داستان خواجہ بخارا کی

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
لیکن وہ خالی ہاتھ نہیں لوٹے۔ خواجہ نصرالدین دھشت سے بالکل پتھر ھو گئے جب انھوں نے دیکھا کہ سپاھی ان کی محبوبہ کو پھاٹک سے باھر لئے جا رھے ھیں ۔ وہ ہاتھ پیر مار رھی تھی اور دلشکن آواز میں چیخ رھی تھی لیکن سپاھیوں نے اس کو مضبوط پکڑ کر سپروں کے دھرے حلقے سے گھیر رکھا تھا۔

یہ جون کی گرم دوپہر تھی لیکن خواجہ نصرالدین کے جسم میں ایک سرد کپکپی دوڑ گئی ۔ پہرے دار قریب آرھے تھے کیونکہ ان کا راستہ اس جگہ سے ھو کر گذرتا تھا جہاں خواجہ نصرالدین چھپے ھوئے تھے۔ وہ پاگل ھوگئے ۔ انھوں نے اپنا خنجر نیام سے کھینچ لیا اور زمین سے چمٹ کر لیٹ گئے ۔ ارسلان بیک اپنا چمکتا ھوا بلا لگائے دستے کے آگے آگے تھا۔ خنجر اس کی داڑھی کے نیچے چربی دار گردن میں اتر گیا ھوتا اگر اچانک ایک بھاری ہاتھ خواجہ نصرالدین کو تھام نہ لیتا اور ان کو زمین پر دبائے نہ رکھتا ۔ انھوں نے پیچ و تاب کھاتے ھوئے اپنا ہاتھ چوٹ کرنے کے لئے بلند کیا لیکن یوسف لوھار کا کالک سئ لپا ھوا چہرہ پہچان کر ان کا ہاتھ نیچے گر گیا۔

”چپکے پڑے رھو“ لوھار نے آھستہ سے کہا ” چپکے پڑے رھو! کیا پاگل ھو گئے ھو وہ بیس سر سے پیر تک مسلح آدمی ھیں اور تم اکیلے ھو اور پھر تنھارے پاس کوئی ڑھکانے کا ہتھیار بھی تو نہیں ھے۔ تم ختم ھو جاؤ گے اور لڑکی مدد بھی نہ کر سکو گے۔ میں تم سے کہتا ھوں چپکے پڑے رھو!“

لوھار نے ان کو اس وقت تک دبائے رکھا جب تک کہ دستہ سڑک کے موڑ پر غائب نہیں ھو گیا ۔

”ارے ، تم نے مجھے کیوں روک لیا؟“ خواجہ نصرالدین چلائے۔ ”اچھا ھی ھوتا اگر میں مر جاتا۔“
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
” کسی شیر پر ہاتھ اُٹھانا یا تلوار پر مکا تاننا دانش مندوں کا کام نہیں ھے“ لوھار نے درشتی سے کہا ۔ ”میں پہرے داروں کے پیچھے بازار سے لگا تھا اور میں تمھاری غیر دانشمندانہ حرکت روکنے کے لئے بر وقت پہنچ گیا۔ تمھیں اس لڑکی کے لئے مرنا نہیں چاھئے بلکہ کوشش کر کے اس کو بچانا چاھئے۔ یہ مشکل تو ھے لیکن زیادہ اچھا ھو گا۔ غمگین خیالوں میں ڈوب کر وقت نہ گنواؤ، جاؤ اور کچھ کرو۔ ان کے پاس تلواریں ، ڈھالیں اور نیزے ھیں لیکن اللہ نے تم کو طاقتور اسلحہ عطا کئے ھیں۔ وہ ھیں تیز دماغ اور ھوشیاری جن میں تم اپنا ثانی نہیں رکھتے“ اس نے کہا ۔ اس کے الفاظ مردانہ اور اس لوھے کی طرح مضبوط تھے جس کو وہ اپنی تمام زندگی ڈھالتا رھا تھا ۔ ان کو سنکر خواجہ نصرالدین کا ڈانواں ڈول دل بھی لوھے کی طرح سخت ھو گیا۔

” لوھار، تمھارا شکریہ، زندگی میں اس سے زیادہ تلخ لمحے مجھے کبھی پیش نہیں آئے لیکن نا امید ھو کر ھار نہ ماننا چاھئے۔ تمھیں یقین دلاتا ھوں کہ میں اپنے ھتھیاروں کا کارآمد استعمال کروں گا۔“

وہ جھاڑیوں سے نکل کر سڑک پر آ گئے۔ اس وقت سود خور بھی ایک قریب کے گھر سے نکلا ۔ وہ کسی کمھار سے قرض کے تقاضے کے لئے رُک گیا تھا جو واجب الادا ھو چکا تھا۔ خواجہ نصرالدین اور اس کا دوبدو سامنا ھو گیا۔ سود خور سفید پڑ گیا اور اُلٹے پیروں بھاگ کر دروازہ بند کر لیا اور کنڈی چڑھا لی۔

” جعفر، او کینہ پرور، یاد رکھ، تیرے لئے مصیبت ھے!“ خواجہ نصرالدین نے چلا کر کہا۔ ”میں نے سب کچھ دیکھا اور سنا ھے اور میں سب کچھ جانتا ھوں۔“

ذرا خاموش رہ کر سود خور اندر سے بولا ”گیدڑ کو بیری نہیں ملی اور نہ عقاب کو۔ بیری شیر نے ھڑپ کر لی۔“
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
” یہ تو دیکھنا ھے“ خواجہ نصرالدین نے جواب دیا۔ ”جعفر میرے الفاظ یاد رکھ! میں نے تجھ کو پانی سے کھینچ کر نکالا تھا۔ لیکن قسم کھاتا ھوں کہ میں تجھ کو اسی تالاب میں ڈبوؤنگا۔ کائی تیرے جسم سے لپٹ جائیگی اور گھاس پھوس تیرا گلا گھونٹ دینگے۔“

جواب کا انتظار کئے بغیر خواجہ نصرالدین وھاں سے چل دئے۔ وہ نیاز کے گھر کے پاس سے بلا رکے گذر گئے۔ ان کو ڈر تھا کہ کہیں سودخور دیکھ نہ لےاور بعد کو بوڑھے کو موردِ الزام کرے۔ سڑک کے سرے پر اس کا بالکل یقین کرنے کے بعد کہ انکا پیچھا نہیں کیا جا رھا ھے وہ تیزی سے ایک ویران جگہ کی طرف دوڑے جہاں گھاس پھوس اُگی تھی اور دیوار کے اُوپر سے پھاند کر کمھار کے گھر پہنچ گئے۔

بڈھا اب بھی منہ کے بل زمین پر پڑا تھا۔ اس کے قریب چند چاندی کے سکے جو ارسلان بیک ڈال گیا تھا ھلکے سے چمک رھے تھے۔ بڈھے نے اپنا آنسوؤں اور مٹی سے لتھڑا چہرہ اوپر اٹھایا۔ اس کے ھونٹوں کو حرکت ھوئی لیکن وہ کچھ کہہ نہ سکا۔ پھر اس کی نذر ایک رومال پر پڑی جو اس کی بیٹی وھاں ڈال گئی تھی۔ اس کو دیکھ کر اس نے اپنا سفید سر زمین سے ٹکرا دیا اور اپنی داڑھی نوچنے لگا۔

خواجہ نصرالدین کو اسے دلاسا دینے میں کافی وقت لگا۔ آخر کار اس کو اٹھا کر ایک بنچ تک لے گئے اور بٹھا دیا۔

” سنو ، بڑے میاں ! تمھیں کو تنہا رنج نہیں پہنچا ھے“ انھوں نے کہا ”شاید تم جانتے ھو کہ میں اس سے محبت کرتا ھوں اور وہ مجھ سے؟ تم جانتے ھو کہ ھم میں شادی کا عہد ھو چکا تھا؟ میں صرف اس بات کا منتظر تھا کہ تمھیں دینے کے لئے جہیز کی کافی رقم جمع کر لوں۔“

”مجھے جہیز کی کیا پرواہ؟“ بڈھے نے سسکیاں بھرتے ھوئے کہا ”کیا میں اپنی پیاری بیٹی کو اس کی مرضی کے خلاف ناراض کرتا؟ بہر حال افسوس، ان باتوں کے لئے بہت دیر ھو چکی ھے۔ وہ ھاتھ سے جاتی رھی۔ اب تو وہ حرم میں پہنچ چکی ھو گی۔۔۔ ھائے توبہ کیسی بےعزتی ھوئی!“ وہ رونے پیٹنے لگا ”مجھے محل جانا چاھئے۔۔۔ میں امیر کے قدموں میں گر کر التجا کرونگا، روؤنگا اور گڑگڑاؤنگا اور اگر ان کے سینے میں پتھر کا دل نہیں ھے تو۔۔۔“

وہ کھڑا ھو گیا اور لڑکھڑاتا ھوا دروازے کی طرف چلا۔

”ٹھہرو!“ خواجہ نصرالدین نے کہا ”تم بھولتے ھو کہ امیروں کا خمیر دوسرے انسانوں جیسا نہیں ھوتا ھے۔ ان کے دل ھی نہیں ھوتا۔ ان سے التجا کرنا بیکار ھوتا ھے۔ بس یہی ممکن ھے کہ ان سے چیز چھین لی جائے اور میں ، خواجہ نصرالدین گل جان کو امیر سے چھین لونگا!“

” وہ بہت طاقتور ھیں۔ ان کے پاس ھزاروں سپاھی ، ھزاروں پہرے دار اور ھزاروں جاسوس ھیں! تم ان کے خلاف کیا کر سکتے ھو؟“

” ابھی تا نہیں جانتا کہ میں کیا کرونگا۔ لیکن یہ میں جانتا ھوں کہ وہ گل جان کے پاس نہ تو آج اور نہ کل جائے گا! اور پرسوں بھی نہیں ! اور نہ وہ کبھی اس کو رکھ سکے گا یا اس کا مالک بن سکے گا۔ یہ بات اسی طرح سچ ھے جیسے بخارا سے بغداد تک پھیلا ھوا میرا نام خواجہ نصرالدین! اسلئے اپنے آنسو پونچھ ڈالو، بڑے میاں۔ رو پیٹ کر میرے کان نہ کھاؤ۔ میرے خیالوں کو منتشر نہ کرو۔“

خواجہ نصرالدین تھوڑی دیر تک سوچتے رھے:


”بڑے میں ، یہ بتاؤ کہ تمھاری مرحومہ بیوی کے کپڑے کہاں رکھے ھیں؟“

” وھاں صندوق میں۔“

خواجہ نصرالدین کنجی لیکر گھر کے اندر غائب ھوگئے اور چند منٹ بعد عورت کے بھیس میں نکلے۔ ان کا چہرہ گھوڑے کے بالوں کی نقاب میں اچھی طرح چھپا ھوا تھا۔

”بڑے میاں ، میرا انتظار کرو اور خود سے کچھ نہ کرنا۔“

انھوں نے اپنا گدھا باڑے سے نکالا ، اس پر کاٹھی کسی اور نیاز کے گھر سے روانہ ھو گئے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
(21)



گل جان کو باغ میں لے جا کر امیر کے سامنے پیش کرنے سے پہلے ارسلان بیک نے حرم کی مشاطاؤں کو بلایا اور ان کو حکم دیا کہ وہ گل جان کو خوب اچھی طرح آرساتہ و پیراستہ کریں تاکہ اس کے حسنِ کامل کو دیکھ کر امیر باغ باغ ھو جائے۔ مشاطائیں جو اس کام میں طاق تھیں فورا حکم بجا لائیں۔ انھوں نے گل جان کا اشک آلود چہرہ گرم پانی سے دھویا، نفیس ریشمی کپڑے پہنائے، آنکھوں میں سرمے کا دنبالہ دیا، گالوں پر غازہ ملا ، بالوں کو گلاب کے تیل سے معطر کیا اور ناخون سرخ رنگے۔ پھر انھوں نے حرم سے خواجہ سراؤں کے عصمت مآب داروغہ کوبلایا ۔ کسی زمانے میں یہ آدمی اپنی عیاشی کے لئے بخارا بھر میں مشہور تھا۔ ان معاملات میں اپنی معلومات اور تجربے ھی کی وجہ سے وہ اس اعلیٰ عہدے پر فائز کیا گیا جسکے لئے دربار کے جراح نے اس کو خاص طور سے تیار کیا تھا ۔ یہ اس کا فرض تھا کہ وہ امیر کی ایک سو ساٹھ داشتاؤں پر برابر نگاہ رکھے کہ وہ امیر کے جذبات کو بر انگیختہ کرنے کے لئے کافی دلکش ھوں۔

سال بسال اس کا فرض اور بھی بھاری ھوتا جا رھا تھا کیونکہ امیر دن بدن سرد پڑتا جا رھا تھا اور اس کی قوت کم ھوتی جاتی تھی۔ متعدد بار یہ ھو چکا تھا کہ خواجہ سراؤں کے داروغہ کو صبح صبح درجن بھر کوڑوں کا انعام ملا تھا ۔ یہ تو اس کے لئے معمولی سزا تھی ۔ اس کہیں زیادہ بڑی سزا تو یہ تھی کہ جب وہ ماہ رو داشتاؤں کو امیر کے پاس جانے کے لئے تیار کرتا تو شدید کرب میں مبتلا ھو جاتا ، بالکل اسی طرح کے کرب میں جس کا سامنا جہنم میں رند مشربوں کو کرنا پڑے گا۔ یہ تو سبھی جانتے ھیں کہ رند مشربوں کو جہنم میں ستونوں سے زنجیروں میں کس دیا جائے گا اور ان کو لباس سے بے نیاز حوروں کے جھرمٹ میں کھڑا رھنا پڑیگا۔

خواجہ سراؤں کا داروغہ گل جان کا حسن دیکھ کر متحیر رہ گیا ۔

”واقعی حسین ھے!“ اس نے اپنی باریک اور متحیر آواز میں کہا ”اس کو امیر کے پاس لے جاؤ! میری نگاہ سے ھٹاؤ! “

