داستان خواجہ بخارا کی

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
” ھاں ، ھاں ، خداوند نعمت! پرسوں میں نے اس کے جوڑوں کو کس دیا÷ کل میں نے گرم چمٹی سے اس کے دانت ھلانے میں سارا زور صرف کیا۔“

” دانت ھلانا بڑی اچھی اذیت ھے“ امیر نے تصدیق کی ۔ ”حالانکہ یہ عجیب بات ھے کہ وہ خاموش ھے۔ کیا میں کوئی ۔۔۔ اور تجربے کار جلاد تمھاری مدد کے لئے بھیجوں؟“

”نہیں ، حضورِ والا اس فکر کی زحمت نہ کریں۔ کل میں ایک نئی اذیت آزماؤنگا۔ کل میں بڈھے کی زبان اور مسوڑے ایک لال انگارہ برمے سے چھیدونگا۔“

”ٹھہرو ! ٹھہرو!“ امیر نے زور سے کہا۔ اس کا چہرہ یکایک خوشی سے چمک اٹھا۔ ”بھلا وہ تمھیں اپنا نام کیسے بتائے گا اگر تم نے اس کی زبان جلتے ھوئے برمے سے چھید دی! مولانا حسین ! تم نے اس کی بابت کبھی نہیں سوچا تھا، ھے نا، اور ھم نے، امیر اعظم نے فورا سوچ لیا اور تم کو ایک زبردست غلطی کا مرتکب ھونے سے بچا لیا۔ اس سے یہ ثابت ھوتا ھے کہ اگرچہ تم دانائے بے نظیر ھو ، ھماری عقل و فرست تم سے کہیں زیادہ ھے ، جیسا کہ تم نے ابھی ابھی دیکھا۔“


وہ خوشی سے پھولا نہیں سما رھا تھا۔ مسرت میں سرشار اس نے درباریوں کو فورا طلب کیا۔ جب وہ سب جمع ھو گئے تو اس نے اعلان کیا کہ اس دن وہ مولانا حسین سے عقل و دانش میں سبقت لے گیا ھےاور ایسی غلطی سے بچا لی ھے جو دانا کرنے ھی والا تھا۔

درباری واقعی نویس نے آنے والی نسلوں کے لئے امیر کے ایک ایک لفظ کو بڑی محنت سے لکھ لیا۔

اس دن سے امیر کے دل میں رشک و حسد نہیں رھا۔

اس طرح ایک اتفاقیہ غلطی نے خواجہ نصرالدین کے دشمنوں کی عیارانہ سازشوں کو ناکام بنا دیا۔

لیکن رات کی تنہائی میں ان کی پریشانی زیادہ بڑھنے لگی۔ پورا چاند شہر بخارا پر بلند ھو چکا تھا۔ بے شمار میناروں کے سروں پر روغن دار کھپرے چمک رھے تھے اور پتھر کی زبردست بنیادیں ایک نیلگوں دھندلکے میں مستور تھیں۔ ھلکی ھلکی ھوا چل رھی تھی۔ چھتوں پر تو خنک تھی لیکن نیچے جہاں زمین اور دھوپ سے جلتی ھوئی دیواروں کو ٹھنڈا ھونے کے لئے کافی وقت نہیں ملا تھا یہی ھوا گھٹن پیدا کر رھی تھی ۔ سب چیزون پر نیند چھائی ھوئی تھی ۔ محل ، مسجدوں اور جھونپڑیوں پر۔ صرف الو اپنی تیز چیخوں سے اس مقدس شہر کے امن و سکوت میں خلل انداز ھو رھے تھے۔

خواجہ نصرالدین کھلی کھڑکی پر بیٹھے تھے ۔ ان کا دل یہ کہتا تھا کہ گل جان بھی نہ سوئی ھوگی اور انھیں کے بارے میں سوچ رھی ھو گی۔ شاید اس وقت وہ دونوں ایک ھی مینار کو دیکھ رھے ھوں لیکن ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکتے تھے کیونکہ وہ دیوروں، سلاخوں، خواجہ سراؤں اور مغلانیوں کے ذریعہ ایک دوسرے سے جدا تھے۔ خواجہ نصرلادین محل میں تو آ گئے تھے لیکن ابھی حرم تک پہنچ نہیں ھوئی تھی جس کا موقع قسمت ھی سے مل سکتا تھا۔ وہ انتھک اس موقع کے بارے میں سوچتے رھتے لیکن سب بے سود ھوتا ! وہ گل جان کو کوئی پیام تک نہ بھیج سکے تھے۔ وہ کھڑکی میں بیٹھے ھوا کو چوم کر یہ کہہ رھے تھے:

” تیرے لئے تو یہ بہت آسان ھے! آھستہ سے اس کی کھڑکی کے اندر جا کر اس کے ھونٹ چوم لے۔ گل جان کو میرا بوسہ اور پیام پہنچا! اسے بتا کہ میں اسے بھولا نہیں ھوں۔ اس سے کہہ کہ میں اسے نجات دلاؤنگا۔“

لیکن ھوا خواجہ نصرالدین کو غم میں ڈوبا چھوڑ کر آگے بڑھ گئی۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پھر حسب معمول ایک اور دن کاموں اور فکروں کے ساتھ شروع ھو جاتا۔ پھر خواجہ نصرالدین کو دربار میں حاضر ھونا پڑتا ۔ امیر کی آمد کا انتظار کرنا ھوتا ، درباریوں کی چاپلوسیاں سننا پڑتیں ، بختیار کی عیارانہ سازشوں کو سمجھنا اور اس کی خفیہ زھریلی نگاھوں کی نگرانی کرنی پڑتی تھی۔ پھر امیر کے سامنے جھکنا پڑتا ، اس کے قصیدے پڑھنے پڑتے اور اس کے بعد امیر کے ساتھ گھنٹوں تنہائی میں رھ کر ، اس کے پھولے اور مسخ چہرے سے نفرت کے باوجود ، اس کی احمقانہ باتوں کو غور سے سننا پڑتا اور اس کو ستاروں کی گردش کے بارے میں بتانا پڑتا ۔ خواجہ نصرالدین ان باتوں سے اتنے تنگ آ چکے تھے کہ وہ کوئی نئی بات نہ کہتے اور ھر چیز کی خواہ وہ امیر کا درد ھو یا فصل کی خشکسالی اور غلے کی گرانی ایک ھی الفاظ میں اور ایک ھی ستاروں کے جھرمٹ سے تاویل کر دیتے ۔ وہ اکتائے ھوئے لہجے میں کہتے:

”سعد الذبیح کے ستارے جھرمٹ قوس کے خلاف ھیں جبکہ سیارہ عطارد اب جھرمٹ عقرب کے بائیں طرف آگیا ھے۔ امیر کو کل رات نیند نہ آنے کی وجہ یہ ھے۔“


”سعد الذبیح کے ستارے سیارہ عطارد کے خلاف ھیں جبکہ۔۔۔ مجھے یہ یاد رکھنا چاھئے۔۔۔ مولانا حسین اس کو دھراؤ۔“

بہر حال امیر اعظم کے ھاں حافظے کا فقدان تھا۔

دوسرے دن پھر اسی پر نئے سرے سے بات چیت شروع ھوتی:

” امیر اعظم ، پہاڑی علاقوں میں مویشیوں کی ھلاکت کو سبب یہ ھے کہ سعدالذبیح کے ستارے جھرمٹ قوس سے مطابقت کر رھے ھیں جبکہ عطارد عقرب کے خلاف ھیں۔“
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
”اچھا تو سعدالذبیح کے ستارے“ امیر کہتا ”مجھے یہ یاد رکھنا چاھئے۔“

”اللہ اکبر ! کتنا احمق ھے یہ !“ خواجہ نصرالدین عاجز ھو کر سوچتے۔ ”یہ تو میرے سابق مالکان سے بھی زیادہ گدھا ھے! میں تو اس سے تنگ آ گیا۔ نہیں معلوم مجھے اس محل سے کب نجات ملے گی!“

اس دوران میں امیر کوئی اور موضوع چھیڑ دیتا:

”مولانا حسین، ھماری سلطنت میں امن و امان کا دور دورہ ھے۔ اب خواجہ نصرالدین کی کوئی خبر نہیں آتی۔ وہ کہاں چلا گیا؟ وہ کیوں خاموش ھے؟ ھمیں یہ بتاؤ۔“

”شہنشاہ معظم، مرکز عالم! سعدالذبیح کے ستارے۔۔۔“ خواجہ نصرالدین نے اکتائی اور تھکی ھوئی آواز سے کہنا شروع کیا اور وھہ سب باتیں دھرا ڈالیں جو پہلے نجانے کتنی بار کہہ چکے تھے۔ ”اور اس کے علاوہ ، امیر معظم ، یہ بدمعاش خواجہ نصرالدین بغداد جا چکا ھے اور ظاھر ھے کہ اس نے میری عقل و دانش کی شہرت سنی ھو گی اور جب اسے معلوم ھوا کہ میں بخارا آ گیا ھوں تو وہ خوف و ھراس سے پوشیدہ ھو گیا کیونکہ وہ جانتا ھے کہ میں اس کو آسانی سے گرفتار کر سکتا ھوں۔“

”اس کو گرفتار کر سکتے ھو ؟ یہ تو بہت اچھا رھے گا ! لیکن تم یہ کام کیسے کرنے والے ھو؟“

”اس کے لئے میں سعد الذبیح کے ستاروں اور سیارہ مشتری کے قران السعدین کا انتظار کروں گا۔“

”سیارہ مستری کے ساتھ“ امیر نے دھرایا ”مجھے یہ یاد رکھنا چاھئے۔ مولانا ، جانتے ھو کل رات میرے دماغ مین ایک لاجواب خیال آیا ھے۔ ھم نے سوچا کہ بختیار کو بر طرف کر کے اس کی جگہ پر تم کو وزیر اعظم مقرر کیا جائے۔“

خواجہ نصرالدین کو امیر کے سامنے جھک کر اس کی تعریف کرنی پڑی اور شکریہ ادا کرنا پڑا اور یہ وضاحت کرنی پڑی کہ فی الحال سعدالذبیح کر ستارے وزیروں میں کسی تبدیلی کے لئے ناسازگار ھیں۔

”جلدی جلدی بھاگو یہاں سے!“ خواجہ نصرالدین نے سوچا۔

اس طرح محل میں ان کی زندگی خوشیوں سے خالی اور اداس گذر رھی تھی ۔ وہ بازار ، بھیڑ بھکڑ ، چائے خانوں اور دھوئیں بھرے باورچی خانوں کے لئے بے تاب تھے۔ وہ امیر کے پورے لذیذ دستر خوان کو لات مار کر بھیڑ کے پایوں کے گرم گرم پیاز کٹے خوب چٹ پٹے شوربے کے پیالے یا بھیڑ کی سخت بوٹیوں کے سستے بازاری پلاؤ کو خوشی سے ترجیح دیتے۔ خوشامد اور تعریف کی جگہ وہ سیدھی سادی بات چیت اور زندہ دلانہ قہقہے سننے کے لئے اپنے زرتار لباس کا تبادلہ چیتھڑوں سے کر سکتے تھے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
لیکن قسمت کو خواجہ کی آزمائش منظور تھی اس لئے وہ سازگار موقع نہیں ھاتھ آرھا تھا جس کا مدتوں سے انتظار تھا۔ اس دوران امیر برابر یہ پوچھتا رھتا کہ آخر کب ستارے اس کو اپنی نئی داشتہ کا نقاب الٹنے کی اجازت دیں گے۔





28



ایک دن امیر نے خواجہ نصرالدین کو بے وقت طلب کر لیا۔ صبح کا تڑکا تھا ، محل سویا ھوا تھا، فوارے کلبلا رھے تھے اور قمریاں کو کو کر کے اپنے پر پھڑپھڑا رھی تھیں۔

”اس کو مجھ سے کیا کام ھو سکتا ھے؟“ خواجہ نصرالدین نے شاھی کمرے کی طرف جانے والے یشب کے زینوں پر چڑھتے ھوئے سوچا۔

خواجہ کی مڈ بھیڑ بختیار سے ھوئی جو خوابگاہ سے نکل کر چپکے سے سائے کی طرح غائب ھو گیا۔ انھوں نے بلا رکے ھوئے صاحب سلامت کی۔ خواجہ نصرالدین تاڑ گئے کہ کچھ سازش ھے اور پھونک پھونک کر قدم بڑھانے لگے۔

خوابگاہ میں خواجہ سراؤں کا داروغہ موھود تھا۔ حضور عصمت مآب شاھی بستر کے پاس پٹ پڑے ھوئے بری طرح کراہ رھے تھے۔ سونے سے منڈھے ھوئے پام کے ایک بید کے ٹکڑے ٹوٹے ھوئے ان کے پاس قالین پر بکھرے ھوئے تھے۔

مخمل کے بھاری پردوں نے خوابگاہ میں صبح کی تازہ ھوا ، سورج کی شعاعیں اور چڑیوں کی چہچہاھٹ کو آنے سے روک رکھا تھا۔ کمرے میں ایک ٹھوس سونے کے لیمپ کی دھیمی روشنی تھی جو سونے کا ھونے کے باوجود معمولی مٹی کے چراغ کی طرح دھواں اور بو دے رھا تھا۔ ایک کونے میں نقشی عود دان سے بڑی بھینی بھینی تیز خوشبو نکل رھی تھی لیکن وہ بھیڑ کی چربی کی بو کو نہیں دور کر سکی تھی ۔ خوابگاہ کی فضا اتنی بھاری تھی کہ خواجہ نصرالدین کی ناک میں کھجلی ھونے لگی اور گلا گھٹنے سا لگا۔

امیر بیٹھا ھوا تھا۔ اس کے بالدار پیر ریشمی لحاف سے باھر نکلے ھوئے تھے۔ خواجہ نصرالدین نے دیکھا کہ شاہ کی ایڑیاں ایسی زرد تھیں جیسے اس نے ان کو اکثر اپنے ھندی عود دان کے اوپر سینکا ھو۔

”مولانا حسین ھم سخت پریشان ھیں“ امیر نے کہا ”اور ھمارے خواجہ سراؤں کا داروغہ جس کو تم یہاں دیکھتے ھو اس کا سبب ھے۔“
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
”شہنشاہ معظم!“ خواجہ نصرالدین نے زور سے کہا لیکن اندر سے برف ھوگئے ”اس کی یہ جرات کیسے ھوئی؟“

”ارے ، نہیں !“ امیر نے تیوری چڑھا کر ھاتھ جھٹکا۔ ”وہ کیسے کر سکتا تھا جبکہ ھم نے حسب معمول اپنی فراست و دانائی سے ھر چیز پہلے سے دیکھ لی اور اس کو خواجہ سراؤں کا داروغہ مقرر کرنے سے پہلے ھر بات اچھی طرح جانچ لی تھی۔ نہیں ، نہیں اس طرح کی کوئی بات نہیں ھے ۔ ھمیں آج یہ معلوم ھوا کہ یہ بدمعاش ، ھمارے خواجہ سراؤں کا داروغہ ، اس بات کو بھول گیا کہ ھم نے اس کو ھم نے اپنی سلطنت میں ایک بہت ھی اونچا منصب عطا کیا ھے اور اپنے فرائض سے غفلت برتنے لگا۔“

”اس بات سے فائدہ اٹھا کر کہ ھم آج کل اپنی داشتاؤں کے پاس نہیں جارھے ھیں اس نے تین دن حرم سے غائب رہ کر حشیش پینے کی لت میں مست رھنے کی جرات کی۔ حرم کا نظم و نسق بگڑ گیا۔ ھمری داشتائیں بے مہار ھو کر ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے ، ایک دوسرے کا منہ اور بال نوچنے لگیں۔ اس سے ھمارا کافی نقصان ھوا کیونکہ ھماری نگاہ میں وہ عورت حسین نہیں ھو سکتی جس کے چہرے پر کھرونچے ھوں اور سر کے کافی بال غائب ھو چکے ھوں۔ اس کے علاوہ ایک اور بات نے ھم کو رنج و غم میں غرق کر دیا ھے۔ ھماری نئی داشتہ بیمار پڑ گئی ھے اور تین دن سے کھانا نہیں کھا رھی ھے۔“

خواجہ نصرالدین چونک پڑے لیکن امیر نے ان کو اشارے سے روکا:

”رکو، ابھی ھم نے بات ختم نہیں کی ھے۔ وہ بیمار پڑ گئی ھے اور ممکن ھے کہ وہ اپنی جان ھی گنوا بیٹھے ۔ اگر ھم اس کے پاس صرف ایک ھی بار گئے ھوتے تو ھم کو اس کی بیماری ، حتٰی کہ اس کی موت کا بھی اتنا غم نہ ھوتا۔ لیکن تم سمجھ سکتے ھو، مولانا حسین ، کہ موجودہ حالت مٰں ھم کس قدر ناراض ھیں۔ اس لئے ھم نے فیصلی کیا ھے“ امیر نے اپنی آواز بلند کر دی ”کہ مزید کوفتوں اور فکروں سے بچنے کے لئے ھم اس حشیش پینے والے بد معاش، پاجی کو برطرف کر دیں، اس کو اپنی عنایات سے محروم کر دیں اور اس کو دو سو درے لگوائیں۔ جہاں تک تمھارا تعلق ھے ، مولانا حسین، ھم نے اس کے برعکس فیصلہ کیا ھے کہ تم پر عنایت کرتے ھوئے اپنے حرم میں خواجہ سراؤں کے داروغہ کے عہدے پر فائز کریں۔“

خواجہ نصرالدین کو محسوس ھوا جیسے ان کے پیر سن ھو گئے ھیں ، ان کی سانس گلے ھی میں رک گئی ھے اور ان کے پیٹ کے اندر کسی نے برف کی سل رکھ دی ھے۔

امیر نے تیوری چڑھا کر دھمکی آمیز لہجے میں دریافت کیا:

”مولانا حسین ، ایسا معلوم ھوتا ھے کہ تم ھم سے بحث کرنے پر تُلے ھو۔ کیا ایسا ھے کہ تم بیکار اور وقتی خوشیوں کو مابدولت کی خدمت کرنے کی عظیم مسرت پر ترجیح دیتے ھو؟“

خواجہ نصرالدین نے اب تک اپنے کو سنبھال لیا تھا۔ وہ بہت جھک کر تعظیم بجا لائے اور بولے:
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
”خدا ھمارے مہربان بادشاہ کو سلامت رکھے۔ مجھ پر امیر کی عنایات بے انتہا ھیں۔ شہنشاہ معظم میں اپنی رعایا کے انتہائی خفیہ اور اندرونی آرزوؤں کو معلوم کرنے کی معجزنما خوبی ھے۔ اس طرح وہ اپنی رعایا پر متواتر اکرام کی بارش کرتے رھتے ھیں۔ میں نے، اس ناچیز نےاکثر یہ تمنا کی ھے کہ اس کاھل اور بیوقوف آدمی کی جگہ حاصل کروں جو منصفانہ سزا پانے کے بعد جس کا وہ خود سبب بنا ھےقالین پر پڑا کراہ رھا ھے اور فریاد کر رھا ھے۔ کتنی بار یہ خواھش میرے دل میں آئی لیکن میں نے امیر سے عرض نہیں کیا ۔ لیکن اب خود شہنشاہ اعظم نے فرمایا۔“

”تو پھر دیر کیوں ھو؟“ امیر نے خوش ھو کر دوستانہ انداز میں ان کی بات کاٹ دی۔ ”ھم حکیم کو طلب کرتے ھیں۔ وہ اپنے چاقو ساتھ لائے گا اور تم اس کے ساتھ تنہا جگہ میں چلے جاؤ گے۔ اس دوران میں ھم بختیار کو حکم دینگے کہ وہ تم کو خواجہ سراؤں کا داروغہ مقرر کرنے کا فرمان تیار کرلے۔ ارے!“ اس نے زور سے کہا اور تالی بجائی۔

”حضورِ اعلٰی میری حقیر بات بھی سن لیں“ خواجہ نصرالدین نے ھراساں دروازے کی طرف دیکھتے ھوئے جلدی سے کہا۔ ”میں بڑی خوشی کے ساتھ حکیم کے ساتھ فورا کسی تخلئے کی جگہ جانے کو تیار ھوں لیکن صرف حضور کی سلامتی کی فکر مجھے ایسا کرنے سے روکتی ھے۔ اس عمل کے بعد مجھے کئی دن تک صاھب فراش رھنا پڑیگا۔ اس دوران میں نئی داشتہ مر سکتی ھے اور پھر امیر کے دل پر غم کے سیاہ بادل چھا جائیں گے جس کا خیال ھی ان کے غلام کے لئے ناقابل برداشت ھے۔ اس لئے میری تجویز یہ ھے کہ پہلے داشتہ صحت مند ھو جائے اس کے بعد میں حکیم کے پاس جاؤں اور خواجہ سراؤں کے داروغہ کے منصب کے لئے تیاری کروں۔“

”ھونہہ“ امیر خواجہ نصرالدین کی طرف بے اعتباری سے دیکھتے ھوئے بڑبڑایا۔

”آقا ، اس نے تین دن سے کھانا نہیں کھایا ھے۔“

”ھونہہ“ امیر نے دھرایا۔ پھر وہ کراھتے ھوئے خواجہ سرا کی طرف مڑ گیا ”ارے، کمبخت مکڑی کے بچے جواب دے، کیا ھماری نئی داشتہ بہت بیمار ھے، کیا اس کی جان کا خطرہ ھے؟“

خواجہ نصرالدین بڑی بے چینی سے جواب کا انتظار کر رھے تھے۔ ان کے چہرے پر ٹھنڈا پسینہ بہہ رھا تھا ۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
خواجہ سرا نے کہا:

”شہنشاہ معظم، وہ ھلال کی طرح دبلی اور زرد ھوگئی ھے۔ اس کا چہرہ مومی ھوگیا ھے اور انگلیاں ٹھنڈی پڑ گئی ھیں۔ مغلانیاں کہتی ھیں کہ یہ بہت بری علامتیں ھیں۔۔۔“

امیر سوچ میں پڑ گیا۔ خواجہ نصرالدین تاریکی میں ھٹ گئے۔ وہ خوابگاہ کی اس دھواں دھواں سی نیم تاریکی کے شکرگذار تھے جس نے ان کے چہرے کی زردی چھپا لی تھی۔

”ھاں !“ آخرکار امیر بولا ”اگر ایسا ھے تو ممکن ھے کہ وہ مر جائے اور اس سے ھمیں بڑا رنج ھو گا۔ لیکن کیا تمھیں یقین ھے ، مولانا حسین ، کہ تم اس کو شفایاب کر سکو گے؟“

”بادشاہ سلامت جانتے ھیں کہ بخارا اور بغداد کے درمیان میرا جیسا کوئی حکیم نہیں ھے۔“

”جاؤ، مولانا ، اس کے لئے دوا تیار کرو۔“

”بادشاہ سلامت، پہلے مجھے اس کی بیماری معلوم کرنی ھوگی۔ مجھے اسے دیکھنا چاھئے۔“

”اسے دیکھنا چاھئے؟“ امیر نے حقارت سے ھنس کر کہا ۔

”مولانا حسین، جب تم خواجہ سراؤں کے داروغہ ھو جاؤ گےتو تم کو اسے دیکھنے کے لئے کافی وقت ملے گا۔“

”اعلیٰ حضرت!“ خواجہ نصرالدین زمین تک جھک گئے۔ ”مجھے ضرور۔۔۔“

”ذلیل غلام!“ امیر چیخا۔ ”کیا تو نہیں جانتا کہ ھماری داشتاؤں کے چہرے پر کسی آدمی نگاہ پڑنے کا انجام اس کی اندوھناک موت کے سوا کچھ بھی نہیں ھے۔“

”میں جانتا ھوں ، اعلٰی حضرت!“ خواجہ نصرالدین نے جواب دیا۔ ”لیکن میرا مطلب اس کے چہرے سے نہ تھا۔ میں اس کے چہرے کو دیکھنے کی کبھی جرات نہیں کر سکتا۔ میرے لئے تو صرف اس کا ھاتھ دیکھنا کافی ھوگا کیونکہ میں اپنے پیشے میں کافی ماھر ھوں اور میں ھر بیماری کی تشخٰص ناخونوں کا رنگ دیکھ کر کر سکتا ھوں ۔“

”اس کا ھاتھ؟“ امیر نے دھرایا۔ ”تم نے پہلے ھی کیوں نہ بتا دیا تاکہ ھمیں غصہ نہ آتا ؟ اس کا ھاتھ؟ ھاں ، یہ ممکن ھے۔ ھم تمھارے ساتھ حرم میں چلیں گے۔ ھمیں یقین ھے کہ کسی عورت کا ھاتھ دیکھنا ھمارے لئے نقصان کا باعث نہ ھو گا۔“
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
”اس کے ھاتھ پر نگاہ ڈالنے سے اعلٰی حضرت کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا“ خواجہ نصرالدین نے جواب دیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ چونکہ وہ گل جان سے کبھی تنہا نہیں مل سکیں گے کسی نہ کسی کی موجودگی لازمی ھے۔ اس لئے اگر وہ آدمی امیر خود ھی ھو تو کوئی ھرج نہیں۔ اس طرح امیر کو شک بھی نہ ھو گا۔





(29)



اتنے دن انتظار میں بیکار گذارنے کے بعد بالآخر حرم کے دروازے خواجہ نصرالدین پر کھل گئے۔

پہرے دار تعظیم بجا لاتے ھوئے ایک طرف ھٹ گئے۔ خواجہ نصرالدین امیر کے پیچھے ایک پتھر کے زینے پر چڑھے اور پھر ایک چھوٹے دروازے کے ذریعہ حسین باغ میں آگئے۔ یہاں گلاب اور سوسن و سنبل کے تختے کھلے تھےاور ان کے درمیان سنگ مرمر اور سنگ اسود کے حوضوں میں فوراے اچھل رھے تھے۔ ان پر پانی کی ایک لطیف چادر سی پھیلی ھوئی تھی۔ پھولوں اور گھاس پر صبح کی شبنم چمک اور تھرک رھی تھی۔

خواجہ نصرالدین کا ایک رنگ آتا ایک جاتا۔ خواجہ سرا نے اخروٹ کا نقشیں دروازہ کھولدیا۔ مشک و عنبر اور گلاب کے عطر کا ایک زوردار بھبکا اندر کے پراسرار حصے سے آیا۔ یہ تھا حرم، امیر کے حسین قیدیوں کی غم انگیز رھائش گاہ۔

خواجہ نصرالدین نے ایک ایک کونے ، گذرگاہ اور موڑ کو اچھی طرح ذھن نشین کر لیا تا کہ جب وہ فیصلہ کن لمحہ آئے تو راستہ نہ بھولیں کیونکہ اس کا مطلب اپنی گل جان دونوں کی موت تھا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
”دائیں طرف“ انھوں نے دل ھی دل میں دھرایا ”پھر بائیں۔ یہاں ایک زینہ ھے جس پر ایک بڈھی عورت پہرہ دے رھی ھے۔ اب پھر بائیں کو۔۔۔“

گذرگاھوں میں بہت مدھم روشنی تھی جو نیلے ، سبز اور گلابی چینی شیشوں سے چھن چھن کر آرھی تھی۔ خواجہ سرا ایک تنگ سے دروازے کے پاس رک گیا:

”آقا، وہ یہاں ھے۔“

خواجہ نصرالدین نے امیر کے پیچھے اس چوکھٹ کو پار کیا جو ان کی قسمت کا فیصلہ کرنے والی تھی۔

چھوٹا سا کمرہ تھا جس کی دیواریں اور فرش قالین سے ڈھکے ھوئے تھے۔ طاقچون میں سیپ کے ڈبے رکھے تھے جن میں کنگن ، بالیاں اور ھار بھرے ھوئے تھے اور دیوار پر ایک چاندی کے فریم کا آئینہ تھا۔ بیچاری گل جان نے تو یہ زروجواھر خواب میں ‌بھی نہیں دیکھے تھے! خواجہ نصرالدین کی نگاہ اس کی موتیوں سے مرصع چھوٹی سی جوتیوں پر پڑی اور وہ کانپ گئے۔ گل جان نے ان کے تلے گھس دئے تھے۔ ان کو اپنے جذبات کا گلا گھونٹنے کے لئے اپنی تمام قوتِ ارادی سے کام لینا پڑا۔

خواجہ سرا نے ایک کونے میں ریشمی پردے کی طرف اشارہ کیا۔ گل جان وھاں لیٹی تھی۔

”وہ سو رھی ھے“ خواجہ سرا نے سرگوشی میں کہا۔

خواجہ نصرالدین کے اندر ایک طوفان سا برپا ھو گیا۔ ان کی محبوبہ اتنی قریب تھی۔ ”اپنے دل کو فولاد کا بنا لو، سب جھیل جاؤ، خواجہ نصرالدین!“ انھوں نے اپنے آپ سے کہا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جب وہ پردے کے قریب گئے تو انھوں نے سوتی ھوئی گل جان کی سانس لینے کی آواز سنی۔ مسہری کے سرھانے کی طرف ریشمی کپڑا آھستہ آھستہ ھل رھا تھا۔ خواجہ نصرالدین کو ایسا لگا جیسے کسی کی آھنی گرفت نے ان کا گلا گھونٹ دیا ھے ، ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور ان کی سانس پھول گئی۔

”مولانا حسین، تم اس قدر سست کیوں پڑ گئے؟“ امیر نے پوچھا۔

”اعلٰی حضرت، میں اس کی سانس کی آواز سن رھا ھوں۔ میں اس پردے کے پیچھے سے آپ کی خاتون کے دل کی حرکت معلوم کرنے کی کوشش کر رھا ھوں۔ اس کا نام کیا ھے؟“

”اس کا نام گل جان ھے“ امیر نے کہا۔

”گل جان!“ خواجہ نصرالدین نے نرمی سے پکارا۔

مسہری کے سرے پر پردے کی حرکت اچانک رُک گئی ۔ گل جان جاگ اٹھی تھی اور بے حس و حرکت لیٹی تھی۔ اس کو یہ یقین نہیں تھا کہ وہ خواب دیکھ رھی ھے یا وہ واقعی اپنے محبوب کی آواز سن رھی ھے۔

”گل جان!“ خواجہ نصرالدین نے پکارا۔ گل جان کے منہ سے ھلکی سی چیخ نکل گئی لیکن خواجہ نصرالدین نے تیزی سے کہا:

”میرا نام مولانا حسین ھے۔ میں نیا دانا، نجومی اور حکیم ھوں جو بغداد سے امیر کی خدمت میں حاضر ھوا ھے۔ تم سمجھیں نا، گل جان۔ میں ھوں نیا دان، نجومی اور حکیم مولانا حسین۔“

”کسی وجہ سے وہ میری آواز سن کے ڈر گئی۔ غالبا اعلٰی حضرت کی غیر موجودگی میں یہ خواجہ سرا اس کے ساتھ سختی سے پیش آیا ھے۔“

امیر نے خواجہ سرا کو گھور کر دیکھا جو اپنی صفائی دینے کے لئے آواز نکالے بغیر کانپ کر زمین تک جھک گیا۔

”گل جان ، تمھارے لئے خطرہ ھے“ خواجہ نصرالدین نے کہا ”لیکن میں تمھیں بچا لونگا۔ تمھیں مجھ پر اعتماد کرنا چاھئے کیونکہ میرا فن ھر چیز پر قابو پا سکتا ھے۔“

