(۳۰)
جعفر سود خور کے گھر میں سونے سے بھری ہوئی مہربند بارہ دیگیں رکھی تھیں لیکن وہ اب کم از کم بیس جمع کرنے کی سوچ رھا تھا۔ قسمت نے اس کو ایسی شکل و صورت دے کر جس سے اس کی حرص اور بے ایمانی ظاھر ھوتی تھی اس کے عیبوں کو اور عیاں کردیا تھا۔ یہ عیب اعتبار کرنے والے نا تجربے کار احمقوں کو آگاہ کردیتے تھے اور نیا شکار پھانسنا مشکل ھوجاتا۔ اس لئے اس کی دیگیں اس کی خواھش سے کہیں زیادہ سست رفتاری سے بھر رھی تھیں۔
"کاشکہ میرے جسمانی عیب دور ھوسکتے!" وہ آہ بھر کر کہتا "لوگ میری صورت دیکھ کر تو نہ بھاگتے، مجھ پر شبہ نہیں اعتبار کرتے۔ اس وقت ان کو دھوکہ دینا کتنا آسان ھوتا اور میری آمدنی کتنی تیزی سے بڑھتی۔"
جب شہر میں یہ افواہ پھیلی کہ امیر کے نئے دانا مولانا حسین نے بیماریوں کے علاج میں مہارت تامہ دکھائی ھے تو جعفر سود خور نے ایک ٹوکری میں بیش بہا تحائف بھرے اور محل میں حاضر ہوا۔
ارسلان بیک ٹوکری کا سامان دیکھنے کے بعد بڑی خوشی سے اس کی مدد کے لئے تیار ھوگیا:
"محترم جعفر، آپ بڑے وقت سے آئے ھیں۔ آج جہاں پناہ بہت محظوظ ھیں اور وہ شاید ھی آپ کی درخواست کو رد کریں۔"
امیر نے سود خور کی بات سنی، ھاتھی دانت کے فریم کی شطرنج کی طلائی بساط نذرانے میں قبول فرمائی اور دانا کی طلبی کا حکم دیا۔
"مولانا حسین" امیر نے کہا جب خواجہ نصرالدین آکر اس کے سامنے جھکے "یہ آدمی، جعفر سود خور، ھمارا وفادار خادم ھے۔ اس نے ھماری بڑی خدمت کی ھے۔ ھم حکم دیتے ھیں کہ تم فورا اس کا لنگڑا پن، کوبڑ ، آنکھ کا جالا اور دوسرے عیب دور کرو۔"
یہ کہہ کر امیر اس طرح مڑ گیا جیسے وہ کوئی عذر سننے کے لئے تیار نہیں ھے۔ خواجہ نصرالدین کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ تعظیم بجا لائیں اور چلے جائیں۔ ان کے پیچھے سودخور بھی اپنا کوبڑ گھسیٹتا ھوا کچھوے کی طرح چلا۔
"ھمیں جلدی کرنی چاھئے، عقلمند مولانا حسین" اس نے نقلی داڑھی میں خواجہ نصرالدین کو نہ پہچانتے ھوئے کہا۔ "ھمیں جلدی کرنی چاھئے کیونک ہسورج ابھی غروب نہیں ھوا ھے اور میں رات ھونے سے پہلے شفایاب ھو سکتا ھوں۔۔۔ آپ نےتو سنا، امیر نے حکم دیا ھے آپ مجھے فورا اچھا کردیں۔"
خواجہ نصرالدین دل ھی دل میں سودخور، امیر اور اپنے کو کوس رھے تھے کہ انھوں نے اپنے علم و فضل کو مشتہر کرنے میں اتنا جوش و خروش کیوں دکھایا ۔ سودخور تیزرفتاری سے چلنے کے لئے ان کی آستین برابر کھینچ رھا تھا۔ سڑکوں پر سناٹا تھا۔ خواجہ نصرالدین کے پیر گرم دھول میں دھنس رھے تھے۔ راہ چلتے انھوں نےسوچا "اس بلا سے کس طرح نجات ملے گی؟"وہ اچانک رک گئے "ایسا معلوم ھوتا ھے کہ اب اپنی قسم پوری کرنے کا وقت آگیا ھے۔"
