کہ تم کاھلی، گستاخی اور لاپرواھی کی وجہ سے نہیں کرتے ھو۔ ھاں تو دھراتا ھوں کہ کیا یہ ھمارے لئے ھے کہ ھم بذاتِ خود اس کو گرفتار کرنے بازار جائیں جب کہ تم اپنے اپنے حرموں میں خوب عیاشی کرو گلچھرے اُڑاؤ اور صرف تنخواہ وصول کرنے کے دن اپنے فرائض کو یاد کرو؟ تیرا کیا جواب ھے، اے بختیار؟“

بختیار کا نام سن کر دوسروں نے چین کا نام لیا اور ارسلان بیک کے ھونٹوں پر کینہ پرور مسکراھٹ کھیلنے لگی جس سے بختیار کا بہت زمانے سے جھگڑا چلا آرھا تھا۔ بختیار نے اپنی توند پر ہاتھ باندھے اور امیر کے سامنے زمین تک جھک گیا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
” خدا ھمارے امیر کو آزمائشوں اور مصیبتوں سے محفوظ رکھے!“ بختیار نے شروع کیا۔ ”اس غلام کی وفاداری اور خدمات کو ، کو امیر کی نورانی کرنوں کا ایک حقیر ذرہ ھے، امیر اچھی طرح جانتے ھیں۔ میرے وزیرِ اعظم کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے شاھی خزانہ بالکل خالی تھا لیکن میں نے کئی ٹیکس لگائے ۔ میں نے ملازمت پانے پر بھی ٹیکس لگا دیا اور اب کسی کی یہ مجال نہیں کہ وہ خزانے کو بلا کچھ ادا کئے چھینک بھی دے۔“

”مزید برآں میں نے نچلے درجے کے سرکاری ملازمین اور پہرے داروں کی تنخواھیں آدھی کر دیں، بخارا کے باشندوں کو پہرے داروں کی دیکھ بھال کا ذمے دار بنایا اور اس طرح میرے آقا ، میں نے خزانے میں کافی بڑی رقم جمع کی۔ لیکن ابھی میں نے اپنی تمام خدمات کا ذکر نہیں کیا ھے۔ میری کوششوں ھی سے حضرت بہاؤالدین کے مقبرے پر پھر معجزے ھونے لگے اور ھزاروں زائرین مقبرے کو آنے لگے۔ اس طرح ھمارے بادشاہ کا خزانہ ، جن کے سامنے دنیا کے دوسرے حکمراں ایک ذرے کے برابر ھیں۔ ھر سال عطیوں سے بھرنے لگا ھے اور آمدنی کئی گنی بڑھ گئی ھے۔۔۔“

”یہ آمدنی کہاں ھے؟“ امیر نے بیچ میں لقمہ دیا۔ ” اس کو تو خواجہ نصرالدین نے ھم سے لے لیا۔ ھم تمھاری خدمات کے بارے میں نہیں پاچھ رھے ھیں۔ یہ تو ھم متعدد بار سن چکے ھیں۔ ھمیں یہ بتاؤ کہ خواجہ نصرالدین کس طرح ھاتھ آئے؟“
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
”آقا“ بختیار نے جواب دیا ”وزیرِ اعظم کے فرائض میں مجرموں کی تلاش نہیں شامل ھے۔ ھماری ریاست میں یہ کام شاھی گارد اور فوج کے سپہ سالار کا، معزز ارسلان بیک کا ھے“

”بولو!“ امیر نے حکم دیا۔

ارسلان بیک بختیار کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتا ھوا اٹھا۔ لمبی سانس لی اور اس کی سیاہ داڑھی اوپر اٹھی اور پھر اس کی توند پر گِر گئی۔

” خدا ھمارے مہرِ تاباں، بادشاہ کو ھر آفت و مصیبت، بیماری اور رنج سے محفوظ رکھے! امیر میری خدمات سے بخوبی واقف ھیں۔ جب خیوا کے خان نے بخارا پر چڑھائی کی تو مرکزِ کائنات، ظلِ سبحانی نےعنایت فرما کر مجھے بخارا کی فوج کی کمان سپرد کی اور میں نے بلا خون خرابے کے دشمن کو پیچھے ڈھکیل دیا اور لڑائی کا فیصلہ ھمارے حق میں ھوا۔“