”میں تمھاری بات سن رھی ھوں، مولانا حسین، بغداد کے حکیم۔ میں تم کو جانتی ھون اور تم پر اعتماد کرتی ھوں اور یہ میں بادشاہ سلامت کے حضور میں کہتی ھوں جن کے قدم میں پردے کی درازون سے دیکھ رھی ھوں۔“

یہ لحاظ رکھتے ھوئے کہ امیر کی موجودگی میں ان کے لئے باوقار اور عالمانہ رویہ اختیار کرنا لازمی تھا خواجہ نصرالدین نے درشتی سے کہا:

”مجھے اپنا ھاتھ دو تا کہ میں ناخونوں کے رنگ سے تمھاری بیماری کی تشخیص کر سکوں۔“

ریشمی پردہ ھلا اور بیچ سے کھل گیا۔ خواجہ نصرالدین نے نرمی سے گل جان کا اتھ پکڑ لیا۔ وہ اس کو دبا کر ھی اپنے جذبات کا اظہار کر سکتے تھے۔ گل جان نے بھی ھلکے سے ان کا ھاتھ دبا کر جواب دیا۔ انھوں نے اس کا ھاتھ پلٹا اور بڑی دیر تک غور سے ھتھیلی کو دیکھتے رھے۔ ”کتنی دبلی ھو گئی ھے“ ان کے دل میں ایک ٹیس اٹھی۔ امیر ان کے پیچھے سے جھانک رھا تھا۔ اس کی سانس خواجہ کے کان میں لگ رھی تھی۔ خواجہ نصرالدین نے اس کو گل جان کی چھنگلیا کا ناخن دکھا کر اپنا سر اس طرح ھلایا جیسے کوئی خطرہ ھو۔ حالانکہ یہ ناخن بھی دوسرے ناخونون کی طرح تھا لیکن امیر کو اس میں کوئی خرابی معلوم ھوئی اور اس نے اپنے ھونٹ چبا کر خواجہ نصرالدین کی طرف معنی خیز انداز میں دیکھا۔

”تمھارے درد کہاں ھوتا ھے؟“ خواجہ نصرالدین نے پوچھا۔

”دل میں“ گل جان نے آہ بھر کر جواب دیا۔ ”میرا دل غمگین اور اداس ھے۔“

”تمھارے غم کا سبب کیا ھے؟“

”میں اپنے محبوب سے جدا ھوں۔“

خواجہ نصرالدین نے چپکے سے امیر سے کہا:
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
” وہ اعلٰی حضرت سے جدائی کیوجہ سے بیمار ھے۔“

امیر کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔ اس کی سانس اور تیز ھو گئی۔

”میں اپنے محبوب سے جدا ھوں“ گل جان نے کہا ”اور اب میں محسوس کرتی ھوں کہ میرا محبوب مجھ سے قریب ھے لیکن نہ تو میں اس کو چوم سکتی ھوں اور نہ اس سے بغل گیر ھو سکتی ھوں۔ ارے وہ دن کب آئیگا جب وہ مجھ سے بغل گیر ھوگا اور مجھے اپنے آغوش میں لیگا۔“

”اللہ اکبر!“ خواجہ نصرالدین نے مصنوعی حیرت سے کے ساتھ کہا۔ ”اعلٰی حضرت نے اس مختصر مدت میں عشق کا کیسا شعلہ اس کے اندر روشن کر دیا ھے!“

امیر خوشی سے بدمست ھوگیا۔ وہ نچلا نہ رھ سکا اور ٹہلنے لگا۔ ساتھ ھی منہ پر ھاتھ رکھ کر ھی ھی کر رھا تھا۔

”گل جان!“ خواجہ نصرالدین نے کہا ”اطمینان رکھو، جس سے تم محبت کرتی ھو وہ تمھاری باتیں سن رھا ھے!“

صراحی کے قلقل کی طرح پردے کے پیچھے سے ھنسنے کی ھلکی سی آواز آئی۔ خواجہ نصرالدین نے اپنی بات جاری رکھی:

”تمھارے لئے خطرہ ھے، گل جان ، لیکن ڈرو نہیں۔ میں مشہور دانا، نجومی اور حکیم مولانا حسین ، تم کو بچا لونگا۔“

”یہ تم کو بچا لیں گے!“ امیر نے خوشی کے ساتھ دھرایا۔ ”یہ تم کو قطعی بچا لیں گے!“

”اعلٰی حضرت نے جو کچھ کہا تم نے سنا؟“ خواجہ نصرالدین نے اپنی بات جاری رکھی۔ ”تمھیں مجھ پر اعتماد کرنا چاھئے۔ میں تم کو خطرے سے نجات دلاؤنگا۔ تمھاری مسرتوں کا دن اب قریب ھے۔ فی الحال بادشاہ سلامت تمھارے پاس نہیں آسکتے کیونکہ میں نے ان کو ستارون کے اس حکم سے آگاہ کر دیا ھے کہ ان کو عورت کی نقاب نہ چھونا چاھئے۔ لیکن ستاروں کا مقام بدل رھا ھے، تم سمجھتی ھو نہ گل جان؟ جلد ھی ستارے راس آئیں گے اور تم اپنے محبوب سے ھم آغوش ھو سکو گی۔ جس دن میں تم کو دوا بھیجوں گا اس کے ایک دن بعد تمھاری مسرت کا دن آئیگا۔ تم سمجھتی ھو نا، گل جان۔ دوا ملنے پر تم کو تیار ھو جانا چاھئے!“

”تمھارا بہت بہت شکریہ ، مولانا حسین!“ گل جان نے خوشی سے ھنستے اور روتے ھوئے جواب دیا۔ ”تمھارا شکریہ لا جواب اور دانا حکیم! میرا محبوب قریب ھے اور مٰیں محسوس کرتی ھوں کہ ھمارے دل ایک ساتھ مل کر دھڑک رھے ھیں۔“

امیر اور خواجہ نصرالدین باھر نکلے۔ خواجہ سراؤں کا داروغہ دروازے پر آکر ان سے ملا۔

”آقا!“ وہ گھٹنوں کے بل گر کر چلایا۔ ”سچ مچ دنیا نے ایسا ماھر حکیم کبھی نہیں دیکھا ھے۔ تین دن سے وہ بے حس و حرکت پڑی تھی اور اب اچانک اس نے اپنی مسہری چھوڑ دی ھے، وہ گا رھی ھے ، ھنس اور ناچ رھی ھے اور جب مین اس کے قریب گیا تو اس نے میرے کان پر ایک مکہ بھی عنایت فرمایا۔“

”یہ ھے میری گل جان“ خواجہ نصرالدین نے سوچا ”وہ ھمیشہ ھاتھ کی تیز تھی۔“

ناشتے پر امیر نے تمام درباریوں پر عنایات کی بارش کر دی۔ خواجہ نصرالدین کو دو تھیلیاں عطا ھوئیں ۔ بڑی تھیلی چاندی کے سکوں سے بھری تھی اور چھوٹی میں طلائی سکے تھے۔

”ھم نے کیا جذبات اکسا دئے ھیں!“ اس نے چہکتے ھوئے کہا ”تمھیں ماننا پڑیگا ، مولانا حسین کہ تم نے ایسی لگن کم ھی دیکھی ھوگی۔ اس کی آواز کیسی کانپ رھی تھی ، کیسی وہ رو اور ھنس رھی تھی۔ لیکن یہ تو اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ھے جو تم خواجہ سراؤں کے داروغہ کا منصب سنبھالنے کے بعد دیکھو گے۔“

مؤدب درباریوں کی صفوں میں کچھ سرگوشی ھوئی۔ بختیار کینہ آمیز انداز میں مسکرایا ۔ اب خواجہ نصرالدین کو پتہ چلا کہ اس کو خواجہ سراؤں کا داروغہ بنانے کی بات کس نے امیر کو سمجھائی ھے۔

اب وہ صحت یاب ھو گئی ھے“ امیر نے کہا ”اور اب تمھاری تقرری کو ملتوی رکھنے کا کوئی سبب نہیں ھے۔ اب ھمارے ساتھ چائے پیو اور اس کے بعد تم حکیم کے پاس جا سکتے ھو۔ ارے سننا“ وہ حکیم کی طرف مڑا اور حک دیا ”جاؤ اپنے نشتر لاؤ۔ بختیار فرمان لاؤ۔“

خواجہ نصرالدین کے گلے میں گرم چائ اٹک گئی اور وہ کھنسنے لگے۔ بختیار تیار شدہ فرمان لیکر آگے بڑھا۔ وہ انتقامانہ مسرت سے سرشار تھا۔ امیر کے سامنے قلم حاضر کیا گیا

اور اس نے دستخط کر کے فرمان بختیار کو واپس کر دیا۔ بختیار نے جلدی سے اس پر مہر لگائی۔ یہ سب کام چٹکی بجاتے ھو گیا۔

”لائق اور عقلمند مولانا حسین، ایسا معلوم ھوتا ھے کہ فرط مسرت سے تمھارے ھونٹوں پر مہر لگ گئی ھے“ بختیار نے فاتحانہ مسکراھٹ کے ساتھ کہا۔ ”بہر حال آداب کا تقاضہ یہ ھے کہ تم امیر کا شکریہ ادا کرو۔“

خواجہ نصرالدین تخت کے سامنے گھٹنوں کے بل جھک گئے۔

” آخر کار میری دلی تمنا بر آئی“ انھوں نے کہا ”مجھے اس تاخیر کے لئے بڑا رنج ھے جو امیر کی داشتہ کی دوا تیار کرنے میں لگے گی۔ ھمیں علاج کو پختہ کر لینا چاھئے ورنہ بیماری پھر اس کے جسم کو ستا سکتی ھے۔“

”کیا دوا کی تیاری کے لئے اتنے وقت کی ضرورت ھے؟“ بختیار نے بے چینی سے سوال کیا۔ ”یقینا وہ آدھہ گھنٹے میں تیار کی جاسکتی ھے۔۔۔“

”بالکل ٹھیک“ امیر نے تصدیق کی۔”آدھہ گھنٹے کا وقت کافی ھے۔“

”آقا ! اس کا انحصار تو سعد الذبیح کے ستاروں پر ھے“ خواجہ نصرالدین نے ترکش کا آخری تیر استعمال کرتے ھوئے جواب دیا۔ ”ان کے محل کے مطابق مجھے دو دن سے پانچ دن تک لگ سکتے ھیں۔“

”پانچ دن!“ بختیار نے زور سے کہا۔ ”فاضل بزرگ ، میں نے تو کبھی کسی دوا کی تیاری میں پانچ دن لگتے نہیں سنے۔“

خواجہ نصرالدین امیر سے مخاطب ھو گئے:

”شاید اعلٰی حضرت عنایت کر کے اپنی نئی داشتہ کا علاج آئندہ کے لئے میرے نہیں بلکہ وزیر اعظم بختیار کے سپرد کردینگے۔ اب وھی اس کا علاج کریں۔ میں اس کی زندگی کی ذمہ داری نہیں لیتا۔“

”کیا ھوا مولانا ، تم کیا کہہ رھے ھو؟“ امیر نے گھبرا کر کہا ۔ ”بختیار دوا علاج کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور وہ کچھ ایسا ھوشیار بھی نہیں ھے جیسا کہ میں نے تم سے اسی وقت کہا تھا جب تم کو وزیر اعظم کا عہدا عطا کرنے کی تجویز کی تھی۔“


وزیر اعظم کے جسم میں ھلکی سی جھرجھری دوڑ گئی اور انھوں نے زھر آلود نگاھوں سے خواجہ نصرالدین کو دیکھا۔

”جاؤ دوا تیار کرو“ امیر نے کہا ”لیکن پانچ دن بہت ھوئے مولانا، کیا اس سے جلدی نہیں تیار کر سکتے؟ ھم چاھتے ھیں کہ تم جلد از جلد اپنا عہدہ سنبھال لو۔“

”شہنشاہ معظم، میں خود بھی مشتاق ھوں!“ خواجہ نصرالدین نے کہا ”میں جلد از جلد دوا تیار کرنے کی کوشش کرونگا۔“

وہ پچھلے پیروں ھٹتے ھوئے رخصت ھوئے اور متعدد بار جھک کر تعظیم بجا لائے۔ بختیار نے ان کو جاتے ھوئے دیکھا اور اس کے چہرے سے معلوم ھوتا تھا کہ وہ اپنے دشمن اور حریف کو اتنا صاف جاتے ھوئے دیکھ کر کیسا سلگ رھا ھے ۔

” سانپ! مکار لکڑ بگھے!“ خواجہ نصرالدین نے سوچا اور غصے میں دانت پیستے ھوئے کہا۔ ”لیکن بختیار تم چوک گئے۔ اب تم میرا بال بھی بیکا نہ کر سکو گے کیونکہ میں نے امیر کے حرم کے تمام راستے ، آنے اور جانے کے معلوم کر لئے ھیں جو میں جاننا چاھتا تھا۔ ارے پیاری گل جان! تم کتنی ھوشیار ھو کہ عین موقع پر بیمار پڑیں اور خواجہ نصرالدین کو درباری جراح کے چاقو سے بچا لیا ! حالانکہ سچ تو یہ ھے کہ تم صرف اپنے ھی بارے میں سوچ رھی تھیں!“

وہ اپنے برج کو واپس گئے جس کے سائے میں پہرے دار بیٹھے مزے میں چوسر کھیل رھے تھے۔ ان میں ایک جو سب کچھ ھار چکا تھا اپنے جوتے داؤ پر لگانے کے لئے اتار رھا تھا۔ سخت گرمی تھی لیکن برج کے اندر اس کی موٹی دیواروں کیوجہ سے کافی خنکی اور تازگی تھی۔ خواجہ نصرالدین تنگ زینے سے اوپر گئے۔

بڈھے کی صورت بہت وحشیانہ ھو گئی تھی کیونکہ قید کے دوران اس کی داڑھی اور بال بڑھ گئے تھے اور پریشان ھو گئے تھے۔ گھنی بھوؤں کے نیچے سے اس کی آنکھیں چمک رھی تھیں۔ اس نے خواجہ نصرالدین پر لعنت کی بوچھار کر دی:

”ارے کمبخت حرامزادے، خدا کرے تیرے سر پر بجلی گرے اور تلوے سے نکلے! ارے بدمعاش ، دھوکے باز، جعلئے! تو نے میرا نام، میرا لباس ، میرا عمامہ اور پٹکا سب چُرا لیا! خدا کرے تجھے کیڑے مکوڑے زندہ ھڑپ کر جائیں!“

خواجہ نصرالدین کو اس طرح کی باتوں کی عادت ھو گئی تھی اس لئے وہ ناراض نہیں ھوئے:

”محترم مولانا حسین، میں نے آج آپ کے لئے ایک نئی اذیت ایجاد فرمائی ھے۔ یعنی ایک رسی کے پھندےاور ڈنڈے کی مدد سے آپ کا سر دبایا جائے۔ پہرے دار نیچے ھیں۔ آپ اس طرح چلائیں کہ وہ سن لیں۔“

سلاخ دار کھڑکی کے پاس جا کر بڈھے نے یکساں آواز میں چلانا شروع کیا:

”ارے آللہ ! اب تو یہ مصیبتیں برداشت نہیں ھوتیں! ارے میرا سر پھندے اور ڈنڈے سے نہ دباؤ! اس اذیت سے تو موت ھی اچھی ھے!“


”ٹھہرو، ایک منٹ ٹھہرو مولانا حسین! “ خواجہ نصرالدین بیچ میں بولے۔"تم بڑے اطمینان سے اس طرح چلا رھے ھو جس کا کسی کو یقین نہ آئینگا۔ یاد رکھو، پہرےدار ان باتوں میں بڑے مشاق ھیں۔ اگر ان کو یہ خیال ھوگییا کہ تم بن رھے ھو تو وہ تمھارے رپورٹ ارسلان بیک سے کردیں گے اور تب تمو اقعی جلاد کے ھاتھ میں جا پڑو گے۔ یہ تمھارے ھی فائدے کے لئے ھے کہ تم زیادہ زور سے چلاؤ۔ دیکھو میں تمھیں بتاتا ھوں۔"
وہ کھڑکی کے پاس گئے، ایک گہری سانس لی اور اچانک اتنی زور سے چیخے کہ بڈھا کانوں میں انگلیاں دے کر پیچھے ھٹ گیا۔
"ارے حرامزادے کے بچے!" بڈھا چلایا۔ "میں ایسا گلا کہاں سے لاؤں کہ میری چیخیں شہر کے دوسرے سرے تک سنائی دیں۔"
"جلاد کے ھاتھوں سے بچنے کا تمھارے لئے یہی واحد راستہ ھے"۔ خواجہ نصرالدین نے جواب دیا۔
بڈھے نے پھر کوشش کی۔ا پنی پوری قوت لگا دی۔ وہ اس بری طرح چیخا دھاڑا کہ پہرے داروں نے اس کا لطف لینے کے لئے اپنا کھیل روک دیا۔
بڈھا بری طرح کھانس کھنکھار رھا تھا۔
"ارے، ارے، میر اگلا" بڈھا فریاد کرنے لگا "کتنی محنت پڑی ھے۔ اب تو خوش ھوا، کمبخت بدمعاش؟ خدا تجھے جہنم واصل کرے۔"
"بالکل ٹھیک ھے" خواجہ نصرالدین نے جواب دیا۔ " اور دانائے روزگار مولانا حسین یہ رھا آپ کی کوششوں کا انعام۔"
انھوں نے وہ تھیلیاں نکالیں جو امیر نے ان کو عطا کی تھیں اور ان کو ایک کشتی میں الٹ کر ساری رقم دو حصوں میں تقسیم کردی۔
بڈھا صلواتیں سناتا اور بڑبڑاتا رھا۔
"تم مجھے اس طرح برا بھلا کیوں کہہ رھے ھو؟" خواجہ نصرالدین نے بڑے سکون سے پوچھا۔ "کیا میں نے مولانا حسین کا نام کسی طرح نیچا کیا ھے؟ کیا میں نے ان کے علم و فضل کو ذلیل کیا ھے؟ یہ رقم دیکھ رھے ہو نا؟ یہ رقم امیر نے مشہور نجومی اور حکیم مولانا حسین کو اپنے حرم کی ایک لڑکی کو شفایاب کرنے کے لئے دی ھے۔"
"تم نے کسی لڑکی کو اچھا کیا ھے؟"بڈھے نے گھٹی ھوئی آواز میں پوچھا۔ "تمھیں بیماریوں کا کیا پتہ، جاھل، بدمعاش، مکار!"
"میں بیماریوں کے بارے میں توکچھ نہیں جانتا لیکن لڑکیوں کے بارے میں کچھ ضرور جانتا ھوں" خواجہ نصرالدین نے جواب دیا۔ "اس لئے یہ بات معقول ھوگی اگر امیر کا انعام دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے۔ ایک حصہ تمھارے علم کے لئے اور دوسرا حصہ میرے فن کے لئے۔ میں آپ کو بتانا چاھتا ھوں، مولانا، کہ میں نے لڑکی کا علاج سرسری طور پر نہیں کیابلکہ ستاروں کی گردش کا مطالعہ کرنے کے بعد کیا ھے۔ کل رات میں نے دیکھاکہ سعد السعود اور سعد الاجیہ کے ستاروں کا قرآن ھو رھا ھے اور جھرمٹ عقرب نے جھرمٹ سرطان کی طرف رخ کر لیا ھے۔"
"کیا، کیا؟" بڈھے نے زور سے کہا اور غصے میں کمرے میں ادھر ادھر ٹہلنے لگا۔ "جاھل کہیں کا، تو تو صرف گدھے ھانک سکتا ھے! تجھے یہ تک تو پتہ ھے نہیں کہ سعد السعودکے ستاروں کا قران سعدالاجیہ کے ستاروں کے ساتھ ھو ھی نہیں سکتا۔ وہ تو ایک ھی نظام فلکی کے ستارے ھیں! اور تمھیں سال کے اس وقت جھرمٹ عقرب دکھائی کہاں سے دیتا ھے؟ میں نے ساری رات ستارہ شماری کی ھے۔ سعد بولا اور السمک کے ستارے قران میں تھے اور الجہبہ کا زوال ھو رھا تھا۔ سن رھا ھے نا، گدھے؟ عقرب اب آسمان میں نہیں ھے! تو نے سب کچھ گڈ مڈ کردیا۔ گدھے ھنکانے والا خوامخواہ کو ایسی باتوں میں کود پڑا جو اس کی سمجھ سے بالاتر ھیں! تو غلطی سے الحق کے ستاروں کو جو آج کل البوطن کے ستاروں کے مقابل ھیں عقرب سمجھ بیٹھا!"
غصے میں آکر، اس نیت سے کہ خواجہ نصرالدین کی جہالت کا بھانڈہ پھوڑا جائے بڈھا بڑی دیر تک ستاروں کے صحیح مقام کے بارے میں بتاتا رھا۔ اس کا سننے والا ھر ھر لفظ کو بڑی توجہ سے سن کر ذھن نشین کرنے کی کوشش کر رھا تھا تاکہ وہ دوسرے داناؤں کی موجودگی میں امیر سے باتیں کرنے میں غلطی نہ کرے۔
"ارے جاھلوں کے سردار!"بڈھا برستا رھا "تجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ اس وقت چاند کے انیسویں برج پر جس کو الشعلہ کہتے ھیں اور جو قوس رامی پر ھوتا ھے، صرف اسی برج کے ستاروں سے انسان کی قسمت کا پتہ لگایا جاسکتا ھے کسی دوسرے سے نہیں۔ اس واقعہ کو دانائے روزگار شہاب الدینی محمود ابن کراجی نے بڑی وضاحت سے اپنی کتاب میں لکھا ھے۔۔۔"
"شہاب الدین محمود ابن کراجی" خواجہ نصرالدین نے اچھی طرح یاد کر لیا۔ "کل میں امیر کی موجودگی میں اس لمبی داڑھی والے دانا کا بھانڈا پھوڑونگا کہ وہ اس کتاب کے بارے میں لاعلم ھے اور میرے علم و فضل کی عظمت سے اس کا دل دھل جائے گا اور میں محفوظ ھونگا۔"
 