تیزی سے انھوں نے ایک منصوبہ تیار کیا اور ھر ھر موقع کو اچھی طرح تول لیا۔ "ھاں" انھوں نے سوچا "اب وقت آگیا ھے ۔ سود خور، غریبوں پر ظلم کرنے والے سنگ دل، آج ھی تجھ کو ڈبونا ھے۔" وہ مڑ گئے تاکہ سود خور ان کی سیاہ آنکھوں کی چمک نہ دیکھ سکے۔
وہ ایک گلی میں مڑ گئے جہاں ھوا سے گرد کے بگولے اڑ رھے تھے۔ سود خور نے اپنے گھر کا پھاٹک کھولا۔ صحن کے دوسری طرف جہاں ایک نیچی باڑ کے ذریعہ زنان خانہ الگ کیا گیا تھا خواجہ نصرالدین نے سبز بیلوں کے پردے کے پیچھے سے چلنے پھرنے، چپکے چپکے کھسر پھسر اور ھنسی کی آوازیں سنیں۔ سود خور کی بیویاں اور داشتائیں کسی اجنبی کے آنے سے بہت خوش تھیں کیونکہ اس قید کی حالت میں ان کے لئے اور کوئی دلچسپی کا سامان نہ تھا۔ سود خور نے ذرا رک کر اس طرف درشتی دے ددیکھا۔ بالکل سناٹا ھوگیا۔
"حسین قیدیو، آج میں تمھیں نجات دلادونگا" خواجہ نصرالدین نے سوچا۔
جس کمرے میں سود خور ان کو لے گیا اس میں کھڑکیاں نہ تھیں اور دروازے کو کوئی زنجیروں اور تین قفلوں سے محفوظ کیا گیا تھا جن کے کھولنے کا گر صرف مالک مکان جانتا تھا۔ دروازہ کھولنے میں اس کو کافی دیر لگی۔ یہاں اس کی سونے کی دیگیں رکھی تھیں اور تہہ خانے کے دھانے پر لکڑی کے تختے پڑے تھے جن پر وہ سوتا تھا۔
"کپڑے اتار دو!" خواجہ نصرالدین نے حکم دیا۔
سود خور نے اپنے کپڑے اتار دئے اور عریانی کی حالت میں وہ اور کریہہ المنظر ھوگیا۔ خواجہ نصرالدین نے دروازہ بندکرکے دعائیں پڑھنا شروع کیں۔
اس دوران میں جعفر کے بہت سے رشتے دار صحن میں جمع ھوگئے۔ ان میں سے بہت سے اس کے قرضدار تھے اور ان کو امید تھی کہ وہ ان کے قرض معاف کرکے یہ خوشی کی تقریب منائیگا۔ لیکن ان کی امیدیں بے بنیاد تھیں۔ بند کمرے میں مقروض لوگوں کی آواز سن کر اس کا دل کینہ پرور خوشی سے بھر گیا۔ "آج تو میں ان سے کہہ دونگا کہ میں نے ان کا قرض معاف کیا" اس نے سوچا "لیکن میں ان کے تمسک واپس نہیں دونگا۔ وہ یقین کرکے بے فکر ھو جائیں گے۔ میں کچھ نہیں کہونگا اور ان کے قرض کا کھاتہ بنا لونگا۔ اور جب ان پر اصل کا سود دس گنا ھو جائے گا اور پوری رقم ان کے مکانات، باغات اور انگور کے باغیچوں کی مالیت سے زیادہ ہو جائے گی تو میں قاضی کے پاس جاؤنگا اور اپنے وعدے سے انکار کرکے رسیدیں پیش کرونگا۔ ان کا مال متاع بکوا کر ان کو بھک منگا بنوا دونگا اور سونے سے ایک اور دیگ بھر لونگا!"