” میں نے یہ حک دے دیا کہ خیوا کیسرحد سے لیکر ھمارے علاقے کے اندر ، کئی دنوں کے کوچ کے کے فاصلے تک تمام شہر اور گاؤں تباہ کر دئے جائیں، تمام فصلیں ، باغیں ، سڑکیں اور پل برباد کر دئے جائیں۔ جب خیوا کے لوگ ھمارے علاقے میں داخل ھوئے اور انھوں نے ایک ریگستان دیکھا جہاں نہ تو باغیں تھیں اور نہ کوئی جاندار، تو انھوں نے اپنے آپ سے کہا ”ھم بخارا نہ جائیں گے کیونکہ وحاں نہ تو کچھ کھانے پینے کو ھوگا اور نہ لوٹ مار کے لئے۔ وہ واپس لوٹ گئے“ دھوکہ کھا کر اور ذلیل ھو کر۔ ھمارے بادشاہ ، امیر نے مہربانی کر کے اپنی فوج کے ہاتھوں خود اپنے ملک کی تباھی کو اتنا دانش مندانہ اور کارآمد حربہ تسلیم کیا کہ انھوں نے حکم نافذ کر دیا کہ کسی بھی چیز کو بحال نہ کیا جائے اور تمام شہر ، گاؤں ، کھیت اور سڑکیں تباہ شدہ حالت میں رکھی جائیں تاکہ آئندہ دشمن قبائل ھمارے علاقے میں قدم رکھنے کی جرات نہ کریں۔ اس طرح میں نے خیوا کے لوگوں کو شکست دی۔ اس کے علاوہ بخارا میں ھزاروں جاسوسوں کو میں نے تربیت دی۔۔۔“
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
”بند کر اپنی زبان شیخی خور!“ امیر نے چلا کر کہا۔ ” تو تیرے جاسوس خواجہ نصرالدین کو کیوں نہیں پکڑ سکے؟“

ارسلان بیک بدحواس ھو کر کافی دیر تک خاموش رھا۔ آخر کار اسے ماننا ھی پڑا:

” آقا، میں نے ھر تدبیر کر ڈالی لیکن میرا دماغ اس بدمعاش اور مرتد کے خلاف کام نہیں کرتا۔ میرے خیال میں حکما و عقلا سے اس کے بارے میں رائے لینی چاھئے۔“

” قسم ھے اپنے آبا و اجداد کی! تم سب اس قابل ھو کہ شہر کی فصیل پر تمھیٌ سولی دے دی جائے!“ امیر برس پڑا ، اپنے غصے میں اس نے حقے بردار کو ایک زور کا ہاتھ رسید کیا جو اس غلط موقع پر شاہ کے دستِ دراز کے قریب آگیا تھا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
”بولو“ اس نے سب سے معمر دانا کو حکم دیا جو درازی ریش کے لئے مشہور تھا۔ اس کی داڑھی اتنی لمبی تھی کہ اس کو اپنی کمر کے گرد دوھری لپیٹ سکتا تھا۔

دانا اٹھا ، ایک دعا پڑھی اور اپنی مشہور داڑھی کو تھپ تھپایا اور داھنے ہاتھ سے اس کو کھینچ کر بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے اس میں شانہ کرنے لگا۔