قیصرانی

لائبریرین
(۳۰)​
جعفر سود خور کے گھر میں سونے سے بھری ہوئی مہربند بارہ دیگیں رکھی تھیں لیکن وہ اب کم از کم بیس جمع کرنے کی سوچ رھا تھا۔ قسمت نے اس کو ایسی شکل و صورت دے کر جس سے اس کی حرص اور بے ایمانی ظاھر ھوتی تھی اس کے عیبوں کو اور عیاں کردیا تھا۔ یہ عیب اعتبار کرنے والے نا تجربے کار احمقوں کو آگاہ کردیتے تھے اور نیا شکار پھانسنا مشکل ھوجاتا۔ اس لئے اس کی دیگیں اس کی خواھش سے کہیں زیادہ سست رفتاری سے بھر رھی تھیں۔
"کاشکہ میرے جسمانی عیب دور ھوسکتے!" وہ آہ بھر کر کہتا "لوگ میری صورت دیکھ کر تو نہ بھاگتے، مجھ پر شبہ نہیں اعتبار کرتے۔ اس وقت ان کو دھوکہ دینا کتنا آسان ھوتا اور میری آمدنی کتنی تیزی سے بڑھتی۔"
جب شہر میں یہ افواہ پھیلی کہ امیر کے نئے دانا مولانا حسین نے بیماریوں کے علاج میں مہارت تامہ دکھائی ھے تو جعفر سود خور نے ایک ٹوکری میں بیش بہا تحائف بھرے اور محل میں حاضر ہوا۔
ارسلان بیک ٹوکری کا سامان دیکھنے کے بعد بڑی خوشی سے اس کی مدد کے لئے تیار ھوگیا:
"محترم جعفر، آپ بڑے وقت سے آئے ھیں۔ آج جہاں پناہ بہت محظوظ ھیں اور وہ شاید ھی آپ کی درخواست کو رد کریں۔"
امیر نے سود خور کی بات سنی، ھاتھی دانت کے فریم کی شطرنج کی طلائی بساط نذرانے میں قبول فرمائی اور دانا کی طلبی کا حکم دیا۔
"مولانا حسین" امیر نے کہا جب خواجہ نصرالدین آکر اس کے سامنے جھکے "یہ آدمی، جعفر سود خور، ھمارا وفادار خادم ھے۔ اس نے ھماری بڑی خدمت کی ھے۔ ھم حکم دیتے ھیں کہ تم فورا اس کا لنگڑا پن، کوبڑ ، آنکھ کا جالا اور دوسرے عیب دور کرو۔"
یہ کہہ کر امیر اس طرح مڑ گیا جیسے وہ کوئی عذر سننے کے لئے تیار نہیں ھے۔ خواجہ نصرالدین کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ تعظیم بجا لائیں اور چلے جائیں۔ ان کے پیچھے سودخور بھی اپنا کوبڑ گھسیٹتا ھوا کچھوے کی طرح چلا۔
"ھمیں جلدی کرنی چاھئے، عقلمند مولانا حسین" اس نے نقلی داڑھی میں خواجہ نصرالدین کو نہ پہچانتے ھوئے کہا۔ "ھمیں جلدی کرنی چاھئے کیونک ہسورج ابھی غروب نہیں ھوا ھے اور میں رات ھونے سے پہلے شفایاب ھو سکتا ھوں۔۔۔ آپ نےتو سنا، امیر نے حکم دیا ھے آپ مجھے فورا اچھا کردیں۔"
خواجہ نصرالدین دل ھی دل میں سودخور، امیر اور اپنے کو کوس رھے تھے کہ انھوں نے اپنے علم و فضل کو مشتہر کرنے میں اتنا جوش و خروش کیوں دکھایا ۔ سودخور تیزرفتاری سے چلنے کے لئے ان کی آستین برابر کھینچ رھا تھا۔ سڑکوں پر سناٹا تھا۔ خواجہ نصرالدین کے پیر گرم دھول میں دھنس رھے تھے۔ راہ چلتے انھوں نےسوچا "اس بلا سے کس طرح نجات ملے گی؟"وہ اچانک رک گئے "ایسا معلوم ھوتا ھے کہ اب اپنی قسم پوری کرنے کا وقت آگیا ھے۔"
تیزی سے انھوں نے ایک منصوبہ تیار کیا اور ھر ھر موقع کو اچھی طرح تول لیا۔ "ھاں" انھوں نے سوچا "اب وقت آگیا ھے ۔ سود خور، غریبوں پر ظلم کرنے والے سنگ دل، آج ھی تجھ کو ڈبونا ھے۔" وہ مڑ گئے تاکہ سود خور ان کی سیاہ آنکھوں کی چمک نہ دیکھ سکے۔
وہ ایک گلی میں مڑ گئے جہاں ھوا سے گرد کے بگولے اڑ رھے تھے۔ سود خور نے اپنے گھر کا پھاٹک کھولا۔ صحن کے دوسری طرف جہاں ایک نیچی باڑ کے ذریعہ زنان خانہ الگ کیا گیا تھا خواجہ نصرالدین نے سبز بیلوں کے پردے کے پیچھے سے چلنے پھرنے، چپکے چپکے کھسر پھسر اور ھنسی کی آوازیں سنیں۔ سود خور کی بیویاں اور داشتائیں کسی اجنبی کے آنے سے بہت خوش تھیں کیونکہ اس قید کی حالت میں ان کے لئے اور کوئی دلچسپی کا سامان نہ تھا۔ سود خور نے ذرا رک کر اس طرف درشتی دے ددیکھا۔ بالکل سناٹا ھوگیا۔
"حسین قیدیو، آج میں تمھیں نجات دلادونگا" خواجہ نصرالدین نے سوچا۔
جس کمرے میں سود خور ان کو لے گیا اس میں کھڑکیاں نہ تھیں اور دروازے کو کوئی زنجیروں اور تین قفلوں سے محفوظ کیا گیا تھا جن کے کھولنے کا گر صرف مالک مکان جانتا تھا۔ دروازہ کھولنے میں اس کو کافی دیر لگی۔ یہاں اس کی سونے کی دیگیں رکھی تھیں اور تہہ خانے کے دھانے پر لکڑی کے تختے پڑے تھے جن پر وہ سوتا تھا۔
"کپڑے اتار دو!" خواجہ نصرالدین نے حکم دیا۔
سود خور نے اپنے کپڑے اتار دئے اور عریانی کی حالت میں وہ اور کریہہ المنظر ھوگیا۔ خواجہ نصرالدین نے دروازہ بندکرکے دعائیں پڑھنا شروع کیں۔
اس دوران میں جعفر کے بہت سے رشتے دار صحن میں جمع ھوگئے۔ ان میں سے بہت سے اس کے قرضدار تھے اور ان کو امید تھی کہ وہ ان کے قرض معاف کرکے یہ خوشی کی تقریب منائیگا۔ لیکن ان کی امیدیں بے بنیاد تھیں۔ بند کمرے میں مقروض لوگوں کی آواز سن کر اس کا دل کینہ پرور خوشی سے بھر گیا۔ "آج تو میں ان سے کہہ دونگا کہ میں نے ان کا قرض معاف کیا" اس نے سوچا "لیکن میں ان کے تمسک واپس نہیں دونگا۔ وہ یقین کرکے بے فکر ھو جائیں گے۔ میں کچھ نہیں کہونگا اور ان کے قرض کا کھاتہ بنا لونگا۔ اور جب ان پر اصل کا سود دس گنا ھو جائے گا اور پوری رقم ان کے مکانات، باغات اور انگور کے باغیچوں کی مالیت سے زیادہ ہو جائے گی تو میں قاضی کے پاس جاؤنگا اور اپنے وعدے سے انکار کرکے رسیدیں پیش کرونگا۔ ان کا مال متاع بکوا کر ان کو بھک منگا بنوا دونگا اور سونے سے ایک اور دیگ بھر لونگا!"
"اٹھو! کپڑے پہنو!" خواجہ نصرالدین نے کہا "ھم احمد پیر کے تالاب پر جائیں گے اور وھاں تم پاک پانی میں نہاؤ گے۔ شفا پانے کے لئے یہ لازمی ھے۔"
"احمد پیر کا تالاب!" سود خور گھبرا کر بولا۔ "ایک بار تو میں اس میں ڈوبتے ڈوبتے بچا۔ دانائے روزگار مولانا حسین سمجھ لیجئے کہ میں تیرنا نہیں جانتا۔"
"تالاب کی طرف جاتے ھوئے تمھیں متواتر دعائیں پڑھتے رھنا چاھئے" خواجہ نصرالدین نے کہا۔ "تمھیں دنیاوی باتوں کے بارے میں نہ سوچنا چاھئے۔ تمھیں اشرفیوں سے بھری ایک تھیلی ساتھ لے چلنا وھگا اور راستے میں جس سے بھی لو گے اسے ایک اشرفی دینی ھوگی۔"
سود خور کے منہ سے آہ نکل گئی لیکن اس نے ھدایت پر حرف بحرف عمل کیا۔ ان کی ملاقات ھر طرح کے لوگوں سے ھوئی۔ کاریگروں اور بھک منگوں سے اور سود خور نے ھر ایک کو ایک ایک اشرفی دی حالانکہ اس سے اس کا دل پھٹا جا رھا تھا۔ اس کے رشتے دار بھی پیچھے پیچھے تھے۔ خواجہ نصرالدین نے خاص مقصد سے ان کو مدعو کرلیا تھا تاکہ آئندہ ان پر یہ الزام نہ لگایا جاسکے کہ انھوں نے جان بوجھکر سود خور کو ڈبودیا۔
سورج چھتوں کے پیچھے غروب ھو رھا تھا، درختوں کا سایہ تالاب پر پھیل گیا تھا، ھوا میں مچھر گا رھے تھے۔ جعفر نے کپڑے اتارے اور پانی کے قریب گیا۔
"یہاں بہت گہرا ھے" اس نے فریاد کی "میں نے جو کچھ کہا تھا اس کو آپ بھولے تو نہیں ھیں، مولانا۔ میں پیر نہیں سکتا۔"
رشتے دار خاموشی سے دیکھ رھے تھے۔ سودخور شرم سے اپنے کو ھاتھوں سے چھپائے، خوف سے سکڑا سکڑایا کسی اتھلی جگہ کے لئے تالاب کا چکر لگانے لگا۔
اکڑوں بیٹھ کر اس نے تالاب میں لٹکتی ھوئی جھاڑیوں کا سہارا لیا اور پانی میں ڈرتے ڈرتے ایک پیر ڈالا۔
"ٹھنڈا ھے پانی " وہ بڑبڑایا۔ اس کی آنکھیں پریشانی میں نکل پڑی تھیں۔
"تم وقت ضایع کر رھے ھو" خواجہ نصرالدین نے اس کی طر ف سے نگاہ ھٹاتے ھوئے کہا کیونکہ وہ اس رحم کے خلاف جس کا سود خور سزاوار نہ تھا اپنے دل کو فولادی بنا رھے تھے۔ پھر انھوں نے ان مصیبتوں کا خیال کیا جو جعفر کے برباد کئے ھوئے غریب لوگ جھیلتے ھیں، بیمار بچے کے خشک لب، بڈھے نیاز کے آنسو۔ اور ان کا چہرہ غصے سے تمتما اٹھا۔ اب وہ کھلم کھلا جرأت کے ساتھ سودخور کی نگاھوں سے نگاھیں ملا سکتے تھے۔
"تم وقت ضایع کر رھے ھو" انھوں نے بات دھرائی "اگر شفا چاھتے ھو تو تالاب کے اندر اترو۔"
سودخور نے پانی کے اندر جانا شروع کیا۔ وہ اتنا آھستہ آھستہ جا رھا تھا کہ جب وہ گھٹنوں گھٹنوں پانی میں پہنچا تو اس کی توند کنارے ھی سے لگی تھی۔ آخرکار جب وہ کھڑا ھوا تو کمر تک تھا۔ گھاس پھوس ادھر ادھر حرکت کر رھے تھے اور ان کا سرد مس اس کے جسم میں گدگدی پیدا کر رھا تھا۔ اس کے شانے سردی سے کانپ رھے تھے۔ وہ ایک قدم اور آگے بڑھا اور مڑ کر دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھیں کسی بے زبان جانور کی طرح التجا کر رھی تھیں لیکن خواجہ نصرالدین نے کچھ نہیں کہا۔ اس وقت سودخور کو چھوڑدینے کا مطلب ھزاروں غریبوں کو مصیبت میں مبتلا رکھنا تھا۔
پانی سودخور کے کوبڑ تک پہنچ گیا لیکن خواجہ نصرالدین اس سے برابر آگے بڑھنے کو کہتے رھے۔
"آگے بڑھو، آگے، پانی کانوں تک آجانے دو۔ نہیں تو میں تمھارے علاج کا ذمہ دار نہیں ۔ چلو، ھمت باندھو، محترم جعفر! دل مضبوط کرو! ایک قدم اور! ذرا سے اور آگے!"
"غہ غہ" سود خور نے پانی کے اند رجاتے ھوئے غر غر کی آواز میں کہا۔
"غہ غہ" جب وہ اوپر آیا تو یہی آواز پھر نکلی۔
"ڈوب رھا ھے! ڈوب رھا ھے!" اس کے رشتے دار چلائے۔
ایک عام ھنگامہ ھوگیا۔ ڈوبتے ھوئے آدمی کی طرف شاخیں اور چھڑیاں بڑھا دی گئیں۔ کچھ لوگ محض رحم دلی کی بنا پر اس کی مدد کرنا چاھتے تھے اور دوسرے محض بناوٹ کر رھے تھے۔ خواجہ نصرالدین آسانی سے بتا سکتے تھے کہ جعفر کا کون اور کتنا قرضدار ھے۔ وہ خود ھر ایک سے زیادہ گھبرا کر ادھر ادھر دوڑ رھے تھے اور کہہ رھے تھے:
"ارے یہاں! اپنا ھاتھ ھمیں دو، محترم جعفر! ارے سنو! اپنا ھاتھ ھمیں دو!"
ان کو یہ بخوبی علم تھا کہ سودخور اپنا ھاتھ کبھی نہ دیگا کیونکہ "دینے" کا لفظ ھی اسے مفلوج کرنے کے لئے کافی تھا۔
"اپنا ھاتھ ھمیں دو!" رشتے دار ایک ساتھ چلائے۔
اب سود خور غوطے کھا کھا کر اور دیر میں اوپر آنے لگا اور وہ اس مقدس پانی میں ڈوب مرتا اگر ایک سقہ اپنی پیٹھ پر خالی مشک لئے ننبگے پیر ادھر سے دوڑتا نہ گذرتا۔
"ارے!" اس نے ڈوبتے ھوئے آدمی کو دیکھ کر کہا "کہیں یہ جعفر سودخور تو نہیں ھے!"
اور وہ کپڑے اتارے بغیر بلا جھجھک پانی میں کود گیا اور اپنا ھاتھ بڑھاتے ھوئے زور سے کہا:
"لو یہ رھا میرا ھاتھ، اس کو پکڑ لو!"
سودخور نے ھاتھ پکڑ لیا اور اس کو پانی سے باھر صحیح سلامت کھینچ لایا گیا۔
سودخور کنارے پر پڑا دم لے رھا تھا اور اس کو نجات دلانے والا بڑی تیزی سے اس کے رشتے داروں کو بتا رھا تھا:
"تم غلط طریقے سے ان کی مدد کر رھے تھے۔ تم .لو. کی بجائے .دو. کہہ رھے تھے۔ تمھیں نہیں معلوم کہ معزز جعفر ایک بار اور اسی تالاب میں ڈوب رھے تھے اور ایک اجنبی نے جو بھورے گدھے پر ادھر سے گذر رھا تھا انھیں بچایا تھا؟ اس اجنبی نے جعفر کو بچانے کے لئے یہی طریقہ اختیار کیا تھا اور مجھے یاد رہ گیا۔ آج یہ کام آیا۔"
اس دوران میں سودخور کی سانس ٹھکانے لگی اور اس نے شکایت آمیز لہجے میں منمانا شروع کیا:
"ارے مولانا حسین! آپ نے تو میرا علاج کرنے کے لئے کہا تھا لیکن مجھ کو قریب قریب ڈبو ھی دیا تھا! خدا کی قسم، اب میں کبھی اس تالاب کے قریب نہیں پھٹکونگا! آپ کیسے دانا ھیں گر آپ کو ایک سقہ یہ بتاتا ھے کہ کیسی آدمی کو ڈوبنے سے بچایا جاسکتا ھے؟ میری قبا اور عمامہ دو۔ آئیے، مولانا، اندھیرا ھو رھا ھے اور جو کچھ ھم نے شروع کیا ھے اسے ختم کرنا ھے۔ اور تم، میاں سقے" سود خور نے کھڑے ھوتے ھوئے کہا " مت بھولنا کہ تمھارا قرض ایک ھفتے میں واج الادا ھو جائے گا۔ لیکن میں تمھیں انعام دینا چاھتا ھوں اور اس لئے میں تمھیں آدھا۔۔۔ میرا مطلب ھے چوتہائی۔۔۔ نہیں تمھارے قرض کا دسواں حصہ معاف کردونگا۔ یہ کافی ھے کیونکہ میں تمھاری مدد کے بغیر آسانی سے اپنے کو بچا سکتا تھا۔"
"ارے محترم جعفر" سقے نے جھجکتے ھوئے کہا "آپ اپنے کو میری مدد کے بغیر نہیں بچا سکتے تھے۔ کیا آپ میرا چوتہائی قرض معاف کردیں گے؟"
"اچھا! تو تم نے مجھ کو اپنی غرض کی بنا پر بچایا!" سودخور نے کہا۔" تم نے نیک مسلمان کی حیثیت سے یہ نہیں کیا بلکہ لالچ کیوجہ سے! ارے سقے، تجھے اس کی سزا ملنی چاھئے۔ میں تیرا ذرا سا قرض بھی نہیں معاف کرونگا!"
مغموم سقہ وھاں سے ھٹ گیا اور خواجہ نصرالدین اس کو رحم کی نظروں سے دیکھتے رھے۔ پھر انھوں نے جعفر کی طرف نفرت و حقار سے دیکھا۔
"آئیے، مولانا حسین" جعفر نے جلدی کرتے ھوئے کہا "آپ اس لالچی سقے سے کیا سرگوشی کر رھے ھیں؟"
"ٹھہرو" خواجہ نصرالدین نے کہا۔ "تم بھول گئے کہ تمھیں ھر ملنے والے کو ایک اشرفی دینی چاھئے۔ تم نے اس سقے کو اشرفی کیوں نہیں دی؟"
"ھائے مصیبت! میں تباہ ھوجاؤنگا!" سودخور نے فریاد کی۔ "سوچئے تو کہ میں ایسے برے اور لالچی آدمی کو اشرفی دینے پر مجبورھونگا!" اس نے اپنی تھیلی کھولکر ایک اشرفی پھینک دی۔ "بس یہ آخری ھے۔ اب اندھیرا ھوگیا ھے اور واپسی کے راستے پر ھمیں کوئی نہیں ملے گا۔"
لیکن خواجہ نصرالدین نے سقے سے بلا وجہ کانا پھوسی نہیں کی تھی۔
وہ واپس روانہ ھوگئے۔ آگے سودخورتھا، اس کے پیچھے خواجہ نصرالدین اور پھر سوخور کے رشتے دار۔ ابھی وہ مشکل سے پچاس قدم گئے ھوں گے کہ ایک گلی سے سقہ نکلا۔ یہ وھی تھا جس کو یہ لوگ تالاب کے کنارے چھوڑ آئے تھے۔
سودخور نے ادھر سے منہ موڑ لیا جیسے اس کو دیکھنا ھی نہ چاھتا ھو لیکن خواجہ نصرالدین نے اس کو پھٹکارا:
"جعفر یاد رکھو، ھر ایک کو جس سے بھی تم ملو!"
اندھیرے میں ایک انتہائی اذیت بھری کراہ گونجی۔ جعفر اپنی تھیلی کھول رھا تھا۔
سقے نے اشرفی لی اور اندھیرے میں غائب ھوگیا۔ کوئی پچاس قدم بعد پھر وہ ان کے سامنے آن موجود ھوا۔ سود خور زرد پڑ گیا اور کانپنے لگا۔
"مولانا" اس نے فریاد کرتے ھوئے کہا "یہ تو وھی ھے۔۔۔"
"ھر ایک کو جس سے تم ملو" خواجہ نصرالدین نے دھرادیا۔
پھر خاموش فضا میں ایک کراہ گونجی۔ جعفر اپنی تھیلی کھول رھا تھا۔
یہ واقعہ سارے راستے پیش آیا۔ سقہ ھر پچاس قدم پر سامنے آجاتا۔ وہ خوب ھانپ رھا تھا اور اس کے چہرے سے پسینہ بہہ رھا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرھا تھا کہ کیا ھو رھا ھے لیکن وہ اشرفی لیتا اور تیز بھاگتا اور پھر آگے سڑک پر کسی جھاڑی سے برآمد ھوتا۔
اپنا پیسہ بچانے کے لئے سود خور تیز تیز چلنے لگا اور آخر میں دوڑنا شروع کردیا لیکن وہ تو لنگڑا تھا۔ وہ سقے سے کیسے جیت سکتا تھا جو جوش میں ھوا ھوا جا رھا تھا۔ وہ جھاڑیوں اور باڑؤں کو پار کرتا بھاگ رھا تھا۔ اس نے سود خور سے کم از کم پندرہ بار بھینٹ کی اور آخری بار بالکل اس کے گھر کے قریب۔ وہ ایک چھت پر سے کودا اور دروازے پر راستہ روک کر کھڑا ھوگیا۔ آخری اشرفی پانے کے بعد وہ تھک کر زمین پر گر پڑا۔
سودخور جلدی سے اپنے صحن میں گھس گیا۔ خواجہ نصرالدین اس کے پیچھے تھے۔ اس نے اپنی خالی تھیلی خواجہ نصرالدین کے قدموں پر ڈال دی اور غصے سے چلایا۔
"مولانا، میرا علاج بہت قیمتی ھے! میں ابھی تک تحفوں ، خیرات اور اس کمبخت سقے پر تین ھزار تانگے خرچ کر چکا ھوں !"
"ذرا دم لو" خواجہ نصرالدین نے جواب دیا "بس، آدھہ گھنٹے کے اندر تم کو اس کا انعام مل جائے گا۔ ایک بڑا سا الاؤ صحن کے بیچوں بیچ تیار کرنے کا حکم دو۔"
نوکر ایندھن لا لا کر الاؤ تیار کر رھے تھے اور خواجہ نصرالدین اس بات میں دماغ لڑا رھے تھے کہ کس طرح سود خور کو چرکا دیا جائے اور اس کے شفا نہ پانے کا سارا الزام اسی کے سر تھوپ دیا جائے۔ انھوں نے کئی منصوبے سوچے لیکن ان کو نامناسب پا کر رد کر دیا۔ اس دوران میں الاؤ تیار ھو گیا تھا، ھلکی ھوا میں شعلے بھڑک رھے تھے اور انگوروں کا باغیچہ سرخ شعلوں سے روشن ھو گیا تھا۔
"جعفر، کپڑے اتار کر تین بار الاؤ کے گرد پھرو" خواجہ نصرالدین نے کہا۔ وہ ابھی تک کوئی منصوبہ نہیں بنا سکے تھے اور تھوڑا سا وقت پانے کے لئے یہ کر رھے تھے۔ وہ خیالات میں ڈوبے نظر آتے تھے۔
رشتے دار خاموشی سے دیکھ رھے تھے۔ سود خور الاؤ کے گرد اس طرح گھوم رھا تھا جیسے کوئی زنجیر سے بندھا ھوا بندر ھو۔ وہ اپنے ھاتھ ھلا رھا تھا جو گھٹنوں تک پہنچتے تھے۔
خواجہ نصرالدین کا چہرہ دمک اٹھا۔ انھوں نے اطمینان کا سانس لیکر انگڑائی لی:
"مجھے ایک کمبل تو دینا" انھوں نے گونجتی ھوئی آواز میں حکم دیا۔ "جعفر اور تمام دوسرے لوگ ادھر آؤ۔"
انھوں نے تمام رشتے داروں کا ایک حلقہ بنا دیا اور جعفر کو بیچ میں زمین پر بٹھا دیا۔ پھر انھوں نے کہا:
"میں جعفر کواس کمبل سے ڈھک کر ایک دعا پڑھونگا۔ تم سب کو معہ جعفر کے آنکھیں بندکرکے دعا کو دھرانا چاھئے۔ اس کے بعد جب میں کمبل اٹھاؤنگا تو جعفر شفا یاب ھوگا۔ لیکن میں تم سب کو ایک انتہائی اھم شرط سے آگاہ کرنا چاھتا ھوں ۔ جب تک وہ پوری نہ ھوگی جعفر شفایاب نہیں ھوسکتا۔ جو کچھ میں کہتا ھوں کان دھر کر سنو اور یاد رکھو۔"
رشتے دار خاموشی سے سننے اور یاد رکھنے کی تیاری کرنے لگے۔
"جب تم میرے ساتھ دعا کو دھراتے ھوگے" خواجہ نصرالدین نے زور سے صاف صاف کہا "تم میں سے کسی کو بھی، اور سب سے زیادہ جعفر کو، بندر کا ھرگز ھرگز خیال نہ آنا چاھئے! اگر تم میں سے کوئی بھی اس کے بارے میں سوچیگا یا اس سے بھی برا یہ ھوگا کہ اس کو اپنے تصور میں دیکھے گا۔ اس کی دم، اس کے لال چوتڑ، کریہہ چہرہ اور زرد دانت۔ تو پھر شفا نہ ھوگی اور نہیں ھوسکتی ھے کیونکہ کسی مقدس کام کا انجام بندر ایسے گندے جانور کے خیال کے ساتھ نہیں ھوسکتا۔ سمجھے نا تم لوگ؟"
"ھم لوگ سمجھ گئے" رشتے داروں نے کہا۔
"جعفر، تیار ھو جاؤ اور اپنی آنکھیں بندکرلو" خواجہ نصرالدین نے سود خور پر کمبل ڈالتے ھوئے بڑی شان سے کہا۔ "اور اب تم اپنی آنکھیں بندکرو!" اس نے رشتے داروں سے کہا "اور اس شرط کو یاد رکھنا، بندر کا خیال نہ آئے۔"
پھر انھوں نے دعا پڑھنا شروع کی:
"خداوند تعالی اس مقدس دعا کے اثر سے اپنے ناچیز خادم جمفر کو شفا بخش۔۔۔"
"خداوند تعالی اس مقدس دعا کے اثر سے۔۔۔ " مختلف آوازوں میں رشتے داروں کا کورس بلند ھوا۔۔۔ اس موقع پر خواجہ نصرالدین نے دیکھا کہ ایک شخص کے چہرے پر گھبراھٹ اور پریشانی کے آثار نمایاں ھوئے، دوسرے رشتے دار نے کھانسا شروع کیا، تیسرا الفاظ کو دھرانے میں ھکلانے لگا اور چوتھے نے اس طرح سرھلایا جیسے وہ کوئی صورت سامنے سے ھٹانے کی کوشش کر رھا ھو۔ ایک لمحہ بعد جعفر خود بیچینی سے کلبلانے لگا۔ ایک بہت ہی کریہہ المنظر اور انتہائی بدصورت بندر جس کی دم لمبی اور دانت زرد تھے اس کے ذھن کے پردے پر نمودار ھو کر اس کو چڑھا رھا تھا۔ کبھی وہ اس کو زبان نکال کر دکھاتا اور کبھی لال لال چوتڑ اور دوسرے اندام جو مومن کے تصور کے لئے بھی زیبا نہیں ھیں ۔
خواجہ نصرالدین اونچی آواز میں دعا پڑھتے رھے۔ اچانک وہ چپ ھوگئے جیسے وہ کوئی بات سن رھے ھوں ۔ رشتے دار بھی خاموش ھوگئے اور بعض تو پیچھے ہٹ گئے۔ جعفر کمبل کے نیچے دانت پیس رھا تھا کیونکہ اس کا بندر طرح طرح کی بدتمیزی کی شرارتوں پر اتر آیا تھا۔
"ارے ناپاک، بے ایمانو!" خواجہ نصرالدین گرج پڑے۔ "تم نے میری حکم عدولی کی جرآت کیسے کی۔ تمھیں یہ ھمت کیسے ھوئی کہ دعا پڑھتے وقت اسی بات کا تصور کرو جس کے لئے میں نے خاص طور سے تمھیں منع کیا تھا!" انھوں نے کمبل الٹ دیا اور جعفر پر پھوٹ پڑے "تم نے میری مدد کیوں مانگی تھی؟ اب میری سمجھ میں آگیا کہ تم شفا نہیں چاھتے تھے! تم مجھے ذلیل کرنا چاھتے تھے۔ تم میرے دشمنوں کے لئے یہ سب کر رھے تھے! جعفر ھوشیار رھنا! کل ھی امیر کو سارا قصہ معلوم ھو جائے گا۔ میں انھیں بتاؤنگا کہ کس طرح تم نے دعا پڑھتے وقت جان بوجھکر مرتدانہ خیالات سے بندر کا تصور کیا! جعفر ھوشیار رھنا اور تم سب بھی! تم آسانی سے نہیں چھٹکارا پاؤ گے۔ یقینا تم کو کفر کی سزا تو معلوم ھی ھوگی۔۔۔"
چونکہ کفر کی سزا ھمیشہ انتہائی شدید ھوتی تھی اس لئے رشتے دار تو مارے خوف کے مفلوج ھوگئے۔ سود خور اپنے کو بے قصور ثابت کرنے کے لئے اس طرح ھکلانے لگا کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ خواجہ نصرالدین اس کی بات سننے کے لئے نہیں رکے۔ وہ وھاں سے مڑ کر چل پڑے اور پھاٹک دھڑام سے بدن کیا۔
جلد ھی چاند چاند بلند ھوگیا۔ شہر ھلکی ھلکی چاندنی میں نہا گیا۔ سود خور کے گھر میں رات گئے تک تو تو میں میں جاری رھی۔ ھر شخص گرم ھو کر بحث کررھا تھا اور یہ جاننا چاھتا تھا کہ بندر کا تصور کرنے میں پہل کس نے کی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
(۳۱)​
سود خور کو اس طرح بیوقوف بنا کر خواجہ نصرالدین محل واپس روانہ ھوئے۔
دن بھر کی محنت مشقت کے بعد بخارا کے لوگ سونے کی تیاریاں کر رھے تھے۔ گلیوں میں خنکی اور اندھیرا تھا اور پلوں کے نیچے پانی کی موسیقی گونج رھی تھی۔ بھیگی مٹی کی سوندھی مہک پھیلی ھوئی تھی اور خواجہ نصرالدین کا پیر کیچڑ میں جابجا پھسل رھا تھا کیونکہ کسی فیاض سقے نے بڑی دریادلی سے سڑک پر چھڑکاؤ کیا تھا تاکہ صحنوں اور چھتوں پر تھکے ھارے آرام کرنے والوں کو گرد آلود ھوا نہ ستائے۔ اندھیرے میں لپٹے ھوئے باغ اپنی خوشگوار مہک دیواروں کے پار تک پہنچا رھے تھے۔ دوردراز آسمان پر ستارے خواجہ نصرالدین کی طرف آنکھیں جھپکا جھپکا کر ان کی کامیابی کا وعدہ کر رھے تھے۔
"ھاں " انھوں نے مسکراتے ھوئے کہا "بہرحال دنیا کوئی ایسی بری جگہ نہیں ھے! کم از کم ایسے آدمی کے لئے تو نہیں جس کے دماغ ھو، خالی کدو نہیں ۔"
راستے میں وہ بازار کی طرف مڑ گئے اور اپنے دوست علی کے چائے خانے میں انھوں نے مہمان نواز روشنیاں چمکتے ھوئے دیکھیں ۔ انھوں نے دروازے پر دستک دی مالک نے ان کے لئے دروازہ کھولدیا۔ دونوں گلے ملے اور ایک اندھیرے کمرے میں چلے گئے۔ پتلی دیوار کے دوسری طرف سے باتوں ، ھنسی اور برتنوں کی کھن کھناھٹ کی آوازیں آرھی تھیں ۔ علی نے دروازہ بند کرکے ایک چراغ جلا دیا۔
"سب تیار ھے" اس نے چپکے سے کہا۔ میں گل جان کا چائے خانے میں انتظار کرونگا۔ یوسف آھنگر نے اس کے چھپنے کےک لئے ایک محفوظ جگہ تیار کرلی ھے۔ تمھارے گدھے پر دن رات کاٹھی کسی رھتی ھے۔ وہ بہت اچھا ھے۔ خوب کھاتا ھے اور موٹا ھو گیا ھے۔"
"علی، تمھارا بہت بہت شکریہ۔ تمھارے احسان کے بار سے میں کبھی سبکدوش نہیں ھو سکونگا۔"
"ارے ھاں " علی نے کہا۔ "خواجہ نصرالدین تم جو کچھ چاھتے ھو ھمیشہ کر لیتے ھو۔ اس لئے احسان وحسان کی بات چھوڑو۔"
یہ دونوں بیٹھکر چپکے چپکے سرگوشیاں کرتے رھے۔ علی نے گل جان کے لئے ایک مردانہ لباس دکھایا اور ایک بڑا سا عمامہ جو اس کے بالوں کو چھپا سکے۔
ھر بات پوری تفصیل سے طے ھوگئی۔ خواجہ نصرالدین رخصت ھونے والے تھے کہ انھوں نے دیوار کے دوسری طرف ایک جانی پہچانی آواز سنی۔ چائے خانے کی طرف کھلنے والے دروازے کو انھوں نے ذرا کھولا اور کان لگا کر سننے لگے۔ یہ چیچک رو جاسوس کی آواز تھی۔ خواجہ نصرالدین نے دروازہ اور کھولدیا اور دیکھنے لگے۔
چیچک رو جاسوس ایک بھاری قبا پہنے، سر پر عمامہ رکھے اور مصنوعی داڑھی لگائے کچھ آدمیوں کے درمیان گھرا بیٹھا تھا اور بہت اھم بن کر کہہ رھا تھا:
"جو آدمی اپنے کو خواجہ نصرالدین کہتا ھے وہ جعل ساز ھے۔ میں اصلی خواجہ نصرالدین ھوں لیکن میں نے بہت دن ھوئے اپنی بری حرکتوں سے توبہ کر لی ھے کیونکہ میری سمجھ میں آگیا ھے کہ وہ واقعی بری اور ناپاک تھیں ۔ اس لئے میں یعنی اصلی خواجہ نصرالدین تم کو مشورہ دیتا ھوں کہ تم بھی میری مثال کی پیروی کرو اور میری طرح خیال کرو کہ ھمارے معظم، مانند آفتاب امیر واقعی زمین پر اللہ کے نائب ھیں جس کا ثبوت ان کی بے نظیر دانش مندی اور رحم و کرم ھے۔ میں ، اصلی خواجہ نصرالدین تم کو یہ بتاتا ھوں ۔"
"اچھا!" خواجہ نصرالدین نے علی کو کہنی مارتے ھوئے کہا۔ "تو اب یہ ھو رھا ھے۔ ان کا خیال ھے کہ میں شہر چھوڑ کر جاچکا ھوں ۔ میں ذرا ان کو اپنی یاد تو دلاتا چلوں ۔ علی، میں اپنی داڑھی، مرصع قبا اور عمامہ اس کمرے میں چھوڑے جاتا ھوں ۔ مجھے کچھ پرانے کپڑے دے دو۔"
علی نے ان کو گندی، چیلڑوں سے بھری ایک پھٹی قبا دے دی جو مدتوں ھوئے اپنی خدمات انجام دے چکی تھی۔
"کیا تم چیلڑ پالتے ھو؟" خواجہ نصرالدین نے قبا پہنتے ھوئے سوال کیا۔ "شاید تم ان کی دوکان کھولنے والے ھو لیکن یہ اس سے پہلی ھی تم کو چٹ کرجائیں گے، دوست۔"
پھر خواجہ نصرالدین باھر سڑک پر نکل گئے اور چائے خانے کا مالک اپنے گاھکوں کے پاس آکر آئندہ ھونے والے واقعات کا بے چینی سے انتظار کرنے لگا۔ اس کو زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا۔ خواجہ نصرالدین ایک گلی سے آئے۔ وہ اس طرح تھکے تھکے سے اندر داخل ھوئے جیسے تمام دن سفر کیا ھے۔ وہ چائے خانے کے زینوں پر چڑھے اور ایک اندھیرے گوشے میں بیٹھ کر چا مانگی۔ کسی نے ان کی طرف ذرا بھی توجہ نہیں کی۔ بخارا کی سڑکوں پر تو طرح طرح کے لوگ آتے جاتے رھتے تھے۔ چیچک رو جاسوس اب بھی اپنی ھانک رھا تھا:
"میری غلطیاں بے شمار ھیں لیکن اب میں ، خواجہ نصرالدین ان پر نادم ھوں اور قسم کھائی ھے کہ میں پاکباز رھونگا، تمام اسلامی ھدایات پر عمل کرونگا اور امیر، ان کے وزیروں ، صوبے داروں اور پہرے داروں کا حکم مانوں گا۔ یہ طے کرنے کے بعد میرے ذھن کو بڑا سکون اور خوشی مل رھی ھے اور میری دنیاوی ملکیت میں بھی اضافہ ھوا ھے۔ پہلے میں ایک آوارہ گرد تھا جس کو ھر ایک حقیر سمجھتا تھا اور اب میں ایک نیک مومن کی طرح زندگی گذار رھا ھوں ۔"
ایک ساربان نے جس کے پٹکے میں چابک لگی ھوئی تھی بڑے ادب سے اس کو چا کی پیالی پیش کی اور کہا:
"بے نظیر خواجہ نصرالدین ، میں قوقند سے بخارا آیا ھوں ۔ میں نے آپ کی دانشمندی کے بارے میں سنا تو تھا لیکن یہ نہیں سوچا تھا کہ کسی دن آپ کی زیارت ھوگی، حتی کہ بات چیت بھی ھوگی۔ اب میں ھر ایک سے کہوں گا کہ آپ کی مجھ سے ملاقات ھوئی تھی اور جو کچھ آپ نے کہا ھے وہ بھی ان کو بتاؤنگا۔"