اور وہ وھاں سے بھاگ نکلا ۔ اس نے اپنا سر دیواروں سے ٹکرایا، دانت پیسے اور رونے پیٹنے لگا ”ھائے قسمت ، اب تو برداشت نہیں ھوتا!“

” یہ اچھی علامت ھے ۔ اس کا مطلب یہ ھوا کہ ھمارا آقا نہال ھو جائے گا۔“

بے چاری خاموش گل جان کو محل کے باغ پہنچایا گیا۔

امیر اٹھا ، اس کے قریب آیا اور اس کی نقاب الٹ دی۔

تمام وزراء ، عمائدین اور حکما نے اپنی آنکھیں قباؤں کی آستینوں سے ڈھک لیں۔


بڑی دیر تک امیر اس حسین چہرے سے اپنی نگاھییں نہ ھٹا سکا۔


”سود خور نے ھم سے جھوٹ نہیں کہا تھا“ اس نے زور سے کہا ” جس رقم کا ھم نے وعدہ کیا تھا اس سے تگنی رقم اس کو دی جائے۔“

گل جان کو وھاں سے لے جایا گیا۔ امیر کافی خوش نظر آرھا تھا۔

” اس کو مشغلہ مل گیا۔ وہ اب خوش ھے۔ اس کے دل کا بلبل لڑکی کے گالوں کے گلاب پر فریفتہ ھو گیا ھے“ درباری آپسمیں کھسر پھسر کرنے لگے ”صبح کو وہ اور بھی خوش مزاج ھو جائے گا۔ خدا کی مہربانی سے طوفان بخیر و خوبی گذر گیا۔ ھم میں سے کسی پر بجلی نہ گری۔“

درابری شاعروں کی بھی ھمت بندھی، وہ آگے بڑھے اور باری باری امیر کی شان میں قصیدے پڑھنے لگے۔ اس کے چہرے کا ماہِ کامل سے ، قد کا نازک سرو سے اور اس کی حکومت کا دونوں جہان کے قران السعدین سے مقابلہ کرنے لگے۔

آخر میں ، ملک اشعراء اس طرح اپنا قصیدہ پڑھنے آیا جیسے اچانک جوش میں آ کر اس نے اس کو کہہ ڈالا ھو حالانکہ اگلے دن کی صبح سے یہ قصیدہ اس کو نوکِ زبان تھا۔

امیر نے اس کو مٹھی بھر چھوٹے سکے پھینک دئے اور وہ فرش پر رینگ رینگ کر ان کو جمع کرنے لگا ، ساتھ ھی وہ امیر کی جوتیوں کو بوسہ دینا نہیں بھولا۔

پھر امیر نے مربیانہ انداز میں ھنستے ھوئے کہا ”ھم نے بھی ایک نظم کہی ھے:

شام کو ھوا جو باغ میں گذر ھمارا
چاند چھپ گیا بادلوں میں شرم کا مارا
پرندے ھوئے خاموش ، ھوا بھی چال اپنی بھولی
اور ھم تھے وھاں استادہ ۔۔۔عظیم،
عالی مرتبت ، اٹل ، مانندِ آفتاب ، عظیم الشان!“

سب شاعر گھٹنوں کے بل گر کر داد و تحسین دینے لگے:

”کیا عظمت ھے! رودکی کو بھی مات کر دیا!“

کچھ تو فرش کے بل زمین پر گر گئے جیسے تعریف کے جوش میں ان پر غشی طاری ھو گئی ھو۔

رقاصائیں آ گئیں، ان کے پیچھے بھانڈ ، مداری اور شعبدہ گر آئے اور امیر نے ان سب کو بڑی فیاضی سے انعامات دئے۔

”مجھے افسوس ھے کہ میں سورج پر حکم نہیں چلا سکتا“ اس نے کہا ” نہیں تو میں اس کو جلد غروب ھونے کا حکم دیتا۔۔۔“

اور درباری اس پر خوشامدانہ قہقہے لگا رھے تھے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
(22)



بازار میں بڑی چہل پہل تھی ۔ یہ زوروں کے کاروبار کا وقت تھا ، خرید و فروخت اور لین دین میں اضافہ ھو رھا تھا۔ سورج بلند ھوتا جا رھا تھا اور لوگ ڈھکی ھوئی اور طرح طرح کی مہک سے بھری دوکانوں کے گھنے سائے میں پناہ لینے کے لئے بھاگ رہے تھے۔ دوپہر کی تیز دھوپ کی کرنیں نرکل کی چھتوں کے روشندانوں سے عمودی گر رھی تھیں اور دھویں کے ستونوں کی طرح استادہ معلوم ھوتی تھیں۔ ان کی روشنی میں زربفت کے کپڑے جگمگا رھے تھے ، نرم ریشم چمک رھا تھا اور مخمل ایک ھلکے دبے دبے شعلے کی طرح دھکتا معلوم ھوتا تھا۔ چاروں طرف عمامے ، قبائیں اور رنگی ھوئی داڑھیاں روشنی مین چمک رھی تھیں۔ صاف شفاف تانبا آنکھوں میں چکا چوند پیدا کر رھا تھا لیکن صرافوں کے نمدوں پر پھیلا ھوا کھرا سونا اس کو منہ چڑھا کر اپنی خالص چمک سے نیچا دکھا رکھا تھا۔

خواجہ نصرالدین نے اپنے گدھے کی لگام اس چاء خانے کے سامنے کھینچی جس کے برآمدے ایک مہینہ پہلے انھوں نے بخارا کے شہریوں سے یہ اپیل کی تھی کہ وہ کمھار نیاز کی مدد کریں اور اس کو امیر کی مہربانی سے بچائین۔ اس تھوڑی سی مدت میں زندہ دل اور توندیل چائے خانے کے مالک علی سے جو سیدھا سادا ایماندار اور معتبر آدمی تھا خواجہ نصرالدین کی گہری دوستی ھو گئی تھی۔

موقع دیکھ کر خواجہ نصرالدین نے اسے پکارا:

”علی!“

چائے خانے کے مالک نے چاروں طرف دیکھا اور بھونچکا سا ھو گیا کیونکہ اس نے مردانی آواز سنی تھی اور دیکھ رھا تھا عورت۔


”یہ میں ھوں، علی“ خواجہ نصرالدین نے نقاب اٹھائے بغیر کہا ” مجھے پہچانتے ھو نا؟ خدا کے لئے اس طرح تو مت گھورو۔ کیا تم جاسوسوں کو بھول گئے ھو؟“

احتیاط سے چاروں طرف دیکھ کر علی ان کو پچھلی کوٹھری میں لے گیا جہاں وہ ایندھن اور فاضل کیتلیاں رکھتا تھا۔ یہاں نمی اور ٹھنڈک تھی اور بازار کو شور بہت مدھم سنائی دے رھا تھا ۔

” علی ، میرا گدھا لو“ خواجہ نصرالدین نے کہا ”اس کو اچھی طرح کھلانا پلانا کیونکہ مجھے اس کی کسی وقت بھی ضرورت پڑ سکتی ھے۔ اور میرے بارے میں کسی سے ایک لفظ بھی نہ کہنا۔“

” لیکن خواجہ نصرالدین تم نے عورتوں کے کپڑے کیوں پہن رکھے ھیں؟“ علی نے احتیاط سے دروازہ بند کرتے ھوئے پوچھا ۔

”میں محل جا رھا ھوں۔“

” تمھارا دماغ تو نہین چل گیا ھے !“ چائے خانے کے مالک نے زور سے کہا ”تم اپنا سر شیر کے منہ میں دینے جا رھے ھو۔“

”یہ کرنا ھی پڑیگا ، علی۔ تمھیں جلد ھی معلوم ھو جائے گا کیوں۔ آؤ ایک دوسرے سے رخصت ھو لیں کیونکہ اگر۔۔۔میں خطرناک مہم پر جا رھا ھوں۔“

وہ ایک دوسرے سے بڑے خلوص سے گلے ملے۔ چائے خانے کے نیک دل مالک کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور اس کے گول ، سرخ رخساروں پر بہہ چلے۔ اس نے خواجہ نصرالدین کو رخصت کیا اور پھر اپنی گہری آھوں کو روک کر جو اس کے توند کو دھونک رھی تھیں اپنے گاھکوں میں لگ گیا۔

اس کا دل بھاری تھا اور اس میں طرح طرح کے وسوسے آرھے تھے۔ وہ غمگین اور کھویا کھویا سا تھا۔ اس کے گاھکوں کو چاء دانیوں کے ڈھکن دو تین بار یہ یاد دلانے کے لئے بجانا پڑ رھے تھے کہ ان کو مزید چائ کی ضرورت ھے۔ اپنے خیالوں میں وہ دبنگ دوست کے ساتھ محل میں تھا۔

پہرے داروں نے خواجہ نصرالدین کو روک دیا۔

” میں لا جواب مشک ، عنبر اور عطرِ گلاب لائی ھوں“ خواجہ نصرالدین بڑی چالاکی کے ساتھ زنانی آواز بنا کر برابر کہہ رھے تھے ” اے سورماؤ، مجھے حرم میں جانے دو۔ میں اپنا سامان بیچ کر تمھیں اس میں حصہ دونگی۔“


”بڑھیا ، چلتی بن، جا، جا، بازار میں سودا کر!“ پہرے داروں نے ڈانٹا۔

اپنے مقصد میں ناکام ھو کر خواجہ نصرالدین افسردہ ھو گئے اور سوچنے لگے۔ ان کے پاس کم وقت تھا کیونکہ آفتاب مائل بزوال ھو چلا تھا۔ انھوں نے فصیل کا چکر لگایا لیکن چینی مسالے نے پتھروں کو اس طرھ آپسمیں پیوست کر دیا تھا کہ ان کو ایک دراڑ ، ایک سوراخ نہیں ملا۔ جہاں تک نہروں کے دھانوں کا سوال تھا ان میں ڈھلے ھوئے مضبوط لوھے کے سلاخ لگے تھے۔

” مجھے تو محل پہنچنا ھی ھے“ خواجہ نصرالدین نے اپنے آپ سے کہا ” میں چاھتا ھوں اور پہنچونگا۔ اگر نوشتہ تقدیر کے مطابق امیر نے میری منگیتر پر قبضہ کر لیا ھے تو تقدیر کے مطابق مجھے وہ واپس کیوں نہ ملنا چاھئے؟ میرا دل کہتا ھے کہ یہی ھو گا۔“

وہ بازار واپس آگئے۔ ان کو یقین تھا کہ اگر کوئی آدمی اٹل ھمت کے ساتھ کوئی ارادہ کر لے تو قسمت بھی اس کا ساتھ دیتی ھے۔ ھزاروں ملاقاتوں ، بات چیت اور جھگڑوں میں کوئی ایسی بات ضرور نکال آئے گی جو مناسب موقع فراھم کردیگی اور آدمی اس کو ھوشیاری سے استعمال کر کے ان تمام رکاوٹوں کو دور کر سکتا ھے جو اس کی منزل اور اس کے درمیان حائل ھیں اور اس طرح اپنی قسمت کا لکھا پورا کرسکتا ھے۔ بازار مین ایسا ھی موقع کہیں ان کا منتظر تھا۔ ان کو اس کا قطعی یقین تھا اور وہ اس کی تلاش میں روانہ ھوئے۔

خواجہ نصرالدین سے کوئی چیز بچتی نہ تھی ۔ ھزاروں آدمیوں کے شوروغل میں ایک لفظ ، ایک چہرہ بھی نہیں۔ ان کا دماغ ، کان اور نظریں اس غیر معمولی معیار کو پہنچ چکی تھیں جب انسان ان حدود کو آسانی سے پار کر جاتا ھے جو قدرت نے اس پر عائد کی ھیں۔ اس صورت میں جیت ان ھی کی ہوتی تھی کیونکہ اس دوران میں ان کے مخالفین تو عام انسانی حدود ھی میں رھتے تھے۔

اس جگہ جوھریوں اور گندھیوں کے بازار ایک دوسرے سے ملتے تھے خواجہ نصرالدین نے مجمع کے شوروھنگامے کے درمیان ایک پھسلانے والی آواز سنی:

”تم کہتی ھو کہ تمھارا شوھر تم سے محبت نہیں کرتا اور ھم بستر نہیں ھوتا۔ اس کا ایک علاج ھے لیکن مجھے اس کے بارے میں خواجہ نصرالدین سے مشورہ کی ضرورت ھے۔ تم نے تو سنا ھی ھو گا کہ وہ یہاں ھیں؟ معلوم کر کے مجھے بتاؤ کہ وہ کہاں ھیں۔ ھم دونوں تمھیں تمھارے شوھر سے ملا دینگے۔“
 

قیصرانی

لائبریرین
خواجہ نصرالدین نے قریب جا کر دیکھا تو یہ چیچک رو رمال جاسوس تھا۔ ایک عورت چاندی کا سکہ لئے اس کے سامنے کھڑی تھی۔ رمال نے مٹر کے دانے قالین پر پھیلا رکھے تھے اور کسی پرانی کتاب کی ورق گردانی کر رھا تھا۔

"لیکن اگر تم خواجہ نصرالدین کو نہ ڈھونڈ سکیں" وہ بولا "تو تمھارے اوپر مصیبت آجائے گی۔ تمھارا شوھر تمھیں سدا کے لئے چھوڑ دیگا!"

خواجہ نصرالدین نے طے کیا کہ اس رمال کو ذرا سبق سکھایا جائے۔ وہ قالین کے پاس بیٹھ گئے:

"ذرا میری قسمت کا حال تو بتانا، دوسروں کی قسمتوں کے دانش مند پارکھ۔"

آدمی نے اپنے دانے پھیلا دئے۔

"اے عورت!" وہ اچانک چلایا جیسے اس پر بجلی گر پڑی ھو "عورت، تیرے اوپر مصیبت آگئی، موت کا سیاہ ھاتھ تیرے سر پر سایہ کرچکا ھے!"

