اسکین دستیاب داستان غدر

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 41

مرزا جواں بخت کی شادی

ہر چند کہ تقریبات بسیار ریاستہائے ہندوستان میں نظر سے گزری ہیں، مگر جیسی شادی بازیب و تجمل شاہزادہ میرزا جواں بخت بہادر مرحوم کی ہوئی ایسی رنگین محفل وتقریب دلفریب باجاہ وحشم اس دریا دلی کے ساتھ کہیں نظر سے نہیں گزری۔بیان تکلّفات رسومِ ساچق و مہندی و بارات و آرائشِ شہر و روشنی و نقار خانہ جات وغیرہ فضول جانکر قلم انداز کیا جاتا ہے۔البتہ دو امر قابلِ نگارش ہیں۔ایک یہ کہقرینہء محفل سب سے جداگانہ تھا۔ دیوان کی بارہ دری میں جُدا جُدا محفلیں ترتیب دی گئی تھیں۔
ہر در میں ایک طائفہ ء جدا رقص کرتا تھا۔ شاہزادگان کی محفل جُدا، ملازمین معززین کی انجمن جدا فرقہ سپاہ کی بزم جدا۔ شاگرد پیشہ کے لئے جدا۔ اسی طرح ہر فریق کی محفل جدا تھی۔اہلِ شہر کے لئے حکمِ عام تھا کہ آئیں اور تماشائے رقص و سرور سے محفوظ ہوں۔ رقاصانِ پری پیکر ہر طرف سرگرمِ ناز و انداز تھیں اور مہ جبینانِِ ناہید نواز زمزمہ پرواز ۔ دس بارہ روز تک محفلیں گرم رہیں۔ کُل ملازمینِ شاہی و رءوسائے شہر کے واسطے تورہ جات کا حکم تھا۔جس کا جی چاہے زرِ نقد پچاس روپیہ تورے کی قیمت لے خواہ تورہ لے۔جتنے قلم کے نوکر تھے نام بہ نام سب کو تورے تقسیم کئے جاتے تھے۔مثلاً میرے والد والد کا تورہ جدا میرے نام جدا۔ میرے چھوٹے بھائی کے نام جدا۔ وہ بھی نوکر تھا۔میری والدہ کے نام جدا۔کیونکہ ایک تنخواہ ان کے نام بھی تھی۔میں نے مہتممانِ تورہ بندی سے کہلا بھیجا تھا کہ آٹھ روز کے بعد ایک تورہ بھجوا دیا کرو۔اس دریا دلی سے تقسیم تورہ جات کی ہوئی تھی۔ جس روز تورہ آتا تھا تمام عزیز و اقارب دوست احباب کے گھر کھانا تقسیم ہوا کرتا تھا۔ایک تورہ میں طعام اس قدر ہوتا تھا کہ ایک محفل شکم سیر ہو کر کھا لے۔میرے

ریختہ صفحہ 42
مکان کا تمام دالان بھر جاتا تھا۔ایک ایک طباق میں پانچ پانچ سیر کھانا ہوتا تھا۔چار چار پانچ پانچ طرح کے پلاؤ رنگ برنگ کے میٹھے چاول ، سُرخ، سبز، زرد، اودے۔پانچ سیر کی باقر خانیایک شیریں ایک نمکین اور کئی قسم کے نان۔ غرضیکہ اقسامِ خوردنی سے کوئی شے باقی نہ رکھی گئی تھی۔مختصر یہ کہ کسی ریاست میں ایسی پُر تکلًف کوئی تقریب نظر سے نہیں گزری جو اس گئی گزری سلطنت میں دیکھنے میں آئی۔اس کے علاوہ جن شعراء نے قصائد تہنیت اور سہرے وغیرہ لکھے تھے ۔ باوجودیکہ ملازم تھے مگر سب کو صلے و و خلعت و انعام عطا ہوئے۔شاگرد پیشہ کو جوڑے تقسیم کئے گئے۔
شاہی سواری
بادشاہ کی سواری کی گاڑی میں سولہ گھوڑے لگائے جاتے تھے۔ اور نواب زینت محل بیگم صاحبہ کی گاڑی میں آٹھ گھوڑے لگائے جاتےتھے


کہاں وہ خسروِ عالی نظر بہادر شاہ کہاں وہ سرورِ نیکو سیر بہادر شاہ
کہاں وہ بادشہِ داد گر بہادر شاہ کہاں وہ داورِ والا گہر بہادر شاہ

کہاں سے باغیِ بے دین آ گئے ہَے ہَے
کہ نام اس کا جہاں سے مٹا گئے ہَے ہَے
مرزا جواں بخت ہی کی شادی پرمرزا غالبؔ اور استاد ذوقؔ نے سہرے کہے تھے ۔ ذوقؔ نے اس موقع پر ایک طویل قصیدہ بھی کہا جس کا مطلع ہے


پائے نہ ایسا ایک بھی دن خوشتر آسماں
کھائے اگر ہزار برس چکر آسماں!
ریختہ صفحہ 43


یہ کیسی آتشِ فتنہ لگا گئے ظالم جہاں میں ایک قیامت مچا گئے ظالم
غرضکہ نامِ خلافت اٹھا گئے ظالم سبھوں کو مٹنے سے پہلے مٹا گئے ظالم

کسی پہ قہر خدا کا نہ آفت آئی تھی !
یہ خاندانِ تمر پہ قیامت آئی تھی​

حضرت بادشاہ کیوانِ بارگاہ حق آگاہ ء معرفت دستگاہ جامع الکمال و موردِ افضال حضرتِ ذوالجلال تھے۔سوائے رتبہ اعلائے سلطنت دینوی تصفیہ ء باطنی سے بھی موصوف تھے۔اکثر تصۤرفات حضرت کے سننے میں آئے ہیں۔چنانچہ از انجملہ ایک یہ بھی تکیہ کلام حضرت کا تھا کہ میری اولاد نا حق آرزو سلطنت کی رکھتی ہے۔یہ کارخانہ آگے کو چلنے والا نہیں ہے۔مجھ ہی پر خاتمہ ہے۔ از تیمور تا ظفر ، چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا۔حضرت کو بیعت میاں کالے خان صاحب نبیرہ ء مولانا فخر الدین علیہ
الرحمۃ سے ہے اور مریدانِ حضرت بھی بسیار از بسیار تھے۔اس کے علاوہ جمیع علوم و فنون عجیبہ میں دستگاہِ تام رکھتے تھے۔

فنِ خوش نویسی
خطِ نسخ میں حضرت بادشاہ ظل اللہ میرے جدِ بزرگوار میر امام علی شاہ صاحب مرحوم کے شاگردِ رشید تھے۔میرے دادا نے میرے والد اور بادشاہ کو برابر بتایا تھا۔ دونوں بزرگوار خوشنویس لاثانی تھے۔دہلی میں جتنے اس فن کے خوشنویس تھے ، میرے والد کے یا بادشاہ کے شاگرد تھے۔ایک بار ایک قصیدہ ء عربی سلطانِ روم کی مدح میں خدیو مصر کی جانب سے ولایت کو بھیجا گیا ۔ اور ولایت سے دہلی میں آیا۔ طامس صاحب پریذیڈینٹ دہلی نے میرے والد سے کہا کہ آپ اسے لکھ دیجئیے ۔ والد نے جواب دیا میں بغیر اجازت حضور کے نہیں لکھ سکتا۔آپ اجازت حاصل کیجئیے ، میں لکھ دوں گا۔طامس قصیدہ کو لے کر حضور میں گئے اور تمام کیفیت عرض کی۔

ریختہ صفحہ 44
حضور نے والد کو بلوا کر حکم دیا خلیفہ تُم لکھ دو۔ میرے والد نے اس کی صحت کرا کے لکھ دیا کہ طامس صاحب نے بہت سا سونا چڑھوا کر اسے تیار کرایا اور پھر وہ ولایت کو بھیجا گیا۔
فنِ شعر و سخن
حضرت بادشاہ شاعر لاجواب و زبان دانِ کامل تھے۔ کوئی محاورہ زبان کا باقی نہیں چھوڑا۔ پانچ دیوان موجود ہیں۔ شاہ نصیر محروم اور شیخ ابراہیم ذوقؔ خاقانی ہند کے شاگرد تھے۔
فنِ سپاہ گری
بندوق ایسی لگاتے تھے کہ بادید و شاید۔ ۔۔۔۔۔۔۔ نشانہ دوڑاتے ۔ کبھی نشانہ خطا ہی نہ کرتا تھا۔ بارہا ایسا دیکھنے میں ایا ہے کہ جانور اڑتا ہوا جاتا ہے ہوادار پر بندوق دھری ہے اٹھائی اور جھونک دی۔ چھتیانے کی حاجت نہیں ۔ لوٹ پوٹ ہوا اور ہوادار میں آ رہا۔دریا میں مچھلی یا مگر نے منہ نکالا اور گولی منخرین پر پڑی اور چِت ہو گیا۔
فنِ تیر اندازی
فنِ تیر اندازی میں بادشاہ آپا سنگھ سُکھ کے شاگرد تھے۔ بادشاہ کی کثرتِ تیر اندازی کا حال میں نے اپنے والد کی زبانی سنا ہے کہ بادشاہ زمانہ ء ولیعہدی میں جوان تھے۔ تیر اندازی کی مشق بڑھانے کو دیوانِ خاص میں ایک جرِ ثقیل لگا رکھی تھی۔ تین من چنوں کی پوٹ نیچے لٹکتی تھی ۔ جرِ ثقیل کے ذریعہ سے اسے چُٹکی سے کھینچا کرتے تھے۔ تیس ٹانک کمان کھینچنے پر قادر تھے۔ اچھی کمان کو کبادہ؎بنا کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبادہ۔ محنت مشقت۔ رنج کھینچنا۔ اصطلاح میں اس کمان کو کہتے ہیں جو بہت نرم ہوتی ہے۔ اور اس میں کئی جگہ چاک لگا دئے جاتے ہیں تا کہ آنکہ نرم ہو جائے۔ اور تیر پھینکنے میں کمان کو زیادہ زور سے کھینچنا پڑے اور اسی طرح کمان کھینچنے کی مشق ہو۔ ۔کبھی اس کا چلہ زنجیر کا ہوتا ہے (باقی حاشیہ آئندہ صفحہ)

ریختہ صفحہ 45

پھینک دیتے تھے۔ ایک دن سواری ء مبارک سلیم گڑھ سے قلعہ کو آتی تھی۔ راستہ میں مرزا فتح الملک بہادر ولیعہد ثانی کا باغ تھا۔ وہاں سے کچھ شور و غل کی آواز آئی تھی۔ فرمایا غُل کیسا ہے۔ عرض ہوئی مُرشد زادے تیر لگا رہے ہیں۔حُکم ہوا سواری اُدھر لے چلو۔ غرض وہاں پہنچے، سب آداب بجا لائے، فرمایا تیر لگاؤ، سب تیر لگانے لگے۔ فرمایا تیر کمان اِدھر لاؤ۔ کمانوں کی کشتی پیش کی گئی۔ اُن میں سے ایک کمان اُٹھا لی اور تین تیر کھینچ لئے۔ اور استاد پر باقاعدہ کھڑے ہو کر ایک تیر لگایا۔ تیر تودہ میں پیوست ہوا، ایک بالشت باہر رہا۔ سب نے تحسین آفرین کی۔ دوسرا تیر اور لگایا۔ وہ اُس سے زیادہ تودہ میں داخل ہوا۔ تیسرا وہ بالکل سب مغروق تھا۔ فقط لبِ سوفار ہی باہر رہے اور تمام تیر غرق تھا۔ نعرہ ء تحسین و آفرین بلند ہو گیا۔ یہ میری چشم دیدہ بات ہے۔


شمشیر زنی

پھکیتی کے فن میں بادشاہ میر حامد علی صاحب کے شاگرد تھے۔ میر حامد علی اور میر اشرف علی دونوں بھائی استادِ کامل تھے۔ ہندوستان کے بڑے بڑے رئیس ان کے شاگرد تھے۔ علی مد کی کسرت جو حضرت علی مرتضے شیرِ خدا کی ایجاد سے ہے وہ ان کے گھرانے کی میراث تھی۔

میں نے اپنے والد کی زبانی یہ سُنا ہے کہ بادشاہ تن تنہا آٹھ آدمیوں کے مقابل یکدم کسرت کرتے تھے اور آٹھ آدمی برابر ان پر چوٹ کرتے تھے اور بادشاہ سب کے وار روکتے تھے اور اپنی چوٹ چھوڑتے جاتے تھے۔ اس قدر مشق بہم پہنچائی تھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


(بقیہ حاشیہ صفحہ 42)

ہندوستان میں اس کمان کو لیزم کہتے تھے۔ استاد ذوقؔ نے کہا ہے

خبر کر جنگِ نوفل کی تو مجنوں اہلِ ہاموں کو!
کبادہ تا صبا کھچوائے شاخِ بید مجنوں کو​
 

شمشاد

لائبریرین
داستان غدر صفحہ 21

پہلا باب
میرے آبا
شُنیدہ کے بود مانندِ دیدہ

چہ پرسی از سر و ساما نیم عمر یست چوں کاکل
سیہ بختم پریشان روزگارم خانہ بردوشم

سلسلۂ نسب فقیر ظہیر حضرت علی مرتضٰے شیر خدا علیہ الصلوٰۃ والسلام تک پہنچ کر منتہی ہوتا ہے۔ سترہ پشتیں جد امجد حضرت شاہ نعمت اللہ ولی رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچتی ہیں اور حضرت شہ نعمت اللہ ولی سے تا حضرت امام ہمام امام رضا علیہ السلام ہشت پشت منتہی ہوتی ہیں اور حضرت امام رضا علیہ السلام سے تا حضرت علی مرتضٰے کرم اللہ وجہہ آٹھ پشت جا کر منتہی ہوتی ہیں۔ حضرت شاہ نعمت اللہ ولی کے نبیرگان شاہ نور اللہ اور شاہ حبیب اور شاہ محب اللہ خلف شاہ خلیل اللہ ابن شاہ نعمت اللہ ولی زمانۂ سلطنت بہمنیہ میں حست الطلب بادشاہ بہمنیہ ہندوستان میں تشریف لائے اور بادشاہ بہمنیہ کے پیر و مرشد تھے۔ چنانچہ مزار مبارک بزرگوار ممدوح کا شہر بیدر تخت گاہ شاہان دکن میں اب تک موجود ہے۔

داستان غدر صفحہ 22

دیگر بزرگان فقیر دربار سلاطین گورگانیہ آل تیمور میں عہدہ ہائے جلیلہ و مناصب عظمٰے پر فائز و ممتاز ہوتے چلے آئے ہیں حتی کہ تا اختتامِ سلطنت تیموریہ بادشاہ اخیر حضرت سراج الدین محمد ابو الظفر بہادر شاہ بادشاہ دہلی والد بزرگوار فقیر حقیر اعنی حضرت شاہ جلال الدین حیدر المخاطب بہ خطاب حلاج الدولہ مرصع رقم خاں بہادر منصب استادی حضرت بادشاہ عرش آرامگاہ پر سرفراز تھے۔ و نیز فقیر ظہیر سن دوازدہ سالگی میں بخڈمت داروغگی فوربیگی میں سرفراز کیا گیا تھا اور تمام کارخانہ جلوس شاہی مثل ماہی و مراتب و علم و سواری و چتر فقیر کی تفویض میں تھا۔ و بصلۂ خدمتگاری خطاب راقم الدولہ داروغہ فوربیگی پیش گاہ سلطنت سے عطا ہوا تھا۔ حاملانِ عہدہ ہائے مذکورۂ بالا ماتحت فقیر حقیر تھے۔

میری ولادت

حال ولادت فقیر شکستہ ہال بدیں عنوان ہے کہ والدین فقیر و جد ماجد فقیر کو اولاد کی نہایت تمنا تھی۔ قبل ولادت فقیر چند اولاد والد ماجد تلف ہو چکے تھے۔ جب میں پیدا ہوا تو میرے بزرگوں کو نہایت خوشی حاصل ہوئی اور غایت ناز و نعم سے میری پرورش ہونے لگی۔ تمام گھر کی آنکھ کی پتلی کا تارا میں تھا اور والد بزرگوار اس زمانہ میں لکھنؤ بدرماہہ بیش قرار ملازم تھے اور جد بزرگوار دہلی میں حضرت بادشاہ کے خط نسخ میں استاد تھے۔

جب میرا سن چار سالگی کو پہنچا تو میری والدہ نے مجھے روزہ رکھوایا۔ کیونکہ انہوں نے خدا کی جنا ب میں منت مانی تھی۔ نہایت دھوم سے روزہ کُشائی کی تقریب عمل میں آئی۔ زاں بعد میں ساڑھے چار بار کا ہوا تو میرا ختنہ کرایا گیا۔ اور میری مسلمانی پر تسمیہ خوانی کی تقریب شامل کر کے بڑی دھوم سے شادیٔ بسم اللہ کی۔ تمام شہر کے عمائدہ و امرا و

داستان غدر صفحہ 23

شاہزادگان وغیرہ فراہم ہوئے تھے اور دو روز تک محفل رقص و سُرود گرم رہی اور تمام عمائد کے یہاں تورے تقسیم کئے گئے۔ چند روز تک پخت طعام اور تورہ بندی جاری رہی۔

میں نے اپنے والد بزرگوار کی زبانی سُنا ہے کہ "تیری بسم اللہ کے روز عزیز و اقارب وغیرہ نے سو (100) اشرفی تیرے ہاتھوں میں دی تھیں۔" غرضیکہ میری بسم اللہ اس دھوم سے ہوئی تھی کہ میری شادی کتخدائی بھی اس دھوم سے نہیں ہوئی۔

تعلیم

بعد بسم اللہ مجھےمکتب میں بٹھایا گیا اور جناب اُستاد شیخ صفدر علی صاحب میری اتالیقی اور اُستادی پر مقرر ہوئے۔ اور بہت سے اطفال ہمسن میرے ہم مکتب ہوئے۔ میں نے ابجد خوانی کے بعد کلام مجید شروع کیا اور ہمراہ پند نامۂ سعدی۔ جب کلام مجید ختم کیا تو گلستان و بوستان بھی میں ختم کر چکا تھا اور کتب درسیہ مثل بہار دانش و یوسف زلیخا و دیگر انشاء وغیرہ دیکھتا تھا۔ ابو الفضل۔ سکندر نامہ تک میں نے شیخ صاحب مرحوم سے پڑھا۔ اتع بعد کتب دیگر پنجر قعہ و سہ نثر ظہوری و ملا طغرا، قصائد، عرفی و خاقانی، وقائع نعمت خان عالی مختلف اُستادوں سے پڑھیں۔ بعد مطالعۂ کتب فارسی کتب عربی کا مطالعہ میں نے مولانا قاری سید جعفر علی سے مدرسہ میں کیا۔ غرضیکہ رسن دوازدہ سالگی تک درس و تدریس کا اتفاق ہوا اور بعد ملازمت شاہی کے نوکری سے فرصت نہ حاصل ہوئی کہ تحصیل عربی تکمیل کو پہنچی۔ ہدایۃ النحو تک میں نے صرف نحو دیکھی ہے مگر ہاں کتب سیر و تواریخ مثل روضۃ الصفا و روضۃ الاحباب و تاریخ و شاہنامہ وغیرہ میری نظر سے گزرے ہیں۔

شاعری کا آغاز

ابتدا شعر و سُخن کی یہ ہے کہ میں جس زمانہ میں بہار دانش و زلیخا پڑھتا تھا ایک روز والد بزرگوار کے ایک دوست قدیم میاں

داستان غدر صفحہ 24

نبی بخش صاحب بنیسۂ شاہ نصیر مرحوم تشریف لائے اور میرے مکتب ہی میں دونوں بزرگوار بیٹھے ہوئے تھے کہ میاں بنی بخش صاحب نے ایک شعر کسی اُستاد کا پڑھا۔ میرے والس نے فرمایا کہ کیا لاجواب و عمدہ مطلع کہا ہے۔ سبحان اللہ۔

وہ یہ شعر تھا ؂

ہم سے پھری چشم یار دیکھیے کب تک رہے
گردشِ لیل و نہار دیکھیے کب تک رہے

مطلع کا کلمہ سن کر میرے کان کھڑے ہوئے، ڈرتے ڈرتے اپنے والد بزرگوار سے دریافت کیا کہ مطلع کے معنی کیا ہیں اور مطلع کسے کہتے ہیں۔ والد ماجد نے پہلے مجھے مطلع و مقطع کے معنی سمجھائے اور پھر فرمایا کہ علم عروض میں اول جو شعر لکھا جاتا ہے اس کے دونوں مصرعوں میں قافیہ ہوتا ہے اسے مطلع کہتے ہیں اور جس کے اخیر مصرعہ میں قافیہ ہو اسے شعر کہتے ہیں اور شعر کی تعریف بیان کی۔ غرضیکہ سب ارشادات جناب ممدوح میرے ذہن نشین ہو گئے اور میں نے فی البدیہ ایک مطلع اور ایک شعر اسی وزن پر موزوں کر کے پڑھا تو والد بزرگوار اور عمومی صاحب میاں نبی بخش صاحب نہایت خوش ہوئے اور میاں نبی بخش صاحب نے مجھے پیار کیا ور کہا کہ تو لا کلام شاعر ہو گا۔ وہ مطلع اور شعر یہ ہیں۔ (مطلع)

صحبت اغیار و یار دیکھیے کب تک رہے
مجھ سے یہ دار و مدار دیکھیے کب تک رہے

غیر سے دل تیرا یار صاف ہے آئینہ وار
میری طرف سے غبار دیکھیے کب تک رہے

بس وہ تعریف اور عنایات ان بزرگوں کی میرے حو میں بارود میں شتابہ اور سونے پر سہاگہ کا کام کر گئی۔ اور مجھے شوقِ شعر و سُخن پیدا ہو گیا اور روز بروز اویسی جوانی کی طرح ترقی پذیر ہوتا چلا گیا۔ اب یہ کیفیت ہوئی کہ جس کی زبان سے شعر اچھا سُنا وہ

داستان غدر صفحہ 25

دل میں نقش ہو گیا۔ گھر کے کتب خانہ کو دیکھا تو اہل فارس کے دواوین بکثرت نظر آئے۔ شعرائے فارس کے انتخاب بطور تذکرہ گھر میں موجود تھے ان کو دیکھنا شروع کیا۔ اردو کی غزل جس استاد کی سُنی یاد کر لی۔ دیوان ناسخ اور آتش اور واسوخت اور مثنویاں وغیرہ لکھنؤ سے تازہ تازہ دلی میں آ گئی تھی۔ شبانہ روز ان کے دیکھنے کا مشغلہ رہنے لگا۔ اور دو غزلیں بھی ٹوٹی پھوٹی لکھیں اور میاں نبی بخش صاحب کو دکھائیں۔ لیکن والد صاحب منع فرماتے تھے کہ تُو شعر نہ لکھا کر۔ حالانکہ خود شاعر لاجواب تھے۔ شاہ نصیر صاحب کے شاگرد تھے۔ غرضیکہ انہیں ایام میں حافظ قطب الدین صاحب مشیر شاگرد شاہ نصیر صاحب مرحوم نے شاہ صاحب کے مکان میں مشاعرہ قرار دیا۔ چونکہ مکانِ مشاعرہ میرے مکان سے بہت قریب تھا۔ میں شامل بزم ہونےلگا۔ اول غزل میں نے اسی مشاعرہ میں پڑھی ہے۔ اور جناب شیخ محمد ابراہیم صاحب ذوقؔ خاقانیٔ ہند کا جا کر شاگرد ہوا۔ اور داغؔ صاحب بھی شریک مشاعرہ تھے اور بہت سے نام آور شعرا موجود تھے۔ میرا سن کم و بیش اس زمانہ میں چودہ سال کا ہو گا۔ اس کے بعد دہلی میں ایک دو جگہ اور مشاعرے ہوئے تو میں ان میں شریک نہ تھا۔ طبعی طور طبع آزمائی کیا کرتا تھا۔ حضرت استاد مرحومکی خدمت میں جانے کا اتفاق تو ہمیشہ ہوتا۔ لیکن غزلیں اکثر ہی دکھانے کا اتفاق ہوا۔ الا فیضانِ محبت اُستاد سے بہت کچھ فائدہ حاصل ہوا۔ میں نے جب غزل بنا بر اصلاحپیش کی اور جناب ممدوح نے اُسے ملاحظہ فرمایا جب مقطع پر نظر پڑی تو خوش ہو کر یہ شعر پڑھا؂

دیوان ظہری فاریابی
در مکہ بدزد گر بیابی

اور نیز زبان فیض ترجمان سے فرمایا کہ ان شاء اللہ تو شاعر ہو گا۔ اسی کلام معجز نظام کا تصرف ہے جو میری زبان سے جاری ہوتا ہے۔ بعد انتقالاستاد مرحوم چند قصائد اور

داستان غدر صفحہ 26

اکثر غزل نگاری کا اتفاق ہوا۔ مگر افسوس ہے کہ وہ سب سرمایہ ایام غدر میں تلف ہو گیا۔ فقط دو غزلیں کہ مشہور ہو گئی تھیں اور لوگوں کو یاد تھیں اور مجھے بھی چند شعر یاد رہے وہ باقی رہے اور سب کلام ضائع ہو گیا۔ ازانجملہ ایک دو شعر مجھے یاد ہیں۔ مطلع قصیدہ در مدح بادشاہ۔

ہوائے موسم باراں سے کچھ بعید نہیں
بنے جو خانۂ گلشن نگار خانۂ چیں

شعر قصیدۂ دوم در مدح ولیعہد؂

نسیم مست نکلتی ہے جوشِ مستی میں
لپٹ لپٹ کے جوانانِ باغ سے ہر بار

اشعار قصیدہ در مدح محبوب علی خاں مختار بادشاہ؂

سال میں ایک مہینہ رمضاں کا ٹھہرا
حکم کرتا ہے پئے صوم خدائے متعال

اور مجھے چار مہینے متواتر گذرے
آخری ماہ جمادی سے لگا تا شوال

روزے رکھوائے مجھے چار مہینے پہیم
لیکن آیا میرے افطار کا ابتک نہ خیال

ایک غزل حسب فرمایش مہاراجہ اجیت سنگھ عمویٔ مہاراجہ والی ریاست پٹیالہ جس کے صلہ میں ایک ہزار روپیہ کی گھڑی مجھے عنایت ہوئی تھی۔ دو سو روپیہ مطلع کے اور آٹھ سو روپیہ آٹھ شعروں کے حساب سے صلہ عطا ہوا تھا۔مطلع تھا ؂

خوں بہائے عاشقِ ناشاد کیا
دلبروں کی داد کیا فریاد کیا

دوسری غزل کے دو شعر؂

چاہت کا جب مزا ہے کہ ہوں وہ بھی بیقرار
دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی

سوائے ان دو غزلوں کے کلام سابقہ میں سے کچھ باقی نہ رہا۔

داستان غدر صفحہ 27

اساتذہ اور معاصرین

بعد انتقال حکیم مومن خاں صاحب و شیخ محمد ابراہیم ذوق مرحوم و مغفور کے مرزا اسد اللہ خاں صاحب غالبؔ مفتی صدر الدین خاں صاحب ازردہؔ حکیم آغا جان صاحب عیشؔ، غلام علی خاں صاحب (1) وحشتؔ اور نواب مصطفےٰ خاں صاحب شیفتہؔ مشاہیر روزگار مستند اوستادی کے سزاوار تھے ۔ ان حضرات کے قطع نظر ہم لوگ نوخیزوں میں تصور کئے جاتے تھے۔ درجۂ اول پر مرزا زین العابدین (2) خاں صاحب عارف درجۂ دوم سید معین الدین صاحب معینؔ درجہ سوم حافظ قطب الدین صاحب مشیر، مگر حافظ مردسن اور کہنہ مشق تھے۔ ان کے شاگرد بھی بکثرت ہیں۔ اُن کو درجۂ دوم میں تصور کرنا زیبا ہے۔ علیٰ ہذا القیاس مرزا رحیم الدین صاحب حیاؔ بھی خوش بیان اور کہنہ مشق درجہ دوم میں شمار ہوتے تھے۔ ان کا کلام بھی پایۂ اُستادی سے ہم پایہ تھا۔ ان بزرگواروں کے بعد چند نوجوان نوخیز، نو عمر، شوخ طبع بامذاق، جدت پسند نازک خیال ہمعصر کہ زمانۂ حال کے موافق اگر غور کیا جائے تو ہر ایک یگانۂ روزگار تھا۔ نواب مرزا خاں
--------------------------------------------------------------------------------------------
(1) مرزا غالبؔ نے اس شعر میں انہیں کی طرف اشارہ کیا ہے؂

وحشتؔ و شیفتہؔ اب مرثیہ کہویں شاید
مر گیا غالبؔ آشفتہؔ نوا کہتے ہیں!

(2) مرزا زین العابدین خاں عارفؔ، مرزا غالب کے بیوی کے بھتیجے تھے، شاعری میں مرزا ہی کے شاگرد تھے۔ عین جوانی میں وفات پائی۔ مرزا غالبؔ نے انہیں کی وفات پر کہا تھا؂

ہاں اے فلک پیر جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور

داستان غدر صفحہ 28

صاحب داغؔ، میر مہدی حسین صاحب مجروحؔ، سید شجاع الدین عرف اماؤ (1)، مرزا تخلص انورؔ، مرزا قربان بیگ صاحب سالگؔ، مولوی عبد الکریم صاحب سوزؔ، خلف مولوی امام بخش صاحب صہبائیؔ، حکیم مولےٰ قلق شہزادہ، مرزا پیارے صاحب شہرتؔ، مرزا قادر بخش صاحب صابرؔ، میاں خدا بخش صاحب تنویرؔ، غلام احمد صاحب تصویرؔ، عبد القادر صاحب توقیرؔ، یوسف علی خاں صاحب عزیزؔ، مولوی امیر مرزا خورشیدؔ، میاں تشنہ صاحبؔ، آغا مرزا صاحب برادر خورد داغؔ صاحب، تخلص شاغلؔ۔

اس قدر احباب ایک مکان پر وقت شام بلا ناغہ ہم جلیس ہوتے تھے اور باہم داد سخن دیتے تھے۔ زمانۂ غدر تک یہ گلزار سخن شاداب و سیراب تھا اور یہ خوشنوایان چمن ایک جا فراہم ہو کہ نواسنجیاں کرتے تھے۔ فقیر بھی اس بوستانِ تاراج شدہ کا ایک نخل خزاں رسیدہ ہے۔ ہیہا ہیہات کیا تھا کیا ہو گیا۔ زمانۂ غدر کے بعد اس مرقع کا شیرازۂ جمیعت درہم برہم ہو کر ورق ورق منتشر ہو گیا۔

والدہ کی وفات

پہلے شفقت والدین کا حال معرض بیان میں آ چکا ہے۔ اب اعادہ اس کا فضول ہے۔ خصوصاً والدہ فقیر کہ بسبب مہر مادری
----------------------------------------------------------------------------------------------------------
(1) سید شجاع الدین عرف امراؤ مرزا انورؔ، حضرت ظہیرؔ مصنف کتاب ہذا کے چھوٹے بھائی تھے۔ اُستاد ذوق کے شاگرد تھے۔ بعد میں مرزا غالبؔ سے بھی اصلاح لی۔ لیکن شعر میں مومنؔ کے مقلد تھے۔ یہ شعر انہیں ہے۔

نہ ہم سمجھے نہ تم آئے کہیں سے
پسینہ پونچھئے اپنی جبیں سے

انورؔ 38 سال کی عمر میں بمقام جے پور فوت ہوئے۔ (نظیر)

داستان غدر صفحہ 29

مجھ پر اور میرے چھوٹے بھائی امراؤ مرزا انور پر جان و دل سے فدا تھیں۔ اور شبانہ روز ہم دونوں کومثل مردم چشم آنکھوں میں رکھتی تھیں۔ بے مہریٔ چرخ تفرقہ پرداز سے سن ہشت سالگی میں ان کا سایہ دامان عاطفت میرے سر سے اٹھ گیا اور وہ مخدومۂ مہربان مجھے اور میرے بھائی کو والد بزرگوار کے سپرد کر کے داعی اجل کو لبیک کہہ کر رہگرزئے روضۂ جنت ہوئیں۔ مجھے اول وہی صدمہ مہاجرت مادر مہربان کا ہوا۔ لیکن وقت رحلت میرے مادر مہربان نے بحالت ہوش و حواس بموجودگی اپنے جملہ بزرگان و عزیزان پہلے ہم دونوں بھائیوں کو گلے سے لگایا اور بہ کمال حسر و یاس ہمارے والد بزرگوار کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر کہا کہ آپ کو ان دونوں کی نسبت مہر و محبت پدری تو ہے لیکن ان کی نسبت مہر مادری بھی ضرور ہے۔ کیونکہ اب یہ بے ماں کے ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ مہر مادری رکھنے والا سوائے تمہارے کون ہے۔ اگر آپ نے ان کی نسبت کم روجہی کو کام فرمایا تو میں حشر میں دامنگیر ہوں گی۔ یہ کہہ کر اور کلمہ شہادت پڑھ کر راہی جنت ہوئیں۔ لیکن والد بزرگوار نے حسب وصیت مخدومہ فی الحقیقت محبت پدری و مہر مادری دونوں کو کام فرمایا۔ میری پرورش اور ناز برداری میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں فرمایا اور استاد تعلیم و تربیت پر مقرر فرمائے۔ ہزارہا روپیہ میں نے بیدریغ صرف کیا۔ زمانۂ طفولیت میں پتنگ اور کبوتروں میں صدہا روپے بربات کئے مگر جناب ممدوح نے مجھ سے کبھی دریغ نہ فرمائے جو طلب کیا وہ مجھے دیا۔ جب میں سن بلوغت کے قریب پہنچا تو مجھے گھوڑے کی سواری کا شوق ہوا۔ دو دو گھوڑے خریدے اور ان کو کھلایا اور تیار کیا۔ چڑھا اُترا۔ مگر یہ سب صرف ان جناب کے ذمہ رہا۔مجھے ایک استاد چابک سوار کا شاگرد کرایا اور سواری سکھلائی۔ گھوڑے کا بنانا اور چڑھنا۔ تیار کرنا اور

داستان غدر صفحہ 30

عیب و صواب سے آگاہ ہونا یہ سب باتیں میرے استاد نے بتائیں۔


معمول و مشاغل

میں علی الصباح قبل از نماز بامداد سوار ہو کر نوکری میں جایا کرتا اور قبل از برآمدن حضور پرنور زیر جھروکہ شاہی جا کر حاضر ہو جایا کرتا تھا۔ جس وقت حضور برآمد ہوتے قلمدان کمر میں لگا کر ہوادار کے ہمراہ ہو لیتا تھا۔ جو کچھ شعر اشعار ہنگام سواری موزوں ہوا کرتے تھے لکھتا جاتا تھا۔ مگر جب تھوڑی دور پیادہ پا ہمراہ چلتا تھا تو ازراہ الطاف خسروانہ حکم صادر ہو جاتا تھا کہ سوار ہو لے۔ عقب سواری مبارک دو ہاتھ رہا کرتے تھے۔ ان میں ایک پر سوار ہو جاتا تھا۔ میری سواری کا گھوڑا کوتل میرے ہمراہ رہتا تھا۔ کبھی اس پر سوار ہو لیتا تھا۔ قصہ مختصر نو بجے کے بعد مکان پر واپس آ جاتا تھا۔ میری نشت کا دیوان خانہ علیٰحدہ تھا۔ میرا چھوٹا بھائی امراؤ مرزا انور اور برادر عمہ زاد امیر مرزا خورشید ہم تینوں بھائی اس دیوانخانہ میں نشست رکھتے تھے۔ نو بجے صبح کے بعد دوست احباب فراہم ہوتے تھے اور اکثر طالب علم بھی ہمارے پاس سبق کو آتے تھے۔ دو گھنٹے کامل درس و تدریس کا شغل رہتا۔ اس اثنا میں شعر اشعار کا بھی تذکرہ ہو جاتا تھا۔ دوادین فارسی اور تذکرہ جات کی اشعار خوانی رہتی تھی۔ بعد گیارہ بجے صحبت برخاست ہو جاتی تھی۔ میں گھر میں جا کر کھانا کھاتا اور بعد تناول طعام گھنٹہ دو گھنٹے استراحت کر کے بیدار ہوتا تھا تو پھر احباب محلہ آ بیٹھتے تھے۔ گنجفہ چوسر وغیرہ کا شغل رہتا تھا۔ پانچ بجے دن کے گھوڑے پر سوار ہو کر بازار کی سیر کو چلا جاتا تھا۔ بعد مغرب مکان پر آتا تھا۔ اور پھر احباب کا مجمع رہتا تھا۔ ہر طرح کی دل لگی رہتی تھی۔ ایک دو ستار نواز آ جاتے۔ ستار طبلہ وغیرہ

داستان غدر صفحہ 31

سے دل کو فرحت ہوتی تھی یا کسی اور شغل میں دل بہلاتے تھے۔ کبھی ایک دو دوست متفق ہر کر کسہ دل لگی کی صحبت میں چلے جاتے تھے۔ غرض گیارہ بجے شب تک اپنی خوش طبعی میں بسر کرتے تھے۔ کسی طرح فکر و غم لاحق حال نہ ہوتا تھا۔ دن عید رات شب برات کی مانند بسر ہوتی تھی۔ سوائے ہنسنے ہنسانے کے اور خوش طبعی کے کوئی رنج پاس نہ پھٹکتا تھا۔ کوئی میلا تماشا ایسا نہ ہوتا تھا، جہاں اس مجمع احباب کا گزر نہ ہوتا۔ عجب ایک صحبت رنگین یاران خوش باش، خوش معاش لطیفہ سنج، بذلہ گو، ظریف الطبع کی فراہم ہوئی تھی۔ جن کو دنیا و مافیہا سے کچھ خبر نہ تھی۔ دن رات چہبہوں سے کام تھا۔ اس صحبت میں سب شریف زادے امیر زادے وغیرہ مجتمع تھے۔ کوئی بد وضع بد پیشہ، بدمعاش ہماری صحبت میں باریاد نہ ہوتا تھا۔ شہر کے شرفا میں سے ہر فن اور ہر کمال کا آدمی ہمارے پاس آتا جاتا تھا جو کسی فن کا اہل کمال دلیمیں وارد ہوتا تھا۔ ایک بار میرے مکان پر بھی ضرور اس کا گزر ہوتا تھا۔ غرضیکہ اس خوشحالی اور فارغ البالی سے زمانۂ غدر تک بسر اوقات ہوئی۔

غدر سے چار ماہ پیشتر میری شادی ہوئی۔ اس زمانہ میں میرا سن کم و زیادہ بائیس سالے کے قریب تھا کہ زمانۂ غدار و فلک ناہنجار نے یہ آتش فتنہ و فساد برپا کی۔ اور سنگِ حوادثِ آسودگان بستر خواب ناز کے سر پر برسانے شروع کئے۔ وہ صحبتیں عیش و عشرت کی سب ایک قلم درہم و برہم ہو گئیں۔ ع

آل قدح بشکست دراں ساقی نماند

ملازمت

اول تو والد بزرگوار ہر طرح کی نازبرداری فرماتے تھے۔ دوم میں اپنی ذات سے بھی پچاس روپے ماہوار کا ملازم تھا۔ تیسرے بباعث شعر و

داستان غدر صفحہ 32

سخن راجہ اجیت سنگھ بہادر والی پٹیالہ قدر دانی فرما کر میرے ساتھ مسلوک ہوتے تھے۔ چہارم خرید و فروخت اسپاں میں مجھے مفادِ کثیر ہوتا رہتا تھا کبھی شکایت تنگ دستی نہ ہونے پاتی تھی۔ مہاراجہ اجیت سنگ بہادر والئ پٹیالہ نے صلۂ غزل فرمائشی گھڑی معہ زنجیر طلائی قیمتی ایک ہزار روپیہ۔

صلۂ قصیدۂ مدحیہ۔ خلعت دوشالہ زریں و سیلا مندیل بنارسی و پارچہ قیمتی شش صد روپیہ عطا فرمایا۔

جب میرا سن تیرہ برس کا ہوا تو میری والدہ کے خالو مرزا خان صاحب نے رحلت فرمائی اور وہ لاولد تھے۔ داروغائی ماہی مراتب کی ان کے نام تھی۔ وہ داروغائی خالی ہوئی۔ اس پر امیدواروں کی درخوستیں بکثرت گذریں۔ اس سے پیشتر میری حاضر باشی حضور میں ہو چکی تھی۔ آٹھ برس کی عمر سے محل میں آتا جاتا تھا۔ میں بادشاہ کا شاگرد ہو گیا تھا۔ اصلاح لینے جایا کرتا تھا۔ میرے والد نے اس موقع کو بہت غنیمت سمجھ کر حضور میں عرض کی کہ خانہ زاد کا سن قریب پیری کے پہنچ کر لے۔ امیدوار ہوں کہ غلام زادے سے نوکری لی جائے اور پیشگاہ حضور سے سب استاد زادگان کی پرورش ہو گئی ہے۔ الا غلا ہنوز محروم ہے۔ یہ خدمت غلام زادے کو عطا فرمائی جائے کہ یہ ہر دو طرح سے مستحق اس عطیہ کبرئے کا ہے ازروئے قرابت بھی اور میری جانب سے امیدوار پرورش ہے۔ چنانچہ وہ درخواست مقرون اجازت ہوئی اور داروغائی ماہی مرابت پر مجھے سرفراز فرمایا گیا۔ اور مقام (1) خواجہ صاحب میں خلعت دروغائی اور خطاب راقم الدولہ سید ظہیر الدین حسین خاں داروغہ فوزبیگی عنایت ہوا اور میں نوکری میں حاضر باس رہنے
--------------------------------------------------------------------------------------------------------
(1) خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ کی درگاہ سے مراد ہے۔

داستان غدر صفحہ 33

لگا۔ جب سواری مبارک خواجہ صاحب میں رہتی تھی۔میں وہیں رہتا تھا۔ وونوں وقت خواصہ کا خوان میرے واسطے محل سے آتا اور میں ایک دن بھی رکاب سعادت سے جدا نہ ہوتا تھا۔ تیری برس سے بائیس سال کی عمر تک نوکری میں حاضر رہا۔ غدر میں جب بادشاہ کے سب ملازموں کو جُدا کیا گیا ہے، میں بھی جُدا ہوا ہوں۔

شادی

اور اسی سن سیزدہ سالگی میں میری نسبت قرار پائی۔منگنی ہو گئی۔ بعد تین سال میرا عقد نکاح بھی ہو گیا۔ لیکن شادی کے رسوم ادا نہیں ہوئے تھے۔ ساچق مہندی، برات چوتھی وغیرہ باقی تھیں۔ رخصت نہ ہوئی تھی۔ سامان جہیز وغیرہ سب امانت رکھا ہوا تھا۔ میرا آغاز شباب تھا۔ بسبب امور خلاف تہذیب شادی کرنے میں مجھے تامل تھا۔ ایام گزاری کرتا تھا۔ اسی وجہ سے والد مہربان مجھے سے ناراض تھے۔ مجھے سلام کی اجازت نہ تھی۔ مگر میری والدہ نے مجھےلے جا کر ان کے قدموں پر ڈال دیا اور میرا قصور معاف کرایا اور میں شادی کرنے پر رضامند ہو گیا۔ دھوم دھام سے میری شادی ہوئی اور سب رسومات حسب دستور ساچق مہندی برات ادا ہوئیں۔ رخصت بھی حسب زمانہ تکلف سے ہوئی۔ جہیز بھی پانچ ہزار روپے کا ملا۔ سب باتیں ہنسی خوشی دل لگی کے ساتھ ہوئیں۔ بعد انفراع شادی سب سامان جہیز کا کوٹھوں میں داخل کر کے قفل لگا دیئے گئے۔ اپنے گھر کا سامان استعمال میں لایا گیا۔

تباہی کی پیش گوئی

بعد چار ماہ کے غدر صاحب نازل ہوئے۔ اس سامان میں سے ایک چھلا بکار آمد نہ ہوا۔ وہ سب سرکار انگریزی کے نذر ہوا۔ اس کے علاوہ چالیس ہزار روپیہ سے زائد کا اثاث البیت جو زمانۂ بزرگان سے اندوختہ چلا آتا تھا، وہ سب دستبرد افواج انگریزی میں تاراج ہوا۔ ایسی ایسی نایاب چیزیں تلف

داستان غدر صفحہ 34

ہوئیں کہ جن کی نظیر ملنی محال ہے۔ بیس جلد کلام مجید مطلا مذہب جد بزرگوار کے ہاتھ کے سات کلام اللہ والد ماجد کے ہاتھ کے کاغذ یچزی کاشانی پانچ روپیہ دستہ پر اور بنا تیاری علاوہ اور ہزار جلد کتاب ہر اقسام کی وہ سب لُٹ لٹا کر برابر ہو گیا۔ کوئی سو روپیہ کی کتابیں مژل تاریخ روضتہ الصفا، تاریخ ررشتہ، شاہنامہ و دیگر کتب میرے والد نے میرے لئے مجھے سے مجگا ئی تھیں۔ لوٹ میں گئیں۔ میری شادی کے ایک ماہ بعد میری چھوٹی بہن کی شادی قرار پائی۔میری بی بی اور میری بہنوئی آغا سلطان بخشی باہم ماموں پھوپھی کے بہن بھائی تھے۔ اس شادی کے سامان وغیرہ میں مہینہ بیس روز صرف ہو گئے۔ اس کے ایک مہینہ بعد رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوا۔ مجھے تو شادی کے دو مہینہ بعد بھی عیش و آرام سے بیٹھنا نصیب نہ ہوا۔ ساتویں تاریخ رمضان کو شام کے وقت میں اور میرا بھائی امراؤ مرزا انور گھر سے روزہ بہلانے کے واسطے جامع مسجد کی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچ کر گزری کی سیر کر کے واپس آنے لگے تو وقت تنگ ہو گیا تھا۔ میں نے بھائی سے کہا چلو مٹیا محل میں چل کر روزہ کھولیں گے۔ میں اپنی سُسرال میں گیا۔ پہرے والوں نے اندر اطلاع کی۔ گھر میں سے مبارک خادمہ نے آ کر کہا میاں آتے کیوں نہیں۔ تم سے چھپنے والا کون ہے۔ فقط تمہارے خوشدامن ہیں۔ اور باقی سب بڑی بیگم صاحبہ کے ہمراہ بخشی جی کی شادی میں مہمان گئے ہوئے ہیں۔ فقط نواب صاحب اور تمہاری بھابو ہیں۔میں نے کہا کہ میرا چھوٹا بھائی میرے ساتھ ہے۔ تم پردہ کرا دو۔ غرض کہ وہ دالان میں چلی گئیں۔ چلمنیں چھوٹ گئیں۔ پردہ ہو گیا۔ باہر مکان کے صحن میں بنگلے کے آگے تختوں کا فرش تھا۔ وہاں نواب صاحب میرے خسر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے اور میرے بھائکی نے آگے بڑھ کر آداب کیا۔ فرمایا آؤ بیٹا

داستان غدر صفحہ 35

بیٹھ جاؤ۔میں ہنوز بیٹھا ہی ہوں۔ اور میرا بھائی میرے برابر میں ہے کہ یکایک روزے کی توپ کی آواز آئی۔ روزہ افطار کر کے نماز پڑھی گئی۔ پھر کھانےکا دسترخوان بچھا۔ کھانا کھانے بیتھے۔ دو لقمے کھا کر میرے خسر مجھ سے فرمانے لگ۔ بھئی نواب مرزا ایسا معلومہوتا ہے کہ شہر میں تلوار چلے اور خونریزی عظیم ہو۔ میں نے عرض کی حضرت آپ بزرگ ہیں آپ یوں ہی فرمایا کرتے ہیں۔ شہر میں تلوار چلنےکے کون سےآثار ہیں۔

نواب صاحب۔ بیٹا تم کیا میرے بات کو خلاف جانتے ہو۔ خدا کی قسم ایسا امر ہونے والا ہے۔ جب تو مجھے یقین کامل ہوا کہ ان کی بات کبھی خالف نہیں ہوتی۔ میں نے پوچھا کیا روس کی فوج آئے گی۔

نواب صاحب : اس کا علم اللہ کو ہے۔

پھرمیں نے پوچھا کہ حضرت یہ امر کب تک ہونے والا ہے۔

نواب صاحب : کہنے والے تو یہی کہتے ہیں کہ جو کچھ ہونا ہے۔ اسی رمضان میں ہو جئاے اور بھئی دیکھو میں تم سے کہے دیتا ہوں کہ میں شہید ہوں گا۔ میں نے عرض کی حضرت خدا کے لئے آپ یہ تو نہ فرمائیے۔۔ خدا آپ کو ہمارے سر پر زندہ اور سلامت رکھے آپ ہماری سپر ہیں۔

نواب صاحب : مشیت ایزدی سے کچھ چارہ نہیں۔

القصہ ہم دونوں بھائی کھانا اور پان کھا کر رخصت لے کر اپنے گھر آئے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 46


فنِ شہسواری


مشہور روزگار ہے کہ ہندوستان میں ڈھائی سوار تھے۔ ایک بہادر شاہ، دوسرے آپ کے بھائی مرزا جہانگیر جنھوں نے انگریزوں سے شرط بد کر الہ آباد کی خندق گھوڑے سے کُدوائی تھی اور نصف سوار کوئی مرہٹہ مشہور تھا۔اب سنِ مبارک اسّی برس سے تجاوز کر گیا تھا۔لیکن اب بھی جس دن گھوڑے پرسوار ہو جاتے تھے، اپنی شہسواری دکھا دیتے تھے۔یہ معلوم ہوتا تھا کہ گھوڑے پر ایک ستون قائم کر دیا ہے ۔ایک روز حضرت نظام الدین اولیا کو سواری مبارک جاتی تھی۔ تسبیح خانے میں سے جب برامد ہوئے تو ہوادار میں تو سوار نہ ہوئے ۔ سامنے خاصوں کی لین لگی ہوئی تھی ۔ آگے چابک سوار کھڑے تھے۔ مجّو بیگ کی طرف نگاہِ الطاف ہوئی ۔وہ آگے حاضر ہوئے۔ ان سے دریافت فرمایا کہ وہ دامالی گھوڑا نو خرید جو تمہاری تفویض ہوا ہے وہ قابلِ سواری ہے۔ مجّو بیگ نے ہاتھ باندھ کے عرض کی حضور کے اقبال سے تیار ہے۔فی الفور گھوڑا آگے آیا۔ حضور سوار ہوئے۔ سب ملازم رکابِ سعادت میں ہمراہ ہوئے۔ آہستہ آہستہ باتیں کرتے ہوئے نقار خانہ کی ڈیوڑھی سے باہر ہو کر ترپولیہ کے پتری پر پہنچے۔ گھوڑا گردن جھکائے ہوئے دہانہ سے کھیلتا ہوا اپنے کو بناتا ہوا جھومتا چلا جاتا ہے۔ وہاں جا کر مجّو بیگ نے نظر بچا کر گھوڑے کے پچھلے ہاتھ سے چھپکا دیا اور گھوڑا ذرا چمکا۔ چونکہ یہ شکار بند پکڑے ہوئے گھوڑے کے ساتھ لپٹے چلے آتے تھے ۔ بادشاہ نے مُڑ کر دیکھا اور فرمایا کیا کرتا ہے۔ میں تو خود گھوڑے کو روکے ہوئے چلا آتا ہوں۔ گھوڑے کی چالاکی میں کچھ کسر نہیں ہے۔ لے دیکھ تو، بس ذرا رانوں میں مسکا ہے کہ گھوڑے نے بہکے بھرنے شروع کئے۔ ایک پلہ بھر اسی طرح اُڑتاہوا ہو گیا ہے جیسے کوئی پرند اڑتا ہے یا ہرن چوکڑیاں بھرتا ہے۔ بعد تھپکی ہاتھ کی دے کر گھوڑے کو چمکار



ریختہ صفحہ 47


لیا۔ پھر سب لوگوں کو سواری کا حکم دیا۔ سب اپنی اپنی سواریوں پر سوار ہوئے اور حضور نے گھوڑے کو دو گامے قدم پر لگا دیا اور گھوڑے نے کلائیاں مار مار کر اور جھوم جھوم کر دوگامہ چلنا شروع کیا۔۔ اسی طرح تین کوس شہر سے درگاہ ہے اسی طرح پہنچے اور درواز ہ ء درگاہ پر گھوڑے سے اتر کر درگاہ میں داخل ہوئے ۔ واپس آتی دفعہ مولا بخش ہاتھی پر سوار ہو کر محل میں تشریف لائے۔


مبصّری

حضور انور جیسے شہسوار تھے اسی درجہ مبصّر بھی تھے۔گھوڑے کے عیب و صواب و قوم دور سے دیکھ کر بتا دیتے تھے۔ اور ہر قوم کی عادت سیرت سے از روئے تجربہ آگاہ تھے۔ شہر میں جو سوداگر بیش قیمت گھوڑا لے کر آتا تھا ۔ اوّل حضور کو ملاحظہ کرایا جاتا تھا۔ اُس کے بعد شہر کے رئیس دیکھتے تھے۔ جو گھوڑا اچھا قوم دار آتا وہ حضور لیتے تھے۔

حضور نے ایک نکتہ بطور قاعدہ کلیّہ تعلیم فرمایا تھا کہ گھوڑے کی قوم میں ہر رنگ میں سو برس سلطنت رہتی ہے۔ اُس رنگ کا گھوڑا بادشاہ ہوتا ہے ۔ سو برس تک اس رنگ کا گھوڑا شریر نہیں ہوتا بلکہ وفادار ہوتا ہے۔ اور اس کی پیدائش بکثرت ہوتی ہے اور وزیر کی شناخت یہ ہے کہ اُس کی عادت بادشاہ سے ملتی جلتی ہے۔ مگر بطورشاذ ایک دو شریر بھی ہو جاتا ہے اور اس کی پیدائش بنسبت بادشاہ قدرےکم ہوتی ہے۔چنانچہ فی زمانہ بورتے کی سلطنت ہےاور سبزے کی وزارت اور بعد سبزے کی سلطنت ہو گی اور بورتے کی وزارت۔

گھوڑے کی اقوام میں سے ایک قوم ہے پیریا۔ اس کا خواص یہ ہے کہ وہ پنجشنبہ


ریختہ صفحہ 48


کے روز روزہ دار رہتا ہے اور اپنے تھان پر نجس اور غلیظ آدمی کو بطور خاکروب نہیں آنے دیتا۔ اور اگر آ جائے تو فوراً اس پر چوٹ کرتا ہے۔

ایک بار میں دربار میں موجود تھا ولایتی سوداگر گھوڑے لے کر آئے۔ دس بارہ گھوڑے تھے۔ لال پردہ کے آگے گھوڑوں کی صف استادہ تھی اور حضور دیوانِ خاص کے بیچ کے در میں تشریف رکھتے تھے۔ اتنے فاصلے سے دیکھ کر فرما دیا کہ ان گھوڑوں میں موہ گھوڑا اچھا ہے بشطیکہ شریر نہ ہو ۔ غرضکہ موہ گھوڑے کو آگے طلب کیا گیا۔ واقعی گھوڑا شکل وصورت کا بہ نسبت کاروان اچھا تھا۔ حکم ہوا سواری دیکھی جائے۔ ایک چابک سوار کو سوار کرایا گیا۔ چابک سوار نے چاہا باگوں کو پھیر کر دکھائے۔ گھوڑے نے باگ پر لے کر شرارت شروع کی۔ کھڑے ہو کر تالی بجائی اور نیچے اتر کر باچھی پھینکی۔ موزے پر منہ ڈالا۔ سوار بودا تھا ڈر گیا مارا نہ گیا۔ جان بچانی مشکل ہوئی۔ اُسے اتار دیا گیا۔ دوسرا سوار چڑھا اور اس نے مارنا شروع کیا ۔ گھوڑا اُڑ کر فراش خانہ کے دالان میں جا پڑا، اکثر سامان کا نقصان ہوا۔ سوار نے وہاں سے مار کر کودایا آبدار خانہ میں لے گھسا۔ وہاں سے بھی مار کر نکالا ۔ وہاں سے چڑیا خانے میں جا پڑا ۔ وہاں سے مار کر باہر لایا۔ دو گھنٹے برابر سوار کی اور گھوڑے کی لڑائی رہی ۔اب گھوڑے کا یہ حال ہو گیا کہ پسینے میں شرابور اور تمام رانوں کے ٹکڑے ہو گئے۔ جا بجا سے خون کی فصدیں کُھل گئیں اور خون بہت بہہ گیا۔ اور گھوڑا نڈھال ہو گیا۔ اب سوار جدھر کو پھیرتا ہے، پھر جاتا ہے ۔ کیا مجال کہ سرتابی کرے اور بادشاہ کے آگے ناک پھیر کر دکھلا دیااور سلام کر کے اتر پڑا۔ اُسی وقت بادشاہ نے ایک شالی رومال چابک سوار کو عطا فرمایا۔