"اچھی بات ھے" چیچک رو جاسوس نے اس کی تصدیق کرتے ھوئے سرھلایا "ھر ایک سے کہنا کہ خواجہ نصرالدین اب سدھر گئے ھیں ، انھوں نے اپنے گناھوں سے توبہ کر لی ھے اور پاکباز مسلمان بن کر امیر کے سچے خادم ھو گئے ھیں ۔ جس سے بھی تمھاری ملاقات ھو سبھی کو یہ خوش خبری سنانا۔"
"میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاھتا ھوں ، بے مثال خواجہ نصرالدین " ساربان بولا۔ "میں سچا مسلمان ھوں اور انجانے میں بھی قانون کے خلاف کچھ نہیں کرنا چاھتا۔ میں یہ جاننا چاھتا ھوں کہ مان لیجئے میں نہا رھا ھوں اور اذان کی آواز سنائی دیتی ھے تو مجھے کیا کرنا چاھئے۔ کس طرف کا رخ مجھے کرنا چاھئے؟"
چیچک رو جاسوس بڑے مربیانہ انداز میں مسکرایا اور بولا:
"مکے کی طرف قطعی طور پر۔۔۔"
تاریک کونے سے آواز آئی:
"اپنے کپڑوں کی طرف تاکہ گھر ننگے نہ جاؤ۔"
اس احترام کے باوجود جو جاسوس نے لوگوں کے دلوں میں پیدا کردیا تھا ساری محفل نے مسکراھٹ چھپانے کے لئے سرجھکا لیا۔
جاسوس نے خواجہ نصرالدین کو غور سے دیکھا لیکن دھندلکے میں پہچان نہ سکا۔
"اس کونے میں کون بھونک رھا ھے؟" اس نے غرور سے پوچھا۔ "اے، بھک منگے، کیا تو خواجہ نصرالدین کے مقابلے میں اپنی عقل آزمانے کی کوشش کررھا ھے؟"
"اس کے لئے میں ایک بہت چھوٹا آدمی ھوں " خواجہ نصرالدین نے چا پیتے ھوئے جواب دیا۔
اب ایک کسان نے پوچھا:
"محترم خواجہ نصرالدین بتائیے کہ کسی جنازے میں حصہ لیتے ھوئے اسلام کے مطابق کس جگہ کھڑے ھونا بہترے ھوگا۔ جنازے کے آگے یا پیچھے؟"
جاسوس نے بڑے اھم انداز میں ایک انگلی اٹھائی۔ وہ جواب دینے کی تیاری کر رھا تھا کہ اس سے پہلے ھی کونے سے آواز آئی "اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم جنازے کے آگے ھو یا پیچھے بشرطیکہ تم خود تابوت کے اندر نہ ھو۔"
چائے خانے کا ملک جو مزاحیہ باتوں سے بڑا لطف لیتا تھا اپنا پیٹ دونوں ھاتھوں سے تھامکر بیٹھ گیا اور فلک شگاف قہقہے لگانے لگا۔ دوسرے بھی اپنی ھنسی نہ روک سکے۔ کونے میں بیٹھا ھوا آدمی بڑا چرب زبان تھا اور معلوم ھوتا تھا کہ وہ خواجہ نصرالدین کا بھی مقابلہ کرسکتا ھے۔
جاسوس نے جس کا غصہ بڑھ رھا تھا آھستہ سے اپنا سر گھمایا:
"ارے تیرا نام کیا ھے؟ میں دیکھتا ھوں کہ تیری زبان قینچی کی طرح چلتی ھے۔ خبردار، کہیں اس سے بالکل ھی ھاتھ نہ دھونا پڑے! میں ایک جملہ کہہ کر اس کو آسانی سے ختم کرسکتا ھوں " اس نے سامعین کی طرف مڑتے ھوئے کہا "لیکن اس وقت ھم مقدس اور پاکیزہ باتیں کر رھے ھیں جہاں حاضر جوابی کی کوئی گنجائش نہیں ۔ سب باتوں کے لئے ایک وقت ھوتا ھے۔ فی الحال میں اس بھک منگے کو کوئی جواب نہیں دونگا۔ ھاں میں کہہ رھا تھا کہ میں ، خواجہ نصرالدین تمام مسلمانوں سے اپیل کرتا ھوں کہ میری پیروی کرو۔ ملاؤں کی عزت کرو، حکام کا حکم مانو اور پھر خوشحالی تمھارے قدم چومے گی۔ لیکن سب سے پہلے ان آوارہ گردوں کی بات نہ سنو جو جعل کرتے ھیں اور اپنے کو خواجہ نصرالدین کہتے ھیں ، جیسے یہ آدمی جس نے حال ھی میں بخارا میں تمام ھنگامہ کیا اور پھر یہ جان کر بے پتہ نشان غائب ھو گیا کہ اصلی خواجہ نصرالدین آگئے ھیں ۔ ایسے تمام پہروپیوں کو پکڑو اور امیر کے پہرے داروں کے حوالے کردو۔"
"بالک ٹھیک!" خواجہ نصرالدین نے زور سے کہا اور دھندلکے سے روشنی میں آگئے۔
تمام حاضرین نے ان کو فورا پہچان لیا اور اس اچانک واقعہ سے ششدر رہ گئے۔ جاسوس زرد پڑ گیا۔ خواجہ نصرالدین جاسوس کے قریب آگئے اور علی بھی چپکے سے ان کے پیچھے لگ گیا تاکہ جاسوس کو جھپٹ لے۔
"اچھا، تو تم اصلی خواجہ نصرالدین ھو؟"
جاسوس نے گھبرا کر اپنے پیچھے دیکھا، اس کے گال کانپ رھے تھے۔ اس کی آنکھیں ادھر ادھر نگران تھیں ۔ بہرحال اس نے زور لگا کر جواب دیا:
"ھاں ، میں اصلی خواجہ نصرالدین ھوں ، اور سب دھوکے باز ھیں اور تو بھی۔"
"مسلمانو! تم کیا کھڑے دیکھ رھے ھو؟" خواجہ نصرالدین نے چیخ کر کہا۔ "اس نے خود ھی کہا ھے! پکڑو، پکڑو اس کو! کیا تم نے امیر کا حکم نہیں سنا ھے اور تمھیں پتہ نہیں ھے کہ خواجہ نصرالدین کے ساتھ کیا کرنا چاھئے؟ پکڑو اسے، نہیں تو تمھیں اس کو بچانے کے لئے جواب دھی کرنی ھوگی!"
انھوں نے جاسوس کی مصنوعی داڑھی نوچ لی۔
چائے خانے میں سبھی لوگوں نے اس نفرت انگیز چیچک رو، چپٹی ناک اور چالاک آنکھوں والے آدمی کو پہچان لیا۔
"اس نے خود ھی تسلیم کیا ھے!" خواجہ نصرالدین دائیں طرف آنکھ مارتے ھوئے چیخے۔ "پکڑو خواجہ نصرالدین کو!" اور انھوں نے بائیں طرف آنکھ ماری۔
چائے خانے کے مالک علی نے سب سے پہلے جاسوس پر ھاتھ ڈالا۔ جاسوس نے چھڑانے کی کوشش کی لیکن سقے، کسان اور کاریگر جھگڑے میں کود پڑے۔ کچھ دیر تک تو بس مکوں کے اوپر اٹھنے اور گرنے کا منظر دکھائی دیا۔ خواجہ نصرالدین سب سے زیادہ زوروں سے کوٹائی کر رھے تھے۔
"ارے میں تو مذاق کر رھا تھا!" جاسوس کراھتے ھوئے چلایا۔ "ارے مسلمانو، یہ تو مذاق تھا! میں خواجہ نصرالدین نہیں ھوں ! مجھے جانے دو!"
"تم جھوٹے ھو!" خواجہ نصرالدین نے چلا کر جواب دیا۔ ان کی مٹھیاں ایسی چل رھی تھیں جیسے کوئی نانبائی آٹا گوندھ رھا ھو۔ "تم نے خود اقرار کیا! ھم سب سے نا! ارے مسلمانو! ھم جتنے لوگ یہاں ھیں سب اپنے امیر کے سچے وفادار ھیں اور ھمیں چاھئے کہ ھم ان کے احکام کو وفاداریکے ساتھ بجا لائیں ۔ اس لئے مسلمانو، اس خواجہ نصرالدین کو اچھی طرح دھنکنا چاھئے! اس کو گھسیٹ کر محل لے جاؤ اور پہرے داروں کے حوالے کردو! اللہ اور امیر کی عظمت کا واسطہ، اس کو خوب پیٹو!"
مجمع نے جاسوس کو محل کی طرف گھسیٹنا شروع کیا اور راستے بھر اس کی مرمت برابر ھوتی رھی۔ خواجہ نصرالدین نے اس کو زوردار لات سے رخصت کیا اور چائے خانے واپس آگئے۔
"اف" انھوں نے اپنا پسینے سے تر چہرہ پونچھتے ھوئے کہا "اس بار ھم نے اس کی خوب مرمت کردی۔ اب بھی وہ پٹ رھا ھے۔ آوازوں سے معلوم ھوتا ھے۔"
مشتعل آوازیں اور جاسوس کی فریاد بھری چیخیں اب بھی دور سے آرھی تھیں ۔ ھر ایک کو اس سے کچھ نہ کچھ بدلا لینا تھا اور امیر کے حکم کے زور پر ان کو اچھا موقع مل گیا تھا۔
چائے خانے کا مالک خوش ھو کر اپنی توند سہلا رھا تھا:
"اس کے لئے سبق ھو جائے گا۔ وہ اب میرے چائے خانے میں قدم نہیں رکھے گا۔"
پچھلے کمرے میں خواجہ نصرالدین نے اپنا لباس تبدیل کیا، اپنی مصنوعی داڑھی لگائی اور پھر بغداد کے مولانا حسین بن گئے۔
جب وہ محل واپس ھوئے تو انھوں نے پہرے داروں کے کمرے سے آتی ھوئی کراھوں کی آواز سنی۔ انھوں نے اندر دیکھا تو چیچک رو جاسوس ایک نمدے پر پڑا تھا۔ اس کا بدن سوجا ھوا اور جابجا زخمی تھا اور اس کی حالت ابتر تھی۔ ارسلان بیک اس کے پاس ایک لالٹین لئے کھڑا تھا۔ "جناب ارسلان بیک، کیا ھوا؟" خواجہ نصرالدین نے معصومیت کے ساتھ پوچھا۔
"مولانا، بہت برا ھوا۔ وہ بدمعاش خواجہ نصرالدین پھر شہر میں آگیا۔ اس نے ھمارے سب سے ھوشیار جاسوس کو پیٹ دیا جو ھمارے حکم سے اپنے کو خواجہ نصرالدین بتا کر نیک اور وفادارانہ تقریریں کر رھا تھا تاکہ اصلی خواجہ کے برے اثرات دور ھو جائیں ۔ اس کا نتیجہ دیکھئے؟"
"آہ، آہ!" جاسوس اپنا زخمی اور مسخ چہرہ اٹھاتے ھوئے کراھا "میں اس کمبخت آوارہ گرد کے منہ کبھی نہ آؤنگا۔ میں جانتا ھوں کہ اس بار تو وہ مجھے ختم ھی کردیگا۔ اب میں جاسوسی نہیں کرونگا۔ کل میں بہت دور کسی ایسی جگہ چلا جاؤنگا جہاں مجھے کوئی نہیں جانتا اور کوئی ایمانداری کا کام کرونگا۔"
"میرے دوستوں نے واقعی اس کا بھرتا بنا دیا ھے"خواجہ نصرالدین نے لالٹین کی روشنی میں جاسوس کو دیکھتے ھوئے سوچا اور اس پر ان کو تھوڑا سا ترس بھی آیا۔ "اگر محل دو سوقدم بھی اور آگے ھوتا تو وہ شاید یہاں زندہ نہ پہنچتا۔ اب دیکھنا ھے کہ اس نے کوئی سبق سیکھا ھے یا نہیں ۔"
صبح سویرے خواجہ نصرالدین نے اپنے برج سے دیکھا کہ چیچک رو جاسوس ایک چھوٹی سی گٹھری لیکر محل سے نکل گیا۔ وہ لنگڑا رھا تھا اور بار بار اپنے سینے، بازوؤں اور پہلوؤں کو ھاتھوں سے سہلاتا جاتا تھا۔ بار بار وہ دم لینے کے لئے بیٹھ جاتا۔ اس نے بازار کو پار کیا جو رفتہ رفتہ صبح کی خنک شعاعوں سے روشن ھوتا جاتا تھا اور ڈھکے ھوئے اسٹالوں کی قطاروں میں غائب ھوگیا۔
صبح سے رات کی تاریکی نے شکست کھائی۔ صبح خالص، شفاف اور پرسکون تھی۔ شبنم نے اس کو دھو کر اسپر دھوپ کے تار بکھیر دئے تھے۔ چڑیاں چہچہا رھی تھیں اور زفیلیں دے رھی تھیں ۔ سورج کی پہلی کرنوں میں نہانے کے لئے تتلیاں اڑ رھی تھیں ۔ خواجہ نصرالدین کے سامنے کھڑکی کے پٹرے پر ایک شہد کی مکھی آکر رینگنے لگی۔ اس کو اس شہد کی تلاش تھی جو مرتبان میں تختے پر رکھا تھا۔
سورج خواجہ نصرالدین کا پرانا اور وفادار دوست تھا۔ اب وہ بلند ھو رھا تھا۔ ھر صبح خواجہ نصرالدین اس کو دیکھتے اور ایسا محسوس کرتے جیسے انھوں نے سورج کو سال بھر بعد دیکھا ھے۔ سورج بلند ھو رھا تھا، مہربان اور فیاض دیوتا جو سبکو یکساں فیض پہنچاتا ھے اور ساری دنیا بھی اس کے خیر مقدم کے لئے صبح کی کرنوں میں چمکتا دمکتا اپنا شعلہ ور حسن پیش کردیتی ھے۔ پھولے پھولے بادل، میناروں کے پالش کئے ھوئے ٹائل، بھیگی ھوئی پتیاں ، پانی اور گھاس، حتی کہ سنگ خارا کی سپاٹ چٹان، قدرت کی دھتکاری ھوئی سوتیلی بیٹی بھی سورج کے خیر مقدم میں ایک انوکھا روپ دھار لیتی، اس کی ٹوٹی پھوٹی سطحیں اس طرح چمکنے دمکنے لگتیں جیسے ان پر ھیرے کا برادہ پھیلا دیا گیا ھو۔
خواجہ نصرالدین اپنے دوست کے دمکتے ھوئے چہرے سے کیسے بے اعتنائی برت سکتے تھے۔ سورج کی چمکدار کرنوں میں ایک درخت کی پتیاں رقص کر رھی تھیں ۔ خواجہ نصرالدین بھی اس کے ساتھ جھوم گئے جیسے وہ بھی سرسبز پتیوں میں ملبوس ھوں ۔ قریب کے مینار پر کبوتر غٹر غون کرکے اپنے پر جھاڑ رھے تھے۔ تتلیوں کا ایک جوڑا کھڑکی کے سامنے لہرایا اور خواجہ کا دل چاھا کاشکہ وہ بھی ان کے اس نازک کھیل میں شریک ھو جاتے۔
خواجہ نصرالدین کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں ۔ چیچک رو جاسوس کا خیال کرکے ان کے دل میں یہ خواھش پیدا ھوئی کاشکہ یہ صبح اس جاسوس کی نئی زندگی کی صاف ستھری اور معقول صبح ھو۔ لیکن اس کے ساتھ ھی انھوں نے یہ بھی محسوس کیا کہ برائیاں اس جاسوس کی روح تک میں پیوست ھو چکی ھیں اور وہ پوری طرح صحت یاب ھوتے ھی پھر اپنی پرانی حرکتوں پر اتر آئے گا۔
بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ خواجہ نصرالدین نے اپنی پیش گوئی میں غلطی نہیں کی تھی۔ وہ انسانوں کو اتنی اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ان کے لئے غلطی کرنا مشکل تھا حالانکہ ان کو اپنی غلطی پر خوشی ھوتی اور وہ اس جاسوس کے روحانی نوجیون پر خوش ھوتے۔ بہرحال، سڑی ھوئی چیز پھر تازہ اور بارور نہیں ھوسکتی۔ بدبو خوشبو نہیں بن سکتی۔ خواجہ نصرالدین نے افسوس کے ساتھ آہ بھری۔
ان کا محبوب خواب یہ تھا کہ ایسی دنیا ھوتی جہاں انسان بھائیوں کی طرف رہسکتے، نہ تو ان میں حرص و حسد ھوتا اور نہ چوری چکاری اور غصہ، بلکہ وہ ضرورت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کرتے اور ھر ایک کی خوشی کو سب کی خوشی سمجھ کر اس سے لطف اندوز ھوتے۔ پھر بھی ایسی خوشگوار دنیا کا تصور کرتے ھوئے وہ اس تلخ حقیقت کو بھی سمجھتے تھے کہ انسان اس طرح رھتے ھیں جو ان کے لئے زیبا نہیں ھے، ایک دوسرے پر ظلم کرتے ھیں ، غلام بناتے ھیں اور اپنی روحوں کو ھر طرح کی برائیوں سے داغدار کرتے ھیں ۔ بنی نوع انسان کو صاف ستھرے اور ایماندارانہ وجود کے قوانین کو سمجھنے میں کتنی مدت لگے گی؟
خواجہ نصرالدین کو اس بات میں کوئی شک نہ تھا کہ انسان کسی نہ کسی دن ان قوانین کو سمجھے گا۔ ان کو اس بات پر قطعی یقین تھا کہ اس دنیا میں برے آدمیوں سے زیادہ بھلے آدمی ھیں ۔ جعفر سود خور اور چیچک رو جاسوس اور ان کی گلی سڑی روحیں کریہہ استثنا ھیں ۔ ان کو قطعی یقین تھا کہ فطرت نے انسا ن کو صرف بھلائیوں سے سنوارا ھے اور تمام برائیاں اس کوڑے کرکٹ کی طرح ھیں جو اس کی روح پر زندگی کے غلط اور غیر منصفانہ نظام نے باھر سے تھوپ دی ھیں ۔ ان کو قطعی یقین تھا کہ وہ وقت ضرور آئے گا جب انسان اپنی زندگی کو پھر سے بنانا اور صاف کرنا شروع کردینگے تو وہ اپنی شریفانہ محنت کے ذریعہ اپنی روح کی تمام گندگیوں کو دھو ڈالیں گے۔
خواجہ نصرالدین کے خیالات کا یہ رحجان ان کے بارے میں بہت سے قصوں سے ثابت ھوتا ھے جن پر ان کے روحانی جذبات کا ٹھپہ ہے۔ ان میں یہ کتاب بھی شامل ھے۔ حالانکہ ان کی یاد کو داغدادر بنانے کی بہتیری کوششیں کی گئیں ، محض کمینے رشک و حسد کیوجہ سے لیکن وہ کامیاب نہیں ھوئیں کیونکہ جھوٹ سچ پر کبھی غالب نہیں آسکتا۔ خواجہ نصرالدین کی یاد ھمیشہ اس ھیرے کی طرح درخشاں اور خالص رھے گی جو سب باتوں کے باوجود اپنی چمک دمک برقرار رکھتا ھے۔ آج تک جو مسافر ترکی میں آک شہر کے سادے سے مقبرے کے سامنے رکتے ھیں اب بھی بخارا کے اس زندہ دل جہاں گرد، خواجہ نصرالدین کا نام کلمہ خیر سے ھی لیتے ھیں ۔ ایک شاعر کے الفاظ میں وہ کہتے ھیں :
"انھوں نے اپنا دل دھرتی کو دے دیا حالانکہ وہ دنیا بھر میں ھوا کی طرح چکر لگاتے رھے، اس ھوا کی طرح جو ان کی موت کے بعد ان کے دل کی گلاب جیسی مہک ساری دنیا میں پھیلا آئی۔ دنیا کے ھمہ گیر حسن کو ھی دیکھنا زندگی کا حسن ھے۔ وھی زندگی حسین ھے جو ختم ھونے کے بعد اپنی روح کے خالص جذبات چھوڑ جاتی ھے۔"
یہ سچ ھے کہ کچھ لوگ یہ کہتے ھیں کہ آک شہر کے مقبرے میں کوئی دفن نہیں ھے اور خواجہ نصرالدین نے اس کو اسی مقصد کے تحت بنوایا تھا کہ ان کی موت کی خبر پھیل جائے اور پھر وہ جہاں گردی کے لئے روانہ ھو گئے تھے۔ یہ سچ ھے یا نہیں ؟ ھمیں بیکار قیاس آرائیوں میں وقت نہ گنوانا چاھئے۔ ھم بس یہی کہہ سکتے ھیں کہ خواجہ نصرالدین سے ھر طرح کی باتوں کی توقع ھو سکتی ھے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
(۳۲)​
صبح کا وقت جلد ھی گذر گیا اور پھر گرم اور امس بھری دوپہر آئی۔ اب فرار کے لئے سب کچھ تیار تھا۔ خواجہ نصرالدین اوپر اپنے قیدی کے پاس گئے۔
"آپ کی قید کی مدت ختم ھونے والی ھے، دانائے روزگار مولانا حسین۔ آج رات کو میں محل چھوڑ دونگا۔ میں آپ کا دروازہ ایک شرط پر کھلا چھوڑ سکتا ھوں ۔ آپ دو دن تک یہ جگہ نہیں چھوڑیں گے۔ اگر آپ جلدی نکلے تو مجھے محل میں پائیں گے اور پھر میں اس بات پر مجبور ھونگا کہ آپ پر بھاگنے کا الزام لگا کر جلاد کے حوالے کردوں ۔ بغداد کےدانا، مولانا حسین، خدا حافظ۔ آپ میرے متعلق بہت براخیال نہ کریں ۔ میں آپ کو یہ فریضہ سپرد کرتا ھوں کہ آپ امیر کو سچی بات بتائیں اور اس کو میرا نام بتائیں ۔ میرا نام خواجہ نصرالدین ھے۔"
"کیا؟" بڈھے نے حیرت سے پیچھے ھٹتے ھوئے کہا۔ وہ نام کو سنکر ھی ھکا بکا رہ گیا ۔
دروازے کے بند ھونے کی چرچراھٹ ھوئی۔ زینوں پر خواجہ نصرالدین کے قدموں کی آواز غائب ھوگئی۔ بڈھا احتیاط کے ساتھ دروازے تک گیا اور اس کو آزمایا۔ وہ مقفل نہیں تھا۔ اس نے باھر جھانک کر دیکھا، کوئی دکھائی نہ دیا۔ اس نے جلدی سے دروازہ بند کرکے زنجیر لگا لی۔
"نہیں " وہ بڑبڑایا "میں پورے ھفتے یہیں پڑے رھنے کو ترجیح دونگا بمقابلہ اس کے کہ پھر خواجہ نصرالدین سے پالا پڑے۔"
رات کو جب فیروزی آسمان پر پہلے ستارے جھلملائے، خواجہ نصرالدین ایک مٹی کی صراحی لیکر ان پہرے داروں کے پاس گئے جو امیر کے حرم کے پھاٹک پر متعین تھے۔ پہرے داروں نے ان کو آتے نہیں دیکھا اور اپنی بات چیت جاری رکھی:
"وہ دیکھو، ایک اور ستارہ ٹوٹا" کچے انڈے کھانے والے موٹے اور کاھل پہرے دار نے کہا "اگر تمھارے کہنے کے مطابق وہ زمین پر گرتے ھیں تو لوگ ان کو پاتے کیوں نہیں ؟"
"شاید وہ سمندر میں گرتے ھیں " دوسرے پہرے دار نے کہا۔
"ارے، بہادر سپاھیو" خواجہ نصرالدین بیچ میں بولے "خواجہ سراؤں کے داروغہ کو تو بلانا۔ میں بیمار داشتہ کے لئے دوا لایا ھوں ۔"
خواجہ سراؤں کا داروغہ آیا اور ادب سے دونوں ھاتھ بڑھا کر چھوٹی سی صراحی سنبھالی جس میں چونے کے پانی کے سوا کچھ بھی نہ تھا، دوا کے استعمال کی ھدایات سنیں اور چلا گیا۔
"دانائے روزگار مولانا حسین" موٹےپہرےدار نے چاپلوسی کرتے ھوئے کہا "آپ تو دنیا کی ھر بات جانتے ھیں ۔ آپ کا علم و فضل تو بے پناہ ھے۔ ھمیں بتائیے کہ آسمان سے ٹوٹ کر ستارے کہاں گرتے ھیں اور لوگ ان کو کیوں نہیں پاتے؟"
خواجہ نصرالدین بھلا مذاق سے باز آسکتے تھے۔
"تم نہیں جانتے؟" انھوں نے انتہائی سنجیدگی سے کہا۔ "جب ستارے گرتے ھیں تو وہ چھوٹے چھوٹے چاندی کے سکوں میں ٹوٹ جاتے ھیں جو فقیر چن لیتے ھیں ۔ بہت سے آدمی تو اس طرح امیر بن گئے۔"
پہرےداروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ان کے چہرے پر سخت حیرت کے آثار تھے۔
خواجہ نصرالدین ان کی حماقت پر ھنستے ھوئے اپنے راستے پر چلے گئے۔ ان کو یہ گمان بھی نہ تھ اکہ یہ مذاق اتنا کارآمد ثابت ھوگا۔
وہ آدھی رات تک اپنے برج میں رھے۔ آخرکار شہر اور محل میں سناٹا چھا گیا۔ اب وقت گنوانا نہیں تھا۔ گرمیوں کی راتیں بڑی صبا رفتار ھوتی ھیں ۔ خواجہ نصرالدین نیچے اترے اور چپکے سے امیر کے حرم کی طرف روانہ ھوئے۔
"پہرے دار اب تو سوتے ھوں گے" انھوں نے سوچا۔
لیکن جب وہ قریب پہنچے تو ان کو بڑی ناامیدی ھوئی کیونکہ پہرے دار چپکے چپکے باتیں کر رھے تھے۔
"اگر ایک ھی ستارہ یہاں گرجاتا" موٹا کاھل پہرے دار کہہ رھا تھا "تو ھم چاندی بٹور کر یکدم امیر بن جاتے۔"
"مجھے یقین نہیں ھے کہ ستارے چاندی کے سکوں میں ٹوٹ جاتے ھیں " اس کا ساتھی بولا۔
"لیکن بغداد کے دانا نے ایسا ھی بتایا ھے" پہلے نے جواب دیا۔ "واقعی وہ بہت بڑے عالم و فاضل ھیں اور غلطی نہیں کرسکتے ھیں ۔"
"لعنت ھو ان پر!" خواجہ نصرالدین نے اندھیرے میں چھپتے ھوئے اپنے آپ سے کہا۔ " میں نے ان کو ستاروں کے بارے میں بتایا ھی کیوں ؟ اب وہ صبح تک اس پر بحث کریں گے۔ کیا بھاگنا ملتوی کرنا پڑے گا؟"
بخارا کے اوپر ھزاروں ستاروں کی صاف اور پرسکون روشنی تھی۔ اچانک ایک چھوٹا سا ستارہ ٹوٹا اور آسمان کے پار انتہائی تیز رفتاری سے ترچھا گرنے لگا۔ ایک اور ستارہ اس کے بعد روانہ ھوا اور اپنے پیچھے ایک جلتی ھوئی لکیر چھوڑتا گیا۔ یہ موسم گرما کا وسطی دور تھا جس میں ستارے کافی ٹوٹتے ھیں ۔
"اگر وہ واقعی ٹوٹ کر چاندی کے سکے بن جاتے۔۔۔" دوسرے پہرے دار نے اپنی بات شروع کی۔
اچانک خواجہ نصرالدین نے ذھن میں ایک خیال چمکا۔ انھوں نے جلدی سے اپنی تھیلی نکالی جو چاندی کے سکوں سے بھری ھوئی تھی۔ ستاروں کے گرنے میں ایک لمبا وقفہ ھوگیا۔ آخر کار ایک ٹوٹا۔ خواجہ نصرالدین نے ایک سکہ پہرے داروں کے قدموں کے پاس پھینکا۔ پتھر کے فرش پر سکے کی جھنکار ھوئی، پہلے تو پہرے دار پتھرا سے گئے۔ پھر وہ ایک دوسرے کو گھورتے ھوئے اٹھ کھڑے ھوئے۔
"تم نے یہ سنا؟" پہلے پہرے دار نے کانپتی ھوئی آواز میں کہا۔
"ہاں میں نے سنا" دوسرے نے ھکلاتے ھوئے کہا۔
خواجہ نصرالدین نے ایک اور سکہ پھینکا جوچاندنی رات میں چمک اٹھا۔ کاھل پہرے دار ھلکی سی چیخ مار کر اس پر ٹوٹ پڑا۔
"تم ۔۔۔ کو مل۔۔۔ گیا؟" دوسرے پہرے دار نے مشکل سے کہا۔ اس کے ھونٹ کانپ رھے تھے۔ اس نے اٹھتے ھوئے سکہ دکھایا۔
اچانک کئی اور ستارے ایک ساتھ ٹوٹے اور خواجہ نصرالدین نے مٹھی بھر بھر کر سکے پھینکنا شروع کردئے۔ پرسکون رات سکوں کی لطیف کھن کھناھٹ سے گونج سی گئی۔ پہرے دار بالکل بدحواس ھوگئے۔ انھوں نے اپنے نیزے تو الگ پھینکے اور جھک کر سکے تلاش کرنے لگے۔
"یہ رھا!" ایک کی بھاری گھٹی گھٹی ھوائی آواز آئی۔ "یہ رھا!"
دوسرا خاموشی سے رینگ رھا تھا۔ پھر وہ کثرت سے سکے پھیلے ھوئے دیکھ کر گھگیا گیا۔
خواجہ نصرالدین نے ایک اور مٹھی سکے پھینکے اور بلا روک ٹوک پھاٹک کے اندر داخل ھوگئے۔
باقی کام آسان تھا۔ نرم، گداز ایرانی قالینوں پر ان کے قدموں کی آواز نہیں ھو رھی تھی۔ وہ تمام موڑوں اور پیچیدہ راستوں سے واقف تھے۔ خواجہ سرا سو رھے تھے۔۔۔
گل جان نے ان کا خیر مقدم ایک محبت بھرے بوسے سے کیا اور کانپتی ھوئی ان سے لپٹ گئی۔
"جلدی کرو" انھوں نے سرگوشی میں کہا۔
کوئی ان کو روکنے والا نہ تھا۔ ایک خواجہ سرا نے کروٹ لی اور نیند میں بڑبڑایا۔ خواجہ نصرالدین اس پر جھک گئے لیکن اس کی زندگی ابھی باقی تھی۔ اس نے اپنے ھونٹ چاٹے اور پھر خراٹے بھرنے لگا۔ رنگین شیشوں سے ھلکی چاندنی چھن چھن کر آرھی تھی۔
پھاٹک پر خواجہ نصرالدین رکے اور انھوں نے چاروں طرف سے نظر دوڑآئی۔ صحن میں پہرے دار اپنے چاروں ھاتھوں پیروں پر ٹکے ھوئے گردنیں اوپر اٹھا اٹھا کر دیکھ آسمان کو تک رھے تھے کہ کوئی اور ستارہ ٹوٹے۔ خواجہ نصرالدین نے ایک مٹھی بھر اور سکے پھینکے جو کچھ درختوں کے دوسری طرف جاکر گرے۔ پہرے دار اپنے بوٹ کھٹ کھٹ کرتے ھوئے آواز کی طرف دوڑ پڑے۔ انھوں نے اپنے ھیجان میں چاروں طرف کچھ نہیں دیکھا اور زور زور سے ھانپتے اور شور مچاتے ھوئےخاردار جھاڑیوں کے اس پار دوڑے جن کے کانٹوں میں ان کی قباؤں اور شلواروں کے چیتھڑے پھٹ کر لٹک گئے۔
اس رات کو تو حرم سے ایک کیا ساری داشتائیں اغوا کی جا سکتی تھیں ۔
"جلدی کرو، جلدی" خواجہ نصرالدین برابر کہتے جاتے تھے۔
وہ دوڑ کر برج تک گئے اور زینوں پر چڑھے۔ خواجہ نصرالدین نے اپنے بستر کے نیچے سے ایک رسی نکالی۔ یہ انھوں نے پہلے سے تیار کرلی تھی۔
"بہت اونچا ھے۔۔۔ مجھے تو ڈر لگتا ھے" گل جان نے چپکے سے کہا لیکن خواجہ نصرالدین نے اس کو ڈانٹا تو اس نے اپنے اوپر قابو پالیا۔
خواجہ نصرالدین نے گل جان کے گرد ایک پھندا باندھ دیا اور کھڑکی کا جنگلہ نکال دیا جو انھوں نے پہلے ھی کاٹ ڈآلا تھا۔ گل جان کھڑکی کے باھر پتھر پر بیٹھی تھی۔ وہ بلندی دیکھ کر کانپ گئی۔
"باھر نکلو!" خواجہ نصرالدین نے حکم دیا اور اس کو پیچھے سے ھلکا سا دھکا دیا۔
گل جان نے آنکھیں بند کرلیں ، چکنے پتھر پر سے پھسل کر ھوا میں لٹک گئی۔ زمین پر پہنچ کر اس کے حواس بجا ھوئے۔
"بھاگو، بھاگو!" اوپر سے آواز آئی۔ خواجہ نصرالدین کھڑی سے باھر جھکے ھوئے اپنے ھاتھ ھلا رھے تھے اور رسی اوپر کھینچ رھے تھے۔ گل جان نے جلدی سے اپنے کو رسی سے کھولا اور سنسان چوک میں سے ھو کر بھاگی۔
اس کو پتہ نہیں تھا کہ پورے محل میں زبردست ھنگامہ برپا ھو گیا ھے۔ خواجہ سراؤں کے داروغہ کے ناخوشگوار تجربے نے اس میں بے وقت کا جوش پیدا کردیا تھا اور وہ آدھی رات کو نئی داشتہ کے کمرے میں نگہبانی کے لئے پہنچ گیا لیکن وھاں تو بستر خالی تھا۔ وہ بھاگتا ھوا گیا اور امیر کو جگا دیا۔ امیر نے ارسلان بیک کو طلب کرلیا۔ ارسلان بیک نے محل کے پہرےداروں کو جگایا۔ مشعلیں روشن ھوگئیں ، نیزوں اور سپروں کی جھنکار گونجنے لگی۔
بغداد کے مولانا حسین کی طلبی ھوئی۔ امیر نے چیختے ھوئے شکایت کی:
"مولانا حسین! ھماری ریاست کی اب یہ حالت پہنچ گئی ھے کہ ھمیں ، امیر اعظم کو یہ بدمعاش خواجہ نصرالدین ھمارے محل تک میں چین سے نہیں بیٹھنے دیتا! ایسا تو کبھی سنا بھی نہیں گیا تھا کہ امیر کے حرم سے داشتہ چوری ھو جائے!"
"امیر اعظم" بختیار نے بولنے کی ھمت کی" شاید یہ خواجہ نصرالدین کی حرکت نہ تھی؟"
"اور کون ھو سکتا ھے؟" امیر تیز آواز میں چیخا۔ "صبح کو ھمیں رپورٹ ملی کہ وہ بخارا واپس آگیا ھے اور رات میں ھماری داشتہ غائب ھوگئی جو اس کی منگیتر تھی۔ اس کے سوا اور کون یہ کرسکتا تھا؟ اس کو تلاش کرو۔ ھرجگہ پہرے داروں کی تعداد تگنی کردی جائے۔ اس کو محل سے باھر نکلنے کا وقت نہیں ملا ھے۔ ارسلان بیک، یاد رکھو، تمھارے سر کی خیریت نہیں ھے!"
تلاش شروع ھوگئی۔ پہرے داروں نے محل کا کونہ کونہ چھان مارا۔ مشعلوں نے اپنے لہراتے ھوئے شعلوں سے سارا محل روشن کردیا۔ خواجہ نصرالدین ڈھونڈنے والوں میں سب سے پیش پیش تھے۔ انھوں نے قالین اٹھا اٹھا کر دیکھا۔ سنگ مرمر کے حوضوں میں عصا ڈال کر کھنگالا، غل مچایا، دوڑ دھوپ کی اور چائے دانیوں اور صراحیوں میں جھانک جھانک کر دیکھا حتی کہ چوھوں کے بل بھی نہ چھوڑے۔
امیر کی خواب گاہ میں جا کر انھوں نے رپورٹ پیش کی "شہنشاہ اعظم، خواجہ نصرالدین محل سے نکل گیا۔"
"مولانا حسین!" امیر نے غصے میں جواب دیا۔ "ھمیں تمھاری لاپروائی پر حیرت ھے۔ مان لو وہ کہیں چھپ گیا ھو تو؟ ارے، وہ تو میری خواب گاہ میں بھی گھس سکتا ھے۔ ارے، پہرےداروں کو بلاؤ، پہرے دارو ادھر آؤ!" امیر چلایا۔ وہ خود اپنے ھی تصور سے ڈر گیا تھا۔
باھر ایک توپ دغی۔ اس کا مقصد ھاتھ نہ آنے والے خواجہ نصرالدین کو خوف زدہ کرنا تھا۔ امیر ایک کونے میں گٹھری بنکر پڑگیا اور چلانے لگا:
"پہرے داروں کو بلاؤ! پہرے داروں کو بلاؤ!"
اس کا ڈر اسی وقت دور ھوا جب ارسلان بیک نے خواب گاہ کے دروازوں پر تیس پہرے دار تعینات کردئے اور ھر کھڑکی کے پاس دس دس پہرے دار مقرر کر دئے گئے۔ اب وہ کونے سے باھر نکلا اور فریاد آمیز لہجے میں کہنے لگا:
"مولانا حسین مجھے بتاؤ۔ کیا تمھارا خیال ھے کہ وہ بدمعاش میری خواب گاہ میں کہیں چھپا ہے؟"
"دروازوں اور کھڑکیوں پر پہرہ لگا دیا گیا ھے" خواجہ نصرالدین نے جواب دیا۔ "اس کمرے میں ھم دو ھیں ۔ خواجہ نصرالدین کہاں ھو سکتا ھے؟"
"اس کو ھماری داشتہ اغوا کرنے کی سزا بھگتنی پڑے گی!" امیر گرجا۔ اب اس کے خوف کی جگہ غصہ لے رہا تھا۔ اس نے اپنی انگلیوں کو اس طرح جھٹکا جیسے وہ خواجہ نصرالدین کا گلا گھونٹ رھا ھو۔ "ارے مولانا حسین" اس نے اپنی بات جاری رکھی "ھمیں بے انتہا غم و غصہ ھے! ھم اس کےپاس ایک بار بھی نہیں گئے۔ اس خیال سے ھمارا دل ملتا ھے۔ یہ سب تمھارے حماقت بھرے ستاروں کا قصور ھے، مولانا۔ اگر ھمارا بس چلتا تو اس گستاخی کے لئے ھم تمام ستاروں کا سر یکدم قلم کروا دیتے۔ لیکن اس بار خواجہ نصرالدین سزا پائے بغیر نہیں جاسکتا۔ ھم ارسلان بیک کو حکم دے چکے ھیں اور مولانا تم بھی اس بدمعاش کو گرفتار کرنے کی پوری کوشش کرو! یہ نہ بھولو کہ خواجہ سراؤں کے داروغہ کا معزز عہدہ تمھیں ملنے کا انحصار اس کام میں کامیابی پر ھے۔ کل تم محل سے جاؤ گے اور خواجہ نصرالدین کے بغیر واپس نہیں ھوگے۔"