"اٹھو! کپڑے پہنو!" خواجہ نصرالدین نے کہا "ھم احمد پیر کے تالاب پر جائیں گے اور وھاں تم پاک پانی میں نہاؤ گے۔ شفا پانے کے لئے یہ لازمی ھے۔"
"احمد پیر کا تالاب!" سود خور گھبرا کر بولا۔ "ایک بار تو میں اس میں ڈوبتے ڈوبتے بچا۔ دانائے روزگار مولانا حسین سمجھ لیجئے کہ میں تیرنا نہیں جانتا۔"
"تالاب کی طرف جاتے ھوئے تمھیں متواتر دعائیں پڑھتے رھنا چاھئے" خواجہ نصرالدین نے کہا۔ "تمھیں دنیاوی باتوں کے بارے میں نہ سوچنا چاھئے۔ تمھیں اشرفیوں سے بھری ایک تھیلی ساتھ لے چلنا وھگا اور راستے میں جس سے بھی لو گے اسے ایک اشرفی دینی ھوگی۔"
سود خور کے منہ سے آہ نکل گئی لیکن اس نے ھدایت پر حرف بحرف عمل کیا۔ ان کی ملاقات ھر طرح کے لوگوں سے ھوئی۔ کاریگروں اور بھک منگوں سے اور سود خور نے ھر ایک کو ایک ایک اشرفی دی حالانکہ اس سے اس کا دل پھٹا جا رھا تھا۔ اس کے رشتے دار بھی پیچھے پیچھے تھے۔ خواجہ نصرالدین نے خاص مقصد سے ان کو مدعو کرلیا تھا تاکہ آئندہ ان پر یہ الزام نہ لگایا جاسکے کہ انھوں نے جان بوجھکر سود خور کو ڈبودیا۔
سورج چھتوں کے پیچھے غروب ھو رھا تھا، درختوں کا سایہ تالاب پر پھیل گیا تھا، ھوا میں مچھر گا رھے تھے۔ جعفر نے کپڑے اتارے اور پانی کے قریب گیا۔
"یہاں بہت گہرا ھے" اس نے فریاد کی "میں نے جو کچھ کہا تھا اس کو آپ بھولے تو نہیں ھیں، مولانا۔ میں پیر نہیں سکتا۔"
رشتے دار خاموشی سے دیکھ رھے تھے۔ سودخور شرم سے اپنے کو ھاتھوں سے چھپائے، خوف سے سکڑا سکڑایا کسی اتھلی جگہ کے لئے تالاب کا چکر لگانے لگا۔
اکڑوں بیٹھ کر اس نے تالاب میں لٹکتی ھوئی جھاڑیوں کا سہارا لیا اور پانی میں ڈرتے ڈرتے ایک پیر ڈالا۔
"ٹھنڈا ھے پانی " وہ بڑبڑایا۔ اس کی آنکھیں پریشانی میں نکل پڑی تھیں۔
"تم وقت ضایع کر رھے ھو" خواجہ نصرالدین نے اس کی طر ف سے نگاہ ھٹاتے ھوئے کہا کیونکہ وہ اس رحم کے خلاف جس کا سود خور سزاوار نہ تھا اپنے دل کو فولادی بنا رھے تھے۔ پھر انھوں نے ان مصیبتوں کا خیال کیا جو جعفر کے برباد کئے ھوئے غریب لوگ جھیلتے ھیں، بیمار بچے کے خشک لب، بڈھے نیاز کے آنسو۔ اور ان کا چہرہ غصے سے تمتما اٹھا۔ اب وہ کھلم کھلا جرأت کے ساتھ سودخور کی نگاھوں سے نگاھیں ملا سکتے تھے۔