مولا بخش نامی ہاتھی


مولا بخش نامی ایک قدیم ہاتھی معمّر تھا۔ کئی بادشاہوں


ریختہ صفحہ 49

کی سواری دی تھی۔ اس ہاتھی کی عادتیں بالکل انسان کی تھیں۔ قد و قامت میں ایسا بلند و بالا ہاتھی ہندوستان کی زمین پہ نہ تھا اور نہ اب ہے۔ یہ ہاتھی بیٹھا ہوا اور ہاتھیوں کے قد کے برابر ہوتا تھا۔ خوبصورتی میں اپنا جواب نہ رکھتا تھا۔
دو از دہ ماہ مست رہتا تھا۔ کسی آدمی کو سوائے ایک خدمتی کے پاس نہ آنے دیتا تھا۔ جس دن بادشاہ کی سواری ہوتی تھی اس سے ایک دن پیشتر بادشاہی چوبدار جا کر حُکم سُنا دیتا تھا ۔ میاں محمد بخش کل تمہاری نوکری ہے۔ ہوشیار ہو جاؤ، نہا دھو کر تیار ہو رہو۔ بس اُسی وقت سے ہوشیار ہیں۔ فیلبان تہان سے کھول کر جمنا میں لے گئے اور لے جا کر لٹا دیا اور جھانوں سے میل چُھڑانا شروع کیا۔ پھر دوسری کروٹ لٹا کر دوسری طرف سے پاک صاف کر کے تھان پر لائے۔ نقاش نے مستک پر نقش و نگار کھینچ دئیے۔ وقت سواری گدیلہ کَس کر کارخانہ میں لے گئے۔ گہنا پہنایا جھولی ڈالی۔ عماری کسی نقار خانہ کی ڈیوڑھی پر لا کر استادہ کر دیا۔ برابر اور ہاتھیوں کی قطار کھڑی جس وقت ہوادار سواری بادشاہ نقار خانہ کے دروازہ سے برامد ہوا۔ چیخ مار کر تین سلام کئے اور خود ہی بیٹھ گیا۔ جس وقت تک بادشاہ سوار نہ ہو لیں اور خواص نہ بیٹھ لے کیا مجال کہ جنبش کر جائے۔ جب بادشاہ سوار ہو لئے اور فوجدار نے اشارہ کیا فوراً استادہ ہو گیا۔ ایک خوبی اور تھی کہ وقتِ سواری دو کمانیں اس کے دونوں کانوں میں پہنائی جاتی تھیں دو ترکش نیزوں کے کانوں کے نیچے آویزاں کئے جاتے تھے اور بہت بڑی سُپر فولادی مستک پر نصب کی جاتی تھی اور بہت بڑا حقہ چاندی کا معہ چلم و چنبر نقرہ اس کے سر پر رکھا جاتا تھا اور پیچوان کی سٹک فوجدار خان اپنے کندھے پر رکھتے۔ بادشاہ ٹھنڈا حقہ پیتے جاتے تھے اور سواری رواں ہوتی تھی۔ کیا مقدور ہے کہ حقہ گرنے پائے یا چلم گرے۔ایسا سبک رفتار تھا۔ بڑی ۔۔۔۔۔۔۔ رفتار تھی۔ قصہ مختصر جب


ریختہ صفحہ 50


سواری سے فرصت پائی ۔ پھر ویسا ہی مست ہے جیسا تھا۔ یہ کمال اس ہاتھی کو حاصل تھا۔اس کے علاوہ ایک وصف اور تھا کہ تمام دن خورد سال جو بارہ برس کے سِن سے کم سِن بچے معصوم ہوتے تھےاس کے گرد بیٹھے رہتے تھے۔ اُن سے کھیلا کرتا تھا اور اپنے ہاتھوں سے گنّوں کی پوریاں توڑ کر صاف کر کے ان کو دیا کرتا تھا۔ دن بھر بچے اسے گھیرے رہتے تھے۔ بچے اسے کہتے تھے مولا بخش نکی آوے تو وہ ایک اپنا اگلا ہاتھ زمین سے اٹھا لیتا تھا اور ہلایا کرتا تھااور بچے جتنی دیر کی تعداد لگا دیتے اور کہہ دیتے کہ گھڑی بھر یا دو گھڑی اُسی قدر ہاتھ اٹھائے رکھتا تھا۔ جب بچے کہتے ٹیک دو، ہاتھ ٹیک دیتا۔ پھر آپ قون کہتا۔ بچے ایک پاؤں سے کھڑے ہو جاتے۔ اگر وہ گھڑی بھر سے پیشتر کہتے کہ گھڑی پوری ہو گئی تو سر ہلا دیتا کہ ابھی نہیں ہوئی ہے۔ اور جب گھڑی پوری ہو جاتی تو خود ہی قُوں کہہ دیتا۔ بچے پاؤں ٹیک دیتے تھے۔ جس دن بچے نہ آتے تو چیخیں مار کر بُلا لیتا تھا۔ بچوں کو گنٗے کھلاتا۔ جب فیلخانہ ء شاہی اور اصطبل پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا تو اسپِ ہمدم اور مولا بخش ہاتھی نے دانہ پانی چھوڑ دیا۔ اسپِ ہمدم بہت بڑا شاندار گھوڑا دو رکابہ نہایت خوشرنگ اور خوبصورت تھا۔ سواروں میں سب کوتلوں سے آگے چلتا تھا۔ زمانہ ء ولیعہدی سے بادشاہ کی سواری میں تھا۔ اب اس کی عمر چالیس سال کی ہوئی تھی۔ تمام جسم اس کا منقش تھا اور چھوٹے چھوٹے گلاب کے پھول کے برابر سُرخ رنگ کے پھول تھے۔

جب ان دونوں نے آب و دانہ ترک کر دیا تو مولا بخش کے فیلبان نے جا کر سانڈرس صاحب کو اطلاع دی کہ ہاتھی نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔ کل کلاں کو نیکی بدی ہو جائے گی تو سرکار مجھے پھانسی دے گی۔ سانڈرس صاحب کو باور نہ آیا۔ فیلبان کو گالیاں دیں اور
 

الشفاء

لائبریرین
-------------------------
ریختہ صفحات 116 سے 125
-------------------------

صفحہ نمبر 116
کا ہاتھ پکڑ کر دیوان خاس کے اول در میں جہاں ہم لوگ بھی تھے اُن سے گفتگو شروع کی گئی۔
تقریر ملا زمان شاہی- سنو بھائی مسلمانو، تم لوگوں کا بیان ہے کہ تنازعہ کی بنا دین پر پڑی ہے اور دین اسلام پر ہم لوگ بگڑ کر آئے ہیں۔ پس تم کو واجب اور لازم ہے کہ اتباع شرع شریف اور پیروئ بزرگان دین متین کی کرو اور جو احکام دین اسلام اور شریعت محمدی کے ہیں ان پر عملدرآمد رکھو۔ جب تم پورے مسلمان ہو اگر اس میں نفسانیت اور تعصب کو راہ دو گے تو دائرہ اسلام سے خارج ہو جاؤ گے۔ تمہارے پیغمبر رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں یا ان کے خلفائے کرام کے زمانے میں جو اقوام یہود و نصاریٰ و دیگر کفار سے دین پر لڑائیاں ہوئی ہیں تو اول ان لوگوں سے تین شرطیں پیش کی جاتی تھیں۔ ان میں جونسی وہ منظور کر لیتے تھے اسی کو قائم کی جاتا تھا۔
شرط اول- اگر تم لوگو دین اسلام اور دین برحق قبول کرو اور کلمہ پڑھو اور واحدانیت خدا اور نبوت رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاؤ تو تم ہمارے بھائی بند ہو۔ جو ہم ہیں وہ تم ہو۔ ہم میں تم میں کچھ فرق نہیں۔ تمہارا مال اسباب ، ملک زمین، جورو بچوں سے ہم کو کچھ تعرض نہیں۔
دوم:- یہ ہے کہ اگر دین اسلام قبول نہیں کرتے تو جزیہ دینا قبول کرو۔ پھر تم لوگ ہماری حمایت میں ہو۔ کبھی تم سے عہد شکنی نہ کریں گے۔
سوم:- اگر ان دونوں شرائط میں سے کوئی شرط تم کو منظور نہیں تو ہمارے تمہارے درمیان تلوار ہے وہ فیصلہ کردے گی۔ پھر وہ لوگ اگر بمقابلہ پیش آتے تھے اور نوبت

صفحہ نمبر 117
جدال قتال کی پہنچتی تھی تو ان کو کیفر کردار کو پہنچایا جاتا تھا۔ مگر عورت اور بچے پر ہاتھ کسی نے نہیں اٹھایا۔ عورات اور اطفال قتال سے مستثنیٰ کر دیے جاتے تھے یا جو کفار ذمی ہو کر اہل اسلام کی راہ میں آ جاتے تھے پھر کسی کو حوصلہ دست درازی کا نہ ہوتا تھا۔ جائے تعجب ہے کہ یہ لوگ اسلام قبول کرتے ہیں اور کلمہ بھرتے ہیں اور تم لوگ ان کے درپئے قتل ہو اور ان کو قتل کرتے ہو۔ کہ کہاں کی دینداری ہے اور کونسا دین ہے۔ جس کی تم پیروی کرتے ہو۔ عورت اور بچوں کا قتل کسی مذہب میں روا نہیں۔
فریق باغید:- اچھا تو پھر ہم کو ان کے ساتھ کیا کرنا چاہیے۔
ملا زمان شاہی:- ان کو بادشاہ اسلام کے سپرد کرنا چاہیے وہ ان کو مسلمان کریں گے اور جس کے ساتھ ان کی خوشی ہو گی ان کے عقد کر دیے جائیں گے۔ غرضیکہ بعد گفتگوئے بسیار وہ ہمارے سپرد کرنے کو راضی ہوئے کہ اچھا تم ان کو اپنے پاس رکھو۔ یہ عرض حضور میں کرائی گئی۔ حکم ہوا کہ ان سے ان لوگوں کو لے کر اپنی تحویل میں رکھو اور ان کے کھانے پینے کی اچھی طرح غورو پرداخت کرو اور جو زخمی ہیں ان کی مرہم پٹی کرو۔ غرضیکہ ان سب کو جو تسبیح خانہ کی سیڑھیوں کے نیچے دیوان خاص کے صحن میں زمین پر بیٹھے ہوئے تھے ان میں پانچ چار مرد ہوں گے اور باقی عورات اور اطفال خورد سال لڑکے لڑکیاں تھے۔ میرے قیاس کے بموجب قریب ساٹھ کے ان کا شمار ہوگا۔ میں نے اس وقت تسبیح خانہ کے چبوترہ پر کھڑے ہو کر کہا کہ تم سب دیوان خاص میں آتے تھے تو اس وقت کسی شخص نے ان سے کہا کہ اس شخص نے بڑی کوشش کر کے تمہاری جانیں بچائی ہیں تو وہ سب لوگ مجھ کو دعائیں دینے لگے اور اسی اثنا میں ڈیوڑھی کا پردہ اٹھا اور وہ خوبصورت نوجوان

صفحہ نمبر 118
لڑکی جس کو میں نے اس ولایتی کے ہاتھ سے چھینا تھا اور پوربیوں کے ہاتھ سے بچایا تھا، محل سے باہر آئی اور پیچھے اس کے دو عورتیں تھیں۔ تینوں نے آ کر مجھ سے پوچھا کہ اب کہاں جائیں۔ میں نے جواب دیا اور سب تمہارے ہم قوم دیوان خاص میں موجود ہیں تم بھی ان میں شامل ہو جاؤ۔ چونکہ وہ یہ جانتی تھیں کہ میں نے پوربیوں اور ولایتی کے ہاتھوں سے چھڑا کر اندر بھیج دیا تھا اور ا سکے دل میں خوف خدا ہے اور ایسی حالت یاس میں ڈوبنے کو تنکے کا سہارا بہت ہوتا ہے ، مجھ سے کہنے لگی کہ اب تم کہاں جاؤ گے۔ میں نے کہا کہ اب گھر جاؤں گا اور صبح کو نوکری میں پھر حاضر ہوں گا۔ اس نے کہا تم مجھے اپنے گھر لے جاؤ میری جان بچ جائے گی۔ میں نے کہا کہ اب تم کو کوئی نہیں مارے گا۔ تم بادشاہ کی حفاظت میں ہو۔ اس نے جواب دیا دیکھا چاہیئے۔ تم اپنے ساتھ لے چلو۔ میں نے کہا کہ میں کیونکر لے چلوں ۔ تمہیں دیوان خاص کے باہر نکلتے ہی یہ لوگ مجھے اور تمہیں دونوں کو ماڑ ڈالیں گے۔اس پر وہ آبدیدہ ہو کر دیوان خاص میں چلی گئی۔ میں اپنے گھر کو روانہ ہوا۔ دیوان عام کے چوک میں ہوتا ہوا نقار خانہ کے دروازہ سے نکل کر قلعہ کے لاہوری دروازہ سے باہر آیا۔ شام کی تاریکی پھیل گئی ۔ جب میں اردو بازار کی سڑک پر آیا ہوں تو شہر میں سناٹا تھا۔ سڑک پر ایک چڑیا نہ تھی۔ ایک عجیب بے رونقی تھی۔ شہر کا شہر کھانے کو دوڑتا تھا۔ جا بجا دوکانیں لوٹی پڑی تھیں۔ مکانوں کے دروازے بند تھے۔ روشنی کا نام نہ تھا۔ لالٹینوں کے شیشے ٹوٹے ہوئے تھے۔ میں خونی دروازہ کے آگے ہوتا ہوا کوتوالی کے سامنے سے گزر کر چھوٹے دریبہ کے پھاٹک پر پہنچا اور چھوٹے دریبے میں چھڑے والوں ، مٹھائی والوں اور بزازی کی دوکانیں سب ٹوٹی ہوئی پائیں اور صراف کی دکان پر ایک افیونی فقیر

صفحہ نمبر 119
برہمن زخمی پڑا ہوا تھا۔ وہ ہائے ہائے کر رہا تھا۔ اس کی پشت کے اوپر تین زخم ہلکے ہلکے تلوار کے تھے۔ وہاں سے آگے گزر بڑھ کر ماڑی وارے میں ہوتا ہوا اپنے مکان پر آیا۔ گھڑی بھر رات آ گئی تھی۔ ابھی دروازہ نہیں کھلا تھا۔ مارے پیاس کے میری زبان باہر نکلی ہوئی تھی اور حلق میں کانٹے پڑے ہوئے تھے۔ مجھ کو دیکھ کر والد نے خدا کا شکر ادا کیا کہ یہ زندہ سلامت گھر میں آگیا۔ اسی وقت میں نے شربت پیا۔ روزہ کھولا، کھانا کھایا۔ والد نے مجھ سے حال پوچھا ۔ میں ساری حقیقت بیان کی کہ اس طرح سے میں نے فہمایش کر کے ان لوگوں کو بچایا ہے۔ میرے والد نے فرمایا کہ خدا تجھ کو جزائے خیر دے تو نے بہت اچھا کام کیا۔ میں نہایت خوش ہوا۔ ہم سادات ہیں، ہماری سرشت میں رحم و ترحم خمیر ہے۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی اولاد نے کیسے کیسے رحم کیے ہیں۔ جناب علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے اپنے قاتل کو کاسئہ شیر بھیجا ہے ۔ تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ قلعہ کی جانب سے توپوں کو آواز آئی ۔ میں نے سمجھا انگریزوں کی فوج پیچھے سے آ پہنچی۔ میں نے آدمی کو بھیجا کہ جاؤ خبر لاؤ۔ یہ توپیں کیسی چلتی ہیں۔ آدمی نے واپس آ کر جواب دیا کہ چھاؤنی کی پلٹنیں شہر میں آ گئی ہیں۔ اس کی سلامی کی توپیں چل رہی ہیں۔ میں دن بھر کا مارا تھکا پلنگ پر لیٹتے ہی سو گیا۔ صبح کو منھ ہاتھ دھو کر پھر قلعہ کو روانہ ہوا۔ دن بھر وہاں حکم احکام کی تعمیل کرتا رہا۔ اس روز بادشاہ سلامت کی طرف سے شہر کا انتظام ہوا اور کوتوال مقرر کیا گیا۔ مجھے حکم ہوا کہ سقوں کو لے جاؤ اور میگزین میں آگ لگ رہی ہے اس کو بجھاؤ۔ اور اگر بارود میں آگ لگ گئی تو تمام شہر اڑ جائے گا۔ غرض کہ کوتوال کی معرفت دو تین سو سقے میرے پاس پہنچے اور جن مکانوں میں آگ لگ رہی تھی وہ بجھوائی۔ دریا کی طرف کا شہر کا ڈنڈا

صفحہ نمبر 120
گرا ہوا پڑا تھا۔ گولوں کے پہاڑ لگے ہوئے تھے۔ دو سو توپ کے قریب چھتیس پینی توپھڑوں پر تیار تھیں۔ اسی قدر توپ کی نالیں زمین پر پڑی تھیں۔ بندوقوں کا کچھ شمار حساب نہ تھا۔ تپنچے لا انتہا تھے۔ غرضکہ سار میگزین آلات حرب سے معمور تھا۔ میں تو اس کو اسی طرح چھوڑ کر آیا تھا۔ دو تین روز کے بعد سنا کہ بدمعاش اس سامان کو لوٹ کر لے گئے۔ مگر توپ کے گولے باقی رہ گئے۔ شہر کی یہ کیفیت تھی کہ بدمعاش شہر کے پوربیوں کو ہمراہ لئے ہوئے بھلے مانسوں کے گھر لٹواتے پھرتے تھے اور جس کو مالدار دیکھا اس کے گھر پر پوربیوں کو لے جا کر کھڑا کر دیا کہ یہاں میم چھپی ہوئی ہے، صاحب لوگ ہیں۔ اس بہانے سے گھر میں گھس گئے اور لوٹ لیا۔ بادشاہی ملازموں کی یہ حقیقت تھی کہ ہر وقت اجل سر پر کھڑی تھی۔ ہر دفعہ لوگ آ کر ہم کو گھیر لیتے تھے اور سینہ پر بندوقیں رکھ دیتے تھے۔ ایک دن ہم بیس پچیس آدمی خانسامانی میں حکیم احسن اللہ خاں کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ پوربیوں نے آ کر ہم کو گھیر لیا۔ اور بندوقیں پایوں پر کھینچ کر کھڑے ہو گئے اور کہا تم سب بے دین ہو۔ ارے تم سب کرسچین ہو۔ تم انگریزوں کو چٹھیاں لکھتے ہو۔ ہم لوگوں نے حیران ہو کر ان سے کہا کہ ایک دفعہ تم ہم سب کو اڑا دو۔ روز کے جھگڑے سے تو فیصلہ ہو جائے۔ ان میں سےایک دو افسر سمجھدار بھی تھے، وہ ان کو سمجھا کر لے گئے۔ ان کے ظلم سے ہم لوگوں کی جان ناک میں تھی۔ ادھر فوج کا یہ حال تھا کہ روز دو چار سو آدمی فوج کے بھاگ بھاگ کر آتے تھے اور دلی میں جمع ہوتے تھے۔ چار کمپنیاں کوئل جیسر سے آئیں اور پانچ سو جوان سفرمینا کی پلٹن کے اور آ گئے۔ اب کوئی سات آٹھ ہزار آدمیوں کے قریب جمعیت پوربیوں کی ہو گئی۔

صفحہ نمبر 121
بدی کے تخم شقی کشت دل میں بونے لگے
کہ بے گناہ زن و بچہ قتل ہونے لگے
جو اہل درد تھے رو رو کے جان کھونے لگے
مسیح و خضر بھی منھ ڈھانپ ڈھانپ رونے لگے
ستون خانہ نصفت گرا دیے یکسر
چراغ بزم عدالت بجھا دیے یکسر

قیدیوں کا قتل : - ایک دن صبح کا وقت ہے۔ کوئی گھڑی بھر دن چڑھا ہوگا۔ میں گھر سے نکل وہو قلعہ کی طرف روانہ ہوا اور نقار خانہ میں داخل ہو کر دیوان عام کے نزدیک پہنچا۔ وہاں مجھے خیال آیا کہ خانسامانی میں چل کر حکیم جی سے ملتے چلو شاید حضور میں سے کچھ حکم احکام صادر ہوئے ہوں۔ اس خیال سے جالی کا راستہ چھوڑ کر خانسامانی کے دروازہ سے اندر داخل ہوا۔ جب مہتاب دروازہ کے آگے پہنچا دیکھا کہ پوربیے ان قیدیوں کو باغ سے لے کر باہر آتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ تم ان کو کہاں لے جاتے ہو۔ وہ بولے کہ ہم ان کو قلعہ کے باہر لے جا کر رکھیں گے۔ پھر میں نے کہا کہ یہ تو ہماری تحویل میں ہیں تم ان کو نہ لے جاؤ۔ مگر وہ کب سنتے تھے۔ مجھ کو اندیشہ ہوا کہ مبادا یہ کچھ اور حرکت ہی کر بیٹھیں۔ میں قدم بڑھا کر جلدی سے احسان اللہ خاں صاحب کے پاس پہنچا۔ وہ خانسامانی کے کوٹھے پر لیٹے ہوئے تھے۔ میں جا کر ان سے کہا کہ خان صاحب آپ کو کچھ اور بھی خبر ہے۔ وہ بولے کیا، میں نے کہا کہ وہ بدمعاش ان قیدیوں کے لیے جاتے ہیں۔ مبادا وہ ان کے لے جا کر قتل کر ڈالیں۔ آپ اس کا بندوبست کیجئے۔ تو مجھے جواب دیا کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ پھر میں نے کہا کہ خان صاحب وقت نمک حلالی کا یہ ہے کہ اگر بادشاہ کو بچایا چاہتے ہو تو سمجھا سمجھو کر ان قیدیوں کو بچا لو۔ ورنہ یاد رکھو انگریز لوگ دلی کا چبوترہ بنا دیں گے۔ احسان اللہ خاں

صفحہ نمبر 122
نے جواب دیا کہ میاں تم بچے ہو۔ تم کیا جانو کہ انسان زحمت بالفعل پر زحمت بالقوۃ کو ترجیح دیتا ہے۔ ابھی جو ہم ان سے کہتے ہیں تو یہ ان سے پہلے ہم کو قتل کریں گے اور پیچھے ان پر ہاتھ ڈالیں گے۔ پھر میں نے جواب دیا، اچھا ہے اگر ہم دو چار آدمی مارے جائیں مگر بادشاہ کی سرکار تو بچ جائے گی۔ یہ کہہ کر میں وہاں سے روانہ ہوا اور ڈیوڑھی پر آیا۔ خواجہ سرا سے عرض کرائی کہ وہ پوربیے انگریزوں کو نکال کر لے گئے۔ جن کو حضور نے بڑے خاصے میں رکھا تھا۔ بادشاہ نے اسی وقت حکم دیا کہ حکیم جی کو لاؤ۔ وہ اس کا بندوبست کریں۔ خواجہ سرا نے اندر سے آ کر ہرکارے کو دوڑایا کہ جلدی حکیم جی کو لے کر آؤ۔ غرض ایک ہرکارہ تھوڑی دیر کے بعد دوسرا گیا پھر تیسرا ہرکارہ روانہ ہوا۔ اس عرصہ میں گھڑی ڈیڑھ گھڑی کا زمانہ گزر گیا۔ حکیم جی کسی طرح وہاں سے نہ ہلے۔ بعد ڈیڑھ گھڑی کے حکیم جی تسبیح خانہ پہنچے اور اندر محل میں حضور کے پاس پہنچے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ تم افسروں کو بلا کر سمجھاؤ اور ان لوگوں کو بچا لو۔ غرضکہ بہت اچھا کہہ کر باہر آئے اور دیوان خاص میں آ کر بیچ کے در میں کٹہرے سے لگ کر ہو بیٹھے اور شاید ایک دو آدمی افسروں کے بلانے کو بھیجا کہ ناگہاں ہم دیکھتے کیا ہیں کہ لعل پردہ کے دروازہ سے دو کمپنیاں پوربیوں کی بندوقیں کاندھے پر رکھے ہوئے چلی آتی ہیں۔اور آتے ہی انہوں نے دیوان خاص میں گھس کر ہم لوگوں کا محاصرہ کیا اور بندوقوں کے پائے چڑھا کر ہمارے سامنے کھڑے ہو گئے۔ اس وقت ہم لوگ خدا کو یاد کرتے تھے اور سب بیٹھے ہوئے کلمہ پڑھ رہے تھے۔ ہم کوئی دس بارہ آدمی کے قریب تھے۔ ہم کو یہ معلوم ہوتا تھا کہ اب لمحہ دو لمحہ میں یہ ہم کو اڑا دیں گے۔ گھڑی بھر تک یہ کیفیت رہی۔ بعد دو سواروں کے ہاتھ میں سرخ رومال لعل پردے کے دروازہ سے رومال

صفحہ نمبر 123
کا جھالا دیا۔ ان سپاہیوں نے جو ہم پر بندوقیں بھرے ہوئے کھڑے تھے انہوں نے بندوقوں کے پائے اتار دیے اور کاندھے پر رکھ کر وہاں سے روانہ ہو گئے۔ تھوڑی دیر میں ہرکارے نے آ کر خبر دی، ان قیدیوں کا کام تمام کر دیا گیا۔ یہ سن کر مجھ کو اس درجہ صدمہ ہوا کہ بیان نہیں کر سکتا۔ جس قدر مجھے اپنی اولاد کے مرنے کا غم ہوا اسی کے برابر ان بچوں کے مارے جانے کا الم ہوا۔ میں حیران ہوں کہ وہ کمبخت کیسے سنگدل تھے کہ جن ظالموں نے ہاتھ ان بچوں پر اور ان حور طلعت عورتوں پر اٹھائے تھے۔ پھر میں اسی وقت اس رنج میں وہاں سے اٹھ کر اپنے گھر کو آیا۔ جب نقار خانہ کے دروازہ میں آیا تو میں نے دیکھا کہ دروازے کے بائیں جانب کو وہ کٹے ہوئے پڑے تھے۔مجھ سے یہ حال دیکھا نہ گیا اور منھ پر رومال ڈال کر چلا آیا۔ حوض کے برابر میرا چاکر گھوڑا لئے ہوئے کھڑا تھا۔ میں گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے مکان پر آیا تو پراگندہ حواس منتشرالحال تھا۔ میرے والد نے دریافت کیا۔ خیر باشد آج ایسا پریشان کیوں ہے۔ میں نے وہ ماجرائے قیامت انگیز بیان کیا۔ اس واقعہ ناگزیر کو سن کر وہ بھی بہت متالم اور متاسف ہوئے اور فرمایا ، تیرے نامہ اعمال میں تو جزائے خیر اس کی تحریر ہو گئی مگر ان بے گناہوں کی قضا تھی، مشیت ایزدی یوں ہی تھی۔ مجھے آج تک جو اس واقعہ کا خیال آتا ہے تو میرے آنسو نکل آتے ہیں۔ کئی روز تک مجھے صدمہ رہا تھا۔ اس واقعہ کے بعد کی یہ کیفیت ہے کہ شہر میں پوربیوں کا راج ہو رہا تھا۔ جو چاہتے تھے کرتے تھے۔ اندھیر نگری چوپٹ راج۔ اندھے کی داد فریاد۔ رعیّت کا ناک میں دم تھا۔ خدا سے دست بدعا تھے کہ خدا وندا اس بلائے ناگہانی کو جلدی دفع کر ، یہ کمبخت ظالم کہیں شہر سے نکلیں تو قصہ پاک ہو اور ہم کو ان جفا کاروں کے ہاتھ سے رستگاری ہو اور ان غداروں

صفحہ نمبر 124
کی یہ کیفیت تھی کہ تمام خزائن انگریزی اور سرمایہ ابتک اور مال بازار لوٹ کر مالا مال ہو رہے تھے۔ روپیہ رکھنے کو جائے نہ تھی۔ روپیوں کی اشرفیاں کرا کر کمروں میں باندھ رکھی تھیں۔ اور اشرفی کا بھاؤ ایسا گراں ہوا تھا کہ تیس روپیہ کو ملتی تھی۔ اور رعیّت بھوکی مرتی تھی۔ تمام کارخانے بند تھے۔ دستکار اور اہل حرفہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے ہوئے بیٹھے تھے۔
------------------------------------------------
صفحہ نمبر 125
چوتھا باب
انگریزی فوج آ گئی
ہیں دھاوہ چہ معنی وارد۔ ہینڈن ندی کے اس طرف غازی آباد میں گوروں کی فوج آ گئی ہے۔ اب چہار طرف سے بگل کا شور دھتو دھتو ہو رہا ہے۔ اور جلدی جلدی فوج کی کمر بندی ہو رہی ہے۔ توپ خانہ تیار لیس ہے۔ میگزین کی کراچیاں لدی ہوئی ہیں۔ پلٹنیں الگ جمی ہوئی کھڑی ہیں۔ رجمنٹیں ایک جانب ہیں کہ بگل میں کوچ کی بولی بولی گئی اور فوج مسلح اور مکمل ہو کر پُل کے دروازہ سے سلیم گڑھ کے نیچے ہوتی ہوئی دریائے جمن کے پُل پر سے عبور کر کے شاہ درے کی سڑک پر روانہ ہوئے۔ دن کے دس بج چکے ہیں۔

پہلی لڑائی :-
غرضکہ پورے بارہ کا وقت تھا کہ توپ کی آواز کان میں آئی۔ احتمال ہوا کہ دوپہر کی توپ چلی ہے کہ ایک منٹ کے بعد دوسری توپ سر ہوئی۔ ہاں دوپہر کی توپ نہیں جنگ کی توپ ہے۔ لڑائی شروع ہو گئی۔ اب متصل توپ کے فائر ہونے لگے۔ لگا تار توپ کی آواز چلی آتی تھی۔ پھر یکبارگی باڑ کی آواز آنے لگی۔

-----------------------------

ریختہ صفحات 116 سے 125 مکمل
-----------------------------
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 101


باندھے بیٹھے ہیں۔میں نے جا کر سلام علیک کی اور ایک صف میں بیٹھ گیا۔ ان دونوں صاحبوں کے بیچ میں ایک مسلمان پنجابی بزاز جس کی دکان قلعہ کے سرا پر تھی اور سب شاہزادے اور بیگمات کے یہاں وہی کپڑا دیا کرتا تھا بیٹھا ہے اور اس کے آگے نین سُکھ لٹھے کے تھان اور طاقے سیاہ بانات کے دھرے ہیں اور سُکھا خیاط خانسامانی والا بیٹھا ہے۔ حکیم احسن اللہ خان بتاتے جاتے ہیں اور وہ کفن بیونتا جاتا ہے۔میری عقل حیران ہوئی کہ یہ کیا معاملہ ہے اور کس کا کفن تیار ہو رہا ہے۔ ایسا کون شخص مارا گیا جس کے تجہیز و تکفین کی اتنی تیاری ہو رہی ہے۔میری برابر میر فتح علی اور ایک جانب مرزا فتح بیگ داروغہ ء آبدار خانہ بیٹھے ہوئے تھے۔ اُن سے چپکے چپکے دریافت کرنے لگاوہ کچھ تھوڑا سا حال بیان کر پائے تھے کہ حکیم احسن اللہ خان کے کان میں کچھ بھنک پڑی۔ انھوں نے بآوازِ بلند کہا کہ کیوں نہیں کہتے کہ صاحب رزیڈنٹ بہادر مارے گئے ہیں اور بادشاہ کا حکم ہے کہ میرے سب ملازم جائیں اور صاحب کی تجہیز و تکفین کریں۔ اور قلعہ دار صاحب کی ۔۔۔۔۔۔ میں ان کو دفن کریں اور حضور کو ان کے مارے جانے کا نہایت قلق ہے۔ سات آدمی مارے گئے ہیں۔ دروازہء قلعہ پر لاشیں پڑی ہیں۔ یہ کلمات سُن کر میرے ہوش و حواس باختہ ہو گئے۔ پانچ چھ منٹ تک تو مجھے کاٹو تو خون نہ تھا اور دماغ میں ایک سناٹا چکر کھایا کیا۔ آخر کچھ ہوش درست ہوئے تو ساری کیفیت از ابتدا تا انتہا حضّارِ دربار کی زبانی گوش گزار ہوئی۔

ہنوز کفن تیار ہونے نہ پایا تھا ۔ انتظار تھا کہ کفن تیار ہو جائے تو چل کر ان کی تجہیز و تکفین کریں کہ یکایک کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت عزرائیل روح قبض کرنے کو

ریختہ صفحہ 102

سامنے سے نمودار ہوئے اوروہی سوارانِ محسن کش لال پردے کے دروازہ سے آتے ہوئے دکھائی دئیے۔ حکیم احسن اللہ خان نے ان کی شکل دیکھ کر کہا کہ سب صاحب فاتحہ خیر پڑھیں قضا آن پہنچی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون سب لوگ فاتحہ خیر پڑھنے لگے۔اس اثناء میں وہ دیوانِ خاص کے دالان کے نیچے آن پہنچے اور گھوڑوں سے اوتر اوتر کر گھوڑے تو جالی کے کٹہرے سے اٹکائے اور آپ اندر آئے۔ آتے ہی بیٹھ گئے تو اس وقت قریب تیس آدمیوں کے ہوں گے اور اکثر ان میں افسر تھے وضع ان کی وہی یورپینوں کی تھی۔ نہ افسر معلوم ہوتا تھا نہ سوار سب کی ایک وضع تھی۔ گلے میں لٹھے کے کُرتےپاؤں میں ڈھیلے لٹھے کے غرارے دار پائجامے سر پر چھوٹا سا انگوچھہ لپٹا ہوا چندیا کُھلی ہوئی کسی کے پاس قرابین کسی کے پاس بندوق کسی کے پاس تپنچہ اور کرچیں سب کے پاس موجود ہیں۔ وہ کپڑے کے تھان پھیلے ہوئے دیکھ کر حکیم احسن اللہ خان سے مخاطب ہو کر پوچھنے لگے کہ یہ کیا سامان ہے۔

حکیم احسن اللہ خان:آپ صاحبوں نے جو اعمال کئے ہیں اس کی تلافی ہم بھگت رہے ہیں۔ آپ نے آگ لگائی ہے ہم بجھا رہے ہیں۔

سوارانِ باغیہ: ارے ۔۔۔۔۔ تُم لوگ سب بے ایمان کرسٹان ہو۔ ارے تم سب بے دین عیسائی کرسٹین ہو۔ تُم نے انگریزوں کا جوٹھا کھایا ہے۔ یہ کہہ کر وہ جو تھان کفن کے پُرزے ہوئے تھے وہ سب لُوٹ لئے اور پھاڑ پھاڑ کر سروں سے باندھ لئے اور ایک سوار نے بڑھ کر محبوب علیخان خوجہ سرا کی توند پر تپنچہ رکھ دیا۔ محبوب علی خان بیچارہ استسقےٰ کی بیماری میں مبتلا سوجا ہوا پڑا تھا۔

ریختہ صفحہ 103

مگر جی کا مردانہ تھا۔ گو خواجہ سرا تھا تو کیا ہوا۔
سوار : ہم کو رسد دلواؤ۔

محبوب علیخان: ہمارے پاس رسد کہاں سے آئی۔ہمارے ہاں کوئی فوج ہے لشکر ہے جس کے واسطے رسد جمع رہے۔ ہمارے پاس رسد وسد کچھ نہیں۔ تُم کو جان سے مار ڈالنا ہے تو مار ڈالو۔ میں تو مرنے کو تیار بیٹھا ہوں۔ بہت اچھا ہے جو کسی کے سر ہو کر مروں۔

شریف علیخاں داروغہ ء محبوب علیخاں نے سوار کا ہاتھ پکڑ کر کہا اُن سے کیا کہتے ہو ۔ تُم ہم سے کہو، ہم دیں گے۔

حکیم احسن اللہ خاں ۔ ہمارے حضور خود اپنی زبان سے کہہ چُکے ہیں کہ ہمارے پاس روپیہ نہیں ، مال نہیں، مُلک نہیں ، خزانہ نہیں۔ ہم تو فقیروں کی طرح سے تکیہ بنائے بیٹھے ہیں۔ ہم رسد کہاں سے لائیں۔ ہاں بادشاہ کے گھوڑوں کے اصطبل کے واسطے مہینہ بھر کی خوراک کے چنے آتے ہیں تو وہ موجود ہیں۔ اُس کے سوا ایک دانہ ہمارے پاس موجود نہیں۔ بادشاہ کے گھوڑے بھوکے مریں گے ۔مگر تُم اپنا پیٹ بھر لو مگر وہ کب تک وفا کریں گے۔ تم لوگوں کے ایک دن کی خوراک کو مکتفی نہ ہوں گے۔ جاؤ شریف خاں دانہ کا کوٹھا کھول کر چنے تُلوا دو۔ تین تین فی کس کے حساب سے تقسیم کرا دو۔
غرضکہ جوں توں کر کے ایک بلا کو ٹالا انھوں نے جا کے مہتاب باغ میں گھوڑے باندھے دوسرے اور آن موجود ہوئے۔ اب کے بار کوئی پچاس ساٹھ سوار کا اژدحام ہو گا۔ وہ بھی رسد طلب کرتے ہوئے آئے ۔ اُن کو بھی یہی کہہ کر ٹالا۔ اور پچاس ساٹھ

ریختہ صفحہ104

سوار کا اژدحام ہو گا۔ وہ بھی رسد طلب کرتے ہوئے آئے ۔ اُن کو بھی یہی کہہ کر ٹالا۔ اور پچاس جان کھانے کو موجود ہوئے۔ غرضکہ اڑھائی سو تین سو کے قریب سوار مہتاب باغ میں جمع ہو گئے۔ اب جو آتا ہے وہ مہتاب باغ میں اُتر جاتا ہے۔ اس اثناء میں قریب گیارہ بجے کے دن چڑھ گیا ہے۔ کسی قدر پیدل بھی آتے جاتے ہیں۔ تین چار سو پیدل بھی داخلِ شہر ہو گئے ہیں اور شہر میں غدر مچ رہا ہے۔ شہر کو بدمعاشانِ شہر لوٹ رہے ہیں کہ بہت سے سوار گھوڑے باندھ کر دیوانِ خاص میں محبوب علیخاں اور احسن اللہ خاں کے پاس آئے اور کہا کہ رسد اور ہمارے کھانے پینے کا بندوبست کرو۔

ملازمانِ شاہی: ہم کیا بندوبست کریں۔ جن لوگوں سے شہر کا بندوبست تھا ان لوگوں کو تم نے مار ڈالا ۔ شہر میں غدر مچا دیا۔ شہر لُٹ رہا ہے۔ دکانیں بند ہیں اب کھانے پینے کا کیا بندوبست ہو۔ جہاں سے ممکن ہے کھاؤ پیو اور تمہارے سبب سے ہمارا کھانا پینا بھی بند ہوا۔

سوارانِ باغیہ: بادشاہ سلامت سے عرض کرو بازار کھلوائیں۔ جو چیز بست ہاتھ آئے ، کھانے پینے کا سر انجام ہو۔

ملازمانِ شاہی: دکانیں تو تم نے پہلے ہی لوٹ لیں ۔ اب ان میں کیا دھرا ہے جو کھلواتے ہو۔ اور دوکاندار کس موقع پر دوکانیں کھولیں۔ شہر میں لوٹ مار موقوف ہو اور امن و چین ہو تو دوکانیں کھلیں۔

سوارانِ باغیہ: ہم لوٹ مار کا بندوبست کرتے ہیں۔ اب ہم کسی پر دست درازی نہیں ہونے دیں گے۔ جابجا پہرے سپاہیوں کے بٹھائیں گے بادشاہ سلامت کی

ریختہ صفحہ105

منادی پھروا دیں اور دوکانیں کُھلوا دیں۔

ملازمانِ شاہی: اچھا تُم عہد کرو کہ اب ہم کسی قوم کے آدمی کو جان سے نہیں ماریں گے نہ بازار لوٹیں گے۔ہم امن کی منادی پھرواتے ہیں۔ تُم اپنے سپاہی جابجا بٹھا دو۔

قیامِ امن کی تدبیر
سواران نے اقرار کیا اور کہا اپنے آدمی ہمارے ساتھ کر دو۔ ہم جا بجا ناکہ بندی کر دیتے ہیں اور دوکانوں کی حفاظت کے واسطے پہرہ بٹھا دیتے ہیں کہ لوٹ کھسوٹ نہ ہونے پائے۔ اور جو دست درازی کرے وہ گرفتار کیا جائے۔چنانچہ تین چار آدمی معززین اور چند سرکاری آدمی ان سواروں کے ہمراہ کئے گئے۔ اور کوتوال شہر کے آگے ڈھنڈورچی کو بُلوا کر حکم سنایا گیا کہ شہر میں منادی پھیر دے خلق خدا کی ملک بادشاہ کا کوئی سکی پر ظلم و زیادتی نہ کرنے پائے۔ اب جو شخص کسی کے جان و مال پر دست اندازی کرے گا تو گنہگار سرکار ہو گا اور ہرکاروں نے گھروں سے بلا بلا کر حلوائیوں کی دوکانیں کُھلوا دیں اور بقالوں کی دوکانیں بھی کھل گئیں اور ان پر پُربیوں کے پہرے بیٹھ گئے اور کچھ دوکانیں بھی کھل گئیں ۔ حلوائیوں نے بڑے بڑے کڑہاؤ گھی کے چڑھا دئیے ۔پوریاں تلی جانے لگیں۔ بقالوں نے دوکانیں کھول دیں۔روزہ دار کھانے پینے کا سامان لے جانے لگے۔ اُسی وقت احسن اللہ خاں نے راقم کو اور صوفی مظہر اللہ بیگ رسالدار بادشاہی کو حکم دیا کہ تم جا کر دیکھو شہر کی کیا کیفیت ہے۔ اب تو لوٹ مار نہیں ہوتی بموجب حکم ہم دونو آدمی سوار ہو کر بازار میں آئے اور فتحپوری کی مسجد تک پہنچے تو امن امان پایا۔ کہیں لوٹ مار نہ تھی۔ خال خال دوکانیں کھلی تھیں دوکانوں پر پہرے لگے ہوئے تھے۔

ریختہ صفحہ106
خریدو فروخت ہو رہی تھی۔ سپاہی قیمت دیتے تھے اور جنس تُلوا لیتے تھے۔ ہم واپس آ رہے تھے کہ دیکھا کوتوالی کے سامنے کچھ ہجوم ہو رہا ہے۔جال کے پیڑ کے سایہ میں بہت سے پوربی جمع ہیں اور بدمعاشانِ شہری بھی موجود ہیں۔اُن بدمعاشوں نے یکبارگی ان پوربیوں سے کہا کہ یہ کوتوال شہر بڑا انگریزوں کا خیر خواہ ہے۔ یہ سُننا تھا کہ پوربیوں نے ایک باڑ بندوقوں کی سامنے سے کوتوآلی کے برامدے پر سر کی جس سے کوتوالی کا دروازہ گرا اور کچھ لوگ کوتوالی کے اندر سے عقب کی دیواریں کود کر فرار ہو گئے۔
اس اثناء میں ہم نے دیکھا کہ ایک ہجوم اور کوڑیا پُل کی طرف سے آ رہا ہے ۔ ہم ٹہرے رہے۔ جب قریب آئے تو دیکھا کہ دو عورتیں جوان خوبصورت میموں کو گرفتار کئے ہوئے لاتے ہیں۔راقم نے ان کو دیکھ کر اُن سب سواروں سے جو بندو بست کا اقرار کر کے آئے تھے اور کوتوالی کے سامنے نیم کے درخت کے نیچے کھڑے تھے گھوڑا بڑہا کر کہا ابھی تو تُم لوگ دست درازی کا انکار کر کے آئے ہو اور ابھی پھر دست درازی ہونے لگی یہ کیسے عہد و پیمان ہیں تو ان سواروں نے ان دونوں عورتوں کو پُربیوں سے لے کر ہمارے حوالہ کر دیا۔ بعد ان کے کہا گیا کہ یہاں تو تم ہمارے حوالہ کرتے ہو آگے پھر سپاہی لوگ ہم سے چھین کر مار ڈالیں گے تو دو سوار بندوبست کے لئے ہمراہ ہو گئے۔ جب ہم قلعہ کے دروازہ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ پوربیوں کی ایک جماعت کثیر اور ان کے ہمراہ اور ہندو مسلمان قریب پانچہزار آدمی کے چلے آتے ہیں۔

راقم : یہ انبوہ کثیر کیسا ہے۔
سواران: یہ ہمارے ممّد و معاون ہیں۔ جو میرٹھ میں ہمارے شریکِ حال تھے۔ غرضکہ ہم ڈیوڑھی پر بخیر و عافیت پہنچے ۔ اُس وقت نہ محبوب علی خاں تھے نہ احسن اللہ خاں

ریختہ صفحہ 107
میں نے خوجہ سرا کے ہمراہ ان دونوں عورتوں کو اندر محل میں بھجوا دیا ۔ خواجہ سرا نے کہا کہ حضور انور اس کارگذاری سے بہت خوش ہوئے۔ جہاں تک ممکن ہو رفاہِ عام پر نظر رہے۔ کسی آدمی کی جان ضائع نہ ہونے پائے۔ مگر بعد میں معلوم ہوا کہ ان میں وہ بدمعاش ہیں جو جیل خانہ سے رہا ہوئے ہیں۔
راقم : مجھے اُس وقت تشنگی کا نہایت غلبہ تھا پیاس کے مارے حلق میں کانٹے پڑ گئے تھے کیونکہ میں روزہ دار تھا اُس پر یہ تکالیفِ شاقہ۔ میں وہیں تسبیح خانہ کے سائبان کے نیچے بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ ایک اور ہنگامہ برپا ہوا۔ کیا دیکھا کہ تسبیح خانہ کی سیڑھیوں پر ایک جوان ولایتی چڑھتا آتا ہے اور پُوربی اس کو لئے ہوئے ہیں اور ولایتی کے سیدھے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی پیتل کی لُٹیا اور موٹھ کی تلوار ہے مگر تلوار ٹوٹ کر آدھی رہ گئی ہے اور وہ نصف تلوار قبضہ تک خون میں سُرخ ہو رہی ہے اور بائیں ہاتھ میں ایک نوجوان حسین مہ جبین نازنین مس کا ہاتھ ہے۔ اس لڑکی شکیلہ جمیلہ کی عمر سترہ اٹھارہ برس کی معلوم ہوتی ہے۔ دراز قد، کتابی چہرہ باریک کمر ۔سفید براق سایہ اُس کے گلے میں ہے مگر اس پر کچھ کچھ خون کی بوندوں کے نشان معلوم ہوتے تھے۔ اور لڑکی کا منہ فق رنگ سفید چہرہ پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں اوسان ٹھکانے نہیں۔ پسینے پسینے ہو رہی ہے۔

راقم یہ کیفیت دیکھتے ہی فوراً بے تابانہ اس کے پاس پہنچا اور دل میں خیال آیا کہ اس کے ہاتھ میں شمشیر برہنہ خون آلودہ ہے اور سر پر خون سوار ہے مبادا مجھ پر ہی وار کر بیٹھے یا اس نازنین پر ہاتھ چھوڑے گا تو اُس کا کام تمام ہو جائے گا۔ پہلے اس کے ہاتھ سے تلوار چھین لی جائے۔ پھر اس لڑکی کا ہاتھ چھوڑا لینا۔ یہ سوچکر میں نے

ریختہ صفحہ 108
پہلے جاتے ہی دائیں ہاتھ سے اُس کی کلائی خوب طاقت سے پکڑی اور بایاں ہاتھ تلوار کی کنوری پر ڈالا اور زبانی یہ الفاظ کہے کہ ہیں بے ادب تو نہیں جانتا کہ یہ بادشاہ کی ڈیوڑھی ہے یہاں ہتھیار باندھنے کی ممانعت ہے۔ اس میں اور آدمی بھی اٹھ کر چمٹ گئے اور اس نازنین لڑکی ستم رسیدہ نے جو اس طرح کا ترحم اور حامی و مددگار اپنا پایا تو وہ میری اوٹ میں ہو گئی اور میری کمر میں اپنا ہاتھ ڈال دیا جب اس کا جسم میرے جسم سے مس ہوا تو مجھے معلوم ہوا کہ مارے خوف کے مانند بید کے لرزاں و ترساں ہے۔ کلیجہ اس کا دھڑک رہا تھا غرضکہ میں نے تلوار تو اس کے ہاتھ سے چھین لی اور پوچھا کہ تیرا کیا مطلب ہے منہ سے بیان کر۔
جوان ولایتی: بھائی خدا کی قسم ہے ہم نے کچھ نہیں لوٹا ۔ دنیا لاکھوں روپیہ کا مال لوٹ کر لے گئی ۔ ہم نے کسی کو ہاتھ نہیں لگایا ۔ ہم نے فقط یہ مال لوٹا ہے ۔ ہم کو یہ مال مل جاوے اور ہم کو کچھ نہیں درکار۔
راقم: وہ شمشیر شکستہ اس کے حوالہ کی اور کہا ابھی تم کو یہ مال نہیں مل سکتا ہے اگر اس عورت کو کہا جائے تو تمہاری جان بھی جائے گی اور یہ غریب بیکس بھی جائے گی۔ تمہاری کوششیں اور جانفشانی ضائع جائے گی۔ یہ سپاہی لوگ ابھی تم کو اور اس عورت کو ہلاک کر دیں گے ۔ بہتر یہ ہے کہ تھوڑے روز تُم صبر کرو۔ جب ہنگامہ فرو ہو جائے گا اور غدر مٹ جائے گا اس وقت یہ امانت تمہاری تم کو مل جائے گی ابھی تمہارے بادشاہ کے پاس رہے گی۔ اس میں اور خواجہ سرا وغیرہ جو ڈیوڑھی پر موجود تھے سب راقم کے ہم زباں ہوئے اور سمجھا سمجھو کر وہاں سے روانہ کیا اور اس نوجوان نازنین کے ذرا جان میں جان آئی اور مجھ سے الگ ہو کر

ریختہ صفحہ 109
کھڑی ہوئی۔ اب میں نے اس مس سے اس کا حال دریافت کیا کہ تُم کو یہ کیونکر لایا۔
نوجوان مس نے منہ کو ہاتھ لگا کر پانی کا اشارہ کیا میں نے آبدار خانہ میں سے پانی منگا کر اُسے پلوایا جب ذرا ہوش درست ہوئے۔
نوجوان مس: اس آدمی نے صاحب کو مار ڈالا اور ہمارا ہاتھ پکڑ کر لے چلا۔ راستہ میں سپاہی لوگ ہم کو چھیننے لگے ۔ اس نے نہ دیا مرنے مارنے پر تیار ہوا۔ لڑتا بھڑتا یہاں تک آیا۔ مال اسباب ہمارا دنیا نے لوٹ لیا ۔کیا اب ہم کو تم اس آدمی کو پھر دے دو گے۔
راقم : نہیں نہیں ہر گز ایسا نہیں ہو سکتا۔ اب بادشاہ کی پناہ میں آ گئی ہو ۔ جیسا بادشاہ کا حکم ہو گا وہ کیا جائے گا۔ ابھی تم کو حفاظت میں بہ آسائشِ تمام رکھا جائے گا ۔ کوئی تم پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ جس وقت غدر مٹ جائے گا پھر تم کو اختیار ہے جہاں چاہو رہو۔ تم مختار ہو تمہاری زندگی تھی کہ تم زندہ سلامت یہاں پہنچ گئیں اب تم کو کوئی نہیں مار سکتا۔
ٹھنڈا سانس بھر کر دیکھا چاہئیےِِ ٗٗٗ ٗ
راقم نے خواجہ سرا سے کہا کہ ان کو محل میں بھجوا دو۔ اور خواجہ سرا نے ڈیوڑھی کا پردہ اٹھایا اور باری دار کو آواز دی بی باری دار میم صاحبہ آتی ہیں۔ انہیں حضور میں پہنچا دو۔ ڈیوڑھی کا پردہ اٹھا اور وہ نوجوان نازنین خاتون اندر داخل ہوئی

بینک لوٹ لیا
اب دو بج چکے ہیں۔ تیسرے کا عمل ہے ۔ بدمعاشانِ شہر نے جو دیکھا کہ اب لوٹ مار کی ممانعت ہو گئی ۔ اب دال

ریختہ صفحہ 110
گلنی دشوار ہے۔ اغوائے باغبان پر کمر باندھی۔ مثل مشہور ہے کہ ایک تو کڑوا کریلا اس پر چڑھا نیب۔ حسبِ تحریص و ترغیب مغویانِ شیطان سرشت فرقہ باغیہ ہمراہ ہوئے اور بد پیشگان نے ان کو لے کر بنک گھر کے دروازہ پر کھڑا کر دیا۔ بنک سرکاری شمرو کی بیگم کے باغ کی کوٹھی میں جو خونی دروازہ کے محاذ میں اور دروازہ باغ جنوب رویہ لبِ سڑک اُردو بازار واقع ہے۔ غارتگانِ بے پرواہ نے جو دروازہ باغ میں قدم رکھا ۔ محافظانِ خزانہ بنک نے جو انگریز تھے۔ نیز چند عورات معہ بچوں کے پناہ گزین تھیں ۔ ان انگریزوں نے سر رشتہ خرم و احتیاط خزانہ ہاتھ سے نہ دیا اور بہ استقلال تمام و جرائت بالا کلام مقابلہ سے پیش آئے اور سقف کمرہ سے بندوقیں سرکیں ۔ ادھر مردمانِ باغیہ نے جواب ترکی بہ ترکی دیا۔ لڑائی کا سامان ہو گیا۔ باہم بندوق چلنے لگی۔ تھوڑی دیر ہنگامہ برپا رہا۔ بعدہٗ دو چار بدمعاشوں نے دیوار باغ سے کود کر کوٹھی کی چھت میں آگ لگا دی۔ کوٹھی کے سقف میں بڑے بڑے طویل اور جسیم شہتیریں جب جل کر گرنے لگیں تو شعلہ ہائے آتش سر بفلک کشیدہ ہو گئے اور افراطِ دخان سے آسمان تیرہء و تار ہو گیا۔ حاصلِ کلام سقف کوٹھی جل کر بیٹھ گئی اور وہ بہادر رستم دل اُس میں جل کر خاک ہو گئے اور پوربی کوٹھی میں داخل ہوئے ۔ اول تو جو یورپین عورتیں اور بچے اس میں پناہ گزین تھے اُن کو بیرحمی سے ہلاک کیا ۔ چونکہ کوٹھی مذکور کا باہر کا درجہ گرا تھا اندر کے کمرے سب سلامت تھے جن میں خزانہ کے صندوق تھے ۔ یہ کوٹھی کے عقب سے اس میں داخل ہوئے اور صندوق خزانہ کے قفل توڑ توڑ کر توڑے روپوں کے لوٹنے شروع کئے۔ ان غارتگروں میں وہ لوگ ہیں جو میرٹھ سے باغی ہو کر پلٹن اور سوار آتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ والے جو بدمعاش ہمراہ ہوئے ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
داستان غدر صفحہ 51

کہا کہ ہم چل کر خود کھلوائیں گے اور پانچ روپیہ کے لڈر اور کچوریاں ہمراہ لوا کر ہاتھی کے تھان پر پہنچے اور ٹوکرہ شیرینی کا ہاتھ کے آگے رکھوایا۔ ہاتھی نے جھلا کر ٹوکرا کھینچ کر مارا۔ اگر کسی آدمی کے لگتا تو کام تمام ہو جاتا۔ وہ ٹوکرا دور جا کر پڑا اور تمام شیرینی بکھر گئی۔ سانڈرس بولے ہاتھ باغی ہے۔ اسے نیلام کرو۔ اسی روش صدار بازار میں لا کر استادہ کیا۔ اور نیلام کی بولی بولی۔ کوئی خریدار نہ ہوا۔ بنسی پنساری یک چشم جس کی دکان کھاری باؤلی میں تھی۔ اس نے ڈھائی سو روپیہ کی بولی دی۔ اسی بولی پر صاحب نے نیلام ختم کر دیا۔ فیلبان نے ہاتھ سے کہا کہ لے بھائی تمام عمر تو تُو نے اور میں نے بادشاہوں کی نوکری کی اب میری اور تیری تقدیر پُھوٹ گئی۔ کہ ہلدی کی گرہ بیچنے والے کے دروازے پر چلنا پڑا۔ یہ سنتے ہی ہاتھ کھڑے قد سے دھم دیسی زمین پر گر پڑا اور جان بحق ہو گیا اور اسی دن اسپ ہمدم کا بھی خاتمہ بخیر ہوا۔

سبحان اللہ ایسے نمک حلال جاں نثار رفیق کہاں پیدا ہوتے ہیں۔ ایسا حیوان انسانِ ناسپاس سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ خدا انسان کو بھی ایسی ہی توفیق خیر عطا فرمائے۔

اخلاق

حضرت بادشاہ کیواں بارگاہ باوجود عظمت و شوکت و جلال و جبروت خدا داد جملہ علم و فضل و عجز و انکسار نفس و حلم و ترحم و حُسن و خُلق سے آراستہ و پیراستہ تھے۔ عجز و انکسار مزاج اقدس امتزاج میں اس درجہ تھا کہ خود کو ادنےٰٰ بندگان بارگاہ احدیت کی برابر متصور فرماتے تھے۔ کبھی کائی کلمۂ تمکنت و سطوت شاہانہ زبان پر نہ لاتے تھے۔ بوئے نخوت و رعُونت پاس ہر کر نہ نکلی تھی۔ ہر بندۂ خدا سے خُلق محمدی سے پیش آتے تھے اور عالم شہزادگی سے مزاج تقدس امتزاج زہد و

داستان غدر صفحہ 52

صلاح و تقوےٰ طہارت و عبادت کی جانب مائل تھا۔ ایام شباب میں بھی مرتکب مہیات و ممنوحات شرعیہ نہ ہوئے۔

خوش بیان اس درجہ تھے کہ اگر پہروں بیان فرمائے جائیں تو دل کو سیری نہ حاصل ہو۔ صدہا افسانہائے لطیفہ و حکایات عجیبہ و غریبہ نوک زبان تھیں۔