”خدا بادشاہ کو رعایا کی خوش حالی اور مسرت کے لئے شاندار اور طویل زندگی عطا فرمائے“ اس نے کہا ” چونکہ مذکورہ بالا بدمعاش اور باغی خواجہ نصرالدین بھی تو آدمی ھی ھے، اس لئے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ھے کہ اس کا جسم بھی دوسرے آدمیوں جیسا ھےیعنی اس میں دوسو چالیس ھڈیاں اور تین سو ساٹھ رگیں ھیں جو پھیپھڑے ، جگر، دل ، تلی اور پتے کو چلاتی ھیں۔ داناؤں نے ھیں سکھایا ھے کہ شہ رگ دل کی رگ ھوتی ھے جو تمام دوسری رگوں کو چلاتی ھےاور یہ ایک ناقابلِ تردید اور مقدس حقیقت ھے جو بے ایمان ابو اسحاق کی کافرانہ تعلیم کے خلاف ھے جو یہ جھوٹا دعوٰی کرنے کی ھمت کرتا ھے کہ انسان کی زندگی کی بنیاد پھیپھڑے کی رگ ھے۔“
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
” دانائے روزگار بوعلی سینا، یونانی حکیم ھیپو کریتس اور کارڈویا کے اویروئس نے بھی لکھا ہے جس کے محنت کے پھل اب ھم اٹھا رھے ھیں اور الکندی ، الفارابی اور ابو بصرہ ابن طفیل کی تعلیمات کے مطابق بھی میں کہتا ھوں اور تصدیق کرنے کی جرات کرتا ھوں کہ اللہ نے آدم کو چہار عناصر ۔۔۔ آب ، خاک ، آتش اور باد ۔۔۔ کے خمیر سے اس طرح بنایا کہ زرد پتے میں آگ کی خصوصیت ھے جو ھم دیکھتے ھیں کہ گرم اور خشک ھے۔ سیاہ پتے میں خاک کی خصوصیت ھے کیونکہ وہ ٹھنڈا اور خشک ھوتا ھے۔ لعابِ دھن پانی کی خصوصیت رکھتا ھے کیونکہ وہ سرد اور تر ھوتا ھے اور آخر میں خون باد کی نوعیت رکھتا ھے کیونکہ وہ گرم اور تر ھوتا ھے۔ اگر کوئی آدمی اپنے جسم کی ان رقیق اشیاء سے محروم کر دیا جائے تو وہ لازمی طور پر مر جاتا ھے اور اس سے میں نتیجہ اخذ کرتا ھوں ، اے ممتاز آقا، کہ یہ مرتد ، دشمنِ امن و امان ، خواجہ نصرالدین خون سے محروم کر دیا جائے جس کا بہتر طریقہ یہ ھوگا کہ اس کا سر دھڑ سے جدا کر دیا جائے کیونکہ جو خون بہتا ھے اس کے ساتھ آدمی کے جسم سے زندگی بھی بخارات میں تبدیل ھو کر اڑ جاتی ھے اور کبھی واپس نہیں آتی۔ یہ ھے میرا مشورہ اے شاہِ زماں، جہاں پناہ!“

امیر نے اس کی باتیں توجہ سے سنیں اور کچھ کہے بغیر دوسرے دانا کی طرف ابرو سے بہت ھی ھلکا سا اشارہ کیا ۔ اس دانا کی داڑھی کا مقابلہ تو پہلے دانا سے نہیں کیا جاسکتا تھا مگر اس کا عمامہ اس سے کہیں بڑا اور شاندار تھا ۔ سالہاسال نے عمامہ کے بوجھ نے اس کی گردن کو ایک طرف اور نیچے جھکا دیا جس سے ایسا معلوم ھونے لگا جیسے کوئی آدمی تنگ دراڑ سے اوپر جھانک رھا ھو۔ امیر کے سامنے جھکتے ھوئے یہ دانا بولا:
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
” اے شہنشاہِ اکبر، آفتابِ نیم روز! میں خواجہ نصرالدین کے اس طرح خاتمے سے متفق نہیں ھوں کیونکہ ھر آدمی یہ جانتا ھے کہ انسان کی زندگی کے لئے صرف خون ھی نہیں بلکہ ھوا بھی ضروری ھے اور اگر کسی آدمی کی گردن سے رسی دبا دی جائے اور اس طرح ھوا اس کے پھیپھڑوں تک پہنچنے سے روکی جا سکے تو وہ آدمی لازمی طور پر مر جاتا ھے اور کبھی پھر بحال نہیں ھوسکتا۔۔۔“

”اچھا“ امیر نے بہت ھی دھیمی آواز میں کہا۔ ” تم بالکل ٹھیک کہتے ھو، اے داناؤں کے دانا، اور آپ کے مشورے ھمارے لئے بلاشبہ قیمتی ھیں۔ واقعی، اگر آپ ایسے مشورے نہ دیتے تو ھم خواجہ نصرالدین سے کیسے پیچھا چھڑا سکتے؟“

