(۲۵)
یہ اطمینان کرلینے کے بعد کہ بازار میں جھگڑا ختم ھورھا ھے تقدس مآب امیر نے فیصلہ کیا کہ وہ دربار خاص میں درباریوں کے پاس جائے گا۔ اس نے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ وہ پرسکون ھے لیکن اس کو کچھ تکلیف ضرور ھے۔ وہ نہیں چاھتا تھا کہ کوئی درباری یہ سوچنے کی جرآت کرسکے کہ اس کے شاھانہ دل میں خوف نے جگہ پائی ھے۔
امیر جب وھاں پہنچا تو درباری خاموش رھے کیونکہ ان کو یہ ڈر تھا کہ کہیں ان کی آنکھیں اور چہرے اس بات کی غمازی نہ کردیں کہ وہ امیر کے صحیح جذبات سے بخوبی واقف ھیں۔
امیر اور درباری دونوں خاموش تھے۔ آخرکار یہ خوفناک سکوت امیر نے یہ کہہ کر توڑا:
"تم ھم سے کیا کہنا چاھتے ھو؟ تمھارا کیا مشورہ ھے؟ یہ سوال ھم تم سے پہلی بار نہیں پوچھ رھے ھیں!"
سب چپکے سے سرجھکائے سناٹے میں کھڑے رھے۔ اچانک امیر کا چہرہ غصے سے بگڑ گیا۔ نہ معلوم کتنے سر جلاد کے تیغے کے نیچے جھک جاتے۔ نہ جانے کتنی خوشامدی زبانیں ھمیشہ کے لئے بند کردی جاتیں جو موت کی اذیت سے اس طرح خون سے عاری ھونٹوں سے باھر لٹک پڑتیں جیسے وہ زندہ لوگوں کو ان کی دولت ناپائیدار، اپنی پرغرور اور بیکار تمناؤں، کوششوں کی یاد دلا رھی ھوں۔
لیکن سر شانوں پر برقرار رھے، زبانیں فی البدیہہ خوشامد کے لئے تیز رھیں کیونکہ اس وقت داروغہ محل نے آکر اعلان کیا:
"خدا مرکز جہاں کو سلامت رکھے! محل کے پھاٹک پر ایک اجنبی کھڑا ھے اور اپنا نام بغداد کا دانا مولانا حسین بتا رھا ھے۔ وہ کہتا ھے کہ وہ بہت ضروری کام سے آیا ھے اور اسے فورا جہاں پناہ کے حضور میں حاضر ھونا چاھئے۔
"مولانا حسین!" امیر نے اشتیاق سے کہا۔ "اس کو آنے دو! اس کو یہاں لے آؤ!"
دانا اندر آیا نہیں بلکہ بھاگ کر اندر گھسا حتی کہ جلدی میں اپنے گردآلود سلیپر بھی اتارنا بھول گیا۔ تخت کے سامنے منہ کے بل گرگیا:
"مشہور اور پرعظمت امیر کو، سارے جہاں کے آفتاب و ماھتاب کو، دنیا کے لئے رحیم و قہار کو میرا سلام! میں دن رات منزلیں طے کرتا آیا ھوں تاکہ امیر کو ایک ھولناک خطرے سے آگاہ کرسکوں۔ امیر بتائیں کہ کیا آج وہ کسی عورت کے پاس گئے؟ امیر، میرے آقا، اس خادم کی بات کا جواب دیجئے۔۔۔ میں آپ سے التجا کرتا ھوں!۔۔۔"
"عورت؟" امیر نے متحیر ھو کر دھرایا "آج؟۔۔ نہیں۔ ھمارا ارادہ تھا لیکن ابھی تک ھم نے ایسا نہیں کیا ھے۔"
دانا اٹھ کر کھڑا ھوگیا۔ اس کا چہرہ زرد تھا۔ اس نے انتہائی ھیجان کی حالت میں امیر کے جواب کا انتظار کیا تھا۔ اس کے ھونٹوں سے ایک طویل اور گہری آہ نکلی۔ رفتہ رفتہ اس کے گالوں کا رنگ واپس آیا۔
"الحمدللہ" اس نے زور سے کہا "اللہ نے عقل اور رحمت کی روشنی کو گل ھونے سے بچا لیا۔ اے امیر! رات کو ستارے اور سیارے ایسے برجوں میں تھے جو حضور کے بے حد خلاف پڑتے ھیں۔ اور میں نے، اس ناچیز نے جو امیر کے پیروں کی گرد کو بھی بوسہ دینے کے قابل نہیں ھے مشاھدہ کرکے سیاروں کے مقام کا حساب لگایا۔ میں جانتا ھوں کہ جب تک وہ پھر سازگار اور نیک فال کے مقامات تک نہ پہنچ جائیں امیر کو کوئی عورت چھونا نہ چاھئے، نہیں تو ان کی تباھی لازمی ھے۔"
