99 ناموں میں تو حلیم کا کوئی ذکر نہیں
سلیمان برادر! یہ ”غلط العام“ ہے۔ (”غلط العام“ اور ”غلط العوام “ دو الگ الگ اصطلاحات ہیں) شکریہ ادا کرنے والا ”شاکر“ اور جس کا شکریہ ادا کیا جائے وہ ”مشکور“ کہلاتا ہے ، جیسے عابد، عبادت کرنے والا اور جس کی عبادت کی جائے، وہ معبود کہلاتا ہے۔ اردو کے اساتذہ (برادرم عاطف بٹ متوجہ ہوں ) کے مطابق ایسے موقع پرمیں آپ کا ”ممنون ہوں“ کہنا زیادہ فصیح ہے۔ لیکن یہاں چونکہ کوئی ”دینی مسئلہ“ نہیں ہے لہٰذا اگر غلط طور پر ہم ”مشکور ہوں“ بھی کہتے رہیں تو کہتے رہیں۔میرے بھائی اگر کسی کا شکریہ ادا کرنا ہو تو کیا۔۔ یہ لفظ ٹھیک ہے؟ " مشکور ہوں"
آپکے جواب کا انتظار ہے محترم یوسف ثانی صاحبرب اللہ تعالیٰ کا ایک مشہور صفاتی نام ہے لیکن اسی رب کے کلام یعنی قرآن کریم میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے عام انسانوں کیلئے بھی یہی لفظ استعمال کیا ہے۔۔اس پر کیا کہیں گے؟ بہتر ہوگا کہ آپ شرک یا بے ادبی کے بارے میں اپنے تصورات کی تصحیح کرلیں کیونکہ انکی زد سے تو کوئی محفوظ نہیں رہا
جی آپ اسی طرف آ گئے جس طرف میں لانا چاہتا تھا۔۔۔ آپ نے اچھی تشریح کی ہے۔۔۔ مگر یہ لفظ اردو اصطلاح میں صحیح ہے۔۔ یہیں سے آپ بات سمجھ سکتے ہیں۔ اگر کوئی اردو کا ٹیچر ہو تو وہ بھی ہماری اصلاھ کر سکتے ہیں۔۔۔ بات دینی مسئلہ کی نہیں ہوتی۔۔ زبان کی ہوتی ہے۔۔ بہت سے الفاظ اگر عربی میں کسی اور اصطلاح میں استعمال ہوتے ہیں تو اردو میں کسی اور میں۔۔۔۔سلیمان برادر! یہ ”غلط العام“ ہے۔ (”غلط العام“ اور ”غلط العوام “ دو الگ الگ اصطلاحات ہیں) شکریہ ادا کرنے والا ”شاکر“ اور جس کا شکریہ ادا کیا جائے وہ ”مشکور“ کہلاتا ہے ، جیسے عابد، عبادت کرنے والا اور جس کی عبادت کی جائے، وہ معبود کہلاتا ہے۔ اردو کے اساتذہ (برادرم عاطف بٹ متوجہ ہوں ) کے مطابق ایسے موقع پرمیں آپ کا ”ممنون ہوں“ کہنا زیادہ فصیح ہے۔ لیکن یہاں چونکہ کوئی ”دینی مسئلہ“ نہیں ہے لہٰذا اگر غلط طور پر ہم ”مشکور ہوں“ بھی کہتے رہیں تو کہتے رہیں۔
انسان ہونے کے ناتے کبھی کوئی برہم ہوتا ہے تو کبھی کسی کو پیار آتا ہے ۔۔۔ سو ہم بھی برہم ہوگئے آپ ناراض نہ ہوںجس طرح دال دلیہ سے بنا ”دلیم“ آپ کے لئے اتنا ”مقدس اور محترم“ ہے کہ اس کا غلط العام نام (جو اللہ تبارک تعالیٰ کا ایک صفاتی نام ہے ) کو تبدیل کرنے پر آپ اس قدربرہم ہورہے ہیں، اسی طرح بہت سے مسلمانوں کے نزدیک اللہ اور اس کے 99 صفاتی نام بھی بہت مقدس و محترم ہیں۔ انہیں بھی ان ناموں کو کھانے پینے یا دیگرمعمولی چیزوں کے لئے استعمال کرنے پر سخت ”اعتراض“ ہے۔ ۔