"تم وقت ضایع کر رھے ھو" انھوں نے بات دھرائی "اگر شفا چاھتے ھو تو تالاب کے اندر اترو۔"
سودخور نے پانی کے اندر جانا شروع کیا۔ وہ اتنا آھستہ آھستہ جا رھا تھا کہ جب وہ گھٹنوں گھٹنوں پانی میں پہنچا تو اس کی توند کنارے ھی سے لگی تھی۔ آخرکار جب وہ کھڑا ھوا تو کمر تک تھا۔ گھاس پھوس ادھر ادھر حرکت کر رھے تھے اور ان کا سرد مس اس کے جسم میں گدگدی پیدا کر رھا تھا۔ اس کے شانے سردی سے کانپ رھے تھے۔ وہ ایک قدم اور آگے بڑھا اور مڑ کر دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھیں کسی بے زبان جانور کی طرح التجا کر رھی تھیں لیکن خواجہ نصرالدین نے کچھ نہیں کہا۔ اس وقت سودخور کو چھوڑدینے کا مطلب ھزاروں غریبوں کو مصیبت میں مبتلا رکھنا تھا۔
پانی سودخور کے کوبڑ تک پہنچ گیا لیکن خواجہ نصرالدین اس سے برابر آگے بڑھنے کو کہتے رھے۔
"آگے بڑھو، آگے، پانی کانوں تک آجانے دو۔ نہیں تو میں تمھارے علاج کا ذمہ دار نہیں ۔ چلو، ھمت باندھو، محترم جعفر! دل مضبوط کرو! ایک قدم اور! ذرا سے اور آگے!"
"غہ غہ" سود خور نے پانی کے اند رجاتے ھوئے غر غر کی آواز میں کہا۔
"غہ غہ" جب وہ اوپر آیا تو یہی آواز پھر نکلی۔
"ڈوب رھا ھے! ڈوب رھا ھے!" اس کے رشتے دار چلائے۔
ایک عام ھنگامہ ھوگیا۔ ڈوبتے ھوئے آدمی کی طرف شاخیں اور چھڑیاں بڑھا دی گئیں۔ کچھ لوگ محض رحم دلی کی بنا پر اس کی مدد کرنا چاھتے تھے اور دوسرے محض بناوٹ کر رھے تھے۔ خواجہ نصرالدین آسانی سے بتا سکتے تھے کہ جعفر کا کون اور کتنا قرضدار ھے۔ وہ خود ھر ایک سے زیادہ گھبرا کر ادھر ادھر دوڑ رھے تھے اور کہہ رھے تھے:
"ارے یہاں! اپنا ھاتھ ھمیں دو، محترم جعفر! ارے سنو! اپنا ھاتھ ھمیں دو!"
ان کو یہ بخوبی علم تھا کہ سودخور اپنا ھاتھ کبھی نہ دیگا کیونکہ "دینے" کا لفظ ھی اسے مفلوج کرنے کے لئے کافی تھا۔
"اپنا ھاتھ ھمیں دو!" رشتے دار ایک ساتھ چلائے۔
اب سود خور غوطے کھا کھا کر اور دیر میں اوپر آنے لگا اور وہ اس مقدس پانی میں ڈوب مرتا اگر ایک سقہ اپنی پیٹھ پر خالی مشک لئے ننبگے پیر ادھر سے دوڑتا نہ گذرتا۔
"ارے!" اس نے ڈوبتے ھوئے آدمی کو دیکھ کر کہا "کہیں یہ جعفر سودخور تو نہیں ھے!"
اور وہ کپڑے اتارے بغیر بلا جھجھک پانی میں کود گیا اور اپنا ھاتھ بڑھاتے ھوئے زور سے کہا:
"لو یہ رھا میرا ھاتھ، اس کو پکڑ لو!"