وہ رک گیا کیونکہ وپ غصے سے بری طرح بھرا ھوا تھا اور اس پر قابو رکھنا اس کے لئے مشکل ھو رھا تھا ۔ اس کے گال تھر تھرا رھے تھے، نتھنے جل رھے اور آنکھوں سے شعلے نکل رھے تھے۔ لیکن درباری خوشامدی۔۔۔ فلسفی اور شاعر جو امیر کی پشت پر نیم حلقہ بنائے کھڑے تھے اپنے مالک کا غضبناک چہرہ نہیں دیکھ سکتے تھے اس لئے انھوں نے اس کے غضب آلود طعن کو نہیں سمجھا جس سے اس نے داناؤں کو خطاب کیا تھا ۔ اس کی بات کے ظاھری مطلب کو لیکر انھوں نے سوچا کہ داناؤں نے واقعی امیر کی نگاھوں میں عزت حاصل کر لی ھے اس لئے وہ امیر کی داد و دھش سے محفوظ ھوں گے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے داناؤں کی عنایات فورا حاصل کرنا چاھئیں۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
”آپ دانائے روزگار ھیں ! آپ ھمارے شہنشاہ عالی مرتبت کے تاج کے گہر ھائے بے بہا ھیں، آپ کا عقل و دانش میں کوئی جواب نہیں ، آپ مجسم عقل و دانش ھیں جن کو خدا نے سب سے زیادہ عقل عطا فرمائی ھے!“

اس طرح انھوں نے قصیدہ خوانی شروع کر دی اور حسن بیان و جوش و خروش میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرنے لگے ۔ انھیں اس کا پتہ نہیں چلا کہ امیر غصے میں بل کھایا ھوا ان کو دیکھ رھا ھے اور ڈراؤنی خاموشی چھا گئی ھے۔

”اے علم کے آفتاب و ماھتاب اور صاحبانِ عقل و دانش!“ انھوں نے اپنی قصیدہ خوانی جاری رکھی اور غلامانہ جذبے کے جوش میں اپنی آنکھیں بند کر لیں۔

اچانک ملک الشعراء کی نظر امیر پر پڑی اور ایسا معلوم ھوا جیسے اس کی چکنی چپڑی زبان تالو سے چپک گئی ھے۔ اس کے بعد اور سب بھی چپ ھوگئے اور یہ سمجھ کر کانپنے لگے کہ انھوں نے اپنے جوش میں کتنی زبردست غلطی کی ھے۔

” ناکارہ بد معاشو!“ غصے سے بپھرے ھوئے امیر نے کہا ” کیا تمھارے خیال میں ھم یہ نہیں جانتے ھیں کہ اگر کسی آدمی کا سر قلم کر دیا جائے یا اس کو پھانسی دے دی جائے تو وہ پھر زندہ نہیں ھو سکتا؟ لیکن اس کے لئے پہلے ضرورت اس بات کی ھے کہ آدمی کو گرفتار کیا جائے اور تم نے ، بدمعاش ، ناکارہ ، پاجی اور احمقوں نے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا ھے۔ تمام وزراء ، عمائدین ، دانا اور شعراء اس وقت تک تنخواہ نہیں پائیں گے جب تک خواجہ نصرالدین گرفتار نہ کیا جائے گا۔ اور یہ اعلان کر دیا جائے کہ جو بھی اس کو گرفتار کرے گا اس کو تین ھزار تانگے انعام دیا جائے گا ! ھم تم کو اس بات سے بھی آگاہ کرنا چاھتے ھیں کہ تمھاری کاھلی ، بے وقوفی اور لاپروائی کو دیکھ کر ھم نے ایک نئے دانا کو اپنی خدمت میں بغداد سے طلب کیا ھے جن کا نام مولانا حسین ھے اور جو ابھی تک امیرالمومنین خلیفہ بغداد کی ملازمت میں تھے ۔ وہ راستے میں ھیں اور جلد ھی یہاں پہنچنے والے ھیں۔ لعنت ھو تم پر نرم گدوں پر اینڈنے والے پیٹ کے غلامو اور حرص کے بندو! نکال دو ان کو یہاں سے!“ اس نے غصے کے بڑھتے ھوئے طوفان میں پہرے داروں کو حکم دیا۔ ”ان سب کو یہاں سے نکال دو، نکال دو!“