کئی لوگ جو ادھر ادھر کھڑے تھے اشتیاق سے قریب آگئے۔

"میں موت کی چوٹ سے تجھے بچانے میں مدد تو کرسکتا ھوں لیکن اکیلا نہیں" رمال نے اپنی بات جاری رکھی۔ "مجھے خواجہ نصرالدین سے مشورہ کرنا چاھئے۔ اگر تو اس کو ڈھونڈ نکالے اور مجھے بتائے کہ وہ کہاں ھیں تو تیری جان بچ سکتی ھے۔"

"بہت اچھا، میں خواجہ نصرالدین کو تیرے پاس لاؤنگی۔"

"تو ان کو لائے گی؟" رمال نے خوشی سے چونک کر کہا۔ "کب؟"

"میں ان کو ابھی ابھی لا سکتی ھوں۔ وہ بہت قریب ھی ھیں۔"

"کہاں ھیں وہ؟"

"یہیں، بہت قریب۔"

رمال کی آنکھوں میں حریصانہ چمک پیدا ھو گئی۔

"لیکن کہاں ھیں وہ؟ میں ان کو نہیں دیکھتا۔"

"اور تم رمال بنے ھو! اتنا بھی نہیں جان سکتے؟ یہ رھے وہ!"
تیزی کے ساتھ عورت نے اپنا نقاب اٹھا دیا۔ خواجہ نصرالدین کا چہرہ دیکھ کر رمال پیچھے ھٹ گیا۔

"یہ رھے وہ!" خواجہ نصرالدین نے دھرایا۔ "تم مجھ سے کیا مشورہ کرنا چاھتے تھے؟ تم جھوٹے ھو، تم رمال نہیں بلکہ امیر کے جاسوس ھو! مسلمانو، اس پر مت اعتبار کرو! یہ تم کو دھوکہ دے رھا ھے! وہ یہاں بیٹھا خواجہ نصرالدین کا پتہ لگانے کی کوشش کر رھا ھے!"

جاسوس نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی لیکن کوئی سپاہی نہ تھا۔ ناامیدی سے تقریبا روتے ھوئے اس نے خواجہ نصرالدین کو جاتے دیکھا۔ غصے سے بھرے مجمع نے اس کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔

"امیر کا جاسوس، پاجی کتا!" چاروں طرف سے آوازیں آنے لگیں۔ قالین لپیٹتے ھوئے رمال کے ھاتھ کانپ رھے تھے۔ پھر وہ محل کی طرف بگٹٹ بھاگا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
(۲۳)​
گندے، میلے، بدبودار اور دھوئیں سے بھرے ھوئے پہرے داروں کے کمرے میں سپاھی ایک پرانے نمدے پر جو چیلڑوں سے بھرا تھا بیٹھے اپنا بدن کھجلا رھے تھے اور خواجہ نصرالدین کو پکڑنے کے منصوبے بنا رھے تھے۔

"تین ھزار تانگے" وہ بولے "سوچو تو، تین ھزار تانگے اور جاسوسوں کے داروغہ کا منصب!"

"کوئی نہ کوئی تو خوش قسمت ھوگا ھی!"

"کاشکہ میں وہ خوش قسمت ھوتا!" ایک موٹے، کاھل سپاھی نے جو سب سے احمق تھا آہ بھر کر کہا۔ وہ ابھی تک اس لئے برخاست نہیں کیا گیا تھا کہ وہ کچا انڈا بلا چھلکا توڑے مسلم نگل جانے کا آرٹ جانتا تھا۔ وہ کبھی کبھی امیر کا دل اس کرتب سے بہلاتا تھا اور اس سے کچھ انعام حاصل کر لیتا تھا حالانکہ بعد کو اسے سخت درد کی اذیت برداشت کرنی پڑتی تھی۔

چیچک رو جاسوس پہرے داروں کے کمرے میں بالکل بگولے کی طرح داخل ھوا:

"وہ یہاں ھے! خواجہ نصرالدین بازار میں ھے! وہ عورت کے بھیس میں ھے!"

سپاہی اپنا اسلحہ اٹھا کر پھاٹک کی طرف بھاگے۔

چیچک رو جاسوس بھی ان کے پیچھے پیچھے چیختا ھوا بھاگا:

"انعام میرا ھے! سنتے ھو نا! میں نے اس کو پہلے دیکھا! انعام میرا ھے!"

پہرے داروں کو دیکھ کر لوگ جلدی ادھر ادھر بھاگنے لگے اور بھگدڑ کیوجہ سے بازار میں ھلچل مچ گئی۔ سپاہی مجمع کے اندر گھس گئے۔ ان میں سے ایک بیدھڑک سپاھی نے ایک عورت کو پکڑ کر اس کا نقاب چاک کر دیا۔ وہ سارے مجمع کے سامنے بےنقاب ھوگئی۔

عورت نے زور کی چیخ ماری۔ دوسری سمت سے ایک اور چیخ گونجی۔ پھر تیسری عورت سپاھیوں کے پنجے سے نکلنے کی کشمکش کرتی ھوئی چیخی۔ اب چوتھی اور پانچویں۔۔۔ سارا بازار عورتوں کی چیخوں، آہ و بکا اور سسکیوں سے گونج اٹھا۔

متحیر مجمع پر جمود طاری تھا۔ بخارا میں تو ایسا نراج کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ بعض کے چہرے زرد اور بعض کے سرخ پڑ گئے۔ ھر دل بے چین ھو گیا۔ سپاھی اپنا کام کرتے رھے۔ وہ عورتوں کو پکڑتے تھے، ان کو ادھر ادھر کھینچتے تھے، ان کو مارتے تھے اور ان کے کپڑے پھاڑ رھے تھے۔

"مدد! مدد!" عورتیں چلا رھی تھیں۔

یوسف لوھار کی آواز مجمع کے اوپر زور سے گونجی اور چھا گئی:

"مسلمانو! تم کیوں ھچکتے ھو؟ کیا یہ کم ھے کہ سپاھی ھم کو لوٹتے ہیں؟ اس پر وہ دن دوپہر ھماری عورتوں کی بے عزتی کرتے ھیں!"

مجمع غصے سے گرجکر آگے بڑھا۔ ایک سقے نے اپنی بیوی کی آواز پہچان لی اور اس کو چھڑانے لپکا۔ سپاھیوں نے اسے الگ ڈھکیل دیا لیکن دو جولاھوں اور تین ٹھٹھیروں نے اس کی مدد کی اور سپاھیوں کو پیچھے ڈھکیلا۔ اب لڑائی شروع ھو گئی۔

رفتہ رفتہ ھر ایک لڑائی میں شامل ھو گیا۔ سپاھیوں نے اپنی تلواریں کھینچ لیں۔ ھر طرف سے ان پر برتن، کشتیاں، صراحیاں، کیتلیاں، نعلیں اور لکڑی کے جوتے برسنے لگے۔ ان کو بچنے کا موقع ھی نہیں مل رھا تھا۔ سارے بازار میں لڑائی پھیل گئی۔

اسی دوران میں امیر اپنے محل میں آرام سے اونگھ رھا تھا۔ اچانک وہ اچھلا اور بھاگ کر کھڑکی کے پاس گیا۔ اس کو کھولا اور پھر دھشت کی حالت میں یکدم بند کردیا۔

بختیار دوڑا ھوا آیا۔ وہ زرد تھا اور کانپ رھا تھا۔

"کیا ھوا؟" امیر نے پوچھا۔ "کیا ھو رھا ھے؟ تو پیں کہاں ھیں؟ ارسلان بیک کہاں ھے؟"

ارسلان بیک دوڑتا ھوا آیا اور منہ کے بل گر پڑا:

"آقا میرا سر قلم کرنے کا حکم دیجئے!"

"یہ کیا ھے؟ کیا معاملہ ھے؟"

ارسلان بیک نے پڑے پڑے جواب دیا:

"آقا، آفتاب جہاں اور۔۔۔"

"بند کر!" امیر نے بے تاب ھو کر غصے میں پیر پٹکے۔ "یہ سب بعد کو کہہ لینا! کیا ھو رھا ھے؟"

"خواجہ نصرالدین ۔۔۔۔ اس نے عورت کا بھیس بدلا۔ یہ سب اسی کا قصور ھے، یہ سب خواجہ نصرالدین کا کیا دھرا ھے! میرا سر قلم کرنے کا حکم دیجئے!"

لیکن امیر کو دوسری فکر پڑی تھی
 

قیصرانی

لائبریرین
(۲۴)​
آج کی ھر گھڑی خواجہ نصرالدین کے لئے بیش قیمت تھی۔ اس لئے انھوں نے بازار میں آوارہ گردی نہیں کی۔ لیکن ایک سپاھی کا جبڑہ اور دوسرے کے دانت توڑ کر اور تیسرے کی ناک چپٹی کرکے وہ صحیح سلامت اپنے دوست علی کے چا خانے لوٹ آئے۔ یہاں انھوں نے زنانی پوشاک اتار دی اور رنگین بدخشانی عمامہ اور مصنوعی داڑھی لگالی۔ اس طرح بھیس بدل کر وہ ایسی جگہ بیٹھ گئے جہاں سے وہ ساری لڑائی کا مشاھدہ کر سکیں۔

مجمع میں گھرے ھوئے سپاھی اپنے کو پوری طاقت کے ساتھ بچا رھے تھے۔ خواجہ نصرالدین کے بالکل پاس چائے خانے کے برابر ایک کشمکش شروع ھوگئی۔ ان سے کسی طرح ضبط نہ ھوا اور انھوں نے اپنی چا دانی سپاھیوں پر خالی کردی اور یہ اس مہارت سے کیا کہ انڈے گٹ کرجانے والے موٹے اور کاھل سپاھی کی گردن پر پانی دوڑ گیا۔ وہ چلا کر زمین پر چت گرپڑا اور اپنے ھاتھ پیر ھوا میں پھینکنے لگا۔ اس پر نگاہ ڈالے بغیر خواجہ نصرالدین پھر اپنے خیالات میں ڈوب گئے۔ اچانک انھوں نے کسی بڈھے کی کانپتی ھوئی چیخ کی آواز سنی:

"مجھے راستہ دو، راستہ دو، خدا کے واسطے! یہاں کیا ھو رھا ھے؟"

چائے خانے سے ذرا دور پر جہاں زوروں کی گتھم گتھا ھو رھی تھی بیچوں بیچ ایک سفید ریش، عقاب جیسی ناک والا بڈھا اونٹ پر بیٹھا تھا۔ دیکھنے میں وہ عرب معلوم ھوتا تھا۔ اپنے عمامے کے سرے کے پیچ کیوجہ سے وہ صاحب علم و فضل معلوم ھوتا تھا۔ وہ انتہائی خوف کی حالت میں اپنے اونٹ کے کوھان سے لپٹا ھوا تھا اور اس کے چاروں طرف لڑائی ھو رھی تھی۔ کوئی اس کا پیر پکڑ کر اونٹ سے کھینچنے کی کوشش کر رھا تھا اور بڈھا بچنے کے لئے بے تحاشہ جدوجہد کر رھا تھا۔ غل غپاڑے اور چیخون کی گونج کانوں کو بہرہ کئے دے رھی تھی۔

پناہ پانے کی انتہائی کوشش میں بڈھا کسی نہ کسی طرح چائے خانے تک پہنچ گیا۔ بار بار چونک کر اور گھوم گھوم کر دیکھتے ھوئے اس نے خواجہ نصرالدین کے گدھے کے برابر اپنا اونٹ باندھا اور برآمدے پر چڑھ آیا۔

"خدا کی قسم! تمھارے شہر میں کیا ھو رھا ھے؟"

"بازار ھے" خواجہ نصرالدین نے مختصر سا جواب دے دیا۔

"کیا بخارا میں ھمیشہ ایسے ھی بازار ھوتے ھیں؟ بھلا ایسے مجمع میں میں کبھی محل تک پہنچ سکونگا؟"

"محل" کا لفظ سنتے ھی خواجہ نصرالدین تاڑ گئے کہ بڈھے سے یہ ملاقات وہ موقع فراھم کرتی ھے جس کے وہ منتظر تھے اور وہ اب امیر کے حرم تک پہنچ کر گل جان کو رھا کرا سکیں گے۔"

لیکن سبھی جانتے ھیں کہ جلدی کا کام شیطان کا ھوتا ھے۔ دانائے روزگار شیخ سعدی شرازی کہہ گئے ھیں "دیر آید درست آید" اس لئے خواجہ نصرالدین نے بے صبری سے کام نہیں لیا۔

بڈھا کراہ کراہ کر آھیں بھر رھا تھا:

"اللہ اکبر! اے مومنوں کے محافظ! میں محل تک کیسے پہنچوں؟"

"یہاں کل تک انتظار کیجئے" خواجہ نصرالدین نے جواب دیا۔

"میں انتظار نہیں کرسکتا" بڈھے نے زور سے کہا۔ "محل میں میرا انتظار ھو رھا ھے۔"

خواجہ نصرالدین نے قہقہہ لگایا:

"محترم، سفید ریش بزرگ! میں آپ کا پیشہ اور کام تو نہیں جانتاھوں لیکن کیا آپ کو قطعی یقین ھے کہ محل میں لوگ آپ کے بغیر کل تک کام نہیں چلاسکتے؟ بخارا میں بڑے بڑے حکما و عقلا ھفتوں تک محل میں باریابی کا انتظار کرتے ھیں۔ آپ کو آخر اس سے مستثنی کیوں کیا جائیگا؟"

"اچھا تو سن لو" بڈھے نے خواجہ نصرالدین کی بات کا نا برا مان کر غرور سے کہا " میں مشہور عاقل نجومی اور حکیم ھوں۔ میں امیر کی دعوت پر بغداد سے آیا ھوں تاکہ ان کی ملازمت میں رہ کر امور ریاست میں ان کی مدد کروں۔"

"اوہ!" خواجہ نصرالدین نے ادب سے جھک کر کہا۔"خوش آمدید، شیخ دانا! میں بغداد جاچکا ھوں اور میں اس شہر کے عقلا سے واقف ھوں۔ اپنا نام بتائے!"