سودخور نے ھاتھ پکڑ لیا اور اس کو پانی سے باھر صحیح سلامت کھینچ لایا گیا۔
سودخور کنارے پر پڑا دم لے رھا تھا اور اس کو نجات دلانے والا بڑی تیزی سے اس کے رشتے داروں کو بتا رھا تھا:
"تم غلط طریقے سے ان کی مدد کر رھے تھے۔ تم .لو. کی بجائے .دو. کہہ رھے تھے۔ تمھیں نہیں معلوم کہ معزز جعفر ایک بار اور اسی تالاب میں ڈوب رھے تھے اور ایک اجنبی نے جو بھورے گدھے پر ادھر سے گذر رھا تھا انھیں بچایا تھا؟ اس اجنبی نے جعفر کو بچانے کے لئے یہی طریقہ اختیار کیا تھا اور مجھے یاد رہ گیا۔ آج یہ کام آیا۔"
اس دوران میں سودخور کی سانس ٹھکانے لگی اور اس نے شکایت آمیز لہجے میں منمانا شروع کیا:
"ارے مولانا حسین! آپ نے تو میرا علاج کرنے کے لئے کہا تھا لیکن مجھ کو قریب قریب ڈبو ھی دیا تھا! خدا کی قسم، اب میں کبھی اس تالاب کے قریب نہیں پھٹکونگا! آپ کیسے دانا ھیں گر آپ کو ایک سقہ یہ بتاتا ھے کہ کیسی آدمی کو ڈوبنے سے بچایا جاسکتا ھے؟ میری قبا اور عمامہ دو۔ آئیے، مولانا، اندھیرا ھو رھا ھے اور جو کچھ ھم نے شروع کیا ھے اسے ختم کرنا ھے۔ اور تم، میاں سقے" سود خور نے کھڑے ھوتے ھوئے کہا " مت بھولنا کہ تمھارا قرض ایک ھفتے میں واج الادا ھو جائے گا۔ لیکن میں تمھیں انعام دینا چاھتا ھوں اور اس لئے میں تمھیں آدھا۔۔۔ میرا مطلب ھے چوتہائی۔۔۔ نہیں تمھارے قرض کا دسواں حصہ معاف کردونگا۔ یہ کافی ھے کیونکہ میں تمھاری مدد کے بغیر آسانی سے اپنے کو بچا سکتا تھا۔"
"ارے محترم جعفر" سقے نے جھجکتے ھوئے کہا "آپ اپنے کو میری مدد کے بغیر نہیں بچا سکتے تھے۔ کیا آپ میرا چوتہائی قرض معاف کردیں گے؟"
"اچھا! تو تم نے مجھ کو اپنی غرض کی بنا پر بچایا!" سودخور نے کہا۔" تم نے نیک مسلمان کی حیثیت سے یہ نہیں کیا بلکہ لالچ کیوجہ سے! ارے سقے، تجھے اس کی سزا ملنی چاھئے۔ میں تیرا ذرا سا قرض بھی نہیں معاف کرونگا!"
مغموم سقہ وھاں سے ھٹ گیا اور خواجہ نصرالدین اس کو رحم کی نظروں سے دیکھتے رھے۔ پھر انھوں نے جعفر کی طرف نفرت و حقار سے دیکھا۔
"آئیے، مولانا حسین" جعفر نے جلدی کرتے ھوئے کہا "آپ اس لالچی سقے سے کیا سرگوشی کر رھے ھیں؟"
"ٹھہرو" خواجہ نصرالدین نے کہا۔ "تم بھول گئے کہ تمھیں ھر ملنے والے کو ایک اشرفی دینی چاھئے۔ تم نے اس سقے کو اشرفی کیوں نہیں دی؟"
"ھائے مصیبت! میں تباہ ھوجاؤنگا!" سودخور نے فریاد کی۔ "سوچئے تو کہ میں ایسے برے اور لالچی آدمی کو اشرفی دینے پر مجبورھونگا!" اس نے اپنی تھیلی کھولکر ایک اشرفی پھینک دی۔ "بس یہ آخری ھے۔ اب اندھیرا ھوگیا ھے اور واپسی کے راستے پر ھمیں کوئی نہیں ملے گا۔"
لیکن خواجہ نصرالدین نے سقے سے بلا وجہ کانا پھوسی نہیں کی تھی۔
وہ واپس روانہ ھوگئے۔ آگے سودخورتھا، اس کے پیچھے خواجہ نصرالدین اور پھر سوخور کے رشتے دار۔ ابھی وہ مشکل سے پچاس قدم گئے ھوں گے کہ ایک گلی سے سقہ نکلا۔ یہ وھی تھا جس کو یہ لوگ تالاب کے کنارے چھوڑ آئے تھے۔
سودخور نے ادھر سے منہ موڑ لیا جیسے اس کو دیکھنا ھی نہ چاھتا ھو لیکن خواجہ نصرالدین نے اس کو پھٹکارا:
"جعفر یاد رکھو، ھر ایک کو جس سے بھی تم ملو!"
