سیدہ شگفتہ
لائبریرین
اس دوران میں سود خور نے اپنے تھیلے سے ایک چوبی سورج گھڑی نکالی اور وقت دیکھا۔
”کمھار میرے اس درخت کے نیچے انتظار کر ۔ میں ایک گھنٹے میں لوٹ آؤنگا۔ دیکھ چُھپنے کی کوشش نہ کرنا کیونکہمیں تجھے سمندر کی تہہ سے بھی ڈھونڈ نکالوں گااور تیرے ساتھ مفرور غلام جیسا برتاؤ کرونگا۔ اور تو حسین گل جان ، میری بات کے بارے میں سوچ، تیرے باپ کی قسمت کا انحصار اس بات پر ھے کہ تو میرے ساتھ کیسا برتاؤ کرتی ھے۔“
اور اپنے بدنما چہرے پر اطمینان بخش مسکراھٹ کے ساتھ وہ جوھریوں کے بازار سے اپنی نئی داشتہ کے لئے زیورات خریدنے روانہ ھو گیا۔
غم سے چُور کمھار اپنی بیٹی کے ساتھ سڑک کے کنارے درخت کے نیچے بیٹھا رھا۔
خواجہ نصرالدین ان کے پاس گئے:
” کمھار، میں نے فیصلہ سنا تھا۔ تمھارے اوپر بڑی مصیبت آن پڑی ھے لیکن شاید میں تمھاری مدد کرسکوں۔“
”نہیں ، مہربان“ کمھار نے ناامیدی سے جواب دیا ” میں تمھارے پیوند لگے ھوئے کپڑوں سے ھی دیکھ سکتا ھوں کہ تم امیر نہیں ھو اور مجھے چار سو تانگوں کی ضرورت ھے۔ میرے دوست امیر نہیں ھیں ، سب ٹیکسوں اور محصولوں سے تباہ غریب لوگ ھیں ۔“
” بخارا میں میرے بھی دوست امیر نہیں ھیں“ خواجہ نصرالدین نے کہا ” پھر بھی میں یہ رقم جمع کرنے کی کوشش کرونگا۔“
” بخارا میں میرے بھی دوست امیر نہیں ھیں“ خواجہ نصرالدین نے کہا ” پھر بھی میں یہ رقم جمع کرنے کی کوشش کرونگا۔“
”چار سو تانگے ایک گھنٹے میں !“ بڈھے نے اپنا سفید سر ھلایا اور تلخی سے مسکرایا۔ ” اجنبی، تم مجھے چڑھا رھے ھو۔ صرف خواجہ نصرالدین ھی یہ کارنامہ کر سکتے ھیں۔“
”اجنبی، ھم کو بچائیے، بچائیے!“ گل جان نے اپنے باپ سے لپٹتے ھوئے کہا۔
خواجہ نصرالدین نے گل جان کی طرف دیکھا۔ اس کے ہاتھ بہت خوبصورت تھے ۔ اس نے خواجہ کو نظر بھر کر دیکھا اور نقاب کے اندر ھی اندر خواجہ نصرالدین نے ان آنکھوں کی پگھلی ھوئی چمک کو دیکھ لیا جن میں التجا اور امید تھی۔ خواجہ نصرالدین کی رگوں میں خون آگ کی طرح دوڑ گیا اور ان کی محبت ھزار گنا فروزاں ھو گئی۔ انھوں نے کمھار سے کہا:
”بڑے میں ، یہیں ٹھہرو، اگر میں سود خور کی واپس سے پہلے چار سو تانگے حاصل نہ کرسکا تو میں اپنے کو دنیا کا انتہائی قابلَ نفرت اور ذلیل آدمی سمجھونگا۔“
وہ کُود کر اپنے گدھے پر بیٹھے اور بازار کے مجمع میں غائب ھوگئے۔
اس وقت بازار میں صبح کے مقابلے میں ، جبکہ انتہائی مصروف گھنٹوں میں ھر شخص اس ڈر سے بھگتا دوڑتا، چیختا اور عجلت میں ھوتا ھے کہ کہیں موقع ہاتھ سے جاتا نہ رھے ، سناٹا تھا اور مج
طرف اچھل اچھل کے دانے دنے چُگ رھی تھیں اور خوشی خوشی چہچہا رھی تھیں۔
” اللہ بھلا کرے، بھلے آدمی ھم کو بھی کچھ دیتے جاؤ“ فقیر اپنے پھوڑے اور جسمانی عیب دکھا کر خواجہ نصرالدین سے بھیک کے لئے گھگھیا رھے تھے۔
انھوں نے جھڑک کر جواب دیا:
"الگ رہو، میں خود بھی تمھاری طرح غریب ھوں اور کوئی ایسی آسامی ڈھونڈ رھا ھوں جو مجھ کو چار سو تانگے دے سکے۔"