گم صم درباریوں پر پہرے دار جھپٹے اور بلا پاس و لحاظ ان کو دروازے تک کھینچتے ھوئے لے گئے اور پھر سیڑھیوں کے نیچے ڈھکیل دیا۔ سیڑھیوں سے نیچے دوسرے پہرے داروں نے ان کی گردن ناپی اور راستے میں ان کی لات گھونسوں اور تھپڑوں سے خاطر تواضع کی۔ درباری ایک دوسرے سے آگے نکل بھاگنے کی کوشش کر رھے تھے۔ سفید بالوں والا دانا تو خود اپنی داڑھی میں الجھ کر گرا،
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دوسرے دانا نے اس سے ٹھوکر کھائی اور گِر پڑا۔ اس کا سر ایک گلاب کی جھاڑی میں چلا گیا ۔ یہاں وہ بڑی دیر تک بے ھوشی کی حالت میں پڑا رھا ۔ اپنی ٹیڑھی گردن کی وجہ سے وہ اس وقت بھی کسی تنگ دراڑ سے جھانکتا معلوم ھوتا تھا ۔



(19)​


امیر سارے دن غصے میں بھرا بیٹھا رھا۔ دوسرے دن صبح کو بھی درباریوں نے اس کے چہرے پر غصے کے آثار دیکھے ۔ اس کو بہلانے اور خوش کرنے کی تمام کوششیں بے سود رھیں ۔ رقاصائیں اپنے طنبورے بجا بجا کر عود و عنبر کے مہکتے ہوئے بادلوں کے درمیاں تھرک رھی تھیں ، اپنے گداز کولھے مٹکا رھی تھیں اور اپنے مرمریں سینے اس طرح عریاں کر رھی تھیں جیسے اتفاقا یہ بات ھوگئی ھو ۔ لیکن یہ سب بیکار تھا ۔ امیر نے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا اور اس کے چہرے پر غصے کے گہرے آثار درباریوں کے دلوں کو دہلاتے رھے۔ درباری مسخروں ، کرتب دکھانے والوں ، شعبدہ بازوں اور ان ھندستانی مداریوں کی سب حرکتیں اور کرتب بھی بے کار رھے جو بین بجا کر سانپوں کو لبھاتے ہیں۔

درباری آپس میں کھسر پھسر کر رھے تھے:

” لعنت ھو اس خواجہ نصرالدین پر ! ولدالزنا ! کیا آفت اس نے ھم پر نازل کر دی ھے!“

وہ ارسلان بیک سے امیدیں لگائے بیٹھے تھے۔

ارسلان بیک نے داروغہ خانے میں اپنے انتہائی چالاک جاسوسوں کو طلب کیا جن میں وہ چیچک رو بھی تھا جس کو خواجہ نصرالدین نے انتہائی معجزنما طریقے سے شفا بخشی تھی۔

”تم سب سنو“ ارسلان بیک نے کہا ” اعلی حضرت امیر کے حکم سے تمھاری تنخواھیں اس وقت تک کے لئے روک دی گئی ھیں جب تک کہ خواجہ نصرالدین گرفتار نہ ھو جائے۔ میں یہ قول دیتا ھوں کہ اگر تم اس کا پتہ نہ لگا سکے تو نہ صرف تم اپنی تنخواھوں سے ہاتھ دھوؤ گے بلکہ اپنے سروں سے بھی۔ اس کے برخلاف جو بھی سب سے زیادہ جوش کے ساتھ کام کر کے خواجہ نصرالدین کو گرفتار کرے گا اسے تین ھزار تانگے کا انعام ملے گا اور ترقی بھی۔ اس کو تمام جاسوسوں کا افسر مقرر کیا جائے گا۔“

جاسوس دم کے دم درویشوں ، بھک منگوں ، سقوں اور سوداگروں کے بھیس بدل بدل کر روانہ ھو گئے۔ اس دوران میں چیچک رو جاسوس نے جو دوسروں سے زیادہ چالاک تھا ایک غالیچہ ، کچھ مٹر کے دانے ، ایک تسبیح اور پرانی کتابیں لیں اور بازار کی طرف چل دیا ۔ وھاں وہ جوھریوں اور گندھیوں کے بازاروں کی نکڑ پر بیٹھ گیا۔ یہاں اس نے رمال کے بھیس میں عورتوں کے ذریعے سن گن لینے کا منصوبہ گانٹھا ۔