اندھیرے میں ایک انتہائی اذیت بھری کراہ گونجی۔ جعفر اپنی تھیلی کھول رھا تھا۔
سقے نے اشرفی لی اور اندھیرے میں غائب ھوگیا۔ کوئی پچاس قدم بعد پھر وہ ان کے سامنے آن موجود ھوا۔ سود خور زرد پڑ گیا اور کانپنے لگا۔
"مولانا" اس نے فریاد کرتے ھوئے کہا "یہ تو وھی ھے۔۔۔"
"ھر ایک کو جس سے تم ملو" خواجہ نصرالدین نے دھرادیا۔
پھر خاموش فضا میں ایک کراہ گونجی۔ جعفر اپنی تھیلی کھول رھا تھا۔
یہ واقعہ سارے راستے پیش آیا۔ سقہ ھر پچاس قدم پر سامنے آجاتا۔ وہ خوب ھانپ رھا تھا اور اس کے چہرے سے پسینہ بہہ رھا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرھا تھا کہ کیا ھو رھا ھے لیکن وہ اشرفی لیتا اور تیز بھاگتا اور پھر آگے سڑک پر کسی جھاڑی سے برآمد ھوتا۔
اپنا پیسہ بچانے کے لئے سود خور تیز تیز چلنے لگا اور آخر میں دوڑنا شروع کردیا لیکن وہ تو لنگڑا تھا۔ وہ سقے سے کیسے جیت سکتا تھا جو جوش میں ھوا ھوا جا رھا تھا۔ وہ جھاڑیوں اور باڑؤں کو پار کرتا بھاگ رھا تھا۔ اس نے سود خور سے کم از کم پندرہ بار بھینٹ کی اور آخری بار بالکل اس کے گھر کے قریب۔ وہ ایک چھت پر سے کودا اور دروازے پر راستہ روک کر کھڑا ھوگیا۔ آخری اشرفی پانے کے بعد وہ تھک کر زمین پر گر پڑا۔
سودخور جلدی سے اپنے صحن میں گھس گیا۔ خواجہ نصرالدین اس کے پیچھے تھے۔ اس نے اپنی خالی تھیلی خواجہ نصرالدین کے قدموں پر ڈال دی اور غصے سے چلایا۔
"مولانا، میرا علاج بہت قیمتی ھے! میں ابھی تک تحفوں ، خیرات اور اس کمبخت سقے پر تین ھزار تانگے خرچ کر چکا ھوں !"