"اگر تم بغداد جا چکے ھو تو تم نے ان خدمات کا ذکر ضرور سنا ھوگا جو میں نے خلیفہ کے لئے کی ھیں۔ میں نے ان کے پیارے بیٹے کی جان بچائی تھی جس کا اعلان سارے ملک میں کیا گیا۔ میرا نام مولانا حسین ھے۔"

"مولانا حسین!" خواجہ نصرالدین نے حیرت سے کہا "کیا یہ ممکن ھے کہ آپ بذات خود مولانا حسین ھوں؟"

بوڑھا یہ دیکھ کر اطمینان سے مسکرایا کہ اس کی شہرت اپنے شہر بغداد سے باھر نکل کر اتنی پھیل چکی ھے۔

"تمھیں حیرت کیوں ھوئی؟" اس نے کہا۔ "ھاں، میں بذات خود مولانا حسین ھوں، وہ دانا جس کی عقل و دانش میں، ستارہ شناسی میں اور مسیحائی میں کوئی جواب نہیں۔ لیکن مجھ میں غرور و فخر نہیں ھے۔ دیکھو نا میں تم جیسے معمولی آدمی سے کس سادگی کے ساتھ باتیں کر رھا ھوں۔"

بڈھے نے ایک تکیے کی طرف اپنا ھاتھ بڑھایا اور اس کی ٹیک لے لی۔ وہ اپنی عقل و دانش کا تفصیلی حال بتا کر اپنے ھم نشین کو نوازنا چاھتا تھا۔ اس کو امید تھی کہ وہ بڑے فخر کے ساتھ دوسرے لوگوں کو مشہور دانا مولانا حسین سے ملاقات کے بارے میں تفصیل سے سے بتائے گا، اس کی دانائی کے گن گائیگا اور سننے والوں کے دل میں دانا کا احترام بڑھانے کے لئے اس میں مبالغہ بھی کریگا اور اس طرح اپنے لئے بھی عزت کمائے گا۔ کیونکہ وہ لوگ یہی رویہ اختیار کرتے ھیں جن پر بڑے لوگ عنایات کرتے ھیں۔

"اس طرح یہ عام لوگوں میں میری شہرت کو بڑھائیگا جن کو حقیر نہ سمجھنا چاھئے" مولانا حسین نے سوچا "عوام کی باتیں جاسوسوں اور خبر رسانوں کے ذریعہ امیر کے کانوں تک پہنچیں گی اور میری دانائی کی تصدیق کرینگی۔ کسی بات کی باھر سے تصدیق بلاشبہ بہترین تصدیق ھے۔ اس طرح آخر میں مجھے ھی فائدہ ھوگا۔

اپنے ھم نشین پر رعب جمانے کے لئے دانا نے اس کو تاروں کے جھرمٹوں اور ان کے درمیان روابط کے بارے بتانا شروع کردیا اور بہت سے پرانے داناؤں کے حوالے بھی دئے۔

خواجہ نصرالدین اس کی باتیں بڑے غور سے سنتے رھے اور یہ کوشش کی ان کے ذھن میں سب محفوظ ھو جائیں۔

"نہیں!" آخر میں انھوں نے کہا۔"ابھی تک مجھے یقین نہیں آتا! کیا آپ واقعی مولانا حسین ھیں؟"

"واقعی!" بڈھے نے چلا کر کہا۔ "اس میں کیا عجیب بات ھے؟"

خواجہ نصرالدین پیچھے ھٹ گئے جیسے وہ ڈر رھے ھوں۔ پھر انھوں نے خوف و ھراس کی آواز میں کہا "بدقسمت انسان! آپ تباہ ھوگئے!"

بوڑھے کا گلا رندھ گیا اور اس کے ھات سے چا کا گلاس چھٹ پڑا۔ اس کا سارا گھمنڈ اور اھمیت غائب ھوگئی۔

"کیسے؟ کیوں؟ کیا بات ھے؟" اس نے پریشان ھو کر پوچھا۔

"آپ نہیں جانتے کہ سب ھنگامہ آپ کی وجہ سے ھے؟" خواجہ نصرالدین نے بازار کی طرف اشارہ کرکے کہا جہاں ابھی لڑائی بالکل ختم نہیں ھوئی تھی۔ "امیر کے کانوں تک یہ بات پہنچی ھے کہ بغداد چھوڑتے وقت آپ نے علانیہ فرمایا کہ آپ امیر کے حرم میں دخل حاصل کریں گے اور ان کی بیویوں کو ورغلائیں گے۔ ھائے افسوس، مولانا حسین۔"

بڈھے کا منہ کھلا رہ گیا، اس کی آنکھیں پتھرا گئیں اور خوف سے ھچکیاں لینے لگا۔ "میں؟" وہ ھکلا رھا تھا "میں۔۔۔ حرم میں؟۔۔۔"

"آپ نے تخت خداوندی کی قسم کھا کر کہا کہ آپ یہی کرینگے۔ تقیبوں نے آج اسی طرح اعلان کیا اور امیر نے حکم دیا ھے کہ شہر میں قدم رکھتے ھی آپ کو پکڑ لیا جائے اور اسی جگہ گردن مار لی جائے۔"

دانا نے ھراساں ھو کر ایک آہ سرد بھری۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرھا تھا کہ اس کے کس دشمن نے اس پر یہ بلا نازل کی ھے۔ اس کو اس بات کی سچائی پر ذرا بھی شبہ نہیں ھوا۔ درباری سازشوں کے دوران اس نے خود متعدد بار اپنے دشمنوں کو اسی طرح تباہ کیا تھا اور ان کے سر بانسوں پر چڑھے دیکھ کر اس کا دل ٹھنڈا ھوا تھا۔

"تو آج" خواجہ نصرالدین نے اپنی بات جاری رکھی "جاسوسوں نے امیر کو خبر سنائی کہ آپ آگئے ھیں۔ انھوں نے آپ کی گرفتاری کا حکم دے دیا اور سپاھی آپ کو جلدی جلدی تلاش کرنے لگے۔ انھوں نے سب دوکانوں کو چھان مارا۔ کاروبار رک گیا اور امن و امان نہیں رھا۔ غلطی سے سپاھیوں نے ایک آدمی کو پکڑ لیا جو آپ کا ھم شبیہ تھا اور عجلت میں انھوں نے اس کا سر قلم کر دیا۔ اتفاق سے وہ ایک ملا تھا جو اپنے زھد و اتقا کے لئے مشہور تھا۔ اس کی مسجد کے لوگ بگڑ کھڑے ھوئے۔ دیکھئے یہ سب کیا ھو رھا ھے اور محض آپ کی وجہ سے۔"

"ھائے کیسا بدقسمت ھوں میں" دانا نے خوف و ھراس سے کہا۔

وہ پریشان ھوکر بڑبڑاتا، کراھتا اور فریاد کرتا رھا۔ اس طرح خواجہ نصرالدین کو یقین ھو گیا کہ ان کی چال کامیاب ھو گئی ھے۔

اس دوران میں لڑائی محل کے پھاٹکوں کی طرف منتقل ھو گئی تھی جدھر بری طرح پٹے ھوئے سپاھی بھاگ رھے تھے۔ اس دوران میں وہ اپنے ھتھیار بھی کھو بیٹھے تھے۔ بازار میں اب بھی ھل چل اور ھنگامہ تھا لیکن سکون ھوتا جا رھا تھا۔

"مجھے بغداد واپس جانا چاھئے!" بڈھے نے گریہ و زاری کرتے ھوئے کہا۔ "مجھے بغداد واپس جانا چاھئے!"

"آپ کو شہر کے پھاٹک پر پکڑ لیا جائے گا" خواجہ نصرالدین نے جھٹ سے جواب دیا۔

"ھائے میری قسمت! ھائے مصیبت! خدایا میں معصوم ھوں! میں نے ایسا توھین آمیز اور ناپاک اعلان کبھی نہیں کیا۔ میرے دشمنوں نے امیر سے یہ تہمت تراشی کی ھے۔ ارے مہربان مومن، میری مدد کرو!"

خواجہ نصرالدین تو اسی بات کے منتظر ھی تھے کیونکہ وہ خود مدد کی پیش کش کرکے دانا کو شبہ کرنے کی گنجائش نہیں دینا چاھتے تھے۔

"آپ کی مدد کروں؟" انھوں نے کہا۔ "میں آپ کی مدد کیسے کرسکتا ھوں؟ اپنے آقا کے وفادار اور مخلص خادم کی حیثیت سے تو مجھے آپ کو بلا تاخیر سپاھیوں کے حوالے کردینا چاھئے تاکہ مجھے پر سازش کا الزام نہ عائد کیا جاسکے۔"

ھچکیاں لیتے اور کانپتے ھوئے دانا نے التجا آمیز نظروں سے خواجہ نصرالدین کو دیکھا۔

"پھر بھی آپ کہتے ھیں کہ آپ بے گناہ ھیں اور لوگوں نے آپ کے خلاف تمہت تراشی کی ھے۔ میں تو اس بات کا یقین کرنے کے لئے تیار ھوں" خواجہ نے اس کو یقین دلایا "کیونکہ اس بزرگی کی عمر میں بھلا آپ کا حرم میں کیا کام۔"

"بالک ٹھیک کہتے ھو!" بڈھے نے کہا۔ "لیکن میرے لئے نجات کا راستہ کیا ھے؟"

"ایک راستہ ھے" خواجہ نصرالدین نے جواب دیا۔ وہ بڈھے کو پچھلی والی اندھیری کوٹھری میں لے گئے اور وھاں انھوں نے اس کو عورت والے کپڑوں کی پوٹلی دی۔ "میں نے آج یہ اپنی بیوی کے لئے خریدے تھے۔ اگر آپ چاھیں تو اس آپ اس کا تبادلہ اپنی عمامے اور عبا سے کرلیں۔ عورت کی نقاب میں آپ جاسوسوں اور سپاھیوں سے محفوظ رھیں گے۔"

بڑی خوشی اور شکرئے کے ساتھ بڈھے نے کپڑے لیکر پہن لئے۔ خواجہ نصرالدین نے اس کی سفید عبا پہنی، اس کا طرح دار عمامہ سر پر رکھا اور چوڑا ستاروں والا پٹکا باندھا۔ پھر انھوں نے بڈھے کو اپنے اونٹ پر چڑھنے میں مدد دی۔

"خدا آپ کی حفاظت کرے، اے دانائے روزگار! دیکھئے، عورتوں کی طرح ذرا باریک آواز میں بولنا نہ بھولئے گا۔"

بڈھا اپنی سواری پر بگٹٹ بھاگا۔

خواجہ نصرالدین کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ محل کا راستہ کھلا ھوا تھا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
(۲۵)​
یہ اطمینان کرلینے کے بعد کہ بازار میں جھگڑا ختم ھورھا ھے تقدس مآب امیر نے فیصلہ کیا کہ وہ دربار خاص میں درباریوں کے پاس جائے گا۔ اس نے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ وہ پرسکون ھے لیکن اس کو کچھ تکلیف ضرور ھے۔ وہ نہیں چاھتا تھا کہ کوئی درباری یہ سوچنے کی جرآت کرسکے کہ اس کے شاھانہ دل میں خوف نے جگہ پائی ھے۔

امیر جب وھاں پہنچا تو درباری خاموش رھے کیونکہ ان کو یہ ڈر تھا کہ کہیں ان کی آنکھیں اور چہرے اس بات کی غمازی نہ کردیں کہ وہ امیر کے صحیح جذبات سے بخوبی واقف ھیں۔

امیر اور درباری دونوں خاموش تھے۔ آخرکار یہ خوفناک سکوت امیر نے یہ کہہ کر توڑا:

"تم ھم سے کیا کہنا چاھتے ھو؟ تمھارا کیا مشورہ ھے؟ یہ سوال ھم تم سے پہلی بار نہیں پوچھ رھے ھیں!"

سب چپکے سے سرجھکائے سناٹے میں کھڑے رھے۔ اچانک امیر کا چہرہ غصے سے بگڑ گیا۔ نہ معلوم کتنے سر جلاد کے تیغے کے نیچے جھک جاتے۔ نہ جانے کتنی خوشامدی زبانیں ھمیشہ کے لئے بند کردی جاتیں جو موت کی اذیت سے اس طرح خون سے عاری ھونٹوں سے باھر لٹک پڑتیں جیسے وہ زندہ لوگوں کو ان کی دولت ناپائیدار، اپنی پرغرور اور بیکار تمناؤں، کوششوں کی یاد دلا رھی ھوں۔

لیکن سر شانوں پر برقرار رھے، زبانیں فی البدیہہ خوشامد کے لئے تیز رھیں کیونکہ اس وقت داروغہ محل نے آکر اعلان کیا:

"خدا مرکز جہاں کو سلامت رکھے! محل کے پھاٹک پر ایک اجنبی کھڑا ھے اور اپنا نام بغداد کا دانا مولانا حسین بتا رھا ھے۔ وہ کہتا ھے کہ وہ بہت ضروری کام سے آیا ھے اور اسے فورا جہاں پناہ کے حضور میں حاضر ھونا چاھئے۔

"مولانا حسین!" امیر نے اشتیاق سے کہا۔ "اس کو آنے دو! اس کو یہاں لے آؤ!"