خواجہ نصرالدین اپنی شرارت آمیز آنکھیں نچاتے ھوئے زمین تک جھک کر تعظیم بجا لائے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
(۳۳)​
باقی رات خواجہ نصرالدین امیر کو اپنے منصوبے بتاتے رھے کہ وہ خواجہ نصرالدین کو کس طرح گرفتار کریں گے۔ یہ منصوبے بڑی چالاکی کے تھے اور امیر ان کو سن کر بہت خوش ھوتا رھا۔
صبح کو خواجہ نصرالدین کو اخراجات کے لئے ایک خریطہ اشرفیوں کا عطا ھوا او روہ آخری بار اپنے برج کے زینوں پر چڑھے۔ انھوں نے یہ رقم ایک چمڑے کی دھمیانی میں رکھی اور چاروں طرف نظر ڈالی۔ انھوں نے ایک آہ بھری کیونکہ ان کو یہ جگہ چھوڑنے پر اچانک افسوس ھونے لگا تھا۔ انھوں نے اپنی بہت سی بے خواب راتیں نہ جانے کیا سوچتے ھوئے یہاں گذاری تھیں ۔ ان سنگین دیواروں کے پیچھے ان کی روح کا کوئی حصہ ھمیشہ کے لئے باقی رہ جائے گا۔
انھوں نے زور سے دروازہ بند کیا اور نیچے کی طرف زینوں پر بھاگے۔ وہ آزادی کی طرف جا رھے تھے۔ ایک مرتبہ پھر ساری دنیا ان کے سامنے ھوگی۔ سڑکیں ، پہاڑی درے اور راستے ان کو دور دراز کی سیا حت کے لئے پکار رھے تھے۔ سرسبز جنگلات ان کے لئے اپنے سائے اور نرم پتیوں کے قالین پھیلائے کھڑے تھے۔ دریا اپنی خنک پانی سے ان کی پیاس بجھانے کے منتظر تھے۔ چڑیاں اپنے بہترین نغموں سے ان کے خیرمقدم کے لئے تیار تھیں ۔ زندہ دل آوارہ گرد خواجہ نصرالدین کافی دن تک سونے کے پنچرے میں بند رہا تھا۔ دنیا اس کی بڑی کمی محسوس کر رھی تھی۔
جب وہ پھاٹک پر پہنچے تو انھیں ایسا صدمہ ھوا جس سے ان کا دل دھل گیا۔ ان کا چہرہ سفید پڑ گیا۔ ان کو دیوار کا سہارا لینا پڑا۔
کھلے پھاٹک میں پہرےداروں سے گھرے ھوئے ان کے دوستوں کی لمبی قطار لگی تھی۔ ان کے ھاتھ بندھے تھے اور سر ڈھلکے ھوئے تھے۔ اس میں بڈھا کمھار نیاز، چائے خانے کا مالک علی، آھنگر یوسف اور بہت سے دوسرے لوگ تھے جن جن سے ان کی کبھی ملاقات ھوئی تھی، جن کے ھاتھ سے انھوں نے کبھی پانی پیا تھا یا مٹھی بھر گھاس اپنے گدھے کےئ لئے لی تھی۔ سب وھاں بندھے ھوئے تھے۔ ارسلان بیک اس اندوھناک جلوس کے پیچھے پیچھے تھے۔
جس وقت تک خواجہ نصرالدین کے حواس بجا ھوئے، پھاٹک بند ھو چکے تھے اور صحن خالی تھا۔ قیدی کال کوٹھریوں میں جا چکے تھے۔ خواجہ نصرالدین نے جلدی سے ارسلان بیک کو تلاش کیا۔
"جناب ارسلان بیک، کیا ھوا؟ یہ لوگ کہاں کے ھیں ؟ انھوں نے کیا گناہ کیا ھے؟"
"یہ لوگ پاجی خواجہ نصرالدین کے پناہ دینے والے اور اس کے ساتھ مل کر سازشیں کرنے والے ھیں !" ارسلان بیک نے فاتحانہ انداز میں جواب دیا۔ "میرے جاسوسوں نے ان کا پتہ لگایا ھے اور آج ان کو کھلے عام بری طرح موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا اگر انھوں نے خواجہ نصرالدین کا پتہ نہ بتایا۔ لیکن آپ اتنے زرد کیوں ھیں ، مولانا؟ آپ پریشان معلوم ھوتے ھیں ۔۔۔"
"زرد؟" خواجہ نصرالدین نے حیرت سے کہا۔ "اس کا مطلب یہ ھوا کہ انعام مجھ کو نہیں تم کو ملے گا!"
خواجہ نصرالدین کو مجبورا محل میں ٹھہرنا پڑا۔ اس کے سوا ان کےلئے کوئی چارہ نہ تھا کیونکہ معصوم لوگوں کی جان کا خطرہ تھا۔
دوپہر کو چوک پر فوج تعینات ھوگئی۔ اس نے تین تین کی قطاروں میں چبوترے کے چاروں طرف حلقہ بنالیا۔ مجمع کو نقیبوں نے بتا دیا تھا کہ کچھ لوگوں کو سزائے موت دی جائے گی اور وہ خاموشی سے منتظر تھا۔ صاف آسمان سے چلچلاتی ھوئی دھوپ آرھی تھی۔
محل کے پھاٹک کھلے اور دستور کے مطابق پہلے آگے آگے دوڑتے ھوئے نقیب آئے، پھر پہرے دار اور ان کے پیچھے سازندے، ھاتھی اور درباری۔ آخر میں امیر کی پالکی آھستہ آھستہ بڑھتی ھوئی آئی۔ سارا مجمع تعظیم کے لئے جھک گیا۔ پالکی چبوترہ تک لائی گئی۔
امیر تخت پر بیٹھ گیا۔ مجرم پھاٹک سے باھر لائے گئے۔ ان کو دیکھ کر مجمع میں ھلکا شور ھوا۔ مجرموں کے رشتےدار اور دوست آگے کی قطاروں میں کھڑے تھے تاکہ وہ اچھی طرح دیکھ سکیں ۔
جلادوں نے اپنے تیشے، نوکیلے ستون اور رسیاں ٹھیک کرنا شروع کردیں ۔ ان کو پورا دن کام کرنا تھا کیونکہ یکے بعد دیگرے ساٹھ آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتارنا تھا۔
اس جان لیوا جلوس میں بڈھے نیاز کا نمبر پہلا تھا۔ اس کے دائیں طرف سولی تھی اور بائیں طرف تختہ اور سامنے ایک نوکیلا ستون زمین سے اوپر ابھرا ھوا تھا۔
وزیر اعظم بختیار نے بڑی سنجیدہ اور پاٹ دار آواز میں اعلان کیا:
"اس اللہ کے نام پر جو رحیم و کریم ھے بخارا کے حکمران، آفتاب جہاں ، امیر بخارا نے میزان انصاف میں اپنی رعایا کے ساٹھ افراد کو تولنے کے بعد جو ناپاک امن شکن بانی شر و فساد خواجہ نصرالدین کو پناہ دینے سے متعلق ھیں مندرجہ ذیل حکم دیا ھے:
"کمھار نیاز کو خاص پناہ دینے والے کی حیثیت سے جس کے گھر میں متذکرہ بالا آوار گرد خواجہ نصرالدین نے بہت دن تک پناہ لی یہ سزا دی جاتی ھے کہ اس کا سر جسم سے جدا کر دیا جائے۔جہاں تک دوسرے مجرموں کا سوال ھےپہلی سزا تو ان کے لئے یہ ھوگی کہ وہ نیاز کی موت کا نظارہ کریں تاکہ وہ اس سے بھی زیادہ خوفناک انجام کی توقع کرکے کانپ سکیں ۔ ان میں سے ھر ایک کے لئے موت کے طریقے کا الگ الگ اعلان کیا جائے گا۔"
پورے میدان میں ایسا سناٹا چھایا ھوا تھا کہ بختیار کا ایک ایک لفظ مجمع کی آخری قطارون تک سنائی دے رھا تھا۔
"اور سب کو یہ معلوم ھونا چاھئے" بختیار نے اپنی آواز اور بلند کرتے ھوئے اعلان جاری رکھا "کہ آئندہ بھی جو کوئی خواجہ نصرالدین کو پناہ دیگا اس کا یہی انجام ھوگا۔ ایک بھی جلاد کے ھاتھوں نہیں بچے گا۔ بہرحال اگر کوئی بھی مجرم اس ناپاک بدمعاش کا پتہ بتادیگا تو وہ نہ صرف اپنی جان کی امان پائے گا بلکہ وہ امیر کے انعام و اکرام اور دعاؤں کےساتھ دوسرے مجرموں کی جان بخشی کا باعث بھی ھوگا۔ کمھار نیاز کیا تو خواجہ نصرالدین کا پتہ بتا کر خود اپنے کو اور دوسروں کو نجات دلوائیگا؟
نیاز بڑی دیر تک سرجھکائے خاموش کھڑا رھا۔ جب بختیار نے اپنا سوال دھرایا تو نیاز نے جواب دیا "نہیں ، میں نہیں بتا سکتا کہ وہ کہاں ھیں ۔"
جلادوں نے بڈھے کو تختے کی طرف گھسیٹا۔ کوئی مجمع سے چیخا۔ بڈھا نیاز جھک گیا، اپنی گردن بڑھا کراپنا سفید بالوں والا سر تختے پر رکھدیا۔
اس لمحے خواجہ نصرالدین درباریوں کو ھاتھ سے ھٹاتے ھوئے آگے بڑھے اور امیر کے سامنے آئے۔
"ولی نعمت!" انھوں نے زور سے کہا تاکہ پورا مجمع سن سکے۔ "حکم دیجئے کہ سزا روک دی جائے۔ خواجہ نصرالدین کو یہاں اور ابھی گرفتار کیا جا سکتا ھے۔"
امیر نے ان کی طرف حیرت سے دیکھا۔ مجمع میں ھلچل ہوئی۔ امیر کے اشارے پر جلاد نے تیشہ اپنے قدموں تک نیچا کر لیا۔
"شہنشہاہ اعظم!" خواجہ نصرالدین نے بلند آوازمیں کہا۔ "کیا یہ انصاف ھوگا کہ ان حقیر پناہ دینے والوں کو سولی دی جائے اور بڑا پناہ دینے والا کوئی سزا نہ پائے، وہ جس کے گھر میں خواجہ نصرالدین اس زمانے میں رھتے تھے اور اب بھی ھیں ، جو ان کو کھانا دیتا ھے، ان کو انعام دیتا ھے اور ھر طرح ان کی خاطر مدارات کرتا ھے؟"
"تم ٹھیک کہتے ھو" امیر نے شان سے کہا "اگر ایسا پناہ دینے والا ھے تو انصاف کے مطابق اس کا سر سب سے پہلے قلم ھونا چاھئے۔ لیکن ھمیں بتاؤ تو وہ کون ھے، مولانا حسین؟"
سارے مجمع میں چاؤں چاؤں ھونے لگی۔ آگے جو لوگ تھے وہ پیچھے کے لوگوں کو بتانے لگے کہ امیر نے کیا کہا۔
"لیکن اگر امیر اعظم اس بڑے پناہ دینے والے کو سولی نہ دینا چاھیں ، اگر امیر اس کو زندہ رکھنا چاھیں تو کیا ایسی صورت میں ان حقیر پناہ دینے والوں کو سولی دینا انصاف ھوگا؟" خواجہ نصرالدین نے پوچھا۔
امیر نے اور زیادہ پریشان ھو کر جواب دیا " اگر ھم بڑے پناہ دینے والے کو سولی نہ دینا چاھیں تو واقعی ھمیں دوسروں کو آزاد کردینا چاھئے۔ لیکن ھماری سمجھ میں یہ نہیں آتا مولانا حسین کہ ھمیں کونسا سبب بڑے پناہ دینے والے کو سولی دینے سے باز رکھ سکتا ھے۔ ھم کو اس کا نام بتاؤ اور ھم فورا اس کا سر گردن سے اڑا دینگے۔"
خواجہ نصرالدین مجمع کی طرف مڑے اور انھوں نے کہا:
"آپ نے امیر کے الفاظ سنے؟ بخارا کے حکمران نے فرمایا کہ اگر وہ بڑے پناہ دینے والے کو سولی نہیں دیتےجس کا نام میں ابھی ابھی بتاونگا تو ان تمام حقیر پناہ دینے والوں کو جو سولی پر کھڑے ھیں رھا کر دیا جائے گا اور وہ اپنے اپنے گھر والوں سے ملیں گے۔ میں نے سچ عرض کیا ھے نا، عالی جاہ؟"
"تم نے سچ کہا ھے، مولانا حسین" امیر نے تصدیق کی۔ "ھم قول دیتے ھیں اس لئے یہی ھوگا۔ لیکن جلدی کرو اور بڑے پناہ دینے والے کو بتاؤ۔"
"آپ سن رھے ھیں نا؟" خواجہ نصرالدین نے مجمع سے پوچھا۔ "امیر نے قول دیا ھے۔"
انھوں نے گہری سانس لی۔ انھوں نے دیکھا کہ ھزاروں نگاھیں ان کی طرف لگی ھیں ۔
"بڑا پناہ دینے والا۔۔۔" وہ رک گئے اور اپنے چاروں طرف دیکھا۔ بہت سے لوگوں نےان کے چہرے پر سخت پریشانی اور کوفت کے آثاردیکھے۔ وہ پیاری دنیا، لوگوں اور اپنے پیارے سورج سے رخصت ھو رھے تھے۔
"جلدی کرو!" امیر بےچینی سے چلایا۔ "جلدی بتاؤ، مولانا!"
خواجہ نصرالدین نے پرعزم گونجتی ھوئی آواز میں کہا:
"بڑے پناہ دینے والے۔۔۔ آپ ھیں ، اے امیر!"
اور یہ کہہ کر انھوں نے اپنا عمامہ اتار کر پھینک دیا اور اپنی مصنوعی داڑھی نوچ ڈالی۔
سارا مجمع ھکا بکا رہ گیا، اس میں ایک لہر سی پیدا ھوئی اور پھر مکمل سناٹا چھا گیا۔ امیر کی آنکھیں نکل پڑیں ، اس کے ھونٹوں میں حرکت ھوئی لیکن کوئی آواز نہیں نکلی۔ درباری اس طرح کھڑے تھے جیسے پتھرا گئے ھوں ۔
لیکن یہ خاموشی مختصر تھی۔
"خواجہ نصرالدین! خواجہ نصرالدین!" مجمع میں غلغلہ مچ گیا۔
"خواجہ نصرالدین!"درباریوں نے سرگوشی میں کہا۔
"خواجہ نصرالدین!"ارسلان بیک حیرت سے بولا۔
آخرکار امیر کے حواس اتنے بجا ھوئے کہ وہ بھی دھیمی آواز میں بڑبڑا سکا:
"خواجہ نصرالدین!"
"ھاں ، بذات خود۔ اچھا تو عالیجاہ حکم دیجئے ان کو کہ یہ آپ کا بڑے پناہ دینے والے کی حیثیت سے سرقلم کردیں ! میں آپ کے محل میں رھتا تھا۔ میں نے آپ کے ساتھ کھانا کھایا اور آپ سے انعامات حاصل کئے۔ میں آپ کا تمام امور میں خاص اور قریبی مشیر رھا۔ امیر، آپ پناہ دینے والے ھیں ۔ حکم دیجئے کہ وہ آپ کا سر قلم کردیں !"
خواجہ نصرالدین پکڑ لئے گئے۔ ان کے ھاتھ باندھ دئے گئے لیکن انھوں نے چھڑانے کی کوشش نہیں کی۔ انھوں نے زور سے کہا "امیر نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجرموں کو رھا کردینگے! آپ سب نے امیر کو قول دیتے سنا تھا!"
مجمع میں غل غپاڑہ ھونے لگا اور وہ آگے بڑھنے لگا۔ پہرے داروں کا تہرا حلقہ ان کو روکنے کے لئے پورا زور لگا رھا تھا۔ لوگ زیادہ زور زور سے چیخ رھے تھے:
"معتوبوں کو رھا کرو!"
"امیر نے قول دیا تھا!"
"رھا کرو!"
شور و غل برھ رھا تھا۔ پہرے داروں کا حلقہ ٹوٹنے لگا۔
بختیار نے جھک کر امیر سے کہا:
"آقائے نامدار، ان لوگوں کو آزاد کردینا چاھئے ورنہ عام بغاوت ھو جائے گی۔"
امیر نے سر ھلا دیا۔
" امیر اپنے قول پر قائم ھیں !" بختیار نے چلا کر کہا۔
پہرےداروں نے راستہ دے دیا اور معتوب لوگ فورا مجمع میں غائب ھوگئے۔
خواجہ نصرالدین کو محل لے جایا گیا۔ بہت سے لوگ مجمع میں ان کے پیچھے روتے چلاتے رھے:
"خدا حافظ خواجہ نصرالدین! الوداع، پیارے، شریف دل خواجہ نصرالدین! آپ ھمارے دلوں میں ھمیشہ زندہ رھیں گے!"
خواجہ اپنا سر اونچا کئے ھوئے چل رھے تھے۔ ان کے چہرے سے نڈرپن کا اظہار ھوتا تھا۔ پھاٹک پر وہ مڑے، رخصت ھوتے ھوئے ھاتھ ھلایا۔ مجمع نے ایک زور کا نعرہ لگایا۔
امیر جلدی جلدی اپنی پالکی میں بیٹھ گیا اور شاھی جلوس واپس ھوگیا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
(۳۴)​
خواجہ نصرالدین کافیصلہ کرنے کے لئے مخصوص دیوان طلب کیا گیا۔
جب وہ سخت پہرے میں ھتکڑیاں پہنے ھوئے داخل ھوئے تو سارے درباریوں نے آنکھیں جھکا لیں ۔ ان کو ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ھوئے شرم آتی تھی۔ دانا بھی تیوریاں چڑھائے اپنی داڑھیاں سہلا رھے تھے۔ امیر نے بھی منہ موڑ کر گہری سانس لی اور اپنا گلا صاف کرنے لگا۔
لیکن خواجہ نصرالدین بڑی جرأت کے ساتھ نگاہ ملا کر سب کو دیکھ رھے تھے۔ اگر ان کے ھاتھ پیچھے نہ بندھے ھوتے تو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ملزم وہ ہیں بلکہ یہ سب لوگ جو مجرم نظر آتے تھے جو ان کے سامنے بیٹھے تھے۔
بغداد کا دانا اصل مولانا حسین جو آخرکار اپنی قید سے نجات پاچکا تھا اس مجلس میں دوسرے درباریوں کے ساتھ حاضر تھا۔ خواجہ نصرالدین نے اس کی طرف دوستانہ انداز میں آنکھ ماری جس پر بغداد کا دانا اپنی جگہ پر کسمسایا اور غصے میں گہری سانس لی۔
فیصلہ ھونے میں دیر نہیں لگی۔ خواجہ نصرالدین کو سزائے موت دی گئی۔ صرف یہ طے کرنا باقی رہ گیا کہ ان کو کس طرح موت کے گھاٹ اتار ا جائے۔
"شہنشاہ اعظم" ارسلان بیک نے کہا "میرے خیال میں مجرم کو نوکیلے ستون پر بٹھا کر مارنا چاھئے تاکہ اس کی زندگی کا خاتمہ سخت کرب کی حالت میں ھو۔"
خواجہ نصرالدین نے اپنا رویاں بھی نہیں ھلایا۔ وہ خوش خوش مسکرا رھے تھے۔ انھوں نے اپنا چہرہ ایک سورج کی کرن کی طرف کر لیا جو اوپر کی کھلی ھوئی کھڑکی سے ھال میں آرھی تھی۔
"نہیں "امیر نے قطعی طور پر کہا "ترکی کے سلطان اس کافر کو نوکیلے ستون پر بٹھا کر ختم کرنے کی کوشش کرچکے ھیں ۔ غالبا وہ اس طرح کی موت سے بچنے کی صورت جانتا ھے، نہیں توبھلا یہ سلطان کے ھاتھ سے زندہ جان کیسے نکل سکتا تھا!"
بختیار نے مشورہ دیا کہ اس کا سر قلم کردیا جائے۔
"یہ سچ ھے کہ بہت ھی آسان موت ھوگی" اس نے کہا "لیکن یہ سب سے یقینی بھی ھے۔"
"نہیں " امیر نے کہا "خلیفہ بغداد نے اس کا سر قلم کروادیا لیکن وہ ابھی تک زندہ ھے۔"
یکے بعد دیگرے درباری اٹھ اٹھکر اپنی تجویزیں پیش کرنے لگے۔ کوئی کہتا کہ ان کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے تو کوئی یہ مشورہ دیتا کہ ان کی کھال کھنچوا ئی جائے۔ اس نے خواجہ نے چہرے پر خوف کی کوئی نشانی نہ دیکھ کر یہ سمجھا کہ ان طریقوں کے ناکافی ھونے کا یہی ثبوت ھے۔
درباری لاچار ھوکر خاموش ھوگئے۔ امیر کے چہرے پر بےصبری اور غصے کے آثار نظر آنے لگے۔
بغداد کا دانا اٹھا۔ چونکہ وہ پہلی مرتبہ امیر کے سامنے زبان کھولنے جا رھا تھا اس لئے اس نے بڑی احتیاط کے ساتھ اپنے مشورہ کو تول لیا تھا تاکہ اپنے عقل و دانش کی برتری کا مظاھرہ کرسکے۔
"جہاں پناہ! اگر یہ مجرم ابھی تک تمام سزاؤں سے صحیح سلامت بچ نکلتا ھے تو کیا اس کا یہ مطلب ھے کہ اس کو ارواح خبیثہ سے، تاریکی کی ایسی بدروحوں سے مدد ملتی ھے جن کا نام امیر کی موجودگی میں لینا گستاخی ھوگی؟"
یہ کہکر دانا نے اپنے شانوں کے پر دعا پڑھکر پھونکی جس کی پیروسی خواجہ نصرالدین کے سوا سب نے کی۔
"مجرم کے بارے میں تمام معلومات پر غور و خوض کرنے اور تولنے کے بعد" دانا نے اپنی بات جاری رکھی "ھمارے امیر نے اس کو موت کی سزا دینے کے تمام طریقوں کو اس خوف سے مسترد کردیا ھے کہ ارواح خبیثہ پھر مجرم کی مدد کرینگی اور وہ منصفانہ سزا سے بچ جائیگا۔ لیکن سزائے موت کا ایک اور طریقہ بھی ھے جو مبینہ ملزم پر نہیں آزمایا گیا اور وہ ھے۔ ڈبو دینا!"
بغداد کے دانا نے فخر سے سر اٹھا کر سارے مجمع کو دیکھا۔
خواجہ نصرالدین ھلکے سے چونک پڑے اور امیر نے اس حرکت کو دیکھ لیا " اچھا! تو یہ تھا اس کا راز"
اس دوران خواجہ نصرالدین سوچ رھے تھے:
"یہ بری اچھی علامت ھے کہ ان لوگوں نے ارواح خبیثہ کا ذکر چھیڑدیا ھے۔ اس کا مطلب یہ ھوا کہ ابھی امید نے بالکل سانس نہیں توڑدی ھے۔"
"میں نے جو کچھ سنا اور پڑھا ھے اس سے مجھے علم ھے" دانا نے اپنی بات جاری رکھی "کہ بخارا میں ایک مقد س تالاب ھے جس کو شیخ احمد کا تالاب کہتے ھیں ۔ ظاھر ھے کہ ارواح خبیثہ اس تالاب کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتیں ۔ اس لئے جہاں پناہ، اس کا یہ مطلب ھوا کہ مجرم کو کافی دیر تک اس مقدس پانی میں ڈبوئے رکھا جائے۔ اس کے بعد وہ مر جائے گا۔"
"یہ مشورہ انعام کے قابل ھے!" امیر نے کہا۔
خواجہ نصرالدین نے مولانا حسین سے مخاطب ھو کر ملامت آمیز لہجے میں کہا:
"مولانا حسین! جب تم میرے بس میں تھے تو کیا میں نے تمھارے ساتھ ایسا ھی سلوک کیا تھا؟ اس کے بعد انسان کیسے کسی کے احسان کا اعتبار کرسکتا ھے!"
یہ طے کیا گیا کہ خواجہ نصرالدین کو غروب آفتاب کے بعد شیخ احمد کے مقدس تالاب میں سر عام ڈبو دیا جائے گا۔ اس خیال سے کہ وہ راستے میں بھاگ نہ سکیں ان کو ایک چمڑے کے تھیلے میں تالاب تک لے جایا جائیگا اور اسی میں ان کو دبو دیا جائے گا۔
۔۔۔سارے دن بڑھئیوں کے بسولے تالاب کے کنارے گونجتے رھے جہاں ایک پلیٹ فارم بنایا جا رھا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ امیر کو وھاں پلیٹ فارم کی کیوں ضرورت ھے لیکن ان کے لئے چارہ ھی کیا تھا جب ھر بڑھئی کے سر پر ایک پہرے دار سوار تھا؟ وہ خاموشی سے کام کر رھے تھے۔ ان کے چہرے افسردہ اور ملول تھے۔ جب کام ختم ھو گیا تو ان کو جو معمولی اجرت دی جا رھی تھی وہ اس سے انکار کرکے سرجھکائے وھاں سے چلے گئے۔
پلیٹ فارم اور تالاب کا وہ کنارہ جس پر پلیٹ فارم تھا قالینوں سے ڈھک دئے گئے۔ سامنے کا کنارہ عام لوگوں کے لئے چھوڑ دیا گیا۔
جاسوسوں نے مخبری کی کہ سارے شہر میں بڑا ھنگامہ ھے۔احتیاط کے لئے ارسلان بیک نے تالاب کے چاروں طرف بےشمار سپاھی تعینات کردئے اور توپیں لگا دیں ۔ اس ڈر سے کہ مبادا لوگ خواجہ نصرالدین کو راستے میں نہ چھڑالیں ارسلان بیک نے چار بورے چیتھڑوں سے بھر والئے۔ اس کا رادہ یہ تھا کہ وہ ان چاروں بوروں کو عام سڑکوں سے علانیہ تالاب تک بھیجے گا اور جس بورے میں خواجہ نصرالدین ھوں گے اس کو ویران گلیوں سے لایا جائے گا۔ اس نے اپنے پرفن منصوبے میں یہ اضافہ کیا کہ نقلی بوروں پر تو آٹھ آٹھ پہرے دار رکھے اور اصلی کے ساتھ صرت تین۔
"میں تمھیں تالاب سے ھرکارہ بھیجونگا" ارسلان بیک نے پہرے داروں سے کہا "اور تم نقلی بورے فورا یکے بعد دیگرے روانہ کردینا اور پانچواں جس میں مجرم ھوگا ذرا بعد میں اس طرح بھیجنا کہ لوگوں کی توجہ اس طرف نہ جائے، اس وقت جبکہ پھاٹک کا مجمع نقلی بوروں کے پیچھے ھولے، سمجھے نا؟ یار رکھو کہ یہ تمھارے سر دھڑ کا سوال ھے۔"
شام کو نقاروں کی گونج نے بازار ختم ھونے کا اعلان کیا۔ ھر طرف سے لوگوں کا سیلاب امنڈ کر تالاب کی طرف چلا۔جلد ھی امیر بھی اپنے ماھی مراتب کے ساتھ پہنچ گیا۔ پلیٹ فارم پر اور اس کے چاروں طرف مشعلیں جلا دی گئیں ۔ ان کی لوئیں ھوا میں پھن پھنا اور لہرا رھی تھیں اور پانی پر خونیں شعاعیں ڈال رھی تھیں ۔سامنے والا کنارہ تاریکی میں غلطاں تھا۔ پلیٹ فارم سے مجمع تو نہیں دکھائی دیتا تھا لیکن اس کے چلنے پھرنے کی ھلچل تو سنائی دے رھی تھی جو رات کی ھوا کے جھونکوں میں غیر واضح اور بےچین آوازوں کا اضافہ کر رھی تھی۔
بختیار نے پاٹ دار آواز میں خواجہ نصرالدین کی سزائے موت کے لئے امیر کا فرمان پڑھا۔ اس لمحے ھوا بھی ساکن ھو گئی اور ایسی مکمل خاموشی چھا گئی کہ تقدس مآب امیر کا دل بھی کانپ اٹھا۔ پھر ھوا نے آہ بھری اور اس کے ساتھ ھزاروں سینوں سے بھی آہ نکلی۔
"ارسلان بیک" امیر نے گھبرا کر کہا "دیر کیوں ھو رھی ھے؟"
"عالی جاہ! میں نے ھرکارہ روانہ کردیا ھے۔"
اچانک اندھیرے سے غل غپاڑے اور ھتھیاروں کی جھنکار کی آواز آئی۔ کہیں لڑائی چھڑ گئی تھی۔ امیر اچھل پڑا اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔ ایک منٹ بعد پلیٹ فارم کے سامنے روشنی کے حلقے میں آٹھ پہرے دار خالی ھاتھ آئے۔
"مجرم کہاں ھے؟" امیر گرجا۔ "انھوں نے پہرےداروں سے چھین لیا! وہ بھاگ نکلا! یہ سب تیری وجہ سے ھوا، ارسلان بیک!"
"عالی جاہ!" ارسلان بیک نے جواب دیا۔ "آپ کا ناچیز غلام یہ سب پہلے سے جانتا تھا۔ بورا تو پرانے چیتھڑوں سے بھرا تھا۔"
سامنے والے کنارے سے پھر لڑائی کی آواز آرھی تھی۔ ارسلان بیک نے جلدی جلدی امیر کو اطمینان دلایا:
"آقائے نامدار! ان کو بورا لے جانے دیجئے۔ یہ بھی پرانے چیتھڑوں سے بھرا تھا۔"
پہلا بورا تو پہرے داروں سے چائے خانے کے مالک علی اور اس کے دوستوں نے چھینا تھا اور دوسرا یوسف کی قیادت میں آھنگروں نے۔ پھر کمھاروں نے تیسرا بورا چھینا۔ لیکن اس میں صرف چیتھڑے بھرے تھے۔ چوتھے بورے کو پہرے دار بلا روک ٹوک لے گئے۔ پہرے داروں نے اس کو مشعلوں سے روشن پانی پر سارے مجمع کے سامنے الٹ دیا۔ وہ چیتھڑوں سے بھرا تھا۔
پریشان اور متحیر مجمع خاموش کھڑا تھا۔ یہ تھا ارسلان بیک کا منصوبہ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ تذبذب کا نتیجہ لاچاری ھوتا ھے۔
اب پانچویں بورے سے نبٹنے کا وقت آگیا تھا۔ اس دوران میں ان پہرےداروں کو جو اسے لا رھے تھے راستے میں دیر ھوگئی تھی اور وہ ابھی تک نہیں آئے تھے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
(۳۵)​
جب پہرے داروں نے خواجہ نصرالدین کو کال کوٹھری سے نکالا تو انھوں نے کہا:
"و تم مجھ کو یہاں سے اپنی پیٹھ پر لے جاؤگے؟ افسوس کہ میرا گدھا یہاں نہیں ھے ورنہ وہ تو ھنستے ھنستے دم توڑ دیتا۔"
"بندکرو اپنی زبان! تو خود جلدی روئیگا!" پہرے داروں نے ڈانٹ بتائی۔ وہ اس کو معاف نہیں کرسکتے تھے کہ خواجہ نے خود کو اپنے آپ امیر کے حوالے کرکے ان کو انعام سے محروم کردیا تھا۔
انھوں نے تنگ بورے کو پھیلا کر اس میں خواجہ نصرالدین کو ٹھونسنا شروع کردیا۔
"ارے شیطان کے بچو!" خواجہ نصرالدین جو تہرے ھوچکے تھے چلائے "تم کو اس سے بڑا بورا نہیں ملا؟"
"چپ رہ!" پہرےداروں نے ھانپتے اور پسینہ پونچھتے ھوئے جواب دیا۔ "زیادہ دیر نہ لگے گی۔ دیکھ حرامزادے، زیادہ پھیلنے کی کوشش نہ کر، نہیں تو ھم تیرے گھٹنے تیرے پیٹ میں اتار دیں گے!"
اب ھاتھا پائی شروع ھوگئی جس کی وجہ سے محل کے سارے ملازم جمع ھوگئے اور بری کشمش کے بعد پہرے دار خواجہ نصرالدین کو بورے میں ٹھونس کر اس کو رسی سے باندھ سکے۔ بورے میں بڑی امس، تاریکی اور بدبو تھی۔ خواجہ نصرالدین کے دل پر ایک سیاہ غبار چھا گیا۔
فرار کا کوئی راستہ نہیں دکھائی دیتا تھا۔ انھوں نے قسمت اور ھمہ گیر طاقت رکھنے والے موقع سے اپیل کی۔
"اے قسمت جس نے ماں کی طرح مجھے پالا ھے او راے ھمہ گیر طاقت رکھنے والے موقع جس نے ابھی تک مجھے باپ کی طرح بچایا ھے تم کہاں ھو؟ تم خواجہ نصرالدین کی مدد کو جلدی سے کیوں نہیں آتے؟ اے قسمت! اے ھمہ گیر طاقت رکھنے والے موقع!"
اس دوران میں پہرے دار تالاب کا آدھا فاصلہ طے کرچکے تھے۔ وہ باری باری بورے کو لے جا رھے تھے۔ دوسو قدم کے بعد بدلی کرلیتے تھے۔ خواجہ نصرالدین رنج و غم کے مختصر وقفوں کو گن رھے تھے اور پتہ چلا رھے تھے کہ کتنا فاصلہ ھوچکا ھے اور کتنا باقی ھے۔
وہ جانتے تھے کہ قسمت اور موقع اس کا کبھی ساتھ نہیں دیتے جو عمل کرنے کی بجائے صرف رونا پیٹا اور فریاد کرتا رھتا ھے۔ وھی آدمی منزل تک پہنچتا ھے جو آگے بڑھتا رھتا ھے۔ اگر اس کے پیر کمزور ھوں اور کام نہ دیں تو اسے چاروں ھاتھوں پیروں پر آگے بڑھتے رھناچاھئے۔ تو پھر ضرور اس کو رات میں دور شعلہ ور الاؤ اور صحیح راستے پر چلنے والا کارواں نظر آئیگا اور اپنی منزل تک پہنجنے کے لئے اس کو فاضل اونٹ بھی مل جائے گا۔ جبکہ وہ آدمی جو سڑک کے کنارے بیٹھ کر یاس سے ھار مان لے گا، اس کے لئے سنگ دل پتھروں میں کوئی ھمدردی نہ پیدا ھوگی وہ چاھے جتنا روئے اور فریاد کرے۔ وہ ریگستان میں پیاسا مر جائے گا، اس کی لاش بدبودار لکڑبگھوں کی خوراک بن جائے گی اور اس کی ھڈیاں تپتی ھوئی ریت میں دفن ھوجائینگی۔ کتنے ھی آدمی وقت آنے سے پہلے مرگئے کیونکہ ان میں زندہ رھنے کا عزم مضبوط نہ تھا! خواجہ نصرالدین کسی حقیقی انسان کے لئے ایسی موت باعث شرم سمجھتے تھے۔
"نہیں " وہ دانت بھینچکر اپنے آپ سے بار بار کہہ رھے تھے "نہیں ، آج مجھے نہیں مرنا چاھئے! میں مرنا نہیں چاھتا!ؔ"
لیکن وہ کر کیا سکتے تھے۔ وہ تہرے گڑمڑائے اور بورے میں اس طرح ٹھنسے ھوئے تھے کہ ھلنا بھی ناممکن تھا۔ ان کے گھٹنے اور کہنیاں جسم سے چپکی ھوئی تھیں ۔ صرف ان کی زبان آزاد تھی۔
"ارے سورماؤ!" انھوں نے اپنے بورے کے اندر سے کہا۔ "ذرا رکو، میں مرنے سے پہلے دعا کرنا چاھتا ھوں تاکہ اللہ مجھ کو جوار رحمت میں جگہ دے۔"
پہرے داروں نے بورا زمین پر رکھ دیا۔
"اچھا چل دعا کر۔ لیکن ھم تجھ کو بورے سے باھر نہیں نکالیں گے۔ بورے کے اندر ھی دعا کر۔
"ھم کہاں ھیں ؟" خواجہ نصرالدین نے پوچھا۔ "مجھے جاننا چاھئے کیونکہ تمھیں میرا منہ قریب ترین مسجد کی طرف کرنا پڑیگا۔"
"ھم قرشی دروازے کے قریب ھیں ۔ یہاں تو چاروں طرف مسجدیں ھی مسجدیں ھیں ۔ جلدی سے دعا کر۔ ھم زیادہ دیر انتظار نہیں کرسکتے۔"
"شکریہ، پاکباز سورماؤ" خواجہ نصرالدین نے غمگین لہجے میں جواب دیا۔
ان کو کیا توقع تھی؟ یہ وہ خود بھی نہیں جانتے تھے۔ انھوں نے سوچا "میں چند منت کی مہلت حاصل کرلوں اور پھر دیکھا جائے گا۔ شاید کچھ ھو ھی جائے۔۔۔"
انھوں نے زور زور سے دعا شروع کی لیکن ساتھ ھی پہرےداروں کی باتیں بھی سنتے گئے۔