اکثر تذکرہ جات عالم شاہزادگی بہ زمانۂ سلطنت حضرت شاہ عالم بہادر مرحوم بیان فرمایا کرتے تھے۔

جائے افسوس و مقام عبرت ہے دنیائے ناپائدار و بے وفا و زمانۂ غدار پُر دغا کا کیا اعتبار کسی پرانی سلطنت کس زمانہ کی سلطنت معرض زوال میں آئی ہے۔ کیسے کیسے بادشاہان اولو العزم کشورستان صاحب اقبال اس خاندان والا دوسمان میں گزرے ہیں۔ جن کے رایت جہانگیر کا پھریرا قیصر روم و خاقان چین و زار روس کے سروں پر لہراتا تھا۔ بزور شمشیر غرب سے شرق تک کشورستانی کا ڈنکہ بجا دیا۔ ہفت اقلیم میں رعب داب کا سکہ بٹھا دیا۔ شاہزادی التقویٰ سے لے کر بہادر شاہ بادشاہ دہلی تک پانچہزار سال سے زیادہ سلطنت خاندان مغلیہ میں رہی ہے۔

امیر تیمور کشورگر کی ہمت و جرأت کو غور کیا چاہیے کہ ہفت اقلیم میں قبضہ جما دیا۔ اور بڑے بڑے سرکشوں کو کتے کی کھوپری میں پانی پلوا دیا۔ سلطان روم کو لوہے کا پنجرہ جھکا دیا۔ بابر کی علو ہمتی کو دیکھئے تن تنہا بجان واحد گھر سے نکل کر سرحد کابل سے تا دریائے شور اپنا قبضہ جما لیا۔ بادشاہ اکبر نے حکمت عملی سے تمام ہندوستان کے کان میں کوڑی ڈال دی۔ عالمگیر تو اسم با مسمٰے پورے پورے عالمگیر ہی ہوئے۔ باون برس کپڑے کے خیمہ میں بسر کر کے تمام ہندوستان پر قابض و متصرف ہو گئے۔

داستان غدر صفحہ 53

ایسی قدیم سلطنت کو زمانۂ ناہنجار و بے وفا نے ایسا نیست و نابود کیا کہ تواریخ تک میں درج کرنے کو نام و نشان باقی نہ چھوڑا اورکچھ پاس قدامت نہ کیا۔

فاعتبرُو ایا اُولیِ الابصار

توانگری بدل است نہ بمال

سخیاں زاموال برمے خورند
بضیلاں غم سیم و زر مے خورند

راجہ ایجیت سنگھ

ان کے واقعات بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ راجہ صاحب موصوف رئیس ریاست پٹیالہ کے چچا تھے ایام شباب میں وارد دہلی ہوئے تھے۔ دلی کے عیش و چشرت ایسے مرغوب طبع ہوئے کہ پرھ وطن مالوف کی جانب متوجہ نہ ہوئے۔ ڈیڑھ دو لاکھ کے جاگیردار تھے۔ جس وقت آپ کی جاگیر کا روپیہ آتا تھا کل سامان امارت از سر نو درست کر کے راجہ بن بیٹھتے تھے۔ مکان کی آرایس، شیشہ آلات، جھاڑ فانوس گاڑی، بگھی، سامان پوشاک لباس وغیرہ وغیرہ سب از سر نو خرید کیا جاتا تھا اور جب داد دہش وغیرہ پر کمر باندھی جاتی تھی۔ تو چند روز میں سب کو دے دلا، فقیر ہو بیٹھے تھے۔ ایک بوریا ایک کمبل رکھ لیتے تھے اور کہتے تھے "اسین تو فقیر ہیں" بعد قرض دام پر گزر کرتے تھے۔ سال بھر میں دو لاکھ روپیہ کےمقروض ہو جاتے تھے۔ جب وہ تین سال میں پانچ چار لاکھ قرض ہو جاتے نالشیں ہوتیں ڈگریاں جاری ہوتیں۔ یہ خبر پٹیالہ میں پہنچتی رئیس پٹیالہ بخیال بدنامی ریاست روپیہ بھیج دیتے اور سال بھر میں ان کے واسطے پانچ چھ گھوڑے بیش قیمت معہ سازِ طلا و نقرہ ایک دو زنجیر فیل برائے سواری بھیجتے رہتے تھے اور یہ ہر سال لوگوں

داستان غدر صفحہ 54

کو بخشش کر دیتے تھے۔ ایک سال ایک فیل مادہ معہ زیور نقرہ و جھول زردوزی و حوضہ نقرہ و یک ہزار روپیہ خوراک، مومنؔ خاں صاحب کو عطا کی تھی۔ اور ایک زنجیر پایہ فیل داغؔ صاحب کو عطا ہوا تھا۔

راجہ صاحب موصوف کو دو باتوں کا شوق ازحد تھا۔ ایک شعر و سُخن کا، دوسرے سماع مزامیر کا جتنے ارباب نشاط تھے سب دربار میں بارہ مہینے حاضر رہتے تھے۔

جس شخص کو سُن لیتے تھے کہ شعر کہتا ہے گھر سے بُلوا کر اس کی قدردانی حد سے زائد فرماتے تھے۔ صبح کے نو بجے حوائج ضروری سے فارغ ہو کر دربار کرتے تھے۔ دربار میں مصاحبین شعرا وغیرہ دوست احباب فراہم ہوتے تھے۔ اور بزمِ رقص و سرود گرم ہوتی تھی۔ رات کے دس بجے تک صحبت عیش و عشرت میں ہر طرح کی دل لگی رہتی تھی۔

پوشاک نہایت عمدہ و لطیف پہنتے تھے اور اہل صحبت کو بھی خوش پوشاک رکھتے تھے۔ اور ہر روز داد و دہش فرماتے رہتے تھے۔ جو شاعر ان کے پاس پہنچ گیا اور دس پانچ شعر اس کے سُن لئے خالی نہ جانے دیتے تھے۔ اسی وقت اس کو خلعت نقد وغیرہ عطا کرتے تھے۔

برسات میں یہ کیفیت ہوتی تھی بیس پچیس خیاط بیٹھے ہوئے ہیں اور تھان پر تھان پارچہ اور گوٹہ کناری وغیرہ کے چلے آتے ہیں اور سیلے مندیلیں بنارسی اور دوشالے وغیرہ خریدے جا رہے ہیں اور جوڑے تیار ہو کر سب کو ایک رنگ تقسیم ہو رہے ہیں۔ بیس (20) بیس (20) ہزار روپیہ میں نے ایک جلسہ میں تقسیم کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

داستان غدر صفحہ 55

غرضیکہ چند روز میں زر نقد تقسیم ہو جاتا تھا۔ بعد توشے خانہ تقسیم ہوتا تھا بعد سواریاں بخسس کی جاتی تھیں۔ پھر سامان مکان تقسیم ہوتا تھا۔ جب سب کچھ دے چکتے تھے تو بستر تک اٹھا کر بوریے پر ہو بیٹھتے تھے۔

اس دل گردے کا فیاض بے ملک امیر نظر سے نہیں گزرا۔ یہ انتہا کی سخاوت ہے۔ اگر کوئی صاحب ملک اس درجہ سخی ہو تو عجب نہیں۔ اس کم بضاعتی پر دریا دل ہونا تعجبات سے ہے۔ ایک بار ایک گھوڑا تین ہزار روپیہ کی قیمت کا رئیس پٹیالہ نے بھیجا اور اپنی قسم لکھی کہ اس گھوڑے کو ضائع نہ کرنا۔ یہ نایاب ہے اور کامداروں کا تاکید لکھی کہ اگر یہ گھوڑا کسی کو دیا جائے گا تو تمہارے لئے بہتر نہ ہو گا۔ خیر کا مدار حفاظت کرتے تھے۔ ایک روز یہ خونیں دروازہ میں اس پر سوار چلے آتے تھے کہ ایک فقیر نے سوال کیا کہ راجہ اجیت سنگھ تمہارا نام سن کر دور سے آیا ہوں کہ راجہ صاحب بڑے سخی ہیں۔ جب میرا سوال پورا کر دو، تو میں جانوں۔

راجہ صاحب : تیرا کیا سوال ہے؟

فقیر : یہ گھوڑا مجھے دے دو۔

راجہ صاحب گھوڑے پر سے اُتر پڑے۔ گھوڑی کی باگ اس کے دے دی اور کہا کہ میں جانتا تھا کوئی بڑا سوال ہو گا کہ مجھ سے پورا نہ ہو گا۔ یہ تو کچھ سوال نہ تھا۔ غرضیکہ فقیر گھوڑا لے کر راہی ہوا۔ یہ پیادہ پا مکان پر پہنچے۔ کامداروں نے سُنا کہ گھوڑا دے آئے۔ وہ تلاس کر کے فقیر کے پاس پہنچے۔ اس سے دریافت کیا گھوڑا بیچتا ہے۔ اس نے کہا ہاں۔ کامدار نے کہا کیا لے گا۔ اس نے کہا ایک ہزار۔ کامداروں نے فی الفور گھوڑا کھول لیا۔ مکان پر لا کر ہزار روپیہ اسے دے دیا۔

داستان غدر صفحہ 56

جب تو وہ گھوڑا بچ رہا۔ بعد چھ ماہ کے کسی اور کو دے دیا۔

شہر دہلی کی تقریبات

دلی میں یوں تو سب میلے مثل عیدین اور بارہ وفاتیں اور بسنتیں اور حضرت نظام الدین اولیا کی سترھویں بڑی دھوم دھام سے ہوتی تھیں اور تمام شہر کی خلقت کا اژدحام عام ہوتا تھا مگر سیر گلفروشاں عجب پُرتکلف اور رنگین میلہ تھا۔ ایسا میلہ میرے نظر سے کہیں نہیں گزرا۔ ہر چند کہ بڑے بڑے میلے ہندوستان کے مثل ہردوار اور بٹیسر اور یکتسر میں نے دیکھے ہیں۔ مگر توبہ لاحول ولا قوۃ پھول والوں کی سیر کی کیفیت اور تکلفات سے کیا نسبت ہے۔ ان میلوں میں گنوار دل راہم ہوتا ہے۔ یہ تعلیق پن کہاں اول تو وہ منظر ہی ایسا خوش نما اور فرحت افزا کہ صدھا صحرا و مرغزارو کوہسار و چشمہ سار میری نظر سے گزرے ہیں ایسا پُر فضا پُربہار کوہسار دیکھنے میں نہیں آیا۔ نہ ایسا خوبصورت تالاب نہ ایسے درختانِ گنجان سایہ دار نہ ایسا زار مینو نگا۔ یہ میلہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر ہوتا ہے۔ مزار مبارک دہلی سے سات کوس کے فاصلہ پر جانب جنوب موضع مہر ولی میں واقع ہے۔ یہ موضع زمانۂ سلطنت راجان ہندوستان میں دارالخلافہ ہندوستان تصور کیا جاتا تھا۔ چنانچہ راجہ پرتھی راج فرمانروائے ہندوستان اُسی مقام پر اورنگ آرائے سلطنت تھا۔ اس کی بنیاد قلعہ اور محلات اور معبد کتبہ و شکستہ و ریختہ تا الی آلان موجود ہیں اور نیز بنیاد مسجد نین تیار بادشاہ قطب الدین (1) فاتح ہندوستان بھی اُسی محل پر مسمار شدہ یادگار روزگار ہے۔ بُت خانہ
-----------------------------------------------------------------------------------------------
(1) سلطان قطب الدین ایبک، جن کا مزار لاہور میں ایک روڈ پر ہے۔

داستان غدر صفحہ 57

ٹوٹتا جاتا تھا اور مسجد تعمیر ہوتی جاتی تھی۔ نصف بُت خانہ ٹوٹا تھا اور نصف مسجد تعمیر ہوئی تھی کہ بادشاہ اسلام نے وفات پائی۔ مسجد کی تعمیر ناتمام رہ گئی۔

کار دنیا کسے تمام نکرد۔ اس میں شک نہیں کہ اگر یہ مسجد تیار ہو جاتی تو روئے زمین پر اس تعمیر کا نظیر نہ نکلتا۔ اس مسجد کا ایک مینار تیار ہو گیا تھا اور دوسرا ہنوز ناتمام تھا فقط ایک کھن اُٹھنے پایا تھا۔ مسجد کے دالان کے در نصف تعمیر ہوئے تھے۔ مینار مسجد کا ارتفاع اسی گز کا ہے۔ سات منزلیں اسی کی قرار دی گئیں۔ دور مینار کی عمارت مثمن کمر کی نہایت خوش نما و مطبوع ہے اور پوشش عمارت سنگ سُرخ سے ہے اور اس پر کلا مجید چار اُنگل کے جلی قلم سے کندہ کیا ہوا ہے۔ حروف اُبھرواں ہیں۔ لیکن کس خوشنویس کے ہاتھ کی تحریر ہے کہ آنکھوں سے لگانے کو جی چاہتا ہے۔ علیٰ ہذا القیاس مسجد کے دروں اور محرابوں پر بھی اسی قلم سے کلام اللہ ثبت ہے۔

اس مسجد کے صحن میں وہ بُت خانہ سکشتہ ہے۔ بُت خانے کی عمارت سب عمارات سے جُداگانہ ہے۔ فقط پتھروں پر پتھر دُن دیئے گئے ہیں۔ مگر کس ترکیب سے چُنے گئے ہیں کہ آج تک برقرار ہیں۔ بُت خانہ کے صحن میں وہ ستون آہنی جس کو کیلی کہتے ہیں وہ نصب ہے اور اس پر بخط شاستری کچھ عبارت کندہ ہے۔ اس کی کیفیت اس طور پر ہے کہ پرتھی راج کو منجموں نے خبر دی تھی کہ تیرے محلات کی زمین میں راجہ باسک جو زمین کا راجہ ہے اس کا گزر ہو گیا ہے تو اس کے سر پر کیلی ٹھونک دے۔ کہ وہ یہاں سے جانے نہ پائے۔ پھر تیرا راج اٹل ہو جائے گا۔قیامت تک تیری اولاد میں سے سلطنت نہ جانے پائے گی۔ منجموں کو زمین و آسمان کی تو خبر تھی، مگر خدا کے گھر کی خبر سے بیخبر تھے۔ ؂

داستان غدر صفحہ 58

شان قدرت دم کے دم میں کیا سے کیا پیدا کرے
جو نہ ہو وہم و گماں میں برملا پیدا کرے

غرضیکہ حسب ہدایت دو میخ آہنی گاؤدم تیار کرائی گئی اور بموجب نشان دہی منجماں زمین میں ٹھونکی گئی۔ جب زمین پر نصب ہو گئی راجہ کو مجنمان کے قول کا اعتبار نہ آیا کہا کہ اس لاٹھ کو باہر کھینچ لو کہ میں اپنی نظر سے دیکھ لوں۔ ہر چند برہمنوں نے منع کیا اور سر پٹکا مگر راجہ کب مانتا تھا۔ مثل ہندی ہے راج ہٹ تریاہٹ بالک ہٹ ایک نہ سُنی اور کیلی کو اُکھڑوا کر دیکھا تو ایک ہاتھ کیلی خون میں ڈوبی ہوئی تھی۔ حکم دیا پھر اُسی جا پر نصب کر دو۔ منجموں نے کہا اب کیا ہوتا ہے وہ کہیں کا کہیں پہنچا۔ وہ پتال کا راجہ ہے کیا اب تک یہاں بہٹھا رہا۔ ہزاروں کوس پہنچ گیا۔ غرضیکہ وہ کیلی آج تک اُسی جا موجود ہے۔ اسی محل سے آبادی موضع مہرولی شروع ہوئی ہے اور مقام جھرنہ اور اولیا مسجد پر جا کر ختم ہو گئی ہے اور اسی مسجد ناتمام کے گوشۂ شمال مشرق میں سنگ سُرخ کا محجر ہے۔ اس میں بادشاہ علاؤ الدین کا مزار ہے۔ موضع مہرولی کی آبادی بالائے سطح کوہ ہے۔ یہ پہاڑ چنداں بلند نہیں ہے بلکہ زمین دوز ہے۔ اسی عمارت مسمار شدہ کے آگے بڑھ کر عمارت مزار مبارک خام ہے۔مزار کا چبوترہ چارگز سے چار گز مربع ہو گا۔ ارتفاع ایک بالشت سے کم پر چبوترہ کیا، ایک حد بندی مزار ہے۔ مزار پر مٹی کی ٹوکریوں کے اور جدا جدا نشان باہنوز موجود ہیں۔ حالانی ہزارہا بارشیں ہوئیں مگر یہ تصرف حضرت کا ہے کہ اُن ٹوکریوں کے نشانات کو تبدل اور تغیر نہ ہوا۔ حضرت نے قبل وفات مریدان کو وصیت فرمائی تھی کہ میرا مزار زمین دوز زیر آسمان رہے۔ سقف اور گنبد وغیرہ کی تکلیف نہ کرنا۔ درگاہ ہی کے ملحق عمارات محلات

داستان غدر صفحہ 59

بادشاہاں ہے اور سامنے کے رُخ کو جانب مغرب مکانات رعایا و امیراں ہیں اور بازار ہے اور آبادی ہے اور سرائے پختہ ہے اور دو رویہ مکانات اور کمرہ جات اور دُکانیں وغیرہ تعمیر ہوتی ہوئی جھرنے تک چلی گئی ہیں۔ آبادی کے گوشۂ مغرب اور جنوب میں تالات عظیم الشان ہے اور وسطِ تالاب میں ایک پختہ چبوترہ ہے اور اس پر ایک برج نما مکان ہے۔ اس کے در سب کھلے ہوئے ہیں۔ وہ تالاب حوضِ شمسی کے نام سے موسوم ہے۔ اس کو بادشاہ شمس الدین التمش نے کندہ کرایا۔ یہ روایت اس طور پر مشہور ہے کہ بادشاہ شمس الدین کو خواب میں جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور اس نے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گھوڑے پر سوار ہیں اور اس محل پر تشریف رکھتے ہیں اور ارشاد ہوا کہ شمس الدین یہاں حوض بنوا دے۔ چنانچہ بادشاہ جب خواب سے بیدار ہوا اور اسی موقع پر پہنچا اور دیکھا کہ گھوڑے کے چار سموں کے نشان موجود ہیں۔ اسی وقت وہاں چبوترہ اور بُرج تیار کرانے کا حکم دیا اور گر اس کے حوض کرا دیا۔ پہاڑ کا پانی جانب مغرب سے موسم برشگال میں بہہ بہہ کر اس میں فراہم ہوتا ہے اور مشرق کی جانب پشتہ ہے اور پشتہ پر عمارات دوکانیں بازار و مکانات ہیں اور بازار کے عق میں جانب مشرق نشیب ہے اور تالات کے جنوب میں درختان گنجان آم کے ہیں جو امریوں کا اندھیری باغ مشہور ہے۔ بازار کے اختتام پر جانب مشرق نشیب ہے۔ اس کا ارتفاع قریب دس گز کےہو گا۔ اس محل پر جھرنے کی عمارت ہے۔ تالاب کے کنارے کی جو سڑک ہے اس کے نیچے ہی جھرنا ہے۔ چونکہ زمین تالات کا پانی جھر کر جھرنے میں جاتا ہے، جھرنے کے نشیب پر دیوار پشتہ ہے اور پشتہ سے ملحق ایک دالان سنگ سُرخ کا ہے اور دونوں پہلو میں زینہ ہے۔ اور آگے اس دالان کے ایک حوض چوڑا چکلا قد آدم سے زیادہ عمیق ہے۔ اور

داستان غدر صفحہ 60

صحن وسیع پختہ چبوترہ کا ہے اور حوض میں سے ایک نہر رواں ہے کہ حوض میں پانی چل کر نہر میں جاتا ہے اور نہر میں سے پانی کی چادریں چلتی ہیں اور چبوترہ پر سے نیچے گرتا ہے اور سامنے اس چبوترہ کے ایک پہاڑ کا ٹکڑا ہے کہ وہ ڈھلوان ہے اور اس کے پہلو میں زینہ ہے اس پر آدمی چڑھ کر اس پہاڑ کے ڈھلان پر بہتے ہیں تو پھسل کر نیچے زمین پر آ رہتے ہیں۔ اسے پھسلنا (1) پتھر کہتے ہیں اور جھرنے کے دالان کے دونوں جانب شمال اور جنوب میں عمارت کے دو مکان دالان در دالان ہیں اور ان مکانات اور صحن جھرنا پر درختان انبہ سایہ دار ہیں۔ جھرنے کے حوض میں پانی تالاب کا بکثرت جھرا کرتا ہے اور جھرنے میں چھلک کر نہر میں جاتا ہے اور نہر میں چادریں چھلک کر بہہ جاتی ہیں۔ میلہ کے ہنگام میں اس مقام پر عجب کیفیت ہوتی ہے کہ قابل دید ہے۔ ہزارہا آدمی جھرنے کے دالان کی سقف پر سے حوض میں کودتے ہیں اور تیر کر باہر نکلتے ہیں اور پھر چڑھتے ہیں اور پھر کودتے ہیں۔ ایک تار بندھا رہتا ہے بعضے پہلوان پانچ آدمی کو لے کر کودتے ہیں اور پھسلنے پتھر سے سینکڑوں آدمی پھسلتے ہیں۔ جھرنے کے مکانات میں پھول والے بیٹھے ہوئے پنکا تیار کرتے ہیں۔ ادھر تماشائیوں کا وہ ہجوم ہوتا ہے، پانی کا اک شور ہوتا ہے کہ کان پڑی آواز نہیں آتی ہے۔ ہزارہا آدمیوں کا اژدحام اس محل پر فراہم ہوتا ہے۔ راہ چلنے کو خالی نہیں ملتی۔

(1) یہ پتھر اس بلا کا چکنا اور پھسلنا ہے کہ ذرا کوئی اس پر بیٹھا اور پھسلا۔ پھول والوں کی سیر میں لوگوں کا اس پر چڑھنا اور پھسلنا تماشا ہو جاتا ہے۔ اُستاد ذوق نے اس مطلع میں اسی پتھر کا حوالہ دیا ہے ؂

میں کہاں سنگِ در یار سے ٹل جاؤں گا
کیا وہ پتھر ہے پھسلنا کہ پھسل جاؤں گا

داستان غدر صفحہ 61

یہ میلہ ساون کے مہینے میں ہوتا ہے۔ جمعرات کے دن پنکھا چڑھتا ہے۔ چار روز برابر یہ میلہ رہتا ہے۔ تمام شہر کی خلقت ہندو مسلمان امیر غریب ادنے اعلے شہر سے سب چلے جاتے ہیں۔ شہر میں دکان کوئی شاذ و نادر کھلی رہتی ہے ورنہ تمام حلوائی، نانبائی، طباق، کبابی سب خواجہ صاحب میں جا کر دکانیں لگاتے ہیں۔ حلوائیوں کی دکانوں کا ہجوم العظمۃ للہ ایک ایک دکان سولہ سولہ گز زمین مربع میں لگائی جاتی ہے۔ دکان کے اندر بڑے بڑے کڑہاؤ گھی کے چڑھے ہوتے ہیں اور کچوریاں پوڑیاں، بیوربیاں شیرینی وغیرہ تیار ہوتی ہے۔ بازار کی جانب آٹھ آٹھ بیچنے والے بیٹھ جاتے ہیں۔ تاہم وار نہیں آتا ہے۔

مکانوں کا کرایہ سینکڑوں روپے ہو جاتا ہے۔ جابجا ڈیرے خیمے استادہ ہو جاتے ہیں۔ شہر کی خلقت شبانہ روز ناچ رنگ دیکھتی ہے۔ اندھیر باغ میں جھولے پڑ جاتے ہیں۔ شاہدان بازاری اس میں جھولتی ہیں۔ ملہار کی تانیں اڑاتی ہیں، جنگل اور پہاڑ سب سبز ہوتا ہے۔ ابر تیرۂ و تار چھایا ہوتا ہے۔ ہلکی ہلکی بوندیاں پڑتی ہوتی ہیں۔ عجب کیفیت ہوتی ہے کہ بیان نہیں ہو سکتی۔

دن کے دو بجے جھرنے پر سے پنکھے اُٹھتے ہیں۔ آگے آگے تو اور اقوام اہل حرفہ کے پنکھے ہوتے ہیں اور سب کے پیچھے پھول الوں کا پنکھا ہوتا ہے۔ اس وقت کا اژدحام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر سیر میں کسی آدمی کا پاؤں زمین سے اٹھ گیا تو آدمیوں کی چپقلش میں سو سو قدم تک ادھر چلا جاتا ہے۔ ہرپنکھے کے آگے روشن چوکی بجتی جاتی ہے۔ اور جابجا تھمتے جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ پنکھا روانہ ہوتا ہے۔ نفیری والے ستم کرتے ہیں۔ ایسی سریلی نفیروں میں ملار گاتے ہیں کہ آدمی بے اختیار اور سہو محو ہو

داستان غدر صفحہ 62

جاتے ہیں۔ کچھ ہوش تن بدن کا نہیں رہتا ہے اور عالم بے اختیار میں جو ہاتھ آیا پھینک دیتے ہیں۔ کوٹھوں اور مکانوں پر سے صدہا روپیہ برستا ہے۔ نفیری والے برس دن کی روٹی پیدا کر لیتے ہیں۔ہر کمرہ کے نیچے دس دس پندرہ پندرہ منٹ توقف کرتے تھے۔ رات کو نو بجے جا کر درگاہ میں پنکھا پہنچتا تھا۔ دو گھڑی کامل تو بادشاہی محل کے نیچے نفیری بجاتے تھے اور محل کی چلونوں میں سے روپے اشرفیاں اور بٹوے برستے تھے۔ بعدہ جا کر درگاہ میں پنکھا چڑھاتے تھے۔ پنکھے کے دوسرے روز جمعہ کو سب خلقت بدستور جمی رہتی تھے اور جھرنے کی کیفیت اور میلے کے تماشے میں اور خرید و فروخت اشیاء تحفہ جات میں مشغول رہتی تھی۔ درگاہ کے دروازہ کے آگے نیا بازار لگایا جاتا تھا۔ ہر قسم کا سوداگری مال موجود ہوتا تھا۔ خصوصاً سادہ کاری چاندی سونے کا ہلکا زیور بہت فروخت ہوتا تھا۔ بساطیوں کی دکانیں بکثرت ہوتی تھیں۔لاکھوں روپیہ کی خرید و فروخت ہو جاتی تھی۔ دو تین شب تک شہر کے بازار میں مرد کا نام تک نہ ہوتا تھا۔ شہر کی مستورات پردہ نشین شب کو بازار میں نکلتی تھیں اور مسجد جامع میں جا کر سیر کرتی تھیں۔

ہفتہ کے روز خواجہ صاحب کی درگاہ سے خلقت رخصت ہو کر شہر کو آتی تھی۔ سات کوس تک برابر خلقت کا تانتا بندھا رہتا تھا اور جابجا دکانیں لگی ہوتی تھیں اور کھلونے والے بیٹھے رہتے تھے۔ اب لوگ گھر کو آتے وقت گھر والوں کے واسطے انگوٹھی چھلے بچوں کے واسطے کھلونے لیتے جاتے ہیں اور چلتے جاتے ہیں۔ حضرت بادشاہ موسم بارش میں چار ماہ کامل یہیں رہتے تھے۔ (1)
-------------------------------------------------------------------------------------------------
(1) پھول والوں کے میلے کا تاریخی پس منظر یہ ہے ریذیڈنٹ سٹین صاحب (باقی حاشیہ آیندہ صفحہ)

داستان غدر صفحہ 63

شاہان مغلیہ کی رعیت نوازی

یہ امر بھی خاندان تیموریہ پر ختم ہو گیا۔

جیسی رعیت پروری سلطنت مغلیہ نے کی ہے۔ کسی تاریخ کی رُو سے کسی عہد سلطنت میں نہیں پائی گئی۔ رعیت کو بجائے اولاد سمجھا گیا ہے۔ چنانچہ ایک بار قوم ہنود نے اہلکاران سرکار انگریزی سے ساز باز کر کے شہر سے اخراج گاؤ قصابان کا حکم جاری کرا دیا۔ اور سرکار سے دکانداران گاؤ قصاب پر تاکید اکید ہوئی تھی کہ تم اپنی دکانیں شہر سے باہر لے جاؤ۔ اور تمام شہر کی دُکانیں بند کرا دی تھیں۔ ان غریبوں نے جب سوائے تعمیل حکم کے کوئی چارہ نہ دیکھا تو سب کے سب سے فراہم ہو کر اپنے بال بچوں کو اور تمام گھر بار اپنا ہمرا لے کر محل شاہی کے نیچے زیر جھروکہ آ کر ڈنڈا ڈیرا ڈال دیا اور جھروکہ کے نیچے جا کر فریاد مچائی کہ ہم اپنا گھر چھوڑ کر شہر سے کہاں جائیں۔

بادشاہ رعیت پناہ نے بمجرد سننے زار نالے ان غریبوں کے حکم دیا کہ ہمارا ڈیرہ خیمہ بھی
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------
بقیہ حاشیہ صفحہ 60) پر شاہزادہ جہانگیر نے گولی چلا دی تھی۔ بدیں وجہ الہ آباد میں قید کر دیئے گئے۔ ملکہ ممتاز محل نے منت مانی کہ جہانگیر رہا ہو کر آئیں تو حضرت خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ کے مزار پر پھولوں کی مسہری چڑھاؤں گی۔ چنانچہ شاہزادہ جہانگیر جب رہا ہوئے۔ تو ملکہ نے بڑی دھوم دھام سے منت چڑھائی۔ تقریب میں شہر بھر کے ہندو مسلمان شریک ہوئے۔ قطب میں کئی روش میلہ لگا رہا۔ پھول والوں نے جو مسہری بنائی اس میں خوبصورتی کے لئے پھولوں کا ایک پنکھا بھی لگا دیا۔ بادشاہ کو یہ میلہ بہت پسند آیا۔ حکم ہوا کہ ہر سال بھادوں کے شروع میں یہ میلہ ہوا کرے۔ مسلمان درگاہ شریف پر پنکھا چڑھائیں۔ ہندو جوگ مایا جی پر چڑھائیں۔اس طرح اس میلے کی بنیاد پڑ گئی۔ بادشاہ اور شہزادے قطب جاتے۔ وہاں رہتے اور میلے میں شریک ہوتے۔ (نظیرؔ)

داستان غدر صفحہ 64

ریتی میں لبِ دریائے جمن ان کے برابر لگا دو۔ جو حال رعیت کا وہ ہمارا۔ شاگرد پیشگان نے بمجرد اصدار حکم بارگاہ سلطانی لے جر کر لب دریا استادہ کر دیئے۔ یہ خبر صاحب رزیڈنٹ بہادر کو ہوئی۔ وہ خبر سنتے ہی بادشاہ کی خدمت میں دوڑے ہوئے آئے اور حضور میں عرض کی کہ حضور یہ کیا کرتے ہیں۔ حضور کے ہمراہ تمام رعیت شہر سے نکل کھڑی ہو گی!

بادشاہ سلامت : بھئی جہاں میری رعیت وہاں میں۔ رعیت میرے بال بچے ہیں۔ میں ان کو کیونکر اپنے سے جُدا کر دوں۔ کہیں گوشت سے ناخن بھی جُدا ہوئے ہیں۔ آج تو قصابوں کو شہر بدر کرنے کا حکم ہوا ہے، کل کسی اور قوم کو ہو گا، پرسوں کسی اور قوم کو ہو گا۔ نرسوں کسی اور قوم کے واسطے حکم جاری کیا جائے گا۔ رفتہ رفتہ سب شہر خالی کرا لیا جائے گا۔ اگر تم صاحبو کو شہر خالی کرانا منظور ہے تو صاف مجھ سے کہہ دو۔ میں شہر کی رعیت کو ہمرا لے کر خواجہ صاحب میں جا بیٹھتا ہوں۔ شہر کا تم کو اختیار ہے جو جی چاہے وہ حال کرو۔

صاحب رزیڈنٹ بہادر : حضور ہرگز ہرگز ایسا خیال نہ فرماویں۔ اسی وقت ان فریادیوں کی داد رسی کرتا ہوں اور سب کو شہر میں آباد کئے دیتا ہوں۔ حضور اپنا خیمہ ڈیرہ اُٹھوا منگائیں۔ صاحب رزیڈنٹ بہادر نے اُسی وقت زیر جھروکہ جا کر قصبان کو حکم دیا کہ جاؤ اپنے گھروں میں جا کر آباد ہو اور ڈیرہ خیمہ بادشاہ کا اُٹھوا دیا۔

فریاد شاباں

ایک بار گھوسیوں کو سرکار انگریزی نے حکم فرمایا کہ تم لوگ اپنی گائیں بھیسیں لے کر شہر سے نکلو اور بیرون شہر پناہ جا کر آباد ہو جاؤ۔ تمام شہر میں ایک غلغلہ برپا ہو گیا۔ تمام گھوسی اپنے بال بچوں کو اور مویشی کو لے کر ریتی میں آ پڑے۔ اب یہ حال ہوا ادھر تو مویشی حیران پریشان گھبرائے ہوئے،، ادھر فریادیوں کے

داستان غدر صفحہ 65

بال بچوں کی گریہ و زاری کی پُکار۔ یہ حال دیکھتے ہی بادشاہ رعیت پناہ کو کہاں تاب تھی کہ یہ زیادتی دیکھ سکیں۔ بطور سابق پھر اپنا خیمہ ریتی میں بھجوا دیا۔

پھر اُسی طرح ریذیڈنٹ بہادر آئے اور عرض معروض کی اور گھوسیوں کو حکم بھیجا کہ جاؤ بدستور قدیم شہر میں جا کر آباد ہو۔

اب کے بار بادشاہ سلامت نے صاحب ریذیڈنٹ سے کہا کہ دیکھو بئئی۔ میری موجودگی میں تم رعیت کو گھر سے بے گھر نہ کرو اور بعد میرے تم کو اختیار ہے دلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دینا۔ چناچہ ایسا ہی ظہور میں آیا۔ کابلی دروازہ سےلےکر قلعہ تک اور دریبہ سے لے کر قلعہ تک اور جامع مسجد سے لے دہلی درواسہ تک بلاقی بیگم کا کوچہ، خانم کا بازار، خاص بازار، خانِ دوران خاں کی حویلی سےدریا گنج تک ہزارہا مکانات منہدم اور مسمار کر کے دلی کا چبوترہ بنا دیا گیا۔ اور چٹیل میدان کر دیا گیا۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 136

تیسری لڑائی

صبح کے آٹھ بجے نصیر آباد کی فوج دلّی میں سے تیار ہوئی ۔ اور بہت سا میگزین ہمراہ لیا۔ توپ خانہ سمیت تیلی داڑے کی راہ سے دھیرج کی پہاڑی طے کر کے نہر کے پُل سے اُس طرف ہو کر مغل پورہ کے باغات کا چکر کاٹتی ہوئی چھاؤنی کے راستہ پر سدِّ راہ ہو گئی اور بارہ بجے دن کے انگریزی فوج سے اس کا مقابلہ شروع ہوا۔ اور باہمدگر گولہ باری ہونے لگی۔ اور توپ کی آواز آنے لگی۔ اُسی روز یہ کیفیت تھی کہ توپ کی صدا اس طرح آ رہی تھی کہ جس طرح اچھے دو پھکینت پھری گتکے لے کر کھڑے ہوتے ہیں اور باہم چوٹوں کی صدا برابر نکلتی ہے۔ اس طرح توپ کی صدا متصل آ رہی تھی اور کبھی اُن کے ہمراہ بندوقوں کی باڑ کی آواز آ جاتی تھی۔ عجب مزے کی جنگ تھی کہ نہ دیکھی نہ سُنی۔ اور فی الحقیقت دونو لشکر ایک ہی سرکار کے تھے۔ آخر وہ بھی تو تعلیم یافتہ افسرانِ سرکار انگریز کے تھے۔ اُستاد شاگرد کی لڑائی تھی مگر فرق اتنا تھا کہ سرکار کا ستارہ ء اقبال غالب تھا اور اُن کا بسبب مُحسن کشی مغلوب اگر وہی فوج باغیہ کسی غنیم کے مقابل ہوتی تو دھوئیں اڑا دیتی۔ دروغ بر گردن راوی کہنے والوں کا بیان تو یہ تھا کہ لشکر سرکاری ڈیرہ خیمہ لے کر علی پور جا اترا تھا اور بہیر روانہ ہو چکی تھی۔ اب جھوٹ سچ کا علم خدا کو ہے۔ سُنی سنائی بات ہے۔ کوئی دیکھنےتھوڑی ہی گیا تھا۔ قصّہ مختصر یہ ہنگامہ جدال و قتال دوپہر سے 9 بجے رات تک قائم رہا۔ اور باہم جنگ کی آواز آتی رہی۔ پھر وہ صدا آنی موقوف ہو گئی۔ دوسرے روز بارہ بجے دن کے وہ فوج واپس آئی ہے تو اس کا بیان یہ تھا جو اوپر تحریر ہو چکا دوبارہ اعادہ اس کا فضول ہے مگر ہم کیا کریں ہمارے پاس میگزین ختم ہو چکا تھا اگر ہم کو میگزین مل جاتا تو ہم تمام رات لڑتے جاتےاور سرکاری لشکر

ریختہ صفحہ 137

کے پاؤں اکھڑ چکے تھے۔ ہم نے سوار بھیج کر میگزین طلب کیا تھا اور سوار اپنے ہمراہ لے کر چلے تھے کہ دروازہ والوں نے میگزین روک لیا اور کہا کہ اس وقت رات ہے مبادا انگریزی فوج راستہ میں سے تاخت کر کے چھین لے جائے۔ رات بھر ہم سے ہوشیاری کی انگریزی فوج نے ہم پر تین بار حملہ کیا ۔ ہم نے مہتاب کا جھالا دے دے کر ان کو ٹلا دیا۔ تین کارتوس ہمارے پاس گراب کے باقی رہ گئے تھے۔

جرنیل بخت خاں کی آمد

اس معرکہ آرائی کے بعد بخت خاں جرنیل چودہ ہزار کاکمپو اور چند توپ خانے اور دو تین رجمنٹیں سواروں کی اوے کئی لاکھ روپیہ خزانہ بریلی سے لے کر دہلی میں وارد ہوا۔ اور دوسرا جرنیل مرارکا کمپو لے کر آ پہنچا۔ ان کے پانچسو ولایتی سرحدی نیلے کپڑے والے دہلی میں آ گھسے اور ۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ سرغنہ بن کر دودوسو چارچارسو کی جمیعت لے کر شہر میں داخل ہو گئے۔ کیفیت یہ تھی کہ جس وقت باغیہ دہاوا پر جاتی تھی یہ سب بدمعاش ان کے ہمراہ ہوتے تھے اور جو زخمی یا مقتول ہوتا تھا اُس کا سامان روپیہ اشرفی ہتیار گھوڑا وغیرہ یہ منگوا لیتے تھے مگر شہر کی خلقت میں سے کوئی مسلمان یا ہندو از اعلٰے تا اولٰے کبھی ہمراہ افواج باغیہ دہاوے پر نہیں گیا سوائے ان اجلاف بدمعاشوں کے جو روز اوّل پوربیوں کو ہمراہ لے کر شر کو لُٹواتے پھرتے تھے۔ اور بنک گھر کا روپیہ خزانہ بخشی خانہ کا جنھوں نے لوٹا تھااور گھوڑے مول لے کر سواروں میں نوکر ہو گئے تھے۔ بیشتر ان میں کاغذی محلہ اور کشمیری دروازہ کے اطراف و جوانب کے کنجڑے قصائی ۔کاغذی۔ چوڑہے چمار بانڈی باز پہلوان مثل گامی بدمعاش وغیرہ تھے۔ کوئی شریف نہ تھا بلکہ شرفاء وغیرہ نے گھروں سے نکلنا چھوڑ دیا تھا۔ خود اپنی مصیبتوں میں گرفتار تھے۔ بادشاہی ملازموں

ریختہ صفحہ 138

کا یہ حال تھا کہ جب سے یہ بدمعاش شہر میں داخل ہوئے تھے بیچارے روٹیوں کو محتاج تھے۔ تنخواہیں بند تھیں۔ تنخواہ کہاں سے ملتی خود بادشاہ کی تنخواہ بند ہو گئی تھی۔ لاکھ روپیہ مہینہ بادشاہ کے ہاں انگریزی خزانہ سے آتا تھا۔ جب انگریزی نہ رہی اور خزانہ بھی لُٹ گیا تو بادشاہ کو تنخواہ کون دیتا اور بادشاہ کے پاس کیا دھرا تھا کہ وہ نوکروں کو تنخواہ دیتے۔ غرضکہ ایک مصیبت ایک تباہی اور ایک بربادی تھی۔جن لوگوں کے گھر میں اثاث البیت تھا وہ بیچ بیچ کر گزارہ کرتے تھے۔ اور چار چار روپیہ کے سپاہی فاقے مرتے تھے اُس کے علاوہ لوگ کچھ اپنی حرفت و دستکاری وغیرہ کر لیتے تھے۔ کارخانہ بھی بند تھے۔ کوئی ذریعہ قوت بسری کا نہ رہا تھا۔ بادشاہ غریب کا یہ حال تھا کہ حیران پریشان محل میں رہتے تھے۔ باہر برآمد ہونا چھوڑ دیا تھا ہر وقت مخموم و آبدیدہ رہتے تھے۔ گاہ گاہ وقتِ شب تخلیہ میں تسبیح خانہ میں گھڑی دو گھڑی آ بیٹھا کرتے تھے اور اُن نمک حراموں کو برا بھلا کہتے تھے ۔ ہم لوگوں کے واسطے حکم تھا کہ باری باری سے شب کے وقت ڈیوڑھی پر حاضر رہا کرو۔

بادشاہ کے تاثرات

ایک رات میں ڈیوڑھی پر موجود تھا پچھلا پہرہ تھا کہ باریدار نے محل میں سے آواز دی ۔ ہشیار ہو جاؤ۔ ہم لوگ جلدی سے پگڑیاں سر پر رکھ کر کمریں باندھ کر تیار ہو گئے۔ اُس وقت ہم چار پانچ آدمی حاضر تھے۔ میرزا قیصر شاہزادہ حمید خاں جمعدار خاص برادران میر فتح علی جمعدار کہاران حسین بخش عرض بیگی کہ بادشاہ برآمد ہوئے۔ ہم سب آداب بجا لائے۔ بادشاہ تسبیح خانے کے سنگ مر مر کے تختہ پر سند تکیہ پر ہو کر بیٹھے ایک ستون سے حمید خاں لگ کر کھڑا ہو گیا اور ایک ستون سے میر فتح علی تخت کے دائیں جانب میرزا قیصر

ریختہ صفحہ 139

میں ان کے برابر میں ہوں اور میری برابر حسین بخش عرض بیگی حضور نے ہم سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تُم جانتے ہو آج کل جو سامان ہو رہا ہے اس کا انجام کیا ہونا ہے۔ حمید جمعدار نے ہاتھ باندھ کر عرض کی حضور ڈیڑھ سو برس کے بعد حضور کا اقبال یاور ہوا ہے گئی ہوئی سلطنت پھر واپس آئی ہے۔ بادشاہ سلامت نے ارشاد فرمایا تُم لوگ نہیں جانتے ہو جو کچھ میں جانتا ہوں۔ مجھ سے سُن لو میرے بگڑنے کا کوئی سامان نہ تھا۔ یعنی بنائے فساد مال و دولت۔ خزانہ ملک و سلطنت وغیرہ ہوا کرتے ہیں میرے پاس ان میں سے ایک موجود نہ تھی۔ میں تو پہلے ہی فقیر ہوا بیٹھا تھا۔ مجھ کو کسی سے خصومت کیا تھی یعنی فقیر سے کسی کو کیا رشک و حسد اور طمع ہو گی

بیت
کس نیاید بخانہء درویش
کہ خراجِ زمیں و باغ بدہ
میں تو اک گوشہ ء ایزدی میں فقیر کا تکیہ بنائے ہوئے چار صورتوں کو ہمراہ لئے ہوئے بیٹھا روٹی کھاتا تھا۔ میرے بگڑنے کا کوئی سامان نہ تھا اب جو منجانب اللہ غیب سے میرٹھ میں آگ لگی اور دلٗی میں آ کر بھڑکی۔ فتنہ برپا ہوا ہے تو معلوم ہوا فلکِ غدار اور زمانہ ء ناہنجار کو میرے گھر کی تباہی منظور ہے۔ آج تک سلاطین چغتائی کا نام چلا آتا تھا اور اب آئندہ کو نام و نشان یک قلم معدوم و نابود ہو جائے گا۔ یہ نمک حرام جو اپنے آقاؤں سے منحرف ہو کر یہاں آ کر پناہ مذیر ہوئے ہیں۔ کوئی دن میں ہوا ہوئے جاتے ہیں۔ جب یہ اپنے خاوندوں کے نہ ہوئے تو میرا ساتھ کیا دیں گے۔ یہ بدمعاش میرا گھر بگاڑنے آئے تھے بگاڑ چلے۔ ان کے جانے کے بعد انگریز لوگ میرا اور میری اولاد کا سر کاٹ کر قلعہ کے کنگرے پر چڑھا دیں گے۔

ریختہ صفحہ 140

اور تم لوگوں میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑیں گے۔ اور اگر کوئی باقی رہ جائے گا تو آج کا قول میرا یاد رکھو کہ تُم روٹی کا ٹکڑا منہ میں لو گے اور وہ منہ میں سے اُڑ کر دور جا پڑے گا اور رؤسائے ہند کو لوگ ایسا سمجھیں گے جیسے گاؤں کا ادنٰے آدمی ہوتا ہے۔ یہ سخنانِ درد انگیز فرما کر پھر محل میں داخل ہو گئے۔ اُس کے چار پانچ روز کے بعد ایک روز کا ذکر ہے کہ آٹھ جبے دن کے محل میں سے برآمد ہوئے۔ ہوادار پر سوار ہو کر سلیم گڑھ تک گئے اور واپس آتے تھے۔ اثناء راہ میں جب ولی عہد بہادر مرحوم کے باغیچہ کے برابر آئے تو میں ہودار کا پایہ پکڑے ہمراہ تھا۔ مجھے ارشاد ہوا کہ میں نے سُنا ہے کہ آغا بیگم بہت گھبراتی ہیں اور اُن کو بہت کرب و اضطراب و قلق ہے اور بہت گریہ زاری کرتی ہیں تو ان کے پاس جا اور جو ہدایت کی جائے وہ کلمات حرف بہ حرف اُن کے گوش گزار کر۔ اور تجھے اس لئے بھیجتا ہوں کہ تو نے چار برس کی عمر سے محل میں پرورش پائی ہے۔ تجھ سے کچھ پردہ نہیں تو پردہ کے برابر جا کر عرضن کر لیجو۔ میں نے دست بستہ عرض کی تو ارشاد ہوا کہ تو کہنا حضور فرماتے ہیں کہ جس قدر مصائب اور رنج و آلام اور تکالیف ہیں یہ خاصانِ خدا کے واسطے ہوتی آئی ہیں۔ خصوصاً انبیا علیہم السّلام اور اولیاء اللہ ہمیشہ مصائب میں گرفتار رہے ہیں مگر اُن مصائب کا خاتمہ جناب سرورِ کائنات کی ذات با برکات اور ان کی آلہ الامجاد پر ہو گیا۔ ان کے مصائب پر خیال کرو کہ کیسی کیسی مصیبتیں اٹھانے پر صابر و شاکر رہے رسول زادیوں سے زیادہ تمہاری عزت وحرمت نہیں۔ تُم ان کے مصائب کو یاد کر کے اپنے دل کو تسکین دو۔ اور جو جو مصائب تکالیف وغیرہ گزریں اُس میں صابر و شاکر رہو۔ میں نے جب یہ کلماتِ یاس بادشاہ کی زبانی سُنے تو مجھے بے اختیار رقت طاری

ریختہ صفحہ 141

ہوئی اور سواری محل میں پہنچا کر میں نواب آغا بیگم صاحبہ صاحبزادی حضور کے درِ دولت پر گیا۔ خوجہ سرا کی معرفت عرض کرائی کہ خانہ نزاد حسب الارشاد فیض بنیاد حضور پُرنور حاضر ہوا ہے اور کچھ حضور سے ارشاد ہوا ہے۔ وہ گذارش کیا چاہتا ہے۔ شاہزادی صاحبہ معظمہ نے محل میں پردہ کرا کے اندر بلوایا اور پردہ کے اندر سے فرمایا کہ حلیفہ بیان کرو۔ کیا ارشاد ہوا ہے۔ میں نے آداب بجا لا کر جو کچھ ارشاد ہوا تھا حرف بحرف بیان کیا۔ شاہزادی صاحبہ نے بعد استماع فرمایا کہ میری جانب سے تو جا کر آداب و تسلیمات عرض کرنا کہ آج تو مجھے قلق و اضطراب اور فکرِ آبرو ریزی اور خیال تباہی اور بربادی تھا مگر اب دل کو تشفی ہو گئی۔ ان شا ء اللہ حضور کی ہدایت سے سرِ مو تجاوز نہ ہو گا ۔ میں نے واپس آ کر خوجہ سرا کی معرفت سب کیفیت گذارش کر بھیجی۔ اُسی روز کا ذکر ہے کہ جس وقت سواری واپس آئی تھی۔ جب سواری دیوانِ عام کے صحن میں محبوب علی خاں کے کمرے کے نیچے پہنچی تھی تو حکیم احسن اللہ خاں بھی ہوادار کے برابر چلے آئے تھے۔ پانچ چار پوربئیے آئے اور حکیم احسن اللہ خاں سے انھوں نے کچھ کہا خدا جانے انہوں نے کیا جواب دیا کہ ان میں سے ایک نے بندوق کا پایہ چڑہا کر چاہا کہ بندوق جھونک دے ایک خاص برادر شاہی نے ہاتھ کی تھپکی دے کر بندوق کی نال اوپر کو کر دی اور بادشاہ نے ہوادار پر سے ہاتھ بڑہا کر حکیم جی کا سر پکڑ کر ہوادار آگے کر لیا اور اُن نمک حراموں کو برا بھلا کہنا شروع کیا۔ اس وقت دیوانِ عام میں سے کُل افسر پوربیوں کے دوڑ آئے اور ہاتھ جوڑنے لگے معذرت کرے لگے۔ قصہ رفت و گذاشت ہوا۔ اس طرح ہم لوگوں سے اور اُن بے تمیزوں سے روز تکرار رہتی تھی۔ ایک دن کا اور ذکر ہےکہ صبح کا وقت تھا دن کے

ریختہ صفحہ 142

سات بجے ہیں بادشاہ برآمد ہوئے اور دیوانِ خاص کے بیچ کے در میں کرسی بچھوا کر بیٹھے ہیں کچھ تھوڑے سے آدمی اس وقت موجود ہیں کرسی کے پیچھے دو خواص کھڑے موئے مورچھل جھل رہے ہیں ۔ میرے بہنوئی آغا سلطان کرسی کے قریب کھڑے ہیں اُن کے برابر میں ہوں اور کوئی پانچ چار آدمی ہیں۔ دیکھتا کیا ہوں کہ ایک پوربیا فربہ اندام پستہ قد ۔ ادھیڑ۔ پچاس پچپن کی عمر منہ پہ داڑھی گاڑھے کا کورتہ دہوتی بندھی ہوئی سر پر ایک انگوچھا لپٹا ہوا چندھیا کھلی ۔ جال کرچ افسروں کی اُس کے گلے میں پڑی ہوئی عقبِ حمام کے چبوترہ کی طرف سے دربار میں آیا اور بادشاہ کو سلام کر کے پاس چلا آیا۔ میرے بہنوئی نے روکا بھی کہ ہیں ہیں کہاں چلے اتے ہو مگر وہ کب سُنتا تھا۔ پاس آ کر بادشاہ کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا ۔ سُنو بڑھئو ہم نے تمہیں باسا کیا۔یہ بات سُن کر مجھے تاب نہ رہی اور مارے غصہ کانپنے لگا اور ایک ہاتھ زور سے اس کے سینہ پر رکھ کر دہکا دیا اور کہا کہ او بے ادب بے تمیز بادشاہوں کے دربار میں اس طرح گستاخی کرتے ہیں وہ اُس دھکا دینے سے دو تین قدم پیچھے ہٹ گیا اور گرتے گرتے سنبھلا اور اس نے تلوار کے قبضہ پر ہاتھ ڈالا میں نے بھی تلوار کھینچ لی۔ جس وقت اُس نے قبضہ پر ہاتھ ڈالا ہے تو میری برابر ایک سیّد کا لڑکا نجفد گڑھ کا رہنے والا میری ہی عمر کا ہوگا وہ انگریزی رسالہ میں کوئی عہدہ دار تھا۔ میری برابر سے بڑھ کر اُس نے اُس کا گلا اس زور سے دبوچا کہ قریب تھا اُس کی آنکھیں نکل پڑیں ادھر لوگوں نے مجھے روک لیا۔ میری تلوار آدھی کھنچنی پائی تھی کہ لوگوں نے ہاتھ پکڑ لیا۔ ہیں ہیں جانے دو ۔ بادشاہ نے اشارہ کیا پیچھے کرسی کے آ جا۔ لوگوں نے اسے دھکے دے کر دیوانِ خاص کے باہر کر دیا اور بادشاہ نے

ریختہ صفحہ 143

خفا ہو کر مغلظات گالیاں دینی شروع کیں اور حکم دیا کہ محل کی واریاں کراؤ۔ اور خواجہ صاحب کو چلے چلو۔ قلعہ چھوڑ دو اور خود سوار ہو کر جالی کے دروازہ تک پہنچ گئے تھے کہ اتنے میں سب افسر جمع ہو کر دوڑے اور بادشاہ کی سواری روک لی۔ منّت سماجت کی اور اُسے لا کر پاؤ میں ڈالا۔ ہر چند بادشاہ نے چاہا کہ قلعہ سے چلے جائیں مگر وہ کب جانے دیتے تھے۔ روک لیا۔ ہوادار لوٹا کر تسبیح خانے کو لے گئے۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ بد بخت جرنیل بخت خان یہی ہے۔ پیچھے حال کُھلا کہ وہ بریلی والا جرنیل ہی تھا۔ ظاہرا تو اس کا لباس گھس کھدوں کا سا تھا میں تو سمجھا تھا جیسے اور پوربئے سپاہی ہیں یہ بھی کوئی سپاہی ہو گا۔ قصّہ مختصر جب سے وہ فوج لے کر شہر میں وارد ہوا تھا روز کی لڑائی بند ہو گئی تھی جیسے فوج پہلے صبح ہوتے ہی میدان داری کو تیار ہو کر لڑنے چلی جاتی تھی وہ موقوف ہو گئی تھی، اس نے آکر یہ بات ترک کرا دی تھی ۔ اس نے کوئی اور تدبیر سوچی تھی۔ غرضکہ بیس روز تک لڑائی بند رہی مگر شہر پر گولہ باری بدستور تھی۔ شبانہ روز گولہ برستا تھا۔ اس موقع پر ایک اور بات بیان کرنی ضروری ہے اور وہ جو پانچسو ولایتی تھے وہ سب سے زیادہ جلد باز تھے۔ اور وہ زیادہ فوج کو ورغلاتے تھے اور ترغیب دے کر جنگ میں لے جایا کرتے تھے اور آگے فوج کے آپ ہوتے تھے اور ایسے موقع پر لے جا کر کھڑا کر دیتے تھے جہاں گراب اور باڑھ کی زد ہوتی تھی اور آپ الگ ہو جاتے تھے۔ ایسے ہی ایک بڑھیا عورت تھی کہ وہ سر کو منڈاسا باندھ کر کمر کو دوپٹہ کس کر سب سے آگے ہو جاتی تھی اور لوگوں کو ترغیب دلاتی تھی چلو بیٹا جہاد پر چلو۔ نہ معلوم وہ کٹنی کون تھی۔ روز بازار میں کھڑے ہو کر لوگوں کو لگا کر لے جاتی تھی اور آپ سب سے آگے ہوتی تھی اور پھر وہ بچ کر زندہ

ریختہ صفحہ 144

سلامت آ جاتی تھی۔ اور صد ہا آدمیوں کا خون کراتی تھی۔ پھر جب شہر میں فوج داخل ہوئی ہے تو اس کا پتہ نہ پایا۔