"رکو، مولانا حسین" امیر نے بیچ میں کہا "تم ایسی باتیں کر رھے ھو جو سمجھ میں نہیں آتیں۔۔۔"
"الحمدللہ کہ میں وقت پر پہنچا" دانا کہتا رھا (جو حقیقت میں خواجہ نصرالدین تھے) "میں اپنی آخری سانس تک اس بات پر فخر کروں گا کہ میں نے امیر کو آج عورت چھونے سے روک دیا۔ اس طرح میں نے دنیا کو ایک زبردست غم سے بچا لیا۔"
اس نے یہ بات اس قدر مسرت اور خلوص سے کہی کہ امیر کو اس پر یقین ھی کرنا پڑا۔
"جب مجھ کو جو ایک حقیر چیونٹی کی مانند ھے اعلی حضرت نے سرفراز کیا، مجھ ناچیز کو یاد کیا اور مجھے بخارا آکر امیر کی خدمت میں رھنے کا فرمان ملا تو ایسا معلوم ھوا کہ جیسے میں بے مثال مسرت کے سمندر میں غوطہ زن ھوں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں امیر کا فورا حکم بجا لایا اور سفر کے لئے چل پڑا۔
"لیکن پہلے میں نے چند دن امیر کا زائچہ کھینچنے میں گزارے۔ پھر میں نے فورا ان کی خدمت اس طرح شروع کی کہ ان کی قسمت کے سیاروں اور ستاروں کا مطالعہ شروع کردیا۔ کل رات آسمان دیکھنے پر معلوم ھوا کہ ستارے اور سیارے دونوں امیر کے لئے بری طرح خطرناک ھو رھے ھیں۔ ستارہ الشعلہ جو ضرت کی علامت ھے ستارہ القلب کی طرف جو دل کی علامت ھے خراب رخ رکھتا ھے۔ اس کے علاوہ میں نے تین اور ستارے الغفر جو عورت کی نقاب کی علامت ھے، دو ستارے الاکلیل جو تاج کی علامت ھیں اور ستارے السرطان دیکھے جو سینگوں کی علامت ھیں۔
"یہ سب منگل کو تھا جو سیارہ مریخ کا دن ھے اور یہ دن جمعرات کے برخلاف ، بڑے آدمیوں کی موت کی طرف اشارہ کرتا ھے اور امیروں کے لئے انتہائی مضرت رساں ھے۔ ان تمام علامتوں کو دیکھ کر اس ناچیز نے جانا کہ موت کی ضرب کسی صاحب تاج کے دل پر پڑنے والی ھے اگر اس نے عورت کی نقاب کو چھوا۔ اسی لئے میں انتہائی تعجیل کے ساتھ صاحب تاج کو آگاہ کرنے کے لئے آیا۔ میں نے دن رات سفر کیا۔ دو اونٹ مر گئے اور میں بخارا میں پیدل داخل ھوا۔
"اے خدائے برتر!" امیر نے بے حد متائثر ھو کر کہا۔ "کیا یہ ممکن ھے کہ ھم کو ایسا خطرہ درپیش ھو؟ کیا تم کو قطعی یقین ھے کہ تم غلطی نہیں کر رھے ھو، مولانا حسین؟"
"غلطی؟ میں؟" دانا نے زور سے کہا۔ "اے امیر، بغداد سے بخارا تک دانائی، علم نجوم اور دست شفا میں میرا کوئی جواب نہیں ھے۔ میں غلطی نہیں کر سکتا۔ آقا، آفتاب جہاں، امیر اعظم آپ اپنے حکما سے پوچھئے کہ میں نے ستاروں کے صحیح نام بتائے ھیں یا نہیں۔ اور زائچے میں ان کو ٹھیک مقام دئے ھیں یا نہیں؟"
امیر کا اشارہ پا کر ٹیڑھی گردن والا دانا آگے بڑھا۔