فقیروں نے یہ خیال کرکے کہ وہ ان کو چڑھا رھے ھیں خوب گالیں دیں لیکن خواجہ نصرالدین اپنے خیالات میں ایسے منہمک تھے کہ ان کو ان باتوں کے جواب دینے کا موقع کہاں۔
چائے خانوں کی قطار میں انھوں نے ایک ایسا چائے خانہ چنا جو سب سے بڑآ تھا اور جہاں مجمع بھی زیادہ تھا لیکن وھاں قیمتی قالین اور ریشمی گدے نہ تھے۔ وہ اس میں داخل ھوئے اور اپنے گدھے کو باھر باندھنے کی بجائے زینوں پر کھینچتے ھوئے لے آئے۔
لوگوں نے ان کا محتیر کن خاموشی سے خیر مقدم کیا۔ اس سے وہ ذرا بھی نہیں گھبرائے۔ انھوں نے اپنی خورجین سے وہ مقدس کتاب نکالی جو دو دن پہلے ان کو بڈھے نے دی تھی اور اس کو کھول کر گدھے کےک سامنے رکھ دیا۔
انھوں نے یہ کام بڑے اطمینان سے ذرا بھی مسکرائے بغیر کیا جیسے یہ بالکل فطری بات ھو۔ چائے خانے میں جو لوگ تھے انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔
گدھے نے چوبی فرش پر گونجدار آواز میں اپنے پیرپٹکے۔
"ابھی سے؟" خواجہ نصرالدین نے ورق الٹتے ھوئے کہا "تو نے نمایاں ترقی کی ھے۔"
اب چائے خانے کا توندیل اور زندہ دل مالک اپنی جگہ سے اٹھا اور خواجہ نصرالدین کے پاس آیا۔
"دیکھو، بھلے آدمی، کیا یہ تمھارے گدھے کے لئے مناسب جگہ ھے؟ اور تم نے یہ مقدس کتاب گدھے کے سامنے کیوں کھول رکھی ہے؟"
"میں اس گدھے کو دینیات کی تعلیم دے رھا ھوں" خواجہ نصرالدین نے اطمینان سے جواب دیا "اب یہ مقدس کتاب ختم ھونے والی ھے پھر ھم شریعت کا مطالعہ کریں گے۔"
سارے چائے خانے میں کھسر پھسر ھونے لگی۔ بہت سے لوگ اچھی طرح دیکھنے کے لئے کھڑے ھوگئے۔ چائے خانے کے مالک کی آنکھیں پھیلی اور منہ کھلا رہ گیا۔ اس نے اپنی زندگی میں ایسا عجوبہ نہیں دیکھا تھا۔ اس موقع پر گدھے نے پھر پیر پٹکے۔
"شاباش" خواجہ نصرالدین نے ورق الٹتے ھوئے کہا "بہت اچھے، تھوڑا سا اور پڑھ لے تو تو مدرسہ میر عرب مٰں صدر معلم دینیات کی جگہ لے سکے گا۔ صرف یہ ورق خود سے نہیں پلٹ سکتا ے اور اس کو کسی کی مدد کی ضرورت ھوتی ھے۔ اللہ نے اس کو تیز فہم بنایا ھے اور یاداشت بھی لاجواب ھے لیکن خدا نے اس کو انگلیاں نہیں دیں" خواجہ نصرالدین نے چائے خانے کے مالک سے کہا۔
"یہ کوئی معمولی گدھا نہیں ھے!" انھوں نے بتایا "یہ بذات خود امیر کی ملکیت ھے۔ ایک دن امیر نے مجھے طلب کیا اور پوچھا: کیا تم میرے محبوب گدھے کو دینیات پڑھا سکتے ھو تاکہ وہ اتنا ھی جان جائے جتنا میں جانتا ھوں؟ لوگوں نے مجھے گدھا دکھایا، میں نے اس کی لیاقت کی جانچ کی اور جواب دیا: اے تقدس مآب امیر! یہ لاجواب گدھا عقل و دانش میں آپ کے کسی وزیر سے کم نہیں ھے بلکہ آپ سے بھی۔ میں اس کو دینیات پڑھاؤں گا اور وہ اتنا ھی قابل ھو جائے گا جتنے آپ ھیں بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ لیکن اس میں بیس سال لگیں گے۔ امیر نے حکم دیا کہ خزانے سے مجھے سونے کے پانچ ھزار تانگے دے دئے جائیں اور کہا: گدھے کو لے جاؤ اور اسے پڑھاؤ لیکن میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ھوں کہ اگر بیس سال ختم ھونے پر اسے دینیات کا علم نہ ھوا اور وہ مذھبی کتابیں حفظ نہ کرسکا تو میں تمھارا سر اڑادونگا!"
