ریختہ صفحہ 41
مرزا جواں بخت کی شادی
ہر چند کہ تقریبات بسیار ریاستہائے ہندوستان میں نظر سے گزری ہیں، مگر جیسی شادی بازیب و تجمل شاہزادہ میرزا جواں بخت بہادر مرحوم کی ہوئی ایسی رنگین محفل وتقریب دلفریب باجاہ وحشم اس دریا دلی کے ساتھ کہیں نظر سے نہیں گزری۔بیان تکلّفات رسومِ ساچق و مہندی و بارات و آرائشِ شہر و روشنی و نقار خانہ جات وغیرہ فضول جانکر قلم انداز کیا جاتا ہے۔البتہ دو امر قابلِ نگارش ہیں۔ایک یہ کہقرینہء محفل سب سے جداگانہ تھا۔ دیوان کی بارہ دری میں جُدا جُدا محفلیں ترتیب دی گئی تھیں۔
ہر در میں ایک طائفہ ء جدا رقص کرتا تھا۔ شاہزادگان کی محفل جُدا، ملازمین معززین کی انجمن جدا فرقہ سپاہ کی بزم جدا۔ شاگرد پیشہ کے لئے جدا۔ اسی طرح ہر فریق کی محفل جدا تھی۔اہلِ شہر کے لئے حکمِ عام تھا کہ آئیں اور تماشائے رقص و سرور سے
محفوظ ہوں۔ رقاصانِ پری پیکر ہر طرف سرگرمِ ناز و انداز تھیں اور مہ جبینانِِ ناہید نواز زمزمہ پرواز ۔ دس بارہ روز تک محفلیں گرم رہیں۔ کُل ملازمینِ شاہی و رءوسائے شہر کے واسطے تورہ جات کا حکم تھا۔جس کا جی چاہے زرِ نقد پچاس روپیہ تورے کی قیمت لے خواہ تورہ لے۔جتنے قلم کے نوکر تھے نام بہ نام سب کو تورے تقسیم کئے جاتے تھے۔مثلاً میرے والد والد کا تورہ جدا میرے نام جدا۔ میرے چھوٹے بھائی کے نام جدا۔ وہ بھی نوکر تھا۔میری والدہ کے نام جدا۔کیونکہ ایک تنخواہ ان کے نام بھی تھی۔میں نے مہتممانِ تورہ بندی سے کہلا بھیجا تھا کہ آٹھ روز کے بعد ایک تورہ بھجوا دیا کرو۔اس دریا دلی سے تقسیم تورہ جات کی ہوئی تھی۔ جس روز تورہ آتا تھا تمام عزیز و اقارب دوست احباب کے گھر کھانا تقسیم ہوا کرتا تھا۔ایک تورہ میں طعام اس قدر ہوتا تھا کہ ایک محفل شکم سیر ہو کر کھا لے۔میرے
ریختہ صفحہ 42
مکان کا تمام دالان بھر جاتا تھا۔ایک ایک طباق میں پانچ پانچ سیر کھانا ہوتا تھا۔چار چار پانچ پانچ طرح کے پلاؤ رنگ برنگ کے میٹھے چاول ، سُرخ، سبز، زرد، اودے۔پانچ سیر کی باقر خانیایک شیریں ایک نمکین اور کئی قسم کے نان۔ غرضیکہ اقسامِ خوردنی سے کوئی شے باقی نہ رکھی گئی تھی۔مختصر یہ کہ کسی ریاست میں ایسی پُر تکلًف کوئی تقریب نظر سے نہیں گزری جو اس گئی گزری سلطنت میں دیکھنے میں آئی۔اس کے علاوہ جن شعراء نے قصائد تہنیت اور سہرے وغیرہ لکھے تھے ۔ باوجودیکہ ملازم تھے مگر سب کو صلے و و خلعت و انعام عطا ہوئے۔شاگرد پیشہ کو جوڑے تقسیم کئے گئے۔
شاہی سواری
بادشاہ کی سواری کی گاڑی میں سولہ گھوڑے لگائے جاتے تھے۔ اور نواب زینت محل بیگم صاحبہ کی گاڑی میں آٹھ گھوڑے لگائے جاتےتھے
کہاں وہ خسروِ عالی نظر بہادر شاہ کہاں وہ سرورِ نیکو سیر بہادر شاہ
کہاں وہ بادشہِ داد گر بہادر شاہ کہاں وہ داورِ والا گہر بہادر شاہ
کہاں سے باغیِ بے دین آ گئے ہَے ہَے
کہ نام اس کا جہاں سے مٹا گئے ہَے ہَے
مرزا جواں بخت ہی کی شادی پرمرزا غالبؔ اور استاد ذوقؔ نے سہرے کہے تھے ۔ ذوقؔ نے اس موقع پر ایک طویل قصیدہ بھی کہا جس کا مطلع ہے
پائے نہ ایسا ایک بھی دن خوشتر آسماں
کھائے اگر ہزار برس چکر آسماں!