ایک گھنٹے بعد سیکڑوں نقیبوں نے بازار کے چوراھے پر تمام مسلمانوں سے مخاطب ھو کر اپنی بات توجہ سے سننے کے لئے کہا ۔ انھوں نے امیر کا فرمان سنایا کہ خواجہ نصرالدین کو امیر کا دشمن اور مرتد قرار دیا جاتا ھے ۔ اس سے کسی قسم کا تعلق ممنوع ھے خصوصا اس کو پناہ دینا جس کی سزا موت ھے ۔ اس کے برخلاف اگر کوئی اسے پکڑ کر امیر کے پہرے داروں کے حوالے کر دے گا تو اس کو تین ھزار تانگوں کے انعام اور دوسری عنایات سے سرفراز کیا جائے گا۔

چائے خانے کے مالک ، ٹھٹھیرے ، آھنگر ، بنکر ، سقے اور ساربان سبھی آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے:

” اس کے لئے امیر کو بہت دن انتظار کرنا ھوگا۔“

” خواجہ نصرالدین کو ایسے دھر لینا آسان نہیں ھے!“

” کوئی رقم بھی بخارا کے لوگوں کو خواجہ نصرالدین کے ساتھ دغا کرنے پر آمادہ نہیں کر سکتی۔“
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
لیکن سود خور جعفر جو اپنے قرض داروں پر ظلم و ستم ڈھانے کے لئے بازار میں روز مرہ کی پھیری لگا رھا تھا کچھ اور ھی سوچ رھا تھا ۔ ” تین ھزار تانگے“ اس نے افسوس کے ساتھ سوچا ۔ ”کل تو رقم تقریبا میری جیب میں پہنچتے پہنچتے رہ گئی! خواجہ نصرالدین اس لڑکی کے پاس پھر آئے گا لیکن میں اس کو تن تنہا تو نہیں گرفتار کر سکتا اور اگر میں کسی اور کو یہ خبر بتاتا ھوں تو وہ مجھ سے انعام جھپٹ لے گا۔ نہیں، مجھے کچھ اور کرنا چاھئے۔“

وہ محل کی طرف چل پڑا۔

وہ بڑی دیر تک کھٹ کھٹاتا رھا لیکن دروازے بند رھے ۔ پہرے داروں نے سنا نہیں کیونکہ وہ خواجہ نصرالدین کو پکڑنے کے منصوبوں پر گرما گرم بحث کر رھے تھے ۔

”اے بہادر سپاھیو! کیا تم سو رھے ھو؟“ سود خور پریشان ھو کر چیخا۔ اس نے آھنی کنڈا بھی بجایا لیکن قدموں کی چاپ دیر میں سنائی دی اور زنجیروں کے کھلنے کی جھنکار ھوئی۔ پھاٹک کا دروازہ کھلا۔

سود خور کی بات سننے کے بعد ارسلان بیک نے سر ھلایا:

”معزز جعفر، میں آپ کو یہ مشورہ نہ دونگا کہ آپ امیر سے آج ملیں۔ وہ آج بہت غصے میں ھیں اور اداس بھی۔“

” لیکن میرے پاس ان کی افسردگی دُور کرنے کا ایک لاجواب علاج ھے“ سودخور نے فوراجواب دیا۔ ” معزز ارسلان بیک، معاونِ تخت و تاج، فاتح دشمنان ! میرے کام میں دیر نہ ھونا چاھئے۔ جا کر امیر سے کہئے کہ میں ان کا رنج و غم دور کرنے آیا ھوں۔“

امیر اس سے بڑے روکھے پن سے ملا۔ وہ بولا:

”بتا جعفر! لیکن اگر تیری بات نے ھمارا دل خوش نہ کیا تو تجھ کو دو سو درے لگائے جائیں گے۔“