دانا اندر آیا نہیں بلکہ بھاگ کر اندر گھسا حتی کہ جلدی میں اپنے گردآلود سلیپر بھی اتارنا بھول گیا۔ تخت کے سامنے منہ کے بل گرگیا:

"مشہور اور پرعظمت امیر کو، سارے جہاں کے آفتاب و ماھتاب کو، دنیا کے لئے رحیم و قہار کو میرا سلام! میں دن رات منزلیں طے کرتا آیا ھوں تاکہ امیر کو ایک ھولناک خطرے سے آگاہ کرسکوں۔ امیر بتائیں کہ کیا آج وہ کسی عورت کے پاس گئے؟ امیر، میرے آقا، اس خادم کی بات کا جواب دیجئے۔۔۔ میں آپ سے التجا کرتا ھوں!۔۔۔"

"عورت؟" امیر نے متحیر ھو کر دھرایا "آج؟۔۔ نہیں۔ ھمارا ارادہ تھا لیکن ابھی تک ھم نے ایسا نہیں کیا ھے۔"

دانا اٹھ کر کھڑا ھوگیا۔ اس کا چہرہ زرد تھا۔ اس نے انتہائی ھیجان کی حالت میں امیر کے جواب کا انتظار کیا تھا۔ اس کے ھونٹوں سے ایک طویل اور گہری آہ نکلی۔ رفتہ رفتہ اس کے گالوں کا رنگ واپس آیا۔

"الحمدللہ" اس نے زور سے کہا "اللہ نے عقل اور رحمت کی روشنی کو گل ھونے سے بچا لیا۔ اے امیر! رات کو ستارے اور سیارے ایسے برجوں میں تھے جو حضور کے بے حد خلاف پڑتے ھیں۔ اور میں نے، اس ناچیز نے جو امیر کے پیروں کی گرد کو بھی بوسہ دینے کے قابل نہیں ھے مشاھدہ کرکے سیاروں کے مقام کا حساب لگایا۔ میں جانتا ھوں کہ جب تک وہ پھر سازگار اور نیک فال کے مقامات تک نہ پہنچ جائیں امیر کو کوئی عورت چھونا نہ چاھئے، نہیں تو ان کی تباھی لازمی ھے۔"

"رکو، مولانا حسین" امیر نے بیچ میں کہا "تم ایسی باتیں کر رھے ھو جو سمجھ میں نہیں آتیں۔۔۔"

"الحمدللہ کہ میں وقت پر پہنچا" دانا کہتا رھا (جو حقیقت میں خواجہ نصرالدین تھے) "میں اپنی آخری سانس تک اس بات پر فخر کروں گا کہ میں نے امیر کو آج عورت چھونے سے روک دیا۔ اس طرح میں نے دنیا کو ایک زبردست غم سے بچا لیا۔"

اس نے یہ بات اس قدر مسرت اور خلوص سے کہی کہ امیر کو اس پر یقین ھی کرنا پڑا۔

"جب مجھ کو جو ایک حقیر چیونٹی کی مانند ھے اعلی حضرت نے سرفراز کیا، مجھ ناچیز کو یاد کیا اور مجھے بخارا آکر امیر کی خدمت میں رھنے کا فرمان ملا تو ایسا معلوم ھوا کہ جیسے میں بے مثال مسرت کے سمندر میں غوطہ زن ھوں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں امیر کا فورا حکم بجا لایا اور سفر کے لئے چل پڑا۔

"لیکن پہلے میں نے چند دن امیر کا زائچہ کھینچنے میں گزارے۔ پھر میں نے فورا ان کی خدمت اس طرح شروع کی کہ ان کی قسمت کے سیاروں اور ستاروں کا مطالعہ شروع کردیا۔ کل رات آسمان دیکھنے پر معلوم ھوا کہ ستارے اور سیارے دونوں امیر کے لئے بری طرح خطرناک ھو رھے ھیں۔ ستارہ الشعلہ جو ضرت کی علامت ھے ستارہ القلب کی طرف جو دل کی علامت ھے خراب رخ رکھتا ھے۔ اس کے علاوہ میں نے تین اور ستارے الغفر جو عورت کی نقاب کی علامت ھے، دو ستارے الاکلیل جو تاج کی علامت ھیں اور ستارے السرطان دیکھے جو سینگوں کی علامت ھیں۔

"یہ سب منگل کو تھا جو سیارہ مریخ کا دن ھے اور یہ دن جمعرات کے برخلاف ، بڑے آدمیوں کی موت کی طرف اشارہ کرتا ھے اور امیروں کے لئے انتہائی مضرت رساں ھے۔ ان تمام علامتوں کو دیکھ کر اس ناچیز نے جانا کہ موت کی ضرب کسی صاحب تاج کے دل پر پڑنے والی ھے اگر اس نے عورت کی نقاب کو چھوا۔ اسی لئے میں انتہائی تعجیل کے ساتھ صاحب تاج کو آگاہ کرنے کے لئے آیا۔ میں نے دن رات سفر کیا۔ دو اونٹ مر گئے اور میں بخارا میں پیدل داخل ھوا۔

"اے خدائے برتر!" امیر نے بے حد متائثر ھو کر کہا۔ "کیا یہ ممکن ھے کہ ھم کو ایسا خطرہ درپیش ھو؟ کیا تم کو قطعی یقین ھے کہ تم غلطی نہیں کر رھے ھو، مولانا حسین؟"

"غلطی؟ میں؟" دانا نے زور سے کہا۔ "اے امیر، بغداد سے بخارا تک دانائی، علم نجوم اور دست شفا میں میرا کوئی جواب نہیں ھے۔ میں غلطی نہیں کر سکتا۔ آقا، آفتاب جہاں، امیر اعظم آپ اپنے حکما سے پوچھئے کہ میں نے ستاروں کے صحیح نام بتائے ھیں یا نہیں۔ اور زائچے میں ان کو ٹھیک مقام دئے ھیں یا نہیں؟"

امیر کا اشارہ پا کر ٹیڑھی گردن والا دانا آگے بڑھا۔

"مولانا حسین، دانائی میں میرے بے نظیر ھم عصر نے ستاروں کے صحیح نام بتائے ھیں جن سے ان کے علم و فضل کا پتہ چلتا ھے جس پر کسی کو شک نہیں ھوسکتا، لیکن" دانا نے اپنی بات ایسے لہجے میں جاری رکھی جو خواجہ نصرالدین کو کینہ آمیز معلوم ھوتا تھا "مولانا حسین نے امیر کو چاند کا سولہواں برج اور وہ جھرمٹ نہیں بتایا جس میں یہ برج پیدا ھوتا ھے کیونکہ اس نشان دھی کے بغیر یہ دعوی بےبنیاد ھوگا کہ منگل جو سیارہ مریخ کا دن ھے قطعی طور پر بڑے آدمیوں کی موت کی نشانی کا دن ھے جن میں تاجدار بھی شامل ھیں کیونکہ مریخ قیام ایک جھرمٹ میں کرتا ھے، اس کا عروج دوسرے میں اور زوال تیسرے میں ھوتا ھے اور چوتھے جھرمٹ میں وہ غروب ھوجاتا ھے۔ ان کے مطابق سیارہ مریخ کی چار مختلف علامتیں ھیں نہ کہ صرف ایک جیسا کہ انتہائی لائق اور دانا مولانا حسین نے کہا ھے۔"

دانا چالاکی سے مسکراتا ھوا خاموش ھو گیا۔ درباری ایک دوسرے سے اس بات پر خوش ھوکر کھسر پھسر کرنے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ نووارد گھبرا گیا ھے۔ اپنی آمدنیوں اور اعلی عہدوں کی حفاظت کے لئے وہ باھر کے تمام آدمیوں کو دور ھی رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور ھر نووارد کو خطرناک حریف سمجھتے تھے۔

لیکن جب خواجہ نصرالدین کوئی بات اٹھاتے تھے تو پھر ھار نہیں مانتے تھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے دانا، درباریوں اور خود امیر کو بھانپ لیا تھا۔ انھوں نے ذرا بھی گھبرائے بغیر بڑے سرپرستانہ انداز میں جواب دیا:

"شاید میرے دانش مند اور لائق ھم عصر مجھ سے علم کی کسی شاخ میں بالاتر ھوں لیکن جہاں ستاروں کا تعلق ھے ان کے الفاظ ابن بجاع کی تعلیم سے قطعی لاعملی کا اظہار کرتے ھیں جو دانائے روزگار تھا اور جس نے اس بات کی تصدیق کی ھے کہ سیارہ مریخ کا قیام جھرمٹ حمل و عقرب میں، اس کا عروج جھرمٹ جدی میں، زوال جھرمٹ سرطان میں اور غروب جھرمٹ میزان میں ھوتا، بہرحال یہ صرف منگل کی خصوصیت ھے جس پر سیارہ مریخ اثرانداز ھوتا ھے جو تاجداروں کے لئے مہلک ھے۔"

یہ جواب دیتے ھوئے خواجہ نصرالدین ذرا بھی نہیں ڈرے کہ ان پر جاھل ھونے کا الزام لگایا جائیگا کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ایسے مباحثوں میں اسی کی جیت ھوتی ھے جو سب سے زیادہ چرب زبان ھوتا ھے اور اس میں ان کا مقابلہ شاید ھی کوئی کرسکتا ھو۔

وہ اب دانا کے اعتراضات کا اعتراض کرنے اور مناسب جواب دینے کے لئے تیار کھڑے تھے لیکن دانا نے معاملے کو نہیں اٹھایا اور خاموش رھا۔ اس کی یہ جرآت نہیں ھوئی تھی کہ وہ بحث کو زیادہ طول دے حالانکہ اس کو کافی شک تھا کہ خواجہ نصرالدین جاھل اور دھوکے باز ھیں لیکن اس کو اپنی جہالت کا خود کافی علم تھا۔ اس لئے اس نے نووارد کو گھبرانے کی جو کوشش کی تھی اس کا اثر الٹا ھوا اور درباریوں نے اسے خاموش کردیا۔ اس نے آنکھوں سے اشارہ کیا کہ حریف سے کھلم کھلا مقابلہ کرنا خطرناک ھے۔

یہ اشارے کنائے خواجہ نصرالدین نے بھی دیکھ لئے اور دل ھی دل میں کہا:

"ذرا ٹھہرو، بتاؤنگا تمھیں!"

امیر گہری سوچ میں پڑ گیا۔ ھر ایک ساکت تھا مبادا امیر کے غور و فکر میں خلل انداز نہ ھو۔

اگر تم نے تمام ستاروں کا نام و قیام صحیح بتایا ھے، مولانا حسین" امیر نے آخرکار کہا "تو واقعی تمھاری پیش گوئی ٹھیک ھے۔ لیکن ھماری سمجھ میں نہیں آتا کہ دو ستارے السرطان جن کی علامت سینگوں کی ھیں ھمارے زائچے میں کیسے آئے؟ واقعی مولانا حسین، تم عین وقت پر پہنچے کیونکہ آج صبح ھی کو ایک دوشیزہ ھمارے حرم میں لائی گئی ھے اور ھم تیاری کر رھے تھے کہ۔۔۔"

خواجہ نصرالدین نے بناوٹی دھشت سے اپنے ھاتھ ھلائے۔

"اس کو اپنے دماغ سے نکال دیجئے، امیر محترم، اس کو نکال دیجئے!" وہ چلائے جیسے یہ بھول گئے ھوں کہ امیر کو براہ راست حاضر کے صیغے میں مخاطب نہیں کرنا چاھئے۔ وہ جانتے تھے کہ اس بےادبی کو امیر سے وفاداری اور ان کی جان کی سلامتی کے لئے خوف کا زبردست جذبہ سمجھا جائے گا اور ان کے خلاف نہیں پڑیگا بلکہ اس کے برعکس امیر کے دل میں ان کے خلوص کے لئے زیادہ وقعت پیدا ھوگی۔

انھوں نے ایسے زوردار لہجے میں امیر سے درخواست اور التجا کی کہ وہ لڑکی سے اپنے کو مس نہ کرے تاکہ اس کو یعنی مولانا حسین کو آنسوؤں کا سیلاب نہ بہانا پڑے اور سیاہ ماتمی لباس نہ پہنناپڑے کہ امیر اس سے بہت متاثر ھوا۔

"مطمئن رھو، مولانا حسین۔ ھم اپنی رعایا کے دشمن تھوڑے ھی ھیں کہ ان کو رنج و غم میں مبتلا ھونے دیں۔ ھم تم سے یہ وعدہ کرتے ھیں کہ ھم اپنی قیمتی جان کی حفاظت کریں گے اور نہ صرف یہ کہ اس لڑکی کےپاس نہیں جائیں گے بلکہ عام طور پر اس وقت تک حرم میں داخل نہ ھوں گے جب تک تم ھیں یہ نہ بتاؤ گے کہ اب ھمارے ستارے سازگار ھیں۔ یہاں آؤ۔"

یہ کہہ کر امیر نے اپنے حقہ بردار کو اشارہ کیا اور ایک لمبا کش کھینچ کر خود اپنے ھاتھ سے حقے کی طلائی نال نووارد دانا کی طرف بڑھا دی جو اس کے لئے بری عزت و عنایت کا باعث تھا۔ گھنٹوں کے بل جھک کر اور نگاھیں زمین کی طرف کرکے دانا نے امیر کی عزت افزائی کو قبول کیا اور اس کے بدن میں جھرجھری آگئی۔ حاسد درباریوں کے خیال میں یہ جھرجھری خوشی کی تھی۔

"ھم مولانا حسین ایسے دانا کے لئے اپنی عنایتوں اور مہربانیوں کا اعلان کرتے ھیں۔" امیر نے کہا "اور ان کو اپنی سلطنت کا دانائے اعظم مقرر کرتے ھیں۔ ان کا علم و فضل اور عقل و دانش اور ھمارے ساتھ ان کی زبردست وفاداری ھر ایک کے لئے مثال بننی چاھئیں۔"

درباری واقعہ نویس نے، جس کا فرض یہ تھا کہ وہ امیر کے ایک ایک لفظ اور کاروائی کو مدحیہ انداز میں لکھے تاکہ ان کی عظمت آنے والی نسلوں کے لئے قائم رھے (جس کے لئے امیر سب سے زیادہ مشتاق تھا) اپنا قلم چلانا شروع کیا۔

"جہاں تک تمھارا تعلق ھے" امیر نے درباریوں کو مخاطب کرتے ھوئے کہا "اس کے برعکس، ھم تم پر اپنے عتاب کا اعلان کرتے ھیں کیونکہ خواجہ نصرالدین نے جو کچھ بدمزگی پیدا کردی ھے اور اس کے علاوہ تمھارے آقا کی جان تک کا خطرہ تھا پھر تم نے مدد کے لئے ایک انگلی تک بھی نہ اٹھائی! ان کو دیکھو! مولانا حسین، ان حماقت بھرے گاؤدیوں کودیکھو۔ ھیں نہ یہ بالکل گدھوں کی طرح؟ واقعی کسی بادشاہ کے بھی ایسے بیوقوف اور لاپروا وزیر نہ رھے ھوں گے!"