چوتھی لڑائی
غرضکہ بخت خاں کے آنے کے بعد بیس روز لڑائی بند رہی اور تمام فوج نے اُس کو ملامت شروع کر دی تھی کہ تو نے جنگ کو التوا میں ڈال دیا اس کا کیا باعث ہے۔پھر جب جرنیلوں نے مل کر صلاح کی ٹھیرائی کہ پہاڑی کے عقب چل کر انگریزی فوج کا محاصرہ کر لو اور ان کی رسد بند کر دو۔ چنانچہ اس امر پر سب راضی ہو گئےاور ایک دن بخت خاں اپنے کیمپو کو لے کرروانہ ہوا اور شہر سے چار پانچ کوس کے فاصلہ پر جا کر نہر کے پُل کے اُس جانب ڈیرہ ڈالدیا۔دوسرے روز سدہاری سنگھ اور غوث محمد خاں اپنے کیمپو کو لے کر روانہ ہوئے۔ جب بخت خاں کے کیمپومیں پہنچے تو اُسے بہت بُرا بھلا کہا کہ تو نہر کے اس پار کیوں ٹھیر گیااُس پار چل کر ڈیرہ لگانا تھا۔اگر انگریز لوگ نہر کا پُل اوڑا دیں گے تو ہماری آمد و شد بند ہو جائے گی۔یہ کہہ کر انھوں نے اپنے کمپونہر کے پُل کی اس جانب لے جا کر ڈیرہ ڈالا ۔ ہنوز خیمہ قائم نہ ہوا تھا کہ قدرتِ خدا سے مینہ برسنا شروع ہو گیا اور کس شدت سے پانی برسا کہ العظمۃاللہ۔تمام جنگل میں پانی پانی ہو گیا اور ایک خرابی اور ہوئی کہ جس موقعہ پر سدہاری سنگھ کے کمپو کا ڈیرہ تھا وہاں نشیب تھا اور جھیل تھی۔جنف گڑھ کی جھیل مشہور ہے۔حبابی ندی کا پانی سب اُس میں آتا ہے۔ اب یہ کیفیت ہوئی کہ توپیں بھی پانی میں غرق اور آدمیوں کے بھی کمر کمر پانی چڑھ گیا اور میگزین کی پیٹیاں سب دلدل میں پھنس گئیں۔اُدھر انگریزی فوج نے آگے گولے اور گراب کا مینہ برسانا شروع کر دیا اور پیپا بارود کا نہر میں بہا کر نہر کا پُل اوڑا دیا جس سے راستہ بند ہو گیا ادھر

ریختہ صفحہ 145

سے بخت خاں کی فوج نے انگریزی فوج پر گولہ باری شروع کر دی ۔ دونو طرف کی گولہ باری سدہاری سنگھ اور غوث محمد خاں کے کمپؤں پر ہونے لگی۔ اب جائیں تو کہاں جائیں ۔بیچ میں نہر حائل ہے جو بہاگ کر آیا نہر میں گرا۔ غرضیکہ ڈیرہ خیمہ میگزین توپیں وغیرہ سب کی سب وہیں رہیں اور ہزارہا جانیں تلف ہوئیں ۔ تھوڑی سی فوج بچ بچا کر صبح کو دلّی میں پہنچی اور باقی سب تباہ اور ہلاک ہو کر وہیں غارت ہو گئی ۔ دوسرے روز بخت خاں بھی اپنے کمپو کو واپس لے کر شہر میں داخل ہو گیا۔

باغیوں کا بارود خانہ اڑ گیا

مقام نجف گڑھ کی لڑائی کے بعد پوربیوں کی ہمت شکست ہونی شروع ہو گئیاور وہ جوش و خروش کم ہو گیا۔ اُسی اثنا میں ایک ستم اور ہوا کہ چوڑیوالوں کے محلہ میں شمرد کی بیگم کی حویلی میں میگزین تھا اور وہاں بارود تیار ہوا کرتی تھیاور سات سو من بارود روزبنتی تھی اور خرچ میں آ جاتی تھی۔ایک دن تیسرے پہر کا وقت ہے دن کے تین بجے ہوں گے کہ یکایک ایک دھماکے کی آواز کان میں ائی مگر دھماکہ ایسا ہوا جیسے سو توپ کی برابر اس کی صدا تھی۔میں اپنے مکان کے دو منزلہ پر چڑھا اور چہار طرف نگاہ کی تو اپنے مکان کی جنوب کی جانب دیکھتا کیا ہوں کہ ایک تنق گردو غبار اور دھوئیں کا آسمان سے باتیں کرتا ہے۔ معلوم ہوا کہ میگزین اُڑ گیا۔ میں نے آدمی کو بھیجا کہ جا کر خبر لاؤکیا واردات گزری۔ آدمی نے تھوڑی دیر میں آ کر خبر دی کہ میگزین میں سات سو آدمی کام کرتے تھے سب کے سب اُڑ گئے۔ لاشوں کا ڈھیر پڑا ہے مکان میں آگ لگ رہی ہے اور کثیر ہجوم خلق اللہ کا ہے ۔ ایک حشر برپا ہو رہا ہے۔ ہزاروں آدمی واویلا مچا رہے ہیں۔ جن کے عزیز و اقربا بارود خانہ میں کام کرتے تھے۔یہ معرکہ دیکھا نہیں جا سکتا

ریختہ صفحہ 146

تھا۔ یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ میرے پاس عزیزالدین خاں احسن اللہ خاں کے بھانجے گھبرائے ہوئے منتشرالحواس دوڑے ہوئے آئے ۔ اور اُن کے ہمراہ اُن کے گھر کی سواریاں تھیں ۔ خیر سواریاں تو گھر میں اتروا لیں اور ان سے تفتیش حال کی کہ خیر باشد معاملہ کیا ہے۔ انھوں نے بیان کیا کہ ادھر تو میگزین اُڑا ادھر پوربیے حکیم جی کے گھر پر چڑھ گئے کہ حکیم جی انگریزوں سے سازش رکھتے ہیں اُنہوں نے میگزین اُڑوا دیا ہے اور جا کر سب اثاث البیت لوٹ لیا ۔ حکیم جی گھر پہ نہ تھے۔ حضور میں تھے۔ ورنہ وہ ضرور جان سے مارے جاتے۔ یہ عورتیں غریب اپنی جان بچانے کو مکان کے عقب میں ایک ہمسائے کے گھر میں کود گئیں تھیں میں وہاں سے سوار کرا کے لایا ہوں۔

شب خون
اس واقعہ کو تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ ایک دن یہ معاملہ پیش آیا کہ کشمیری دروازہ کے باہر نصف میل کے فاصلہ پر ایک زرد کوٹھی پہاڑی کے متصل تھی وہاں پوربیوں نے ایک مورچہ قائم کر رکھا تھا۔ اور وہاں بڑی بڑی توپیں لگا رکھی تھیں اُن توپوں سے انگریزی فوج کو بہت نقصان پہنچتا تھا۔ اُس مورچے کی حفاظت کے واسطے ہر وقت دو پلٹنیں اور گولہ انداز وغیرہ موجود رہا کرتے تھے اور دو دوپہر کی نوکری رہا کرتی تھی ایک دن حسبِ اتفاق دن کے بارہ بجے سے نصیر آبادوالی فوج نے شہر والی فوج سے کہا کہ بھائیو ذرا ہُشیار رہنا رات کا سماں ہے ایسا نہ ہو کہ غنیم اگر چھاپہ مار جائے اور تُم غافل ہو جاؤ اُن بدبختوں نے جواب دیا بہتّین تم سپاہی ہو ہمو سپاہی نہیں۔ غرض یہ تو وہاں سے رخصت ہوئے اور انھوں نے مورچہ سنبھال لیا ۔ اب اُن کی

ریختہ صفحہ 147

کیفیت سُنئے کہ انہوں نے بخشی خانہ اور بنک گھر کو لوٹا تھا۔ اُن کے پاس اشرفیوں کے ڈھیر تھے۔ وہ دن بھر بھنگیں پیتے تھے اور قلاقند۔ پیڑے۔ لڈو اُڑاتے تھے۔ وہ جو وہاں پہنچے اوّل اوّل تو ہشیار رہے۔ جب پھر رات آئی اور ٹھنڈی ہوا چلنے لگی تو وہ پہلے ہی سبزی کے گھوڑوں پر سوار تھے، ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اُن پر اور تازیانہ ہو گئے اور طرّہ طراروں کے سرور و موجیں دکھانے لگے۔ بعد پایانِ فلک سیر پر سوار ہو کر وادیء عدم کو تیار ہو گئے اور بندوقوں کے کوت لگا کر دھوتیاں بچھا بچھا کر بسترِ مرگ پر دراز ہو گئے۔
دوھا
بھنگ ایسی پیجئے جیسے کنج پورہ کی کینچ
گھر کے جانیں مر گئے اور آپ نشہ کے بیچ
اب یہ تو خوابِ خرگوش میں پڑے ہوئے خراٹے لے رہے ہیں اور اُدھر مخبر نے جا کر انگریزی فوج کے جرنیل کو خبر دی کہ اس وقت باغی لوگ سب بےخبر پڑے سوتے ہیں۔ مورچا سونا پڑا ہے۔ یہ وقت شبخون مارنے کا ہے۔ وہاں سے افسرانِ فوج وہ پلٹنیں دو گورکھیوں کی اور ایک پلٹن مجوی اور ایک پلٹن گورہ لے کر ننگے پاؤں پہاڑی پر سے اُترے اور آہستہ آہستہ دبے پاؤں آ کر پہلے تو بندوقیں اُٹھا لیں پھر توپوں پر قبضہ کر کے اُن خفتہ بختوں کو بیدار کیا اور کہنا شروع کیا کہ اُٹھو بھائی دیندار و گورے لوگ آ گئے۔ ایک جو آنکھیں ملتا ہوا اُٹھا۔ گورکھئے نے کہکری مار کر سر اڑا دیا۔ اب کہکری اور تلوار چلنی شروع ہوئی۔ ایک غُل ہا ہو کا بلند تھا، جتنے مارے گئے مارے گئے۔ باقی بدحواس بھاگ کر شہر کی جانب روانہ ہوئے۔ اِدھر کی کیفیت تھی کہ وہ جو نصیر آباد کی پلٹنیں پہرہ بدلوا کر ان اجل رسیدگان سے آئی تھیں بنظرِ احتیاط وہ شہر میں داخل ہوئی تھیں کہ شب کو دروازہ شہر کُھلوانا مناسب

ریختہ صفحہ 148

نہیں وہ کشمیری دروازے کے باہر متصل کی پٹری پر سب لیٹے ہوئے کمریں سیدھے کرتے تھے اور یہ بھاگے ناٹے اُن کے پاس پہنچے انہوں نے اُن کو لعنت و ملامت کے بعد کہا کہ تُم ہمارے پیچھے آ جاؤ۔اور بندوقیں بھر کر خاموش لیٹ گئے۔ اسی اثنا میں انگریزی فوج اُن کا پیچھا دبائے ہوئے پہنچی کہ اُن کے ساتھ ہی دروازہ کی راہ سے شہر میں داخل ہو جانا چاہئیے۔ بیخبر سنگینیں باندھے چلے آتے تھے۔ جب یہ بندوق کی زد پر آ پہنچے تو یکبارگی انھوں نے باڑ مار دی اور کشمیری دروازہ کے گولہ اندازوں نے جو یہ دیکھا کہ شہر کی ڈنڈی کے نیچے ہی لڑائی ہو رہی تھی۔ انہوں نے اوپر سے گرداب مارا۔ ادھر سیاہ بُرج والوں نے توپیں بھر کر اندھا دھند گراب برسانے شروع کر دئیے ۔ اُس وقت یہ نوبت ہو گئی کہ خدا دے اور بندہ لے۔ تعاقب کنندگان کو جان بچانی مشکل ہو گئی۔ وہ ہی مثل ہو گئی۔ اس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے۔ لاش پر لاش پڑ گئی۔ کُشتوں کے پُشتے لگ گئے۔ بھاگے اُلٹے پاؤں اور جا کر مورچہ پر دم لیا اور اُسی زرد کوٹھی کے مورچے کی توپیں دروازہ شہر کی جانب پھیر کر اندھا دُھند انھوں نے فیر کرنے شروع کر دئیے۔ رات بھر ہنگامہء بگیر و بکُش گرم رہا۔ دونوں طرف سے توپ بندوق چلتی رہی۔ مگر وہ مورچہ کالوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اور گورے اُسپر قابض ہو گئےاور باہر سے امداد پہنچ گئی۔ آمنے سامنے کی لڑائی ہو گئی اور اس جنگ میں ایک فتنہ اور بپا ہو گیا کہ افواج انگریزی کا ایک افسر کلاں مارا گیا۔ اور اس کی لاش وقتِ شب بیچ میں دونوں مورچوں کے پڑی رہ گئی۔ صبح کو اُس کی لاش کے اُٹھانے کی دونو طرف سے کدو کاوش ہو رہی ہے اور باہم بندوق اور توپ خوب زور و شور سے چل رہی ہے اور ادھر پوربیوں کو یہ طمع دامنگیر ہے کہ اس کے ہتیار اور رجال کرچ عمدہ اور

ریختہ صفحہ 149

نایاب ہیں۔ کسی طرح یہ ہات لگیں۔ وہ لاش عین کشمیری دروازہ کے کھوکھن کے سامنے ہی تھوڑے فاصلہ پر پڑی تھی۔ اُس لاش پر ڈیڑھ دن لڑائی رہی۔ کیونکہ وہ دونوں جانب کے گراب کی زد پر تھی۔ شبانہ روز برابر بندوق چلتی رہی۔ ہزاروں آدمیوں کا طرفین سے کُشت و خون ہو گیا۔ آخر وقتِ شب ایک پوربئے نے کیا حکمت کی کہ زمین میں لوٹتا لوٹتا اُس کے پاس پہنچ گیا اور اُس کے پاؤں میں اپنی پگڑی کا سرا باندھ دیا اور اُسی طرح لوٹتا ہوا واپس چلا آیا اور وہاں سے اس لاش کا آہستہ آہستہ کھینچ لیا۔ تپنچہ کی جوڑی۔ جال کرچ اور جو کچھ سامان وغیرہ تھا سب اتار لیا۔ اور لاش کو اسی طرح چھوڑ دیا۔ صبح جب اُس طرف والوں نے لاش کو نہ دیکھا تو لڑائی موقوف ہوئی وہ پوربیا اُس لاش کے ہتیار لے کر قلعہ میں آیا اور ہتیار سب کو دکھائے اور خانساماں کے مکان میں وہ لے کر آیا۔ احسن اللہ خاں کو دکھائے کہ ان ہتیاروں کی بابت دو دن لڑائی رہی۔ میں نے بچشمِ خود دیکھے تھے تپنچہ کی جوڑی تو خیر اچھی تھی مگر کرچ لاجواب تھی۔ اُس کے قبضہ پر سُنہری ملمع تھا اور تلوار کا پھل سیہ تاب دیا ہوا تھا۔ اُس کی رنگت طاؤس کی گردن کی سی تھی اور سنہری حرفوں سے کچھ لکھا ہوا تھا اور سُنہری کام تھا۔

سیاہ بُرج کا نیا مورچہ
اس لڑائی کے بعد فوج انگریزی نے یہ کام کیا کہ جو مورچہ ان سے چھینا تھا۔ اُس کو خوب مستحکم کیا۔ اور وہاں پر پڑاؤ ڈال دیا اور رفتہ رفتہ شہر کی جانب مورچہ بڑھانا شروع کیا۔ ہر روز دروازہ کے باہر جو چند قدم پر سڑک تھی وہ کابلی دروازہ سے موڑ کھا کر کشمیری دروازہ کو جاتی تھی۔ اُس سڑک سے سے پرے چند قدم کے فاصلہ پر ایک نشیب تھا اور نالہ تھا۔ وہاں

ریختہ صفحہ 150

لکڑی والے کی ٹال تھی۔ وہیں بلیاں اور چھتوں وغیرہ کی کڑیوں کا انبار پڑا رہتا تھا اور وہ بدررو دروازے کے سیاہ بُرج کے مقابل میں تھی۔ اور وہ جائے شاید برج سے دو تین قدم کے فاصلہ پر ہو گی۔ ایک شب انگریزی فوج نے یہ کام کیا کہ اُس ٹال میں آگ لگا دی اور لکڑیوں کو سُلگا دیا اور اُس کا دھواں اُٹھنا شروع ہوا۔ اور اُس دھوئیں کی اوٹ میں مورچہ باندھنے شروع کئے۔ سیاہ بُرج والے حیران تھے کہ یہ دھواں اُٹھا ہے اور کچھ حال نہ معلوم ہوا۔ وہ جائے عین سیاہ بُرج کے نیچے گراب کی زد پر تھی۔ یہ مورچہ کیونکر باندھنے دیتے۔ غرضکہ جب مورچہ تیار ہو گیا تو چالیس توپیں قلعہ شکن اُس میں لا کر لگا دیں اور ایک بارگی اُن چالیس توپوں کا ایک فیر سیاہ بُرج پر کیا اور اُن توپوں کی برابر سیاہ بُرج پر باڑھ جھاڑنی شروع کر دی۔اس وقت سیاہ بُرج والوںکی آنکھیں کُھلیں۔ اب کیا ہو سکتا تھا ہر چند ہاتھ پاؤں مارے گراب برسائے کیا ہوتا ہے ۔ ادھر سے برابر توپ کی باڑ پڑ رہی تھی۔ اب یہ کیفیت ہو گئی کہ جو سیاہ بُرج کی زدوں کی جھانکیاں اور پُشتے روک لئے تھے جس کی پناہ میں کھڑے ہو کر توپ لگاتے تھے ۔ وہ گرنے شروع ہو گئے اور توپوں پر گولہ پڑنے لگا اور سیاہ بُرج پر کھڑا رہنا مشکل ہو گیا۔ انجام یہ ہوا کہ اس کا عملہ سب کھائی میں گر گیا۔ آٹھ دن تک یہ گولہ باری شبانہ روز جاری رہی۔ آخر آٹھویں روز جب سپاہ انگریزی نے دیکھ لئا کہ سیاہ بُرج خالی پڑا ہے اور کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے اور سیاہ بُرج شکستہ پر سے اچھی طرح آدمی چڑھ سکتے ہیں تو چار گھڑی رات پچھلے سے تمام فوج انگریزی پہاڑی سے اُتر کر میر حسن کے کھنڈرات میں آ گئی اور کابلی دروازہ کے اُس جانب لا کر توپخانے لگا دئیے۔ اس طرف سے بھی تمام فوج باغیہ کُل سوار پیدل توپ خانے لے کر مقابل ہوئی
 

شمشاد

لائبریرین
داستان غدر صفحہ 151

یہ لاہوری دروازہ سے لگا کر کابلی دروازہ کی نہر تک تمام تیلی واڑہ کے میدان میں پھیلی ہوئی ترمن تھی اور انگریزی فوج کے اور اس کے درمیان میں فقط ایک نہر حائل تھی۔ اور برابر دونوں طرف سے بندوق کی باڑ جھڑ رہی تھی اور پہاڑی کے مورچوں کی توپیں اور دستی توپ خانے داغ رہے تھے۔ علیٰ ہذا القیاس پُربیوں کی طرف سے لاہور دروازہ کے بُرج کی توپیں، گھوڑ چڑھی اور بیل باتری توپ خانے سب چل رہے تھے۔ گولہ گراب اور باڑوں کا دونوں طرف سے مینہ برس رہا تھا۔ اس دن شہر کی زمین اور مکانات اور سب دیوار و در لرز رہے تھے۔ بندوقوں کی باڑیں متصل جاری تھیں۔ لڑائی کیا قیامت کے آثار نمودار تھے اور مصداق اذا زلزلت الارض زلزالھا کا آشکار تھا۔ خدا جانے طرفین سے تین سو توپ چل رہی تھی یا چار سو توُ کی باڑھ جھڑ رہی تھی۔ اس کا علم خدا کو ہے۔ غرضیکہ یہ کیفیت صبح کے پانچ بجے سے شروع ہوئی تھی اور دس بجے تک یہ قیامت برپا رہی۔ آٹھ بجے دن کے میں پانچ چھ آدمی لے کر قلعہ کو جانے لگا تو دیکھا کہ کوچہ بندی کے پھاٹک سب بند ہیں۔ دروازوں کو قفل لگے ہوئے ہیں مگر کھڑکیا کُھلی ہوئی تھیں۔ میں چھوٹے دریبے کے پھاٹک سے باہر نکل کر چلنے لگا تو دیکھا دو چار آدمی اُدھر سے واپس آتے ہیں۔ ان میں ایک بادشاہی دربان بھی ہے۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہاں جاتے ہو۔ میں نے کہا قلعہ کو اس نے مجھے منع کیا کہ جہ جاؤ۔ قلعہ کا دروازہ بند ہے۔ میں واپس آیا ہوں۔ اس وقت بازار کی سب دُکانیں بند تھیں اور ایک دو آدمی چلتے پھرتے تھے۔ میرے جی میں آئی کہ تم تو چل کر دیکھو کیا معاملہ ہے۔ جب قریب دروازہ پہنچا دیکھا دروازہ بند ہے اور قفل لگا ہوا ہے اور دروازہ کے سامنے ایک توپ لگی ہوئی ہے۔ کچھ آدمی دروازہ کے پیچھے کھڑے ہوئے ہیں اور دروازہ کے اوپر ایک حوالدار کھڑا

داستان غدر صفحہ 152

ہوا لڑائی کا حال بیان کر رہا ہے اور لوگ سُن رہے ہیں۔ اسی اثناء میں ایک رجمنٹ سواروں کی قلعہ کی جانب سے آئی اور اُنہوں نے دروازے والوں سے کہا کہ تم دروازہ کھول دو۔ ہم باہر جائیں۔ دروازہ والوں نے دروازہ کہ کھولا اور حوالدار نے ادھر سے بیان کیا کہ تم لوگ کشمیری دروازہ کو جاؤ۔ اُدھر کی طرف غلبہ بہت ہے اور ۔۔۔۔۔۔ وہ تمہارے ہاں کےسواروں دہاوا کر دیا۔ مٹھائی کے پُل پر سے اُس جانب چلے جا رہے ہیں اور انگریزی سپاہ کشمیری دروازہ کی طرف دوڑی جا رہی تھی۔ تو ان سواروں نے لاہوری دروازہ کی ڈنڈی کے پیچھے پیچھے جو راستہ کابلی دروازہ کو جاتا تھا۔ اُدھر کو گھوڑے دوڑا دیئے۔ میں نے اپنے گھر کا رُخ کیا جب میں بھوانی شنگر کے چھتے کے پاس پہنچا تو میں نے دیکھا کہ پوربیئے بے تحاشا بھوانی شنکر کے چھتے میں سے بھاگے چلے آتے ہیں۔ اس وقت بہت سے آدمی بازار میں تھے۔ انہوں نے ان کو روکا کہ ہیں تم ہم کو لڑوا کر کہاں جاتی ہو تو انہوں نے بندوقیں اور توش دان پھینک کر جواب دیا کہ بھین ہمو تو لڑ چکے اب تم ہی لڑو اور بندوقیں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ جب یہ حال لوگوں نے دیکھا تو سب اپنے اپنے گھر کو روانہ ہوئے۔ میں قدم اٹھا کر بلی ماروں کے پھاٹک پر پہنچا تو دروازہ بند پایا۔ دوڑ کر چھوٹے دریبے کے پھاٹک تک پہنچا۔ بارے وہ دروازہ بند تھا اور کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔ اس وقت ایک تماشا اور نظر آیا۔ جب میں کھڑکی کے پاس پہنچا ہوں تو سامنے کوتوالی کے آگے سے ایک بندوقوں کی باڑھ مجھ پر پڑی اور گولیاں آ کر سڑک کی نالیوں کے پتھروں پر چٹخیں، جس طرح زمین پر اولے گرتے ہیں۔ میں نے سامنے دیکھا تو انگریزی فوج کا ایک بزن کوتوالی کے آگے موجود کھڑا تھا۔ میرے ہمراہیوں میں سے ایک شخص نے کہا کہ میرے گولی لگی ہے۔ میں نےکہا آؤ چلے آؤ۔ گھر چل کر دیکھیں گے اور جلدی سے کھڑکی

داستان غدر صفحہ 153

میں داخل ہو کر اس شخص کو کھینچ کر کھڑکی کے اندر لے لیا۔ سب ہمراہی جب اندر آ گئے تو کھڑکی بند کر دی اور قدم اٹھا کر گھر کا راستہ لیا اور بھاگ کر گھر پر پہنچا۔ وہاں جا کر اس سے دریافت کیا کہ تیرے گولی کہاں لگی ہے۔ اس نے جواب دیا کہ شکم میں اور اپنی کمر کھولی تو کھٹ سے گولی تخت پر گری۔ اس کو اٹھا کر دیکھا تو لمبی اور پیچھے سے خالی چھالیا کی ڈلی کی صورت کی تھی۔ اس شخص کے گلے میں ایک چار اُنگل لمبا چوڑا چمڑا تھا۔ چمڑے کو جلایا، نیچے کا موم جامہ پھونکا اور تعویذ کے کاغذ پر جا کر رک گئی۔ اس کے پیٹ پر بالشت بھر چوڑا چکلا گول سُرخ نشان پڑ گیا تھا۔ اب میں اپنے دیوان خانہ کے اندر اس فکر میں مشوش بیٹھا ہوں کہ تو نے اپنی آنکھ سے دیکھ لیا کہ انگریزوں کی فوج شہر میں داخل ہو گئی اور پوربئے شہر میں سے بھاگ گئے۔ اب سپاہ انگریزی گھروں میں آ کر قتل و قمع کرے گی۔ قضا آ پہنچی دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ مگر میں نے ابھی گھر میں اپنی والدہ سے یہ خبر بیان نہیں کی کہ گھر والے مضطرب ہوں گے۔ بیٹھا ہوا اللہ اللہ کر رہا ہوں۔ ایک ڈیڑھ گھڑی کا عرصہ گزرا ہے کہ یکایک توپ کی صدا میرے کان میں آئی۔ اور اتنی قریب معلوم ہوئی گویا اس محلہ میں چل رہی ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک اور آواز آئی۔ جب تو مجھے حیرت ہوئی کہ محلے میں توپ کہاں سے آ گئی۔ پھر میں دو تین آدمیوں کو ہمرا ہ لے کر گھر سے باہر نکلا۔ محلے میں جو شاہراہ تھی، وہاں پہنچا تو دیکھا کی آدمیوں کی آمد و رفت برابر ہے۔ آنے جانے والوں سے پوچھی کہ بھئی کیا ہوا۔ انگریزی فوج کہاں گئی۔ انہوں نے بیان کیا کہ لوگوں نے ان کو مار بھگا دیا۔ اور شہر میں بلوہ ہو گیا۔ پھر میں وہاں سے چاوڑی کے بازار میں جا پہنچا تو دیکھا کہ واقعی ہزاروں آدمی، لاٹھی پٹونگا، تلوار، گنڈاسا وغیرہ لئے ہوئے شہر میں پھرتے ہیں۔ غرضیکہ جامع مسجد کے

داستان غدر صفحہ 154

نیچے ہو کر گلیوں کے بازار میں پہنچا۔ تو وہاں عجیب تماشا نظر آیا۔ لاشوں کا ایک ایسا انبار تھا جیسےلکڑیوں کی ٹال لگی ہوتی ہے اور یہ وہ موقع ہے جہاں ایک بار مجھے ایک مست درویش مجذوب نے نشان دہی کی تھی۔ کہ اس جگہ کُشت و خونہو گا اور چار مہینے پہلے زمانۂ غدر سے ان بزرگوار نے یہ پیشنگوئی کی تھی، اب سُنیے میں وہاں سے آگے بڑھا تو چند قدم پر اور لاشیں پڑی ہوئی نظر آئیں۔ بازار کے لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ ماجرا کیونکر ہوا، لوگوں نے بیان کیا کہ ایک بزن انگریزی فوج کا مسجد کی سیڑیوں تک آ پہنچا تھا۔ اور کچھ لوگ فوج کے رعایا کے گھروں میں گُھس کر لوٹ مار کرنے لگے۔ ادھر فوجیوں نے یہ چاہا کہ جامع مسجد میں داخل ہو جائیں۔ مسجد میں جو مسلمان مسافر جمع تھے انہوں دے دیکھا کہ اب یہ خدا کے گھر میں آ کر کشت و خون کریں گے، آؤ بہتر تو یہ ہے کہ مسجد سے نیچے اتر کا ان سے سمجھ لیں۔ یہ کہہ کر وہ مسجد کے دروازہ سے باہر نکل کر سیڑھیوں پر سے اترنے لگے۔ فوج والوں نے ان پر بندوقیں سرکیں۔ مگر جو زندہ رہے وہ سامنے چلے اور باہم جنگ مغلوبہ دست بدست ہونے لگی۔ ایک غُل شور برپا اور بلوہ ہو گیا۔ لوگ گھروں میں سے لکڑیاں، پلنگ کی پٹیاں، تلواریں لےلے کر دوڑ پڑے۔ اس بزن میں سے کچھ مارے گئے۔ جن کی لاشیں موجود ہیں اور باقی بھاگ کر اپنے لشکر کو چلے گئے۔ میں یہ تماشہ دیکھتا ہوا بڑے دریبے میں ہو کر خونی دروازہ سے نکل کر کوتوالی کے آگے پہنچا۔میں نے جامع مسجد سے لگا کر کوتوالی کے آگے پہنچا۔ میں نے جامع مسجد سے لگا کر کوتوالی تک لاشیں برابر پڑی دیکھیں اور جس جائے سے کہ پہلے مجھ پر بندوقوں کی باڑ پڑی تھی، کئی لاشیں وہاں بھی نظر آئیں اور ایک ٹین کی تھیلی گراب کی کوتواکے حوض کے آگے پڑی دیکھی وہاں سے آگے بڑھ کر جب میں چھوٹے دریبے کے پھاٹک پر پہنچا ہوں تو میں نے دیکھا

داستان غدر صفحہ 155

کہ پیپل کے پیڑ کے نیچے ایک توپ کھڑی ہوئی ہے اور کوئی گولہ انداز وغیرہ وہاں نہیں۔ اس وقت مجھ کو یقین ہوا کہ یہ توپ وہی ہے جس کی صدا تیرے کان میں پہنچی تھی۔ حسب تحقیق واضح ہوا کہ کچھ آدمی اس توپ کو لاہوری دروازہ سے کھینچ کر لائے اور یہاں قائم کر کے انہوں نے انگریزی فوج پر گراب مارا اور اس سے افواج انگریزی کو جو کوتوالی کے آگے کھڑی تھی نقصان پہنچا۔ کچھ آدمی زخمی ہوئے اور کچھ ہلاک۔ جب دوبارہ گراب مارا ہے اور اس سے زیادہ نفوس تلف ہونے لگے تو ان لوگوں کے پاؤں اُکھڑ گئے۔ اُدھر والے کشمیری دروازہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ میں نے جب یہ کیفیت ملاحظہ کر لی تو چھوٹے دریبے میں ہو کر اپنے مکان کو چلا آیا۔ سُنا جاتا ہے کہ پُل والے لوگوں نے کشمیری دروازہ اور کچہری میں جا کر پناہ لی۔ شام تک مردمان بلوائی تمام شہر میں بلکہ حامد علی خاں کی کوٹھی تک پہنچ گئے تھے۔ آگے افواج انگریزی نے توپیں لگا رکھی تھیں۔ یہ جن کے پاس توپ کیا بندوق تک نہیں آگے کیونکر جا سکتے تھے۔ غرض شہر میں شام تک یہ آتش فتنۂ و فساد مشتعل رہی۔ شام بھگی بھگائی خلقت اپنے اپنے گھروں میں آ کر پڑ رہی۔ آدھی رات کے وقت سپاہ انگریزی نے یکایک کُشت و خون کرنا شروع کیا۔ اور سوتے آدمیوں کو گھروں میں گُھس کر اور سیڑھیوں کے ذریعہ کوٹھوں پر چڑھ کر ہلاک کرنے لگے۔ صبح کے وقت کشمیری دروازہ کے قرب و جوار اور بدر دروازہ اورو کابلی دروازہ وغیرہ کی خلقت اور ۔۔۔۔۔۔۔ کے پھاٹک کے لوگ بھاگ بھاگ کر شہر کے اُس جانب چلے آئے۔

بادشاہ ہمایوں کے مقبرے

اور مفصل کیفیت داخلہ سپاہ انگریزی کی اس طور پر ہے کہ جس وقت اس حوالدار نے جو لاہور دروازہ پر کھڑا ہوا بتا رہا تھا کہ انگریزی فوج کشمیری دروازہ کی طرف

داستان غدر صفحہ 156

بڑھی ہے۔ تو دراصل اس وقت فوج نے یورش کی تھی اور سیاہ برج کو خالی پا کر کہ وہاں کوئی آدمی نہ تھا کہ اس یورش کو روکتا۔ یہ کھائی میں سے اُتر کر سیاہ برج پر سیڑھی لگا کر چڑھ گئے۔ جب سیاہ برج پر چڑھ گئے ہیں تو جانبین کی ڈنڈی پر جو پوربیوں کی فوج کھڑی تھی۔ وہ وہاں سے کود کود کر بھاگ نکلی اور کابلی دروازہ سے لگا کے کشمیری دروازہ اور بگہ پور گھاٹ تک سب میدان میں اور شہر پناہ کا ڈنڈا خالی ہو گیا۔ حتے کہ لاہوری دروازہ تک کے ڈنڈے والے اور برج کے گولہ انداز ڈنڈی پر سے اُتر کر فرار ہو گئے اور باہر شہر کے جس قدر کالوں کی فوج تھی سب باہر کی باہر رہ گئی اور باقی شہر کے ڈنڈے والے بھی بھاگ کر شہر کے باہر کی فوج میں جا ملے۔ اور انگجریزی فوج شہر میں داخل ہو گئی۔ باہر والے باہر رہ گئے۔ اب شہر میں سوائے رعیت کے پوربیا نام کو نہ رہا۔ سب فوجی اجمیری دروازہ شہر سے لگا کر دلی دروازے کے باہر تک جا پڑے اور تمام میدان پہاڑ گنج سے لے کر جیل خانے والے دروازہ تک جا کر گھیر لیا۔ اب شہر میں دن کو تو شہر کے آدمی پھرتے چلتے ہیں اور مارنے مرنے پر آمادہ ہیں اور شب کو سپاہ انگریزی نکل کر گھروں میں قتلکر جاتی ہے۔ اب شہر کی یہ کیفیت ہے کہ دوکانیں سب بند اور رسد آنی بند۔ دانہ پانی خلقت پر حرام، لگے بھوکے پیاسے مرنے۔ تین روز تک یہی کیفیت رہی۔ آخر تیسرے روز شام کے وقت بادشاہ قلعہ نے نکل کر ہمایوں کے مقبرہ پر پہنچے اور رعیت بھی سراسیمہ حیران و پریشان ہو کر شب کے وقت سب گھر بار اثاث البیت جوں کا توں گھروں میں چھوڑ کر اپنے بچوں عورات کا ہاتھ پکڑ پکڑ کر شہر سے نکلنی شروع ہو گئی۔ غرضیکہ اس وقت وہ قیامت عظیم برپا ہوئی کہ بیان نہیں ہو سکتی۔

داستان غدر صفحہ 157

نکلنا شہر سے خلقت کا بے سر و ساماں
وہ جانا پردہ نشینوں کا با سرِ عریاں

دراز دست تطاول ستم شعاروں کا!
فلک کو یاس سے تکنا جفا کے ماروں کا

نکلتے شہر سے ہیں پر نکل نہیں سکتے
ہزار چال سے چلتے ہیں چل نہیں سکتے
کروڑ شکل کو بدلیں بدل نہیں سکتے
قدم قدم پہ ہے لغزش سنبھل نہیں سکتے

کمند موت نے کیا بند بند جکڑے ہیں
زمین شہر نے اک اک کے پاؤں پکڑے ہیں

غرض کہ اس وقت خلقت کا اضطراب اور خرابی پریشانی اور بے سر و سامانی اور مستوراتِ پردہ نشین جنہوں نے عمر بھر کبھی ایک قدم باہر نہیں رکھا تھا ان کا گھبراہٹ میں سر و پا برہنہ نکلنا اور بچوں کی واویلا کا شور اور گھبراہٹ کا حال دیکھنے سے کلیجے کے ٹکڑے ہوئے جاتے تھے۔ جس شخص کی نظر سے وہ معرکہ گزرا ہے کچھ وہی خوب جانتا ہے۔

یہ ول الم ہے کہ اس غم سے سب ہلاک ہوئے
لگا کے چرخ سے بیچین تا سماک ہوئے

ہلاک گور میں آسودگانِ خاک ہوئے
کفن بھی ساتھ گریباں کے چاک چاک ہوئے

نہ روز حشر سے کم تھی عذاب کی صورت
خدا دکھائے نہ اس انقلاب کی صورت

شہر خالی ہونے لگا

غرضیکہ جس شام کو بادشاہ قلعہ سے نکل کر ہمایوں کے مقبرہ پہنچے ہیں، چار گھڑی رات گئے نواب حامد علیخاں

داستان غدر صفحہ 158

صاحب کا آدمی میرے والد کے پاس آیا اور اس نے آ کر کہا کہ آپ گھر میں کیا بیفکر بیٹھے ہیں۔ بادشاہ تو قلعہ سے سوار ہو گئے اور رعیت سب نکل رہی ہے۔ خدا کے لیے چھوڑو گھر بار کو اور بال بچوں کو لے کر شہر سے نکلو۔ دیکھتے نہیں کہ شہر قتل ہو رہا ہے۔ اور میں تو اب اہل و عیال کو ہمراہ کےکر شہر سے نکلتا ہوں۔ میرے گھر کی سواریوں کے ہمراہ مستورات کو سوار کر دو۔ نواب حامد علی خاں صاحب کا مکان کشمیری دروازہکے متصل تھا۔ مگر وہ ایک مہینہ پیشتر ہمارے محلہ میں ایک مکان کرایہ پر لے کر رہے تھے۔ غرضیکہ اس گھبراہٹ اور اضطراب میں جو لباس کہ جس شخص کے بدن پر تھا اسی طرح پہنےہوئے گھر سےنکل کھڑے ہوئے۔ میری والدہ نے تو اس سرسیمگی میں گھر میں سے ایک چھلہ تک نہ لیا۔ الا میرے اہل خانہ نے یہ کام کر رکھا تھا کہ اپنےجہیز کے جوڑے جو قریب ڈیڑھ ہزار کی مالیت کے ہوں گے اور زیور کی چھوٹی سے پٹاری علاوہ اس کے سوار ہوتے وقت اپنےپاس رکھ لی۔ اس کی صورت یہ کی تھی کہ ایک توشک سی کر اُس میں بھر دیئے۔ اور ایک گاؤ تکیہ سی لیا تھا۔ اس میں وہ لباس تھا۔ وہ رتھ میں توشک بچھا دی اور تکیہ رکھ دیا۔ غرض میں اور میرے والد اور میری والدہ اور میرے سب چھوٹے بہن بھائی اور نواب حامد علی خاں کی سب زنانی سواریاں سوار ہو کر مٹیا محل میرے سسُرال میں پہنچے اور وہاں جا کر میری دویا خوشدامن یعنی بڑی بیگم صاحبہ جاگیردار مواضعات صدر پور رئیس پور سے جا کر نواب حامد علی خاں صاحب کی بیوی اور میری والدہ نے کہا کہ بیگم صاحبہ بیٹھی کیا ہو، جلدی سوار ہو اور اپنے بال بچوں کو لے کر نکلو۔ یہ وقت گھر بیٹھنے کا نہیں ہے۔ ہم تم کو سوار کرانے کو آئے ہیں۔ غرضیکہ وہ بھی راضی ہو گئیں۔ اور باہر میں نے خسر نواب امیر مرزا خاں صاحب کی منتیں کیں کہ خدا کے واسطے آپ ہمارے ساتھ نکل چلئے۔

داستان غدر صفحہ 159

بہرحال اُسی وقت سواریوں کا بندوبست کر کے قریب ایک بجے رات کے میری خوشدامن اور سب بال بچے سوار ہو کر مٹیا محل کے پھاٹک پر پہنچے۔میرے خسر کی گود میں میرا چھوٹا سالا کاظم مرزا تھا۔ میں وہ ہاتھ میں ہاتھ دیئے ہوئے باتیں کرتے مٹیا محل کے دروازہ میں پہلے کہ ایک بلائے ناگہانی کا سامنا ہوا۔ مٹیا محل کے عین دروازہ کے پہلو کی چوکی پر کلو نامی ایک دیوانی مجذوبہ بیٹھی ہوئی تھی۔ اس بدبخت نے جو میرے خُسر کی شکل دیکھی تو یکایک گھبرا کر بہ آواز بلند پکار اُٹھی کہ ہیں میاں امیر میرزا تم کہاں جاتے ہو۔ تمہارے واسطے تو خدا کا حکم نہیں ہے۔ تم کیا بھول گئے۔ وہاں اس کے منہ سے تو یہ بات نکلی تھی۔ اور یہاں امیر میرزا صاحب کے قدم زمین نے پکڑ لئے۔ اور کلو سے کہا کہ بلا شک مجھ سے سہو ہوا۔ اُسی وقت گاڑی بان کو حکم ہوا کہ سواریاں گھر کو واپس لے چل۔ ہر چند میں نے قدموں میں سر رکھا اور سب ہمراہیوں نے منتیں کیں مگر ایک کینہ سُنی۔ سب نے سمجھایا کہ خدا کے لئے اس پچاس آدمی کے کنبے پر رحم کرو اور ساتھ چلے چلو۔ وہ یہی فرمانے لگے کہ حکم خدا نہیں ہے۔ اس وقت اور ایک غضب یہ ہوا کہ میاں ناصر الدین صاحب ان کے چھوٹے خالہ زاد بھائی پہنچے۔ انہوں نے جا کر کہا کہ بھائی صاحب اُلٹے چلیئے۔ چلو میرے گھر میں وہ جو تین یورپین عورتیں چھپی ہوئی ہیں وہ کہتی ہیں کہ وہ کیوں جاتے ہیں۔ ان کو کیا خوف و خطر ہے۔ ہم انگریزوں سے کہہ سن کر تمہارے گھر کو بچا لیں گے۔ یہ اور ان کو تقویت ہو گئی اور مجھ سے کہا بیٹا تم جاؤ۔ میرا قدم آگے نہیں اُٹھتا۔ غرضیکہ مجبور میں تو اپنے یہاں کی سواریوں کو لے کر روانہ ہوا اور وہ معہ اہل ع وعیال گھر کو واپس چلے گئے۔ میں نے اپنی ماں بہنوں اور نواب حامد علی خاں صاحب قبائل کو دہلی دروازہ اپنی حقیقی نانی کے مکان پر پہنچایا۔ اس وقت رات کے دو بج چکے تھے۔ وہاں اور کنبہ

داستان غدر صفحہ 160

والے بھی جمع تھے۔ حکیم مومن علی خاں صاحب کی حویلی میں دو سو (200) زن و مرد فراہم تھے۔ غرضیکہ صبح ہوئی اور شہر سے نکلنے کی تیاری ہوئی تو میری بی بی میرے ہمراہ نہ آئی تھی۔ وہ اپنے ماں باپ کےہمراہ واپس چلی گئیں تھیں۔میں نے اپنے چھوٹے بھائی امراؤ مرزا کو بھیجا اور کہلا بھیجا کہ اگر آپ کو میرے ساتھ کرنا ہے تو میرے ساتھ کر دیجیئے۔ جو میرا حال ہو وہ میری بیوی کا حال اور اگر اپنے ہمراہ رکھنا ہے تو فی امان اللہ۔ مجھ سے اب عمر بھر کی مفارقت سمجھیے۔ یہ بات میرے بھائی نے جا کر میرے خُسر سے بیان کی۔ انہوں نے سنتے ہی گھر میں حکم دیا کہ یہ اب اس کی ناموس ہے۔ اُسے اختیار ہے جہاں چاہے لے جائے۔ ہمارا کچھ واسطہ نہیں۔ ہر چند مستورات منع کرتی رہیں۔ مگر میرا بھائی میری بیوی کو ڈولی میں سوار کر کے لے آیا۔ اور اب وہاں سے سب کے سب سوار اور پیدل مستورات اور بچے نکل کر دلی دروازہ کے باہر ہوئے تو اس وقت دلی دروازہ کا میدان صحرائے قیامت نظر آتا تھا۔ ہزارہا پردہ نشین عورتیں اور ننھے ننھے بچے اور بوڑھے اور جوان مرد ہوش و حواش باختہ شہر سے نکلے چلے آتے تھے۔کسی کو ہوش پردے کا نہ تھا۔ بہت سی نیک بختیں مقنع و چادر جو کپڑا سر پر تھا وہ اوڑھے ہوئے برہنہ پا چلی جاتی تھیں۔

گُلوں سے جسموں پہ اک مُردنی سی چھائی تھی
وہ مہ سے چہروں پہ گویا چُٹھی ہوائی تھی

غضب وہ پردہ نشینوں کی بے روائی تھی
غرضیکہ آنے سے پہلے قیامت آئی تھی

بیان کیجیے نصیبوں کی کہا بُرائی کا
وہ دشت اور وہ پرنا برہنہ پائی کا

غرضیکہ بہزار مصیبت و مشقت اُفتاں و خیزاں ہمارا دو سو تین سو آدمیوں کا قافلہ برف خانے میں پہنچا۔ نواب حامد علی خاں صاحب نے تمام برف خانہ کو مالکان مکان

داستان غدر صفحہ 161

سے کرایہ پر لے رکھا تھا۔ شب کو بے آب و دانہ سب نے بسر کی۔ صبح کو فکر ہوا کہ آب و دانہ کی فکر کیجیے۔ میں نے اپنی بی بی سے پوچھا کہ کچھ زیور وغیرہ تم اپنے ساتھ لے کر نکلی ہو۔ انہوں نے جواب دیا۔ کہ سوائے خدا کے نام کے کچھ پاس نہیں۔ جو کچھ پارچے و زیور گھر سے ہمراہ لیکر اپنی دادی کے گھر میں لے کر آئی تھی، اُسے دیکھ کر میری دادی صاحبہ نے فرمایا تھا اری احمق بیوقوف لڑکی یہ کیا غضب کرتی ہے۔ یہ مال اسباب جان کا دشمن ہے۔ شہر کے باہر نکلی اور لٹیرے لوٹ لیں گے۔ تیرا خاوند مارا جائے گا۔ پھینک اس کو جان کا صدقہ مال یہ کہہ کر انہوں نے میرے سامان کو لے کر ایک مکان محفوظ میں جہاں پانچ چار لاکھ روپیہ اور سامان و زیور وغیرہ اپنے گھر کا اور کئی امیروں کا رکھا ہوا تھا رکھوا دیا۔ اور فی الحقیقت وہ جائے ایسی تھی۔ جہاں بغیر رازدار کے کوئی نہیں پہنچ سکتا تھا۔

جب یہ بات میں نے سُنی تو مجھے نہایت یاس اور فکر ہوا۔ اب کیا کیجیے۔ سوچتے سوچتے ایک بات خیال میں آئی اور میں نے گھر والوں سے کہا کہ تم جلدی کرو میں بندوبست کر کے لاتا ہوں۔ یہ کہہ کر میں برف خانہ سے نکل کر روانہ ہوا اور جھپٹا ہوا اجمیری دروازہ سے شہر میں داخل ہو کر اپنے مکان پر پہنچا اور چھپر کھٹ کھڑا ہوا تھا۔ میںنے اس کے پتر نوچنے سروع کیے۔ پائے اُس کے بہت چوڑے تھے۔ اس کے کھپر اوتارے۔ اوپر پایوں کے سر لوح سے اور نیچے سے پایون کے دامن نوچ لئے۔ مگر بیچ کے لٹو باقی رہ گئے۔ وہ گھبراہٹ میں اُکھڑ نہ سکے۔ علیٰ ہذا القیاس اس کی چاروں چوبیں جن کی چاندی میں لاکھ پیوستہ تھی نہ اکھڑ سکیں۔ من کل الوجوہ ڈیڑھ پونے دو سیر چاندی کے قریب نوچکر چادرے میں باندھی، پھر کوٹھڑی میں داخل ہوا۔ تو ایک گٹھڑی جس میں پانچ چار دو شالے اور دو شالی رومال اور دو انگرکھے بانات کے کنارہ دار تھے مجھے نظر پڑی

داستان غدر صفحہ 162

وہ گٹھڑی بغل میں ماری اور وہ چاندے کمر سے باندھ کر گھر سے نکلا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ میرے ایک عزیزی نابینا اور ان کی زوجہ اور ایک عورت ڈیوڑھی میں کھڑی تھیں۔ میںنے کہا آپ کہاں۔ بولے میں تو تمہاری پناہ لینے آیا ہوں۔ تم کہاں چلے۔میں نے حال بیان کیا اور کہا آپ بھی چلئے۔ انہوں نے عذر کیا کہ میں نابینا ہوں کہاں جاؤں گا۔ مجھے تو یہیں رہنے دو۔ غرضیکہ میں نے ان کو سب سامان کھانے پینے کا بتا دیا۔ کہ آپ کو دو تین ماہ کے لئے کافی ہے اور وہ گٹھڑی لے کر گھر سے نکلا۔ جب محلہ کے تراہے پر پہنچا تو اس وقت ایک تو گٹھڑی کا بوجھ معلوم ہوا۔ دوسرے خیال آیا یہ گٹھڑی تجھ کو برفخانے تک لے کون پہنچنے دے گا۔ راستہ میں یہ بھی لُٹ جائے گی اور اس کے ساتھ چاندی بھی۔ کیونکہ ان دنوں گوجر لٹیروں اور گنوار میواتیوں کا یہ زور شور تھا کہ شہر کے باہر قدم رکھا اور لٹیروں نے مارلٹھ اور گنڈاسوں کے گرا دیا۔ اور جو کچھ پاس ہوا وہ چھین لیا۔ حتے کہ بدن کے کپڑے تک وہ مادر بخطا نہ چھوڑتے تھے۔جی میں آئی کہ اسے واپس گھر میں پھینکتا چل کہ سامنے سے ایک دوست جوہری کلومل کہ اُسی جا کے باشندے تھے دکھائی دیئے۔ میں نے ان سے کہا کہ بھائی یہ تم اپنے گھر لے جاؤ۔ اگر لوٹ مار سے بچ جائیں گے تو میں لے لوں گا ورنہ جوتی کے صدقے سے۔ انہوں نے بہت عذر کیا کہ میں نہیں لیتا مگر میں ان کے ساتھ قدم بڑھائے ہوئے اجمیری دروازہ پر پہنچا۔ اس وقت تک خلقت شہر کی نکل رہی تھی اور تمام پہاڑ گنج اور جے سنگھ پورہ وغیرہ میں دلی دروازہ تک جنگل آدمیوں سے پٹا پڑا ہوا تھا۔ غرضیکہ میں بخوبی تمام برف خانہ میں پہنچا اور وہ چاندی اپنے مکان میں لے جر کر دی۔ اور تین تولہ چاندے لے کر پہاڑ گنج کے ایک بنیے کی دکان پر پہنچا اور اس سے کہا کہ اس کا مجھے سامان تول دے۔ اس نے کہا کہ میں

داستان غدر صفحہ 163

بارہ آنے دوں گا۔ غرضیکہ بارہ آنے کو دے کر چار آنے کے پیسے نقد لایا اور باقی کھچڑی لا کر پکنے کو دی اور مٹی کے برتن لایا اور پانی میرا بھائی کنوئیں پر سے بھر لایا کہ وہ کھچڑی پکی اور سب نے کھائی۔ اس روز تک دروازے شہر کے کھلے تھے۔ اس کے دوسرے روز شہر کے سب دروازے بند ہو گئے۔ جو لوگ سہر سے نکلے تھے وہ باہر رہ گئے اور اندر والے اندر اور اکا دُکا بندوق کی آواز آنے لگی۔ اب مجھ کو فکر دامنگیر ہوا کہ میرے خُسر اور اُن کے تمام بال بچے اور میری بہن اور بہنوئی اور عزیز و اقارب سب شہر اندر رہ گئے ہین، نہیںمعلوم ان پر کیا مصیبت گزری ہو گی۔ خیر وہ دن رات تو گزری۔

باغی فوج بھی چلی گئی

اب دوسرے روز کی حقیقت سُنیے کہ وہ جو فوج باغیہ بیرون شہر افتادہ تھی۔ انہوں نےنو بجے دن کے پہلے تو اپنا میگزین اُڑا یا اور عین سورج گہن میں اپنا ڈنڈا ڈیرا اُٹھا کر وہاں سے کوچ کیا۔ اور اثناء راہ میں افسران فوج مل کر بادشاہ کے پاس گئے کہ حضور ہمارے ساتھ تشریف لے چلیے۔ یہاں لڑائی بگر گئی ہے۔ دوسری جائے چل کر قبضہ کر کے لڑیں گے۔ بادشاہ نے جواب دیا کہ میں تمہارے ساتھ نہیں چلتا۔ تم کو میرا گھر برباد کرنا تھا اور میری رعیت کو تباہ کرنا تھا۔ کر چلے۔ جو کچھ میری تقدیر میں لکھا تھا وہ ہوا اور جو کچھ ہونے والا ہے اور ہو گا۔ جاؤ جہاں تمہارا سینگ سمائے۔ ہر چند اُنہوں نے کہا مگر بادشاہ نے ان کا ساتھنہ دیا۔ اور وہ کوچ کر گئے۔

بادشاہ کو حراست میں لے لیا گیا

ایک دن بعد دلی دروازہ کُھلا اور سانڈرس صاحب نے بیان کیا کہ حضور کے اقبال سے افواج باغیہ نمک حرام کو شہر میں سے خارج کر دیا گیا اور وہ نمک حرام اپنے سزائے

داستان غدر صفحہ 164

اعمال کو پہنچے۔ اب شہر خالی پڑا ہے۔ حضور تشریف لے چلیں کہ رعیت آباد ہو۔ بادشاہ نے فرمایا کہ میں اب شہر میں چل کر کیا کروں گا۔ شہر سے مجھے کیا مطلب۔ اپنے دادا کے مزار پر آ پڑا ہوں۔ یہیں بیٹھا رہنے دو۔ جو سلوک تم کو میرے ساتھ کرنا ہے وہ یہیں پورا کر دو۔ وہاں لے جر کیوں میری مٹی ذلیل کرتے ہو۔میں تمہارے ارادہ سے آگاہ ہوں۔ مولوی رجب علی خاں (1) بولے آپ ایسا ہرگز خیال نہ فرماویں۔ تشریف لے چلیں
----------------------------------------------------------------------------------------------------
(1) ارسطو جاہ حکیممولوی سید رجب علی خاں بہادر جگراؤں (ضلع لدھیانہ) کے سادات سے تھے۔ گورنر جنرل کے میر منشی تھے۔ پنشن پا کر جگراؤں میں خانہ نشین ہو گئے۔ وہاں ان کی جائداد تھی۔ اور ایک بڑا کتب خانہ تھا۔ جس میں بہت سے قلمی کتابیں تھیں۔ خود کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ فنِ طبابت میں بہت مہارے رکھتے تھے۔ ان کے بیٹھے حکیم مولوی سید مقرب علی بھی بہت بڑے طبیب تھے۔ لدھیانہ میں ان کی ایک بیٹی تھی۔ جس کے شوہر سید سجاد حسین کچہری میں ملازم تھے۔ اور ہمارے ہی محلے میں رہتے تھے۔ سید مقرب علی ان کے یہاں اکثر آیا کرتے تھے۔میرے نانا مرحوم نے مولوی سید رجب علی سے عربی پڑھی تھی۔ غدر کے اکثر واقعات ان کی زبانی روایت کیا کرتے تھے۔ ان واقعات کے جو میرے نانا مرحوم مولوی سید رجب علی کی زبانی روایت کرتے تھے۔ زیر نظر کتاب سے تصدیق ہوتی ہے۔ مقبرہ ہمایوں کے واقعہ کے بعد مسلمانوں کو مولوی رجب علی اور ان کے خاندان سے عقیدت کم ہو گئی تھی۔ تاہم مولوی رجب علی نے تلافیٔ مافات کے طور پر دہلی کے ستم رسیدہ لوگوں کی حتی الامکان امداد کی۔ جیسا کہ اسی کتاب سے ثابت ہے کہ وہ مصنف کتاب کے بھائی امراؤ مرزا انور کو جگراؤں لے گئے اور ان سے اپنے کتبخانے میں کتابت کرانے لگے۔ مولوی محمد حسین آزادؔ مرحوم نے بھی پہلے پہل جگراؤں میں انہیں کے یہاں پناہ لی تھی۔ مولوی رجب علی کے خاندان میں علمی و ادبی ذوق ہمیشہ رہا۔ مجھے بھی ان کے خاندان کے اکثر افراد سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے۔ (نظیرؔ)

داستان غدر صفحہ 165

اور بیگم صاحب نواب زینت محل بھی تشریف لے چلیں۔ غرض اس وقت انکار پیش کیا چل سکتا تھا۔ ناچار تن بتقدیر بادشاہ نے فرمایا بسم اللہ اور ہوادار میں سوار ہو کر ہمراہ ہوئے۔ زینت محل بھی پالکی میں سوار ہو گئیں۔ شاید چھوٹے صاحبزادے جواں بخت اور شاہ بھی ہمرا تھے۔ اس کی تحقیق نہیں ہوئی۔ غرض کہ جب دلی دروازہ کے باہر پہنچے ہیں تو سانڈرس صاحب نے ہوادار کو ٹھہرایا۔ اور وہ جو اجتماع ساتھ تھا ان کو روکا اور کہا، بابا لوگ ابھی تم لوگوں کا شہر میں داخل ہونا مناسب نہیں۔ فوج سرکاری تمام شہر میں پھیلی ہوئی ہے۔ مبادا دنگہ فساد ہوا بھی ، تم لوگ یہیں قیام کرو۔ ہم شہر کا انتظام کر لیں گے، پھر بلوا لیا جائے گا۔ اور چوراسی آدمی ضعیف العمر چھانٹ کر بادشاہ کی خدمت کے لئے مقرر کئے۔ اندر شہر میں لے جا کر لال کنوئیں پر زینت محل والے مکان میں رکھا باقی جو اور آدمی تھے ان سے کہا کہ ہتھیار ڈال دو۔ ورنہ باغی تصور کئے جاؤ گے۔ اس پر سب نے ہتھیار ڈال دیئے، پھر منادی پھیر دی گئی۔ کہ جس کے پاس ہتھیار ہو گا سرکار کا مجرم اور باغی سمجھا جائے گا۔ تمام رعیت نے ہتھیار ڈال دیئے اور دراصل رعایائے دہلی کو بمقابل حکام انگریزی ہتھیار اٹھانے سے فائدہ ہی کیا تھا اور جرأت کس کو تھی۔ رعیت تو خدا سے دعائیں مانگتی تھی کہ یہ ظالم نمک حرام کہیں جلدی سے غارت ہوں کہ ہم لوگ ان ظالموں کے پنجہ سے نجات پائیں۔ اگر افواج سرکار انگریزی جب سے شہر میں چھپ چھپائے داخل ہوئے تھے یہ دست درازی اور قتل و غارت پر کمر نہ باندھتے اور حکام شہر میں داخل ہو کر رعیت کی اشک شوئی کرتے اور سب کو تسکین اور دلاسا دیتے تو بلوہ ہی کیوں ہوتا۔ رعیت تو اپنے گھروں میں دروازے بند کئے ہوئے کان دبائے بیٹھی تھی۔ بازار میں چڑیا تک نہ تھی۔ مگر جب افواج سرکاری خانم کے بازار اور گلیوں