"ھم کیسے یہ نہ سمجھ پائے کہ نیا نجومی خواجہ نصرالدین ھے؟" پہرے دار افسوس کر رھے تھے۔ "اگر ھم اس کو پہچان کر پکڑ لیتے تو امیر سے ھمیں بڑا انعام ملتا۔"
وہ ھمیشہ کی طرح سوچ رھے تھے۔
دعا جلدی ختم کر" ایک پہرے دار نے بورے پر لات رسید کرتے ھوئے کہا۔ "سنتا ھے نا؟ اب زیادہ دیر نہیں انتظار کرسکتے۔"
"بس ایک منٹ اور، بہادر سورماؤ! مجھے اللہ سے بس ایک اور التجا کرنا ھے۔ اے پروردگار، رحیم و کریم! میری یہ دعا قبول کرلے کہ جو آدمی میرے دفن کئے ھوئے دس ھزار تانگے پائے وہ ان میں سے ایک ھزار مسجد لے جا کر ملا کو دے اور اس سے کہے کہ وہ میرے لئے پورے سال دعا کرے۔"
دس ھزار تانگوں کا نام سنتے ھی پہرےدار خاموش ھوگئے۔ حالانکہ خواجہ نصرالدین بورے سے دیکھ نہیں سکتے تھے لیکن وہ ٹھیک ٹھیک بتا سکتے تھے کہ ان کے چہروں کا کیا رنگ تھا، وہ کس طرح ایک دوسرے کی طرف دیکھ دیکھ کر کہنیاں مار رھے تھے۔
"اب مجھے اٹھاؤ" خواجہ نصرالدین نے بڑے عجز سے کہا "میں اپنی روحخدا کے حوالے کرتا ھوں ۔"
پہرےدار تذبذب میں پڑ گئے۔
"ھم ذرا دیر اور آرام کر لیں " ایک پہرے دار نے چالاکی سے کہا۔ "ارے، خواجہ نصرالدین یہ نہ سمجھنا کہ ھم سنگ دل اور برے لوگ ھیں ۔ فرض سے مجبور ھیں ۔ اس لئے تمھارے ساتھ سختی سے پیش آتے ھیں ۔ اگر ھم امیر کی تنخواہ کے بغیر اپنے گھروں میں رہ سکتے تو ھمیں تم کو چھوڑ دینے میں کوئی تامل نہ ھوتا۔۔۔"
"ارے، کیا کہہ رھے ھو؟" دوسرے پہرےدار نے پریشان ھو کر چپکے سے کہا۔"اگرھم اس کو چھوڑ دیں تو امیر ھمارے سر قلم کروالیں گے۔"
"چپ رھو" پہلے پہرےدار نے اس کو سرگوشی میں ڈانٹا۔ "ھم تو اس کی رقم ھتھیانا چاھتے ھیں ۔"
خواجہ نصرالدین ان کی کھسر پھسر تو نہیں سن سکے لیکن یہ تو سمجھ ھی گئے کہ کس کے بارے میں یہ سب ھو رھا ھے۔ "مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں ھے، سورماؤ" خواجہ نصرالدین نے ریاکاری سے آہ بھر کر کہا۔ "میں کسی کو کیابرا سمجھونگا، میں خود بڑا گنہ گار ھوں ۔ اگر اللہ نے عقبی میں میرے گناہ معاف کردئے تو میں اس کے تخت کے نیچے تم لوگوں کی بخشائش کی دعائیں کرونگا۔ تم کہتے ھو کہ اگر امیر کی تنخواہ کا سوال نہ ھوتا تو تم مجھے بورے سے نکال دیتے۔ سوچو تو کیا کہہ رھے ھو! تم امیر کے حکم کی خلاف ورزی کرو گے جو بڑا گناہ ھے! نہیں ، میں یہ نہیں چاھتا کہ تم میری وجہ سے انی روحکو گناھوں سے آلودہ کرو۔ بورا اٹھاؤ اور مجھے تالاب تک لے جاؤ۔ امیر اور اللہ کی مرضی پوری ھونے دو!"
پہرے داروں نے گھبرا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ وہ دل ھی دل میں خواجہ نصرالدین کو اس اچانک اور ناوقت توبہ کے لئے کوس رھے تھے۔
اب تیسراپہرےدار جو اھی تک خاموش تھا اور کوئی اچھی ترکیب سوچ رھاتھا آخر کار بولا:
"موت کے وقت کسی آدمی کو اپنے گناھوں اور غلطیوں پرتوبہ کرتے دیکھ کر بڑی تکلیف ھوتی ھے" یہ کہہ کر اس نے اپنے ساتھیوں کی طرف آنکھ ماری۔ "لیکن میں اس طرح کا آدمی نہیں ھوں ۔ میں نے مدتوں ھوئے توبہ کرلی ھے اور جب سے پاکیزہ زندگی گذار رھا ھوں ۔ ایسی توبہ جس کے ساتھ کوئی عمل نہ ھو اللہ کو خوش نہیں کرسکتی" اس نے اپنی بات جاری رکھی جبکہدوسرے دوپہرےدار اپنے منہ پر ہاتھ رکھے ھوئے اپنی ھنسی روک رھے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ پہرے داربڑا جواری اور عیاش ھے۔ "اسی لئے میں اپنی توبہ کو اچھے اور پاک کاموں سے مضبوط کرتا رھتا ھوں ۔ میں اپنے گاؤں میں ایک بڑی مسجد بنوا رھا ھوں جس کے لئے میں اور میرا خاندان بھوکا تک رھتاھے۔"
اب ایک پہرےدار سے ضبط نہ ھوسکا اور ھنستی سے بے اختیار ھو کر وہ تھوڑی دور چلا گیا۔
"میں ایک ایک پیسہ بچاتا ھوں " پہرےدار نے اپنی بات جاری رکھی "پھر بھی مسجد کی تعمیر اتنی سست رفتاری سے ھو رھی ھے کہ میرے دل کو صدمہ پہنچتا ھے۔ چند ھی دن ھوئے میں نے اپنی گائے بیچ دی ھے اور ممکن ھے کہ مجھے اپنا آخری جوڑ جوتا بیچنا پڑے۔ میں ننگے پیر رھنے کے لئے تیار ھوں اگر میں اس کام کی تکمیل کرسکوں جو میں نے شروع کیا ھے۔"
خواجہ نصرالدین نے بورے کے اندر سے سسکی بھری۔ پہرےداروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ان کو کامیابی ھو رھی تھی۔ انھوں نےا پنے چالاک ساتھی کو کہنی ماری کہ جلدی کرے۔
"کاشکہ مجھے کوئی ایسا ملج اتا جو اس مسجد کی تکمیل کے لئے آٹھ دس ھزار تانگے دے دیتا!" اس نے کہا۔ "میں اس سے قسم کھا کر یہ وعدہ کرتا کہ پانچ سال یا دس سال تک بھی اس کا نام خوشبویات کے مرغولوں میں لپٹا مسجد کی محرابوں سے نکلتا اور تخت خداوندی کی طرف بلند ھوتا!"
دوسراپہرے دار بولا:
"ارے میرے پاکباز ساتھی! میرے پاس دس ھزار تانگے تونہیں ھیں لیکن کیا تم میری ساری پونجی قبول کرو گے جو پانچ سو تانگے ھے۔ یہ میری حقیر پیش کش مسترد نہ کرو کیونکہ میں بھی اس پاک کام میں حصہ لینا چاھتاھوں ۔"
"اور میں بھی" تیسرے نے اپنی ھنسی کو دبا کر، ھکلاتے ھوئے اور کانپتے ھوئے کہا" میرے پاس تین سو تانگے ھیں ۔۔۔"
"اے پاکباز انسان، اے مومن!" خواجہ نصرالدین رونی آواز مٰں چلائے ۔" کاشکہ میں تھماری قبا کا دامن چوم سکتا! میں بڑا گنہ گار ھوں لیکن میرے ساتھ عنایت کرو اور میرا تحفہ مسترد نہ کرو۔ میرے پاس دس ھزار تانگے ھیں ۔ جب میں دھوکہ دے کر امیر کی خدمت میں مقبول ھوگا تو انھوں نے اکثر مجھے اشرفیوں اور چاندی کے سکوں کی ٹھیلیاں عطا کیں ۔ میں نے دس ھزار تانگے بچا کر ان کو چھپا دیا۔ ارادہ یہ تھا کہ بھاگے وقت ان کو نکال لونگا۔ چونکہ میں قرشی دروازے سے بھاگنا چاھتا تھا اس لئے میں نے قرشی قبرستان میں ایک پرانی لوح مزار کے نیچے ان کو دفن کر دیا تھا۔"
"قرشی قبرستان میں !" سب پہرے دار چلائے۔ "تب تو یہ رقم کہیں قریب ھی ھے۔"
"ھاں ، اب ھم قبرستان کے شمالی سرے پر ھیں اور اگر کوئی۔۔۔"
"ھم مشرقی سرے پر ھیں ۔ تھماری رقم کہاں ۔۔۔ کہاں دفن ھے؟"
"وہ قبرستان کے مغربی سرے پر دفن ھے" خواجہ نصرالدین نے کہا۔ "لیکن ایمان دار پہرےدارو! پہلے یہ قسم کھاؤ کہ واقعی دس سال تک مسجد میں میرے نام پر روز فاتحہ پڑھا جائے گا۔"
"میں قسم کھاتا ھوں " وہ پہرے دار چلایا جو بہت بےچین ھو رھا تھا۔ "میں خدا اور اس کے پیغمبر کی قسم کھاتا ھوں ! اب جلدی بتاؤ کہ رقم کہاں گڑی ھے؟"
خواجہ نصرالدین نے تھوڑا سا توقف کیا۔ "اگر انھوں نے مجھ کو پہلے تالاب پر لے جانے اور رقم کل تلاش کرنے کا فیصلہ کیا تو کیا ھوگا؟"
انھوں نے سوچا۔" نہیں ، یہ نہیں ھوگا۔ ان پر تو حرص اور بے صبری کا دیو سوار ھے۔ پھر ان کو ایک دوسرے پر بھی تو اعتبار نہیں ھے۔ اچھا تو کون سی جگہ بتانا چاھئے جہاں وہ امکانی طور پر زیادہ سے زیادہ دیر تک کھودتے رھیں ؟"
پہرےدار بورے پر جھکے کھڑے تھے۔ خواجہ نصرالدین ان کے ھانپنے کی آواز سن رھے تھے جیسے وہ کہیں سے دوڑ کر آرھے ھوں ۔
"قبرستان کے مغربی سرے پر تین پرانے مقبرے ایک مثلث کی صورت میں ھیں " خواجہ نصرالدین نے کہا۔ "ان میں سے ھر ایک کے نیچے میں نے تین ھزار تین سو تینتیس اور ایک تہائی تانگہ گاڑے ھیں ۔"
"مثلث میں " پہرےداروں نے اس طرح ایک ساتھ دھرایا جیسے کسی عالم سے کوئی آیت حفظ کرنے کی کوشش کر رھے ھوں ۔ "ھر ایک کے نیچے تین ھزار تین سو تینتییس اور ایک تہائی تانگہ۔۔۔"
انھون نے یہ طے کیا کہ دو تو رقم تلاش کرنے جائیں اور تیسرا پہرے پر رھیگا۔ اس بات پر شاید خواجہ نصرالدین ناامید ھو جاتے اگر ان کو انسانی افعال کی پیش بینی کا تجربہ نہ ھوتا۔ ان کو یقین تھا کہ تیسرا پہرےدار بھی زیادہ دیر تک پہرے پر نہیں رھیگا اور انھوں نے غلطی نہیں کی تھی۔ تنہائی میں پہرے دار نےچینی سے آھیں بھرنے، کھانسنے اور ٹہلنے لگا۔ اس کے اسلحہ بج رھے تھے۔ ان آوازوں سے خواجہ نصرالدین اس کے خیالات کا اندازہ لگا رھے تھے۔ پہرے دار اپنے حصے کے تین ھزار تین سو تینتیس اور ایک تہائی تانگوں کے لئے پریشانی میں مبتلا تھا۔ خواجہ نصرالدین صبر سے انتظار کر رھے تھے۔
"ان کو بڑی دیر لگ رھی ہے"۔ پہرے دار نے کہا۔
"شاید وہ رقم کو کسی دوسری جگہ دفن کر رھے ھوں اور کل تم سب ملکر اس کو لے جاؤ گے۔ خواجہ نصرالدین نے کہا۔
یہ الفاظ کام کر گئے۔ پہرے دار کی سانس زور سے چلنے لگی اور پھر اس نے جماھی لینے کی بناوٹ کی۔
"میں مرنے سے پہلے تزکیہ نفس کے لئے کوئی کہانی سننا چاھتا ھوں " خواجہ نصرالدین اپنے بورے سے بولے۔ "شاید تمھیں کوئی یاد ھو، مہربان پہرےدار؟"
"نہیں !" پہرےدار نے غصےسے کہا۔" میں کوئی ایسی کہانی نہیں جانتا۔ اس کے علاوہ میں تھک گیا ھوں ۔ میں جا کر گھاس پر لیٹتا ھوں ۔"
لیکن اس نے یہ نہیں سوچا کہ سخت اور پتھریلی زمین پر اس کے قدموں کی آواز دور تک گونجتی ہے۔ پہلے تو وہ آھستہ چلا- پھر خواجہ نصرالدین نے اس کے تیز چلنے کی آواز سنی ۔ اب پہریدار دوڑنے لگا۔
اب عمل کا وقت آگیا تھا۔ لیکن خواجہ نصرالدین ادھر ادھر بے سود لنڈھک رھے تھے۔ رسی کسی طرح نہیں ٹوٹ رہی تھی۔
"راہ گیر!" خواجہ نصرالدین نے دعا کی۔ "اے قسمت، کوئی راہ گیر بھیجدے!"
اور قسمت نے ایک راہ گیر بھیجدیا۔
قسمت اور مناسب موقع ھمیشہ اس کی مدد کرتے ھیں جو مکمل عزم رکھتا ھے اور آخر تک ھاتھ پاؤں مارتا ھے (ھم یہ پہلے بھی کہہ چکے ھیں لیکن دھرانے سے حقائق کی اھمیت نہیں کم ھوتی) ۔ خواجہ نصرالدین پوری طاقت سے انیزندگی بچانے کے لئے جدوجہد کر رے تھے اور قسمت مدد سے انکار نہیں کرسکتی تھی۔
راہ گیر آھستہ آھستہ آرھا تھا۔ خواجہ نصرالدین نے اس کے قدموں کی آواز سے بھانپ لیا کہ لنگڑا تھا اور معمر بھی کیونکہ وہ ھانپ رھا تھا۔
بورا سڑک کے بیچوں بیچ پڑا تھا۔ راہ گیر رک گیا۔ اس نے بڑی دیر تک بورے کو دیکھا اور اس میں دو تین بار چھڑی گڑوئی۔
"بورے میں کیا ھوسکتاھے؟ یہ کہاں سے آیا؟" چچیاتے ھوئے لہجے میں راہ گیر نے کہا۔
مرحبا! خواجہ نصرالدین نے جعفر سود خور کی آواز پہچان لی۔اب ان کو اپنے بچ نکلنے کے بارے میں کوئی شبہ نہیں رھا۔ بس، پہرےدار ذرا جلدی نہ لوٹیں ۔
وہ اس طرح آھستہ سے کھانسے کہ سود خور گھبرائے نہیں ۔
"اچھا، اس کے اندر آدمی ھے!" جعفر نے پیچھے ھٹتے ھوئے کہا۔
"ھاں ، واقعی آدمی ھے" خواجہ نصرالدین نے اپنی آواز بدلتے ھوئے سکون سے کہا۔ "یہ کوئی عجیب بات ھے؟"
"عجیب بات؟ تم بورے میں کیوں گھسے؟"
"یہ میرا معاملہ ھے، اپنے راستے جاؤ اور اپنے سوالوں سے مجھے پریشان نہ کرو۔"
خواجہ نصرالدین سمجھ گئے کہ اب سود خور کو اشتیاق پیدا ھوگیا ھے اور وہ جائیگا نہیں ۔
"یہ واقعی غیر معمولی بات ھے" سود خور نے کہا "کہ آدمی بورے میں بند ھو۔ کیا تم کو کسی نے زبردستی اس میں ٹھونسا ھے؟"
"زبردستی؟"خواجہ نصرالدین نے مذاق اڑاتے ھوئے کہا۔ "کیا میں اس بورے میں زبردستی ٹھونسے جانے کے چھ سو تانگے دیتا؟"
"چھ سو تانگے! تم نے یہ رقم کیوں دی؟"
"راہ گیر! میں تم کوسارا قصہ بتادونگا بشرطیکہ تم اس کو سننے کے بعد انی راہ لگواور مجھے زیادہ نہ چھیڑو۔ یہ بورا ایک عرب کا ھے جو ھمارے شہر بخارا میں رھتا ھے۔ اسبورے میں تمام بیماریوں اور جسمانی نقائص کواچھا کرنے کی صفت ھے۔ اس کا مالک صرف بڑی رقم پر اس کو مستعار دیتا ھے اور وہ بھی سب کو نہیں ۔ میں لنگڑا، کبڑا اور کانا تھا۔ میں شادی کرنا چاھتا تھا، میرے ھونے والے سسر نے یہ نہیں چاھا کہ میری دلھن کی نظر ان نقائص پر پڑے اس لئے وہ مجھے اس عرب کے پاس لے گئے جس نے مجھ کو یہ بورا چھ سو تانگے کے عوض میں چار گھنٹے کے لئے کرائے پر دیا ھے۔
"چونکہ یہ بورا صرف قبرستانوں کے قریب ھی اپنی معجز نما مسیحائی دکھاتا ھے اس لئے میں غروب آفتاب کے بعد قرشی کے اس پرانے قبرستانآیا ھوں ۔ میرے سسر نے جو میرے ساتھ آئے تھے رسی سے بورے کو باندھ دیا اور چلے گئے کیونکہ کسی دوسرے کی موجودگی میں علاج ناممکن ھے۔ بورے کے مالک عرب نے مجھے متنبہ کردیا ھے کہ جیسے ھی میں تنہا ھونگا تین جن خوب شور مچاتے اور تانبے کے پر کھڑکھڑاتے نمودار ھونگے۔ وہ انسانوں کی آواز میں مجھ سے پوچھیں گے کہ قبرستان کے کس حصے میں دس ھزار تانگے دفن ھیں ۔ اس کے جواب میں مجھے یہ پراسرار منتر پڑھنا چاھئے:'جس کے پاس تانبے کی ڈھال ھوتی ھے اس کا دماغ بھی تانبے کا ھوتا ھے۔ عقاب کی جگہ الو بیٹھا ھے۔ ارے جنو، تم وہ ڈھونڈ رھے ھو جو میں نے چھپایا ھی نہیں تھا۔ اس لئے میرے گدھے کی دم چوم لو!'
"سب کچھ عرب کے کہنے کے مطابق ھوا۔ جنوں نے آکر مجھ سے پوچھا کہ دس ھزار تانگے کہاں دفن ھیں ۔ میرا جواب سن کر وہ بھڑک اٹھے اور انھوں نے مجھے خوب پیٹا لیکن میں عرب کی ھدایت کو یاد رکھتے ھوئے برابر یہی چلاتا رھا: 'جس کے پاس تانبے کی ڈھال ھوتی ھے اس کا دماغ ب ھی تانبے کا ھوتا ھے۔ ۔۔۔میرے گدھے کی دم چوم لو!' پھر جن بورے کو اٹھا کر لے چلے۔۔۔ اس سے زیادہ مجھے کچھ یاد نہیں ۔ دو گھنٹے بعد جب میں ھوش میں آیا تو میں اسی جگہ پر تھا اور بالکل ٹھیک ھو گیا تھا۔ میراکوبڑ غائب ھو گیا ھے، میرا پیر سیدھا ھے اور میری آنکھ سے دکھائی دینے لگا ھے۔ اس کا یقین مجھے بورے کے ایک سوراخ سے جھانک کر ھوا جو شاید پہلے کسی نے بورے میں بنایا ھوگا۔ اب میں صرف اس کے اندر اس لئے بیٹھا ھوں کہ اتنی رقم دینے کے بعد اس کو ضائع کیوں کروں ۔ واقعی مجھے سے غلطی ھوئی۔ میں نے کسی اور آدمی سے سمجھوتہ کر لیا ھوتا جس میں بھی یہ نقائص ھوتے۔ تب ھم بورے کے کرائے کی رقم آدھی آدھی بانٹ لیتے۔ ھم دونوں دودو گھنٹے بورے میں رھتےاور اس طرحھمیں اپنے علاج کے تین تین سو تانگے فی کس پڑتے۔ لیکن کچھ نہیں ھوسکتا۔ رقم ضائع ہو جانے دو۔ بڑی بات تو یہ ھے کہ میں خدا خدا کرکے اچھا ھوگیا۔
"راہ گیر، اب تمھیں سارا قصہ معلوم ھو گیا ھے۔ اب اپنا قول پورا کرو اور یہاں سے چلے جاؤ۔ میں شفا پانے کے بعد کمزوری محسوس کر رھا ہوں اور میرے لئے بولنا مشکل ھے۔ تم سے پہلے نو آدمی مجھ سے یہی سوالات کرچکے ھیں اور میں بار بار یہ باتیں دوھرانے سے عاجز آچکا ھوں ۔"
سود خور بڑے غور سے سن رھا تھا۔ وہ خواجہ نصرالدین کے بیان کے درمیان بار بار حیرت کے الفاظ کہہ اٹھتا تھا۔
"بورے میں بیٹھنے والے، سن" سود خور نے کہا "ھم دونوں اپنی ملاقات سے فائدہ اٹھا سکتے ھیں ۔ تجھ کو اس بات کا افسوس ھے کہ تو نے بورے کے کرائے میں کسی اپنے ایسے مریض کو حصہ دار کیوں نہ بنایا لیکن ابھی دیر نہیں ھوئی ھے۔ اتفاق سے میں ایک ایسا ھی آدمی ھوں جس کی تجھے ضرورت ھے۔ میں کوبڑا، لنگڑا اور کانا ھوں ۔ میں دوگھنٹے بورے میں رھنے کے لئے خوشی سے تجھ کو تین سو تانگے دے سکتا ھوں ۔"
"تم مجھے چڑھا رھے ھو!" خواجہ نصرالدین نے جواب دیا۔ "ایسا حیرت انگیز اتفاق ناممکن ھے! اگر تم سچ کہہ رھے ھو تو اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے تم کو یہ موقع دیا۔ میں راضی ھوں ، اے راھگیر، لیکن میں تم کو بتائے دیتا ھوں کہ میں نے رقم پیشگی ادا کی ھے اور تمھیں بھی پیشگی ھی دینا ھوگا۔ میں ادھار نیہں رکھتا۔"
"میں پیشگی دونگا" سود خور نے بورے کو کھولتےھوئے کہالیکن وقت ضایع نہ کرنا چاھئے کیونکہ جو منٹ ابھی گذر رھے ھیں وہ میرے ھیں ۔"
خواجہ نصرالدین نے بورے سے باھر نکلتے ھوئے اپنا چہرہ آستین سے چھپا لیا۔ لیکن سودخور نے تو خواجہ پر نگاہ تک نہ ڈالی۔ وہ جلدی جلدی رقم گن رھا تھا۔ اس کو ھر منٹ گزرنے کا قلق تھا۔ وہ بہت مشکل سے کراہ کراہ کر بورے کے اندر گھسا اور اپنا سر بھی اندر کرلیا۔
خواجہ نصرالدین نے رسی باندھ دی اور پھر ذرا دور جا کر ایک درخت کے سائے میں چھپ گئے۔ انھوں نےا بھی یہ کیا ھی تھا کہ قبرستان کی طرف سے پہرےداروں کی آوازیں زور زور سے برا بھلا کہتی ھوئی آنے لگیں ۔ ٹوٹی ھوئی دیوار کےاندر سے پہلے ان کے لمبے سائے دکھائی دئے اور پھر وہ خود نموار ھوئے۔ ان کی پیتل کی ڈھالیں چاندنی میں چمک رھی تھیں ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
(36)​
"اے دھوکے باز کہیں کے!" پہرےداروں نے بورے پر لاتیں رسید کرتے ھوئے کہا، ان کے ھتھیار اسی طرحکھڑکھڑا رھے تھے جیسے تانبے کےپر کھڑکھڑاتے۔ "ھم نے سارا قبرستان چھان مارا لیکن کچھ نہیں ملا۔ اے حرامزادے بتا، وہ دس ھزار تانگے کہان ھیں ؟"
سود خور تو اپنا سبق اچھی طرح رٹے بیٹھا تا۔
"جس کے پاس تابنے کی ڈھال ھوتی ھے اس کا دماغ بھی تانبے کا ھوتا ھے" وہ بورے کے اندر سے بولا۔" عقاب کی جگہ الو بیٹھا ھے۔ ارے جنو، تم وہ ڈھونڈ رھے ھو جو تم نے چھپایا ھی نہیں تھا۔ اس لئے میرے گدے کی دم چوم لو!"
یہ الفاظ سنکر پہرےداروں کو بڑا غصہ آیا:
"تو نے ھم کو دھوکہ دیا، کتے کے پلے! اور اب ھمیں کو احمق بناتا ھے! دیکھو، دیکھو بورا گرد میں لت پت ھے۔ اس نے سڑک پر لوٹ لگا کر اپنے کو آزاد کرنے کی کوشش کی ھوگی جب ھم قبرستان میں کھود رھے تے اورھمارے ھاتھ لہو لہان ھو رھے تھے۔ ارے لومڑی کے بچے، تجھے اس دھوکے بازی کا خمیازہ بھگتناپڑیگا!"
انھوں نے بورے کو مکوں سے خوب پیٹا اور باری باری لوھے کے نعل لگے جوتوں سے خاطر کی۔ اس دوران سودخور خواجہ نصرالدین کی ھدایت پر سختی سے قائم رھا اور برابر یہی چلاتا رھا "جس کے پاس تانبے کی ڈھال ھوتی ھے اس کا دماغ بھی تانبے کا ھوتا ھے!" اس سے پہرےداروں کو اور بھی غصہ آگیا۔ وہ تو اس پاجی کو خود ھی ختم کردیتے لیکن انھیں افسوس تھا کہ وہ ایسا نہیں کرسکتے تھے۔ انھوں نے بورا اٹھایا اور مقدس تالاب کی طرف روانہ ھوگئے۔
خواجہ نصرالدین اپنی پناہ گاہ سے نکلے، نہر میں منہ ھاتھ دھوئے اور اپنی قبا اتاردی تاکہ ان کے چوڑے چکلے سینے میں رات کی ھوا لگے۔ وہ ناقابل بیان ھلکا پن اور مسرت محسوس کر رھے تھے کیونکہ موت کی سیاہ سانس ان کو جلائے بغیر گذر گئی تھی۔ انھوں نے ایک امان کی جگہ ڈھونڈ لی،ا پنی قبا بچھائی اور ایک پتھر کو تکیہ بنایا۔ وہ دم گھٹنے والے کسے ھوئے بورے کی قید میں بہت ھی بے حال ھوگئے تھے اور ان کو آرام کی ضرورت تھی۔ گھنے درختوں میں ھوا سرسرا رھی تھی۔ آسمان پر تاروں کے سنہرے جھرمٹ تیر رھے تھے۔ نہر میں پانی قل قل کرتابہہ رھا تھا۔ اب یہ سب پہلے کے مقابلے میں خواجہ نصرالدین کو دس گنا عزیز تھا۔
"ھاں ، دنیا میں اتنی زیادہ نیکی موجود ھے کہ اگر میرے لئے جنت میں جگہ کی قطعی ضمانت بھی ھو جائے تو میں مرے پر راضی نہیں ھونگاایک ھی درخت کے نیچے ایک ھی طرح کی حوروں میں تاابد بیٹھے بیٹھے تو وھاں آدمی کا دم گھٹ جاتا ھوگا۔"
یہ تھے ان کے خیالات۔ وہ گرم زمین پر ستاروں کے شامیانے تلے لیٹے تھے اور کبھی نہ سونے والی، ھمیشہ رواں دواں رھنے والی زندگی کی آواز سن رے تھے۔ ان کا دل سینے میں دھڑک رھا تھا۔ قبرستان سے ایک الو کے بولنے کی آواز آئی، کوئی چھوٹا سا جانور چپکے چپکے جھاڑیوں میں چل پھر رھا تھا۔ شاید کوئی ساھی ہوگی۔ کمھلائی ھوئی گھاس کی تیز مہک اٹھ رھی تھی، ساری رات پراسرار حرکتوں ، عجیب طرح کی سرسراھٹ، رینگنے اور ٹوٹنے کی آوازوں سے بھری ھوئی تھی۔
دنیا زندہ تھی، سانس لے رھی تھی، وسیع دنیا جو سب کے لئے برابر کھلی تھی۔ا س کی بے پناہ وسعتیں چیونٹی ھو کہ چڑیا یا آدمی سب کے لئے یکساں مہمان نواز تھی اور معاوضے میں صرف یہ مطالبہ کرتی تھیں کہ اس خیرمقدم اور اعتماد کا غلط استعمال نہ کیا جائے۔ میزبان اس مہمان کو ذلیل کرکے نکال دیتاھے جو دعوت کے موقع پر عام گہما گہمی سے فائدہ اٹھا کر دوسرے مہمانوں کی جیب صاف کردیتا ھے۔ ایسا ھی چور یہ لعنتی سودخور تھا جو مسرت سے بھرپور دنیا سے نکلا جا رھا تھا۔
خواجہ نصرالدین کو اس کے لئے ذرابھی افسوس نہ تھا کیونکہ اس کے خاتمے سے ھزاروں انسانوں کی قسمت بن جانے والی تھی۔ خواجہ نصرالدین کو افسوس یہ تھا کہ سودخور اس دنیا میں آخری شیطان نہ تھا۔ کاشکہ ایک بورے میں تمام امرا اور عمائدین کو، ملاؤں کو اور سودخوروں کو بند کرکے ایک ساتھ شیخ احمد کے مقدس تالاب میں ڈبویا جاسکتا! تب ان کی گندی سانس درختوں کے پربہار پھولوں کو نہ کمھلا سکتی، انے پیسے کی جھن جھن ان کے ریاکارانہ وعظ اور ان کی تلواروں کی جھنکار چڑیوں کی چہچہاھٹ پر نہ غالب آسکتی اور آدمی دنیا کے حسن سے لطف اندوز ھونے اور اپنا انتہائی اھم فرض ادا کرنے یعنی ھر وقت اور ھر چیز سے خوش رھنے کے لئے آزاد ھوتا!
اس دوران میں پہرےداروں نے تاخیر کا ازالہ کرنے کے لئے تیز تیز چلنا شروع کیا اور آخرکار دوڑنے لگے۔ سودخور جو بورے میں ھلنے جلنے سے چور ھوا جا رھا تھا اس غیر معمولی سفر کے خاتمے کا صبر کے ساتھ انتظار رھا تھا۔ وہ اسلحہ کی کھڑکھڑاھٹ اور پہرےداروں کے پیروں تلے پتھروں کی آواز سن کر حیرت کر رھا تا کہ یہ طاقتور جن دوڑنے اور زمین پر اپنے تانبے کے پر اس طرح رگڑنے کی بجائے جیسا کہ جوان مرغ مرغی کا پیچھا کرتے وقت کرتے ھیں آخر ھوا میں بلند ھوکر اڑتے کیوں نہیں ھیں ؟
آخرکار دور سے ایک عجیب گرجدار آواز سنائی دی جیسے کوئی پہاڑی چشمہ گرجتاھوابہہ رھا ہو۔ اس سے پہلے تو سود خور نے سوچا کہ جن اس کو کسی پہاڑ پر لائے ھیں ، شاید اپنے مسکن خان تنگری میں ۔ لیکن جلدی اس کو آوازیں سنائی دینے لگیں اور اس نے اندازہ لگایا کہ آدمیوں کا بڑا مجمع ھے۔ آواز سے یہ معلوم ھوتا تھا کہ بازار کی طرح ھزاروں آدمی جمع ھیں ۔ لیکن آخرکار بخارا میں رات کو کاروبار کب سے شروع ھوگیا؟
اچانک اس نے محسوس کیا کہ وہ اوپر اٹھایا جا رھا ھے۔ اوہ، آخرکار جنوں نے ھوا میں اڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کو کیا معلوم تھا کہ پہرےداربورے کو زینوں کے اوپر اٹھا کر پلیٹ فارم تک لا رے تھے۔ اوپر پہنچ کر انھوں نے بورا پٹخدیا۔ وہ پٹروں پر گرا جو اس کے وزن سے ھلنے اور کھڑکھڑانے لگے۔ سودخور زور سے کراھا۔
"ارے جنو!" وہ چلایا "اگر تم بور کو اس طرح پھینکو گے تو مجھے اچھا کرنے کی بجائے اپاھج بنادوگے!"
اس کا جواب ایک زوردار لات سے ملا۔
"حرامزادے، تیرا علاج جلد ھی احمد کے تالاب میں ھوگا!"
سودخور اچانک بدحواس ھوگیا۔ اس معاملے کا احمد کے مقدس تالاب سے کیا تعلق؟ اس کی پریشانی حیرت میں بدل گئی جب اس نے قریب ھی اپنے پرانے دوست، محل کے پہرےداروں اور فوج کے کماندار ارسلان بیک کی آواز سنی۔ وہ قسم کھا سکتا تھا کہ یہ ارسلان بیک ھی تھا۔ اس کا دماغ چکرا گیا۔ یہ ارسلانبیک اچانک کہاں سے کود پڑا؟ وہ جنوں کو راستے میں تاخیر کرنے کے لئے گالیاں کیوں دے رھا ھے اور جن اس کی بات کا جواب دیتے وقت خوف اور عاجزی سے کانپ کیوں رھے ھیں ؟ یہ تو ناممکنھے کہ ارسلان بیک جنوں کابھی سردار ھو۔ وہ کیا کرے؟ خاموش رھے یا ارسلان بیک کو پکارے؟ چونکہ سود خور کو اس بارے میں کوئی ھدایت نہیں دی گئی تھی اس لئے اس نے خاموش رھنا ھی بہتر سمجھا۔
اس دوران میں مجمع کا شور و غل اوربڑھ گیا تھا۔ عام ھنگامے میں ایک لفظ سب سے زیادہ اور اکثر سنائی دے رھا تھا۔ ایسا معلوم ھورھا تھا جیسے زمین، فضا اور ھوا سبھی اس لفظ سےبھرے ھوئے ھیں ۔ اس کی ھلکی بھن بھناھٹ ھوتی، پھر شور اور گرج دور تک گونجتی چلی جاتی۔ سود خور سانس روکے سب کچھ سن رھا تھا۔ آخرکار اس نے سنا۔
"خواجہ نصرالدین!" مجمع میں ھزارون لوگ چلا رھے تھے۔ "خواجہ نصرالدین! خواجہ نصرالدین!"
اچانک خاموشی چھاگئی اور سخت سناٹے میں سودخور نے شعلہ ور مشعلوں کے پھنکنے، ھوا کی سرسراھٹ اور پانی کی کھلبلاھٹ سنی۔ اس کی ٹیڑھی ریڑھ میں کپکپی سی دوڑ گئی اور وہ انتہائی ڈر گیا۔ خوف کی سرد سانس نے اس کو بالکل جما دیا۔
پھر ایک اور آواز سنائی دی اور سودخور یقین سے کہہ سکتا تھا کہ یہ وزیر اعظم بختیار کی آواز ھے:
"خدا کے نام پر جو رحیم و کریم ھے اور آفتاب جہان امیر بخارا کے حکم سے، مجرم، مرتد، امن شکن اور منافق خواجہ نصرالدین کو ایک بورے میں بندکرکے ڈبو کر ختم کردیا جائے گا۔"
بورے پر ھاتھ پڑے اور انھوں نے بورے کو اٹھا لیا۔ اب سود خور کو اپنی مہلک حالت کا پتہ چلا۔
"ٹھہرو! ٹھہرو!" وہ چلایا۔ "ارے تم کیا کر رھے ھو؟ ٹھہرو! میں خواجہ نصرالدین نہیں ھوں ۔ میں تو جعفر سود خور ھوں ! مجھے چھوڑ دو! میں جعفر ھوں ، میں خواجہ نصرالدین نہیں ھوں ! مجھے کہاں لے جا رھے ھوں ؟ میں کہہ رھا ھوں تم سے کہ میں جعفر سودخور ھوں !"
امیر اور اس کا عملہ سودخور کی فریاد خاموشی سے سنتا رھا۔ بغداد کے دانا مولانا حسین نے سرھلاتے ھوئے کہا:
"یہ مجرم تو انتہائی بے حیا ھے۔ ایک مرتبہ اس نے بغداد کے دانا مولانا حسین کا بہروپ بھرا اور اب ھم کو یقین دلانا چاتھا ھے کہ وہ جعفر سود خور ھے!"
"وہ خیال کرتا ھے کہ یہاں ایسے ھی احمق ھیں جو اس کی بات مان لیں گے" ارسلان بیک نے اضافہ کیا۔ "دیکھئے ، کس طرح اس نے اپنی آواز بدلی ھے۔"
"مجھے چھوڑ دو! میں خواجہ نصرالدین نہیں ھوں ، میں جعفر ھوں !" سود خور نے فریاد کی جب دو پہرے دار پلیٹ فارم کے کنارے آکر بورے کو جھلانے لگے تاکہ اسے کالے پانی میں پھینک دیں ۔ !میں خواجہ نصرالدین نہیں ھوں ! میں تو۔۔۔"
اسی لمحے ارسلان بیک نے اشارہ کیااور بورے نے ھوا میں بلند ھو کر کئی قلابازیاں کھائیں ۔ پھر زبردست بھچاکے کے ساتھ وہ پانی میں گرا جس سے ایک فوارہ سا بلند ھوا جو مشعلوں کی سرخ روشنی میں چمکا اور پھر گہرے پانی نے جعفر سودخور کے گنہ گار جسم اور گنہ گار روح کو اپنے آغوش میں لے لیا۔
مجمع سے ایک زبردست آہ بلند ھوکر رات میں پیوست ھوگئی۔ چند لمحے تک ایک بھیانک خاموشی رھی اور پھر اچانک ایک زوردار اور دل میں اتر جانے والی چیخ نے اس کو چکنا چور کردیا۔ یہ تھی گل جان جو چیخپڑی تھی اور اپنے بڈھے باپ کے بازوؤں میں تڑپ رھی تھی۔
چائے خانے کے مالک علی نے اپنا چہرہ ھاتھوں میں چھپا لیا اور آھنگر یوسف اس طرح کانپنے لگا جیسے اس کو لرزے کا دورہ پڑا ھو۔
 