"تو پھر تم اپنے سر کو سلام کرلو!" چائے خانے کے مالک نے کہا "کس نے سنا ھے کہ گدھا دینیات سیکھ سکتا ھے اور مذھبی کتابیں زبانی سنا سکتا ھے!"
"بخارا میں ایسے کافی گدھے ھیں" خواجہ نصرالدین نے جواب دیا "میں یہ بھی بتا دوں کہ سونے کے پانچ ھزار تانگے اور اچھا گدھا روز روز نہیں ملتے۔ اور رھا میرا سر تو اس کے لئے فکر نہ کرو کیونکہ بیس سال میں ھم میں سے کوئی نہ کوئی مریگا ضرور۔ یا تو میں یا امیر یا پھر گدھا۔ اس وقت یہ پرکھنے کا وقت گذر چکا ھوگا کہ ھم تینوں میں سے دینیات کا بڑا عالم کون ھے۔"
چائے خانہ قہقہوں سے گونج اٹھا۔ چائے خانے کا مالک تو ھنسی سے بےقابو ھو کر نمدوں پر گرپڑا اور اتنا ھنسا کہ اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر ھوگیا۔ وہ بڑا ھنس مکھ اور زندہ دل انسان تھا۔
"یہ سنا آپ نے" اس نے گھٹے ھوئے گلے سے خرخراتے ھوئے کہا "اس وقت یہ پرکھنے کا وقت گذرچکا ھوگا کہ کون دینیات کا بڑا عالم ھے!" یقینا ھنسی میں اس کا پیٹ پھٹ جاتا اگر اچانک اس کو ایک خیال نہ آگیا ھوتا۔
"ٹھہرئے، ٹھہرئے٬!" اس نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف کرنے کے لئے ھاتھ ھلائے "تم کون ھو؟ کہاں سے آئے ھو، دینیات کے استاد؟ کیا تم خود خواجہ نصرالدین ھو سکتے ھو؟"
"کیا یہ کوئی حیرت کی بات ھے؟ تمھارا قیاس صحیح ھے۔ میں خواجہ نصرالدین ھوں۔ بخارا شریف کے شہریو، سلام علیکم!"
ذرا دیر کے لئے ایسی خاموشی چھا گئی جیسے کسی نے جادو کر دیا ھو۔ یکدم ایک پرمسرت آواز نے خاموشی توڑی:
"خواجہ نصرالدین!"
"خواجہ نصرالدین! خواجہ نصرالدین!" یکے بعد دیگرے ھر ایک کی زبان پر آتا گیا۔ یہ آواز دوسرے چائے خانوں تک پہنچی اور پھر سارے بازار میں گونج گئی۔ ھر جگہ یہ آواز پھیل کر گونج رھی تھی:
"خواجہ نصرالدین! خواجہ نصرالدین!"