"مولانا حسین، دانائی میں میرے بے نظیر ھم عصر نے ستاروں کے صحیح نام بتائے ھیں جن سے ان کے علم و فضل کا پتہ چلتا ھے جس پر کسی کو شک نہیں ھوسکتا، لیکن" دانا نے اپنی بات ایسے لہجے میں جاری رکھی جو خواجہ نصرالدین کو کینہ آمیز معلوم ھوتا تھا "مولانا حسین نے امیر کو چاند کا سولہواں برج اور وہ جھرمٹ نہیں بتایا جس میں یہ برج پیدا ھوتا ھے کیونکہ اس نشان دھی کے بغیر یہ دعوی بےبنیاد ھوگا کہ منگل جو سیارہ مریخ کا دن ھے قطعی طور پر بڑے آدمیوں کی موت کی نشانی کا دن ھے جن میں تاجدار بھی شامل ھیں کیونکہ مریخ قیام ایک جھرمٹ میں کرتا ھے، اس کا عروج دوسرے میں اور زوال تیسرے میں ھوتا ھے اور چوتھے جھرمٹ میں وہ غروب ھوجاتا ھے۔ ان کے مطابق سیارہ مریخ کی چار مختلف علامتیں ھیں نہ کہ صرف ایک جیسا کہ انتہائی لائق اور دانا مولانا حسین نے کہا ھے۔"
دانا چالاکی سے مسکراتا ھوا خاموش ھو گیا۔ درباری ایک دوسرے سے اس بات پر خوش ھوکر کھسر پھسر کرنے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ نووارد گھبرا گیا ھے۔ اپنی آمدنیوں اور اعلی عہدوں کی حفاظت کے لئے وہ باھر کے تمام آدمیوں کو دور ھی رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور ھر نووارد کو خطرناک حریف سمجھتے تھے۔
لیکن جب خواجہ نصرالدین کوئی بات اٹھاتے تھے تو پھر ھار نہیں مانتے تھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے دانا، درباریوں اور خود امیر کو بھانپ لیا تھا۔ انھوں نے ذرا بھی گھبرائے بغیر بڑے سرپرستانہ انداز میں جواب دیا:
"شاید میرے دانش مند اور لائق ھم عصر مجھ سے علم کی کسی شاخ میں بالاتر ھوں لیکن جہاں ستاروں کا تعلق ھے ان کے الفاظ ابن بجاع کی تعلیم سے قطعی لاعملی کا اظہار کرتے ھیں جو دانائے روزگار تھا اور جس نے اس بات کی تصدیق کی ھے کہ سیارہ مریخ کا قیام جھرمٹ حمل و عقرب میں، اس کا عروج جھرمٹ جدی میں، زوال جھرمٹ سرطان میں اور غروب جھرمٹ میزان میں ھوتا، بہرحال یہ صرف منگل کی خصوصیت ھے جس پر سیارہ مریخ اثرانداز ھوتا ھے جو تاجداروں کے لئے مہلک ھے۔"
یہ جواب دیتے ھوئے خواجہ نصرالدین ذرا بھی نہیں ڈرے کہ ان پر جاھل ھونے کا الزام لگایا جائیگا کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ایسے مباحثوں میں اسی کی جیت ھوتی ھے جو سب سے زیادہ چرب زبان ھوتا ھے اور اس میں ان کا مقابلہ شاید ھی کوئی کرسکتا ھو۔
وہ اب دانا کے اعتراضات کا اعتراض کرنے اور مناسب جواب دینے کے لئے تیار کھڑے تھے لیکن دانا نے معاملے کو نہیں اٹھایا اور خاموش رھا۔ اس کی یہ جرآت نہیں ھوئی تھی کہ وہ بحث کو زیادہ طول دے حالانکہ اس کو کافی شک تھا کہ خواجہ نصرالدین جاھل اور دھوکے باز ھیں لیکن اس کو اپنی جہالت کا خود کافی علم تھا۔ اس لئے اس نے نووارد کو گھبرانے کی جو کوشش کی تھی اس کا اثر الٹا ھوا اور درباریوں نے اسے خاموش کردیا۔ اس نے آنکھوں سے اشارہ کیا کہ حریف سے کھلم کھلا مقابلہ کرنا خطرناک ھے۔
یہ اشارے کنائے خواجہ نصرالدین نے بھی دیکھ لئے اور دل ھی دل میں کہا:
"ذرا ٹھہرو، بتاؤنگا تمھیں!"