ریختہ صفحہ 43
یہ کیسی آتشِ فتنہ لگا گئے ظالم جہاں میں ایک قیامت مچا گئے ظالم
غرضکہ نامِ خلافت اٹھا گئے ظالم سبھوں کو مٹنے سے پہلے مٹا گئے ظالم
کسی پہ قہر خدا کا نہ آفت آئی تھی !
یہ خاندانِ تمر پہ قیامت آئی تھی
حضرت بادشاہ کیوانِ بارگاہ حق آگاہ ء معرفت دستگاہ جامع الکمال و موردِ افضال حضرتِ ذوالجلال تھے۔سوائے رتبہ اعلائے سلطنت دینوی تصفیہ ء باطنی سے بھی موصوف تھے۔اکثر تصۤرفات حضرت کے سننے میں آئے ہیں۔چنانچہ از انجملہ ایک یہ بھی تکیہ کلام حضرت کا تھا کہ میری اولاد نا حق آرزو سلطنت کی رکھتی ہے۔یہ کارخانہ آگے کو چلنے والا نہیں ہے۔مجھ ہی پر خاتمہ ہے۔ از تیمور تا ظفر ، چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا۔حضرت کو بیعت میاں کالے خان صاحب نبیرہ ء مولانا فخر الدین علیہ
الرحمۃ سے ہے اور مریدانِ حضرت بھی بسیار از بسیار تھے۔اس کے علاوہ جمیع علوم و فنون عجیبہ میں دستگاہِ تام رکھتے تھے۔
فنِ خوش نویسی
خطِ نسخ میں حضرت بادشاہ ظل اللہ میرے جدِ بزرگوار میر امام علی شاہ صاحب مرحوم کے شاگردِ رشید تھے۔میرے دادا نے میرے والد اور بادشاہ کو برابر بتایا تھا۔ دونوں بزرگوار خوشنویس لاثانی تھے۔دہلی میں جتنے اس فن کے خوشنویس تھے ، میرے والد کے یا بادشاہ کے شاگرد تھے۔ایک بار ایک قصیدہ ء عربی سلطانِ روم کی مدح میں خدیو مصر کی جانب سے ولایت کو بھیجا گیا ۔ اور ولایت سے دہلی میں آیا۔ طامس صاحب پریذیڈینٹ دہلی نے میرے والد سے کہا کہ آپ اسے لکھ دیجئیے ۔ والد نے جواب دیا میں بغیر اجازت حضور کے نہیں لکھ سکتا۔آپ اجازت حاصل کیجئیے ، میں لکھ دوں گا۔طامس قصیدہ کو لے کر حضور میں گئے اور تمام کیفیت عرض کی۔
ریختہ صفحہ 44
حضور نے والد کو بلوا کر حکم دیا خلیفہ تُم لکھ دو۔ میرے والد نے اس کی صحت کرا کے لکھ دیا کہ طامس صاحب نے بہت سا سونا چڑھوا کر اسے تیار کرایا اور پھر وہ ولایت کو بھیجا گیا۔
فنِ شعر و سخن
حضرت بادشاہ شاعر لاجواب و زبان دانِ کامل تھے۔ کوئی محاورہ زبان کا باقی نہیں چھوڑا۔ پانچ دیوان موجود ہیں۔ شاہ نصیر محروم اور شیخ ابراہیم ذوقؔ خاقانی ہند کے شاگرد تھے۔
فنِ سپاہ گری
بندوق ایسی لگاتے تھے کہ بادید و شاید۔ ۔۔۔۔۔۔۔ نشانہ دوڑاتے ۔ کبھی نشانہ خطا ہی نہ کرتا تھا۔ بارہا ایسا دیکھنے میں ایا ہے کہ جانور اڑتا ہوا جاتا ہے ہوادار پر بندوق دھری ہے اٹھائی اور جھونک دی۔ چھتیانے کی حاجت نہیں ۔ لوٹ پوٹ ہوا اور ہوادار میں آ رہا۔دریا میں مچھلی یا مگر نے منہ نکالا اور گولی منخرین پر پڑی اور چِت ہو گیا۔
فنِ تیر اندازی