قیصرانی

لائبریرین
(37)​

سزائے موت کے بعد امیر معہ اپنے ماھی مراتب کے محل واپس گیا۔
اس ڈر سے کہ کہیں مرنے سے پہلے مجرم کو بچا نہ لیا جائے ارسلان بیک نے تالاب کے چاروں طرف پہرہ لگا دیا اور حکم دے دیا کہ کسی کو قریب نہ آنے دیا جائے۔ مجمع پہرےداروں کے ریلنے پر پیچھے ھٹ گیا۔ پھر ایک بڑی ماتمی اور خاموش بھیڑ کی صورت میں اکٹھا ھوگیا۔ ارسلان بیک نے ان کو منتشر کرنے کی کوشش کی لیکن لوگ دوسری طرف ھٹ جاتے یا تاریکی میں چھپ جاتے اور پھر ذرا دیر بعد اسی جگہ واپس آجاتے۔
محل میں بڑی چہل پہل تھی۔ امیر اپنے دشمن پر فتح کا جشن منا رھا تھا۔ ھر طرف سونا چاندی چمک رھا تھا، کیتلیاں ابل رھی تھیں ، انگیٹھیوں سے دھواں نکل رھا تھا اور طنبوروں کےنغمے بکھر رھے تھے، نفیریاں بج رھی تھیں اور نقاروں کی آواز فضا میں گونج رھی تھی۔ جشن کے سلسلے میں اتنی روشنی تھی کہ س کی سرخی سے سارے محل میں آگ سی لگی معلوم ھوتی تھی۔
امیر نے بڑی فیاضی سے انعامات تقسیم کئے۔ اس دن بہتوں پر نظر عنایت ھوئی۔ شاعروں کی آوازیں قصیدے پڑھتے پڑھتے بیٹھ گئیں اور چاندی اور سونے کے سکے جھک کر اٹھاتے اٹھاتے کمریں رہ گئیں ۔
"رقعہ نویس کو بلاؤ" امیر نے حکم دیا۔
رقعہ نویس دوڑتا ھوا آیا اور جلدی جلدی اپنے کلک کے قلم سے لکھنے لگا۔
"بخارا کے عظیم اور صاحب شان و شوکت، آفتاب کو شرمانے والے حکمران، بخارا کے سپہ سالار اور پیشوائے دین، امیر بخارا کی طرف سے عظیم اور صاحب شان و شوکت حکمران، خیوا کے سپہ سالار اور پیشوائے دین سلماتی اور خیرسگالی کے پھول قبول فرمائیں ۔ ھم آپ کو، اپنے عزیز اور شاہ بھائی کو ایک خبربھیج رھے ھیں جس سے آپ کا دل خوشی سے بھر جائے گا۔
"آج کے دن، 17 صفر کو، ھم نے،بخارا کے امیر اعظم نے، خواجہنصرالدین کو سربازار سزائے موت دی۔ یہ مجرم ساری دنیا میں اپنی ناپاک اور مرتدانہ سرگرمیوں کے لئے مشہور تھا، خدا کی لعنت ھو اس پر۔ ھم نے اس کو ایک بورے میں بندکرکے ڈبو دیا۔ یہ واقعہ مابدولت کی موجودگی میں اور ھماری آنکھوں کے سامنے ھوا اس لئے ھم اپنے شاھانہ الفاظ کے ذریعے شہادت پیش کرتے ھیں کہ مندرجہ بالا بدمعاش، امن و امان شکن، مرتد اور منافق اب زندوں میں نہیں ھے اور اب آ کو، ھمارے عزیز بھائی کو اپنی کفر کی باتوں سے پریشان نہیں کریگا۔"
اسی طرح کے خطوط بغداد کے خلیفہ، ترکی کے سلطان، ایران کے شاہ، قوقند کے خان اور افغانستان کے امیر اور بہت سے نزدیک و دور کے بادشاھوں کو لکھوائے گئے۔ وزیر اعظم بختیار نے خطوں کو لپیٹ کر ان پر مہر لگائی اور ھرکاروں کو یہ حکم دے کر حوالے کیا کہ وہ فوراً اپنی اپنی منزلوں کی طرف روانہ ھوجائیں ۔ اس رات بخارا کے سب کے سب گیارہ پھاٹک زور سے چرچراتے چیختے کھلے اور ھر طرف کی شاھراھوں پر ھرکارے چل پڑے۔ ان کے گھوڑوں کے سموں کے نیچے پتھر کھڑکھڑا رھے تھے اور چنگاریاں اڑ رھی تھیں ۔ وہ خیوا، تہران، استنبول، بغداد، کابل اور بہت سے دوسرے شہروں کو جا رھے تھے۔
۔۔۔تالاب کے سناٹے میں، سزائے موت کے چار گھنٹے بعد، ارسلان بیک نے تالاب سے پہرہ ھٹا لیا۔
"وہ چاھے شیطان ھی کیوں نہ ھو، پانی کے اندر چار گھنٹے رہ کر زندہ نہیں رہ سکتا" ارسلان بیک نے کہا۔ "اس کو نکالنے کی ضرورت نہیں ھے۔ جو چاھے وہ اس مردار کی لاش لے جا سکتا ھے۔"
اندھیرے میں پہرےداروں کے غائب ھوتے ھی مجمع شور مچاتا ھوا تالاب کے کنارے کی طرف بڑھا۔ پہلے سے تیار کی ھوئی مشعلیں جو جھاڑیوں میں رکھی تھیں جلائی گئیں۔ عورتوں نے خواجہ نصرالدین کے انجام پر رونا دھونا شروع کردیا۔
"ھمیں ان کی تجہیز و تکفین ایک سچے مومن کی طرح کرنی چاھئے" بڈھے نیاز نے کہا۔ گل جان ساکت و صامت اپنے باپ کے سہارے کھڑی تھی۔
چائے خانے کا مالک علی اور آھنگر یوسف آنکڑے دار ڈانڈ لئے ھوئے پانی میں کودے۔ وہ بہت دیر تک تلاش کرتے رھے۔ آخرکار انھوں نے بورا پکڑ لیا اور اس کو گھسیٹ کر کنارے تک لائے۔ وہ سطح پر آیا۔ سیاہ، مشعلوں میں چمکتا ھوا بورا جو پانی کی گھاس سے اور بھی پھول گیا تھا۔ عورتوں نے اور زور سے رونا شروع کیا جس سے محل میں جشن کی آواز ڈوب گئی۔
درجنوں لوگوں نے بورے کو ھاتھوں ھاتھ لیا۔
"میرے ساتھ آؤ" یوسف نے اپنی مشعل سے راستہ دکھاتے ھوئے کہا۔
ایک چھتنارے درخت کے نیچے بورا رکھا گیا۔ لوگ خاموشی سے اس کے گرد جمع ھوگئے۔
یوسف نے ایک چاقو نکالا اور احتیاط سے بورے کو لمبائی میں کاٹا، غور سے مردے کا چہرہ دیکھا اور پیچھے ھٹ گیا۔ وہ اس طرح کھڑا تھا جیسے پتھر کا ھو گیا ھو۔ اس کی آنکھیں نکلی پڑ رھی تھیں اور زبان سے ایک لفظ نہیں نکل رھا تھا۔
علی یوسف کی مدد کے لئے لپکا تو وہ بھی اسی طرح متحیر کھڑا رہ گیا۔ اس نے اکڑوں بیٹھ کر دیکھا، اس کے منہ سے چیخ نکل گئی اور وہ چت گر پڑا۔ اس کی موٹی توند آسمان کی طرف اٹھی ھوئی تھی۔
"کیا معاملہ ھے؟ " مجمع میں چاؤں چاؤں ھوئی۔ "آؤ دیکھیں، ھمیں دیکھنے دو!"
گل جان روتی ھوئی لاش پر جھک گئی لیکن کسی نے اس کی طرف مشعل بڑھا دی اور وہ خوف و حیرت سے جھجک کر پیچھے ھٹ گئی۔
اب آدمی مشعلیں لئے ھوئے چاروں طرف سے جمع ھوگئے۔ تالاب کے کنارے کافی روشنی ھوگئی تھی۔ بہت سی آوازوں کی مشترکہ زبردست چیخ نے رات کی خاموشی کو چکنا چور کر دیا:
"جعفر!"
"یہ تو سود خور جعفر ھے!"
"یہ خواجہ نصرالدین تو نہیں ھیں!"
ذرا دیر گھبراھٹ اور انتشار کے بعد ھر ایک نے اچانک غل مچانا شروع کردیا۔ لوگ ایک دوسرے کو دھکا دیتے، دھکیلتے، ایک دوسرے کے کاندھوں پر لٹکتے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لئے آگے بڑھ رھے تھے۔ گل جان کی حالت ایسی ھوگئی تھی کہ بڈھا نیاز اس کو تالاب کے کنارے سے دور لے گیا۔ اس کو ڈر تھا کہ کہیں وہ پاگل نہ ھوجائے۔ وہ رو اور ھنس رھی تھی۔ وہ شک و شبہ اور یقین کے درمیان معلق تھی اور ایک بار پھر دیکھنے کی کوشش کر رھی تھی۔
"جعفر! جعفر!" مسرت آمیز آوازیں گونج رھی تھیں جنھوں نے دور سے آتی ھوئی محل کی رنگ رلیوں کی آوازوں کو بالکل ڈبو دیا تھا۔ "یہ تو جعفر سود خور ھے! وھی ھے یہ۔ یہ رھا اس کا رسیدوں کا تھیلا۔"
کچھ دیر بعد کسی کو ھوش آیا اور اس نے مجمع سے عام سوال کیا:
"تو پھر خواجہ نصرالدین کہاں ھیں؟"
اب یہ سوال سارے مجمع نے دھرایا اور شور ھوا:
"تو پھر خواجہ نصرالدین کہاں ھیں؟ ھمارے خواجہ نصرالدین کہاں ھیں؟"
"یہاں ھیں!" ایک جانی پہچانی پرسکون آواز آئی۔ اور سب اس طرف مڑ گئے۔ خواجہ نصرالدین کو زندہ دیکھ کر وہ حیرت میں رہ گئے۔ ان کے ساتھ کوئی پہرےدار نہ تھا۔ وہ ان کی طرف اطمینان سے جماھیاں اور انگڑائیاں لیتے ھوئے بڑھ رھے تھے۔ خواجہ قبرستان کے قریب سو گئے تھے اسی لئے اتنی دیر سے یہاں پہنچے تھے۔
"میں یہاں ھوں" انھوں نے دھرایا "جو مجھ سے ملنا چاھتا ھے یہاں آجائے۔ بخارا کے محترم باشندو، آپ یہاں تالاب پر کیوں جمع ھیں اور کیا کر رھے ھیں؟"
"کیوں؟ ھم یہاں کیوں آئے ھیں؟" سیکڑوں آوازوں نے کہا۔ "خواجہ نصرالدین ، ھم یہاں آئے تھے آ پ کو آخری بار الوداع کہنے، آپ کے لئے ماتم کرنے اور آپ کو دفن کرنے۔"
"مجھ کو؟" انھوں نے پوچھا۔" میرے لئے ماتم کرنے؟ بخارا کے شریف باشندو آپ خواجہ نصرالدین کو نہیں جانتے اگر آپ سمجھتے ھیں کہ ان کا مرنے کا ارادہ ھے! میں تو صرف آرام کرنے کے لئے قبرستان کے قریب لیٹ گیا تھا اور آپ سمجھنے لگے کہ میں مر گیا!"
ابھی وہ اتنا ھی کہہ سکے تھے کہ چائے خانے کا مالک علی اور آھنگر یوسف خوشی سے چیخیں مارکر ان سےاس طرح لپٹ گئے کہ بس جان بچانا مشکل ھوگئی۔ نیاز نے آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن وہ جلد ھی دھکم پیل میں پیچھے رہ گیا۔ خواجہ نصرالدین ایک بڑے مجمع میں گھرے تھے جہاں ھر شخص ان سے گلے ملنا اور ان کو خوش آمدید کہنا چاھتا تھا اور وہ ھر ایک سے گلے ملتے ھوئے اس طرف بڑھ رھے تھے جہاں سے گل جان کی بے چین اور غصے سے بھری ھوئی آواز آرھی تھی جو بھیڑ میں ان تک پہنچنے کی بے سود کوشش کر رھی تھی۔ او رآخرکار جب وہ ایک دوسرے سے دوچار ھوئے تو گل جان نے ان کے گلے میں باھیں ڈال دیں۔ خواجہ نصرالدین نے اس کی نقاب اٹھائی اور سارے مجمع کے سامنے اس کو چوم لیا اور وھاں پر موجود کسی بھی آدمی کو، ان لوگوں کو بھی جو رسم و رواج کے بڑے حامی تھے یہ بات بری نہیں معلوم ھوئی۔
خواجہ نصرالدین نے ھاتھ اٹھا کر لوگوں سے خاموش رھنے اور اپنی طرف متوجہ ھونے کے لئے کہا:
"آپ میرا ماتم کرنے آئے تھے، بخارا کے شریف باشندو! آپ نہیں جانتے کہ میں امر ھوں؟"