لوگ ھر طرف سے دوڑ دوڑ کر اس چائے خانے آنے لگے۔ ان میں ازبک، تاجک، ایرانی، ترکمان، عرب، ترک، جارجیائی، آرمینیائی اور تاتار سبھی تھے۔ وہ اپنے محبوب خواجہ نصرالدین کو، مشہور، زندہ دل اور ھوشیار خواجہ نصرالدین کو زور زور سے خوش آمدید کہہ رھے تھے۔
مجمع بڑھتا گیا۔
کہیں سے جئی کا ایک بورا، ایک گٹھا گھاس اور صاف پانی کی بالٹی بھی آگئی۔ یہ سب چیزیں گدھے کے سامنے پیش کردی گئیں۔
"خوش آمدید، خواجہ نصرالدین!" مجعمع نے کہا "آپ کہاں گھومتے پھرتے رھے، ھمیں کچھ بتائیے خواجہ نصرالدین!"
وہ برآمدے کے کنارے تک آغئے اور مجمع کے سامنے کافی خم ھوکر بولے:
"بخارا شریف کے شہریو، تم کو سلام! دس سال تک میں تم سے جدا رھا اوراب میرا دل اس ملاپ سے باغ باغ ھے۔ تم نے مجھ سے کچھ بتانے کو کہا ھے۔ بہتر ھوگا کہ میں اس کو گا کر سناؤں!"
انھوں نے ایک بڑآ سا مٹی کا گھڑا لے لیا، اس کا پنی انڈیل دیا اور اس کو اپنے ھاتھ سے بجاتے ھوئے گانا شروع کیا:
باج باج، گھڑے رے باج
اور کر امیر کے گن گان
کہہ سارے سنسار سے کتھا
ھمرے سندر جیون کی، امیر کے راج
گھڑا بھن بھنایا، ٹھن ٹھنایا
او رآکر تاؤ میں گھڑ گھڑایا
گرما کر گھوما چاروں طرف
اونچے سر میں سب سے فرمایا
ھاں، اونے سر میں فرمایا:
دیکھو! یہ کمھار نیاز ھمارا
برتنوں کا استاد نیارا
لیکن روزی سے بالکل ھارا
پیٹ سے ٹوٹا، پیسے کا مارا
اور جعفر کبڑے کو نیند نہ آئے
ڈر اپنی سونے کی دیگوں کا ستائے
خزانہ امیر کا بھی سونے سے امڈا آئے
اس کی گنتی بھیا کون تمھیں بتائے
”کمھار میرے اس درخت کے نیچے انتظار کر ۔ میں ایک گھنٹے میں لوٹ آؤنگا۔ دیکھ چُھپنے کی کوشش نہ کرنا کیونکہمیں تجھے سمندر کی تہہ سے بھی ڈھونڈ نکالوں گااور تیرے ساتھ مفرور غلام جیسا برتاؤ کرونگا۔ اور تو حسین گل جان ، میری بات کے بارے میں سوچ، تیرے باپ کی قسمت کا انحصار اس بات پر ھے کہ تو میرے ساتھ کیسا برتاؤ کرتی ھے۔“
اور اپنے بدنما چہرے پر اطمینان بخش مسکراھٹ کے ساتھ وہ جوھریوں کے بازار سے اپنی نئی داشتہ کے لئے زیورات خریدنے روانہ ھو گیا۔
غم سے چُور کمھار اپنی بیٹی کے ساتھ سڑک کے کنارے درخت کے نیچے بیٹھا رھا۔
خواجہ نصرالدین ان کے پاس گئے:
” کمھار، میں نے فیصلہ سنا تھا۔ تمھارے اوپر بڑی مصیبت آن پڑی ھے لیکن شاید میں تمھاری مدد کرسکوں۔“
”نہیں ، مہربان“ کمھار نے ناامیدی سے جواب دیا ” میں تمھارے پیوند لگے ھوئے کپڑوں سے ھی دیکھ سکتا ھوں کہ تم امیر نہیں ھو اور مجھے چار سو تانگوں کی ضرورت ھے۔ میرے دوست امیر نہیں ھیں ، سب ٹیکسوں اور محصولوں سے تباہ غریب لوگ ھیں ۔“