"محترم امیر کا فرمانا بالکل بجا ھے" خواجہ نصرالدین نے ساکت درباریوں کی طرف دیکھ کر اس طرح کہا جیسے وہ پہلی چوٹ کے لئے نشانہ لے رھے ھوں۔ "جہاں تک میں دیکھتا ھوں ان کے چہروں پر دانشمندی کی کوئی نشانی نہیں ھے۔"

"بالکل ٹھیک، بالکل ٹھیک" امیر نے بہت خوش ھو کر تصدیق کی۔ "بالکل ٹھیک، ان کے چہروں پر دانشمندی نہیں ھے، سنتے ھو تم احمقو؟"

"میں یہ اضافہ کرنا چاھتا ھوں" خواجہ نصرالدین نے اپنی بات جاری رکھی "کہ نہ تو ان کے چہروں پر نیک صفات اور ایمانداری ھی کی نشانی ھے۔"

"یہ چور ھیں" امیر نے دلی یقین کے ساتھ کہا "سب کے سب چور ھیں۔ یہ ھم کو دن رات لوٹتے رھتے ھیں۔ ھم کو محل کی میں ایک ایک چیز کی نگرانی کرنی پڑتی ھے۔ ھر بار جب ھم اپنی املاک کا جائزہ لیتے ھیں کوئی نہ کوئی چیز غائب ھوتی ھے۔ ابھی آج صبح ھی ھم اپنا ریشمی پٹکا باغ میں بھول گئے اور آدھہ گھنٹے میں وہ غائب ھوگیا!۔۔ ان میں سے کوئی اس کو۔۔۔ سمجھے نا، مولانا حسین!۔۔"

جب امیر یہ کہہ رھا تھا تو ٹیڑھی گردن والے دانا نے اپنی نگاہ بڑی ریاکاری سے نیچے جھکا لی۔ کوئی اور وقت ھوتا تو شاید اس طرف توجہ نہ جاری لیکن اس وقت تو خواجہ نصرالدین بہت چوکنے ھو رھے تھے۔ انھوں نے فورا بات تاڑی لی۔

بڑے اعتماد کے ساتھ وہ دانا کے پاس گئے، اپنا ھاتھ اس کی خلعت کے اندر ڈال کر ایک مرصع کار ریشمی پٹکا باھر کھینچ لیا۔

"کیا امیر اعظم اس پٹکے کے ضایع ھونے پر افسوس کر رھے تھے؟"

حیرت و خوف سے تمام درباری پتھر ھوگئے۔ واقعی نیا دانا بہت خطرناک ثابت ھورھا تھا کیونکہ پہلے ھی آدمی کو جس نے اس کی مخالفت کی جرآت کی تھی اس نے بے نقاب کرکے کچل دیا تھا۔ بہت سے داناؤں، شاعروں، عمائدین اور وزرا کے دل خوف سے کانپ گئے۔

"خدا کی قسم" امیر نے زور سے کہا "یہی میرا پٹکا ھے، واقعی مولانا حسین عقل و دانش میں تمھارا کوئی جواب نہیں! آھا!" اور وہ درباریوں کی طرف مڑا۔ اس کے چہرے پر بڑا اطمینان تھا۔ اس نے کہا "آھا، آخرکار رنگے ھاتھوں پکڑے گئے! اب تم ھمارا ایک تاگہ بھی چرانے کی جرآت نہ کروگے! تمھاری لوٹ مار سے ھم کو کافی نقصان پہنچ چکا ھے! جہاں تک اس کمبخت چور کا تعلق ھے اس کے سر، ٹھڈی اور جسم سے تمام بال اکھاڑ لئے جائیں۔ اس کے تلوؤں پر سو ضربیں لگائی جائیں اور منہ کی طرف پیٹھ کرکے گدھے پر ننگا بٹھا کر شہر میں گشت کرایا جائے اور اس کو عام طور پر چور مشتہر کیا جائے!"

ارسلان بیک کا اشارہ پاتے ھی جلادوں کے فورا دانا کو پکڑ لیا، اس کو گھسیٹتے ھوئے باھر لے گئے اور اس پر ٹوٹ پڑے۔ چند لمحے بعد اس کو پھر کھینچ کر ھال میں بالکل ننگا، بےبال اور انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں لایا گیا۔ اب سب پر یہ بات واضح ھوگئی کہ ابھی تک اس کی داڑھی اور زبردست عمامہ اس کی کوتاھی، عقل اور حماقت کو چھپائے تھے جو اس کے چہرے مہرے سے نمایاں تھیں اور ایسا ریاکارانہ چہرے والا آدمی سوائے بدمعاش اور چور کے کچھ نہیں ھوسکتا۔

"لے جاؤ اس کو" امیر نے حقارت سے حکم دیا۔

جلاد اس کو گھسیٹ کر لے گئے۔ ذرا دیر بعد ھی کھڑکی سے ڈنڈوں اور لاتوں کی دھمک کے تال پر چیخوں کی آواز آنے لگی۔ آخر میں اس کو ایک گدھے پر ننگا بٹھا دیا گیا، اس کا منہ گدھے کی دم کی طرف کرکے نفیریوں اور نقاروں کی گونج میں بازار لے جایا گیا۔

امیر بڑی دیر تک نئے دانا سے باتیں کرتا رھا۔ درباری چاروں طرف بے حس و حرکت کھڑے تھے جو ان کے لئے شدید ترین اذیت تھی۔ گرمی بڑھ گئی تھی اور قبا کے اندر ان کی پیٹھوں میں بری طرح کھجلی ھو رھی تھی۔

وزیراعظم بختیار جو سب سے زیادہ نئے دانا سے ڈرا ھوا تھا کوئی منصوبہ سوچنے کی کوشش کر رھا تھا جس سے وہ اپنے حریف کو ختم کرنے کے لئے درباریوں کی مدد حاصل کرسکے۔ دوسری طرف درباری متعدد علامتوں سے یہ اندازہ لگا کر کہ اس مقابلے کا نتیجہ کیا ھوگا، یہ سوچ رھے تھے کہ بختیار کے ساتھ ایسے وقت غداری کس طرح کی جائے جو ان کے لئے بہت ھی اچھا ھو اور اس طرح نئے دانا کا اعتماد اور خوشنودی حاصل کی جائے۔

امیر نے خواجہ نصرالدین سے خلیفہ کی خیریت دریافت کی، بغداد کی خبروں اور ان کے سفر کے واقعات کے بارے میں پوچھا جن کا جواب انھوں نے بڑی ھوشیاری سے دیا۔ سب کچھ ٹھیک رھا اور امیر نے باتوں کے تکان سے تھک کر آرام گاہ ٹھیک ٹھاک کرنے کا حکم دیا ھی تھا کہ اچانک ھنگامہ اور ایک چیخ سنائی دی۔ داروغہ محل تیزی سے دیوان کے اندر داخل ھوا اور اعلان کیا:

"آقائے نامدار کی خدمت میں عرض ھے کہ کافر اور امن شکن خواجہ نصرالدین گرفتار کر لیا گیا ھے اور محل لایا گیا ھے!"

ابھی اس نے یہ اعلان کیا ھی تھا کہ اخروٹ کی لکڑی کے نقشیں پھاٹک پٹو پٹ کھل گئے۔ اسلحہ کی فاتحانہ جھنکار ھوئی اور پہرے دار ایک عقابی ناک، سفید داڑھی والے آدمی کوسامنے لائے جو زنانے لباس میں تھا۔ انھوں نے تخت کے نیچے قالین پر اس کو ڈھکیل کر گرادیا۔

خواجہ نصرالدین کے بدن میں کاٹو تو لہو نہیں تھا۔ ھال کی دیواریں ان کی نگاہ کے سامنے ناچ رھی تھیں اور درباریوں کے چہرے سبزی مائل دھند میں چھپے معلوم ھونے لگے۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
(۲۶)​

بغداد کا دانا، اصلی مولانا حسین، اسی پھاٹک پر دھر لیا گیا جس کے پار وہ نقاب کے اندر سے ھر سمت جانے والی سڑکیں دیکھ سکتا تھا۔ ھر سڑک اس کو بدبختی سے نجات پانے کی راہ معلوم پڑتی تھی۔

لیکن پھاٹک کے پہرے داروں نے اس کو ٹوکا "اے عورت، کہاں جا رھی ھے تو؟"

دانا نے آواز بنا کر اس طرح جواب دیا کہ معلوم ھوا کوا بول رھا ھے:

"میں عجلت میں ھوں، اپنے خاوند کے پاس جا رھی ھوں۔ بہادر سپاھیو، مجھے جانے دو۔"

آواز پر شبہ کرتے ھوئے پہرے داروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ایک نے اونٹ کی مہار تھام لی۔

"تم کہاں رھتی ھو؟"

"یہیں، بالکل قریب" دانا نے اور بھی باریک آواز میں جواب دیا۔ اس کوشش میں اس کو کھانسی آگئی اور دم پھول گیا۔ پہرےداروں نے اس کا نقاب پھاڑ دیا۔ ان کو بے حد خوشی ھوئی۔

"وھی ھے، وھی!" وہ چلائے "پکڑ لو! باندھ لو! پکڑلو!"

اس کے بعد وہ بڈھے کو محل لائے اور راستے میں اس پر بات چیت کرتے رھے کہ کس طرح اس کو موت کی سزا ملے گی اور تین ھزار تانگے کا انعام جو ان کو ملنے کی امید تھی۔ ان کا ایک ایک لفظ بڈھے کے لئے جلتے ھوئے انگارے کی طرح تھا۔

وہ تخت کے نیچے پڑا کانپ رھا تھا اور رو رو کر رحم کی بھیک مانگ رھا تھا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
” اس کو ھٹاؤ“ امیر نے حکم دیا۔

پہرے داروں نے اس کو پیروں پر کھڑا کیا۔ ارسلان بیک درباریوں کے مجمع سے آگے آیا اور بولا:

”حضور، غلام کی بھی ایک بات سنیں۔ یہ آدمی خواجہ نصرالدین نہیں ھے۔ خواجہ نصرالدین نوجوان ھے، تیس سال سے کچھ اوپر اور یہ آدمی کافی معمر ھے۔“

پہرے دار ھراساں ھوگئے۔ انعام ان کے ھاتھ سے نکلا جا رھا تھا۔ ھر آدمی خاموش اور چکرایا ھوا تھا۔

تو نے عورت کا بھیس کیوں بدلا؟ امیر نے دھمکی آمیز لہجے میں سوال کیا۔

”میں امیر معظم و محترم کے محل کی طرف آرھا تھا“ بڈھے نے کانپتے ھوئے جواب دیا۔ ” لیکن میری ملاقات ایک آدمی سے ھوئی جو بالکل اجنبی تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میرے بخارا آنے سے پہلے ھی امیر نے میرا سر قلم کرنے کا حکم دے دیا ھے۔ میں نے خوف سے بھیس بدل کر بھاگ نکلنے کا فیصلہ کیا۔“

امیر نے یہ ظاھر کرتے ھوئے کہ وہ سب سمجھتا ھے قہقہہ لگایا:
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
” تم ایک آدمی سے ملے۔۔۔ ایک اجنبی سے اور فورا اس کی بات کا یقین کر لیا؟۔۔۔ کیا لاجواب قصہ ھے! ھم تمھارا سر کیوں قلم کرنے والے تھے؟“

” کیونکہ کہا جاتا ھے کہ میں نے بالاعلان اس بات کی قسم کھائی تھی کہ امیر معظم کے حرم میں گھسونگا۔۔۔ لیکن خدا گواہ ھے کہ میں نے اس بات کا کبھی خیال بھی نہیں کیا ! میں بڈھا اور ضعیف ھوں اور مدتوں ھوئے خود اپنے حرم تک کو ترک کر چکا ھوں۔“

”ھمارے حرم میں گھس جاؤ گے؟“ امیر نے اپنے ھونٹ بھینچتے ھوئے دھرایا۔ اس کا چہرہ صاف بتا رھا تھا کہ بڈھے کے خلاف اس کے شکوک میں اضافہ ھو رھا ھے۔ ”تم ھو کون اور کہاں سے آئے ھو؟“

”میں ھوں بغداد کا دان حکیم مولانا حسین۔ میں امیر معظم کے حکم کے مطابق بخارا آیا ھوں۔“

”مولانا حسین؟“ امیر نے دھرایا۔ ” تم مولانا حسین ھو! تمھارا نام مولانا حسین ھے! ارے کمبخت بڈھے، یہ تو سفید جھوٹ ھے!“ وہ اتنی زور سے گرجا کہ ملک الشعراء اچانک گھٹنوں کے بل گر پڑا۔ ” جھوٹ بولتا ھے ! یہ رھے مولانا حسین!“

امیر کا اشارہ پا کر خواجہ نصرالدین بڑی فرمانبرداری کے ساتھ آگے بڑھے اور بڈھے کے سامنے تن کر کھڑے ھوگئے اور نڈر ھو کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔

بڈھا حیرت سے پیچھے ھٹ گیا لیکن دوسرے ھی لمحے اپنے کو سنبھال کر چلایا:

”آقا ، ارے یہ تو وھی آدمی ھے جو مجھے بازار میں ملا تھا اور اسی نے مجھ سے کہا تھا کہ امیر میرا سر قلم کر دینا چاھتے ھیں!“

”یہ کیا کہہ رھا ھے، مولانا حسین!“ امیر نے انتہائی پریشان ھو کر کہا۔

” یہ مولانا حسین نہیں ھے!“ بڈھا چیخا۔ ”میں مولانا حسین ھوں۔ یہ دھوکےباز ھے! اس نے میرا نام چرا لیاھے!“

خواجہ نصرالدین نے امیر کے سامنے بہت جھک کر کہا:

” معظم بادشاہ میری گستاخی معاف ھو لیکن یہ بڈھا واقعی بے حد بے حیا ھے! کہتا ھے کہ میں نے اس کا نام چرا لیا اور شاید یہ بھی کہے گا کہ میں نے اس کی عبا پر قبضہ جما لیا ھے؟“


”ھاں ھاں !“ بڈھا چلایا۔ ”یہ عبا میری ھی ھے!“

” ممکن ھے کہ یہ عمامہ بھی تمھارا ھی ھو؟“ خواجہ نصرالدین نے مذاق اڑاتے ھوئے پوچھا۔

” ھاں ، ضرور ! یہ میرا ھی عمامہ ھے! تم نے میری عبا اور عمامے کو زنانے لباس سے بدل لیا تھا۔“