امیر گہری سوچ میں پڑ گیا۔ ھر ایک ساکت تھا مبادا امیر کے غور و فکر میں خلل انداز نہ ھو۔
اگر تم نے تمام ستاروں کا نام و قیام صحیح بتایا ھے، مولانا حسین" امیر نے آخرکار کہا "تو واقعی تمھاری پیش گوئی ٹھیک ھے۔ لیکن ھماری سمجھ میں نہیں آتا کہ دو ستارے السرطان جن کی علامت سینگوں کی ھیں ھمارے زائچے میں کیسے آئے؟ واقعی مولانا حسین، تم عین وقت پر پہنچے کیونکہ آج صبح ھی کو ایک دوشیزہ ھمارے حرم میں لائی گئی ھے اور ھم تیاری کر رھے تھے کہ۔۔۔"
خواجہ نصرالدین نے بناوٹی دھشت سے اپنے ھاتھ ھلائے۔
"اس کو اپنے دماغ سے نکال دیجئے، امیر محترم، اس کو نکال دیجئے!" وہ چلائے جیسے یہ بھول گئے ھوں کہ امیر کو براہ راست حاضر کے صیغے میں مخاطب نہیں کرنا چاھئے۔ وہ جانتے تھے کہ اس بےادبی کو امیر سے وفاداری اور ان کی جان کی سلامتی کے لئے خوف کا زبردست جذبہ سمجھا جائے گا اور ان کے خلاف نہیں پڑیگا بلکہ اس کے برعکس امیر کے دل میں ان کے خلوص کے لئے زیادہ وقعت پیدا ھوگی۔
انھوں نے ایسے زوردار لہجے میں امیر سے درخواست اور التجا کی کہ وہ لڑکی سے اپنے کو مس نہ کرے تاکہ اس کو یعنی مولانا حسین کو آنسوؤں کا سیلاب نہ بہانا پڑے اور سیاہ ماتمی لباس نہ پہنناپڑے کہ امیر اس سے بہت متاثر ھوا۔
"مطمئن رھو، مولانا حسین۔ ھم اپنی رعایا کے دشمن تھوڑے ھی ھیں کہ ان کو رنج و غم میں مبتلا ھونے دیں۔ ھم تم سے یہ وعدہ کرتے ھیں کہ ھم اپنی قیمتی جان کی حفاظت کریں گے اور نہ صرف یہ کہ اس لڑکی کےپاس نہیں جائیں گے بلکہ عام طور پر اس وقت تک حرم میں داخل نہ ھوں گے جب تک تم ھیں یہ نہ بتاؤ گے کہ اب ھمارے ستارے سازگار ھیں۔ یہاں آؤ۔"
یہ کہہ کر امیر نے اپنے حقہ بردار کو اشارہ کیا اور ایک لمبا کش کھینچ کر خود اپنے ھاتھ سے حقے کی طلائی نال نووارد دانا کی طرف بڑھا دی جو اس کے لئے بری عزت و عنایت کا باعث تھا۔ گھنٹوں کے بل جھک کر اور نگاھیں زمین کی طرف کرکے دانا نے امیر کی عزت افزائی کو قبول کیا اور اس کے بدن میں جھرجھری آگئی۔ حاسد درباریوں کے خیال میں یہ جھرجھری خوشی کی تھی۔
"ھم مولانا حسین ایسے دانا کے لئے اپنی عنایتوں اور مہربانیوں کا اعلان کرتے ھیں۔" امیر نے کہا "اور ان کو اپنی سلطنت کا دانائے اعظم مقرر کرتے ھیں۔ ان کا علم و فضل اور عقل و دانش اور ھمارے ساتھ ان کی زبردست وفاداری ھر ایک کے لئے مثال بننی چاھئیں۔"
درباری واقعہ نویس نے، جس کا فرض یہ تھا کہ وہ امیر کے ایک ایک لفظ اور کاروائی کو مدحیہ انداز میں لکھے تاکہ ان کی عظمت آنے والی نسلوں کے لئے قائم رھے (جس کے لئے امیر سب سے زیادہ مشتاق تھا) اپنا قلم چلانا شروع کیا۔
"جہاں تک تمھارا تعلق ھے" امیر نے درباریوں کو مخاطب کرتے ھوئے کہا "اس کے برعکس، ھم تم پر اپنے عتاب کا اعلان کرتے ھیں کیونکہ خواجہ نصرالدین نے جو کچھ بدمزگی پیدا کردی ھے اور اس کے علاوہ تمھارے آقا کی جان تک کا خطرہ تھا پھر تم نے مدد کے لئے ایک انگلی تک بھی نہ اٹھائی! ان کو دیکھو! مولانا حسین، ان حماقت بھرے گاؤدیوں کودیکھو۔ ھیں نہ یہ بالکل گدھوں کی طرح؟ واقعی کسی بادشاہ کے بھی ایسے بیوقوف اور لاپروا وزیر نہ رھے ھوں گے!"