” بخارا میں میرے بھی دوست امیر نہیں ھیں“ خواجہ نصرالدین نے کہا ” پھر بھی میں یہ رقم جمع کرنے کی کوشش کرونگا۔“
” بخارا میں میرے بھی دوست امیر نہیں ھیں“ خواجہ نصرالدین نے کہا ” پھر بھی میں یہ رقم جمع کرنے کی کوشش کرونگا۔“
”چار سو تانگے ایک گھنٹے میں !“ بڈھے نے اپنا سفید سر ھلایا اور تلخی سے مسکرایا۔ ” اجنبی، تم مجھے چڑھا رھے ھو۔ صرف خواجہ نصرالدین ھی یہ کارنامہ کر سکتے ھیں۔“
”اجنبی، ھم کو بچائیے، بچائیے!“ گل جان نے اپنے باپ سے لپٹتے ھوئے کہا۔
خواجہ نصرالدین نے گل جان کی طرف دیکھا۔ اس کے ہاتھ بہت خوبصورت تھے ۔ اس نے خواجہ کو نظر بھر کر دیکھا اور نقاب کے اندر ھی اندر خواجہ نصرالدین نے ان آنکھوں کی پگھلی ھوئی چمک کو دیکھ لیا جن میں التجا اور امید تھی۔ خواجہ نصرالدین کی رگوں میں خون آگ کی طرح دوڑ گیا اور ان کی محبت ھزار گنا فروزاں ھو گئی۔ انھوں نے کمھار سے کہا:
”بڑے میں ، یہیں ٹھہرو، اگر میں سود خور کی واپس سے پہلے چار سو تانگے حاصل نہ کرسکا تو میں اپنے کو دنیا کا انتہائی قابلَ نفرت اور ذلیل آدمی سمجھونگا۔“
وہ کُود کر اپنے گدھے پر بیٹھے اور بازار کے مجمع میں غائب ھوگئے۔
(13)
اس وقت بازار میں صبح کے مقابلے میں ، جبکہ انتہائی مصروف گھنٹوں میں ھر شخص اس ڈر سے بھگتا دوڑتا، چیختا اور عجلت میں ھوتا ھے کہ کہیں موقع ہاتھ سے جاتا نہ رھے ، سناٹا تھا اور مج
طرف اچھل اچھل کے دانے دنے چُگ رھی تھیں اور خوشی خوشی چہچہا رھی تھیں۔
” اللہ بھلا کرے، بھلے آدمی ھم کو بھی کچھ دیتے جاؤ“ فقیر اپنے پھوڑے اور جسمانی عیب دکھا کر خواجہ نصرالدین سے بھیک کے لئے گھگھیا رھے تھے۔
انھوں نے جھڑک کر جواب دیا:
"الگ رہو، میں خود بھی تمھاری طرح غریب ھوں اور کوئی ایسی آسامی ڈھونڈ رھا ھوں جو مجھ کو چار سو تانگے دے سکے۔"
فقیروں نے یہ خیال کرکے کہ وہ ان کو چڑھا رھے ھیں خوب گالیں دیں لیکن خواجہ نصرالدین اپنے خیالات میں ایسے منہمک تھے کہ ان کو ان باتوں کے جواب دینے کا موقع کہاں۔
چائے خانوں کی قطار میں انھوں نے ایک ایسا چائے خانہ چنا جو سب سے بڑآ تھا اور جہاں مجمع بھی زیادہ تھا لیکن وھاں قیمتی قالین اور ریشمی گدے نہ تھے۔ وہ اس میں داخل ھوئے اور اپنے گدھے کو باھر باندھنے کی بجائے زینوں پر کھینچتے ھوئے لے آئے۔
لوگوں نے ان کا محتیر کن خاموشی سے خیر مقدم کیا۔ اس سے وہ ذرا بھی نہیں گھبرائے۔ انھوں نے اپنی خورجین سے وہ مقدس کتاب نکالی جو دو دن پہلے ان کو بڈھے نے دی تھی اور اس کو کھول کر گدھے کےک سامنے رکھ دیا۔