” اچھا“ خواجہ نصرالدین نے اور طنز سے کہا۔ ”اور یہ پٹکا بھی غالبا تمھارا ھی ھے؟“

” میرا ھی ھے!“ بڈھے نے غصے کے ساتھ زور دیکر کہا۔

خواجہ نصرالدین تخت کی طرف مڑے اور بولے:
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
” حضورِ والا، امیر معظم نے خود دیکھ لیا کہ یہ کس قسم کا آدمی ھے۔ آج یہ جھوٹا اور بیہودہ بڈھا یہ کہتا ھے کہ میں نے اس کا نام چرا لیا، یہ عبا اس کی ھے، یہ عمامہ اس کا ھے اور یہ پٹکا اس کا ھے اور کل یہ کہے گا کہ یہ محل اس کا ھے اور ساری سلطنت اس کی ھے اور بخارا کا اصلی امیر وہ عظیم اور آفتاب جیسا بادشاہ نہیں ھے جو اس وقت ھمارے سامنے تخت پر جلوہ فرما ھے بلکہ یہ بے ھودہ جھوٹا ھے! اس سے ھر بات کی توقع کی جاسکتی ھے۔ وہ بخارا کیوں آیا؟ کیا وہ امیر کے حرم میں اس طرح گھسنے نہیں آیا جیسے کہ اس کا خود کا حرم ھو؟“

”تم ٹھیک کہتے ھو، مولانا حسین“ امیر نے کہا ۔ ” ھاں ، ھم کو یقین ھو گیا ۔ بڈھا مشکوک اور خطرناک آدمی ھے اور اس کے ارادے بد ھیں۔ ھماری رائے میں اس کا سر فورا جسم سے جدا کر دیا جائے۔“

بڈھا آہ بھر کر گھٹنوں کے بل گر پڑا۔ اس نے اپنا چہرہ ھاتھوں سے ڈھک لیا۔

بہر حال خواجہ نصرالدین یہ نہیں گوارا کر سکتے تھے کہ ان کے اُوپر جو الزامات تھے ان کی بنا پر کسی بے گناہ کو موت کے گھاٹ اُتارا جائے چاھے وہ آدمی درباری دانا ھی کیوں نہ ھو جو اپنے جعل سے بہتوں کی تباھی کا باعث بن چکا تھا۔ اس لئے انھوں نے امیر کے سامنے بہت جھک کر عرض کیا:

”امیر معظم میری بات سننے کی زحمت گوارا فرمائیں۔ اس کا سر جب چاھے قلم کیا جاسکتا ھے۔ لیکن پہلے کیا یہ اچھا نہ ھوگا کہ اس کا اصلی نام اور بخارا آنے کا سبب معلوم کیا جائے؟ ممکن ھے کہ سازش میں اس کے ساتھی ھوں۔ ممکن ھے کہ وہ کوئی بد طینت جادوگر ھو جو ستاروں کی خرابی سے فائدہ اٹھانا چاھتا ھو۔ اگر ایسا ھے تو امیر معظم کے قدموں کے نیچے کی مٹی لیگا اور اس کو چمگادڑ کے بھیجے میں ملا دیگا اور پھر اس کو امیر حقے میں رکھ دیگا اور اس طرح ان کی صحت کو نقصان پہنچائے گا۔ امیر معظم اس کی جان بخشی کریں اور اس کو مجھے حوالے کریں۔ وہ معمولی پہرے داروں پر اپنے جادو سے قابو پا لےگا لیکن میرے خلاف اس کا زور نہیں چل سکتاکیونکہ اپنے علم سے میں جادوگروں کی ساری چالیں جانتا ھوں اور ان کے جادو کے توڑ کے ساب طریقے معلوم ھیں۔ میں اس کو بند کر کے قفل پر ایسی دعا پڑھ دونگا جو صرف مجھ کو معلوم ھے۔ اس طرح صرف اپنے جادو کی طاقت سے وہ قفل نہیں کھول سکے گا۔ پھر رفتہ رفتہ اس کو اذیت پہنچا کر میں اس کو سب کچھ قبولنے پر مجبور کرونگا۔“

” اچھا“ امیر نے کہا ” مولانا حسین، تم معقول بات کہہ رھے ھو۔ اس کو لے جاؤ اور جو جی چاھے کرو لیکن ھوشیار رھنا کہیں یہ بھاگ نہ جائے۔“


” میرا سر قلم کر دیجئے گا۔“

آدھہ گھنٹہ بعد خواجہ نصرالدین جو اب امیر کے مشیر خآص اور نجومی بن چکے تھے اپنی نئی جائے رھائش پر آگئے جو ان کے لئے محل کی فصیل کے ایک برج میں خاص طور سے سجی گئی تھی۔ ان کے پیچھے سخت پہرے میں سر جھکائے ملزم تھا ، اصلی مولانا حسین۔

خواجہ نصرالدین کی قیام گاہ سے اوپر برج میں ایک چھوٹا سا گول کمرہ تھا جس میں سلاض دار کھڑکی تھی۔ خواجہ نصرالدین نے سیک بہت بڑی کنجی سے زنگ لگا ھوا پیتل کا قفل اور بکتر بند دروازہ کھولا۔ پہرے داروں نے بڈھے کو اندر ڈھکیل دیا۔ اسے کولی بھر پیال لیٹنے کے لئے دی۔ خواجہ نصرالدین نے دروازے میں قفل لگا دیا اور اس پیتل کے قفل پر بڑی تیزی سے کچھ اس طرح پڑھتے رھے کہ پہرے داروں کی سمجھ میں صرف جابجا اللہ کا نام آتا تھا۔


خواجہ نصرالدین اپنی قیام گاہ دیکھ کر بہت خوش ھوئے۔ امیر نے ان کو بارہ گدے ، آٹھ تکئے اور سامانِ خانہ داری دیا تھااور ایک ٹوکری نانیں، شہد اور بہت سی دوسری لطیف اور مزیدار چیزیں کھانے کے لئے اپنے دستر خوان سے بھیجی تھیں۔ خواجہ نصرالدین بہت تھکے اور بھوکے تھے لیکن کھانا کھانے سے پہلے انھوں نے چھ گدے اور چار تکئے قیدی کو پہنچا دئے۔

بڈھا ایک کونے میں سمٹا سمٹایا پڑا تھا ، اس کی آنکھیں اندھیرے میں غضبناک بلی کی طرح چمک رھی تھیں۔

” اچھا“ خواجہ نصرالدین نے سہج سے کہا ”ھم اس برج میں تم تکلیف نہ ھونے دیں گے۔ میں نیچے ھوں اور تم اوپر جیسا کہ تمھاری عمر اور دانائی کے لئے زیبا ھے۔ ارے یہاں کتنی گرد ھے! میں ذرا اس کو صاف کردوں۔“

وہ نیچے سے پانی کا ایک گھڑا اور جھاڑو لائے ۔ انھوں نے اچھی طرح پتھر کا فرش دھویا ، گدے بچھائے اور تکئے لگائے۔ پھر انھوں نے نیچے کا ایک اور چکر لگایا اور نان ، شہد ، حلوہ اور پستے لائے جن کو انھوں نے ایمانداری کے ساتھ قیدی کے سامنے دو حصوں میں تقسیم کیا اور کہا:

” تم بھوکے نہیں رھو گے ، مولانا حسین، ھم کھانے کا کافی انتظام کر لیں گے۔ یہ رھا حقہ اور تمباکو۔“

ھر چیز انھوں نے اس طرح سجا دی کہ یہ چھوٹا سا کمرہ خود ان کے اپنے کمرے سے بہتر معلوم ھونے لگا۔ اب خواجہ نصرالدین رخصت ھوئے اور دروازے میں قفل لگا دیا۔

بڈھا اکیلا پڑا رھا۔ وہ بہت بد حواس تھا۔ بڑی دیر تک وہ سوچتا اور گتھیاں سلجھاتا رھالیکن اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا کہ اس کا کیا حشر ھو رھا ھے۔ گدے بہت نرم تھے اور تکئے بھی آرامدہ تھے۔ نہ تو نان میں اور نہ شہد یا تمباکو میں کوئی زھر تھا۔۔۔ سارے دن کے ھنگامے سے تھکے چور بڈھے نے اپنی قسمت کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ کر سونے کا ارادہ کیا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اس دوران میں وہ آدمی جو اس کی تمام مصیبتوں کا باعث تھا نیچے کے کمرے میں کھڑکی پر بیٹھا شفق کو رات میں ڈھلتے دیکھ رھا تھا اور اپنی غیر معمولی طوفانی زندگی اور محبوبہ کے بارے میں سوچ رھا تھا جو یہاں اس سے بہت ھی قریب تھی لیکن اس کے متعلق کچھ نہیں جانتی تھی۔ کھڑکی سے ٹھنڈی ھوا آنے لگی۔ مؤذنوں کی گونجتی ھوئی پُر سوز آواز شہر کے اوپر کسی نقرئی فیتے کی طرح پھیل گئی۔ سیاہ آسمان میں تارے جھلملانے لگے۔ ان کی چمک اور جھلملاھٹ ایک خالص ، سرد اور دور دراز کی آگ سے ملتی تھی۔ وھاۃ ستارہ القلب چمک رھا تھا جو دل سے تعلق رکھتا ھے اور تین ستارے الغفر تھے جو کسی دوشیزہ کے نقاب کی نشانی ھیں اور دو ستارے السرطان تھے جو دو سینگیں پیش کرتے ھیں اور صرف ستارہ الشعلہ جو نحس اور موت کی نشانی ھے آسمان کی تاریک بلندیوں پر نہیں دکھائی دے رھا تھا۔۔۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
3rdpart.jpg
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سلام اس پر جو جاودانی اور لا فانی ھے !

” الف لیلہ“



(27)​




خواجہ نصرالدین نے امیر کا اعتماد اور عنایات حاصل کر لیں اور تمام معاملات میں اس کے خاص مشیر بن گئے۔ خواجہ نصرالدین فیصلے کرتے تھے۔ امیر کا کام صرف ان پر دستخط کرنا اور وزیر اعظم بختیار کا فرضِ منصبی صرف ان پر مہر لگانا تھا۔

” اللہ اکبر ! ھماری ریاست میں اب یہ نوبت پہنچ گئی ہے !“

بختیار نے ٹیکس کے خاتمے ، سڑکوں اور پلوں کے مفت استعمال اور بازار کے نرخ کم کرنے کے بارے میں امیر کا فرمان پڑھ کر کہا ”جلاد ھی خزانہ خالی ھو جائے گا! یہ نیا مشیر، خدا اس کو غارت کرے، اس نے تو ایک ھفتے میں وہ سب ڈھا دیا جو میں نے دس سال میں بنایا تھا!“

ایک دن اس نے اپنے شبہات امیر کے گوش گذار کرنے کی جرات کی لیکن امیر نے جواب دیا:

”مجہول انسان تو کیا جانتا ھے اور کیا سمجھتا ھے؟ ھم کو بھی یہ فرمان جاری کر کے رنج ھوتا ھے جو ھمارے خزانے کو خالی کرتے ھیں لیکن ھم کیا کر سکتے ھیں اگر ستاروں کا یہی حکم ھے؟ بختیار گھبراؤ نہیں ! یہ صرف تھوڑے دن کے لئے ھے جب تک ستارے سازگار نہیں ھوتے۔ مولانا حسین ، اس کو یہ سمجھاؤ!“

خواجہ نصرالدین وزیر اعظم کو علحدہ لے گئے اور اس کو گدوں پر بٹھا بڑی تفصیل کے ساتھ بتایا کہ لوھاروں ، ٹھٹھیروں اور اسلح سازوں کے مزید ٹیکس فورا ختم کرنے کی ضرورت کیوں ھے۔

”جھرمٹ قوس میں البلدہ ستارے جھرمٹ عقرب میں صد باز ستاروں کے خلاف ھیں“ خواجہ نصرالدین نے کہا ”دانائے روزگار وزیر آپ سمجھتے جیں ناں کہ وہ خلاف ھیں اور دونوں کے قران کا امکان نہیں ھے۔“

”اچھا ، تو اس سے کیا ھوتا ھے؟“ بختیار نے جواب دیا۔ ”وہ پہلے بھی قران مٰیں نہیں تھے پھر انھوں نے ھم کو ٹیکس وصول کرنے سے نہیں روکا۔“
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
”لیکن آپ جھرمٹ ثور میں ستار الدبران کو بھول گئے!“ خواجہ نصرالدین نے زور سے کہا ”وزیر محترم ، آپ آسمان کو دیکھئے خود پتہ چل جائے گا۔“

”میں آسمان کیوں دیکھوں“ ضدی وزیر نے کہا ‌‌”میرا کام ھے خزانے کی حفاظت کرنا اور اس کو دولت سے بھرنا اور میں دیکھتا ھوں کہ جب سے آپ محل میں آئے ھیں خزانے کی آمدنی گھٹ گئی ھے اور ٹیکسوں کا آنا کم ھو گیا ھے۔ یہی وقت شہر کے کاریگروں سے ٹیک وصول کرنے کا ھے، بتائیے ، ھم انھیں کیوں نہ وصول کریں؟“

” کیوں؟“ خواجہ نصرالدین چیخے ”میں ایک گھنٹے سے آپ کو یہی سمجھا رھا ھوں ۔ کیا اب بھی آپ کی سمجھ میں نہیں آیاکہ ھر منطقہ البروج پر چاند کے دو محل ھوتے ھیں ایک تہائی کے ساتھ۔۔۔“

”لیکن مجھے ٹیکس تو وصول کرنا ھی ھیں!“ وزیر نے پھر بات کاٹ کر کہا ”ٹیکس، سمجھتے ھیں نا آپ ۔“

”صبر کیجئے“ خواجہ نصرالدین نے بختیار کو روک دیا ”ابھی میں نے آپ سے الثریا کے مجموعہ نجوم اور انعیم کے آتھ ستاروں کے بارے میں تو بتایا ھی نہیں۔۔۔“