داستان غدر صفحہ 166

اور پائے والوں میں پہنچی ہے۔ جو سامنے آیا مارنا شروع کیا ہے اور دو چار رعیت کے گھروں میں درانہ داخل ہوئے تو رعیت نے بخیال ننگ و ناموس کہ عزق کا صدقہ جان سمجھ کر بلوہ کیا ورنہ ہرگز بلوہ نہ ہوتا۔ مردمانِ رعایا خود افواج سرکاری کے ہمراہ ہو کر فرقۂ باغیہ کے دفعیہ میں کوشش کرتے۔

تیموری شاہزادوں کا قتل

المختصر جب بادشاہ کو شہر میں لے گئے ہیں اور رعیت سے ہتھیار طلب کر لئے ہیں اس کے دوسرے روز سانڈرس صاحب جمیعت سواران ہمراہ لے کر نظام الدین یں پہنچے اور میرزا الہی بخش شاہزادے کی نشان دہی سے تیس شاہزادگان دہلی کو کہ ان میں بادشاہ کے بیٹے، پوتے، نواسے اور داماد تھے، گرفتار کر کے لائے اور بیرون دروازہ دہلی ان کو قتل کرا کے ان کے سر کٹوا کر بادشاہ کے پاس بھیج دیئے۔ (1)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------
(1) نومبر 1857ءمیں بادشاہ پر مقدمہ چلانے کی تیاری شروع ہوئی۔میجر ہیریٹ نے الزامات کی فہرست تیار کی۔ اور سر جان لارنس لفٹنٹ گورنر پنجاب نے (دہلی 1911ء تک صوبہ پنجاب میں شامل تھی) بادشاہ کا مقدمہ کمیشن کے روبرو پیش کرنے کے احکام صادر کئے۔ جن کی تصدیق حکومت ہند نے بھی کر دی۔ کمیشن کے چار ارکان تھے، میجر پامر، میجر ریمنڈ، میجر سایرز اور کیپٹن راتھنی۔ مقدمہ کے تفصیل حالات بیان کرنے کے لئے تو علیٰحدہ کتاب کی ضرورت ہے۔ یہاں صرف اس قدر بیان کرتا ہوں کہ بادشاہ پر چار الزام لگائے گئے تھے۔ جو یہ ہیں :

1 – ہندوستان میں انگریزی حکومت کا پنشن خوار ہونے کے باوجد اس نے 10 مئی اور یکم اکتوبر 1857ء کے درمیان مختلف اوقات میں محمد بخت خاں صوبیدار توپ خانہ (زیر نظر کتاب میں اسے جرنیل بخت خان لکھا ہے) اور دوسرے افسروں اور سپاہیوں کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی

داستان غدر صفحہ 167

نہاں گلشن اقبال پائمال ہوئے
گُل ریاض خلافت لہو میں لال ہوئے

یہ کیا کمال ہوئے اور کیا زوال ہوئے
کمال کو بھی نہ پہنچے تھے جو زوال ہوئے

جو عطر گل کو نہ ملتے ملے وہ مٹی میں!
جو فرشِ گُل پہ نہ چلتے ملے وہ مٹی میں

کہاں وہ خسرو عالی نظر بہادر شاہ
کہاں وہ سرور نیکو سیر بہادر شاہ

کہاں وہ بادشہِ داد گر بہادر شاہ
کہاں وہ داورِ والا گُہر بہادر شاہ

کہاں سے باغی بیدین آ گئے ہے ہے
کہ نام ان کا جہاں سے مٹا گئے ہے ہے
-------------------------------------------------------------------------------------------------------
بقیہ حاشیہ صفحہ 164) فوج میں غدر مچانے پر اُکسایا اور حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کے لئے ان کی امداد اور حوصلہ افزائی کی۔

2 – اپنے بیٹے مرزا مغل اور دہلی و سرحد کے باشندوں کو بھی بغاوت پر امادہ کیا۔

3 – حکومت انگلشیہ کی رعایا ہونے کے باوجود اعلان کیا کہ میں ہندوستان کا بادشاہ ہوں اور دہلی شہر پر ناجائز طور پر قبضہ کر لیا اور اپنے بیٹے مرزا مغل بیگ اور صوبیدار توپ خانے سے انگریزی حکومت کا تختہ الٹنے کا سازش کی۔

4 – قلعہ دہلی کی حدود میں 49 یورپی عورتوں اور بچوں کا قتل کرایا۔ مقامی راجاؤں اور مہاراجوں کو بھی ہدایات بھیجیں کہ یورپی اور مسیحی لوگوں کو قتل کیا جائے۔ یہ کارِ خیر ہے۔

استغاثہ نے ان الزامات کو صحیح ثابت کرنے کے لئے زبانی اور دست آویزی ثبوت پیش کئے۔ جن کی تفصیل بخوفِ طوالت نظر انداز کرتا ہوں۔ بادشاہ نے اپنی صفائی میں چار گواہ غلام عباس، حکیم احسن اللہ، کیپٹن فوریسٹ، نائب معتمد توپ خانہ اور کیپٹن ڈوگلس کے ایک اردلی مسمی مکھن

داستان غدر صفحہ 168

نہ دیندار تھا کوئی نہ دینداری تھی
ستم پرستی و جور و جفا شعار تھی

نہ پاسداری ملت نہ مستعاری تھی
پر اُس کے پیروں میں فکت حرامکاری تھی

غرضیکہ دین کو سمجھے تھے وہ ستمگاری
نمک حرامی و محسن کُشی تھی دینداری
----------------------------------------------------------------------------------------------------------
(بقیہ حاشیہ صفحہ 165) کو پیش کرایا۔ ان چاروں اصحاب کی شہادتوں کے لب و لہجہ سے بخوبی ظاہر ہے کہ ان پر خوف و ہراس طاری تھا۔ اُنہوں نے جرح میں سے بہت سوالات کے جواب میں کہا کہ ہم نے ایسا سُنا لیکن خود نہیں دیکھا۔ استغاثہ کی طرف سے جاٹ مل وقائع نگار لفٹنٹ گورنر، بختاور سنگھ، کشن سنگھ، چونی لال، گلاب حسن عسکری، بادشاہ کا سابق معتمد مکند لال وغیرہ بطور گواہ پیش ہوئے۔ جنہوں نے بادشای کی مخالفت اور استغاثہ کی تائید میں بیانات دیئے۔ مارچ 1858ء میں بادشاہ نے تحریری بیان دیا۔ جس میں بادشاہ نے اپنی بے گناہی کا اظہار کرتے ہوئے کم و بیش وہی واقعات بیان کئے جو اس کتاب میں مصنف نے درج کئے ہیں۔ لیکن عدالت نے بادشاہ کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا مستحق ٹھہرایا۔ سر جان لارنس لفٹنٹ گورنر نے عدالت کے فیصلہ پر ایک طویل ریویو رکھ کر فیصلہ اس سفارش کے ساتھ حکومت ہند کر بھیجا کہ بادشاہ جو جلا وطن کر دیا جائے۔ اور ملکہ زینت محل اور مرزا جواں بخت کو یہ اختیار دی اجئے کہ وہ چاہیں تو بادشاہ کے ساتھ چلے جائیں یا بنگال میں نظر بند رہیں۔ حکومت ہند نے یہ سفارش منظور کر لی اور بہادر شاہ ظفر کو کلکتہ بھیج دیا۔ جہاں اسے بتایا گیا کہ اس کا آخری ٹھکانا رنگون ہے۔ اکتوبر 1858 کو شاہ ظفر، ملکہ زینت محل اور مرزا جواں بخت دہلی سے روانہ ہوئے تھے۔ نومبر میں رنگون پہنچ گئے۔ ظفر نے 1862ء میں 87 سال کی عمر میں وفات پائی۔ (نظیرؔ)

داستان غدر صفحہ 169

برائے نام ستمگار دیندار بنے
جو دیندار بنے تو ستم شعار بنے

ستم شعار بنے جب تو ذی وقار بنے
جو ذی وقار بنے تو حرام کار بنے

کیا وہ ظلم کہ سر پر جہاں اٹھا مارا
خدا پرست نہ تھا ایک بھی خدا مارا

پُرامن شہریوں کا قتل عام

بیرون شہر کا تو یہ حال تھا۔ اب اندرون شہر کی حقیقت سُنیئے کہ اُن غریبوں پر کیا مصیبت گزری جو بخیال سرپرستی سرکار انگریزی یہ سمجھتے تھے کہ ہم تو رعیت سرکار ہیں۔ انہیں تو کسی کے نیک و بد سے کچھ کام نہ تھا اور شبانہ روز نمکحرام فوج کے نکلنے کی دعا مانگتے اور سرکار انگریزی کے دل سے ہوا خواہ تھے۔ ہم سے سرکار کیا مزاحمت کرے گی۔ شہر میں بیٹھے رہو۔ کوئی دو چار دن کا شور و شغب ہے۔ بعد امن و امان ہو جائے گا۔ یہ خبر ہی نہ تھی کہ آتش غضب سلطانی التہاب میں ہے اور بحر مواج سطوت قہرمانی طلاطم خیر ایسی حالت میں رحم و ترحم کا کیا کام ہے۔ اور جوشِ غضب میں عدل و انصاف اور خوف خدا بالائے طاق رکھنا ہے۔

چواز قومے یکے بیدنشی کرد
نہ کہ را منزلت ماند نہ مِہ را

نمے بینی کہ گادے در علف زار
بیالا یدہمہ گا وانِ دہ را

حالت غیظ و غضب میں گناہگار و ناکردہ گناہ سب برابر ہوتے ہیں۔ اس وقت کون پسان حال ہوتا ہے۔ کہ مجرم یا غیر مجرم آگے کے ساتھ گُھن بھی پس جایا کرتا ہے۔ چنانچہ جو لوگ شہر میں رہ گئے تھے ان پر وہی کیفیت گزری۔ کر گیا ڈاڑھی والا اور پکڑا گیا موچھوں والا۔ سپاہ انگریزی مظفر و منصور جو لوگوں کے گھروں میں لُوٹ کے واسطے داخل ہوئی جو گھر خالی پایا اُسے دھڑی دھڑی لوٹنا شروع کیا۔ اور جہاں آدمی دیکھے بھ غل و غش قتل کرنا شروع

داستان غدر صفحہ 170

کیا۔ مجھے اپنے عزیز و اقارب کا خیال تھا۔ خصوصاً سسُرال کا کہ ناگہاں صبح کے وقت دیکھتا کیا ہوں کہ میرے خسر کا خدمتگار گامیؔ چلا آتا ہے۔ میں سے صورت دیکھتے ہی پوچھا گامی خیر ہے، اس نے دبی زبان سے کہا جی ہاں خیریت ہے۔ میرا ماتھا ٹھنکا۔ خدا خیر کرے۔ میں نے پوچھا کہ کہاں ہیں۔ کہا شاہ مردان میں نواب نجف خاں کے مقبرہ میں کل سےآئے ہوئے ہیں۔ تم کو ڈھونڈھتا ہوا آیا ہوں۔ آپ کو بُلایا ہے۔ چلیئے۔ میں نے گھر میں جا کر بی بی سے کہا کہ تمہارے گھر والے شاہ مردان میں آ گئے ہیں۔ مجھے بلایا ہے۔ میں جا کر خبر لاتا ہوں۔ غرضیکہ میں ہمراہ گامی کے روانہ ہوا۔ جب شاہ مردان میں پہنچا ہوں اور نجف خاں کے مقبر میں داخل ہوا ہوں اور مستورات نے مجھے ہے تو ایک کُہرام مچ گیا۔ دو سو عروتیں سر پیٹ رہی ہیں اور شور نالۂ و فریاد آسمان تک جاتا ہے۔ ہیں یہ یا غضب ہے۔ اب مردوں میں خیال کرتا ہوں تو اور سب لڑکے بالے ہیں مگر میاں امیر میرزا اورناصر الدین نہیں۔ غرضیکہ وہ غل و شور جب فرو ہوا تو میں نے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ بڑی بیگم صاحبہ نے بیان کی کہ جس دن تم ہم سے جُدا ہوئے، اس کے ایک دن بعد سُنا گیا کہ جرنیل صاحب کا ڈیرا جامع مسجد میں ہو گیا ہے اور تھوڑی دیر کے بعد پانچ چار گورے گھر میں گُھس آئے اور آ کر کہا ہم کو روپے دو۔ عروتیں تو کوٹھریوں میں چُھپ گئیں اور مردوں نے کچھ دیکر ٹال دی۔ تھوڑی دیر کے بعد اور آئے، اُن کو بھی کچھ دیا۔ غرضیکہ اب تار بندھ گیا۔ ایک آتا ہے ایک جاتا ہے۔ میاں ناصر الدین نے کہا کہ میں جاتا ہوں۔ جرنیل صاحب کے پاس اور بندوبست کر آتا ہوں وہ دو خدمتگاروں کے لے کر جامع مسجد میں پہنچے، وہاں جانے کیا گفتگو ہوئی کہ ایک خدمتگار آیا اور ان عورات عیسائیہ کو جن کو انہوں ہنگام غدر اپنے گھر چُھپا کر رکھا تھا لے گیا اور وہ عورات سے کہہ گئیں کہ ہم ابھی آتے ہیں۔

داستان غدر صفحہ 171

اور میاں ناصر الدین کو اپنے ساتھ لاتے ہیں اور سارٹیفکیٹ لاتے ہیں۔ غرضیکہ وہ عورتیں بھی جامع مسجد میں پہنچیں اور خدمتگار باہر مسجد کے دروازہ پر کھڑے رہے۔ مگر پھر نہ وہ عورتیں اور نہ میاں ناصر الدین آئے۔ اپنے خدمتگاروں نے شام کو واپس آ کر حال بیان کیا۔ رات بھر سب کو تشویش رہی اور اس اثنا میں تمام محلہ کی عورات مرد ہمارے مکان میں آ کر جمع ہو گئے۔ باہر باغ میں مرد اندر دونوں حویلیوں میں عورتیں۔ دو سو آدمی زن و مرد یکجا تھے۔ منشی آغا جان اور ان کی تین اور عورتیں سب یہیں تھیں۔ صبح کے وقت منشی آغا جان اور ان کا بیٹا اور یہ سب باغ میں بیٹھے ہوئے تھے اور میاں امیر مرزا نماز پڑھ کے اپنے شغل اشغال میں حسب معمول مشغول تھے اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی ضربیں لگا رہے تھے کہ ناگہاں دو گورے باغ میں آئے اور سامنے سے کہا ہم کو روپیہ دو۔میاں امیر میراز نے کہا کہ ہمارے پاس روپے کہاں ہیں۔ کہ ان سے ایک نے بندوق ماری کہ منشی آغا جان کے بیٹے کے سینہ پر لگی کہ اس نے باپ کو پکارا۔ میاں امیر مرزا نے کہا۔ بیٹا خدا کا نام لے اس وقت باپ کو یاد نہیں کرتے۔ انہوں نے لا الہ الہ اللہ کہا اور چت لیٹ اور تسبیح کا ہاتھ ان کے سینے پر رہا۔ اور ان جفا کاروں نے پھر بندوقیں بھریں اور دو خدمتگاروں کو مار کر اپنا رستہ لیا۔ مٹیا محل میں ایک قیامت برپا ہو گئی۔ اس غل شور کے آواز جامع مسجد میں پہنچی۔ وہاں سے دو انگریز واویلا سُنکر آئے۔ پوچھنے لگے کہ یہ کیا غُل شور ہے۔ عورتوں نے بیان کیا دیکھ لو تمہاری فوج نے یہ ظلم کر رکھا ہے۔ ہمارے وارثوں کو بے خطا و قصور مار ڈالا۔ دیکھو۔ دیکھو یہ لاشیں پڑیہوئی ہیں۔بولے ہم کو روپے دو۔ ہم تم کو شہر سے باہر کر دیں گے۔ سب نے کہا۔

داستان غدر صفحہ 172

بہت اچھا۔ ہم دیں گے مگر اتنا صبر کرو ہم ان لاشوں کو زمین میں دفن کر دیں۔ چنانچہ جلدی جلدی سب نے ملکر گڑھے کھوڈے اور شہیدوں کو اسی پہنے ہوئے لباس میں سپرد خاک کیا۔ اور انگریزوں کے ساتھ ہئے۔ وہ ہم کو لئے ہوئے ترکمان دروازے آئے اور جس جس کے پاس جو تھا ان کے حوالہ کیا اور انہوں نے دروازہ کھلوا کر ہم کو باہر کر دیا۔ غرضیکہ یہ حقیقت سُنکر میں برف خانہ میں آیا، مگر خاموش۔ اب اگر ان کا ذکر کرتا ہوں تو یہاں کُہرام مچتا ہے۔ اب میرے گھر میں بضد ہیں کہ تم کہو سہی۔ چُپ چُپ کیوں ہو۔ آخرمیرے آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ میری بی بی سمجھ گئی کہ کچھ واردات ہوئی ہے۔ مجھے قسم دلا کر پوچھا۔ میں نے اتنا کہا کہ جس بات کا اندیشہ تھا آخر وہی ہوا۔ وہ سمجھ گئی کہ میرا باپ شہید ہوا، پھر تمام عورتوں میں رونا دھونا مچ گیا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے تمام کیفیت بیان کر دی۔

جہاں کی تشنۂ خوں تیغ آبدار ہوئی
سنانِ نیزہ ہر اک سینہ سے دو یار ہوئی

رسن ہر ایک بشر کے گلے کا ہار ہوئی
ہر ایک سمت سے فریاد گیر و دار ہوئی

ہر ایک دشت قضا میں کشاں کشاں پہنچا
جہاں کی خاک تھی جس جس کی وہ وہاں پہنچا

ہر ایک شہر کا پیر اور جوان قتل ہوا
ہر ایک قبیلۂ و ہر خاندان قتل ہوا

گھروں سے کھینچ کے کُشتوں پہ کُشتے ڈالے ہیں
نہ گو ہے نہ کفن ہے نہ رونے والے ہیں

غرضیکہ جو لوگ شہر میں رہ گئے تھے، اُن میں کئی اشخاص باکمال نام آور فردِ روزگار

داستان غدر صفحہ 173

مارے گئے ہیں۔ جو دہلی کی ناک اور یگانۂ آفاق تھے۔ جن کی نظیر آج تک پیدا نہیں ہوا۔ اور نہ ہو گا۔ میاں محمد امیر پنجہ کش خوشنویس جا کا ثانی روئے زمین پر نہیں۔ مولوی امام بخش صہبائی اور ان کے دو بیٹھے اور میر نیاز علی واقعہ خواں اور چیلوں کے کوچے کے اور بہت سے شریف خاندانی لوگ۔ سُنا گیا ہے کہ اس محلہ کے چودہ سو آدمی گرفتار کر کے راجگھاٹ کے دروازہ سے لے جا کر بندوقوں کی باڑیں مار دی گئیں۔ اور لاشیں دریا میں پھنکوا دی گئیں۔ عورات کا یہ حال ہوا کہ گھروں میں سے نکل نکل کر بچوں سمیت کنوؤں میں جا گریں۔ چیلو کے کوچہ کے تمام کنوئیں لاشوں سے پٹ گئے تھے۔ آگے میرا قلم نہیں چل سکتا۔ نہ مجھے اس کی تحریر کی تاب ہے۔ جو کچھ سُنا گیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ دروغ برگردنِ راوی باقی اور اضلاع شہر کا یہ حال ہوا کہ عورات اور مردوں کو شہر سے نکالا گیا تو اس طرح کہ مردوں کو تو کشمیری دروازہ سے باہر کیا اور عورات کو کابلی دروازہ کی راہ سے شہر بدر کیا کہ باہمی مفارقت ہو گئی۔ ایک ایک کو ڈھونڈھتا پھرا۔ غرضیکہ جب زن و مرد شہر سے باہر ہو گئے تو اب مخبر کا بازار گرم ہوا اور وہی بدمعاش جو نمک حراموں کے ہمراہ ہو کر انگریزوں کو بتاتے پھرتے تھے اور شہر کو لٹواتے تھے اب سرکاری مخبر اور شہر والوں کو پھانسیاں دلوانے لگے۔ دو روپیہ آدمی پیچھے مخبری کا صلہ ملتا تھا۔
 
آخری تدوین:

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ 66
تیسرا باب
ہنگامہ غدر کا آغاز
ماہ رمضان کی پہلی
انقلابِ دہر نے دکھلائیں وہ نیرنگیاں
جب زباں پر لائیے اپنا نیا افسانہ ہے

اُف اُف کس قیامت کی گرمی ہے کہ جگر کباب ہوا جاتا ہے الحفیظ، الامان دُھوپ کی تیزی العظمۃ اللہ ۔ آسمان سے آگ برستی ہے گویا آفتا ب سوا نیزہ پر اُتر آیا ہے۔ پیاس کے مارے زبان نکل نکل پڑتی ہے۔ حلق میں کانٹے پڑے جاتے ہیں زمین کا طبقہ کُرہ نارہو رہا ہے وَقِنَا رَبَّنَا عَذَابَ النّار منہ سے بات تک نہیں نکلتی۔ نِو بجے سے ٹٹیاں چھڑکی جاتی ہیں۔ پنکھا کھینچتا ہے مگر پسینوں میں شرابور ہوئے جاتے ہیں۔ دن کیا ہوتا ہے۔ حشر کا دن ہوتا ہے۔ پہاڑ کی طرح کاٹنا پڑتا ہے۔ ہونٹوں پر جان آ جاتی ہے۔ رات کی گھمس اَللّہہم احفظنا مِن کُلِّ بلاء الدُنیا۔ چھڑکاؤ ہوتے ہیں۔ پنکھے جھلے جاتے ہیں۔ پلنگ ترکئے جاتے ہیں۔ تاہم کسی طرح نیند نہیں آتی۔ کروٹیں لیتے لیتے صبح ہو جاتی

صفحہ 67
ہے۔ ع بھاڑ میں جائیں ایسے لیل و نہار۔
ابھی سلامتی سے جیٹھ کے 3 دن گزرے ہیں۔ پندرہ روزے پندرہ برس کی برابر تصّور کرنے چاہیئں۔ خدا خدا کرکے سولہویں شب نصیب ہوئی۔ رات کے دو بج چکے ہیں۔ تیسرے کا عمل ہے۔ ہوا میں کسی قدر خنکی آ گئی ہے۔ جس قدر صبح قریب آتی جاتی ہے۔ رات بھینی بھینی ہوتی جاتی ہے۔ روزہ دار سحری کو بیدار ہو کر خوردنوش میں مشغول ہیں۔ پچھلا پہرہ سہانا وقت ہے۔ مسجد جامع کا نقارہ گونج گونج کر بیدار باش کی آواز لگا رہا ہے۔ خفتہ گانِ خوابِ غفلت کو جگا رہا ہے۔ چوکیدار گھر گھر جاگو کی آواز لگاتے پھرتے ہیں۔ محلہ محلے جگاتے پھرتے ہیں۔ سولہویں رات کا چاند وسطِ سما سے ڈھل کر قریب غروب پہنچ گیا ہے۔ روزہ داروں کے گھروں میں عجب چہل پہل ہے۔ گھر گھر تجگے کا سامان نظر آتا ہے۔ اب وہ وقت قریب آتا جاتا ہے کہ روزہ دارانِ شب بیدار روزہ کی نیت باندہ کر خوردنوش سے دستِ بردار ہوں۔ گھڑی دو گھڑی بسترِ راحت پر دراز ہو کر استراحت فرمائیں۔ تناولِ طعام سے فارغ البال ہو کر پان کی گلوریاں کلّوں میں دبا کر قلیان کے گھونٹ کھینچ رہے ہیں۔ اکثر جوان شراشر سلفوں کے دم لگار ہے ہیں۔ آنکھوں میں نیند کا خمار ہے۔ بیٹھے بیٹھے اُونگے جا رہے ہیں۔ اُدھر آسمان کا رنگ بدلنے لگا ہے۔ آثارِ صبح نمودار ہوتے جاتے ہیں۔ صبح کا تارہ برآمد ہو چکا ہے مگر چاندنی کھل کھل کر اپنا روپ دکھا رہی ہے۔ دامِ تزویز بچھا رہی ہے۔ عاشقانِ جمال کبِریا باوضو ہو کر سِر سجاوہ بکمال خشوع و خضوع تسبیح و تہلیل حمد الہٰی میں محوِ حال وقال میں ہیں کہ یکایک توپ کے زناٹّے کی آواز کانوں میں آئی۔ تین منٹ تک برابر زناٹا رہا۔ جلدی جلدی پان تھوک کر غرارے کئے۔ دانت مانجہے اور ایصوم غدامن شہر رمضان المبارک کہہ کہہ کر پلنگوں پر دراز ہوئے۔

صفحہ 68

اپنی کسی کو یہ خبر نہیں کہ صبح کو قیامت نمودار ہونے والی ہے۔ مصنف
نہ رکھو آج کی کل پر کہ کل کس کو خبر کیا ہو مریضِ جاں بلب کو صبر امیدِ سحر کیا ہو

اب مشرق کی جانب سے سفیدی کے بادل آسمان پر پھیلتے چلے آتے ہیں۔ مطلع خورشید کا رنگ جوگیا شخبرفی ہو تا جاتا ہے۔ قرصِ ماہتاب لبِ بام پہنچ کر تانبے کی تھالی کی طرح بد قلعی نظر آنے لگا ہے۔ جھاڑ فانوس کی روشنی جھلملی جھلملی نظر آتی ہے۔ چراغِ سحری بیمارِ جاں بلب کی طرح ٹمٹماتا ہے۔ دروازہ شہر پناہ کے دیدہ حیرت کی طرح نگراں ہیں کوچہ بندی کے پھاڑک چشمِ انتظار کی طرح حیراں۔ صبح کا تڑکا نور ظہور کا وقت سہانا سماں ادھر گجر کی آواز ادھر سجدوں میں اذانوں کا شور ادھر مندروں سے ناقوس کی پکار نقار خانوں سے دھیمی دھیمی نوبت کی ٹکور میں شہنائیوں کی سہانی بھیرویں کی دُھنیں جی کو بیکل کئے دیتی ہیں۔ نسیمِ سحری کے ٹھنڈے ٹھنڈے جھونکے نرم نرم چل کر جاگنے والوں کو تھپک تھپک کر سُلا رہی ہے۔ بیگم کے باغ کے ہوا کے جھونکے بناس کی پتی خوشبو میں لپٹ لپٹ کر عطرِ مجموعہ کے لخلخے سونگھا رہی ہے۔ چوکیدار شب بیدار دوکانوں کے چبوتروں پر مردوں سے شرط باندھ کر بے خبر سو رہے ہیں۔
چو صبح از دمِ گرگ برزد زبان
نجفتن درآمد سگ و پاسبان
خروسِ غنودہ فرو کوفت بال
دہل زن بزوبر تبیرہ دواں
لاہوری دروازہ سے نگر موت کے گھاٹوں تک حُسن کا دریا لہریں لے رہا ہے۔ چاندنی چوک کی سڑک کہکشاں بنی ہوئی ہے۔ ہزاروں چاند کے ٹکڑے سیّاروں کی طرح جگمگاتے چلے آتے ہیں۔جس کو دیکھو آفت کا پرکالہ ہے۔ ایک سے ایک اعلٰے ہے۔ سینکڑوں پرستان کی پریاں۔ سوتواں نقشے چاند سے چہرے۔ چھریرے بدن
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ 69

نازک اندام۔ گلفام سروقامت سیاہ پتلی سیاہ بال اُبھرے اُبھرے ہوئے سینے مرگ کیسی آنکھیں چیتے کیسی کمریں۔ سر سے پاؤں تک چاندی سونے میں لدی پھندی چلی آتی ہیں۔ کامدانی اور تن زیب کے دوہرے دوپٹوں میں سے کندن سی بدن کی رنگت پھوٹی پڑتی ہے۔
کیا تنِ نازک ہے جاں کو بھی حسد جس تن پہ ہے
کیا بدن کا رنگ ہے نہ جسکے پیراہن میں ہے
اودی اور سرمئی اطلسوں کے گھیروار لہنگے
چوڑی چوڑی ٹھپے کی سنجاف۔ پور پور طلائی
انگوٹھی چھلّے نازک نازک پتلی پتلی حنائی اُنگلیوں میں چھوٹی چھوٹی گنگا جلیاں
کیا چاہئے انہیں سرِ انگشت برحنا
جس بیگنہ کے خون میں چاہیں ڈبولیاں
گوری گوری پیشانیوں پر کچھ کچھ بکھرے ہوئے بال۔ نیند بھری آنکھوں میں پھیلا ہوا کاجل پتلے پتلے سرخ سرخ ہونٹوں پر پھیکی پھیکی مسّی کی دھڑی لاکھ لاکھ بناؤ دے رہی ہے
یہ شہر وہ ہے کہ غنچہ تھا حُسن والوں کا
یہ شہر وہ ہے کہ تختہ تھا نونہالوں کا
یہ شہر وہ ہے کہ مجمع تھا مہ جمالوں کا
یہ شہر وہ ہے کہ مرجع تھا ذی کمالوں کا
یہ وہ زمیں ہے جس کی زر اُگلتی ہے
یہ خاک وہ ہے کہ اکسیر ہاتھ ملتی ہے
دریائے جمن میں نازنیناں گلبدن کے جمگھٹوں سے تختہ چمن نظر آتا ہے۔ دریا میں دوسرا دریائے پُر نور موجیں مار رہا ہے۔ چاند دریا کی موجوں میں جھکولے لے رہا ہے۔ آسمان کے ستارے پانی میں دکھائی دے رہے ہیں۔ دریا کی موجیں شوقِ ہمکناری سے بیتاب دوڑی ہوئی چلی آتی ہیں۔ دریا کے حبابِ چشم بن کر ایک ایک کی صورت کو تک رہی ہیں۔ ہزاروں آسمانِ خوبی کے سیّارے مہین مہین ریشمی ساڑھیاں اوڑھے ہوئے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 174
پانچواں باب

ہجرت
چنانچہ چار پانچ روز ہم کو برف خانہ میں گزرے تھے کہ میر نواب کپتان بادشاہی کو پکڑوا کے پھانسی دلا دی گئی۔ باوجودیکہ وہ میر حیدر علی داروغہ ء فیل خانہء انگریزی کا داماد تھا اور تمام غدر میں ہمراہ صاحبان انگریز پہاڑی رہا کرتا تھا۔ تمام کمسریٹ کا کام اس کے سپرد تھا۔ اور سرکار کی بہت سی خیر خواہی کی تھی۔ اور میر نواب کپتان اس کا داماد تھااُس نے بہت کچھ منّت و معذرت کی مگر کچھ نہ سُنی گئی اور اُس خیر خواہی پر کچھ نظر نہ ہوئی۔ جب یہ واقعہ نظر سے گزرا تو سب کو اپنی اپنی جانوں کا فکر ہوا ۔ نواب حامد علی خاں صاحب نے میری والدہ سے کہا کہ میں ان لڑکوں کا یہاں رہنا مناسب نہیں سمجھتا ہوں ۔ ان کو رُخصت کیجئیے۔ جہاں ان کو اپنے بچاؤ کی صورت نظر آئے چلے جائیں اور اپنی جان بچائیں۔ یہ لوگ کسی کو زندہ نہ چھوڑیں گے۔ ہمارا تمہارا کیا ہے۔ ہم تو بوڑھے ہیں ۔ ہم تُم اہل وعیال کو سنبھالیں گے اور یہ روانہ ہو جائیں۔ یہ امر مجھے پہلے ہی مرکوزِ خاطر تھا میں نے والدِ بزرگوار کی خدمت میں عرض کی کہ بلاشک نواب صاحب نے سچ فرمایا ہے۔ مصلحت وقت

ریختہ صفحہ 175

یہی ہے کہ اب ہماری مفارقت گوارا کیجئے۔اور ہم دونوں بھائیوں کو اور ہمارے بہنوئی آغا سلطان کواجازت دیجئیے۔ جدھر خدا لے جائے گا نکل جائیں گے۔ مجھے اپنی جان سے زیادہ آغا سلطان کا خیال ہے۔یہ ۔۔۔۔ فوجِ شاہی ہے۔ اسے کوئی نہیں چھوڑے گا۔ اگر خدا کو زندگی رکھنی منظور ہے تو پھر آ کر قدمبوسی حاصل کریں گے۔ یہ کہہ کر میں نے یہ کام کیا کہ تھوڑی سی چاندی کے پتّر لے کر جوتی کے تلے کے دونوں پرت جدا کر کے اس کے جوف میں بھری یعنی جوتی میں، اوپر نری کا چمڑا ہوتا ہے اور نیچے ادھوڑی۔ ان دونوں کے بیچ میں چاندی کے پتھر بھرے۔ میری بی بی نے اس وقت یہ کام کیا کہ ایک فرد سونے کی پہنچی کی میرے آگے رکھ دی۔ میں نے پوچھا کہ یہ کہاں سے آ گئی۔ انہوں نے بیان کیا کہ جس وقت میں نے اپنا زیور اتار کر ڈبے میں رکھا تھا تو بے اوسانی میں یہ پہنچی میرے ہاتھ میں رہ گئی تھی میں نے اس وقت اس کا ڈورا توڑ کر وہ وہ دانے الگ کر کے کمر بند کے اندر بھرےاور دستار باندھی کمر سے دوپٹہ باندھا ۔ ہاتھ میں لکڑی لی اور چلنے کو تیار ہوا۔ اور میرا بھائی امراؤ مرزا اور آغا سلطان بھی تیار ہو گئےاُس وقت ہماری رخصت کا حال قیامت سے کم نہ تھا۔ میری بی بی ہر چند شرم کے مارے منہ سے کچھ نہ بولی اور نیچے آنکھیں کئے ہوئے رو رہی تھی۔ آخر جب اٹھنے لگا تو چُپکے سے یہ لفظ کہا کہ باپ چچا تو مارے گئے۔ فقط تمہارے دم کا سہارا تھا ۔ مجھے کس پر چھوڑے جاتے ہو۔میں نے جواب دیا کہ خدا کے حوالے کرتا ہوں اگر زندہ رہا تو پھر آ ملوں گا۔ اگر میں مارا گیا تو تُم سُن لو تو مہر بخش دینا۔ یہ کہہ کر میں مکان سے باہر ہوا۔اور بسم اللہ کہہ کر خواجہ صاحب کی طرف روانہ ہوا۔کوئی نصف میل کے قریب راہ طے کی ہو گی کہ اِدھر سے سوار آئے۔ آتے ہی انھوں نے گھیر لیا اور

ریختہ صفحہ 176

کہا تلاشی دو۔ اور سب کے سب کا بدن ٹٹول لیا ۔ نہ میرے پاس کچھ پایا نہ میرے ہمراہیوں کے پاس کچھ دیکھا۔ مگر ایک سوار نے میری پگڑی اتار لی اور اپنا رستہ لیا۔ میں نے دوپٹہ کمر سے کھول کر سر پر باندھ لیا۔آگے بڑھا اور سوار ملے ، انھوں نے بھی یہی بات کی۔ جب تو میں نے کمر بند پائجامہ میں سے کھینچ کر ایک گیند بنا لی اور پائجامے کے نیفے کو بطور بند گرہ لگا دی اور وہ گیند اپنے ہاتھ میں رکھ لی۔جب سواروں کو دور سے آتے دیکھتا تو اس گیند کو دور پھینک دیتا۔ وہ آ کر تلاشی لے کر آگے بڑھ جاتے میں دل میں کہتا تھا کہ ابے تم تو ڈاکو ہو مگر میں بھی تمہارا استاد ہوں بھلا تُم مجھے کیا لوٹ سکتے ہو۔ جب وہ دور چلے جاتے پھر اپنی گیند کو اٹھا کر ہاتھ میں لے لیتا۔ غرضکہ بہزار خرابی خواجہ صاحب میں پہنچا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ایک ہجومِ کثیر مرد و زن کا فراہم ہے ۔ شب کو میں نے کچھ چاندی ایک صراف کے ہاتھ بیچی اور کھانے کا بندو بست کر کے دیوانِ خاص میں تینوں آدمی زمین میں پڑ رہے۔صبح کو ایک پندرہ بیس ہزار آدمی کا قافلہ جس میں نواب امین الدین احمد خاں اور ضیاء الدین احمد خاں اور احمد قلی خاں بادشاہ کے خُسر اور بہت سے بڑے آدمی شامل تھےوہ گوجروں کو دو ہزار روپیہ دے کر اور انھیں ہمراہ لے کر خواجہ سے روانہ ہوئے۔ ہم بھی اُسی قافلہ کے ہمراہ ہوئے راستہ میں وہی سامانِ صحرائی دکھائی دئیے جو اوؔل لکھ چکا ہوں ۔ اب اعادہ اس کا فضول ہے ۔ ہزارہا عورات پردہ نشین اور بچے ہمراہ تھے۔ منزل دراز تھی۔ اوپر کی دھوپ نیچے پاؤں کے جلتی ہوئی ریت ۔ جنگل لق دق ۔ سایہ کا نام نہیں۔آب و دانہ کا کام نہیں۔ تلوں میں آبلے۔ زبانوں میں بے آبی سے کانٹے پڑے ہوئے روتے دھوتے چلے جاتے تھے۔

ریختہ صفحہ 177
وہ دھوپ اور وہ ریگِ تپاں وہ گرم ہوا
وہ فوج فوج ہر اک سُو سے نرغہ اعدا

وہ کینہ ورزی غارتگرانِ بے پروا
اور اُس پہ ظلم گنواروں کا وہ کہ واویلا

جو ہم سے سُنتے ہیں وہ انقلاب کی باتیں
تو لوگ کہتے ہیں کرتے ہو خواب کی باتیں

وہ گُل سے چہرے حرارت سے تمتمائے ہوئے
وہ گورے گورے بدن خاک میں ملائے ہوئے

لبوں پہ آہ جگر میں الم سمائے ہوئے
جفا کی تیغ کے سب زخم دل پہ کھائے ہوئے

وہ داغِ مرگِ عزیزاں وہ دشت پیمائی
وہ ریگ خارِ مغیلاں وہ آبلہ پائی

غرض خدا خدا کر کے وہ منزل قطع ہوئی اور قریب شام سول بسنت کی سرا میں پہنچے تھکے ہارے۔رستہ کے پاؤں میں بڑے بڑے آبلے پڑے ہوئے بُرا حال، بُری نوبت خیر بہر حال سوائے صبر وشکر کے کیا کیا جائے۔شب کو کچھ بازار سے چنا چبینا لا کر کھا لیا پانی پی کر سرائے کی زمین پر پڑ رہے۔اب آغاز اور انجام اس سفر کا کچھ معلوم نہیں کہ یہ راستہ کہاں کو جاتا ہے کون کون سے شہر راستہ میں پڑیں گے ۔ کس ریاست میں پہنچیں گے۔ پس ہمراہ قافلہ کے ہیں۔ جدھر قافلہ جاتا ہے اُسی کو منزلِ مقصود سمجھا جاتا ہے۔ گھر سے کبھی نکلے نہیں، اس مصیبت کا سفر کیا نہیں ۔ راستہ سے نابلد منزلوں سے نا واقف شہروں اور ریاستوں کا حال سوائے عملداری۔ انگریزی کچھ نہیں جانتے ۔ایک دو بار پہلے سفر کا اتفاق ہوا ہے تو آگرہ، میرٹھ وغیرہ کی طرف ہوا ہے۔ تو بکمال آسائش سواریوں پر آدمی خدمت میں بڑی دل لگی کا سفر ہوا ہے نہ اس مصیبت کا کہ زمین تک قدم دھرنے کی روادار نہیں۔جہاں جھاڑ کانٹا کانٹا دشمنِ جاں ہے۔

ریختہ صفحہ 178

گھر میں الور، جے پور۔ بیکا نور کا نام تو سُنا ہے مگر کبھی اتفاقِ سفر نہیں ہوا۔ نہ یہ معلوم ہے کہ کتنی دور ہیں۔ قصہء مختصر شب کو پڑے رہے ۔ صبح ہوتے ہی پھر قافلہ کے ہمراہ روانہ ہوئے دوپہر کو جا کر فرخ نگر میں داخل ہوئے۔ کچھ چاندی بیچ کر کھانے کی تجویز کی۔ اب جو دوراہ ہے وہاں سے سب طرف کو راستہ جاتا ہے وہاں باہم کھچڑی پکنی شروع ہوئی اور صلاح و مشورے ہونے لگے۔ کسی نے کہا ہم اُدھر جائیں گے کسی نے کہا ہم اِدھر جائیں گے۔ ہم حیران ہیں کہ یا الٰہی ہم کہاں جائیں۔ آخر ایک شخص کی زبانی معلوم ہوا کہ یہاں سے جھجر قریب ہے۔ یہ نام سُنتے ہی جان میں جان آ گئی۔ آہا وہاں تو ہمارے ماموں حکیم مرزا قاسم علی خاں صاحب مختار ریاست ہیں اُن کے پاس چلئیے اور اُن کی صلاح کے کاربند رہئیے ۔ جدھر وہ رہنمائی فرمائیں اُدھر جانا چاہئیے۔

جھجر میں ورود
غرضکہ دوسرے روز جھجر کا راستہ پوچھ کر اُدھر کو روانہ ہوئے۔ اور اُسی دن جھجر پہنچے اور مکان پوچھ کر اُن کے ہاں پہنچے۔ ماموں صاحب نے جب شکل دیکھی تو چیخیں مار کر رونے لگے۔ ارے ہیں کس غضب میں گرفتار ہو گئے۔ غرضکہ گلے سے لگایا، پاس بٹھایا۔ تشفی دی۔ ہاتھ منہ دھلوایا۔ کھانا کھلوایا ۔ دیوان خانہ میں کہا اب یہاں رہو۔ آغا سلطان سے وہ خوب واقف ہی تھے۔ تیسرے پہر کے قریب آغا سلطان تو باہر ٹہرے مجھے اور بھائی کو گھر میں لے گئے ممانی سے کہا دیکھو تو بھانجوں کا کیا حال ہے۔ میری بہن بادشاہ بیگم نے انھیں کس مصیبت سے پرورش کیا تھا آج یہ اس بلا میں مبتلا ہیں وہ بھی آبدیدہ ہوئیں۔ انھوں نے حال پوچھا سب حال بیان کیا دوسرے روز ممانی صاحبہ نے کپڑا منگا کر جوڑے تیار کرائے اور کہا۔ اب یہاں سے کہیں نہ جاؤ۔ میرے پاس رہو۔ ہم آٹھ روز آسائش

ریختہ صفحہ 179
سے وہاں رہے۔ یہ بھی فلک کو ناگوار ہوا اور ظالم جفا کار نے ایک اور ستم ڈھایا۔ آدھی رات کے وقت اُن کو نواب صاحب نے بُلوایا۔ وہ وہاں گئے ایک گھنٹہ بعد واپس آئے اور آبدیدہ ہوئے۔ میں نے پھر پوچھا ماموں خیر ہے۔ فرمایا بھائی کیا پوچھتے ہو۔ جس بلا میں تم مبتلا ہو کر یہاں آئے وہ بلائے ناگہانی یہاں بھی نازل ہو گئی اور انگریزی فوج یہاں بھی آ پہنچی۔ دیکھئے کیا ہوتا ہے۔اس وقت نواب صاحب نےمجھے اس واسطے بلایا تھا۔ اب تُم ایک کام کرو ۔ یہاں سے سیدھے پانی پت کو براہ سونی پت روانہ ہو جاؤ۔ تمہارے والد اور خالائیں اور سارا کنبہ پانی پت پہنچ گیا ہے۔ مجھے خبر آ گئی ہے۔ یہاں سے میری بہلی تُم کو سونی پت پہنچا دے گی۔ وہاں سے تُم گاڑی کر کے چلے جانا ورنہ وہاں بھی تیری ننھیال ہے ۔ تُم کو آگے جانے بھی نہ دیں گے۔ غرضکہ اُس وقت بہلی تیار ہوئی اور ہم سوار ہر کر پانی پت میں آئے۔ یہاں میرے نانا کے حقیقی بھائیوں کے مکان تھے۔ انہوں نے مجھے روکا اور کہا کہ اب تم غدر تک یہاں رہو، کہیں نہ جاؤ۔ جب امن ہو جائے گا چلے جانا۔میں نے کہا کہ میرے والد والدہ ۔ بھائی بہن بیوی سب برسط میں میری خالہ کے ہاں تھے۔ غرضکہ میں روانہ ہو کر وقتِ شب برسط میں پہنچا اور ایسے وقت کہ رات کے گیارہ بج گیے تھے اور میرے والد گریہ و زاری کر کے صحنِ خانہ میں کھڑے ہوئے ہماری سلامتی کی دعا مانگ رہے تھے۔ خداوند تو جامع المتفرقین ہے تو میرے بچوں کو مجھ سے زندہ و سلامت لا کر ملا دے۔ میں نے تیرے ظفظ و امان میں سونپا ہے۔ اُسی وقت میں دروازہ پر پہنچا اور میں نے آواز دی کہ دروازہ کھولو۔ میری بڑی خالہ میری آواز پہچان کر دوڑیں اور میرے والد کو یقین نہ آیا۔ جب میری خالہ نے قسم کھائی کہ میں نے ابھی نواب میرزا کی آواز سُنی ہے۔ وہ دروازہ پر پکار رہا ہے غرضکہ

ریختہ صفحہ 180
دروازہ کُھلا اور میں نے جا کر والد کے قدم لئے ۔ انہوں نے سجدہ ء شکر ادا کیا۔

پانی پت پہنچے
وہاں سے چار پانچ روز کے بعد ہم سب پانی پت میں پہنچ گئے اور وہاں سکونت اختیار کی اور ایک چھوٹی سی تجارت کا ڈھنگ ڈال کر قوت بسری کی سبیل کی اور ایک دوکان کرایہ کو لی۔ ایک آدمی نوکر رکھا خرید و فروخت کے لئے اور حساب کتاب اپنے ہاتھ میں رکھا۔ دونو وقت جا کر دوکان کا مال متاع سنبھال آتا تھا۔ خدا کی صفت رزاقی ہے ان روزوں میں اُس تجارت نے ایسی ترقی پائی اور ایسی برکت ہوئی کہ تمام گھر والے اس میں بخوبی روٹی کھاتے تھے اور نوکر کی تنخواہ کرایہ دوکان ادا کر کے مال تجارت دن دونا اور رات چوگنا ہوتا جاتا تھا۔ تھوڑے عرصہ میں تین چار سو کا سامان دوکان میں فراہم ہو گیا تھا۔ اور دو روپیہ روز کا میرے گھر کا خرچ تھا۔ پانچ ماہ تک ذرا امن و آسائش کی صورت رہی مگر فلک کجرفتار اور زمانہ ء نا ہنجار کب دیکھ سکتا۔ پھر اُس غریب آزار کو رشک و حسد پیدا ہوا اور نشترِ رشک جگرِ فلک میں نیش زن ہوا اور از سرِ نو ایذا رسانی پر مستعد ہوا۔

زمانہ مردِ مصاف ست و من ز سادہ دلی
کنم بجوشنِ تدبیر و ہم دفعِ مضار

ز منجنیق فنک سنگِ فتنہ می بارود
من ابلہا نہ گریزم در آبگینہ حصار

کہ یکایک آسمان سے سنگِ حوادث برسنے لگے۔ اور زمین نے فتنہ ء تازہ برانگیختہ کئے اور حشرات الارض کی طرح زمین سے ایک بچھو پیدا ہوا۔ یعنی دہلی سے وہی موذی اوباش مخبروں کا سرغنہ گامی بدمعاش بلائے ناگہانی کی طرح پانی پت میں نازل ہوا۔ اور دارو گیر کا بازار گرم ہوا اور دلّی والے گرفتار ہونے شروع ہو گئے۔/ ادھر برسط میں نواب حامد علی خاں صاحب اور اُن کے سب کنبہ کو گرفتار کر لائے اِدھر پانی پت

ریختہ صفحہ 181
میں قیامت برپا ہو گئی۔ اور پانی پت کا محاصرہ ہو گیا۔ مگر آفرین مردمانِ پانی پت پر وہ مسافر نوازی فرمائی کہ باپ بیٹے کے ساتھ یہ سلوک نہ کرے گا۔ دلّی والوں کے ساتھ جانیں لڑا دیں اور اپنے گھر کے زنانوں میں چھپا چھپا کر رکھا اور جان سے آبرو سے ساتھ دینے کو موجود تھے۔ اور جس دن سے دلّی کے لوگ پہنچے تھے اپنے گھروں میں بٹھا لیا تھا۔ اور روپیہ پیسے سے روٹی سے کپڑے سے سب طرح سلوک ہوتے رہتے۔ ایسے احسان کو آج تک کسی شخص نے کسی کے ساتھ نہ کئے ہوں گے جو سلوک کہ پانی پت والوں نے دلّی والوں سے کیے۔

پانی پت کا محاصرہ
قصہ ء مختصر جب پانی پت کے گرد گھیرا پڑ گیا اور ناکہ بندی ہو گئی۔ اور دلّی والے گرفتار ہونے لگے۔ میں ایک دن دو گھڑی دن پچھلے سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ پھوپھی کے مکان پر گیا وہ مولوی ابراہیم حسین صاحب کے فروکش تھیں۔ وہاں اپنی بہن سے یہیں گرفتاری کا ذکر کر رہا تھا کہ میری طبیعت گھبرائی اور میں چلنے لگا۔ میری بہن نے مجھے روکا بھی مگر میں اُٹھ کر ڈیوڑھی کے باہر آیا۔ میں نے دیکھا کہ بہت سے آدمی اُس گلی میں چلےآتے ہیں اور آگے تھانہ دار ہے۔ میں نے یہ سوچا۔ اب جو تُو اُلٹا پھر کر جاتا ہے تو یہ گھر میں جا کر گرفتار کر لیں گے۔ میں سیدھا یہ کہتا ہوا اُن کے سامنے سے چلا گیا۔ بھئی ان دلّی والوں کے سبب ہم لوگ بھی مصیبت میں آ گئے۔ اُن آدمیوں کے برابر سے نکل گیا اور انہوں نے مجھے نہ پہچانا۔ وہ آدمی اُسی مکان میں گھسے جس سے میں برآمد ہوا تھا۔ مگر آگے بڑی ڈیوڑھی تھی جس میں دونو طرف راہیں تھیں۔ ایک مولوی ابراہیم صاحب کے مکان کو اور دوسری دیوان خانہ کو۔ اُس ڈیوڑھی میں پہنچ کر میرے ہاتھ پاؤں پُھول گئے اور مجھ سے

ریختہ صفحہ 182
بھاگا نہ گیا۔ کچھ اندھیرا ہو گیا تھا ۔ کچھ پولیوں کا ڈھیر کونے میں لگا ہوا تھا۔ میں انکے نیچے چھپ گیا اور اُس تھانہ دار نے گھر میں داخل ہو کرمیرے پھوپھا اور بھائی اور میرے بہنوئی کو گرفتار کیا اور میرے آگے سے گرفتار کر کے لے گیا۔ جب وہ چلا گیا تو میں وہاں سے نکل کر گریزاں ہوا تو ایسا بے اوسان تھا کہ راستہ میں کئی جگہ گرا۔ غرضکہ اُفتاں و خیزاں میں اپنی خوشدامن کے مکان پر پہنچا۔ اور یہ حقیقت بیان کی اور کہا اب میرا یہاں سے نکل جانا صلاح ہے ورنہ گرفتار ہو جاؤں گا۔ چنانچہ انھوں نے ایک شخص بو علی نامی جو پانی پت کا باشندہ اور شاید میری خوشدامن کے بزرگوں میں سے کسی کا خانہ زاد تھا۔ اُسے بلوایا اور کہا بھائی تُو مجھ پر ایک احسان کر کہ میرے دو بچوں کو یہاں سے نکال کر بچا اور کسی حفاظت کی جا پہنچا دے۔ اُس نے کہا اچھا بیگم صاحبہ میں پہنچاتا ہوں۔

پانی پت سے رخصت
چھ گھڑی رات گئے وہ مجھے اور یوسف سلطان میرے بہنوئی کے چھوٹے بھائی کو لے کر مکان سے چلا اور ایک جا سے شہر کا ڈنڈا ٹوٹا ہوا تھا۔ وہاں سے کودا کر شہر سے باہر ہو گیا اور پھر جلدی جلدی قدم بڑھا کے ہم آٹھ کوس پر ایک گاؤں شیخ زادوں کا تھا وہاں پہنچے اُس گاؤں کا نام گڑاہی تھا۔ پچھلے پہر ہم وہاں پہنچے اور گاؤں والوں کو اُس نے جگا کر ساری حقیقت بیان کی وہ لوگ نہایت مرد آدمی اور مسافر نواز تھے۔ انہوں نے میری بہت خاطر مدارت کی اور تسکین و تشفی دی کہ اب اگر تمام عمر یہاں بیٹھے رہو تو ہم پتہ نہ لگنے دیں گے۔ کیا مقدور ہے کسی کا کہ تم کو گرفتار کر سکے۔ جب دن ہوا تو انھوں نے ہم سے کہا کہ اب ایک کام کرنا چاہئیے کہ دریا کے کنارے پر کھادر ہے۔ وہاں ہم

ریختہ صفحہ 183
ایک جھونپڑی ڈال دیتے ہیں۔ دن کو تو تُم دونو آدمی وہاں رہا کرو اور رات کو گاؤں میں آ جایا کرو اور ہماری طرح کا لباس پہن لو۔ ہم میں سے دو آدمی تمہارے پاس رہا کریں گے۔ ہمارے مویشی وہاں چرا کرتے ہیں۔ تُم دیہاتیوں کے بھیس میں رہو۔ ہم نے منظور کیا اور ہم رہنے لگے۔ پھر میں نے بو علی سے کہا کہ بھائی تُم اب میرے بھائی اور میرے والد کو کہ پیر جی محمد حسین کے مکان میں چھپے ہوئے ہیں نکال لاؤ تو بڑا کام کرو۔ اُس نے کہا کہ بہت اچھا۔ غرضکہ اُس دن روانہ ہوا اور تیسرے دن میرے بھائی اور آغا سلطان میرے بہنوئی کو لے کر میرے پاس پہنچ گیا۔ میں نے اُسے کچھ روپے دے دئیے۔ ایک دن ہم سب وہاں رہے اور دوسرے روز اُن گاؤں والوں کا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے جمنا پار اتر کر مصطفے آباد سیّدوں کی بستی میں پہنچے۔ مصطفےٰ آباد کی سادات نے ہماری بڑی خاطر ومدارت کی اور نہایت درجہ مہمانداری کے علاوہ کہا کہ جب تک یہ ہنگامہ ہے آپ چین سے یہیں بیٹھے رہو۔ یہاں آپ کا بال بیکا نہ ہو گا۔ ہم نے کہا یہ سب آپ کی عنایت ہے۔ اب اس کے عوض اور ہم پر عنایت فرمائیں۔ وہ یہ ہے کہ میراں پور جانسٹھ والوں کے ذریعہ ہمیں گنگا کے پار اتروا دیں کہ وہاں عملداری انگریز کی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کتنی بڑی بات ہے۔ ہم آپ کو خط لکھے دیتے ہیں آپ وہ خط لے کر میر طالب علی کے پاس چلے جائیے وہ آپ کو گنگا کے پار اتروا دیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ہم وہ خط لے کر کرایہ کی منجہولی میں سنبل ہیڑہ پہنچے اور بیرون قصبہ ٹہر کر میر طالب علی نمبردار کے پاس وہ خط بھیجا مگر انھوں نے اس امر سے صاف انکار کیا لیکن ان کے بھتیجے میر عنایت حسین نے نہایت آدمیّت کی اور وہ آ کر ہم سے ملے۔ رات کو