انھوں نے یہ کام بڑے اطمینان سے ذرا بھی مسکرائے بغیر کیا جیسے یہ بالکل فطری بات ھو۔ چائے خانے میں جو لوگ تھے انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔
گدھے نے چوبی فرش پر گونجدار آواز میں اپنے پیرپٹکے۔
"ابھی سے؟" خواجہ نصرالدین نے ورق الٹتے ھوئے کہا "تو نے نمایاں ترقی کی ھے۔"
اب چائے خانے کا توندیل اور زندہ دل مالک اپنی جگہ سے اٹھا اور خواجہ نصرالدین کے پاس آیا۔
"دیکھو، بھلے آدمی، کیا یہ تمھارے گدھے کے لئے مناسب جگہ ھے؟ اور تم نے یہ مقدس کتاب گدھے کے سامنے کیوں کھول رکھی ہے؟"
"میں اس گدھے کو دینیات کی تعلیم دے رھا ھوں" خواجہ نصرالدین نے اطمینان سے جواب دیا "اب یہ مقدس کتاب ختم ھونے والی ھے پھر ھم شریعت کا مطالعہ کریں گے۔"
سارے چائے خانے میں کھسر پھسر ھونے لگی۔ بہت سے لوگ اچھی طرح دیکھنے کے لئے کھڑے ھوگئے۔ چائے خانے کے مالک کی آنکھیں پھیلی اور منہ کھلا رہ گیا۔ اس نے اپنی زندگی میں ایسا عجوبہ نہیں دیکھا تھا۔ اس موقع پر گدھے نے پھر پیر پٹکے۔
"شاباش" خواجہ نصرالدین نے ورق الٹتے ھوئے کہا "بہت اچھے، تھوڑا سا اور پڑھ لے تو تو مدرسہ میر عرب مٰں صدر معلم دینیات کی جگہ لے سکے گا۔ صرف یہ ورق خود سے نہیں پلٹ سکتا ے اور اس کو کسی کی مدد کی ضرورت ھوتی ھے۔ اللہ نے اس کو تیز فہم بنایا ھے اور یاداشت بھی لاجواب ھے لیکن خدا نے اس کو انگلیاں نہیں دیں" خواجہ نصرالدین نے چائے خانے کے مالک سے کہا۔
"یہ کوئی معمولی گدھا نہیں ھے!" انھوں نے بتایا "یہ بذات خود امیر کی ملکیت ھے۔ ایک دن امیر نے مجھے طلب کیا اور پوچھا: کیا تم میرے محبوب گدھے کو دینیات پڑھا سکتے ھو تاکہ وہ اتنا ھی جان جائے جتنا میں جانتا ھوں؟ لوگوں نے مجھے گدھا دکھایا، میں نے اس کی لیاقت کی جانچ کی اور جواب دیا: اے تقدس مآب امیر! یہ لاجواب گدھا عقل و دانش میں آپ کے کسی وزیر سے کم نہیں ھے بلکہ آپ سے بھی۔ میں اس کو دینیات پڑھاؤں گا اور وہ اتنا ھی قابل ھو جائے گا جتنے آپ ھیں بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ لیکن اس میں بیس سال لگیں گے۔ امیر نے حکم دیا کہ خزانے سے مجھے سونے کے پانچ ھزار تانگے دے دئے جائیں اور کہا: گدھے کو لے جاؤ اور اسے پڑھاؤ لیکن میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ھوں کہ اگر بیس سال ختم ھونے پر اسے دینیات کا علم نہ ھوا اور وہ مذھبی کتابیں حفظ نہ کرسکا تو میں تمھارا سر اڑادونگا!"
"تو پھر تم اپنے سر کو سلام کرلو!" چائے خانے کے مالک نے کہا "کس نے سنا ھے کہ گدھا دینیات سیکھ سکتا ھے اور مذھبی کتابیں زبانی سنا سکتا ھے!"