ھوں میں خواجہ نصرالدین ، آزاد سدا کا
یہ جھوٹ نہیں، میں نہ مرا ھوں نہ مرونگا

وہ سنسناتی ھوئی مشعلوں کی روشنی میں کھڑے تھے۔ مجمع نے دھن اٹھائی جو رات کی تاریکی میں لپٹے ھوئے بخارا میں پرمسرت لہر کی طرح پھیل گئی۔
ھوں میں خواجہ نصرالدین ، آزاد سدا کا
یہ جھوٹ نہیں، میں نہ مرا ھوں نہ مرونگا

اس خوشی کا محل کی رنگ رلیوں سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔
"ھمیں بتائیے" کسی نے چلا کر پوچھا "کہ آپ نے اپنے بجائے جعفر سودخور کو ڈبونے کا کام کیسے کیا؟"
"آہ!" خواجہ نصرالدین کو اچانک یاد آگیا۔"یوسف، تم کو میری قسم یاد ھے نا؟"
"ھاں، ضرور" یوسف نے جواب دیا " اور آپ نے اسے پورا کیا، خواجہ نصرالدین !"
"وہ کہاں ھے؟" خواجہ نصرالدین نے کہا "سود خور کہاں ھے؟ تمھیں اس کا تھیلا مل گیا؟"
"نہیں، ھم نے اس کو چھوا نہیں۔"
"ارے!" خواجہ نصرالدین نے ملامت آمیز لہجے می کہا۔ "بخارا کے باشندو! آپ کے خیالات بہت شریفانہ ھیں لیکن سمجھ میں ذرا خامی ھے۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ اگر یہ تھیلا سودخور کے وارثوں کو مل گیا تو وہ آپ سے قرض کا ایک ایک پیسہ وصول کرلیں گے؟ لائیے یہ تھیلا مجھے دیجھئے۔"
درجنوں آدمی دھکم پیل کرتے اور غل مچاتے ان کا حکم پورا کرنے دوڑے۔ انھوں نے بھیگا تھیلا لاکر خواجہ نصرالدین کو دے دیا۔
انھوں نے ایک پرونوٹ اٹکل پچو نکلا لیا۔
"محمد زین ساز!" انھوں نے زو رسے پکارا۔ "محمد زین ساز کون ھے؟"
"میں" ایک دھیمی کاپنتی ھوئی آواز نے جواب دیا۔ مجمع سے ایک پستہ قد بڈھا نکلا جس کے چھدری داڑھی تھی۔ وہ ایک انتہائی پھٹی پرانی رنگین قبا پہنے تھا۔
"محمد زین ساز اس پرونوٹ کے مطابق تم کو کل پانچ سو تانگے ادا کرنا ھیں۔ لیکن میں، خواجہ نصرالدین تمھارا قرض منسوخ کرتا ھوں۔ یہ رقم تم اپنی ضرورتوں کے لئے استعمال کرو اور اپنے لئے ایک نئی قبا خرید لو۔ تمھاری قبا تو بس کپاس کے تیار کھیت کا منظر پیش کرتی ھے، ھر جگہ روئی نکلی ھوئی ھے۔"
یہ کہتے ھوئے انھوں نے پرونوٹ کے پرزے پرزے کردئے۔
خواجہ نصرالدین نے یہی گت سب پرونوٹوں کی بنائی۔
جب آخری پرونوٹ پرزے پرزے ھوچکا تو خواجہ نصرالدین نے تھیلا تالاب میں پھینک دیا۔
"اب اس کو ھمیشہ ھمیشہ کے لئے تالاب کی تہہ میں دفن ھوجانے دو!" انھوں نے زور سے کہا۔ "اب اس کو کوئی اپنے کندھے سے نہ لٹکاسکے گا۔ بخارا کے شریف باشندو! انسان کے لئے ایسا تھیلا لیکر چلنے سے زیادہ کوئی ذلت نہیں ھوسکتی۔ آپ کے لئے چاھے جو کچھ کیوں نہ ھو جائے، چاھے آپ دولت مند ھو جائیں، جس کی امید ھمارے آفتاب جیسے امیر اور اس کے نگراں وزیروں کی زندگی میں نہیں ھے، لیکن اگر ایسا کبھی ھو اور آپ میں سے کوئی دولت مند ھو جائے تو ایسا تھیلا لیکر کبھی نہ چلنا۔ ورنہ وہ اپنے کو اور اپنی آنے والی نسلوں کو چودہ پیڑھیوں تک ابدی ذلت میں مبتلا کردے گا! اسے یہ بھی نہ بھولنا چاھئے کہ اس دنیا میں خواجہ نصرالدین کا بھی وجود ھے جس کا ھاتھ بہت سخت ھے۔ آپ نے دیکھا کہ اس نے جعفر سودخور کو کیا سزا دی ھے۔ اب میں آپ سے رخصت ھونگا، بخارا کے شریف باشندو۔ مجھے ایک طویل سفر درپیش ھے۔ گل جان تم میرے ساتھ چلو گی؟"
"میں تمھارے ساتھ جہاں کہو گے چلونگی" گل جان نے جواب دیا۔
بخارا کے باشندوں نے خواجہ نصرالدین کو شاندار طور پر الوداع کہا۔ کارواں سرائے کے مالک ان کی دلھن کے لئے روئی جیسا سفید گدھا لائے۔ اس کی کھال پر ایک بھی سیاہ داغ نہ تھا اور وہ بڑے فخر کے ساتھ اپنے بھورے بھائی، خواجہ نصرالدین کی آوارہ گردیوں کے پرانے اور وفادار رفیق کے برابر کھڑا چمک رھا تھا۔ بھورے گدھے کو اپنے شاندار رفیق پر ذرا بھی رشک نہیں تھا اور وہ اطمینان سے مزیدار گھاس کھا رھا تھا اور اپنے تھوتھن سے سفید گدھے کو دھکا بھی دیتا جاتا تھا جیسے وہ دکھانا چاھتا ھو کہ رنگ میں اس کی ناقابل تردید برتری کے باوجود سفید گدھا خواجہ نصرالدین کی خدمت میں اس کا پاسنگ نہیں ھوسکتا۔
آھنگر اپنی بھٹی وغیرہ وھیں لائے اور دونوں گدھوں کے نعلیں لگائیں۔ زین سازوں نے دو زینیں بطور تحفہ پیش کیں۔ ایک مخمل سے سجی ھوئی خواجہ نصرالدین کے لئے تھی اور دوسری چاندی سے مرصع گل جان کے لئے۔ چائے خانے کے مالک دو چائے دان اور دو چینی کے بہت نفیس پیالے لائے۔ اسلحہ سازوں نے خواجہ نصرالدین کو مشہور گورا فولاد کی تلوار دی تاکہ وہ اپنے کو راھزنوں سے بچا سکیں۔ قالین بنانے والے ان کے لئے زین پوش لائے، کمند سازوں نے گھوڑے کے بالوں کی بنی ھوئی کمند دی۔ یہ کمند جب کسی سونے والے مسافر کے گرد بچھا دی جاتی ھے تو وہ زھریلے سانپوں سے محفوظ رھتا ھے کیونکہ سانپ چبھنے والے بالوں کے اوپر نہیں رینگتے۔
بنکروں، ٹھٹھیروں، درزیوں اور موچیوں، غرض سب نے تحفے دئے۔ ملاؤں، عمائدین اور صاحب جائیداد لوگوں کے علاوہ سارے شہر بخارا نے خواجہ نصرالدین کے سفر کے لئے نئے ساز و سامان مہیا کیا۔
کمھار الگ افسردہ کھڑے تھے۔ ان کےپاس تحفے کے لئے کچھ نہ تھا۔ آدمی مٹی کی صراھی کا کیا کریگا جب کہ ٹھٹھیروں نے ان کو پیتل کی صراحی دی تھی؟
اچانک سب سے بڈھے کمھار نے جس کی عمر سو سال سے زیادہ تھی کہا "کون کہتا ھے کہ ھم کمھاروں نے خواجہ نصرالدین کو کچھ نہیں دیا ھے۔ کیا ان کی دلھن، یہ حسین دوشیزہ، کمھاروں کی مشہور اور لائق برادری کی نہیں ھے؟
کمھاروں نے خوش ھوکر زور کا نعرہ مسرت بلند کیا۔ پھر انھوں نے گل جان کو اچھی طرح نصیحت کی کہ وہ خواجہ نصرالدین کی وفادار اور پرخلوص رفیقہ حیات بنے اور اپنی برادری کے لوگوں کی شہرت اور عزت کو بٹہ نہ لگائے۔
"صبح صادق کا وقت ھونے والا ھے" خواجہ نصرالدین نے کہا "جلد ھی شہر کے پھاٹک کھل جائیں گے۔ مجھے اور میری دلھن کو چپکے سے نکل جانا چاھئے۔ اگر آپ سب مجھے رخصت کرنے آئے تو پہرےداروں کو خیال ھوگا کہ شاید بخار اکے سارے باشندے کہیں اور آباد ھونے جا رھے ھیں اور وہ پھاٹک بند کر لیں گے، کسی کو بھی باھر نہ جانے دیں گے۔ اس لئے آپ اپنے اپنے گھروں کو جائیے۔ میری دعا ھے کہ آپ سکھ چین کی نیند سوئیں، آپ پر مصیبت کا منحوس سایہ کبھی نہ پڑے اور کامیابیاں آپ کے ھمراہ رھیں! خواجہ نصرالدین اب آپ سے رخصت ھوتا ھے۔ کتنی مدت کے لئے؟ یہ میں خود نہیں جانتا۔"
مشرق میں ایک چھوٹی، مشکل سے دکھائی دینے والی روشنی کی ھلکی پٹی نمودار ھورھی تھی۔ تالاب سے ھلکا سا کہرا اٹھ رھا تھا۔ مجمع منتشر ھونے لگا۔ لوگ مشعلیں بجھا رھے تھے اور زور زور سے کہہ رھے:
"سفر بخیر، خواجہ نصرالدین ! اپنے وطن کو نہ بھولئے گا!"
آھنگر یوسف اور چائے خانے کے مالک علی سے رخصت کا منظر خاص طور پر متائثر کن تھا۔ موٹا علی اپنے آنسو نہ روک سکا، وہ اس کے گول سرخ رخساروں پر بہہ نکلے۔
خواجہ نصرالدین پھاٹک کھلنے کے وقت تک نیاز کے گھر میں ٹھہرے رھے۔ جیسے ھی مؤذن کی پرسوز آواز شہر میں گونجی خواجہ نصرالدین اور گل جان اپنے سفر پر روانہ ھوگئے۔ نیاز ان کے ساتھ قریب کے موڑ تک گیا۔ اس کے آگے خواجہ نصرالدین نے اس کو نہیں آنے دیا اور بڈھا آنکھوں میں آنسو بھرے اس وقت تک دیکھتا رھا جب تک کہ وہ موڑ پر نگاھوں سے اوجھ نہیں ھوگئے۔ صبح کی ٹھنڈی ھوا چلی اور اس نے سڑک پر سارے نشانات مٹا دئے۔
نیاز جلدی سے گھر واپس ھوا اور چھت پر چڑھ گیا۔ وھاں سے بہت دور تک شہر کی فصیلوں کے پار دکھائی دیتا تھا اور وہ بڑی دیر تک اپنی بوڑھی آنکھوں پر زور دیکر، بے اختیار آنسوؤں کو پونجچھ کر بادامی رنگ کی دھوپ سے جھلسی ھوئی پہاڑیوں کی طرف دیکھتا رھا جن کے درمیان سڑک کا بھورا فیتہ دور لہراتا ھوا چلا گیا تھا۔ وہ اتنی دیر تک انتظار کرتا رھا کہ آخر میں پریشان ھوگیا۔ کیا خواجہ نصرالدین اور گل جان پہرےداروں کے ھاتھ آگئے؟
لیکن آخرکار اس کو دور فاصلے پر دو دھبے دکھائی دئے، ایک سفید اور دوسرا بھورا۔ وہ رفتہ رفتہ آگے بڑھتے اور چھوٹے ھوتے گئے۔ جلد ھی بھورا دھبہ پہاڑیوں میں مل جل کر غائب ھوگیا لیکن سفید دھبہ کافی دیر تک رھا۔ وہ گہرائیوں اور خموں میں غائب ھوجاتا اور پھر نمودارھوتا۔ پھر وہ بھی گرمی کے بڑھتے ھوئے دھند میں غائب ھوگیا۔
دن چڑھ رھا تھا اور اس کے ساتھ گرمی بھی بڑھ رھی تھی۔ بڈھا گرمی سے بے نیازغمگین خیالات میں ڈوبا ھوا چھت پر بیٹھا رھا۔ اس کا سفید سر ھل رھا تھا اور گلا رندھا جا رھا تھا۔ اس کو خواجہ نصرالدین اور اپنی بیٹی سے کوئی شکایت نہ تھی۔ وہ ان کی خوشی و سلامتی کا خواھاں تھا لیکن اس کو اپنے اوپر افسوس آرھا تھا۔ اب اس کا گھر خالی ھو گیا تھا اور اب اپنے زندہ دلانہ گیتوں اور قہقہوں سے اس کی زندگی میں خوشی لانے والا کوئی نہیں رھا تھا۔ گرم ھوا چلنے لگی، انگور کی بیلوں میں سرسراھٹ شروع ھوگئی اور گرد اڑنےلگی۔ ھوا کے پروں نے چھت پر سوکھتے ھوئے برتنوں کو چھوا اور وہ باریک اور فریاد آمیزآواز میں بج اتھے جیسے وہ گھر سے جانے والوں کے لئے غمگین ھوں۔
نیاز اپنے پیچھے ایک دھیمی سی آواز سے چونک پڑا۔ اس نے مڑ کر دیکھا کہ تین بھائی جو پڑوس میں رھتے تھے ایک دوسرے کے پیچھے زینوں پر چڑھ رھے تھے۔ وہ خوب تندرست خوبصورت نوجوان تھے اور سبھی کمھار تھے۔ وہ قریب آکر احترام کے ساتھ جھکے۔
"محترم نیاز" سب سے بڑا بھائی بولا " آپ کی بیٹی خواجہ نصرالدین کے ساتھ رخصت ھوگئی لیکن رنجیدہ اور پریشان نہ ھوں کیونکہ دنیا کا یہی قانون ھے۔ جب ھرنی ھرن کے بغیر نہیں، گائے بیل کے بغیر اور بطخ بلا نر کے نہیں رہ سکتی تو کیا کوئی دوشیزہ بلا کسی سچے اور پرخلوص رفیق کے رہ سکتی ھے؟ کیا اللہ نے دنیا کی تمام چیزوں میں جنسی تفریق نہیں کی ھے حتی کہ کپاس کے پودوں کی شاخوں تک میں نر و مادہ ھوتے ھیں۔
"بہرحال، ھم نہیں چاھتے کہ آپ کو بوڑھاپے میں رنج پہنچے اس لئے ھم تینوں نے آپ سے یہ کہنے کا فیصلہ کیا ھے کہ جس کا رشتہ خواجہ نصرالدین سے ھوا وہ بخارا کے تمام باشندوں کا رشتہ دار بن گیا اور اب آپ ھمارے رشتہ دار ھوگئے ھیں۔ آپ جانتے ھیں کہ پچھلے سال ھم نے اپنے باپ اور آپ کے دوست محترم و معظم عثمان علی کو کس رنج و غم کے ساتھ سپرد خاک کیا تھا اور اب ھمارے آتش دان کے قریب ایک جگہ بزرگ خاندان کے لئے خالی ھے او رھم اب اس روزمرہ کی خوشی سے محروم ھو گئے ھیں کہ کسی سفید داڑھی کی زیارت کر سکیں جس کے بغیر بچے کی چیخ پکار کی طرح گھر خالی خالی معلوم ھوتا ھے۔ کیونکہ آدمی کی روح کو اسی وقت سکون ملتا ھے جب وہ ایسے صاحب ریش آدمی کے پاس ھوتا ھے جس نے اس کو جنم دیا ھے اور اس کے یہاں پالنے میں وہ جھولتا ھے جس کو خود اس نے جنم دیا ھے۔
"اس لئے، محترم نیاز! ھم آپ سے درخواست کرتے ھیں کہ آپ ھمارے آنسوؤں کو دیکھیں اور ھماری درخواست سے انکار نہ کریں۔ ھمارے گھر آئیے اور آتش دان کے قریب وہ جگہ لیجئے جو بزرگ خاندان کے لئے مخصوص ھے۔ ھم تینوں کے باپ بنئے اور ھمارے بچوں کے دادا۔"
ان بھائیوں نے اتنا اصرار کیا کہ نیاز کو انکار کرتے نہ بنا۔ وہ ان کے گھر گیا اور اس کو ھاتھوں ھاتھ لیا گیا۔ اس طرح اس کو بوڑھاپے میں ایسی ایماندارانہ اور پاکیزہ زندگی نصیب ھوئی جو ایک مسلمان کے لئے اس دنیا میں ممکن ھے۔ وہ اب ایک بڑے خاندان کا بزرگ بن کر جس میں چودہ ناتی پوتے تھے نیاز بابا ھوگیا تھا۔ وہ انگور اور شہتوت کے رس سے بھرے گلابی گلابی گالوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ھوا کرتا تھا۔ اس دن سے اس کے کان خاموشی سے کبھی نہیں اکتائے۔ کبھی کبھی وہ شور و غل سے گھبرا جاتا تو اپنے پرانے گھر آرام کے لئے چلا جاتا اور ان دونوں کو افسردگی سے یاد کرتا جو اس کے دل کے اتنے قریب تھے اور اب کہیں دور دراز کسی انجانی جگہ چلے گئے تھے۔
بازار کے دن وہ بازار جاتا اور کاروانوں میں جو دنیا کے تمام کونوں سے بخارا آتے تھے پوچھتا کہ کیا سڑک پر کہیں ان کی ملاقات دو مسافروں سے ھوئی۔ مرد ایک بھورے گدھے پر تھا او رعورت بے داغ سفید گدھے پر؟ ساربان اپنی سورج سے سنولائی ھوئی پیشانی پر بل ڈالکر سر ھلاتے کہ ان کی ملاقات ایسے لوگوں سے نہیں ھوئی۔
خواجہ نصرالدین حسب معمول بلا کسی پتے نشان کے غائب ھوگئے تھے تاکہ وہ پھر کہیں ایسی جگہ نمودار ھوں جہاں ان کی توقع بالکل نہ کی جاتی ھو۔
 

قیصرانی

لائبریرین
باب آخر
(جو ایک نئی کتاب کی
ابتدا کا کام کر سکتا ھے)
[align=left:addfe41325]"میں نے سات سفر کئے
اور ھر سفر کے بارے میں
ایک ایسی غیر معمولی داستان
ھے جو ذھن کو بےچین
کردیتی ھے۔"
(الف لیلہ)[/align:addfe41325]

اور وہ پھر نمودار ھوئے، ایسی جگہ جہاں سب سے کم توقع کی جاتی تھی۔ وہ استنبول میں دکھائی دئے۔
یہ واقعہ امیر بخارا کا خط ترکی کے سلطان کو ملنے کے تین دن بعد ھوا۔ سیکڑوں نقیبوں نے عظیم سلطنت کے شہروں اور گاؤں میں خواجہ نصرالدین کی موت کا اعلان کیا۔ ملاؤں نے خوش ھوکر مسجدوں میں صبح شام دن میں دو بار امیر کا خط پڑھا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ سلطان نے محل کے باغ میں جشن کیا۔ وہ پوپلر کے درختوں کے خنک سائے میں بیٹھا تھا، فواروں کی ھلکی ھلکی پھوھار پڑ رھی تھی۔ اس کے چاروں طرف وزرا، عقلا، شعرا اور شاھی عملے کا مجمع تھا، سب لالچ سے شاھی داد و دھش کے متوقع تھے۔ حبشی غلام ان لوگوں کے درمیان بھاپ اٹھتی ھوئی کشتیاں، حقے اور صراحیاں لئے ھوئے آجا رھے تھے۔ سلطان بہت خوش تھا اور برابر ھنسی مذاق کر رھا تھا۔
"آج گرمی کے باوجود فضا میں خوشگوار لطافت اور مہک کیوں ھے؟" اس نے عقلا اور شعرا سے چالاکی سے آنکھیں نچاتے ھوئے پوچھا۔
"کون اس سوال کا معقول جواب دے سکتا ھے؟ "اور انھوں نے لالچ کے ساتھ اس تھیلی کی طرف دیکھتے ھوئے جو سلطان کے ھاتھ میں تھی جواب دیا۔
"شہنشاہ معظم کی سانس نے فضا میں سرایت کرکے یہ لطافت پھیلا دی ھے اور مہک کی وجہ یہ ھے کہ آخرکار خواجہ نصرالدین کی ناپاک روح کا تعفن ختم ھوگیا ھے جو دنیا کو زھر آلود کر رھا تھا۔"
تھوڑی دور پر محل کےپہرےداروں کا کماندار، استنبول کے امن و امان کامحافظ کھڑا یہ دیکھ رھا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک رھے۔ وہ اپنے ھم پیشہ بخارا کے ارسلان بیک سے اتنا مختلف ضرور تھا کہ وہ اس سے زیادہ ظالم اور غیر معمولی طور پر دبلا پتلا تھا۔ اس کی یہ دونوں باتیں اس طرح ایک دوسرے سے مربوط ھوگئی تھیں کہ استنبول کے شہریوں نے ان کو بہت دن پہلے ھی تاڑ لیا تھا اور وہ محل کے حمام کے خدمتگاروں سے ھر ھفتے پوچھتے رھتے تھے کہ کماندار کا وزن گھٹا یا بڑھا ھے۔ اگر خبر خراب ھوتی تو محل کے قریب رھنے والے بلا کسی سخت ضرورت کے گھروں کے باھر آئندہ حمام کے دن تک نہ نکلتے۔ تو اب یہ ھیبت ناک ھستی ذرا دور پر استادہ تھی۔ اس کے سر پر عمامہ تھا اور وہ اس طرح اس کی لمبی اور سوکھی گردن پر ابھرا ھوا تھا جیسے بانس پر لٹکا ھو (استنبول کے بہت سے شہری س تشبیہہ کو سنکر پراسرار طریقے پر آہ بھرتے)۔
سب کچھ مزے میں چل رھا تھا، جشن زوروں پر تھا اور کسی انتشار کا گمان تک نہ تھا۔ کسی نے اس بات کی طرف توجہ نہیں کی کہ محل کا داروغہ اپنی حسب معمول پھرتی کے ساتھ چپکے سے درباریوں کے مجمع سے نکلا اور محل کے پہرےداروں کے کماندار کے کان میں کچھ سرگوشی کی۔ کماندار چونک پڑا، اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور وہ جلدی سے داروغہ کے ساتھ باھر چلا گیا۔
چند منٹ میں وہ واپس آگیا۔ وہ زرد ھورھا تھا اور اس کے ھونٹ کانپ رھے تھے۔ درباریوں کو ھٹاتا ھوا وہ سلطان کے پاس پہنچا اور دھرا ھوکر تعظیم بجا لایا:
"سلطان معظم!۔۔۔"
"ھاں، کیا ھے؟" سلطان نے ناگواری کے انداز میں پوچھا۔ "کیا تم آج کے دن بھی جیل او رسزاؤں کی خبریں اپنے تک محدود نہیں رکھ سکتے؟ اچھا، بولو!"
"مقدس و معظم سلطان، میری زبان سے الفاظ نہیں نکلتے۔۔۔"
سلطان کی تیوریاں چڑھ گئیں۔ وہ کافی پریشان ھو گیا تھا۔ کماندار نے چپکے سے کہا:
"وہ استنبول میں ھے!"
"کون؟" سلطان نے درشت آواز میں پوچھا، حالانکہ وہ فورا ھی سمجھ گیا تھا کہ کس سے مطلب ھے۔
"خواجہ نصرالدین !"
کماندار نے یہ نام بہت دھیمے سے لیا تھا لیکن درباریوں کے کان بہت تیز ھوتے ھیں۔ سارے محل میں منہ ھی منہ میں یہ بات پھیل گئی:
"خواجہ نصرالدین استنبول میں! خواجہ نصرالدین استنبول میں!"
"تمھیں کیسے معلوم ھوا؟" سلطان نے پوچھا۔ اس کی آوا ز اچانک بھرا گئی تھی۔ "تم سے کس نے کہا؟ یہ کیسے ممکن ھے جبکہ امیر بخارا نے اپنے خط میں شاھانہ الفاظ سے اس کا یقین دلایا ھے کہ خواجہ نصرالدین اب زندہ نہیں ھے؟"
کماندار نے محل کے داروغہ کو اشارہ کیا جو سلطان کے پاس ایک آدمی کو لے گیا جس کی ناک چپٹی تھی، چہرے پر چیچک کے داغ تھے اور ناچتی ھوئی زرد آنکھیں تھیں۔
"سلطان معظم!" کماندار نے وضاحت کی "یہ آدمی امیر بخارا کے دربار میں بہت دنوں تک جاسوس کی خدمات سرانجام دے چکا ھے اور خواجہ نصرالدین کو اچھی طرح جانتا ھے۔ جب یہ شخص استنبول آیا تو میں نے اس کو جاسوس کی حیثیت سے نوکر رکھ لیا اور وہ اس وقت بھی اپنے اس منصب پر ھے۔"
"تم نے اس کو دیکھا؟" سلطان نے بات کاٹتے ھوئے جاسوس سے پوچھا۔ " کیا تم نے اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھا؟"
جاسوس نے ھاں میں جواب دیا۔
"شاید تم سے غلطی ھوئی ھو؟"
جاسوس نے نفی میں جواب دیا۔ وہ غلطی نہیں کر سکتا ۔ خواجہ نصرالدین کے ساتھ ایک عورت سفید گدھے پر سوار تھی۔
"تم نے اس کو اسی جگہ کیوں نہ گرفتار کرلیا؟"سلطان چلایا۔ "تم نے اس کو پہرےداروں کے حوالے کیوں نہیں کردیا؟"
"جہاں پناہ!" گھٹنوں کے بل گر کر گڑگڑاتےھوئے جاسوس نے جواب دیا۔ "بخارا میں ایک بار میں خواجہ نصرالدین کے ھاتھ آگیا اور پھر یہ اللہ ھی کی مہربانی تھی کہ میری جان بچ گئی۔ آج صبح کو جب میں نے اس کو استنبول کی سڑکوں پر دیکھا تو خوف سے میری آنکھوں پر اندھیرا چھا گیا اور جب میں اپنے ھوش میں آیا تو وہ جاچکا تھا۔"
"تو یہ ھیں تیرے جاسوس!" تعظیم سے جھکے ھوئے کماندار کی طرف دیکھتے ھوئے لال بھبوکا سلطان نے کہا۔ "کسی مجرم کو دیکھتے ھی ان کے حواس جاتے رھتے ھیں!"
اس نے چیچک رو جاسوس کو حقارت سے لات مار کر الگ کردیا اور خود خلوت خانے میں چلا گیا۔ اس کے پیچھے حبشی غلاموں کی ایک لمبی قطار تھی۔
وزرا، عمائدین، شعرا اور عقلا سب آپس میں چاؤں چاؤں کرتے باھر جا رھے تھے۔ چند منٹ میں کماندار کے سوا ایک نفس بھی باغ میں نہیں رہ گیا جو پھٹی پھٹی آنکھوں سے تکتا رھا اور پھر ایک سنگ مرمر کے فوارے کے کنارے بیٹھ گیا۔ وہ بڑی دیر تک بیٹھا پانی کی ھلکی بلبلاھٹ اور ھنسی سنتا رھا۔ اچانک سکڑ کر وہ اتنا دبلا ھو گیا تھا کہ اگر استنبول کے لوگ اس کو دیکھتے تو اپنے جوتے چھوڑ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ھوتے۔
اس دوران میں چیچک رو جاسوس بےتحاشا سڑکوں پر بھاگتا ساحل کی طرف جا رھا تھا۔ وھاں ایک عرب جہاز روانگی کے لئے تیار کھڑا تھا۔ جہاز کے کپتان کو قطعی یقین ھوگیا کہ وہ کوئی قیدی ھے جو بھاگ رھا ھے اس لئے اس نے ایک بڑی رقم طلب کی۔ جاسوس بلا طے توڑ کئے عرشے پر آیا اور پھر ایک تاریک اندھیرے کونے میں گڑمڑا کر پڑ گیا۔ بعد کو جب استنبول کے چھریرے اور سڈول مینار نیلے دھند میں غائب ھوگئے اور تازہ ھوا بادبانوں میں بھرنے لگی تو وہ اپنی پناہ گاہ سے باھر آیا ، پورے جہاز کا چکر لگایا ، ھر چہرے کو غور سے دیکھا اور جب اس کو یہ یقین ھوگیا کہ خواجہ نصرالدین جہاز پر نہیں ھیں تو اسے اطمینان ھوا۔
اس دن سے اس چیچک رو جاسوس کی زندگی متواتر خوف و ھراس میں بسر ھونے گلی۔ جس شہر بھی وہ گیا خواہ وہ بغداد ھو یا قاھرہ، تہران یا دمشق، کسی جگہ بھی تین مہینے سے زیادہ نہ ٹھہر سکا کیونکہ خواجہ نصرالدین اس شہر میںں ضرور نظر آتے اور جاسوس ان کی مڈھ بھیڑ کے ڈر سے اور آگے بھاگتا۔ یہاں خواجہ نصرالدین کا مقابلہ اس زبردست طوفان سے کرنا غلط نہ وھگا جو اپنے آگے آگے اس مرجھائی ھوئی زرد پتی کو اڑائے اڑائے پھرتا ھے جس کو وہ گھاس سے، دراڑوں اور خولوں سے نکال لیتا ھے۔ اس طرح چیچک روجاسوس کو ان تمام برائیوں کی سزا ملی جو اس نے دوسرے لوگوں کے ساتھ کی تھیں۔
دوسرے ھی دن سے استنبول میں غیرمعمولی اور حیرت انگیز واقعات شروع ھوگئے۔۔۔ لیکن جو باتیں کسی نے ذاتی طور پر نہ دیکھی ھوں ان کی بابت کچھ نہ کہنا چاھئے اور جو ملک خود اس نے نہ دیکھے ھوں اس کی بابت نہ لکھنا چاھئے۔ اس لئے ان الفاظ کے ساتھ ھما پنی کہانی کا آخری باب مکمل کرتے ھیں، جو استنبول، بغداد، تہران، دمشق اور بہت سے دوسرے مشہور شہروں میں خواجہ نصرالدین کے مزید کارناموں کے بارے میں نئی کتاب کے ابتدائی باب کا کام دے سکتا ھے۔
[align=left:addfe41325]۱۹۴۰[/align:addfe41325]
 
Top