ریختہ صفحہ 184
اپنے مکان میں لے جا کر پوشیدہ رکھا۔ اور تین روز ہماری دعوت کی اور اپنے دیہات کے گوجروں کو بُلوا کر اُن سے کہا کہ ساٹھ آدمی ہمارے بھائی بند آ گئے ہیں اُن کو کسی طرح گنگا کے پار اتار دو۔ انہوں نے کہا دن کو تو ممکن نہیں مگر آئیندہ شب کو ہم ایسا کر سکتے ہیں۔ کیونکہ گنگا کے کنارے دونوں طرف گھاٹیوں پر فوجوں کے مورچے لگے ہوئے ہیں۔ اس پار انگریزی فوج کی چوکیاں ہیں۔ اُس پار نجیب آباد والوں کے مورچے ہیں۔قصہ کوتاہ ایک شب وہ تیس آدمی مسلّح ہو کر بندوق تلوار برچھیاں لے کر آ موجود ہوئے اور گھوڑیاں ہمراہ لائے تھے۔ کوئی پہر بھر رات گئے ہم سب کو گھوڑوں پر سوار کر کے ہمراہ لے چلے۔ وہاں سے دریائے گنگ سات کوس تھا۔ راستہ میں انھیں کی برادری کے گاؤں ملتے گئے مگر وہ اُن کو ہشیار کرتے گئے کہ اگر تؐ کچھ زور و غل سنو تو فوراً ہماری مدد کو چلے آنا۔ میں نے راہ میں ایک گوجر سے کہا کہ تُم میں باہم اتفاق ہے۔ اُس نے کہا اگر اس وقت ہماری ایک بندوق چل جائے تو تینلاکھ گوجر موجود ہو جائے۔ سب گاؤں ہمارے ہیں۔ غرضکہ پچھلے پہر ہم گنگا کے کنارہ پر پہنچے اور گھوڑیاں وہیں چھوڑ دیں۔ ان بیچارے گوجروں نے ہمارے ہاتھ تھام لئے اور ہمارا سامان سروں پر رکھ لیا دریا میں سے ہمیں پار اتار دیا۔ اور فیروز آباد گاؤں سیّدوں کا تھا۔ وہاں پہنچ کر نمبردار صاحب کو میر عنایت حسین کا رقعہ دیا اور ہماری رسید لکھو کر واپس بھیجی۔ہم رات کے تھکے ہارے سردی کھائے ہوئے تھے پُرال گھاس پر پڑ کر اور وہی گھاس اوڑھ کر سو رہے۔ صبح کو دوپہر کے قریب بیدار ہوئے تو ان سیّد صاحب نے کھانا کھلوایا اور حقیقت دریافت کی ہم نے سب حال بیان کیا کہ اس نجیب آباد والے نواب کا آدمی آیا کہ رات

ریختہ صفحہ 185
کون آدمی گنگا اتر کر تمہارے ہاں آئے ہیں۔ کوئی انگریزی مخبر تو نہیں ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم آئے ہیں۔ اس نے کہا کہ اچھا تم میں سے ایک آدمی ہمارے ساتھ چلو غرضکہ میں ہی اس کے ساتھ ہو لیا۔ تھوڑی دور پر فوج پڑی ہوئی تھی ڈیرے خیمے لگے ہوئے تھے وہ آدمی مجھے ایک ڈیرے پر لے گیا۔ وہاں چند لوگ عزت دار کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے سامنے لے جا کر کھڑا کر دیا۔ انہوں نے مجھ سے حال پوچھا ۔ میں نے مختصر بیان کیا کہ تباہی زدہ دلّی کا رہنے والا ہوں ۔ انگریزوں کے خوف سے ہم جان بچائے پھرتے ہیں۔ ان میں سے ایک آدمی بولا کہ تُم لوگ نوکری کرلو۔ یہاں ٹھیر جاؤ۔ میں نے جواب دیا کہ ہم نوکری کے لائق نہیں۔ہم لوگ لکھنو کو جائیں گے۔ غرضکہ وہاں سے آ کر اُس شب وہاں رہے۔ صبح کوچ کیا۔ وہاں سے منزل بمنزل طے کر کے مراد آباد ہوتے بریلی پہنچے۔ وہاں ایک دوست آغا ذہین صاحب مرثیہ گو کے مکان پر قیام کیا۔ اس مہمان نواز نے وہ مدارت کی کہ بیان سے باہر ہے۔ وہاں سے بڑھنے کا ارادہ تھا کہ معلوم ہوا کہ لکھنو کی بھی وہی کیفیت ہوئی جو دلّی کی ہوئی تھی۔ اب حیران پریشان ہوئے کہ یا رب اب کدھر کو جائیں کیا کریں۔ پندرہ روز بریلی میں آغا ذہین کے مکان پر رہے۔

ایک اور آفت
ایک دن کا اتفاق ہے کہ میں اور ایک شخص دلی کا باشندہ جنگ باز خاں نامی بادشاہی سواروں میں ملازم وہ میرے ہمراہ بریلی کے بازار میں ایک مسلمان جوتے والے کی دوکان پر جوتا پہننے کو گئے میں نے جوتا اٹھا کر اُس کی قیمت پوچھی۔ اُس نے بیان کیا سوا روپیہ۔ میں نے وہ جوتا رکھ دیا اُس نے پھر مجھ سے پوچھا رکھ کیوں دیا تم بھی تو کچھ قیمت کہو۔ میں نے کہا کہ
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 186
بھائی مجھ میں اس قیمت کا مقدور نہیں۔ میں سستی قیمت کا جوتا چاہتا ہوں۔ میں غریب تباہی زدہ ہوں۔ پھر اس نے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو۔ میں نے کہا دلّی کے۔ وہ بولا تم لوگ بڑے نامرد ہو کہ گتم نے دلٗی تڑوا دی۔ اور اب گھر لُٹوا کر بھیک مانگتے پھرتے ہو۔ یہ بات سن کر میں تو خاموش رہا مگر جنگ باز خاں سپاہی آدمی قوم کا مغل بچہ اور لال کنوئیں کا رہنے والا ، جہاں کے لُقّے بڑے بڑےمشہور ہیں۔ بھلا آنکا صاحب کو کہاں تاب کہ ایسے سخت کلمے کی برداشت کریں۔ جواب دیا "بیٹا گھبراؤ نہیں چچا کے بیٹے آئے جاتے ہیں جورو کے پائجامے میں چھپتے پھرو گے" یہ کہنا تھا کہ اس جفت فروش نے کھڑے ہو کر ایک ہاتھ سے میرا ہاتھ پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے جنگ باز خاں کا اور بہ آواز بلند پکار کر کہا کہ یارو دوڑو یہ دونو انگریزی مخبر ہیں۔ یہ کلمہ ہمارے حق میں غضب ہو گیا، چہار طرف سے پوربئیے دوڑ پڑے۔ اس وقت بازار میں سوار پیادوں کی یہ کثرت تھی کہ کھوے سے کھوا چھلتا تھا بازار میں رستہ نہ ملتا تھا۔ آتے ہی پوچھا نہ گچھا ہم دونوں کی ممشکیں کس لیں اور کہا کہ جرنیل صاحب کے پاس لے چلو۔ اور ہم دونو کو باندھ کر لے چلے۔ ایک انبوہِ خِلائق ہمراہ ہوتا جاتا ہے جیسے کسی کو گردن مارنے کے لئے لے جاتے ہیں۔ وہاں سے نصف میل پر قلعہ تھا۔ قلعہ کے سامنے ڈیرے کھڑے تھے۔ وہاں ایک ڈیرے کے آگے ایک پوربیا پچاس پچپن برس کی عمر کا گلے میں موٹے سونے کے دانوں کا کنٹھا پہنے ہوئے بیٹھا تھا اس کے سامنے لے جا کر کھڑا کر دیا اور بیان کیا کہ یہ دونوں انگریزی مخبر ہیں۔ ہم ان کو گرفتار کر کے لائے ہیں۔ جرنیل صاحب کا عدل و انصاف ملاحظہ ہو کہ بغیر تفتیشِ حال حکم دے دیا کہ توپ سے باندھ کر اڑا دو۔اُسی وقت وہ جو دو توپیں ڈیرے کے آگے

ریختہ صفحہ 187
لگی ہوئی تھیں۔ ان میں تھیلیاں بارود کی ڈال کر ہم دونوں کو توپوں کے منہ سے باندھ دیا۔ اور نواب خان بہادر خاں والی ء بریلی سے کہلا بھیجا کہ دو مخبر انگریزی گرفتار ہوئے ہیں اُن کو اڑانے کا حکم ہو جائے۔تھوڑی دیر بعد وہاں سے بھی سوار نے آ کر حکم پہنچایا کہ اڑا دو۔ یہ باتیں ہم سب سن رہے تھے اور آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے کہ یا الٰہی کس بلائے ناگہانی میں گرفتار ہو گئے۔ گھر سے تو اسی مصیبت سے جان بچا کر آئے تھے اور یہاں آ کر پناہ پذیر ہوئے تھے۔ یہ نہ معلوم تھا کہ ہماری قضا یہاں لکی ہوئی تھی۔ معلوم ہوا کہ ہماری موت ہم کو کھینچ کر لائی تھی۔ اب تیرے سوا ہمارا فریاد رس کون ہے۔ جنگ باز خاں میرے منہ کو تکتا ہے اور میں جنگ باز خاں کو دیکھ رہا ہوں اسی اثنا میں دوسرا سوار خان بہادر خاں کے پاس بھیجا گیا اور وہ بھی یہی حکم لایا۔ ہم کو اپنی زندگی سے بالکل پاس ہو گئی اور بندھے ہوئے کلمہ پڑھ رہے ہیں اور تیسرا حکم آنے کی دیر ہے وہ حکم آئے تو توپ کو بتّی دکھائی جائے۔ اُس وقت اس کی شان رحیمی کو دیکھنا چاہئیے کہ پردہ ء غیب سے کیا نمودار ہوتا ہے اور ہم کو پنجہ ء اجل سے کس طرح نجات دیتا ہے۔ وہی مثل ہے کہ مارنے والے سے بچانے والا زیادہ قوی ہے۔

چو عاجز رہا نندہ دانم ترا
دریں عاجزی چوں نخوانم ترا

ناگہاں کیا دیکھتے ہیں کہ قلعہ کے دروازہ میں سے کچھ سپاہی دوڑے ہوئے چلے آتے ہیں اور پیچھے ان کے ایک شخص سنہرے گھوڑے پر سوار سفید پقش سفید مندیل باندھے ہو ئے ہماری طرف چلا آتا ہے اور اُس کے جلو کے سپاہیوں نے آتے ہی کہا ہٹ جاؤ اور سب بھیڑ کو ہٹا دیا۔ نووارد سوار نے پیشتر جا کر جنگ باز کو دیکھا اور دیکھتے ہی جنگ باز سے کہا ۔ ارے جنگ باز تو کہاں؟ جنگ باز : مجھے کیا دیکھتے ہو

ریختہ صفحہ 188
دوسرے کو دیکھو کون ہے۔ مجھے دیکھا تو فی الفور گھوڑے سے کود کر جلدی سے وہ رسّی کاٹ دی جس سے مجھے جکڑ کر رکھا تھا اور جنگ باز کی رسّی بھی کاٹ کر ہم دونوں کو چھڑایا اور ہمارا ہاتھ پکڑ کر اس جرنیل کے سامنے لے گیا اور ہزاروں گالیاں مغلظات اس نا معقول کو سنائیں اور کہا نمک حرامو تم نے ہمارے بادشاہ کا گھر تباہ کرایا دلٗی کا ستیا ناس کر دیا۔ رعّیت کو خاک میں ملا کر گھر سے بے گھر کر دیا۔ اور اب بھی اپنی شرارت سے باز نہیں اتے۔ ارے یہ بادشاہی ملازم ہیں۔ بیچارے غریب انگریزوں کے خوف سے اپنی جان بچائے پھرتے ہیں۔ یہ کیا مخبر ہیں تُم نے حال تو پوچھا ہوتا۔ یا پہلے بغیر پوچھے گچھے گردن مارنے کا حکم دے دیا۔ اگر اس وقت میں نہ آتا تو ان دونوں بے گناہوں کو جان سے مار چکا ہوتا۔ ان کی زندگی تھی کہ میں آ گیا۔ یہ کہہ کر وہ مجھ سے حال پوچھنے لگا جنگ باز نے ساری حقیقت بیان کر دی۔ پھر اس نے کہا کہ تم میرے مکان پر آنا ۔ اور ہم سے کہا کہ تم اپنے مکان کو جاؤ۔ اب یہ بات معلوم کرنی چاہئیے کہ ہمارا محسن کون تھا جس نے اس بیکسی کے وقت میں جان بچائی وہ ہمارا خواجہ تاش بادشاہی ملازم کہاروں کا داروغہ میر فتح علی تھا۔ خیر جب ہم نے اس بلا سے نجات پائی ، اپنے مکان پر پہنچے تو میرے والد اور سب ہمراہی فکر مند تھے کہ خدا جانے وہ دونو کہاں چلے گئے کس بلا میں مبتلا ہو گئے۔ سب پوچھنے لگے کہاں چلے گئے تھے جو اتنی دیر لگی۔ جنگ باز نے سب حال بیان کیا کہ ہم تو موت کے شکنجے سے نکل کر آئے ہیں۔ سب سن کر حیران پریشان ہو گئے۔ مگر خدا کا شکر ادا کیا کہ زندہ سلامت آ گئے۔ اس واقعہ کے بعد یہ خیال ہوا کہ یہ جائے معرضِ خطر ہے یہاں سے نکلنا چاہئیے مبادا یہاں لشکر انگریزی آن پہنچے اور ہم گِھر جائیں۔ دلّی سے تو بھاگ کر یہاں آئے اب یہاں سے نکل کر

ریختہ صفحہ 189
کہاں جائیں گے۔ ہم خیال دوڑا رہے ہیں کہ کوئی جائے مقر نظر نہیں آتی۔ اب مسبب الاسباب کی قدرت کو دیکھا چاہئیے کہ اُس حالتِ یاس دور مانگی و سراسیمگی میں کس طرح پُر آشوب حالت سے نکال کر ساحلِ عافیت کو پہنچاتا ہے کہ ایک روز بازار میں ایک شخص ہموطن کو دیکھا کہ مسافروں کی طرح کمر بندھی ہوئی ہاتھ میں لکڑی، منہ پر غبار پڑا ہوا اور ایک عورت اس کے عقب میں چادر سے منہ چھپائے ایک چھوٹی پوٹلی بغل میں مارے چلی آتی ہیں۔ جب پاس آئے تو انھوں نے مجھے اور میں نے ان کو پہچانا صاحب سلامت ہوئی۔ آہا میر غلام عباس تم کہاں وہ بولےمیں لکھنو سے چلا آتا ہوں۔ میں نے پوچھا کہاں ٹھیرو گے۔ کہا خدا جہاں ٹہرائے میں نے کہا جہاں ہم ہیں وہاں تم بھی چلا۔ اور وہاں سے ہم تم شامل ہو کر خدا جہاں لے جائے، وہاں چلے چلیں گے۔ وہ میرے ساتھ ہو لئے اور مکان فرود گاہ پر پہنچے۔ سب سے ملے۔ انھوں نے اپنی تمام حقیقت بیان کی۔ خیر اس دن تو وہیں مقیم رہے ۔ دوسرے روز صلاح و مشورے سفر کے ہوئے۔ انہوں نے صلاح دی کہ رام پور سے بہتر کوئی جا مقر کی نظر نہیں آتی۔ میری شامتِ اعمال مجھے لکھنو کھینچ کر لے گئی تھی۔ وہاں بھی وہی صورت پیش آئی جو دلّی میں ہوئی تھی۔ غرضکہ سب کی رائے اس پر قرار پائی کہ رام پور چلو۔ مگر چلیں کیونکر ۔ راستہ مسدود ہے۔ رام پور اور بریلی کی سرحد پر مورچے بندھے ہوئے ہیں۔ فوجیں پڑی ہوئی ہیں۔
اور وہ وقت وہ ہے کہ بریلی میں سب طرف کے مفرورین کا اجماع ہے اور سب سردار مثل نانا راؤ اور فیروز شاہ وغیرہ اور دلّی لکھنو وغیرہ کے آدمی جمع ہیں۔ رام پور کے تیس ہزار آدمی بریلی میں ملازم ہیں۔ اور مردانِ رام پور کا یہ حال ہے کہ ایک ایک تھان

ریختہ صفحہ 190
کا دوپٹہ سر سے بندھا ہوا ہے اور اس پر گوٹا لگا ہوا ہے۔آدہا دوپٹہ سر سے بندہا رہا اور آدھا گھوڑے کی رکاب سے نیچے لٹکتا ہوا ہے اور چار چار طپنچے کمر میں لگے ہوئے ، دہری تلواریں ڈاب میں لٹکی ہوئی ہیں۔ گھوڑوں پر سوار ہیں اور شہر میں گھوڑے کوداتے پھرتے ہیں۔ پچاس ہزار سوار کا اجماع بریلی میں موجود ہے اور سپاہ انگریزی کی آمد کی خبر چار طرف سے گرم ہے۔ قصّہ مختصر اس کے دوسرے روز ہم سات آدمی بریلی سے نکل کر رستہ کو چھوڑ کر جنوب کی جانب روانہ ہوئے۔ اور یہ ارادہ کیا کہ غیر راہ سے رامپور داخل ہونا چاہئیے ۔ چنانچہ ہم بریلی سے روانہ ہو کر قصبہ آنولہ میں پہنچے اور وہاں ایک مسجدِ کہنہ میں جا کر مقیم ہوئے۔ آنولہ کے ایک مرد آدمی مُسن آ کر ہم سے ملے اور تفتیشِ حال کرنے لگے بر وقت دریافتِ حال وہی کلمات انہوں نے بیان کئے جو جفت فروش نے کئے تھے۔ جنگ باز پھر کچھ کہا چاہتا تھا کہ میں نے اس کے منہ پر ہاتھ دھر دیا ۔ تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ دیکھتے کیا ہیں جنگل کی طرف سے دو سوار سراسیمہ گھوڑے دوڑائے ہوئے چلے آتے ہیں اور اُسی مسجد کی سیڑھیوں پر آ کر گھوڑوں پر سے اترے اور گھوڑوں کو درخت سے باندھا ۔ وہ مسجد میں داخل ہوئے۔ جب پاس آئے تو میں نے انہیں پہچانا کہ احمد خاں جرنیل جھجر کے ہیں۔ اہا جرنیل صاحب آپ کہاں ۔ انھوں نے بیان کیا کہ کچھ کے گھاٹ پر میری مورچہ بندی تھی اور بیس ہزار فوج سوار و پیادہ معہ توپخانہ جات وغیرہ میرے زیرِ حکم تھے۔ جب انگریزی فوج دریائے جنگ سے اس طرف عبور کرنے لگی ، تو میری فوج بغیر لڑے بھڑے بھاگنی شروع ہو گئی۔ ہر چند روکا گیا مگر کون سنتا تھا اور سب ہم کو تنہا چھوڑ کر مفرور ہو گئے۔ فقط ہم دو باپ بیٹے رہ گئے تھے لاچار ہم بھی اپنی جان بچا کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ جب یہ تقریر احمد خاں کی ختم ہوئی تو جنگ باز خاں
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 191

نے اُن پیر مرد کو سلام کیا جو ہم کو بودا اور نامرد بتا رہے تھے۔وہ حضرت اُسی وقت اٹھ کر منتشر الحواس اپنے مکان کو روانہ ہوئے۔ ہم لوگوں نے اس روز آنولہ میں قیام کیا۔ دوسرے روز صبح کو وہاں سے روانہ ہو کر مقام شاہ آباد عملداریء رام پور کا ارادہ کیا ۔ وہ مقام آنولہ سے اٹھارہ کوس تھا ۔ غرضکہ بارہ کوس راہ دن میں طے کی اور پھر تھک کر چور ہو گئے ، چلنے کی طاقت نہ ہوئی، پاؤں سُوج گئے۔ تلوؤں میں آبلے پڑ گئے ۔ جاٹوں کا ایک گاؤں تھا اس گاؤں کے باہر تالاب کے کنارے پر ایک درخت کے نیچے ہم نے مقام کیا اسی اثنا میں ایک مسلمان نجار گاؤں میں سے پانی بھرنے آیا ۔ ہم کو دیکھ کر اس نے کہا کہ تُم لوگ یہاں کیوں پڑے ہو ۔ جاؤ اپنا رستہ لو، گاؤں والے تم کو دیکھیں گے تو مار ڈالیں گے ۔ یہ لوگ مسلمان پٹھانوں کی جان کے دشمن ہیں۔ کیونکہ خان بہادر خاں کی عملداری میں جو لوگ ان پر حاکم رہے ہیں انہوں نے اُن پر بڑے ظلم و ستم کئے ہیں اب یہ لوگ اپنا بدلہ لے رہے۔ ہم نے کہا کہ ہم بھی مرنے کو پھرتے ہیں مگر ہم ایسے سخت جاں ہیں کہ ہمیں کسی طرح موت نہیں آتی۔ ہم خدا سے چاہتے ہیں کہ ہمیں کوئی جان سے مار ڈالے کہ اس روز کی مصیبت سے نجات حاصل ہو۔ وہ نجار پانی کا گھڑا سر پر رکھ کر گاؤں کو روانہ ہو گیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر واپس آیا اور آ کر کہا کہ تُم کو مقدم جی بلاتے ہیں۔ ہم نے جواب دیا ہم فقیر ہیں ، ہمارا گاؤں میں کیا کام ہے ، ہمیں یہیں پڑا رہنے دے ۔ رات کو بسیرا لے کر صبح کو چلے جائیں گے۔ اس شخص نے نہ مانا اور ہم کو اپنے ہمراہ چوپال میں لے گیا وہاں جا کر ہم نے دیکھا کہ ایک شخص بڑا قوی ہیکل جوان داڑھی چڑھائے ہوئے ایک بہت بڑے ماچے پر لیٹا ہے اور آگے اس کے ایک بہت بھاری لٹھ دہرا ہے۔ اُس جوانمرد نے ہم کو دیکھ کر کہا کہ او میاں جی

ریختہ صفحہ 192
بیٹھ جاؤ ۔ برابر اس کی دوسرا ماچا اونچے پایوں کا بچھا ہوا تھا۔ اُس پر ہم کو بیٹھنے کی اجازت دی ۔ ہم بیٹھ گئے اور وہ عورت جو ہمارے ہمراہ تھی الگ ایک گوشہ میں جا بیٹھی۔ اُس نے (مرد مالک دہ نے) ہم سے استفسارِ ھال کیا ہم نے بیان کیا کہ ہم پردیسی ہیں۔ دلّی کے رہنے والے ہیں۔ تباہ و برباد ہو کر گھر سے نکلے ہیں ۔ انگریزوں کے خوف سے جان بچائے پھرتے ہیں۔ رام پور جانے کا ارادہ ہے اُس مردِ رحم دل نے ہمارے حالِ زار پر بہت تاسّف کیا اور ہمارے منہ ہاتھ دُھلوائے۔ تھوڑی دیر بعد مکئی کی روٹیاں گھی سے چپڑی ہوئی اور دال اور ایک برنجی کاسے میں دودھ اور شکر منگوا کر ہمارے آگے رکھے اور ہم سے کہا کہ اچھی طرح خوب سیر ہو کر کھا لو۔ اُس نیک بخت عورت کے لئے علیٰحدہ روٹی منگوا دی۔ بعد تناول طعام کے ہم اُسی چوپال میں جا کر سو رہے۔ صبح کو جب ہم نے چلنے کا ارادہ کیا تو اُس مردِ بامرّوت نے ہم سے کہا کہ تمہارے پاؤں تو سوجے ہوئے ہیں ۔ راستہ کیونکر طے ہو گا۔ اپنے گاڑیبان کو بُلا کر کہا کہ ان کو گاڑی میں سوار کرا کے شاہ آباد پہنچا آؤ۔ علاوہ بریں پانچروپیہ اور اپنے پاس سے زادِ راہ ہمارے حوالہ کئے۔ ہم نے ہر چند لینے سے انکار کیا مگر اُس عالی ہمّت نے ہر گز نہ مانا اور ہم کو سوار کراکے شاہ آباد پہنچا دیا۔ ہم نے خدا کی رزق رسانی کا لاکھ لاکھ شکریہ ادا کیا

عدو شود سببِ خیر گر خدا خواہد ؎
ریاست رامپور میں ورود

اب ہم شاہ آباد میں پہنچے۔ وہاں رام پور کی عملداری تھی اور رام پور وہاں سے بارہ کوس تھا باہم یہ مشورہ قرار پایا کہ آج تو یہیں قیام کرنا چاہئیے صبح کو یہاں سے رام پور روانہ ہوں گے

ریختہ صفحہ 193
غرضکہ اس دن اور اس شب کو ہم وہیں مقیم رہے۔ علی الصباح قبل از نماز میں لوٹا لے کر رفعِ حاجت کے واسطے سرا کے باہر گیا۔ ہنوز فارغ نہیں ہوا تھا کہ میں نے دیکھا کہ مغرب کی جانب سے فوجِ کثیر چلی آتی ہے۔ میں دم بخود ہو رہا،۔ اور اُس فوج نے آبادی کے باہر اپنا قیام کیا اور دو توپیں سلامی کی سر کیں۔ میں فارغ ہو کر سرائے میں آیا اور یہ ماجرا اپنے ہمراہئوں سے بیان کیا۔ اسی اثنا میں فوج کے چند آدمی سرا میں داخل ہوئے اور گاؤں والوں پر تشدؔد کرنے لگے اور اکثر آدمی سرائے میں بھی آ کر فروکش ہوئے ہم ایک جانب ایک حجرے میں ٹہرے ہوئے تھے وہ لوگ اور حجروں میں آ کر مقیم ہوئے۔ ہم نے باہم صلاح کی کہ آج کوچ کرنا مناسب نہیں کیونکہ انگریزی فوج کی آمد ورفت ہے مبادا ہم کو باغی تصّور کر کے جان سے مار ڈالیں۔ہم توکّل بخدا کر کے وہیں ٹہر گئے کہ صبح کو یہاں سے کوچ کریں گے۔ غرضکہ اُس روز اور اُس ژب وہ فوج بھی وہیں رہی اور ہم بھی وہیں رہے۔ ہم سے کسی نے کچھ مزاحمت نہ کی صبح کو فوج تو آنولہ کی جانب روانہ ہو گئی اور ہم رامپور کو چل نکلے۔ اثنا ء راہ میں جو سوارانِ مفرور بریلی کے اُس فوج کو ملے سب تہِ تیغ بیدریغ ہوئے مگر ہم تو خدا کی عنایت سے صحیح و سالم قریبِ شام رامپور پہنچے۔ دروازہء شہر میں سے شہر میں داخل ہونا چاہا مگر دروازہ پر بندوبست تھا۔ دربانوں نے ہم کو مسافر سمجھ کر شہر میں نہ آنے دیا مجبور ہو کر دوسرے دروازہ ء شہر پر گئے وہاں بھی یہی کیفیت دیکھی حیران ہوئے کہ یا الٰہی اب کیا کیجے میر غلام عباس شہر کے حال سے خوب واقف تھے۔ وہ وہاں رہ کر لکھنوکو گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اور راہ سے تمہیں شہر میں لے چلوں۔غرضکہ ایک جا سے بانسوں کی چار دیواری شہر کی ٹوٹی ہوئی تھی۔ اُس طرف سے شہر میں داخل ہوئے

ریختہ صفحہ 194
اب یہ فکر ہوا کہ شہر میں تو آ گئے اب کہاں قیام کریں۔ میر غلام عباس نے کہا کہ ایک شخص میرا ابراہیم علی نامی دلّی کے رہنے والے یہاں رہتے ہیں اُن کے مکان پر چلو۔ پانچ چھ گھڑی رات گئے ان کے مکان پر پہنچے اور ان کو بلایا۔ وہ باہر آئے انہوں نے سب کو شناخت کیا مجھ سے ان سے کچھ قرابت بھی تھی وہ گلے سے ملے اور ان کی ڈیوڑھی میں ہم سب بیٹھے۔ باہم حال پُرسی ہوئی ہنوز یہ کیفیت بیان ہو رہی تھی کہ ایک فتنہء دیگر برخاست ہوا۔ ایک عورت ہمسایہ دکان میں یہ حال سُن رہی تھی کہ اک بارگی اُس نے غُل مچایا کہ محلہ والو دوڑو، اس سیّد کے گھر میں باغی لوگ آ کر چھپے ہیں۔ ہرچند میر ابراہین علی نے ہاتھ جوڑے منتّیں کی قسمیں کھائیں کہ یہ باغی نہیں ہیں میرے بھائی بند ہیں دلّی سے آئے ہیں ۔ وہ بدبخت کب سُنتی تھی۔ آخر انہوں نے اُس سے کہا کہ اچھا میں ان کو اور جا پہنچا دیتا ہوں تو خاموش ہو جا۔ وہ ہم کو ہمراہ لے کر ایک ایرانی کے مکان پر پہنچےاور اُن سے جا کر بیان کیا کہ یہ لوگ میرے عزیز قریب ہیں آپ اتنی عنایت کریں کہ آج کی رات ان کو اپنے مکان پر مہمان رکھیں۔ صبح کو میں اپنے ہمراہ لے جاؤں گا۔ وہ اس بات پر راضی ہو گئے اور ہم شب کو وہیں رہے۔ صبح کو اُٹھ کر ہم مکان سے باہر ہوئے میر غلام عباس سے کہا اب کیا تدبیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ آؤ سب تو چل کر اجیت پور کی سرا میں بیرونِ شہر قیام کریں میں تُم کو ایک امیر حاتم ہمّت کے مکان پر لئے چلتا ہوںاگر اس نے حامی بھر لی اور تم کو اپنے مکان پر ٹھیرا لیا تو پھر نواب صاحب بھی نہیں نکال سکتے۔ غرضکہ اور سب کو تو سرائے اجیت پور کو روانہ کیا اور میں اور غلام عباس ان امیر صاحب کے مکان پر پہنچے ۔ وہاں جا کر میں نے دیکھا کہ بڑا دروازہ ہے اور اُس میں ایک بڑا دیوان خانہ ہے۔ اور ایک چوبی تخت بچھا ہوا ہے۔


ریختہ صفحہ 195
اُس پر جا نماز بچھی ہوئی ہے۔اور ایک مرد پیر نورانی شکل بیٹھے ہوئے تسبیح پڑھ رہے ہیں ۔میر غلام عباس کو دیکھتے ہی بیتاب ہو کر دوڑے۔ ارے میاں غلام عباس تُم کہاں چلے گئے تھے۔ تمہارے دیکھنے کو آنکھیں ترس گئیں۔ غرضکہ باہم مصافحہ کر کے ہم تینوں شخص تخت پر بیٹھے ۔ میر غلام عباس سے اُن حضرت نے حال دریافت کیا انہوں نے از ابتدا تا انتہا لکھنو جانے اور واپس آنے کی کیفیت بیان کی۔ پھر میری جانب مخاطب ہو کر ان بزرگوار نے فرمایا ۔ ان کی تعریف بیان کیجئیے۔ میر غلام عباس نے کہا ، ان کا حال نہ دریافت کیجئیے۔ آپ کو سننے کی تاب نہ ہو گی۔ خلاصہ یہ ہے کہ دلّی کے رہنے والے ہیں اور عمائدِ شہر سے ہیں مگر اب تو مصیبت زدہ مظلوم سیؔد ہیں۔ جب سیّد کا لفظ ان کی زبان سے نکلا تو وہ بزرگوار کریم الصفات اُٹھ کر مجھ سے بغلگیر ہوئے اور میر غلام عباس سے کہا کہ واسطے خدا کے تم مفصل حال بیان کرو۔ ان کی کیفیت سُن کر میرے دل پر نہایت صدمہ ہوا ۔ میر غلام عباس نے بیان کیا کہ فلاں فلاں شخص ہیں۔ اس مناصب کے لوگ ہیں گھر بار لُٹ گیا ۔ خانہ ویراں ہو کر اپنی جان بچائے پھرتے ہیں ۔ زمین بھی اپنے اوپر پاؤں رکھنے نہیں دیتی۔ اگر آپ سادات نوازی فرما کے اپنے مکان پر ان کو تھوڑی سی جا دیں اور کوئی دن ٹہرائیں یہ آپ کے احسان مند ہوں گے۔ یہ سُن کر وہ فرشتہ سیرت بولے میرے کہاں نصیب کہ پانچ یا چار بنی فاطمہ میرے مکان پر تشریف رکھیں اور اس کے ساتھ یہ امر بھی آپ یاد رکھئیے ۔ جب تک فصیح اللہ کا جسم سلامت ہے کسی کا مقدور نہیں کہ ان کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھ لے۔ اُسی وقت حکم دیا کہ میری منجہولی لے جاؤ اور باقی صاحبوں

ریختہ صفحہ 196
کو سوار کر کے لے آؤ۔ غرضکہ دیوان خانہ میں فرش کرا دیا۔ خدمت گاروں سے کہہ دیا خدمت میں حاضر رہو اور گھر میں کھانا تیار کرانے کا حکم بھجوا دیا۔ تھوڑی دیر میں میرے والد اور بھائی اور بہنوئی بھی آ گئے۔ نواب صاحب سب سے ملے اور بہت خوش ہوئے اور کھانے کے واسطے گھر میں کہہ دیا کہ دونوں وقت تیار کر کے بھجوا دیا کرو۔ غرضکہ اب فضلِ الٰہی شامل ہوا اور اُس دشت گردی صحرا نوردی سے نجات پا کر ایک امن کے گنبد میں ہم ہو بیٹھے۔ دو تین روز کے بعد اُس رئیس مسافر نواز نے یہ اور احسان کیا کہ نواب یوسف علی خاں صاحب بہادر مرحوم کے پاس گئے ۔ نواب صاحب نے پوچھا دادا صاحب آج آپ کس طرح تشریف لائے کہا کہ میں تمغہء بے بہا آپ کے واسطے لایا ہوں ۔ نواب صاحب بہادر نے پوچھا کیا تمغہ ہے۔ فصیح اللہ خاں صاحب نے کہا زادِ عقبٰے۔ نواب صاحب نے دریافت کیا زادِ عقبٰے کونسا ہےکہا کہ پانچ شخص بنی فاطمہ کو میں نے اپنے مکان پر پناہ دی ہے۔ تُم سے اس بارہ میں امداد کا خواستگار ہوں تا کہ تُم اس کارِ خیر میں شریک ہو۔ وہ یہ ہے کہ یا تو تُم صاف مجھ سے کہہ دو کہ تُم ان کو اپنے مکان پر نہ رکھو تو میں ان کو رخصت کر دوں یا حمایت کرو تو پوری کرو۔ بعد چار دن کے اگر تُم ان کو گرفتار کر کے انگریزوں کے سپرد کر دو تو یہ مجھ سے گوارا نہ ہو سکے گا۔ جب میرا سر کٹ جائیگا جب کوئی ان کو ہاتھ لگائے گا۔ نواب صاحب بہادر نے فرمایا کہ بھلا دادا صاحب میں ایسا شخص ہوں کہ سادات میرے گھر پر آ کر پناہ پذیر اور میں ان کو آگے دے کر قتل کرا دوں۔ ہر گز مجھ سے نہ ہو گا۔ بشرطیکہ بریلی میں نوکری نہ کی ہو۔ فصیح اللہ نے قسم کھائی کہ نہیں حضرت انھیں نوکری سے کیا تعلق وہ تو دلّی کے آدمی ہیں۔


ریختہ صفحہ 197
بادشاہی ملازم وہ بریلی میں کیا نوکری کریں گے۔شاید تم ان لوگوں کے نام و نشان سے واقف ہو کیونکہ دلّی میں بہت دنوں تک رہے ہو۔ جب فصیح اللہ خاں صاحب نے نام بتائے عہدے بتائے نواب صاحب نے فرمایا میں سب سے واقف ہوں کوئی بغاوت پیشہ نہیں ہے۔ شوق سے اپنے گھر میں رکھو اور اُن کا اطمینان کر دو کہ اب کسی طرح کا تم کو جان کا اندیشہ نہیں۔ میں سمجھ لوں گا۔ بریلی کا فیصلہ ہو نے کے بعد میں خود تمہاری صفائی انگریزوں سے کرا دوں گا اور معافی نامہ دلا دوں گا۔ چین سے یہاں بیٹھے رہو۔ یہ باتیں کر کے فصیح اللہ خاں صاحب وہاں سے خوشی خوشی مکان پر آئے اور ہم سب سے کہا کہ لو مبارک ہو۔ میں نواب صاحب بہادر سے تمہاری صفائی کر آیا۔ نواب صاحب بہادر نے وعدہ فرمایا ہے کہ میں انگریزوں سے معافی نامہ دلا دوں گا۔ جہاں جی چاہے رہو۔ کوئی مزاحم نہ ہو گا۔ غرضکہ اس امر کے بعد ہم کو اطمینانِ کُلّی حاصل ہو گیا۔ اور اپنے بے خوف و خطر رہنے سہنے لگے۔ داغ صاحب کو خبر ہوئی۔ وہ اُسی روز آ کر ملے انہوں نے یہ حسنِ سلوک کیا کہ مجھے اور میرے چھوٹے بھائی امراؤ مرزا انور کو صاحبزادہ محمد رضا خاں صاحب داماد نواب یوسف علی خاں صاحب مرحوم کی سرکار میں نوکر رکھوا دیا۔ صاحبزادہ موصوف کے مکان پر مشاعرہ ہوتا تھا اور منشی امیر احمد صاحب مینائی مرحوم آ کر نواب کی غزل اور اپنی غزل پڑہا کرتے تھے۔صاحبزادے محمد رضا خاں صاحب نے فرمایا کہ تُم بھی غزلیں لکھو۔ ہم نے ہرچند انکار کیا کہ ہنوز ہمارے اوسان درست نہیں ہیں۔ مصیبت زدہ ہیں کیا غزل لکھیں گے۔ مگر صاحبزادے صاحب موصوف نے زیادہ تر اصرار کیا ناچار ہم نے غزلیں لکھ کر مشاعرے میں پڑھیں۔ بس اُسی روز سے تمام رام پور میں ہمارے

ریختہ صفحہ 198
کلام کی شہرت ہو گئی۔ خلقت نے ہماری گرویدگی اختیار کی۔ نواب صاحب بہادر نے حسبِ وعدہ بریلی میں جا کر صاحبانِ انگریز سے صفائی کا سارٹیفکیٹ حاصل کر کے ہمارے پاس بھجوا دیا۔ عرصہ ء چار سال کے قریب ہم رام پور میں رہے، انہیں ایّام میں ہمارے گھر کے آدمی بھی پانی پت سے رام پور پہنچ گئے۔
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 199

چھٹا باب
وطن کو مراجعت

نواب فصیح اللہ کاں صاحب جن کے اوصافِ حمیدہ اوپر بیان ہو چکے ہیں۔ یہ نواب فیض اللہ خاں بہادر مرحوم کی اولاد میں سے تھے اور نواب یوسف علیخاں بہادر نواب رام پور کے رشتہ کے دادا ہوتے تھے۔ زمانہ ء قیام رام پور میں جب میرے گھر کے آدمی میرے پاس پہنچے ہیں تو ایک سال بعد میرے گھر میں لڑکا پیدا ہوا اور اُن کا نام سجاد مرزا رکھا گیا۔ وہ بچہ سات مہینے کا تھا جب اشتہار و گذاشت جائداد دہلی کا میرے پاس پہنچا اور مضمون اشتہار یہ تھا کہ سرکار نے کُل رعایا کا قصور معاف فرمایا۔ جس جس کی جائداد دلّی میں ہو وہ آ کر سرکار میں عرضی گذارنے ، بعد تحقیقات اُس کو سارٹیفکیٹ وراثت کا دیا جائے گا۔ چنانچہ اسی خوشی میں مَیں رام پور سے دلی کو آیا تو اس زمانہ میں ہملٹن صاحب کمشنر تھے اور کوپر صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر دہلی تھے مگر یہ دونوں حاکم ایسے رحم دل منصف و عادل رعایا پر وروداد گُستر تھے کہ ان کی تعریف میری زبان سے ادا نہیں ہو سکتی۔ ان دونوں

ریختہ صفحہ 200
بہادروں نے آ کر دلّی کو آباد کیا اور خلقت کو شہر میں بسایا اور وہ رعیّت نوازی فرمائی کہ رعیّت کے دل سے سب رنج و غم زمانہ ء غدر کا بھلا دیا۔ میں نے شہر آشوب میں کوپر صاحب بہادر کی تعریف میں ایک بند لکھا ہے فی الحقیقت وہ بیان واقعی ہے اُس میں کچھ مبالغہ نہیں ہے یا تو وہ زمانہ تھا سرکار کا نائرہ قہر و غضب التہاب پر تھا اور صد ہا مخبر چھوٹے ہوئے تھے۔ اور جا بجا سے دلّی کے آدمی گرفتار ہو کر دلّی میں چلے آتے تھے اور دلّی میں تین پھانسیاں گڑھی ہوئی تھیں۔ ہر روز سینکڑوں پھانسی پر کھینچے جاتے تھے اور مٹکاف صاحب شکار کھیلتے پھرتے تھے جس کو جوان دیکھتے تھے طپنچہ سے شکار کرتے اور کچھ پُرسش قصور بے قصور کی نہ تھی۔ چنانچہ بہت سے آدمی بے قصور دلّی کے شرفاء کہ جن میں اکثر امیر زادے اور نام آور اشخاص تھے مثل نواب محمد حسین خاں اور نواب مظفر الدولہ اور امیر محمد حسین وغیرہ سکنائے محلہ بلی ماراں الور سے گرفتار ہو کر دلّی کو آتے تھے۔ جب مقام گُڑگانوے میں پہنچے تو حاکمِ ضلع نے حکم دیا کہ ان کا دلّی لے جانا کچھ ضرورت نہیں ہے۔ اُن کا یہیں فیصلہ ہو جانا چاہئیے اور اُن غریبوں کو وہیں باڑیں مار دی گئیں اور اُن کا کام تمام کر دیا۔ دلّی میں ہزاروں بیگناہ پھانسی پا گئے اور بادشاہ کو قید کر کے معہ زینت محل بیگم و جوان بخت و شاہ عباس وغیرہ شاہزادگان خورد سال کو ہمراہ بادشاہ رنگون میں لے جا کر نظربند رکھا گیا۔ یا ایک زمانہ یہ دیکھنے میں آیا کہ نواب؎ وائسرائے لارنس صاحب بہادر گورنر جنرل ہو کر ولایت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

؎1
یہ وہی لارڈ لارنس ہے جو غدر کے ایّام میں پنجاب کے لفٹنٹ گورنر ( چیف کمشنر) تھا ۔ لارڈ ایلگن کے مرنے پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اسے ہندوستان کا گورنر جنرل مقرر کیا گیا۔ بادشاہ کے مقدمہ میں کمیشن کے فیصلے پر اسی نے ریویو لکھا تھا اور بادشاہ کو جلا وطن کرنے کی سفارش کی تھی۔( باقی حاشیہ صفحہ 199)

ریختہ صفحہ 201
سے ہندوستان کو آئے اور حکام عادل رحمدل مقرر کئے گئے۔ اور رعیّت کو مثل اولاد کے چھاتی سے لگایا گیا۔ اور جابجا سے بُلوا کر دلّی میں آباد کیا گیا۔ اور سب کی جائداد واگزاشت فرمائی۔
یہ وہی فوٹ صاحب حاکم گڑ گانوں تھے جنھوں نے گرفتارانِ الور کو اثنا راہ میں تہ تیغ کیا تھا۔ اب مقام کجلی بن میں متصل پیلی بہیت پہنچ کر اسمٰعیل خاں جرنیل کی معرفت تمام باغیان باغیہ فوج کا قصور معاف فرمایا۔ اور گھوڑے اور ہتھیار لے لے کر سارٹیفکیٹ معافی قصور کے تقسیم کئے اور اُن کے گھروں کو روانہ کیا۔ میں ان روزوں میں مقام رامپور میں مقیم تھا۔ جب یہ معاملہ پیش آیا ہے اور اسمعٰیل خاں جرنیل فوج باغیہ رامپور میں آئے ہیں اور ان سے ملاقات ہوئی ہے۔ اُن کی زبانی یہ سب حال مجھ کو معلوم ہوا۔ اُس وقت تک چالیس ہزار فوج باغیہ نے جو مسلّح کجلی بن میں موجود تھی ہتھیار ڈال دئیے ۔ یہ سب انقلابات میری نظر سےگزرے ہیں۔

تلاشِ معاش
قصہ کوتاہ جب میں دہلی میں وارد ہوا ہوں کوپر صاحب بہادر سے مل کر اپنے مکانات واگزاشت کرائے ہیں تو اس کے بعدمیرے والد بزرگوار سب اہل و عیال کو ہمراہ لے کر دہلی میں آ گئےاور امراؤ میرزا میرے چھوٹے بھائی کو مولوی رجب علی خاں صاحب کے چھاپے خانہ میں کتابت پر پچاس روپیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ 198)
غدر کے ایام میں اسی نے پنجاب سے سکھوں کی فوجیں دہلی بھیجی تھیں۔ ان خدمات کی وجہ سے اسے گورنر جنرل مقرر کیا گیا۔ اس نے دہلی میں مسٹر کوپر کو حاکمِ اعلٰے مقرر کیا۔ اور غدر کے زمانے کے بھاگے ہوئے مسلمانوں کو دہلی میں آ کر آباد ہونے کی اجازت دے دی۔
(نظیر)

ریختہ صفحہ 202
ماہوار کا نوکر رکھ کر ؎1 مقام جگراؤں (ضلع لدھیانہ) لے گئے اور والد بزرگوار میرے چھوٹے بھائی کے ہمراہ گئے۔ میری یہ کیفیت تھی کہ میں بیروزگار تھا۔ ہمراہ اہل و عیال اور میری خوشدامن وغیرہ اور میں اپنی سسرال کے مکانات میں مقیم تھا۔ اور اب مجھے اور فکر دامنگیر ہوا کہ الہی دلی میں تو آیا مگر بسر اوقات کی کیا صورت کی جائے اور وہ زمانہ قحط سالی کا تھا۔ آٹھ سیر کانرخ غلہ کا تھا۔ مگر خدا رزّاق ہے میری سمجھ میں ایک بات آ گئی۔ کچھ حیلہ کر کے روٹی پیدا کرنی چاہئیے۔ ان روزوں ریل دہلی میں نہیں آئی تھی۔ کاٹ میل پر ڈاک روانہ ہوا کرتی تھی۔ اور ڈاک خانہ کے گھوڑے بہت مر گئے تھے۔ڈاک خانہ میں گھوڑوں کی بہت خواستگاری تھی۔ میں نے گھوڑوں کی تلاش کی ایک گھوڑا قلعہ میں ایک انگریز کے پاس تھا۔ میں نے اور ایک نے شریک ہو کر وہ گھوڑا چودہ روپیہ کو خرید کیا۔ اُسے لے کر ہم دونوں ڈاک خانہ میں پہنچے۔ ستر روپیہ کو وہ بکا۔ مالک کے چودہ روپیہ مالک کو دے دئیے ۔ منافع ہم دونو نے برابر تقسیم کر لیا۔ شام کو آدھے آدھے روپیہ لے کر اپنے اپنے گھروں کو چلے آئے۔ پھر تو ہم دونوں آدمیوں کو یہ مزہ پڑا کہ علی الصباح اپنے اپنے گھروں سے دعا مانگ کر نکلتے تھے یا رازقِ مطلق تو روزی دینے والا ہے ۔ دن بھر شہر میں گھوڑے تلاش کرتے ایک دو گھوڑے ہم کو مل جاتے ہم ارزاں قیمت پر خرید کرتے اور گراں قیمت میں ڈاک خانہ میں جا کر فروخت کر آتے تھے۔ روز خداوندِ عالم ہم کو دس پندرہ روپیہ محنتانہ کے دلا دیتا تھا۔ شام کو خوشی خوشی اپنے گھر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضلع لودھیانہ میں تحصیل ہے جہاں ارسطو جاہ میر مولوی رجب علی خاں بہادر میر منشی گورنر؎
جنرل کا خاندان آباد تھا ۔ یہ خاندان ستمبرسنہ 1947۔۔۔۔۔۔۔۔۔کے انقلاب تک یہاں آباد رہا۔
(نظیر)

ریختہ صفحہ 203
آتے تھے۔ ہم کو قحط سالی معلوم بھی نہ ہوتی تھی کہ کئی روز کے بعد ایک گھوڑا پھر ہم نے تیرہ روپیہ کو خریدا اور وہی ستر روپیہ کو جا کر ڈاک خانہ میں بیچا۔ اسی طرح خدائے تعالٰے ہم کو منافع دلائے جاتا تھا۔ اور وجہ یہ تھی کہ باعث قحط سالی کے لوگوں کو گھوڑے کا رکھنا دشوار معلوم ہوتا تھا لا محالہ ارزاں قیمت پر فروخت کر دیتے تھے۔ ایک روز کا مذکور ہے کہ ہم دوپہر تک متلاشی رہے۔ کوئی گھوڑا ہم کو دستیاب نہ ہوا۔ دوپہر کو کنچنیوں کی گلی میں گزرتے تھے کہ یکایک ایک شخص نے ہم سے کہا کہ ہمارے پاس ایک گھوڑا بہت عمدہ ہے۔ اگر تُم خریدو تو ہم فروخت کرتے ہیں۔ ہم دونو آدمیوں نے اس شخص کے ہمراہ جا کر گھوڑے کو دیکھا ۔ واقعی گھوڑا خوش قوم ترکی بخارا کا تھا۔ اسّی روپیہ کو ہم نے وہ گھوڑا خرید کیا اور پانچ روپیہ بیعانہ کے مالک کے حوالے کئے اور ابقا کا وعدہ کیا کہ شام کو زرِ قیمت ادا کریں گے اور خدا پر توکل کر کے گھوڑا کُھلوا کر ہم چلے۔ جب تک شہر کا کابلی دروازہ برقرار تھا مگر مکانات انہدام کرائے جا رہے تھے۔ جب ہم کابلی دروازہ میں پہنچے تو ایک چپراسی ہم کو ملا اس نے پوچھا کیا گھوڑا بکاؤ ہے ہم نے کہا ہاں بیچنے کا ہے چپراسی نے کہا تُم دروازہ کے باہر جاؤ ۔ ہمارے صاحب کی پلٹن پڑی ہوئی ہے۔ وہ پلٹن کے کپتان ہیں۔ تُم ان کا ڈیرا دریافت کرو۔ ان کو ایسے گھوڑے کی تلاش ہے۔ وہ دیکھتے ہی فوراً خرید لیں گے۔ ہم شہر سے باہر نکل کر انھیں صاحب کے ڈیرے کے پاس پہنچے کہ صاحب خود ہی ڈیرے سے برآمد ہو گئے اور ہم سے پوچھنے لگے کہ گھوڑا بیچتے ہو۔ ہم نے جواب دیا ہاںصاحب بیچتے ہیں۔ پھر پوچھا یہ شوخی تو نہیں کرتا ہے۔ ہم نے کہا نہیں صاحب یہ ترکی ہےشوخی کیا جانے۔ کہا ہم اس پر سوار ہوں۔ ہم نے کہا بیشک سوار ہو کے

ریختہ صفحہ 204
دیکھ لیجیے۔ صاحب انگریزی زین بندھوا کے اُس پر سوار ہوئے گھوڑا نہایت قد میانہ خوش رفتار تھا۔ صاحب بہت خوش ہوئے۔ گھوڑے پر سے اتر کر قیمت پوچھنے لگے۔ ہم نے چار سو روپیہ قیمت بیان کئے۔ وہ بولے قیمت زیادہ ہے۔ واجبی دام کہنے چاہئیں۔ بعد ازاں یہ کہا ہمارے پاس ایک گھوڑا ہے۔ وہ گھوڑا ہم سے لیلو باقی کی قیمت لے لو۔ ہم نے کہا وہ گھوڑا ہمیں دکھاؤ۔ وہ گھوڑا منگا کر دکھایا گیا۔ واقعی وہ بھی جوان تھا۔ اچھا تھا مگر اتنی بات تھی کہقوم کا تاتاری تھا۔ بہرحال وہ گھوڑا اور سو روپیہ نقد لے کر شہر میں آتے تھے کہ گھوڑے کی قیمت کے روپیہ مالک کو چل کر دے دیں۔ اُسی کابلی دروازہ کے اندر داخل ہوئے تھے کہ سامنے ایک کمرہ میں سے ایک بوڑھے صاحب نے ہم کو آواز دی کہ تُم گھوڑا بیچتے ہو ہم نے کہا ہاں بیچتے ہیں۔ وہ کمرہ سے نیچے اتر آیا اور گھوڑے کو دیکھ کر پسند کیا اور وہی معاملہ یہاں بھی پیش آیا جو صاحب بہادر سے پیش آیا تھا۔ یعنی یہ صاحب بھی بولے کہ ہمارے پاس ایک گھوڑا ہے اس گھوڑے کو اُس گھوڑے سے بدل لو اور باقی قیمت کے روپیہ لے لو۔ وہ گھوڑا بھی جوان تھا۔ ہاتھ پاؤں سے صاف، بے عیب مگر ہمارے گھوڑے سے کسی قدر لاغرتھا۔ قصہ ء مختصر سو روپیہ اور وہ گھوڑا لے کر ہم نے اپنا گھوڑا ان کے حوالہ کیا ۔ وہاں سے چل کر ہم نے پہلے گھوڑے والے کی قیمت کے روپیہ ادا کئے۔ اس اثنا میں شام ہو گئی جو کچھ روپیہ منافع کے تھے وہ برابر تقسیم کر لئے اور گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے مکان کو روانہ ہوا۔ راستہ میں سے دانہ گھاس اگاڑی پچھاڑی میخیں وغیرہ اپنے ہمراہ لیتا ہوا مکان پر پہنچا اور گھوڑے کو لگا دیا۔ گھوڑے کو دانہ خوب شکم سیر

ریختہ صفحہ 205
کر کے کھلایا اور گھاس آگے ڈال دی۔ شب کو اپنے گھر میں آرام کیا ۔ دوسرے روز صبح کو ڈاک خانہ میں لے جا کر پچھتر روپیہ کو اسے بھی فروخت کر دیا۔ خدا کی دین کو دیکھا چاہئیے کہ ایک گھوڑے میں اور ایک ہی دن میں ہم کو دو سے روپیہ منافع دلا دئیے غرضکہ جب تک قحط سالی رہی مجھ کو معلوم نہ ہوا کہ گرانی کیا شے ہے۔ بعد سال بھر کے وہ گھوڑوں کی خریداری بند ہو گئی اور میرے والد میرے چھوٹے بھائی امراؤ مرزا کی شادی کرنے کے لئے پانی پت میں آئے اور اس کی شادی کر کے اُسے پانی پت میں چھوڑ کر میرے پاس دلّی میں چلے آئے اور آتے ہی بیمار ہو گئے۔ ادھر میں بیمار ہو گیا اور دونوں کو شدت سے بخار آتا تھا۔

مہاجن نے نالش کر دی
اُسی حالتِ بیماری میں بنارسی داس خزانچی نے اپنے قرضہ کی نالش مجھ پر اور میرے والد پر کر دی اور وہ قرضہ زمانہ ء غدر سے پہلے کا تھا جو شادیوں میں لیا گیا تھا۔ اور جو سود در سود لگا کر دو ہزار کے قریب کر دیا گیا تھا۔ میں اور میرے والد دونوں بیمار تھے کوئی جواب دہی کرنے والا نہ تھا۔ یکطرفہ ڈگری ہو گئی۔ اس اثناء میں میرے والد نے انتقال فرمایا۔ میں ایک تو بیمار تھا اُس پر یہ صدمہء عظیم واقع ہوا زیادہ تر بیمار ہو گیا تھا۔ خیر تجہیز و تکفین تو ان کی ظہور میں آئی مگر میری زندگی کے لالے پڑ گئے۔ میں تین ماہ میں خدا خدا کر کے تندرست ہوا تو اجرائے ڈگری ہو کر مکانات کے نیلام کا حکم چڑھ چُکا تھا۔ وہ مکانات جو دس ہزار روپیہ کی قیمت کے تھے۔ دو ہزار میں نیلام ہو کر قرض خواہ کو دلائے گئے ایک حبہ مجھے دستیاب نہ ہوا۔ اب تندرست ہوا تو فکر معاش کی ہوئی۔ خدا کی قدرت سے ان روزوں کیں نیا نیا ٹھیکہ چُنگی کا دلّی میں ہوا تھا۔ میں تھوڑی سی
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 206
تنخواہ کا چُنگی (پون ٹوٹی) میں نوکر ہو گیا۔ اور اُسی زمانہ میں حکیم احسن اللہ خاں نے مجھ سے قصہء ممتاز لکھوایا۔ دس روپیہ جزو کی اجرت پر میں نے قصہ ء ممتاز فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا۔ بعد سال بھے جب پون ٹوٹی کا ٹھیکہ تبدیل ہوا اور دوسرے ٹھیکہ داروں کے حوالہ کیا گیا تو انھوں نے اپنا عملہ بھرتی کیا۔ میں معزول ہو کر خانہ نشین ہوا۔ چند روز کاپی نگاری پر بسراوقات کی ۔ مگر انھی دنوں میں اخبار جلوہء طور جو بلند شہر سے نکلتا تھا میں اُس کا ایڈیٹر ہو کر بلند شہر چلا گیا۔ اُس اخبار نے بہت ترقی پائی ۔ وہ اخبار ریاست الور میں بھی جاتا تھا۔ اور مہاراجہ شودان سنگھ والیء ریاست الور کے ملاحظہ سے گزرتا تھا۔ انھوں نے دریافت فرمایا کہ اس اخبار کا ایڈیٹر کون ہیں اور کون لکھتا ہے اتفاق سے میرے ایک دوست مرزا علی نقی صاحب تحصیلدار موجود تھے۔ انھوں نے میرا نام بتایا۔ اور حال بیان کیا۔ مہاراجہ صاحب بہادر نے فرمایا کہ اُسے یہاں بلوا لو ۔ ہم نوکر رکھ لیں گے۔ غرضکہ انھوں نے مجھے لکھا کہ تُم نوکری چھوڑ کر یہاں چلے آؤ ۔ یہیاں مہاراجہ صاحب بہت قدردانی فرمائیں گے۔ پہلے دو چار بار میں نے عذر کئے ۔ مگر انجام کشش آب و دانہ سے منجانب اللہ ایسی صورت واقع ہوئی کہ لامحالہ مکیں الور جانے پر مجبور ہو گیا اور خوامخواہ جانا ہی پڑا۔ ادھر میرے عزیز میر مہدی حسین صاحب مجروح اور میر سرفراز حسین صاحب وہاں موجود ہی سُنے تھے۔ میں اور امراؤ دونوں الور میں پہنچے اور مہاراجہ صاحب کو نذر گذرائی۔