"بخارا میں ایسے کافی گدھے ھیں" خواجہ نصرالدین نے جواب دیا "میں یہ بھی بتا دوں کہ سونے کے پانچ ھزار تانگے اور اچھا گدھا روز روز نہیں ملتے۔ اور رھا میرا سر تو اس کے لئے فکر نہ کرو کیونکہ بیس سال میں ھم میں سے کوئی نہ کوئی مریگا ضرور۔ یا تو میں یا امیر یا پھر گدھا۔ اس وقت یہ پرکھنے کا وقت گذر چکا ھوگا کہ ھم تینوں میں سے دینیات کا بڑا عالم کون ھے۔"
چائے خانہ قہقہوں سے گونج اٹھا۔ چائے خانے کا مالک تو ھنسی سے بےقابو ھو کر نمدوں پر گرپڑا اور اتنا ھنسا کہ اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر ھوگیا۔ وہ بڑا ھنس مکھ اور زندہ دل انسان تھا۔
"یہ سنا آپ نے" اس نے گھٹے ھوئے گلے سے خرخراتے ھوئے کہا "اس وقت یہ پرکھنے کا وقت گذرچکا ھوگا کہ کون دینیات کا بڑا عالم ھے!" یقینا ھنسی میں اس کا پیٹ پھٹ جاتا اگر اچانک اس کو ایک خیال نہ آگیا ھوتا۔
"ٹھہرئے، ٹھہرئے٬!" اس نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف کرنے کے لئے ھاتھ ھلائے "تم کون ھو؟ کہاں سے آئے ھو، دینیات کے استاد؟ کیا تم خود خواجہ نصرالدین ھو سکتے ھو؟"
"کیا یہ کوئی حیرت کی بات ھے؟ تمھارا قیاس صحیح ھے۔ میں خواجہ نصرالدین ھوں۔ بخارا شریف کے شہریو، سلام علیکم!"
ذرا دیر کے لئے ایسی خاموشی چھا گئی جیسے کسی نے جادو کر دیا ھو۔ یکدم ایک پرمسرت آواز نے خاموشی توڑی:
"خواجہ نصرالدین!"
"خواجہ نصرالدین! خواجہ نصرالدین!" یکے بعد دیگرے ھر ایک کی زبان پر آتا گیا۔ یہ آواز دوسرے چائے خانوں تک پہنچی اور پھر سارے بازار میں گونج گئی۔ ھر جگہ یہ آواز پھیل کر گونج رھی تھی:
"خواجہ نصرالدین! خواجہ نصرالدین!"
لوگ ھر طرف سے دوڑ دوڑ کر اس چائے خانے آنے لگے۔ ان میں ازبک، تاجک، ایرانی، ترکمان، عرب، ترک، جارجیائی، آرمینیائی اور تاتار سبھی تھے۔ وہ اپنے محبوب خواجہ نصرالدین کو، مشہور، زندہ دل اور ھوشیار خواجہ نصرالدین کو زور زور سے خوش آمدید کہہ رھے تھے۔
مجمع بڑھتا گیا۔
کہیں سے جئی کا ایک بورا، ایک گٹھا گھاس اور صاف پانی کی بالٹی بھی آگئی۔ یہ سب چیزیں گدھے کے سامنے پیش کردی گئیں۔
"خوش آمدید، خواجہ نصرالدین!" مجعمع نے کہا "آپ کہاں گھومتے پھرتے رھے، ھمیں کچھ بتائیے خواجہ نصرالدین!"
وہ برآمدے کے کنارے تک آغئے اور مجمع کے سامنے کافی خم ھوکر بولے:
"بخارا شریف کے شہریو، تم کو سلام! دس سال تک میں تم سے جدا رھا اوراب میرا دل اس ملاپ سے باغ باغ ھے۔ تم نے مجھ سے کچھ بتانے کو کہا ھے۔ بہتر ھوگا کہ میں اس کو گا کر سناؤں!"
انھوں نے ایک بڑآ سا مٹی کا گھڑا لے لیا، اس کا پنی انڈیل دیا اور اس کو اپنے ھاتھ سے بجاتے ھوئے گانا شروع کیا:
باج باج، گھڑے رے باج
اور کر امیر کے گن گان
کہہ سارے سنسار سے کتھا
ھمرے سندر جیون کی، امیر کے راج
گھڑا بھن بھنایا، ٹھن ٹھنایا
او رآکر تاؤ میں گھڑ گھڑایا
گرما کر گھوما چاروں طرف
اونچے سر میں سب سے فرمایا
ھاں، اونے سر میں فرمایا:
دیکھو! یہ کمھار نیاز ھمارا
برتنوں کا استاد نیارا
لیکن روزی سے بالکل ھارا
پیٹ سے ٹوٹا، پیسے کا مارا
اور جعفر کبڑے کو نیند نہ آئے
ڈر اپنی سونے کی دیگوں کا ستائے
خزانہ امیر کا بھی سونے سے امڈا آئے
اس کی گنتی بھیا کون تمھیں بتائے