"ذرا دم لو" خواجہ نصرالدین نے جواب دیا "بس، آدھہ گھنٹے کے اندر تم کو اس کا انعام مل جائے گا۔ ایک بڑا سا الاؤ صحن کے بیچوں بیچ تیار کرنے کا حکم دو۔"
نوکر ایندھن لا لا کر الاؤ تیار کر رھے تھے اور خواجہ نصرالدین اس بات میں دماغ لڑا رھے تھے کہ کس طرح سود خور کو چرکا دیا جائے اور اس کے شفا نہ پانے کا سارا الزام اسی کے سر تھوپ دیا جائے۔ انھوں نے کئی منصوبے سوچے لیکن ان کو نامناسب پا کر رد کر دیا۔ اس دوران میں الاؤ تیار ھو گیا تھا، ھلکی ھوا میں شعلے بھڑک رھے تھے اور انگوروں کا باغیچہ سرخ شعلوں سے روشن ھو گیا تھا۔
"جعفر، کپڑے اتار کر تین بار الاؤ کے گرد پھرو" خواجہ نصرالدین نے کہا۔ وہ ابھی تک کوئی منصوبہ نہیں بنا سکے تھے اور تھوڑا سا وقت پانے کے لئے یہ کر رھے تھے۔ وہ خیالات میں ڈوبے نظر آتے تھے۔
رشتے دار خاموشی سے دیکھ رھے تھے۔ سود خور الاؤ کے گرد اس طرح گھوم رھا تھا جیسے کوئی زنجیر سے بندھا ھوا بندر ھو۔ وہ اپنے ھاتھ ھلا رھا تھا جو گھٹنوں تک پہنچتے تھے۔
خواجہ نصرالدین کا چہرہ دمک اٹھا۔ انھوں نے اطمینان کا سانس لیکر انگڑائی لی:
"مجھے ایک کمبل تو دینا" انھوں نے گونجتی ھوئی آواز میں حکم دیا۔ "جعفر اور تمام دوسرے لوگ ادھر آؤ۔"
انھوں نے تمام رشتے داروں کا ایک حلقہ بنا دیا اور جعفر کو بیچ میں زمین پر بٹھا دیا۔ پھر انھوں نے کہا:
"میں جعفر کواس کمبل سے ڈھک کر ایک دعا پڑھونگا۔ تم سب کو معہ جعفر کے آنکھیں بندکرکے دعا کو دھرانا چاھئے۔ اس کے بعد جب میں کمبل اٹھاؤنگا تو جعفر شفا یاب ھوگا۔ لیکن میں تم سب کو ایک انتہائی اھم شرط سے آگاہ کرنا چاھتا ھوں ۔ جب تک وہ پوری نہ ھوگی جعفر شفایاب نہیں ھوسکتا۔ جو کچھ میں کہتا ھوں کان دھر کر سنو اور یاد رکھو۔"
رشتے دار خاموشی سے سننے اور یاد رکھنے کی تیاری کرنے لگے۔
"جب تم میرے ساتھ دعا کو دھراتے ھوگے" خواجہ نصرالدین نے زور سے صاف صاف کہا "تم میں سے کسی کو بھی، اور سب سے زیادہ جعفر کو، بندر کا ھرگز ھرگز خیال نہ آنا چاھئے! اگر تم میں سے کوئی بھی اس کے بارے میں سوچیگا یا اس سے بھی برا یہ ھوگا کہ اس کو اپنے تصور میں دیکھے گا۔ اس کی دم، اس کے لال چوتڑ، کریہہ چہرہ اور زرد دانت۔ تو پھر شفا نہ ھوگی اور نہیں ھوسکتی ھے کیونکہ کسی مقدس کام کا انجام بندر ایسے گندے جانور کے خیال کے ساتھ نہیں ھوسکتا۔ سمجھے نا تم لوگ؟"
"ھم لوگ سمجھ گئے" رشتے داروں نے کہا۔
"جعفر، تیار ھو جاؤ اور اپنی آنکھیں بندکرلو" خواجہ نصرالدین نے سود خور پر کمبل ڈالتے ھوئے بڑی شان سے کہا۔ "اور اب تم اپنی آنکھیں بندکرو!" اس نے رشتے داروں سے کہا "اور اس شرط کو یاد رکھنا، بندر کا خیال نہ آئے۔"