ریختہ صفحہ 207
ساتواں باب

ریاست الور کی ملازمت

ریاست کے حالات
مہاراجہ صاحب نہایت درجہ کے خوش بیان۔ شیریں گفتار خوش تقریر تھے۔ اثناء گفتگو میں فرمانے لگے میں میوات کا رئیس ہوں تُم دلّی کے رہنے والے۔ پلاؤ قلیہ کے کھانے والے ہو ۔ میرے ۃاں تو موٹھ باجرا کی روٹی ہے۔ اگر قبول کرو تو۔ بسم اللہ حاضر ہے۔ میں نے ہاتھ باندھ کر عرض کی ۔ یہ جو باجرہ پلاؤ قلیہ سے بہتر ہے۔ ہزار نعمت کے برابر ہے۔ اگر ایک وقت بھی روٹی مجھے مل جائے گی تو حضور کا دامن نہ چھوڑوں گا۔پھر فرمایا اگر مفصلات میں روزگار چاہو تو وہاں تنخواہ کثیر ممکن ہے۔مگر چار کا محکوم ہو کے رہنا پڑے گا اور اگر حکام بالا دست تمہارے شاکی ہوں گے تو مجھے پاسداری سرشتہ کی کرنی پڑے گی۔ تمہاری روایت ملحوظ نہ ہو گی اور اگر میرے پاس رہنا چاہو تو تنخواہ قلیل ہو گی اور میرا ہی محکوم بن کے رہنا پڑے گا۔ دوسرا حاکم اور نہ ہو گا۔ میں نے عرض کی حضور کی خدمت میں رہنا مفصّلات سے

ریختہ صفحہ 208
ہزار درجہ بہتر سمجھتا ہوں۔ غرضکہ اسی روز میں اور میرا چھوٹا بھائی ملازم ہو گئے۔ دفتر میں چہرے لکھا دئیے گئے۔ ایک ایک بیش قیمت گھوڑا خالص طویلہ میں سے ہمارے لئے تعینات ہو گیا۔ شبانہ روز خدمت میں حاضر رہنے لگے۔ عجب عیش و عشرت سے بسر ہوتی تھی کہ کوئی رنج و فکر پاس نہ آتا تھا۔ مصرع نے غمِ دُزد نے غمِ کالا۔ دن رات ہنسی قہقہے ۔ دل لگی۔ گنجفہ ۔ چوسر۔ ناچ۔ رنگ۔ میلہ۔ تماشہ۔ سیر۔ شکار میں زندگی بسر ہوتی تھی۔ جہاں مہاراج سوار ہوتے تھے ہم لوگ اردل میں ساتھ رہتے تھے۔ بیس پچیس آدمی شریف زادے نوجوان ۔ خوشخو۔ خوش پوشاک فراہم ہو گئے تھے۔ باہم اتفاق تھا۔ مہاراجہ کو خوش و خورم رکھتے تھے۔ مہاراج کو بھی ہم لوگوں سے وہ اُنس و محبت تھا کہ دم بھر اپنے سے جُدا نہ کرتے تھے۔ اچھے سے اچھا لباس پہناتے تھے اور ہر تقریب میں انعام اکرام خلعت وغیرہ ملتے رہتے تھے۔ عجیب ایک صحبتِ رنگین فراہم ہوئی تھی کہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔مہاراجہ شودان سنگھ بہادر والی ء الور بیکنٹھ باشی نے جو عیش و عشرت اور داد و دہش فرمائی وہ ابو الحسن تانا شاہ کو بھی نصیب نہ ہوئی ہو گی۔ اس چھوٹی سی ریاست الور کا جو جاہ و تجمل میں نے دیکھا۔ وہ بڑی سے بڑی ریاستہائے ہندو ستان میں کہیں نظر سے نہیں گزرا۔ اوّل تو ہر فن کا صاحبِ کمال ایسا الور میں موجود تھا کہ جس کا ہندوستان تو کیا ممالکِ غیر میں بھی جواب نہ تھا۔ آغا صاحب سا خوشنویس ، میر پنجہ کش مرحوم کا شاگرد جس نے لاکھ روپیہ کی تیاری کی گُلستاں لکھی۔

نادر اشیاء

ابراہیم شمشیر ساز جس کی صناعی کی تمام ہندوستان میں دھوم تھی ایک ایسی تلوار بنائی ہے کہ تمام جسم میں اس تیغ کے بجائے

ریختہ صفحہ 209
جوہر موتی نصب تھے۔جس وقت ہاتھ میں علم کرو سب مروارید سمٹ کر قبضہ میں آ جاتے تھے۔اور جب تلوار کا ہاتھ مارو تو وہ موتی دوڑ کر بجائے جوہر تمام تلوار پر کُھل جائیں۔ وہ تلوار میں نے اپنی آنکھ سے دیکھی۔ اس کے سوا اور بہت بہت نایاب تلواریں اس کے ہاتھ کی سلخانہ میں دیکھنے میں آئیں۔ ایک تلوار میں سے تین تلواریں برآمد ہوتی تھیں۔ ایک نجّار مستری نے ایک پانچ گز دراز ۔ ڈیڑھ گز عریض چاندی کی ایک میز تیار کی تھی۔ اور اس میں ایک صنعت یہ کی تھی کہ جب سامنے کے رُخ سے اُس میں کنجی پھیرو تو ایک طلسم کا خانہ نمودار ہوتا تھا۔ یعنی اس میز کے ایک جانب ایک بارہ دری بنائی تھی۔ اور اُس کی پشت پر پہاڑ بنایا تھا۔ اور آگے بارہ دری کے سر تا سر ایک نہر بنائی تھی۔ اور دونوں جانب باغ لگائے تھے۔ جس وقت اس کی کل کو مروڑا جاتا تھا تو بارہ دری کے اوپر اور پہاڑ پر ابر آتا معلوم ہوتا تھا اور اُس میں گرج پیدا ہونے اور گرجنے کی آواز آتی تھی۔ اور بجلی چمکتی ہوئی معلوم ہوتی تھی اور مینہ برستا دکھائی دیتا تھا اور اس نہر میں پانی لہریں لیتا ہوا چلا آتا تھا۔ اور چھوٹی چھوٹی مچھلیاں لال سبز رنگ کی اس میں نظر آتی تھیں۔

کُتّے
شکار خانے میں جو بھنگیوں کا داروغہ نوکر تھا اس کو یہ کمال حاصل تھا کہ بازاری کتوں کو شیر سے لڑا دیتا تھا۔ اور وہ کتے شیر کو مار لیتے تھے۔بارہا شکارِ شیر میں یہ کیفیت نگاہ سے گزری ہے۔ اُس کا قاعدہ تھا کہ جب کُتٗوں کے بچے ہوتے تو وہ زبردست پلٗے پکڑوا لایا کرتا تھا۔ اور ان کو پرورش کر کے موٹا کرتا تھا اور جس دن شکارِ شیر کا حُکم پہنچتا اسی روز وہ پانچ چار جوڑی کتٗوں کو ایک ہلاس کی پوڑیا سنگھا دیتا تھا۔ بس اس ہلاس کا سونگھنا اور کتّوں کا آپے سے باہر ہونا اور شیر کی

ریختہ صفحہ 210
بُو کی ان کو جستجو ہو جاتی تھی۔ اور دورہ کے ہاتھ میں بیتاب رہتے تھے جب تک شیر پر ان کو نہ چھوڑا جائے اور جہاں وہ چھوٹے اور شیر کی بُو پر لپکے۔ جہاں شیر کو پایا وہ چمٹ گئے اور چھیچھڑے اڑا دئیے۔ اُس میں ایک یا دو کتے مارے بھی جاتے تھے۔ بلا سے کچھ غم نہیں۔ بازاری کُتا ہے کچھ قیمتی نہیں۔ پچاس ساٹھ کُتا ہمیشہ کُتے خانہ میں تیار موجود رہتا تھا۔

گھوڑے
اصطبل جیسا الور میں دیکھا کسی ریاست میں نہیں دیکھا۔ خاص طویلے میں ساڑھے چار سو گھوڑا ران سواری کا ایک سے ایک اعلٰے تیار مرتب ، سائشتہ ہزار کا، دو ہزار کا، چار ہزار کا پانچہزار تک ہر وقت موجود۔ پانچسو روپیہ سے کم قیمت کا ایک نہ تھا۔ بلکہ اسپ حور خانہ زاد تھا۔ اس کی نسبت مہاراج نے ایک بار سوداگران سے میرے سامنے کہا تھا کہ اگر اس کے ساتھ کا دوسرا گھوڑا مجھے لا دو تو میں پچاس ہزار روپیہ دیتا ہوں۔ اسپ حور اور اسپِ بے نظیر دونوبھائی تھے۔ خانہ زدان کے ماں باپ دونوں کاٹھیا وار کے تھے۔ اور اسپ من پیارا اور اسپ من مراد یہ بھی خانہ زاد تھے۔ ان کے باپ علیٰحدہ تھے۔یہ جس قدر خاصوں کی تعداد میں نے اوپر بیان کی ہے ، یہ ہر قوم کے اور ہر کھیت کے تھے۔ ان میں کاٹھیا واری اور مارواڑی ان کے علاوہ بگھی خانہ کی گھوڑیاں جداگانہ تھیں۔ اٹھارہ سو سوار خانگی رسالہ کے تھے۔ جن میں گھوڑے راج کے اور سوار بارگیر تھےرسالہ کے پیچھے دو سانڈ کاٹھیا واری رہا کرتے تھے کہ وہ رسالہ کی گھوڑیوں پر ڈالے جاتے تھے اور ان کے بچے جو ہوتے وہ الگ پرورش پاتے۔ اچھے چھانٹ کر خاص طویلے میں داخل ہوتے باقی رسالہ میں بھرتی کئے جاتے۔ علیٰ ہذاالقیاس گھوڑیاں عمدہ

ریختہ صفحہ 211
بگھی خانہ میں۔ باقی سواران میں تقسیم ہو جاتیں۔ وقتِ سواری جس وقت وہ خاص کوتل نکلتی ہے ۔ عجب اک شان و تجمل ہوتا تھا۔ کسی گھوڑے پر چاندی سونے کا جڑاؤ ساز۔ پہیوں پر سنہری پاکھریں ۔کہنیوں پر جھانجن کے کڑے گلے میں روپہلی ۔ سنہری ہیکلیں بطنوں کے کر مانگے ہوئے زیر بند بھاری مغرق زردوزی کام کے حاشیے پڑے ہوئے چاکروں کے ہاتوں میں کھیلتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ یہ معلوم ہوتا تھا پرستان سے پریاں ناچتی ہوئی چلی آتی ہیں۔اب اصطبل تو ہندوستانی ریاستوں میں کہیں نہیں دیکھنے میں آتا۔ جس میں اس قدر گھوڑے خاصے ہوں۔ ہاں سلطان روم یا شاہ ایران کے ہاں ہو تو ہو۔
سواری روزمرہ شیودان سنگھ کی اس شان و شوکت سے نکلتی تھی کہ کسی رئیس کی جلو سے سواری نہ نکلے گی۔ شام کو دو گھڑی دن باقی رہے آدمیوں نے پوشاک بدلی اور دستار بند کے کے ہاتھ کا پیچا بندھا ہوا ہلکے رنگ کے یا تو دستار یا مندیل سر پر رکھے اور عطر کے کنڑوں کی کشتی آئی۔ اُس میں سے ایک کنڑ اُٹھا لیا اور سرے سے بلا کر دربار داروں کی ہتہیلی پر عطر تقسیم کرنا شروع کیا۔ جب عطر مل چُکے تو تو جلسیوں نے عطر ہاتھ میں مل کر پوشاک کو بسانا شروع کیا ۔ جب اس سے فارغ ہوئے تو بنارسی دوپٹہ کمر سے باندھی اور تلوار ڈاب میں ڈال کر محل سے برآمد ہوئے۔ خاصے گھوڑے پر آپ سوار ہو گئے ۔ پھر ہم اپنے اپنے گھوڑوں پر ہو کر اردلی میں سوار ہوئے آہستہ آہستہ موتی ڈونگرے تک سواری پہنچی ۔ بعد وقتِ شام وہاں سے واپس آتے تو دونوں جانب بانسوں پر قندیلیں روشن ہیں اور بیچ میں مہاراج کا گھوڑا ہے اور عقب میں پرا رفیقوں کا ہے کہ وہ بھی سب زرق برق چلے آتے


ریختہ صفحہ 212
ہیں ۔ معلوم ہوتا تھا کہ برات چلی آتی ہے اور واقعی شودان سنگھ دولہا معلوم ہوتے تھے ایسی خوشنما سواری کسی رئیس کی دیکھی نہیں۔ اربابِ نشاط کی یہ کیفیت تھی کہ تمام جہاں کے انتخاب اور برگزیدہ۔ ستار باز۔ بین کار۔ ربابی۔ سرودے/۔ گویّے۔ کلاونت موجود تھے۔ امرت سین۔ لال سین۔ ستار باز۔ غلام نقی اور بین کار جو مشہور روزگار ہیں الور میں موجود تھے۔ گوکیا پنجابن سی گانے والی جو فردِ روزگار تھی، وہ الور میں موجود تھی۔ اس کے علاوہ اور دنیا کی حسین طوائف الور میں موجود تھیں دو عورتیں سترہ سو روپیہ تنخواہ تھی۔ جب مسند تکیہ پر مہاراج اجلاس فرماتے تھے اور دو رویہ دربار موۤدب و زانو بیٹھے ہوتے تھے اور اربابِ نشاط سامنے ہوتے تھے ۔ اور پچیس تیس شاہدانِ بازاری پری پیکر حور تمثال مشتری زہرہ خصال ناہید نوا برقادا سراپا ناز و انداز کا ایک گلزارِ حُسن کِھلا ہوا تھا ۔ محفل کیا کھاڑہ ہوتا تھا۔
مسند کے آگے ایک چبوترا گلاب کی پتیوں کا دو ڈھائی گز لمبا چوڑا ایک فٹ بنا دیا جاتا تھا اور قریب بیس پچیس سیر مقیش بادلہ کے گردا گرد سامون پر گراتا تھا اور وہ اس گلاب کے پتوں میں ملایا جاتا تھا اور پانچ چھ پترے چاندی کے چھوٹے چھوٹے خوبصورت ڈنگرے شہاب اور زعفران کے رنگ پُر کر آگے مسند کے رکھ دئیے تھے۔ مہاراجہ صاحب نے اُس ڈنگرہ کا رُخ ایک شخص کی جانب پھیرا اور اُس کی کل دبائی اور بہت باریک اس میں سے برآمد ہوئی اور اس رنگ کی پھنوار برسنے لگی۔اور مہین مہین افشاں تمام سفید پوشاک پر ہو گئی جو گلاب کے پھولوں اور کترے ہویئے مقیش کے ریزوں کی مٹھیاں بھر بھر کے اہلِ دربار پر ڈالنی شروع کیں۔ جس شخص پر رنگ کی پھنوار پڑی اور مقیش کی مٹھی پڑ گئی۔ وہ اُٹھ کر آداب بجا لایا۔

ریختہ صفحہ213
اب یہ کیفیت ہو گئی کہ سر تا پا ہر شخس جگمگا اٹھا اور تمام دستار اور پوشاک اور چہرہ اور بال اور داڑھی پر مقیش کی افشاں ہو گئی۔ غرضکہ وہ تمام پھول اور مقیش ہولی کھیلنے میں برابر ہو گئے۔ اور لباس پر لوگوں کے مقیش جم گیا۔ ایسی محفل تانا شاہ نے بھی کبھی خواب میں نہ دیکھی ہو گی۔ علیٰ ہذا القیاس سالگرہ اور دسہرہ کی تقریب اور تیجوں کنگھوروں کی تقریبیں نہایت دھوم دھام سے ہوتی تھیں اور مسلمانوں کی دعوتوں میں ایک ایک آدمی کے پاس گز گز بھر میں کھانا چینی کے نایاب برتنوں میں چُنا جاتا تھا اور خلعت و انعام تقسیم ہوتے تھے۔ ایسا رفیق پرور دریا دل رئیس تو میری نظر سے نہیں گزرا۔

سخنوروں کی قدر و منزلت
مہاراجہ صاحب بہادر کو شعر وسخن کی جانب از حد رغبت تھی اور نہایت درجہ کے سخن فہم عالی دماغ تھے۔ مذاقِ سخن اتنا بڑھا ہوا تھا کہ اچھا شعر سن کر بے تاب ہو جاتے تھے اور فی الفور یاد فرماتے تھے۔ قصیدہ بغیر صلہ کے کبھی نہیں سُنا جس نے قصیدہ لکھا ۔ صلہ معقول عطا فرمایا۔ایک بار میں نے سالگرہ کا قصیدہ لکھ کر پڑھا جس وقت میں نذر دینے کو گیا۔ میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر سوال کیا کہ کیا چاہتا ہپے۔ میں نے عرض کی حضور نے میرے دونو ہاتھ پکڑے اب میرے مانگنے کی حاجت ہی کیا۔ کوئی ایک ہاتھ تھامتا ہے تو عمر بھر اُس کی دستگیری کرتا ہے حضور نے تو میرے دونو ہاتھ تھام لئے۔ اب مجھے کیا حاجت رہی فرمایا یہ خوشی کی باتیں ہیں۔ مطلب عرض کر۔ میں نے عرض کی کہ قصیدہ ملاحظہ ہوا لکھا ہوا کیسا ہے۔ فرمایا بہت اچھا ہے ساکامابہائی کے ہاتھ میں نے عرض کی کہ قصیدہ میرا نہیں اور شخص کا ہے فرمایا بہت اچھا لکھتا ہے۔ میں نے عرض کی
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 214
باوجود اس کمال کے روٹی کو محتاج ہے۔ اس قصیدہ کے صلہ میں اس غریب کی پرورش ہو جائے فرمایا کون شخص ہے میں نے عرض کی دولہ خاں پٹھان کی پلٹن کا ایک سپاہی ہے حکم ہوا سامنے بلواؤ۔ غرضکہ وہ سامنے حاضر ہوا اُس کا بیس روپیہ ماہوار مقرر کر کے کتب خانہ میں تعینات کرا دیا گیا۔
مہاراجہ صاحب کے روبرو مشاعرہ ہوا کرتا۔ درباری شعرا کے نام یہ ہیں میر مہدی حسین مجروحؔ ۔ مرزا قربان بیگ سالکؔ۔ امراؤ مرزا انورؔ۔ میاں غلام احمد تصویرؔ ۔ میاں خدا بخش تنویرؔ اور فقیر ظہیرؔ۔
شاعر کی نہایت عزت و آبرو فرماتے تھےاور شعر کی قدر دانی کرتے تھے۔

الور کی ملازمت سے علیٰحدگی
غرضکہ تین چار سال کے عرصہ تک الور میں اس عیش و آرام سے بسر ہوتی رہی۔ اب فلکِ تفرقہ انداز کو یہ صحبت بھی ناگوار گزری اور درپے تخریب ہوا۔قوم راجپوت کہ ہمیشہ سے شُتر کینہ ہوتے آئے ہیں اور مسلمانوں کی جانب سے مادہۤ فساد تعصب ان کے سرشت میں مخمر ہے نائرہ رشک و حسد سے ان کے دل میں التہاب ہوا کہ یہ لوگ مسلمان مہاراج کے در خوِ صحبت ہیں۔ اور آٹھوں پہر مہاراج کے پاس رہتے ہیں اور مصاحبت گرم ہے اور مہاراجہ صاحب ہماری طرف متوجہ نہیں ہوتے کوئی تدبیر ایسی کرنی چاہئیے کہ جمیّعت مثل اوراق گجنفہ منتشر ہو جائیں۔چنانچہ باہم خفیہ خفیہ یہ صلاح و مشورے ہونے لگے اور لکھ بیر سنگھ ٹھاکر مخروج کو آمادہ ء فتنہ و فساد کر کے بغاوت ہر برانگیختہ کیا اور سکہدیو سنگہ راعی نے ایک جماعت بد سگال غارتگر جمعداری جبل پور میں فراہم کر کے پانچ چھ ہزار آدمی سے عملداری الور پر حملہ کیا۔

ریختہ صفحہ 215
اور علاقہ تحصیل نرائن پور اور پرگنہ بانور و لال گڈی وغیرہ پر تاخت کر کے تاراج کرنا شروع کیا اور تحصیلیں لوٹ لیں۔ گھوڑوں کے اصطبل جلا دئیے ۔ جب یہ خبر مہاراج کو پہنچی تو الور سے دولہ خاں کپتان کو معہ مسح پلٹن اور نواب کامدار خاں کو معہ رسالہ سواران واسطے سرکوبی فرقہ باغیہ روانہ کیا۔ ان بہادرانِ نہور شعار اور غازیانِ نصرت وقار نے جاتے ہی ان بدمعاشوں کی وہ کفش کاری کی کہ بھاگتے نظر آئےاور کئی کوس تک لاشیں ڈال دیں۔ اور بہت سے سرغناؤں کے سر کٹوا کر حضور میں بھیج دئیے ۔ کمہدیر سنگھ باغی ہزیمت پا کر علاقہ پرتاپ گڑھ راجگڑھ وغیرہ کی جانب مفرور ہوا ان بہادروں نے وہاں بھی ان کا تعاقب کر کے کہیں اس کا قدم جمنے نہ دیا آخر الامر اہلکار زیر بندے نے آ کر اس کو تنبیہ اور تہدید کی کہ اگر آج سے پھر عملداری الور میں قدم رکھا تو سرکار کی جانب سے بڑی خبر لے جائے گی۔ جب وہ مایوس اور پشیمان ہو کر عملداری جے پور میں پناہ پذیر ہوا تو راجپوتوں نے عرضیاں بھیجنی شروع کیں کہ یہ مسلمان لوگ راجہ کو بہکا کر خراب کرتے ہیں اور راجہ کو مسلمان کر لیا ہے۔ ان لوگوں کا الور سے اخراج ہونا مناسب ہے۔ ان کی وجہ سے الور میں فتنہ و فساد برپا ہوتا ہے۔ سرکار سے مسلمانوں کے علٰیحدہ کر دینے کا حکم مہاراجہ صاحب کے پاس پہنچا ایک حکم ٹال دیا دوسرا حکم ٹال دیا آخر تیسرے حکم پر ہم لوگوں نے متّفق ہو کر عرض کی ۔ ہم لوگوں کے واسطے آپ اپنی ریاست کیوں برباد کرتے ہیں آپ ہم لوگوں کو رخصت فرمائیں۔ ہم آپ کے قدموں سے لگے ہوئے پڑے ہیں۔ ایک دو برس میں پھر حاضر ہو جائیں گے۔ غرضکہ بہزار دقّت سمجھا سمجھو کر ہم الور سے رخصت ہو کر دلّی میں آ بیٹھے۔ برس روز تک ہماری تنخواہیں گھر پہ آتی رہیں


ریختہ صفحہ 216
بعد ایک سال کے میں نے نواب مصطفٰے خاں صاحب شیفؔتہ سے ایک روز یہ بات کہی کہ الور کی صورت آپ کو معلوم ہے یہ امر تابکے گھر بیٹھے ہوئے کون تنخواہ عمر بھر دیا کرتا ہے۔ اگر آپ کے ذریعہ سے ریاست جے پور میں کوئی سبیل روزگار کی نکل آئے تو بہت مناسب ہے۔ میں آپ کا ممنونِ احسان ہوں گا۔ چونکہ نواب صاحب ممدوح کریم الاخلاق تھے اور مجھے پیشتر اُن کی خدمت میں رہنے کا اتفاق ہوا تھا اور مجھ پر الطاف بزرگانہ فرماتے تھے، انہوں نے اسی وقت نواب فیض علی خاں صاحب بہادر مدار المہام کے نام میری سفارش میں خط لکھ کر روانہ فرمایا اور ان کے صاحبزادہ محمد علی خاں نے بخشی امداد علی خاں صاحب برادر کوچک نواب صاحب کے نام خط بھیجا۔ پانچویں روز نواب مصطفٰے خاں صاحب بہادر نے مجھے بُلا کر نواب فیض علی خاں صاحب کا خط جو میری طلب میں آیا تھا ۔ مجھے دیا اور فرمایا اب بسم اللہ کیجئیے اور جے پور کو روانہ ہو جائیے۔ اب جاتے ہی آپ نوکر ہو جائیں گے۔ میں دہلی سے روانہ ہوا ۔ جب جے پور میں پہنچا ہوں تو اوّل اپنے بھائی خسر پور احمد مرزا خاں صاحب آگاہ کے مکان پر فروکش ہوا۔ پہلے بخشی امداد علیخاں صاحب سے ملا اور ان کے ذریعہ سے نواب فیض علی خاں صاحب بہادر سے ملاقات کی اور نواب فیض علی خاں نے مجھے امیدوار کیا اور بعد دو ماہ کے مجھے کھنڈار کا تھانہ دار بنا کر بھیج دیا۔

ریاست جے پور کی ملازمت
کھنڈار جے پور کا ایک پرگنہ ہے۔ گوشہ ء مشرق و جنوب سرحد جے پور کا اور قصبہ سے تین کوس پر دریائے چنبل ہے۔ رودِ سناس اُسی محل چنبل میں شامل ہوئی

ریختہ صفحہ 217
ہے اور ایک ندی علاقہ گوالیار سے آ کر چنبل میں ملتی ہے۔ ایک بُت خانہ ہے اُسے رامسیر کہتے ہیں اس کے نیچے ان تینوں کا اجتماع ہوا ہے اور رودخانہ چنبل مابین جے پور و گوالیار حدِّ فاصل ہے۔ کھنڈار میں بالائے کوہ قلعہ مستحکم اور وسیع ہے کئی ہزار کی جمیّعت سپاہ اندرونِقلعہ رہتی ہے۔ پہاڑ بہت بلند ہے۔ کوہستان قلعہ رہسور سے یہ کوہ پانچ چار میل کے فاصلہ پر وقع ہوا ہے۔ پرگنہ کھنڈار ماتحت نظامت سوائی مادھو پور ہے۔ اگر زمانہ تھانیداری کے حالات تحریر ہوں تو ایک کتاب دیگر تصنیف ہوتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ نہایت عزت آبرو حکومت کی نوکری تھی۔ بارہ بارہ کوس تک علاقہ زیر حکومت تھا۔سوا سو گاؤں کا تو اسی تھانہ سے تعلق تھا۔ پانچ چھ ماہ تک اس پرگنہ پر حکمرانی کی۔ اس حکومت میں وہ لطف حاصل ہوا کہ الور کے عیش و عشرت فراموش ہو گئے بعد چھ ماہ کے تھانہ امریہ میں تبدیلی ہو گئی وہاں سے جے پور آیا تو اہل و عیال دلّی سے اب جے پور آ گئے تھےاور اپنے بھائی سیّد احمد مرزا خاں صاحب خسر پور کے مکان پر مقیم تھے۔ میں نے جے پور میں آ کر مکان کرایہ کو لیا اور گھر کے آدمیوں کو وہاں رکھا اور آپ آمیر کو روانہ ہوا۔ آمیر میں جب پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ تھانہ صدر ہے اور اس کے آبرو کوتوالی جے پور کی برابر ہےاور قدیم دارالخلافہ ریاست جے پور کا ہے یہاں تھانہ دار کے واسطے مسند تکیہ لگایا جاتا ہے۔ خیر چھ ماہ اپنا فرض منصبی ادا کرتا رہا اب دسہرہ قریب آیا۔ ملازمین ماتحت کی زبانی معلوم ہوا کہ سامان رسد وغیرہ فراہم کرنا چاہئیے۔ مہاراجہ صاحب بہادر رونق افروز ہوا کرتے ہیں اور چند روز قیام فرماتے ہیں۔ تھانہ دار کا ڈیوڑھی پر بندوبست رہتا ہے۔ بہرحال وہ سامان فراہم کر لیا گیا۔ دسہرہ کے ایّام شروع ہوئے روز


ریختہ صفحہ 218
اول شام کے وقت ملازمین تھانہ نے کہا کہ بالائے کوہ محلوں میں چل کر رسوماتِ دسہرہ ادا کراؤ۔ مجھے معلومات نہ تھیں کہ کیا رسومات ہیں انہوں نے کہا آپ چلئیے سب معلوم ہو جائیں گی۔ غرضکہ میں تلوار اٹھا کر دستار رکھ کر کمر باندھ کر ان کے ہمراہ ہوا ادھر جب بازار میں پہنچا تو حلوائی من ڈیڑھ من شیرینی دودھ کے ہمراہ لوا کر میرے ہمراہ ہوا۔ میں آگے بڑھا تو ہندو قصاب جو ٹھیکہ دار سرکاری تھا تیس چالیس بکرے لے کے ساتھ ہو لیا۔ اب میں یہ تماشا دیکھ رہا ہوں اور کچھ معلوم نہیں کہ کیا ہو گا۔ جب بلندی کوہ کے وسط میں پہنچا تو دروازہ محلوں کا نمودار ہوا اور میں اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ بالائے کوہ ایک قطع وسیع زمین کا ہے اور چہار جانب اُس کے عمارات شاہانہ ہیں اور ایک مندر ہے عالی شان اور بہت سے سران ہیں اس پر ماتا کا مندر ہے اور اس کے پہلو میں خاص محل کا دروازہ ہے اور اس پر آبادی کی یہ صورت ہے کہ چہار جانب کوہ بلند آسمان سے باتیں کرتے ہیں اور ان پہاڑوں کے بیچ میں آبادی شہر ہے ۔ مغرب کی جانب جوپہاڑ ہے وہ بہت بلند ہے اور اس کی چوٹی پر جا کر قلعہ وسیع ہے اور دامانِ کوہ میں محل واقع ہوئے ہیں اور اسی پہاڑ کے نشیب میں جانبِ شرق ان محلوں کے نیچے ایک بڑا پختہ تالاب ہے کہ پشتہ اس کا بہت مستحکم باندھا گیا ہے ۔ اُس تالاب کے وسط میں ایک باغ لگایا گیا ہے کہ اس کا ارتفاع مسطحہ زمین سے قریب دس گز کے ہے اور گرد باغ کے سنگ سُرخ کا ایک کٹھرا ہے جب اس باغ میں پانی کی طغیانی ہوتی ہے تو اس باغ میں چھوٹی کشتیوں اور بجرہ وغیرہ کے ذریعہ سے عبور کیا جاتا ہے۔ یہ باغات ان محلّات کے زیر جھروکہ ہے۔ عجب کیفیت کا مقام ہے اور راستہ محلات اور قلعہ کے سمت تہِ آب ہے غرضکہ جب محل

ریختہ صفحہ 219
پر چٖڑھ کر مندر میں داخل ہوا تو نہایت خوش قطع عمارت نظر آئی۔ جنوب کی جانب ایک بڑا مکان دالان در دالان ہے اس کے بعد وہ حجرہ وسیع ہے جس میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی برنجی ایک مورت قدِ آدم ہے اور ایک جانب کو اس کا منہ پھرا ہوا ہے۔ غرضکہ وہ شیرنی تو پوجاریانِ مندر نے لے جا کر اُس مورت کے آگے رکھیں اور بکرے لے جا کر صحنِ مندر میں کھڑے کر دئیے ۔ میں باہر کے دالان میں ایک ستون سے لگ کر کھڑا ہو رہا اور پوجاریوں نے تھالی میں بہت سے چراغ گھی کے روشن کئے اور مورت پر سے اتار چڑھاؤ کرنے لگے اور کچھ کہتے جاتے تھے ۔ میں کچھ نہیں سمجھا اور بہت سے گھنٹے اور گھڑیال اور تھالیاں اور نقارے وغیرہ بجانے شروع کئے اور تمام مندر میں روشنی ہو گئی ۔ ایک گھڑی پہر تک یہ تماشا میں نے دیکھا جب وہ اس سے فارغ ہوئے تو پوجاری بھی میرے پاس آ کھڑے ہوئے اور مندر میں بخورات روشن تھے اور مندر کے صحن میں دو مشعلچی کھڑے ہوئے اور ایک شخص بہت بڑا چُھرا زبردست ہاتھ میں لے کر آ موجود ہوا۔ اب ایک بکرے کے سینگوں میں رسی باندھ کر ایک شخص نے آگے سے کھینچی ایک شخص نے پیچھے سے بکرے کو کھینچا اور اُس شخص نے دونوں ہاتھوں سے وہ حربا اوپر سے مارا بکری کی گردن اوڑ کر دور جا رہی اسی طرح کئی بکرے جھٹکے ہوئے اُسے وہ بلدان کہتے ہیں ۔ غرضکہ وہ ہنگامہ ہو لیا تو پوجاری نے شیرینی تقسیم کی بعد ہم کو رخصت دی ۔ اب ہم کو معلوم ہوا یہاں کی یہ نوکری ہے ۔ یہ رسومات تھانہ دار آ کر ادا کرتا ہے ۔ غرضکہ حسبِ معمول روز شام کو جانا پڑتا اور پہر بھر رات کے واپس آنا ہوتا۔ ایک دن شام کا وقت ہے آفتاب پہاڑ کے نیچے پہنچ گیا ہے۔ کچھ کچھ شعاعیں آسمان پر


ریختہ صفحہ 220
پھیلی ہیں۔ سُرخی پھیلتی جاتی ہے کہ ایک جوانِ رعنا خوش رو چھریرا بدن اوسط قامت سُرخ مندیل سُرخ دوپٹہ کمر سے بندھا ہوا کمیت گھوڑے پر سوار گھوڑا دوڑائے محل کے دروازہ سے داخل ہوا اور چوکی خانہ کے چبوترے کے پاس آ کر گھوڑی روک لی۔ امیر خاں برقنداز نے مجھے آنکھ سے اشارہ کیا ، میں نے دوڑ کر گھوڑی کی باگ تھام لی اور دوسرا بڑھا کر ہاتھ میں دے کر گھوڑی پر سے اتروایا اور خوب گھوڑی کا جائزہ کیا اور چند قدم آگے لے گیا ٹہلانے لگا کہ اتنے میں چاکر دوڑتا ہوا آیا ۔ اور اُس نے میرے ہاتھ سے گھوڑی لے لی اور میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور نذر دکھائی۔ فرمایا میں نذر تو ٹہر کر لوں گا ۔ تُم ایک بار میری کمر کھولو۔ میں نے پہلے تو دونوں جانب سے تلواریں ڈاب سے کھینچیں اور پھر کمر کھولنی شروع کی اور رومال بچھا کر سب چیزیں چبوترے ہر رکھتا جاتا تھا۔ بعد بنارسی دوپٹہ کھولا اُس کے نیچے اور سفید دوپٹہ تھا وہ کھولا اور اس کے نیچے اور ایک لنگر ریشمی تھا وہ کھولا۔ اُس میں ایک گچھا تھا کہ اُس میں بہت سی کنجیاں تھیں۔ اُس کے بعد ایک اور گُچھا میانوں کا تھا کہ وہ میان سب باناتی تھے، اُس میں قینچی۔ چاقو۔ نشتر۔ گھوڑے کے پاؤں ہاتھ کا ناخن گیر ہوگی تاگی خدا جانے کیا کیا تھا ۔ بعد ایک بہت بڑا بٹوہ سُرخ قند کا کہ اس کا وزن تین چار سیر کے قریب ہو گا وہ کھول کر رکھا تو تو تمام لنگر پسینے میں تر ہو رہا تھا۔ پھر فرمایا اپنی تحویل میں رکھو۔ کشن لال آئے تو سب چیزیں سنبھلوا دینا ۔ یہ کہہ کر اوپر چوکی خانہ میں چڑھ گئے چاکر نے دوڑ کر گھوڑے کی گدی اتار لی اور لیجا کر بچھا دی ۔ میں وہیں اس مال کی حفاظت کرتا رہا۔ تھوڑی دیر میں لشکر کا تانتا بندھ گیا۔ تمام صحن آدمیوں سے بھر گیا کہ کشن لال چیلہ گھوڑی پر سوار آیا۔ اور وہیں



ریختہ صفحہ221
آ کر اترا۔ میں نے کہا کشن لال جی یہ سامان سنبھال لو۔غرضکہ مشعل کی روشنی میں وہ سب سنبھلوا دیں۔ کوئی چیز باقی نہ چھوڑی جتنی بکارآمد چیزیں ہوتی ہیں سب ان میانوں میں موجود تھیں۔ انگریزی قلمدان بھی ۔ پنسل بھی۔ کاغذ بھی سبھی چیزیں۔ اب سُنئیے بٹوے کا حال۔ بٹوے میں دو سو روپیہ ۔سو اشرفی۔ کوئی سو دونّیاں چونیاں ۔ ڈبل پیسے کوئی آٹھ آنے کے کوئی ایک پیسے کی چھوٹی چھوٹی کوڑیاں اور ایک مٹھ نوٹوں کا مگر وہ موم جامہ کیا ہوا تھا ۔ اس کی تعداد معلوم نہیں ہوئی۔ تھوڑی دیر کے بعد مندر میں گئے وہاں بلدان کرایا گیا۔ چار گھڑی کے بعد فارغ ہو کر مندر سے باہر آئے تو پسینے میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ باہر مندر کی سیڑھیوں پر آ کر بیٹھ گئے۔ میں نے رومال بچھا دیا ۔ ہوا آ رہی تھی۔ میں اور کشن لال پیچھے کھڑے ہو گئے۔ حکم ہوا بیٹھ جاؤ۔ مجھ سے ارشاد ہوا تم کتنے روز سے اس تھانہ میں تبدیل ہو کر آئے ہو۔ میں نے عرض کی حضور پانچ مہینے ہوئے۔ پھر پوچھا پہلے کون تھانے پر تھے۔میں نے عرض کی تھانہ کھنڈہار پر۔ فرمایا شملہ سے نواب صاحب نے تمہاری منظوری کروا کے بھیجی تھی۔ میری دستی مہر تھی حکم پر۔ میں نے عرض کیا میرے واسطے حکم صادر ہوا تھا۔ پھر پانچروز مہاراج وہاں رہے میں ہر وقت خدمت میں حاضر رہا ۔ بعد جب تشریف لاتے ہر وقت میں پاس رہتا۔ تمام دنیا کے ذکر ہوتے رہتے۔ گنجفہ چوکر وغیرہ بھی ہو جاتا۔ تمام حال میرا اور میرے بزرگوں کا اور تعلّقاتِ شاہی کا مجھ سے دریافت فرما کر فرما دیا تھا کہ ابھی تم اس گھر کو بھی وہی تصور کرو ۔ یہ نوکری ویسی ہی نوکری ہے اس گھر میں سے آدمی آ کر پھر علیٰحدہ نہیں ہوتا ہے۔ جو ایک دو کام ایسے بن آئے کہ اُس نوکر سے نہایت خوش ہو گئے تو اس وجہ سے زیادہ آبرو فرماتے تھے اور سوائے اپنے فرض منصبی


ریختہ صفحہ 222
کے جو اہم کام ہوتا تھا اس کی تعمیل کے لئے مجھے حکم ہوتا تھا اور اکثر چوکیخانہ میں بھی مجھ سے کام لیا جاتا تھا اور میری معتمدی میں بھیجا جاتا تھا۔ بلکہ ایک بار ایک مۃم عظیم درپیش تھی تجویز ہوئی کسے بھیجیں۔ خود مہاراج نے فرمایا اُسے بلوا کے بھیج دو۔ وہ اس مہم کو بخوبی انجام دے سکتا ہے۔ غرضکہ خاص رسالہ کا سوار رات کے وقت میری طلب میں روانہ ہوا۔ مگر میری نوکری دلّی میں مینڈی پہنچانے کی نکل آئی تھی ۔ میں ایک منزل کوچ کر چکا تھا۔ تھانہ میں موجود نہ تھا۔ چونکہ حکم حضوری تھا سوار آدھے بجے مقام اچرول میں میرے پاس پہنچا اور حکم سنایا کہ اسی وقت جے پور روانہ ہو اور شبا شب جے پور پہنچو۔ میں نے تھانہ دار چندوا جی کے نام رقعہ لکھا کہ میری نوکری مینڈی دلّی پہنچانے کی نکلی تھی مگر حکم حضوری واپسی کا ہے۔ کارِ سرکار واحد ہے اب تم یہ بندہوی آ کر یہاں لے لو۔ اور ان کو دلّی پہنچا کر رسید سرشتہ لا کر بندہوی داخل کرو۔ اور بندہوی اپنے سواروں کے سپرد کر کے جے پور کو روانہ ہوا۔ سوار سے کہا تم تیرہ کوس آئے ہو آرام کر لو صبح آ جانا اور میں نے گھوڑے پر سوار ہو کر گھوڑے کی باگ اٹھا دیاور ایک سوار اردلی میں لیا ۔ چار بجے امر کا دروازہ کُھلوایا۔ تھانے میں آکر گھوڑا دوسرا تیار کرایا اور اس عرصہ میں حوائجِ ضروری سے فارغ ہو کر منہ ہاتھ دھویا اور دوسرے گھوڑے پر سوار ہو کر سرپٹ اٹھا دیا۔ اور گھاٹیکا دروازہ کھلوا کر آناً فاناً میں زور آور سنگھ کے دروازہ پر جا پہنچا۔ اُس وقت پہلے دروازہ میں داخل ہو کر بگھی خانہ کے آگے ہوتا ہوا صلیب چوک میں سے نکل کر ڈیوڑھی پر پہنچا چیلے سے حضور میں اطلاع کرائی۔ وہاں تو سب راہ دیکھ رہے تھے۔ خبر ہوتے ہی محل میں بلوایا میں جس وقت کہ حضور کے سامنے گیا ہوں تو حضور مسواک کر رہے تھے


ریختہ صفحہ 223
میں نے سلام کیا فرمایا آ گیا بڑی دیر لگائی۔ میں نے عرض کی تیرہ کوس سے آیا ہوں فرمایا شاباش ! اب تُم کو ایک مہم پر بھیجا جائے گا۔ جیسے تیرے بزرگوں نے سرکار بادشاہی میں کام انجام دئیے ہیں اسی طرح اس کو انجام دو۔ جاؤ خدا کو سونپا۔ نوابصاحب تُم کو اس سے مطلع کریں گے۔نواب فیض علی خاں صاحب اور منشی رام جیداس میرا ہاتھ پکڑ کرچندر محل میں علیٰحدہ لے گئے اور اُس راز سے آگاہ کیا حالانکہ وہ غیر وقت تھا اُس وقت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا کیا کام تھا مگر بعد کو معلوم ہوا کہ یہ تینوں ساحب رات بھر حضور میں موجود رہے اور میرے منتظر تھے ۔ مجھ سے نواب صاحب نے فرمایا جس قدر تم کہو روپیہ ساتھ کر دیا جائے اور جتنی جمّیعت درکار ہو ساتھ لو میں نے جواب دیا جمیّعت درکار ہے نہ روپیہ۔ نواب صاحب حیران ہوئے پھر کارگذاری کیا کرے گا میں نے کہا جس کارگذاری پر مجھے بھیجا جاتا ہے خوشی تو یہی ہے کہ ایک پیسہ خرچ نہ ہو۔ ایک آدمی ساتھ نہ ہو اور مقصد حاصل ہو جائے۔ آپ کو کام سے کام ہے خدا چاہے کام بخوبی انجام پا جائے گا پھر فرمایا ایک اہلکار زیربندی کا ہمراہ ہے ایک اہلکار ایجنسی جے پور کا ہے بغیر اس سے ساز کئے ہوئے کار برآری مشکل ہے۔ میں نے عرض کی کہ اگر اس سے ساز کر کے کاروائی کی تو میری کارگزاری کیا ہے۔ خدا چاہے تو ان کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہو اور کام انجام پا جائے۔ پھر کہا آخر ان کے صَرف خوردو نوش کی تو تجھے ضرورت پڑے گی خزانہ سے لے جانا چاہئیے۔ میں نے عرض کی پانسو روپیہ جمعدار خیر کے پاس رکھوا دینے چاہئیں۔ وہ ان کے کھانے کی خبر گیری کرتا رہے گا مگر ہاں ایک حکم نامہ کونسل کا جاگیرداران اور ماتحتان سپرنٹنڈنٹ وغیرہ کے نام اس مضمون کا ہو جائے کہ جس جا سے جس قدر

ریختہ صفحہ 224
امداد کی مجھے ضرورت ہو فوراً میرے پاس پہنچ جائےاور کوئی حکم عدولی نہ کر سکے چنانچہ ایسا ہی ہوا وہ حکم نامہ مجھے دلایا گیا وہ مقام چار منزل جے پور سے تھا۔ میں اُن اہلکاران کو ہمراہ لے کر روانہ ہوا۔ اور موقع وارادت پر پہنچنے سے پہلے میں نے اپنی کارگذاری کر دی اور وہاں پہنچ کر جس امر کی تحقیقات کے واسطے یہ لوگ میرے ہمراہ گئے تھے اُس کا نام و نشان نہ پایا۔ قائل معقول ہو کر واپس آئے اور تریندی کو رپورٹ دی کہ وہ ابرام و اتہام بجا تھا اس کا کچھ اثر یا پتا پایا نہیں گیا۔جب میں نے واپس آ کر مہاراج کو سلام کیا تو مہاراج نے فرمایا کہ اگر کوئی سردار ریاست جاتا تو دو چار لاکھ روپے ریاست کے بگاڑ آتا۔ایسے ایسے کار نمایاں اس نوکری میں ظہور آئے تھے۔جب میری کارگزاری کا مہاراج کے دل میں گھر ہوا تھا اور عزت و آبرو فرماتے تھے اور وعدہ پرورش بے حد کا فرمایا تھا پھر مجھ سے فرمایا تم اپنی تبدیلی تھانہ سانگا نیر پر کرا لومجھے زیادہ تر اتفاق سانگانیر میں رہنے کا ہوتا ہے۔میں نے عرض کی یہ بھی اختیار حضور کو ہے۔ چنانچہ کونسل میں حکم لکھوا دیا گیا تھا کہ ظہیر الدین حسین افسر کراہی کی تبدیلی سانگانیر میں ہو جائے اور بغیر منظوری مابدولت نہ تبدیلی ہو نہ معطّلی ہو نہ برخاستگی۔ پھر میں ایسا در خوَ خدمت ہوگیا تھا کہ بڑے بڑے مصاحبین کو رشک و حسد ہوتا تھا ہوا خوری کے وقت نکلتے تھےتو سوائے ہم دو آدمیوں کے تیسرا نہ ہوتا تھا آگے مہاراج اور عقب میں کشن لال چیلا اور میں۔ سب کھڑے دیکھا کرتے۔کسی کو ہمراہی کا حکم نہ ہوتا تھااکثر راز ایسے تھے کہ وہ مجھے معلوم تھے یا مہاراج کو یا خدا عالم الغیب ہے۔ میں بہت بڑا بدنصیب ہوں اگر مہاراج اور دو چار برس زندہ رہتے تو خدا جانے میں کس پایہ اعلٰے کو پہنچتا۔ جب


ریختہ صفحہ 225
میری ترقی عہدہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹی پر فرمائی تھی تو مجھ سے فرمایا تھا تجھے ڈپٹی نہیں کیا جنرل سپرنٹنڈنٹ کیا ہے۔ سرسا بھگتا نے کے واسطے تمہیں بھیجتا ہوں۔ بعد چھ ماہ کے جنرل سپرنٹنڈنٹ ہو جائے گا۔ میری شومی طالع سے وہ کوئی تین مہینے میں انتقال فرما گئے۔
 

الشفاء

لائبریرین
--------------------------
ریختہ صفحہ نمبر 236 سے 245
--------------------------

صفحہ نمبر 236
لا کلام میں ہی ہوں مگر وہ ظہیر کوئی اور ہوں گے جن کی تلاش آپ کو ہے۔ یہ سنتے ہی ایک قہقہہ لگایا اور یہ شعر پڑھا:

یار در خانہ و ما گرد جہاں میگردیم
آب در کوزہ و ما تشنہ لباں میگردیم
اور جلدی سے بغلگیر ہو کر فرمایا کہ ایک عرصہ دراز سے مجھے اور میرے بڑے بھائی نواب عبدالکریم خاں صاحب کو اس نام کی تلاش تھی۔ وہ اسی آرزو میں انتقال فرما گئے مگر الحمدللہ میری تمنا آج بر آئی کہ آپ سے ملاقات ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ آپ مجھے کیا جانیں۔ فرمایا کہ آپ کی غزل ایک محفل میں میں نے اور میرے بھائی نے ایک مغنیّہ کی زبان سے سنی تھی اس روز سے مجھے اس کلام سے تعشق ہوا۔ اور میرے بھائی بھی یہ کہتے تھے کہ صاحب غزل کا پتا مل جائے تو میں شاگرد ہو جاؤں۔ اس غزل کے دو تین شعر مجھے یاد ہیں۔ وہ غزل یہ تھی:
بتوں سے بچ کے چلنے پہ بھی آفت آ ہی جاتی ہے
یہ کافر وہ قیامت ہیں طبیعت آ ہی جاتی ہے
پھر فرمایا کہ مجھے بھی ابتدائے عمر سے شعر و سخن کا شوق ہے اور شوق کیسا کہ بیماری ہے ۔ اس شوق میں لکھنؤ گیا اور شیخ امام بخش ناسخ سے خواجہ حیدر علی آتش سے اور دیگر شعرائے نامور سے مل کر آیا ہوں۔ تین دیوان بھی لکھ چکا ہوں۔ میاں خدا بخش صاحب تنویر بھی ٹونک میں آئے تھے، میرے پاس نوکر رہے پھر چلے گئے۔ آپ کی تلاش تھی۔ اب آپ مجھے شاگرد کیجئے اور کچھ بتائیے۔میں نے کہا جناب آپ کا سن میرے والد کے برابر ہے ۔ میرا سن تیئیس چوبیس سال کا ہو گا، آپ کا سن ساٹھ سے تجاوز کر گیا۔ کہا آپ کیا فرماتے ہیں ، بزرگی بعقل است نہ بسال۔ یہ باتیں ابھی مجھ سے ہو ہی رہی تھیں کہ سامنے سے مہاراجہ صاحب نے دیکھا اور کہا کہ میاں یہاں

صفحہ نمبر 237
کیوں نہیں آتے ہو۔ پان رکھے ہیں، کیوں بیٹھ گئے۔ نواب صاحب، ابھی حاضر ہوتا ہوں۔ یہ میرے استاد ہیں ، ان کے پاس حقہ پی رہا تھا۔ مہاراجہ صاحب۔ پھر میاں کیا تمہارے واسطے یہاں حقہ کی ممانعت ہے۔ نواب صاحب ، نہیں حضور ان سے کچھ باتیں کرتا تھا۔ حاضر ہوا۔ غرضکہ نواب صاحب اٹھ کر مہاراج صاحب کے پاس آئے۔ مہاراجہ صاحب نے متعجب ہو کر پوچھا کہ یہ آپ کے استاد کس بات کے ہیں ۔ نواب صاحب۔ آپ کو معلوم ہے کہ مجھے شعر و سخن کی دھت ہے۔ مہاراجہ صاحب۔ تو آہا یہ شاعر بھی ہیں ، مجھ سے تو آج تک انہوں نے بیان نہیں کیا کہ شعر کہتا ہوں۔ ، نہ مجھے کبھی کچھ سنایا۔ انہیں بلا ہی لو۔ غرضکہ نواب صاحب نے مجھے آواز دی کہ حضرت یہاں آئیے۔ مہاراج صاحب یاد فرماتے ہیں۔ میں قریب گیا تو مہاراج صاحب نے فرمایا، تھانہ دار جی، آج تک تم نے کبھی ذکر شعر وسخن کا نہیں کیا۔ میں نے عرض کیا، کبھی اس قسم کا تذکرہ سرکار میں آیا نہیں۔ میری عادت نہیں کہ خود اپنے منھ میاں مٹھو بنوں۔ مہاراج صاحب ، اچھا تو اب کچھ سناؤ۔ میں نے عرض کی پھاٹک تک جانے کی اجازت ہو جائے تو کچھ لاؤں۔ فرمایا جاؤ ، میں نے تھانہ میں آ کر بستے میں دیکھا، ایک قصیدہ ناتمام سا نکل آیا۔ اسے جلدی جلدی گھسیٹ کر اور اس میں نام درج کر کے دو گھنٹہ میں لے گیا اور مہاراج صاحب کو سنایا۔ دونوں صاحب نہایت خوش ہوئے اور بہت داد دی۔ نواب احمد علی خاں صاحب نے فرمایا ، حضور یہ اس وقت فی البدیہہ لکھ کر لائے ہیں۔ مہاراج کو زیادہ تعجب ہوا ، پھر مہاراج صاحب نے فرمایا، مجھے بھی سننے کا شوق ہے، سناتے رہا کرو۔ یہ حال تو مجھے آج ہی معلوم ہوا ہے، میں مشاعرہ کروں گا اس میں لکھنا۔ میں نے عرض کی بہت بہتر۔ بعد کو نواب صاحب نے عرض کی کہ میں اب سامنے کے

صفحہ نمبر 238
باغیچے میں ٹھہرتا ہوں، نماز پڑھ کر پھر آؤں گا۔ یہ کہہ کر میں اور وہ باہر آئے اور سامنے والے باغیچے میں جا کر بیٹھے۔ نواب صاحب نے اسی وقت پانچ روپیہ کی شیرینی منگائی اور کہا نیاز دیجئے۔ میں نے نیاز دی۔ وہ شیرینی تقسیم ہوئی۔ بعد نواب صاحب نے کہا میری غزل کی اصلاح کی کیا صورت ہے۔ میں نے کہا کہ آپ نے بچشم خود دیکھ لیا کہ مجھے فرصت ہی سارا دن میسر نہیں ہوتی۔ میرا کہنا سننا سب ترک ہو گیا ہے۔ اب میرا چھوٹا بھائی امراؤ مرزا انور مجھ سے بہتر کہتا ہے ۔ آپ اس سے اصلاح لیجئے اور وہ آپ کو دل سے بتائے گا اور وہ اب جے پور آئے گا۔ جب مہاراجہ صاحب یہاں سے تشریف لے جائیں گے اس وقت میں اپنے بھائی کو لے کر مکان پر حاضر ہوں گا۔ غرضکہ بعد دو تین روز کے مہاراج صاحب جے پور تشریف لے گئے اور میں نے جے پور جا کر امراؤ مرزا کو بلوایا اور نواب صاحب نے غزل دکھائی۔ اس نے ان کے مواجہہ میں غزل کو اصلاح دی اور جو نقص اس میں تھے اس سے آگاہ کیا۔ بس پھر کیا تھا آنکھیں کھل گئیں۔ مرد جہاندیدہ اور سنجیدہ سردار تھے۔ اشارہ کافی تھا، طبیعت تو موزوں تھی، بتانے کی دیر تھی ، پھر میں جب ایک ماہ بعد جا کر ملا ہوں تو مجھ سے بیان کیا کہ استاد تمہارے بھائی نے میری آنکھوں سے پردہ اٹھا دیا۔ اب مجھے معلوم ہوا کہ میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا اور لوگ بھی ناواقف ہیں۔ تنکے کے اوجھل پہاڑ ہے۔ میں نے اپنے تینوں دیوان چھپوا دیے اور اب نئے سر سے پھر کہنا شروع کیا ہے۔ دو غزلیں بلا ناغہ میں لکھتا ہوں اور اصلاح ہوتی جاتی ہے۔ اور وقت فرصت میں نے شعر گوئی کا مقرر کیا ہے۔ دس بجے رات کے میں پلنگ پر لیٹتا ہوں۔ لکھنے والے میرے پلنگ کے نیچے بیٹھے لکھتے جاتے ہیں اور میں کہتا جاتا ہوں۔ حاصل کلام یہ کہ ایک دیوان لکھ کر

صفحہ نمبر 239
اور تیار کیا۔ اکثر ان کے یہاں میری صحبت رہتی تھی۔ اس میں کچھ سننے کا اتفاق مجھے ہو جاتا تھا۔ اور نہ نوکری سے فرصت تھی ورنہ آج تک میرا کلام بہت ہوتا۔ اب نوکری سے یکسو ہو کر خانہ نشین ہوا ہوں اور میرا بھائی دلی جا کر ملازم ہو گیا ہے۔ دو تین سال میں بے روزگار رہا پھر میں بھوپال گیا ہوں اور وہاں مشاعرہ نواب شاہ جہاں بیگم حاحبہ کے مواجہہ میں ہوئے ہیں۔ ان مشاعروں میں شریک رہا ہوں۔ چند غزلیں جب لکھی گئیں۔ نواب صدیق حسن خاں نے مجھے امیدوار کیا تھا۔ چار ماہ میں ٹھہرا پھر مجھے انتقال برادر مرحوم کی خبر پہنچی ، میں واپس جے پور آ گیا تو نواب صاحب نے فرمایا کہ تمہارے بھائی کا انتقال ہو گیا۔ مجھے اس نہایت صدمہ ہے۔ اب آپ میرے پاس رہیے۔ مجھ سے جدا نہ ہو جیئے۔ جو سلوک میں ان سے کرتا تھا وہ آپ سے کروں گا۔ چنانچہ میں اس روز سے ان کی رفاقت میں رہا۔ ایک دیوان دوم کی میں اصلاح کی اور ایک میرے بھائی نے ۔ پہلا دیوان جو میرے بھائی نے بنایا تھا، وہ چھپ گیا۔ دیوان رونق موجود ہے دوسرے کے چھپنے کی تیاری تھی کہ وہ انتقال فرما گئے۔ مگر دونوں دیوان ان کے ایسے ہیں کہ ہم دونوں بھائیوں کے برابر بلکہ کسی درجہ اول ہیں کیونکہ ہم دونوں نے جان توڑ کر لکھے ہیں، اپنے کلام سے ان کے کلام کو بڑھا دیا۔ جب ایسا شاگرد لائق فائق قدردان خوش عقیدہ ہو تو محنت کرنے کو جی چاہتا ہے۔ نواب احمد علی خاں صاحب مرحوم نے جو میری قدرومنزلت کی ہے ایسی کوئی شاگرد استاد کی نہ کرے گا۔ کوئی چیز ایسی نہ ہو گی کہ وہ مجھے دریغ کرتے ہوں حتیٰ کہ دوا تک پیتے تھے تو مجھے پلا دیتے تھے۔ نسخہ معجون یاقوتی سات روپے میں کرایا تھا، اس میں سے بھی مجھے ایک ماشہ بھیج دی۔ یہاں تک ان کو مجھ سے عقیدت تھی کہ اکثر ایسا ہوا ہے