"محترم امیر کا فرمانا بالکل بجا ھے" خواجہ نصرالدین نے ساکت درباریوں کی طرف دیکھ کر اس طرح کہا جیسے وہ پہلی چوٹ کے لئے نشانہ لے رھے ھوں۔ "جہاں تک میں دیکھتا ھوں ان کے چہروں پر دانشمندی کی کوئی نشانی نہیں ھے۔"
"بالکل ٹھیک، بالکل ٹھیک" امیر نے بہت خوش ھو کر تصدیق کی۔ "بالکل ٹھیک، ان کے چہروں پر دانشمندی نہیں ھے، سنتے ھو تم احمقو؟"
"میں یہ اضافہ کرنا چاھتا ھوں" خواجہ نصرالدین نے اپنی بات جاری رکھی "کہ نہ تو ان کے چہروں پر نیک صفات اور ایمانداری ھی کی نشانی ھے۔"
"یہ چور ھیں" امیر نے دلی یقین کے ساتھ کہا "سب کے سب چور ھیں۔ یہ ھم کو دن رات لوٹتے رھتے ھیں۔ ھم کو محل کی میں ایک ایک چیز کی نگرانی کرنی پڑتی ھے۔ ھر بار جب ھم اپنی املاک کا جائزہ لیتے ھیں کوئی نہ کوئی چیز غائب ھوتی ھے۔ ابھی آج صبح ھی ھم اپنا ریشمی پٹکا باغ میں بھول گئے اور آدھہ گھنٹے میں وہ غائب ھوگیا!۔۔ ان میں سے کوئی اس کو۔۔۔ سمجھے نا، مولانا حسین!۔۔"
جب امیر یہ کہہ رھا تھا تو ٹیڑھی گردن والے دانا نے اپنی نگاہ بڑی ریاکاری سے نیچے جھکا لی۔ کوئی اور وقت ھوتا تو شاید اس طرف توجہ نہ جاری لیکن اس وقت تو خواجہ نصرالدین بہت چوکنے ھو رھے تھے۔ انھوں نے فورا بات تاڑی لی۔
بڑے اعتماد کے ساتھ وہ دانا کے پاس گئے، اپنا ھاتھ اس کی خلعت کے اندر ڈال کر ایک مرصع کار ریشمی پٹکا باھر کھینچ لیا۔
"کیا امیر اعظم اس پٹکے کے ضایع ھونے پر افسوس کر رھے تھے؟"
حیرت و خوف سے تمام درباری پتھر ھوگئے۔ واقعی نیا دانا بہت خطرناک ثابت ھورھا تھا کیونکہ پہلے ھی آدمی کو جس نے اس کی مخالفت کی جرآت کی تھی اس نے بے نقاب کرکے کچل دیا تھا۔ بہت سے داناؤں، شاعروں، عمائدین اور وزرا کے دل خوف سے کانپ گئے۔
"خدا کی قسم" امیر نے زور سے کہا "یہی میرا پٹکا ھے، واقعی مولانا حسین عقل و دانش میں تمھارا کوئی جواب نہیں! آھا!" اور وہ درباریوں کی طرف مڑا۔ اس کے چہرے پر بڑا اطمینان تھا۔ اس نے کہا "آھا، آخرکار رنگے ھاتھوں پکڑے گئے! اب تم ھمارا ایک تاگہ بھی چرانے کی جرآت نہ کروگے! تمھاری لوٹ مار سے ھم کو کافی نقصان پہنچ چکا ھے! جہاں تک اس کمبخت چور کا تعلق ھے اس کے سر، ٹھڈی اور جسم سے تمام بال اکھاڑ لئے جائیں۔ اس کے تلوؤں پر سو ضربیں لگائی جائیں اور منہ کی طرف پیٹھ کرکے گدھے پر ننگا بٹھا کر شہر میں گشت کرایا جائے اور اس کو عام طور پر چور مشتہر کیا جائے!"