” اے شہنشاہِ اعظم جس کی شان و شوکت کو نہ تو کوئی بادشاہ ماضی و حال میں پہنچا ھے اور نہ مستقبل میں پہنچے گا!“ سود خور نے کہا ” “
 

قیصرانی

لائبریرین
سود خور نے کہا "آپ کے اس ناچیز خادم کویہ پتہ ہے کہ ھمارے شہر میں ایک ایسی دوشیزہ رہتی ہے جس کو میں حقیقت میں لاکھوں حسیناؤں کی ایک کہہ سکتا ہوں۔"

امیر کو فورا دلچسپی پیدا ھوگئی اور اس نے سر اٹھایا۔

"آقا!" سود خور کی ھمت بندھی اور اس نے اپنی بات جاری رکھی۔ "میرے پاس اس کے حسن کی تعریف کے لئے الفاظ نہیں ھیں۔ وہ سرو قد، دلربا، نازک اندام ھے۔ اس کے جسم کا ھر عضو سانچے میں ڈھلا ھے۔ اس کی پیشانی روشن، چہرہ شہابی، آنکھیں غزالی اور بھویں ھلالی ھیں! اس کے گال گلابی اور دھانہ مہر سلیمانی کی مانند ھے، اس کے ھونٹ مونگے جیسے اور دانت موتیوں کی لڑی ھیں۔ اس کےپستان مرمریں ھیں جن پر چیری کے دو سرخ پھل رکھے ھیں اور اس کے شانے۔۔۔"

امیر نے اس کے زور بیان کو روکا:

"اگر واقعی وہ ایسی ھے جیسا کہ تم کہتے ھو تو وہ میرے حرم کے لائق ھے۔ وہ ھے کون؟"

"وہ حسب نصب سے تو غریب ھے، آقا۔ وہ ایک غریب کسگر کی لڑکی ھے جس کے نام سے میں اعلی حضرت کے کانوں کی توھین کرنے کی جرآت نہیں کرسکتا۔ میں یہ بتا سکتا ھوں کہ وہ کہاں رھتی ھے لیکن کیا امیر کے اس غلام کو اس کے لئے انعام ملے گا؟"

امیر نے بختیار کی طرف اشارہ کیا اور ایک تھیلی سود خور کے قدموں پر آن گری۔ جعفر نے اس کو حریصانہ عجلت کے ساتھ اٹھا لیا۔

"اگر وہ تمھاری تعریف کے مطابق ثابت ھوئی تو تم کو اتنا ھی اور انعام ملے گا" امیر نے کہا

"ھمارے لائق آقا کی فیاضی کا بول بالا رھے!" سود خور نے ھانک لگائی۔ "لیکن جلدی کرنی چاھئے کیونکہ اس غزال رعنا کے پیچھے ایک صیاد لگا ھوا ھے۔"

امیر کی تیوریوں پر بل آگئے اور ناک کے بانسے پر ایک موتی جھری نمودار ھوگئی۔

"کون ھے وہ؟"

"خواجہ نصرالدین!" سود خور نے جواب دیا۔

"پھر وھی خواجہ نصرالدین! اس میں بھی خواجہ نصرالدین! وہ ھر جگہ ہے۔۔ اور تم ھو کہ۔۔۔" یہ کہتے ھوئے امیر اپنے وزیروں کی طرف مخاطب ھوگیا اور تخت ھلنے لگا۔ "سوائے اس کے اور کچھ نہیں کرتے کہ ھماری شاھانہ شخصیت کے لئے باعث شرم بنو۔ اے ارسلان بیک! اس کا انتظا م کر، یہ لڑکی ھمارے محل میں ہی آنا ھے۔ اگر تو اس میں ناکام رھا تو واپسی پر جلاد تیرا منتظر ھوگا!"