اب خواجہ نصرالدین نے ایسا پیچیدہ اور طویل بیان شروع کر دیا کہ وزیر اعظم کے کان سنسنانے لگے اور آنکھیں دھندلی پڑ گئیں۔ وہ اٹھ کھڑا ھوا چلا گیا اور خواجہ نصرالدین نے امیر کی طرف مخاطب ھو کر کہا:

”آقائے نامدار، چاھے عمر نے ان کے سر کو چاندی سے ڈھک دیا ھو اور اس سے ان کا سر بیش قیمت ھو گیا ھو لیکن جو کچھ اندر ھے وہ سونا نہیں بنا ھے۔ وہ میرے علم و فضل کو سمجھنے سے قاصر رھے۔ وہ کچھ بھی نہیں سمجھے آقا! کاشکہ ان کو امیر کی ذھانت کا جو خود لقمان کی فراست کو مات کرتی ھے ھزارواں حصہ ھی ملا ھوتا!“

امیر بڑی مہربانی اور خود پسندی سے مسکرایا۔ ان دنوں خواجہ نصرالدین بڑی محنت سے اس کو یقین دلا رھے تھے کہ اس کی فراست کا کوئی جواب نہیں ھے اور اس کوشش میں خواجہ پوری طرح کامیاب ھوئے تھے چناچہ جب وہ کوئی بات امیر کے سامنے ثابت کرنے لگتے تو امیر اس کو بڑے غور سے سنتا اور اس پر بحث نہ کرتا کیونکہ اس کو یہ ڈر تھا کہ کہیں اس کی ذکاوت کا پول نہ کھل جائے۔

۔۔۔دوسرے دن بختیار نے اپنے دل کی بات درباریوں کے ایک گروہ سے کہی:

”یہ نیا دانا، مولانا حسین ھم سب کو تباہ کر دیگا! جس دن ٹیکس جمع کئے جاتے ھیں اسی دن ھم بھی اس ابلتے ھوئے چشمے سے سیراب ھوتے ھیں جو امیر کے خزانے کی طرف بہتا ھے۔ لیکن جب سیراب ھونے کا وقت آتا ھے تو یہ مولانا حسین ھماری ساری امیدوں پر پانی پھیر دیتا ھے! وہ ستاروں کا محل بتانے لگتا ھے۔ بھلا کبھی کسی نے یہ سنا ھے کہ یہ ستارے جو اللہ کے احکام کے تابع ھیں امرا و شرفا کے بھی خلاف پڑے ھوں اور حقیر کاریگروں کے لئے سازگار رھے ھوں جو، میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ھوں ، اپنی کمائی ھمیں دینے کی بجائے خود بڑی بے شرمی سے چٹ کر رھے ھیں! بھلا کسی نے ستاروں کی ایسی گردش کے بارے میں سنا ھے؟ اس طرح کی کوئی کتاب نہیں لکھی جاسکتی تھی کیونکہ وہ کتاب فورا جلا دی جاتی اور اس کے مصنف کو بہت بڑا کافر ، منکر اور مجرم ٹھہرا کر سولی پر چڑھا دیا جاتا!“

درباریوں نے کچھ نہیں کہا کیونکہ انھیں قطعی یقین نہیں تھا کہ کس کی طرفداری کرنا مفید ھوگا بختیار کی یا نئے دانا کی؟

”ٹیکس کی وصولیابی روزبروز کم ھوتی جاتی ھے“ بختیار نے اپنی بات جاری رکھی ” اور کیا ھوگا؟ اس مولانا حسین نے امیر کو یہ کہہ کر دھوکا دیا ھے کہ ٹیکس چند دن کے لئے ختم کئے گئے ھیں اور بعد میں پھر ان کو لگا کر اضافہ بھی کیا جا سکتا ھے۔ امیر کو اس بات کا یقین ھے لیکن ھم جانتے ھیں کہ کسی ٹیکس کو ختم کرنا آسان ھے لیکن کوئی نیا لگانا بہت ھی مشکل ھے۔ آدمی اپنا پیسہ اس وقت جلدی دے دیتا ھے جب وہ اس بات کا عادی ھو جاتا ھے کہ وہ پیسے کو کسی دوسرے کا سمجھے لیکن ایک بار وہ اپنے اوپر یہ رقم خرچ کر لے تو پھر دوسری بار اس کو اسی طرح خرچ کرنا چاھے گا۔“

” خزانہ خالی ھو جائے گا اور ھم یعنی امیر کے درباری تباہ ھو جائیں گے۔ زربفت کے لباس کی بجائے ھمیں موٹے کپڑے پہننا پڑیں گے۔ بیس بیویوں کی بجائے ھمیں دو ھی پر قناعت کرنی پڑیگی۔ چاندی کی پلیٹوں میں کھانے کی بجائے مٹی کے برتن ھوں گے اور نرم میمنے کے نرم گوشت کے بجائے ھمیں گائے کے سخت گوشت کا پلاؤ کھانا پڑیگا جو صرف کتوں اور دستکاروں کے لئے ھی موزوں ھے۔ یہی مولانا حسین ھمارے لئے کرنے والا ھے۔ جو اس کو نہیں سمجھتا وہ اندھا ھے اور لعنت ھو اس پر!“

اس طرح کہہ کر بختیار نے نئے دانا کے خلاف درباریوں کو بہکانے کی کوشش کی ۔ لیکن اس کی کوششیں بے سود رھیں۔ مولانا حسین کو اپنے منصب میں برابر کامیابیاں ھوتی گئیں۔ وہ خاص طور سے ”یومِ مدح سرائی“ کے موقع پر ممتاز رھا۔ ایک پرانے رواج کے مطابق ھر مہینے تمام وزراء و امراء ، حکما و شعراء کا امیر کے سامنے مقابلہ ھوتا تھا جس میں امیر کی مدح و ثنا کی جاتی تھی ۔ مقابلے میں جیتنے والے کو انعام ملتا تھا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ھر شخص نے اپنا قصیدہ پیش کیا لیکن امیر خوش نہیں ھوا۔ اس نے کہا:

”یہی باتیں تم نے پچھلی بار بھی کہی تھیں۔ ھم دیکھتے ھیں تم اپنی تعریفوں میں زیادہ گہرے نہیں ھو۔ تم اپنے دماغوں پر زور دینا نہیں چاھتے ھو۔ ھم تم سے سوالات کرینگے اور تم ان کا جواب اس طرح دو کہ تعریف و تشبیہ دونوں کا امتزاج ھو جائے۔ غور سے سنو، ھمارا پہلا سوال ھے ۔ اگر ھم ، امیر اعظم بخارا تمھارے دعوے کے مطابق طاقتور اور ناقابلِ تسخیر ھیں تو پڑوسی اسلامی ممالک کے حکمرانوں نے ابھی تک ھمارے یہاں اپنے ایلچی اور قیمتی تحائف ھماری مکمل اطاعت کے پیغام کے ساتھ کیوں نہیں بھیجے ھیں؟ ھم تمھارے جواب کے منتظر ھیں۔“

درابری گھبرا گئے ۔ وہ براہ راست جواب دینے کی بجائے منہ ھی منہ میں بدبدانے لگے۔ صرف خواجہ نصرالدین پرسکون تھے۔ جب ان کی باری آئی تو وہ بولے:

”میں اپنے حقیر الفاظ امیر کے گوش گذار کرنے کی التجا کرتا ھوں ۔ ھمارے شاہ کے سوال کا جواب آسان ھے۔ پڑوسی ملکوں کے تمام حکمراں ھمارے آقا کی قدرت کامل سے برابر لرزاں و ترساں رہتے ھیں ۔ وہ یہ سوچتے ھیں : ”اگر ھم بخارا کے عظیم ، صاحب شان و شوکت امیر کو بیش قیمت تحفے بھیجیں تو وہ یہ سوچ سکتے ھیں کہ ھمارا ملک زرخیز ھے جو ان کے لئے اس بات کی ترغیب ھوگی کہ وہ فوجیں لے کر ھم پر چڑھ آئیں اور ھمارے ملک پر قبضہ کرلیں۔ اگر اس کے بر عکس ھم ان کو حقیر تحفے بھیجیں تو وہ ناراض ھو جائیں گے اور اپنی فوج ھمارے خلاف بھیج دیں گے۔ بخارا کے امیر عظیم ، صاحب شان و شوکت اور طاقتور ھیں اس لئے یہی بہتر ھے کہ ھم ان کو اپنے وجود کی یاد ھی نہ دلائیں۔۔۔“
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
” یہ ھیں خیالات جو بادشاھوں کے دماغوں میں ھیں اور اس کا سبب کہ وہ بیش بہا تحفوں کے ساتھ اپنے سفیر بخارا کیوں نہیں بھیجتے ھمارے بادشاہ کی قدرتِ کامل کے مستقل خوف میں تلاش کیا جا سکتا ھے۔“

”اھا“ خواجہ نصرالدین کے جواب سے مسرور ھو کر امیر نے کہا ”امیر کے سوال کا جواب اسی طرح دینا چاھئے: سنی تم لوگوں نے مولانا حسین کی بات، ارے بیوقوفو ، گاؤدیو ان سے سیکھو ! واقعی مولانا حسین کی عقل و دانش تم سے دسیوں گنی زیادہ ھے ۔ ھم ان کا شکریہ ادا کرتے ھیں۔“

درباری باورچی نے فورا لپک کر خواجہ نصرالدین کا منہ حلوے اور شیرینی سے بھر دیا۔ خواجہ نصرالدین کے گال پھول گئے اور گلا گھٹنے لگا۔ میٹھی رال ان کی ٹھڈی تک بہہ نکلی۔

امیر نے اور کئی ٹیڑھے سوال کئے لیکن ھر بار خواجہ نصرالدین ھی کا جواب بیترین رھا۔

”درباری کا اولین فرض کیا ھے؟“ ایک ایسا ھی سوال تھا جس کا جواب خواجہ نصرالدین نے یوں دیا:

”اے صاحب شان و شوکت اور با عظمت بادشاہ ! درباری کا اولین فرض ھے کہ وہ روزانہ ریڑھ کی کسرت کرتا رھے تا کہ اس میں ضروری لچک پیدا ھو جائے کیونکہ اس کے بغیر وہ بجا طور پر اپنی وفاداری اور احترام کا اظہار نہیں کر سکتا۔ درباری کی ریڑھ کی ھڈی یں جھکنے کے ساتھ ساتھ چاروں طرف گھومنے مڑنے کی خوبی بھی ھونی چاھئے ۔ اس میں عام آدمی کی پتھرائی ھوئی ریڑھ کی ھڈی سے امتیاز ھونا چاھئے جس کو ٹھیک سے جھک کر سلام کرنا بھی معلوم نہیں ھے۔“

”بالکل ٹھیک !“ امیر نے خوش ھو کر زور سے کہا۔ ” بالکل لبیک! اپنی ریڑھ کی ھڈی کی روزانہ کسرت! ھم دوسری بار مولانا حسین کا شکریہ ادا کرتے ھیں۔“

ایک بار پھر خواجہ نصرالدین کا منہ حلوے اور شیرینی سے بھر دیا گیا۔

اس دن بہت سے درابری بختیار کے گٹ کو چھوڑ کر خواجہ نصرالدین سے آن ملے۔

اس دن شام کو بختیار نے ارسلان بیک کو اپنے گھر مدعو کیا۔ نیا دانا دونوں کے لئے مساوی طور پر خطرناک تھا اور اس کو ختم کرنے کی خواھش نے ان کی پرانی دشمنی کو عارضی طور پر دبا دیا تھا۔

”اگر اس کے پلاؤ میں کچھ ملا دیا جائے تو اچھا رھے گا“ ارسلان بیک نے تجویز کی جو ایسے کاموں میں بڑا استاد تھا۔

”اور اس کے بعد امیر ھمارے سر قلم کر دیگا“ بختیار جھٹ سے بولا۔ ”نہیں محترم ارسلان بیک ھمیں دوسرا طریقہ اختیار کرنا چاھئے۔ ھمیں مولانا حسین کی عقلمندی کی ھر طرح تعریف کرنی چاھئے یہاں تک ہ امیر کے دل میں یہ شبہ پیدا ھو جائے کہ درباری مولانا حسین کو خود امیر سے زیادہ عقلمند سمجھتے ھیں ۔ ھمیں متواتر مولانا حسین کی تعریفوں کے پل باندھ دینا چاھئے اور ایک دن ایسا آئے گا جب امیر رشک کرنے لگے گا۔ وہ دن مولانا حسین کے عروج کا آخری دن اور اس کے زوال کیی ابتدا ھوگی۔“

لیکن قسمت خواجہ نصرالدین پر مہربان تھی اور ان کی غلطیاں بھی ان کے لئے مفید بن جاتی تھیں۔

جب بختیار ارسلان بیک نے نئے دانا کی مسلسل اور مبالغہ آمیز مدح و ثنا سے تقریبا اپنا مقصد حاصل کرلیا تھا اور امیر دل ھی دل میں اس سے رشک کرنے لگا تھا تو اتفاق سے خواجہ نصرالدین سے ایک فاش غلطی ھو گئی۔

خواجہ امیر کے ساتھ باغ میں ٹہل رھے تھے، پھولوں کی مہک اور چڑیوں کی چہکار سے لطف اندوز ھو رھے تھے ۔ امیر خاموش تھا۔ خواجہ نصرالدین نے یہ محسوس کیا کہ اس خاموشی میں کچھ ناراضگی پنہاں ھے لیکن اس کی وجہ نہ سمجھ سکے۔

”اور وہ بڈھا ، تمھارا قیدی کیسا چل رھا ھے؟“ امیر نے پوچھ لیا۔ ”کیا تم نے اس کا اصلی نام اور بخارا آنے کا سبب معلوم کر لیا؟“

خواجہ نصرالدین اس وقت گل جان کے خیال میں محو تھے۔ اس لئے انھوں نے کھوئے پن سے جواب دیا:


”جہاں پناہ غلام کو معاف کریں! میں ابھی تک اس بڈھے سے ایک لفظ بھی معلوم نہیں کر سکا۔۔۔بس ، وہ تو بت کی طرح گو ھے۔“

” لیکن کیا تم نے اس کو اذیت پہنچانے کی کوشش کی ؟“
 
Top