صفحہ نمبر 240
کوئی عمدہ شے ان کے آگے رکھی گئی تو پہلے کہتے تھے کہ ایک چمچہ اس میں سے تو کھا لے تو میں کھاؤں۔ میں کہتا حضرت آپ کیا فرماتے ہیں ، وہ کہتے اس لئے کہ تیری زبان کا اثر میری زبان میں آجائے۔ جس وقت انہوں نے انتقال فرمایا ہے تو میں اوپر پلنگ کے بیٹھا ہوا تھا اور میرا ہاتھ انہوں نے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کے اپنے سینہ پر رکھ چھوڑا تھا۔ اسی طرح ان کا دم نکلا۔ بڑے صاحبزادے ان کے سامنے بیٹھے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ زندگی بھر انہوں نے مجھے اپنے سے جدا نہ ہونے دیا۔ بارہا نواب ابراہیم علی خاں صاحب بہادر نے مجھے طلب کیا کہ دادا تم استاد کو مجھے دے دو۔ صاف جواب دیا، آج تم استاد کو مجھ سے طلب کرتے ہو اور پھر ان کی تعظیم و تکریم میں فرق آیا تو مجھے رنج ہو گا اور مجھے تم سے کشیدگی ہو جائے گی۔ میں اپنی زندگی میں تو دیتا نہیں بعد میرے مرنے کے تم کو اختیار ہے تم بلا لینا۔ چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا۔ بعد انتقال نواب احمد علی خاں صاحب کے نواب صاحب بہادر نے ان کے صاحبزادوں سے کہلا بھیجا کہ تم اب استاد کو میرے پاس بھیج دو۔ اور حسب الطلب نواب صاحب بہادر کے میں ٹونک میں گیا۔
جس زمانہ میں کہ میں نواب احمد علی خاں صاحب مرحوم کی رفاقت میں تھا تو نواب صاحب کی بھی بتاکید غزلیں منگواتے تھے۔ البتہ دو سو غزل کے قریب مجھ سے نواب صاحب نے لکھوائیں۔ دیوان اول گلستان سخن ان کے زمانہ حیات میں قریب اختتام پہنچ گیا تھا۔

ملازمتی کار گزاریاں:-
جس زمانہ میں میں تھانہ دار تھا اور نظر پرورش مہاراجہ

صفحہ نمبر 241
صاحب کی میرے حال پر تھی تو اکثر کارہائے نمایاں کا انجام ظہور پذیر ہوتا رہتا تھا۔ اور حکام بالا دست اکثر مہمات اہم مجھ کو بھیجتے رہتے تھے۔ جانتے تھے کہ یہ کسی حمایتی سے دبنے والا نہیں۔ ریاست جے پور میں قدیم الایام سے یہ بات چلی آتی تھی کہ بڑے بڑے جو سردار جاگیر ریاست تھے ان کے دیہات میں جو کوئی مجرم جا کر پناہ گزین ہوتا تھا وہ اس کو گرفتار کرا دینا بہت معیوب جانتے تھے۔ یہ امر گویا ایک طرح کی بہادری میں تصور کیا جاتا تھا کہ فلاں مکان میں سے مجرم گرفتار نہیں ہوتا اور پناہ دہندہ پناہ گزیر کو ہر گز نہیں دیتا۔ خصوصاً وہ جاگیردار جو اراکین ریاست متصور ہوتے تھے۔ راول جی صاحب اور ان کے بھائی ٹھاکر صاحب کہ جن کے خاندان میں قدیم سے مدارالمہامی ہوتے چلے آئے تھےتو ایسے مواضعات سرکش اور حمایتی کی تعمیل احکامات کے واسطے مجھے بھیجا جاتا تھا۔ ایک بار حسن اتفاق سے قصبہ ساہدو ٹھاکر راول جی صاحب کا خاص مولد و مسکن اس کا تھا۔ اس میں تین مجرم واردات غارت گری کے پناہ گزین ہیں اور مجھے پتا لگا اور میں نے جا کر خاص ساہدو میں ان کو گرفتار کیا۔ کامداران راول جی صاحب ہارج اور مانع ہوئے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ مجرم یہاں سے کوئی تھانہ دار یا ملازم فوجداری گرفتار کر کے لے گیا ہو۔ تم ان کو چھوڑ دو۔ اگر راج کو ان کی طلبی منظور ہے تو بذریعہ تحریر طلب کرے۔ ہم اپنے طور پر بھیج دیں گے۔ میں نے جواب دیا پھر راج کی حکومت ہی کیا ہوئی ۔ جب مجرم کو گرفتار نہیں کر سکتا ، میں ان کو ہر گز نہیں چھوڑوں گا، اسی طرح ہتھکڑی ڈال کر لے جاؤں گا۔ انہوں نے دیکھا کہ یہ ان دھمکیوں میں نہ آئے گا تو نرمی پر اترے اور طمع دینے لگے۔ حتیٰ کہ تین ہزار روپیہ کا لالچ دیا کہ تم ان کو چھوڑ جاؤ، تین ہزار روپیہ ہم دیتے ہیں۔

صفحہ نمبر 242
فقط اتنی بات کہ ٹھکانے کی آن ٹوٹتی ہے اور تمام ریاست میں بدنامی ہے کہ ٹھکانے میں سے پناہ پذیر گرفتار ہو گئے تھے۔ جواب دیا کہ پیشتر تو شاید میں رسید لے کر تمہارے حوالہ بھی کر دیتا مگر اب تم نے رشوت کا نام لے دیا ہے تو میں ہر گز نہ چھوڑوں گا کس لئے کہ آج یہ تو میری قید میں ہیں اور ہتھکڑی بیڑی میں ڈال رکھی ہے اور کل اسی طرح ہتھکڑی اور بیڑی میرے ہاتھ پاؤں میں ہو گی۔ اس گفتگو طول کھینچ گئی۔ راول جی صاحب کے کامدار سے انہوں نے کہا ، بھلا دیکھیں تو کیسے تم ان مجرموں کے لے جا سکتے ہو۔ بیسیوں تھانہ دار آئے اور یوں ہی ہم نے چلا دیے۔ میں نے جواب دیا کہ کوئی تھانہ دار ہی نہ آیا ہو گا۔ نمک حرام رسوئی والے ہوں گے، میں ان کو لے جاؤں گا اور ڈنکے کی چوٹ لے جاؤں۔ اور سامنے ایک مکان محفوظ مندر کا تھا اس پر قبضہ کر لیا اور ان مجرموں کو ان کی کوٹھڑی میں بند کیا اور باہر اپنے ہمراہیاں جمعیت کا بندوبست کر دیا۔ اور برابر کے تھانہ داران کو اور گرداور کو بذریعہ رقعہ جات بنا بر امداد طلب کیا اور جنرل سپرنٹنڈنٹ کو اس مضمون کی عرضی لکھی اور امداد طلب کی اور سواران کے ہاتھ رقعہ روانہ کئے۔ غرضکہ دوپہر کے عرصہ میں دونوں تھانہ دار اور گرد آور میری امداد کو آ پہنچے۔ اب میرے پاس پچاس سوار اور دس پندرہ سو کی جمعیت ہو گئی۔ اب ملازمان راول جی صاحب نے یہ کام کیا کہ دروازہ شہر پناہ کے بند کرا دیے اور ہر ایک دروازہ پر تین تین سو چار چار سو آدمیوں کی جمعیت رکھ دی کہ ملزموں کو باہر نہ لے جا سکیں۔ ادھر ساہد و بقالوں کو منادی کرا دی کہ کوئی ملازمان سرکاری کو رسد نہ داے ۔ اب گھوڑے بھوکے ہیں اور آدمی بھوکے ہیں۔ سب حیران ہیں کہ یا الٰہی کس مصیبت میں گرفتار ہو گئے۔ سوچتے سوچتے ایک بات خیال میں آئی۔ مندر کے سامنے ایک گھاس کی کڑی لگی ہوئی تھی اور وہ ایک بنیے

صفحہ نمبر 243
کی تھی اور اسی کی دوکان آٹے دال کی تھی۔ جاتے ہی اس بقال کا کان پکڑ کے اٹھا لایا اور مندر میں لا کر اسے اوندھا ڈال کر اس کی کمر پر ایک من بھر کا پتھر رکھ دیا اور اسے کہا کہ ابے ہم بھوکے مریں گے مگر پہلے تجھے مار ڈالیں گے۔ تو جانتا ہے کہ بڑے راج کے نوکر ہیں اور راج نوکری پر آئے ہوئے ہیں۔ ہمارا کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ یا تو سیدھی طرح ہم کو رسد دے دے اور نہیں تو تیری دوکان گھر بار سب لوٹ لیں گے۔ وہ لگا واو فریاد مچانے۔ اب راول جی کے آدمیوں کا یہ مقدور نہیں کہ ہم سے آ کر زبردستی بنیے کو چھڑا کر لے جاتے۔ فقط زبانی گیدڑ بھبکیاں تھیں۔ جب بنیے نے دیکھ لیا کوئی فریاد کو نہیں پہنچ سکتا تو مجبور منت معذرت کرنے لگا۔ مجھے چھوڑ دو میں رسد دیتا ہوں۔ میں نے کہا چھوڑ دینا بس ایسے نہیں ہو سکتا۔ سب چیز بست یہیں ہمیں منگا دے۔ اس نے اپنے بھائی بندوں کو آواز دی ، ارے جلدی آؤ اور مجھے اس بلا سے نجات دلاؤ۔ اسی وقت اس کا بھائی اور بیٹا دوڑے ہوئے آئے اور اس نے ان سے کہا کہ سب چیز سب سامان رسد کی یہیں اٹھا لاؤ۔ وہ جلدی جلدی سب تھیلے اٹھا لائے۔ مندر میں دوکان لگا دی۔ جب میں نے کہا اٹھا لو پتھر اس کی پشت پر سے اور اس سے اور اس سے کہا ، آٹھ روز کی رسد تو اب لشکر کو لا دے باقی بعد پھر دیکھی جائے گی۔ اور سواران سے کہا کہ گھاس کے گٹھے باندھ لاؤ اور اس کے سامنے لا کر رکھ دو اور مناسب قیمت اسے دیتے جاؤ اور لیتے جاؤ۔ اور جس کے پاس قیمت نہ ہو وہ اپنا نام اور جمعیت کا اور اپنے جاگیردار کا اس کی بہی میں لکھواتے جاؤ۔ غرضکہ خوراک کا بندوبست کر کے بنیے کو رہا کر دیا گیا۔ اب حال یہ ہے کہ روز ایک عرضی طلب امداد میں محکمہ صدر سپرنٹنڈنٹی ہمدست پیادگان روانہ ہوتی ہے۔ کیونکہ دروازے شہر کے بند ہیں۔ سوار تو نہ نکل سکتا تھا۔

صفحہ نمبر 244
کھڑکی کی راہ سے پیدل روانہ ہوتا تھا۔ سات روز تک یہی کیفیت رہی اور محکمہ صدر سے کچھ حکم نہ آیا اور نہ مدد آئی۔ آخر الامر ناچار ہو کر میں ایک رقعہ بنام حکیم محمد سلیم خاں صاحب داروغہ محکمہ خبر روانہ کیا اور تمام کیفیت از ابتدا تا انتہا لکھ بھیجی کہ آپ بذریعہ پرچہ خبر مہاراجہ صاحب کو اطلاع دیجئے اور جیسا حکم صادر ہو مجھے مطلع کیجئے۔ چنانچہ حامل رقعہ تین بجے رات کے جے پور پہنچا کیونکہ مقام سامود بے پور سے بارہ تیرہ کوس تھا۔ داروغہ خبر نے لفافہ چاک کر کے رقعہ پڑھا اور پڑھ کر پالی میں سوار ہو رقعہ کو لئے ہوئے محل کی ڈیوڑھی پر پہنچے اور مہاراجہ صاحب کو اطلاع کرائی کہ کوئی خبر ضروری زبانی حضور سے عرض کرنی ہے۔ فی الفور حکیم صاحب کو طلب کر لیا گیا اور حکیم صاحب گئے میرا رقعہ جو ان کے نام تھا وہ حرف بحرف پڑھ کر مہاراج صاحب کو سنا دیا۔ بمجرد استماع اس خبر کے مہاراج صاحب نے حکم دیا کہ شفیع میاں جنرل سپرنٹنڈنٹ کو حاضر کرو اور بخشی فوج اور بخشی خانہ جاگیر میں دونوں بخشیوں کو حکم پہنچا دو کہ جس قدر سوار اس وقت موجود ہوں سب کو تیار ہو کر سامان جنگ گولی بارود وغیرہ لے کر ڈیوڑھی پر حاضر ہو جائیں۔ مہاراج کا حکم سنتے ہی لے دے ہو گئی ۔ جابجا ہرکارے دوڑ گئے۔ رسالے تیار ہو ہو کر آنے لگے کہ اسی اثنا میں سپرنٹنڈنٹ حاضر ہوا، فرمایا کیوں جی ہم نے اسی واسطے تم کو سپرنٹنڈنٹ کیا تھا کہ آٹھ روز سے ہمارے نوکر قید ہیں اور تم نے اس کا کچھ انتظام نہ کیا اور ان غریبوں کی کچھ خبر گیری نہ کی نہ مدد پہنچی۔ سپرنٹنڈنٹ نے عرض کی حضور مصاحبین کا معاملہ تھا اس لیے مجھے تامل تھا۔ فرمایا مصاحبین ہم سے بڑھ کر نہیں ہیں۔ تعمیل حکم میں ایک سپاہی برابر مصاحب کے ہوتا ہے۔ وہ لوگ ہمارے حکم کے بموجب اپنا فرض منصبی ادا کرنے گئے تھے۔ جاؤ

صفحہ نمبر 245
ہمارے آدمیوں کو چھڑا کر لاؤ۔ اور یہ سن لو کہ اگر میرا ایک آدمی بھی ضائع ہو گیا تو مجھے سے برا کوئی نہ ہو گا۔ تم کو حکم دیا جاتا ہے کہ سامود کا چبوترہ بنا کر آنا، کوئی یہ نہ جانے کہ سامود کبھی آباد تھی یا نہیں۔ سپرنٹنڈنٹ نے عرض کی ، بہت بہتر ایسا ہی ہوگا۔ غلام سوار ہوتا ہے پھر مہاراج صاحب نے فرمایا ، تم بوڑھے آدمی ہو تم کہاں جاؤ گے اپنے بیٹے کو سوار کرا دو۔ احمد میاں ان کے بیٹے بھی حاضر تھے، انہوں نے آگے بڑھ کر آداب بجایا اور رخصت ہو کر سوار ہوئے اور بارہ بجے رات کے چاند پول دروازہ کھلوا کر معہ جمعیت سواران روانہ ہوئے۔ ادھر جیسے توپ خانہ اور دو پلٹنوں میں حکم پہنچ گیا کہ تیار رہیں اور حکم پہنچتے ہی روانہ ہو جائیں۔ ادھر راول جی صاحب وہیں چپنی کے برج میں موجود تھے، وہ سن کر آتے ہی قدموں میں گر پڑے اور عرض کی کہ حضور فوج کو کیوں تکلیف دیتے ہیں۔ میں ان مجرموں اور ملازموں کو جنہوں نے عدول حکمی کی ہے دوپہر تک ڈیوڑھی پر حاضر کیے دیتا ہوں۔ ارشاد ہوا کوئی ضرورت نہیں ، جس تھانیدار نے مجرم گرفتار کئے ہیں وہی لے کر آئے گا۔ اس نے اتنی بڑی تعمیل حکم کی ہے، میں اس کی دل شکنی کیونکر روا رکھوں گا۔ آپ جا کر اپنے مکان میں بیٹھیے، کل سب ظہور میں آ جائے گا۔
آج آٹھواں دن ہے، صبح کا وقت ہے۔ چار گھڑی دن چڑھا ہے۔ میں ہاتھ منھ دھو کر دروازہ مندر کے آگے کے چبوترہ پر بیٹھا ہوا کلی پی رہا ہوں۔ پانچ سوار میرے پاس بیٹھے ہیں۔ میں اپنے دل میں یہ مسودے کر رہا ہوں کہ دیکھیے آج اس رقعہ کا کیا جواب آتا ہے کہ دو شخص سامنے کے دروازہ کی کھڑکی میں سے نکل کر آئے اور میرے پاس آ کر سلام علیک کی اور کہا کہ حضرت ہم بھی مسافر ہیں، حقہ کی طلب ہے۔


-------------------------------
ریختہ صفحہ نمبر 236 سے 245 مکمل

-------------------------------
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
داستان غدر صفحہ 111

اور ان کے شہر کے کولی چمار،دھوبی ،سقے راستے کھڑے ، کنجڑے،قصاب کاغذی محلے کے
کاغذی اور بدمعاشانِ شہر پہلوانی ۔ ہانڈی باز، اٹھائیگیرے، جیب کترے
وغيره وغیرہ سب رزیل ہیں کوئی شریف خاندانی ان میں شامل نہیں ہے ہر نیک معاش و اشرف ہیں وہ اپنے گھروں کے دروازے بند کئے بیٹھے ہیں ان کو معلوم نہیں کہ شہر میں کیا ہورہاہے مردمان بإغیہ سے جس قدرلوٹا گیا خوب روپیہ لوٹا کہ اسکے اٹھانے سے عاری ہوگئے ۔ علی ہذا القیاس ایک ایک چمار جوڑہ تین تین تھیلیاں روپوں کی اُٹھا کر گھر لے گیا
خصوصاً کاغذی محلے کے باشندے کہ زیرِ دیوار سکونت پذیر تھے نہال ہوگئے۔ روپوں سے گھر بھر گئے مثل مشہور ہے۔ مالِ مفت دلِ بے رحم مگرکہاں تک لوٹیں چودہ لاکھ روپیہ ہے۔ تاہم روپیہ سی شے کون چھوڑتاہے۔
ایک گھنٹہ کے عرصہ میں سب لوٹ لاٹ برابر کردیا۔خزانہ کے صندوق تک اٹھاکر لے گئے۔ دو گھنٹے کامل یہ ہنگامہ رہا ۔
میگزین اُڑادیا
پانچ بج چکے ہیں۔ دن ڈھل گیاسے ہنوز قیامت برپا ہے ۔
باشندگانِ شہر میں نفسی نفسی پڑی
ہوئی ہے عجب ایک تلاطمِ فتنہ وفساد ہے کہ نیچے کی زمین اوپر ہو رہی ہے دریا دریائے کشت
وخون جوش مار رہا ہے لوٹ کھسوٹ کا بازارگرم ہے ظالمانِ بے خوف و خو گرانِ ناخداترس حشر برپاکر رکھا ہے کسی کسی کی خبر - اپنی اپنی سب کو پڑی ہوئی ہے
سوادِ ہند میں عرشِ احتشام ہے دہلی
بیادِ مردک خاص و عام تھی دہلی
زمین چرخ کی قائم مقام تھی دہلی
جب آیا عہدِ جوانی تمام تھی دہلی
-
112

یہ وہ زمین ہے جس کی زراوگلتی ہے
یہ خاک، وہ ہے کہ اکسیر ہاتھ ملتی ہے
جہاں آباد لقب تھا یہ عزوشان کیلئے
جہاں کا لفظ بنا تھا اسی مکاں کیلئے
یہ درجے اسکے تھے نہ آسمان کیلئے
کہ اس سے کام زمانہ نے دو جہاں کیلئے
فلک سے رتبہ دوچند تھا اس کا
مقام عرش سے پایہ بلند تھا اس کا
دل زمانہ تھا دلی پہ یہ تباہی ہے
نہ سمجھے دل میں تانگان پرُ جفائی ہے کہ دل کو لوٹتے ہیں خانہٓ خدائی ہے خدا کے گھر کو بگاڑا ستم کہانی ہے نہیں جہاں میں واللّہ اس جفا پناہ
جو انتقام ہو اسکا تو بس خدُا کی پناہ
یہ شہر وہ ہے کہ غنچہ تھا مہ جمالوں کا
یہ شہر وہ ہے کہ تختہ ہے نونہالوں کا یہ شہر وہ ہے کہ مجمع ہے حسنُ والوں کا
یہ شہر وہ ہے مرجع ہے باکمالوں کا
یہ وہ مکان ہے ملیں جسکے قیصر و جم تھے
یہ خطہ وہ ہے گدا جسکے فخر حاتم تھے
ہر کاروں کی ڈاک لگ رہی ہے ۔ داد و فریاد کی خبریں چلی آرہی ہیں بد معاشانِ ابلیس بنیا د ظالمان شداد نژاد کو ساتھ لگانے لگائے پھرتے ہیں۔ ملازمان شاہی معہ حکیم احسن اللّہ خاں خانانی کے دالان میں بیٹھے ہوئے یا بدیع العجائاب بالخیر کی تسبح پڑھ رہے ہیں - الامان کا وظیفہ سب کی زبان پر جاری ہے ، کہ لیکایک اس زور کی مہیب آواز ہوئی کہ ایک ہزار توپ کا برابر ایک فیر ہوتا تو اتنی.


113

گرج نہ ہوتی فانسا مانی کا مکان شاجہانی عمارت ہے جس کا اثر چارفٹ کے برابر ہے۔ جو نہ گچ کی عمارت ہے اس کے دالان کا سقف سنگِ سرُخ و سنگ بانسی کے ٹیسوں
کا ہے ۔جن کاول اورضخامت ایک بالشت کاہے اور عرض بارہ گرہ کا
اورطول پانچ گزہے اس میں سے چونہ اورمٹی اس درجہ گری کہ گرد باد ہوگئی اور زمین کو اس درجہ لرزہ ہوا کہ زلزلہ محسوس ہوتا تھا ۔کہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ مکان ہم پر آرہا
سب نکل نکل باہر کرصحن میں بھاگ کر کھڑے ہو گئے اور آثار اِذاَ زلزُلَت الࣿارضُ زِلزَالہَا کے پیدا ہوئےمغرب کی جانب جو نگاہ کی تو یہ دیکھا تسیق گرد و غبار اور دھوئیں کا زمین سے لگاکر آسمان کے بند ہوا ہے اور لاشیں آدمیوں کی
زاغ وزغن کی طرح منڈلا رہی ہیں تین منٹ نہ دن گزرتے تھے کہ آسمان سے
سنگ باری و تکون الجبال کانعمن المنفورش زمین پر برسنے لگے۔ بھاگ بھاگکر پھر دالان میں پہنچھے اب عقل حیران کہ الہی یہ کیا معاملہ ہے ۔ موقع واردات کا معاملہ دکان خانسامانی سے ایک میل سے کچھ زیادہ ہوگا۔ ہرکاروں کی جوڑی نے منکرو نکیر کی طرح آکرخبردی که میگزین ( بارود واسلحہ خانہ) اڑا دیاگیا۔
تفصیل اس اجمال کی اس کی اسی طور پر گوشگذارِ واقعہ نگار ہوئی ہے جب باغیان غفار شقاوت آثار نے جاکر میگزین کا محاصرہ کیا تو چند مرد و بان یورپین نگهبانان میگزین میگزین میں موجود تھے اور عورتیں اور بچے وغیرہ جاکر پناہ گرین ہوئے،پہلے تمحصوران مجبور بمقابلہ پیش آئے اور حفاظت اختیاری کے طور پر بندوقیں سرکرتے رہے اور جب بلوائیوں کا غلبہ حد سے گزر گیا اور چار دیواری میگزین کے
اطراف و جوانب میں لوگ پھر گئے اور کوئی صورت جان بچانے کی نظر آئی اور
113
گرج نہ ہوتی فانسا مانی کا مکان شاجہانی عمارت ہے جس کا اثر چارفٹ کے برابر ہے۔ جو نہ گچ کی عمارت ہے اس کے دالان کا سقف سنگِ سرُخ و سنگ بانسی کے ٹیسوں
کا ہے ۔جن کاول اورضخامت ایک بالشت کاہے اور عرض بارہ گرہ کا
اورطول پانچ گزہے اس میں سے چونہ اورمٹی اس درجہ گری کہ گرد باد ہوگئی اور زمین کو اس درجہ لرزہ ہوا کہ زلزلہ محسوس ہوتا تھا ۔کہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ مکان ہم پر آرہا
سب نکل نکل باہر کرصحن میں بھاگ کر کھڑے ہو گئے اور آثار اِذاَ زلزُلَت الࣿارضُ زِلزَالہَا کے پیدا ہوئےمغرب کی جانب جو نگاہ کی تو یہ دیکھا تسیق گرد و غبار اور دھوئیں کا زمین سے لگاکر آسمان کے بند ہوا ہے اور لاشیں آدمیوں کی
زاغ وزغن کی طرح منڈلا رہی ہیں تین منٹ نہ دن گزرتے تھے کہ آسمان سے
سنگ باری و تکون الجبال کانعمن المنفورش زمین پر برسنے لگے۔ بھاگ بھاگکر پھر دالان میں پہنچھے اب عقل حیران کہ الہی یہ کیا معاملہ ہے ۔ موقع واردات کا معاملہ دکان خانسامانی سے ایک میل سے کچھ زیادہ ہوگا۔ ہرکاروں کی جوڑی نے منکرو نکیر کی طرح آکرخبردی که میگزین ( بارود واسلحہ خانہ) اڑا دیاگیا۔
تفصیل اس اجمال کی اس کی اسی طور پر گوشگذارِ واقعہ نگار ہوئی ہے جب باغیان غفار شقاوت آثار نے جاکر میگزین کا محاصرہ کیا تو چند مرد و بان یورپین نگهبانان میگزین میگزین میں موجود تھے اور عورتیں اور بچے وغیرہ جاکر پناہ گرین ہوئے،پہلے تمحصوران مجبور بمقابلہ پیش آئے اور حفاظت اختیاری کے طور پر بندوقیں سرکرتے رہے اور جب بلوائیوں کا غلبہ حد سے گزر گیا اور چار دیواری میگزین کے
اطراف و جوانب میں لوگ پھر گئے اور کوئی صورت جان بچانے کی نظر آئی اور

114
زندگانی سے یاس کامل ہو گئی توبموجب اس مثل کے مرتا کیا نہ کرتا جانِ شیرين سے ہاتھ دھو کر مرنے پر کمر باندھی ناچار آپ ڈوبیں گا اور تجھ کو بھی لے ڈوبوں کا۔
پر عمل کیا اور کار توسوں کے کارخانے میں جاکر کارتوسوں کو آگ لگادی آپا
بھی اڑ گئے اور ایک ہزار کے قریب کو ہمراہ لے کرراہی عدم آباد ہوئے اور کیفیت اس کی اس طور پر سے کہ کچھ لوگ دریا کے جانب کی دیوار کی فصیل پر کھڑے ہوئے تھے
تین جانب خلائق کا مجمع تھا۔ اورتہ خانہ کارتوسوں کا زیر دیوارشهر پناہ تھاجب وه ته خانہ اُڑا ہے تو پچاس گز دیوار شهر پناہ کی اُڑ گئی اور جس قدر آدمی ڈنڈی پر تھے اُڑ گئے تھے۔ وہ اڑگئے کچھ اس طرح ضائع ہوے اور اکثرصدمات سنگساران سے
سنگسار ہوئے وہ عورتیں اور بچے جو اور کمروں میں چھپے ہوئے تھے اور پانچ چار بوڑھے جو بچ رہے تھے ۔ مگر بھی زخمی ہو گئے تھے ان کو پوربیوں نےگرفتار کر لیا۔
قیدیوں کی رہائی کی کوشش : اس اثنا ملازمانِ۔ معہ حکیم احسن اللّہ خان مگانِ خاسامانی میں سے اُٹھ کر سب دیوان خاص میں آگئے چھ بجنے میں کچھ منٹ ہیں یا بج چکے ہیں روزہ کشائی کا وقت قریب قریب ہے تشنگی کے مارے جان پر بنی ہوئی
ہے۔آفتاب لبِ بام پہنچ گیا۔بلند مکانوں کے کلسوں پر زور زور سے دھوپ کی چمکتی معلوم ہوتی ہے۔
کہ یکایک لال پردہ کے دروازہ سے جمِ غفیر خلائق نمودار ہوتا ہے اور جب وہ اجماع کثیر دیوانِ خاص کے کے صحن میں پہنچا تو دیکھینے میں آیا کہ پچاس پچین عورتیں اور بچے اور
چار پانچ مرد چلے آتے ہیں، اورگرد ان کے ایک حلقہ پوربیوں کا ہے اور
114
ً115
ًخلائق کا ہجوم ہے۔ ان قیدیوں کو پوربیوں نے تسبح خانہ کی سیڑھیوں پر بٹھایا۔
ہم ان کو اٹھ کر دیکھنے لگے توان کی اس وقت کیفیت سر سے پا تک اٹے ہوئے تھے کیسے پریشان اور پراگندہ احوال تھے ۔ان لوگوں نے جو تسبح خانہ کی
سیڑھیوں کی طرف منہ کر کے ہمیں کھڑے دیکھا تو گڑگڑا کے پانی کا اشارہ کیا۔آبدار خانے سے دوستوں کو بلوایا وہ دو مشکیں پانی کی بھر کر لائے اور اُن لوگوں کے باتھ منہ
دھلوائے اور اوّک سے سب کو پانی پکوا دیا مگر کچھ چھوٹے بچے تھے کہ وہ اوک سے پانی نہ
پی سکتے تھے۔ مجھے ان کے حال پرترس آیا میں نے دو آبخورے کاغذی آبدار خانے سے طلب کیے
اور ان کی ماؤں کو دلائے کہ بچوں کو پانی پکواؤ ۔جب لوگوں نے
پانی پیا اور ہوش درست ہوئے امتفق اللفظ سب نے کہا کہ بھائی مسلمانو!
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ ہم سب مسلمان ہوتے ہیں ہم کو جان سے نہ مارو
جب یہ بات ان لوگوں کی زبان سے اپنے کانوں سے سنی تو بے اختیارمیرے آنسو رواں تہوئے دو چار آدمی اور تھے سب آبدیدہ ہوگئے ۔یہ خبر اندر حضور
کوئی اندر سے بادشاہ کا حکم آیا کہ فوج والوں کو تم لوگ سمجھاؤ کہ اُنکی حراست سے اپنی حراست میں لے لیں ۔
اس وقت جوسپاہی سوارو افسر وغیرہ موجود تھے مجھے خوب اچھی طرح یاد ہے
کہ ازاں جملہ دو شخص بھی موجود تھے ایک تو گلاب خان رسلدار رسالہ سوم انگریزی۔
دوسرا صوبیدار قادر بخش صوبیدار سفر میناپلٹن کے دونوسن رسیدہ معمر تھے ان کے سن پچاس سے تجاوز کر گئے تھے پچاس اور ساٹھ کے بین بین میں تھے اور
بہ نسبت و گراں کسی قدر رقیق القلب اور رحمدل بھی معلوم ہوتے تھے۔ ان
- 115
 

شمشاد

لائبریرین
داستان غدر صفحہ 226

آٹھواں باب

مہاراجہ جے پور کے حالات

مہاراجہ صاحب مہاراجہ رام سنگھ جی سری سوامی نہایت دانشمند روشن دماغ بیدار مغز، مدبر مصلحت اندیش، موحد کیش، رعایا پرور، داد گستر، عادل، فیاض، بلا تعصب، انصاف دوست، حلیم الطبع، سلیم الفکر، خوش تدبیر، مستقل المزاج، خوش رُو، خوش خو، بجمیع محاہد ذاتی و صفاتی موصوف تھے۔ اس مزاج کا کوئی رئیس ہندوستان میں نہ تھا۔ ان مہارجہ بہادر سے اتر کر شاید نواب یوسف علی خاں صاحب بہادر والیٔ رام پور تھے کہ وہ بھی نہایت درجہ منتظم اور حلیم و سلیم تھے۔ مہاراجہ صاحب کی بنا فرمانروائی خرد مندی ہے۔ کئی سو پرچہ نویس چوکی خانہ میں متعین تھے۔ تمام ہندوستان کا روزنامچہ روزانہ مہاراجہ صاحب کی نظر سے گذرتا تھا۔ جتنی ریاستیں ہندوستانی ہیں، سب جا اُن کا خبر نویس موجود رہتا تھا۔ حتے کہ حیدر آباد اور دیپور وغیرہ میں اور دفتر گورنری میں خبر نویس موجود تھا۔ گورنر بہادر کے ہمراہ پھرتا تھا اور ذرا ذرا سی خبر مہاراج کو پہنچاتا تھا۔ ہزارہا روپیہ کا صرف محکمہ خبر کا تھا۔ اور

داستان غدر صفحہ 227

جا بجا پرچہ نویسوں کو تنخواہیں معقول پہنچتی تھیں۔ اپنی ریاست میں کوئی محکمہ کوئی تعلقہ کوئی نظامت، کوئی تحصیل، کوئی تھانہ، کوئی کارخانہ ایسا نہ تھا جہاں خبر نویس نہ ہو۔ خبر کے داروغہ کو حکم تھا کہ اگر کوئی ضروری خبر ہو اور ہم زنانے محلمیں آرام کرتے ہوں تو ہم کو بیدار کر کے خبر پہنچا دو۔ لندن میں ملکہ معظمہ کی خدمت میں مزاج پرستی کا تار روز روانہ ہوتا تھا۔ کسی ایجنٹ رزیڈنٹ کی مجال نہ تھی کہ ان کے منشا کے خلاف ورزی اختیار کرے۔ ہاں اس کی خاطر و مدارت داد و دہش مہمانداری میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ ہوتا تھا۔ ایک ادنے وصف ان کا یہ تھا کہ تمام عمر کسی نوکر یا مجرم وغیرہ کی نسبت کوئی کلمہ خلاف تہذیب دشنام وغیرہ زبان سے نہیں نکلا۔ کسی کو تو نہیںکہا، ادنے آدمی سے بھی جی کہہ کر خطاب کیا۔ بہت خفا ہوئے کسی پر تو جا بیوقوف تکیہ کلام تھا۔ مگر باوجود اس حلم کے رعب و جلال ان کا ایسا تھا کہ گیانبی گیاب ڈالتی تھی۔ جب کبھی وہ خاموش ہو گئے، یہ جان لو غضب آ گیا۔ لوگ سمجھ جاتے تھے کہ آج خیر نہیں۔ مزاج برہم ہے۔ تمام اراکین دولت مارے خوف کے تھراتے تھے۔

مہاراجہ صاحب کے زمانۂ بے اختیاری میں راول جی صاحب مختار تھے۔ جیپور میں خاک اُڑتی تھی۔ کُل چوبیس لاکھ روپیہ زر خالصہ کی آمدنی تھی۔ نہ کوئی محکمہ نہ بندوبست تھا۔ فقط زبانی جمع خرچ تھا۔ رجواڑی گھس گھس تھی۔ جے پور نے جو ترقی پائی ہے اور تہذیب کی روشنی پھیلی ہے۔ وہ مہاراج کے زمانہ میں ہوئی ہے۔مہاراج صاحب کو جب اختیار حاصل ہوئے ہیں اور پنڈت جی صاحب مصاحب اور مدار المہام ہوئے ہیں۔ تب باون محکمے اور کچہریاں اور نظامتیں اور ضلع اور تحصیلیں اور تھانے قائم کیے گئے ہیں اور انتظام ملکی اور مالی۔ فوجداری کلکٹری عدالت نوشیروانی کے قانون

داستان غدر صفحہ 228

تصنیف ہوئے اور ان پر عملدرآمد ہوا۔ ادنے سی بات یہ ہے کہ کروڑہا روپیہ تعمیر بندوں اور تالابوں اور انتظام آبپاشی پر صرف کر دیا گیا۔ سڑکیں اور صفائی شہر اور مدارس اور شفا کانے تماممالک محروسہ میں جاری ہو گئے۔ جے پور کے پانی کا انتظام نلوں کے ذریعہ سے اور روشنی گیاس کا انتظام لالٹینوں وغیرہ کے ذریعے سے ہوا۔ ڈاکوؤں اور قطاع الطریقوں اور رہزنوں، غارتگروں، ٹھگوں، پھانسی گروں وغیرہ کے انسداد کے واسطے محکمہ گرانی انسداد ڈکیتی و ٹھگی قائم کر کے ایسے سخت قانون نافذ فرمائے کہ پناہ دہندگان کے ہوش باختہ ہو گئے۔ ورنہ جے پور کے دروازے سے باہر رستہ نہین تھا۔ جتنے نامی نامی غارتگر بدنین بہزن تھے سب پکڑ پکڑ کر قلعوں پر چڑھا دیئے گئے اور سب سرکشوں اور پناہ دہندوں کے کان میں کوڑی ڈال دی گئی۔ مہاراجہ صاحب کو اپنے ادنے ادنے آدمی کا پاس تھا۔ اور یہ حکم تھا کہ مار آنا پٹ کر نہ آنا، میں سمجھ لوں گا۔ پھر تو یہ حال ہو گیا سونا اُچھالتے ریاست جے پور میں پھرو۔ کیا مقدور ہے کوئی نظر اُٹھا کر دیکھ لے۔ یہ انتظام ہو گیا کہ شیر بکری ایک گھاٹ پانی پینے لگے۔

عدل و انصاف کا یہ حال تھا کہ چند انصاف مہاراجہ صاحب کی ذات سے ایسے ظہور میں آئے ہیں جیسے بادشاہاں سلف کے مشہور روزگار ہیں۔ ازانجملہ ایک یہ معرض بیان میں آتا ہے۔ ریاست ٹونک کے چند قصاب کچھ مویشی خرید کے ریاست جیپور سے ٹونک کو لئے جاتے تھے۔ اثناء راہ میں ایک منزل پر مقیم ہوئے، کچھ گھانس وغیرہ خرید کر مویشی کے آگے ڈال دیا۔ اس قصبہ کا ایک سانڈ آیا اور اسے کھانے لگا۔ اور مویشی کو مار کر ہٹا دیا۔ قصابوں نے جو یہ امر دیکھا تو اُس نر گاؤ کو لکڑی سے مار کر بھگا دیا۔ پھر تھوڑی دیر میں وہ آ کر چانے لگا۔ پھر ہٹا دیا گیا۔ جب دو چار مرتبہ ایسا ہوا تو

داستان غدر صفحہ 229

ایک قصائی کو غصہ آیا اور اس نے تلوار کھینچ کر اس کے پاؤں پر ہاتھ مارا۔نر گاؤ کا پاؤں قلم ہو کر دور جا پڑا۔پھر کیا تھا۔ ہندو کی عملداری تھی۔ تمام قصبہ میں غُل مچ گیا۔ ہاں ہاںلیجیو دوڑیو، پکڑیو۔ ماریو، چہار طرف سے ہونے لگا۔ بیچارے قصاب گرفتار ہوئے۔ تھانہ دار نے مثل تیار کر کے معہ مجرمان ضلع کو چالان کر دی۔ وہاں سے بعد تحقیقات فوجداری کو روانہ ہوئے۔ فوجداری چونکہ مقدمہ مذہبی ہے، تجویز سزائے سنگین کی رائے لکھی گئی اور مثل محمکہ اپیل کو روانہ ہوئی۔محکمہ اپیل سے کوئی اور رائے ظاہر کی گئی۔ حتی کہ محمکہ کونسل میں پہنچی۔ ممبران کونسل کی یہ رائے قرار پائی کہ یہ مقدمہ مذہبی ہے۔ اس میں دھرم شاستر سے موسہ لیا جائے۔ اس کے بموجب تجویز سزا ہونی مناسب ہے۔ چنانچہ دھرم شاستر جی کو بلایا گیا۔ اور موسہ لیا گیا تو انہوں نے حکم قصاص کیا یعنی درجہ اول کی سزائے موت درجہ دوم کی سزا قطع یدین درجہ سوم حبس دوام۔ اب اختیار سزا حکام کو ہے۔ غرضیکہ منظوری کے واسطے پیشی رکھی گئی۔ اور کسی وقت پر مہاراج کے سامنے پیش ہوئے۔ مہاراج نے از ابتدا تا انتہا مسل کا ایک ایک حرف سُنا اور سب محمہ جات کی رائے سُنی۔ پھر حکم دیا کہ شاستر ی جی کو بُلواؤ۔ جب شاستری جی آئے تو ان سے فرمایا کہ آپ نے یہ سزا بموجب اپنے مذہب کے تجویز کی ہے یا بموجب شریعت مسلمانان۔ انہوں نے جواب دیا بموجب دھرم شاستر ۔ مسلمانوں کے مذہب سے کیا کام ہے۔ مہاراج نے فرمایا کہ مجرم غیر مذہب کا آدمی ہے۔ شرط عدالت یہی ہے کہ اس کے مذہب کے موافق سزا بدنی تھی۔ اس مقدمہ میں شریعت اہل اسلام سے فتوے لینا تھا۔ یہ کاروائی ناجائز ہے کیونکہ ان کے مذہب میں اس کا کھانا روا ہے۔ ہمارے نزدیک یہی سزا کافی ہے کہ دوران مقدمہ کو عرصہ ڈیڑھ سال کا منقضی ہو گیا ہے۔ یہی میعادِ قید کافی ہے۔ مجرم کو رہائی دی جائے۔ اور اُسی

داستان غدر صفحہ 230

وقت اس کو رہا کر دیا۔ یہ انصآف بھلا کسی ہندو راجہ سے ہو سکتا ہے۔ ہرگز نہیں ہو سکتا ہے۔ اسی طرح کے بہت سے انصاف مہاراج کے ہیں۔مہاراجہ صاحب اپنے وقت کے نوشیروان عادل تھے۔ حلم و تحمل کا یہ حال تھا کہ ایک بار ایک غریب مسافر امیدوار بہت روز سےاس جستجو میں ہے کہ کسی طرحمہاراجہ صاحب تک باریابی ہو تو کچھ اپنا عرض حال کیا جائے، مگر کوئی موقعہ دستیاب نہ ہوتا تھا۔ ایک دن یہ محل کی ڈیوڑی پر کھڑے تھے کہ پہرہ دار ڈیوڑھی سے ٹہلتا ہوا پرے کو سرک گیا۔ یہ موقعہ پا کر جب ڈیوڑھی کے اندر داخل ہوئے اور سیڑھیوں پر سے چڑھ کر خاص اس کمرے میں پہنچے، جہاں مہاراجہ تشریف رکھتے تھے اور اتفاق سے اس وقت پر دہ تھا اور زنانی سواریاں تشریف رکھتی تھیں اور خاص مہارانی صاحبہ موجود تھیں۔ پس یہ دیکھتے ہی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر پچھلے قدموں پلٹےا ور مہاراجہ صاحب نے ان کو دیکھا اور اُٹھ کر آئے۔ انہوں نے سلام کیا۔ مہاراجہ صاحب نے آ کر انکے دونوں ہاتھ پکڑلئے اور پوچھا تم کون ہو۔ انہوں نے بیان کیا کہ بندہ اللہ کا۔ پھر مہاراج نے فرمایا بندے اللہ کے تو سب ہیں، آپ کون ذات ہیں اور کون ہیں۔ انہوں جواب دیا مسافر ہوں اور مولوی ہوں۔ مہاراجہ صاحب۔ اس مقام پر کیا کام ہے۔ مولوی صاحب۔ آپ کے پاس کچھ عرض کرنے آیا تھا۔ مہاراجہ صاحب۔ کیا عرض حال ہے۔ مولوی صاحب : عیال دار ہوں بیدستگاہ ہوں۔ امیدوار روزگار ہوں۔ مہاراجہ صاحب۔ پہرانی نے تم کو نہ روکا۔ مولوی صاحب۔ اس کا قصور نہیں۔ وہ ٹہل کر پرے کو گیا، میں آنکھ بچا کر یہاں چلا آیا۔ قصور میرا ہے۔میں حضور کا قصور وار ہوں۔ جو چاہیں میرے نسبت سزا تجویز فرمائیں۔ بہرحال مستوجب عقوبت ہوں کہ ایسے محل پر حاضر خدمت ہوا۔ مگر حضور بادشاہ

داستان غدر صفحہ 231

وقت ہیں اور شہزادی اور بیگمات رعیت کے ماں باپ ہوتے ہیں اور رعیت بمنزلہ فرزند و اولاد ہوتی ہے۔ پھر اولاد سے مادروں کا کیا پردہ ہوتا ہے۔ مہاراجہ صاحب : آپ مولوی ہیں۔ آپ نے تحصیل علوم کہاں کی۔ مولوی صاحب : لکھنؤ میں۔ مہاراجہ صاحب : صداقت اس کی۔ مولوی صاحب : میرا امتحال لیا جائے۔ مہاراجہ صاحب : آپ اگر مولوی نہ ہوتے تو اس وقت آپ کی نسبت خدا جانے کیا سزا تجویز کرتا۔ میں فرقۂ علماء و فضلا کو اپنا مقتدا اور پیشوا سمجھتا ہوں۔ خیر یہ حرکت آپ سے ہوئی تو بسبب نادانی کے ہوئی ہیں۔ میں نے معاف کی۔ چیلوں کو آواز دی۔ ایک چیلہ آ کر حاضر ہوا مولوی صاحب کو مولوی رشید الدین صاحب کے پاس لے جاؤ اور مولوی صاحب پاس جا کر کہہ، ان مولوی صاحب کو آپ کے پاس بھیجا جاتا ہے کہ ان کے علم و فضل کا امتحان لے کر آپ اسی وقت مجھے اطلاع دیجیے۔ اگر امتحان میں درست اتریں تو ان کو کسی مدرسہ کی مدرسی پر مامور کر کے مجھے اطلاع دیں۔ چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا اور مولوی رشید الدین صاحب نے ان کے علم و فضل کی تعریف لکھ کر تیس روپیہ ماہوار کی اسامی پر مامور کیا۔ بھلا ایسا حلم و تحمل کسی دوسرے رئیس سے ہو سکتا ہے۔ یہ مہاراج رام سنگھ جی کا ظرف عالی تھا۔

مہاراجہ کے خصائل

مہاراج رام سنگ کی صحبت میں ہر قسم کے اشخاص موجود رہتے تھے۔

دو چار درویش مصری مسلمان صوفی الطریق دو چار ہندو فقیر بیراگی موحد خدا پرست۔ مہاراجہ کا طریقہ صوفیہ مواخدا نہ تھا۔ پیشتر مسائل تصرف کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ درویشانہ مزاج رکھتے تھے۔ زیبایس امیرانہ سے نفور تھے۔ لباس شاہانہ رکھتے تھے۔ تکلف سے

داستان غدر صفحہ 232

سے برکنار تھے۔ گھوڑے کی کڑوی بچھا کر سو جایا کرتے تھے۔ پلنگ، چھپر کحٹ کی استراحت پر نام رکھتے تھے۔ بے تکلفی کو بہت پسند کرتے۔ مزاج میں عجز و انکسار بدرجۂ غایت تھا۔ نخوت اور رعونت کسی طرح کی نہ تھی۔ صحبت میں دس پانچ فقیر۔ دو چار حکیم، ایک دو ڈاکٹر، ایک دو انگریز، دو چار رنڈیاں، ایک دو ارباب نشاط۔ ہر فن کے ایک دو شکار جاننے والے۔ ایک دو پتنگ باز وغیرہ ہر وقت موجود رہتے تھے۔ جہاں جاتے تھے، یہ جمگھٹا ان کے ساتھ جاتا تھا اور تھوڑے سے راجپوت سردار بھی ساتھ ہوتے تھے۔ مسلمانوں سے بہت رغبت تھی۔ ہمقوم سے ایک مرد پیر نابینا باجو میاں نام پرانا رفق تھا اور شب و روز پاس رہتا تھا۔ حتے کہ مہاراج کے شبخوابی کے کمرے کی خدمت بھی۔ اس کا حجرہ تھا۔ صبح کو مہاراج اس کا مُنہ دیکھ کر بیدار ہوا کرتے تھے۔ وہ مرد با خدا قبل از نماز صبح بیدار ہو کر حوائج ضروری سے فارغ ہو کر نماز پڑھتا اور بعد درود و وظائف مہارج کے پاس جا کر مونہ بالا پوش یا چادر اٹھاتا اور آواز دیتا کہ مہاراج صبح کا وقت ہے۔ بیدار ہو کر خدا رسول کا ذکر کرو تو مہاراج فوراً آنکھیں کھول کر پہلے اس کا کا منہ دیکھتے تھے۔ بعد اور اشخاص کا مجرا لیتے تھے۔ لاکھوں روپیہ لوگوں کو داد و دہن کے مسافر خانوں میں بھی غربا مساکین فقرا مسافرین کو سدا برت تقسیم ہوتا تھا۔ ایک ایک پیٹیا فی کس ملتا تھا۔ پیٹیا کی مقدر یہ تھی، آرد گندم سیر بھر، دال پاؤ بھر، روغن زرد چھٹانک بھر، قند سیاہ پاؤ بھر۔ دو پیسے نقد۔ یہ کئی سو پیٹیاں معمولی روز تقسیم ہوتا تھا۔ علاوہ خیر خیرات جے پور کی مشہور ہے۔

محرم

محرم کی تعزیہ داری کے واسطے بارہ بیڑے فوج کے تھے۔ اُن کو ڈھائی ڈھائی سو روپیہ تقسیم ہوتے تھے اور خاص تعزیہ داری جو حضور کی ہوتی

داستان غدر صفحہ 233

تھی اس کا صرف نیاز نذر علیٰحدہ تھا۔ اور بیڑے پیچھے پچاس جوان کی نوکری معاف تھی۔ تعزیہ تیارکے کے لئے۔

حجاج کی امداد

حجاج کو ہر سال بیس پچیس ہزار روپے زاد راہ حج کے لئے اور چھ ماہ کی رخصت عطا ہوتی تھی۔ نتیجہ اس خیر و برکت کا یہ ہوا کہ آمدنی زر خالصہ کی کروڑ روپیہ سے اوپر ترقی کر گئی۔ اور چاکر اور صیغۂ خیرات علیٰحدہ۔

وفات

جب مہارج رام سنگ جی نے انتقال فرمایا ہے۔ تو رعیت آسودہ حال فارغ البال خزانے مالا مال، ملازم شاد و آباد تھے۔ تمام شہر میں تین روز ماتم رہا ہے۔۔ شہر جے پور باعتبار خوش حالی عمارت و لطافت اور بحالی بلاد ہند میں اپنا نظیر نہیں رکھتا ؂

اگر فردوس بروئے زمین است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

اللہ اس ریاست کو آباد رکھے، بڑا غریب پرور ملک ہے۔

بعد انتقال مہاراج رام سنگھ کے ایک انقلابِ عظیم برپا ہوا اور مہاراجہ مادہو سنگھ بہادر تخت نشین ہوئے۔ ان کے زمانۂ بے اختیاری میں ایک عجب طوفان بے تمیزی برپا تھا۔ ایک کو ایک کھائے جاتا تھا۔ ٹھاکر فتح سنگھ جی اور سلس صاحب ایجنٹ جے پور ریاست کا کام کرتے تھے۔ عجیب ایک اندھیر تھا کہ کچھ بیان نہیں ہو سکتا۔ جےپور کے عہدے کے لئے بازار بھرے تھے، اخباروں میں شائع ہوتا تھا۔ جے پور کی نوکری مالن کا ٹؤکرا ہے۔ جس کے جی میں آئے خرید لے۔

داستان غدر صفحہ 234

غرضیکہ اس انقلاب پُر آشوب میں جتنے ملازم مہاراج کے وقت تھے۔ سب خانہ نشین ہو گئے اور نئے نئے آدمی روپے خرچ کر کے نوکر ہو گئے۔ ایک ٹھاکر سردار جنرل سپرنٹنڈنٹ ہوئے اور انہوں نے قدیمیوں کو بطمع مال موقوف کرنا سروع کیا اور جدید نوکر رکھے گئے۔ ہم چار اضلاع میں چار ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ تھے۔ چاروں یک قلم موقوف ہوئے۔ مجھے ڈیڑھ دو برس تک نالش و فریاد رہی۔ آخر وہ صاحب ایجنٹ بھی موقوف ہوئے اور ٹھاکر فتح سنگھ بھی موقوف اور نیا دانہ نیا پانی ہو گیا۔ اور وہ جنرل سپرنٹنڈنٹ بھی قید ہو گئے۔ مگر فریادیوں کی کچھ داد رسی نہ ہوئی۔ اور کوئی بحال نہ ہوا۔ چونکہ میں بھی ان ہی ہر چہار ڈپٹیوں کی موقوفی میں شامل تھا۔ مجبور خانہ نشین ہونا پڑا۔ چودہ برس تک مہاراج رام سنگھ کی نوکری کی، تین برس مہاراج مادھو سنگھ بہادر کی۔ اس کا صلہ کارگذاری یہ ملا کہ بے قصور موقوف ہو کر گھر بیٹھنا پڑا۔ مگر ریاست نے میرے حقوق قدیم الخمتی پر نظر کر کے میرے فرزند سجاد مرزار کو تھانہ دار کر دیا تھا۔

ریاست کی آمدنی

مجھے اس ملک میں وارد ہوئے قریب چالیس سال کے عرصہ منقضی ہونے کو آیا ہے۔ اس ملک کا گوشہ گوشہ میرا دیکھا ہوا ہے۔ اس کا طول جنوب و شمال میں قریب تین سو میل کے ہو گا اور عرض مشرق و مغرب میں قریب ڈیڑھ سو میل کے ہو گا۔ زدِ محاصل اس ملک کا ایک کروڑ روپیہ کا تخمینہ تھا۔ اس کی تقسیم تین حصوں پر منقسم کی گئی تھی۔ ایک حصہ زر خالصہ ریاست یعنی تینتیس (33) لاکھ روپیہ آمدنی ریاست اور اسی قدر تینتیس لاکھ چاکر داروں، ان میں سب بھائی بیٹے ریاست کے تیسرے حصہ میں صیغہ خراب، وہ بھی تینتیس لاکھ ۔ ان میں پرورش برہمنان اور خرچ اخراجات معبد گاہان و مندران وغیرہ اورک انعامات

داستان غدر صفحہ 235

وغیرہ میں۔ صیغہ یہ امر قبل از اختیارات مہاراجہ رام سنگھ بہادر ایسا شمار کیا جاتا تھا، مگر زمان مہاراجہ صاحب ممدوح میں نہایت خوشی سے داد و دہش مہاراجہ صاحب سہ چند ترقی پا گیا۔ اب قریب ایک کروڑ سے زر خالصہ کی نشست ہے۔

نواب احمد علی خاں رونق

قریب اٹھارہ انیس سال کے میرا زمانہ نوکری سرکار میں بسر ہوا۔ اس عرصہ میں شعر و سخن کی بھی بہت کم فرصت ملی۔ اس عرصہ یں شاید کوئی پچاس چالیس غزل اور ایک دو قصیدے کا اتفاق ہوا، وہ بھی بجبر۔ جب کبھی نہایت تاکید اور میرے دوست آشنا نے ازحد جبر کیا تو مجبور مشاعرہ کی غزل لکھ کر شریک بزم ہو گیا۔ اکثر حکیم محمد سلیم خاں صاحب فرمائش کر کے غزل لکھواتے تھے۔ بالطبع میری طبیعت راغب نہ تھی اور احباب کے فرمان سے مجبور تھا۔ ایک روز حُسن اتفاق سے میں اپنے تھانہ سانگانیر میں تھا اور مہاراجہ صاحب بھی وہیں تشریف رکھتے تھے اور ڈیوڑھی پر میرا بندوبست اپنی نوکری پر حاضر تھا جس باغ میں مہاراجہ صاحب فروکش تھے، اس کے دروازہ کی چوکی پر میں بیٹھا ہوا قلیان پی رہا تھا۔ تو دیکھتا کیا ہوں کہ ایک بزرگوار ساٹھ پنسٹھ برس کا سن و سال، جسیم، شکاری لباس ماشی رنگ کا انگرکھہ مانسی پاجامہ مانسی عمامہ جسیسر سے وار ہوئے اور تانگہ پر سے اُتر کر میرے پاس آئے۔ میں نے تعظیم دی۔ میرے پاس بیٹھ کر فرمایا میں حقہ پیوں گا۔ میں نے کلی پیش کر دی۔ حقہ پینے لگے۔ مجھ سے دریاف کیا کہ تیرا نام کیا ہے۔ میں نے جواب میں کہا۔ حقیر کو ظہیر الدین کہتے ہیں۔ یہ سُن کر ذرا متامل ہوئے۔ بعدۂ دریافت کیا کہ آپ یہاں کیوں ہیں۔ میں نے کہا۔ نوکری پر میں یہاں تھانہ دار ہوں۔ پھر فرمایا ظہیر دہلوی تو آپ نہیں۔ میں نے کہا دہلوی تو
 
Top