چند منٹوں میں محل کے پھاٹک سے سپاھیوں کا ایک دستہ روانہ ھوگیا۔ ان کے ھتھیاروں میں جھنکار تھی اور سپریں دھوپ میں چمچما رھی تھیں۔ ان کے آگے ارسلان بیک تھا۔ اس کی زرد قبا میں اعلی عہدےکا بلا ٹنکا ھوا تھا۔ پہرے داروں کے ساتھ سود خور بھی لنگڑاتا اور لڑکھڑاتا چلا جا رھا تھا۔ اکثر وہ پیچھے رہ جاتا اور دوڑ کر ان کے برابر پہنچتا۔ لوگ اس جلوس کو دیکھ کر کنارے ھوجاتے اور سود خور کو مخاصمانہ نظروں سے دیکھتے ھوئے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے کہ آج وہ کس بدمعاشی کے لئے نکلا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
(۲۰)​

خواجہ نصرالدین نےا بھی اپنی نویں صراحی ختم کی تھی اور تسلے سے ڈھیر سی مٹی دسیوں صراحی بنانے کے لئے نکالی ھی تھی کہ اچانک دروازے پر زور کی حاکمانہ دستک ھوئی۔ پڑوسی جو اکثر نیاز کے یہاں پیاز یا چٹکی بھر مرچ مانگنے آتے تھے اس طرح نہیں کھٹکھٹاتے تھے۔ خواجہ نصرالدین اور نیاز نے ایک دوسرے کی طرف گھبرا کر دیکھا جب بھاری ضربوں کی بارش نے دروازہ پھر سے کھڑکھڑایا۔ اس مرتبہ خواجہ نصرالدین کے تیز کانوں نے ھتھیاروں کی جھنکار سن لی۔

"پہرے دار" انھوں نے نیاز سے چپکے سے کہا۔

"بھاگو!" نیاز بولا۔

خواجہ نصرالدین باغ کی دیوار پھلانگ گئے اور نیاز نے دروازہ کھولنے میں اتنا وقت لیا کہ وہ دور نکل جائیں۔ جیسے ھی بڈھے نے کنڈی کھولی انگور کے باغیچے سے مینائیں بھربھرا کر اڑیں لیکن بے چارے کسگر کے پر تو تھے نہیں وہ اڑ کر کہاں جاتا۔ وہ زرد پڑ گیا اور کانپ کر ارسلان بیک کے سامنے جھک گیا۔

"کسگر، تیرے گھر کو بڑی عزت نصیب ھوئی ھے"ارسلان بیک نے کہا "مرکز جہاں، ظل سبحانی، ھمارے مالک و آقا، خدا ان کو برسہا برس سلامت رکھے، امیر اعظم نے بہ نفس نفیس عنایت کرکے تیرا حقیر نام لیا ھے۔ ان کو معلوم ھوا ھے کہ تیرے باغ میں ایک حسین پھول کھلا ھے اور وہ اس پھول کو اپنے محل کی زیبائش کے لئے چاھتے ھیں۔ تیری بیٹی کہاں ھے؟"

کسگر کا سفید سر ہلنے لگا اور اس کی آنکھوں میں دنیا تاریک ھو گئی۔ جب پہرے دار اس کی بیٹی کو گھر کے باھر گھسیٹ کر
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
صحن میں لائے تو اس نے اس کی ایک مختصر مدھم چیخ سنی۔ وہ منہ کے بل زمین پر گر گیا اور پھر نہ تو اس نے کچھ دیکھا اور نہ سنا۔

”وہ فرطِ مسرت سے غش کھا گیا ھے“ ارسلان بیک نے اپنے سپاھیوں سے کہا۔ ”اس کو چھوڑو ۔ جب وہ ھوش میں آئے گا تو محل میں آ کر امیر سے اپنے بے پناہ شکرئے کا اظہار کر سکتا ھے۔ چل پڑو!“

اس دوران میں خواجہ نصرالدین پچھلی گلیوں میں منڈلا رھے تھے ۔ وہ دوسرے سرے سے سڑک پر واپس آئے ۔ جھاڑیوں کے پیچھے سے انھیں نیاز کا پھاٹک دکھائی دے رھا تھا جہاں انھیں دو سپاھی اور تیسرا آدمی دکھائی دیا جو جعفر سود خور تھا۔


”اچھا ۔ لنگڑے کتے ! تو سپاھیوں کو میری گرفتاری کے لئے لایا تھا !“ خواجہ نصرلادین نے صحیح حآلات سے لاعلم ھونے کی وجہ سے اس طرح سوچا۔ ”بہت اچھا، اچھی طرح ڈھونڈ لے! لیکن تو خالی ہاتھ لوٹے گا۔“
 
Top