ارسلان بیک کا اشارہ پاتے ھی جلادوں کے فورا دانا کو پکڑ لیا، اس کو گھسیٹتے ھوئے باھر لے گئے اور اس پر ٹوٹ پڑے۔ چند لمحے بعد اس کو پھر کھینچ کر ھال میں بالکل ننگا، بےبال اور انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں لایا گیا۔ اب سب پر یہ بات واضح ھوگئی کہ ابھی تک اس کی داڑھی اور زبردست عمامہ اس کی کوتاھی، عقل اور حماقت کو چھپائے تھے جو اس کے چہرے مہرے سے نمایاں تھیں اور ایسا ریاکارانہ چہرے والا آدمی سوائے بدمعاش اور چور کے کچھ نہیں ھوسکتا۔
"لے جاؤ اس کو" امیر نے حقارت سے حکم دیا۔
جلاد اس کو گھسیٹ کر لے گئے۔ ذرا دیر بعد ھی کھڑکی سے ڈنڈوں اور لاتوں کی دھمک کے تال پر چیخوں کی آواز آنے لگی۔ آخر میں اس کو ایک گدھے پر ننگا بٹھا دیا گیا، اس کا منہ گدھے کی دم کی طرف کرکے نفیریوں اور نقاروں کی گونج میں بازار لے جایا گیا۔
امیر بڑی دیر تک نئے دانا سے باتیں کرتا رھا۔ درباری چاروں طرف بے حس و حرکت کھڑے تھے جو ان کے لئے شدید ترین اذیت تھی۔ گرمی بڑھ گئی تھی اور قبا کے اندر ان کی پیٹھوں میں بری طرح کھجلی ھو رھی تھی۔
وزیراعظم بختیار جو سب سے زیادہ نئے دانا سے ڈرا ھوا تھا کوئی منصوبہ سوچنے کی کوشش کر رھا تھا جس سے وہ اپنے حریف کو ختم کرنے کے لئے درباریوں کی مدد حاصل کرسکے۔ دوسری طرف درباری متعدد علامتوں سے یہ اندازہ لگا کر کہ اس مقابلے کا نتیجہ کیا ھوگا، یہ سوچ رھے تھے کہ بختیار کے ساتھ ایسے وقت غداری کس طرح کی جائے جو ان کے لئے بہت ھی اچھا ھو اور اس طرح نئے دانا کا اعتماد اور خوشنودی حاصل کی جائے۔
امیر نے خواجہ نصرالدین سے خلیفہ کی خیریت دریافت کی، بغداد کی خبروں اور ان کے سفر کے واقعات کے بارے میں پوچھا جن کا جواب انھوں نے بڑی ھوشیاری سے دیا۔ سب کچھ ٹھیک رھا اور امیر نے باتوں کے تکان سے تھک کر آرام گاہ ٹھیک ٹھاک کرنے کا حکم دیا ھی تھا کہ اچانک ھنگامہ اور ایک چیخ سنائی دی۔ داروغہ محل تیزی سے دیوان کے اندر داخل ھوا اور اعلان کیا:
"آقائے نامدار کی خدمت میں عرض ھے کہ کافر اور امن شکن خواجہ نصرالدین گرفتار کر لیا گیا ھے اور محل لایا گیا ھے!"
ابھی اس نے یہ اعلان کیا ھی تھا کہ اخروٹ کی لکڑی کے نقشیں پھاٹک پٹو پٹ کھل گئے۔ اسلحہ کی فاتحانہ جھنکار ھوئی اور پہرے دار ایک عقابی ناک، سفید داڑھی والے آدمی کوسامنے لائے جو زنانے لباس میں تھا۔ انھوں نے تخت کے نیچے قالین پر اس کو ڈھکیل کر گرادیا۔
خواجہ نصرالدین کے بدن میں کاٹو تو لہو نہیں تھا۔ ھال کی دیواریں ان کی نگاہ کے سامنے ناچ رھی تھیں اور درباریوں کے چہرے سبزی مائل دھند میں چھپے معلوم ھونے لگے۔۔۔