پھر انھوں نے دعا پڑھنا شروع کی:
"خداوند تعالی اس مقدس دعا کے اثر سے اپنے ناچیز خادم جمفر کو شفا بخش۔۔۔"
"خداوند تعالی اس مقدس دعا کے اثر سے۔۔۔ " مختلف آوازوں میں رشتے داروں کا کورس بلند ھوا۔۔۔ اس موقع پر خواجہ نصرالدین نے دیکھا کہ ایک شخص کے چہرے پر گھبراھٹ اور پریشانی کے آثار نمایاں ھوئے، دوسرے رشتے دار نے کھانسا شروع کیا، تیسرا الفاظ کو دھرانے میں ھکلانے لگا اور چوتھے نے اس طرح سرھلایا جیسے وہ کوئی صورت سامنے سے ھٹانے کی کوشش کر رھا ھو۔ ایک لمحہ بعد جعفر خود بیچینی سے کلبلانے لگا۔ ایک بہت ہی کریہہ المنظر اور انتہائی بدصورت بندر جس کی دم لمبی اور دانت زرد تھے اس کے ذھن کے پردے پر نمودار ھو کر اس کو چڑھا رھا تھا۔ کبھی وہ اس کو زبان نکال کر دکھاتا اور کبھی لال لال چوتڑ اور دوسرے اندام جو مومن کے تصور کے لئے بھی زیبا نہیں ھیں ۔
خواجہ نصرالدین اونچی آواز میں دعا پڑھتے رھے۔ اچانک وہ چپ ھوگئے جیسے وہ کوئی بات سن رھے ھوں ۔ رشتے دار بھی خاموش ھوگئے اور بعض تو پیچھے ہٹ گئے۔ جعفر کمبل کے نیچے دانت پیس رھا تھا کیونکہ اس کا بندر طرح طرح کی بدتمیزی کی شرارتوں پر اتر آیا تھا۔
"ارے ناپاک، بے ایمانو!" خواجہ نصرالدین گرج پڑے۔ "تم نے میری حکم عدولی کی جرآت کیسے کی۔ تمھیں یہ ھمت کیسے ھوئی کہ دعا پڑھتے وقت اسی بات کا تصور کرو جس کے لئے میں نے خاص طور سے تمھیں منع کیا تھا!" انھوں نے کمبل الٹ دیا اور جعفر پر پھوٹ پڑے "تم نے میری مدد کیوں مانگی تھی؟ اب میری سمجھ میں آگیا کہ تم شفا نہیں چاھتے تھے! تم مجھے ذلیل کرنا چاھتے تھے۔ تم میرے دشمنوں کے لئے یہ سب کر رھے تھے! جعفر ھوشیار رھنا! کل ھی امیر کو سارا قصہ معلوم ھو جائے گا۔ میں انھیں بتاؤنگا کہ کس طرح تم نے دعا پڑھتے وقت جان بوجھکر مرتدانہ خیالات سے بندر کا تصور کیا! جعفر ھوشیار رھنا اور تم سب بھی! تم آسانی سے نہیں چھٹکارا پاؤ گے۔ یقینا تم کو کفر کی سزا تو معلوم ھی ھوگی۔۔۔"
چونکہ کفر کی سزا ھمیشہ انتہائی شدید ھوتی تھی اس لئے رشتے دار تو مارے خوف کے مفلوج ھوگئے۔ سود خور اپنے کو بے قصور ثابت کرنے کے لئے اس طرح ھکلانے لگا کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ خواجہ نصرالدین اس کی بات سننے کے لئے نہیں رکے۔ وہ وھاں سے مڑ کر چل پڑے اور پھاٹک دھڑام سے بدن کیا۔
جلد ھی چاند چاند بلند ھوگیا۔ شہر ھلکی ھلکی چاندنی میں نہا گیا۔ سود خور کے گھر میں رات گئے تک تو تو میں میں جاری رھی۔ ھر شخص گرم ھو کر بحث کررھا تھا اور یہ جاننا چاھتا تھا کہ بندر کا تصور کرنے میں پہل کس نے کی۔