فنِ تیر اندازی میں بادشاہ آپا سنگھ سُکھ کے شاگرد تھے۔ بادشاہ کی کثرتِ تیر اندازی کا حال میں نے اپنے والد کی زبانی سنا ہے کہ بادشاہ زمانہ ء ولیعہدی میں جوان تھے۔ تیر اندازی کی مشق بڑھانے کو دیوانِ خاص میں ایک جرِ ثقیل لگا رکھی تھی۔ تین من چنوں کی پوٹ نیچے لٹکتی تھی ۔ جرِ ثقیل کے ذریعہ سے اسے چُٹکی سے کھینچا کرتے تھے۔ تیس ٹانک کمان کھینچنے پر قادر تھے۔ اچھی کمان کو کبادہ؎بنا کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبادہ۔ محنت مشقت۔ رنج کھینچنا۔ اصطلاح میں اس کمان کو کہتے ہیں جو بہت نرم ہوتی ہے۔ اور اس میں کئی جگہ چاک لگا دئے جاتے ہیں تا کہ آنکہ نرم ہو جائے۔ اور تیر پھینکنے میں کمان کو زیادہ زور سے کھینچنا پڑے اور اسی طرح کمان کھینچنے کی مشق ہو۔ ۔کبھی اس کا چلہ زنجیر کا ہوتا ہے (باقی حاشیہ آئندہ صفحہ)
ریختہ صفحہ 45
پھینک دیتے تھے۔ ایک دن سواری ء مبارک سلیم گڑھ سے قلعہ کو آتی تھی۔ راستہ میں مرزا فتح الملک بہادر ولیعہد ثانی کا باغ تھا۔ وہاں سے کچھ شور و غل کی آواز آئی تھی۔ فرمایا غُل کیسا ہے۔ عرض ہوئی مُرشد زادے تیر لگا رہے ہیں۔حُکم ہوا سواری اُدھر لے چلو۔ غرض وہاں پہنچے، سب آداب بجا لائے، فرمایا تیر لگاؤ، سب تیر لگانے لگے۔ فرمایا تیر کمان اِدھر لاؤ۔ کمانوں کی کشتی پیش کی گئی۔ اُن میں سے ایک کمان اُٹھا لی اور تین تیر کھینچ لئے۔ اور استاد پر باقاعدہ کھڑے ہو کر ایک تیر لگایا۔ تیر تودہ میں پیوست ہوا، ایک بالشت باہر رہا۔ سب نے تحسین آفرین کی۔ دوسرا تیر اور لگایا۔ وہ اُس سے زیادہ تودہ میں داخل ہوا۔ تیسرا وہ بالکل سب مغروق تھا۔ فقط لبِ سوفار ہی باہر رہے اور تمام تیر غرق تھا۔ نعرہ ء تحسین و آفرین بلند ہو گیا۔ یہ میری چشم دیدہ بات ہے۔
شمشیر زنی
پھکیتی کے فن میں بادشاہ میر حامد علی صاحب کے شاگرد تھے۔ میر حامد علی اور میر اشرف علی دونوں بھائی استادِ کامل تھے۔ ہندوستان کے بڑے بڑے رئیس ان کے شاگرد تھے۔ علی مد کی کسرت جو حضرت علی مرتضے شیرِ خدا کی ایجاد سے ہے وہ ان کے گھرانے کی میراث تھی۔
میں نے اپنے والد کی زبانی یہ سُنا ہے کہ بادشاہ تن تنہا آٹھ آدمیوں کے مقابل یکدم کسرت کرتے تھے اور آٹھ آدمی برابر ان پر چوٹ کرتے تھے اور بادشاہ سب کے وار روکتے تھے اور اپنی چوٹ چھوڑتے جاتے تھے۔ اس قدر مشق بہم پہنچائی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ 42)
ہندوستان میں اس کمان کو لیزم کہتے تھے۔ استاد ذوقؔ نے کہا ہے
خبر کر جنگِ نوفل کی تو مجنوں اہلِ ہاموں کو!
کبادہ تا صبا کھچوائے شاخِ بید مجنوں کو