اگر آپ اردو زبان و ادب سے بخوبی واقفیت رکھتے ہوں تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس زبان میں ”شعائر اسلامی سے جڑے“ بہت سے الفاظ کی ”بے توقیری“ کے لئے ”بے دین ادباء و شعراء“ نے دیدہ و دانستہ انہیں حقیر اور ادنیٰ سے منسوب کرکے مشہور کردیا ہے تاکہ ہم جیسے عاشقانِ اردو نادانستہ طور پرہی سہی ”اردو زبان و ادب“ کو شعائر اسلامی پر ترجیح دنے میں کوئی مضائقہ نہ سمجھیں۔
اگر میں بھی اسی طرح کے مولویوں کا رویہ اپناؤں تو
لفظ "یوسف ثانی" پر گرفت کر سکتا ہوں ۔۔۔ یوسف ثانی کا مطلب ہمیشہ سے یہی ہے کہ ایک یوسف تو اللہ کے پیغمبر تھے یہ وہ تو نہیں لیکن صفات و ذات کے اعتبار سے اس کا ثانی ہے ۔۔ یعنی اسی جیسا ہے۔ یا اسی کا ہم پلہ ہے۔
کیا یہ شرک فی النبوت نہیں ہوگا۔۔ کیا اپنے آپ کو کسی نبی کا ہم پلہ سمجھ لینا نہیں ہوگا لیکن نہیں ایسا ہرگز نہیں ۔۔۔ یہ ایک جاہلانہ بات ہوگی ۔۔ جو کو حلیم کو دلیم کہنے پر اصرار کرنے والا مولوی ہی کر سکتا ہے۔
اردو ادب میں اور شاعری میں ہمیشہ لفظ "یوسف ثانی" کو کسی کے "حسن و جمال" کو مبالغہ آمیز انداز میں بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس میں ہرگز شک فی النبوت کا احتمال نہیں لہذا یوسف ثانی بے غم رہیں میں کوئی ایسا فتوا نہیں دونگا ۔۔۔ اور یوسف ثانی آپ تو خوبصورت بھی ہیں ما شأ اللہ
صد فیصد متفقجی آپ اسی طرف آ گئے جس طرف میں لانا چاہتا تھا۔۔۔ آپ نے اچھی تشریح کی ہے۔۔۔ مگر یہ لفظ اردو اصطلاح میں صحیح ہے۔۔ یہیں سے آپ بات سمجھ سکتے ہیں۔ اگر کوئی اردو کا ٹیچر ہو تو وہ بھی ہماری اصلاھ کر سکتے ہیں۔۔۔ بات دینی مسئلہ کی نہیں ہوتی۔۔ زبان کی ہوتی ہے۔۔ بہت سے الفاظ اگر عربی میں کسی اور اصطلاح میں استعمال ہوتے ہیں تو اردو میں کسی اور میں۔۔۔ ۔
آپ کی بات ٹھیک۔۔ لیکن زبان علاقے کے حساب کے ہی بولی جاتی ہے۔۔ ہر لفظ کا لغوی معانی ہوتا ہے۔۔ اسی لیے اساتذہ اس کے ظاہری معانی کو نہیں دیکھتے۔۔۔۔ بلکہ صرف لغوی معانی دیکھا جاتا ہے۔۔۔صد فیصد متفق
لیکن مسلمان کوئی بھی زبان استعمال کرتے ہوں، اگر انہیں ”اپنی زبان“ کا کوئی لفظ ”شعائر اسلامی“ سے ٹکراتا ہوا محسوس ہو تو انہیں اُس لفظ کو تبدیل کرنے یا ترک کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے،(زبان ایک ثانوی چیز ہے، اولیت دین کو حاصل ہے) بالخصوص اگر اس زبان کے بولنے والوں کی اکثریت مسلمانون پر مشتمل ہو۔ جیسا کہ برصغیر میں اردو کو ”مسلمانوں کی زبان“ ہی کہا اور سمجھا جاتا ہے۔
لیکن میری اس بات سے آپ کا یا کسی اور کا ”متفق” ہونا ضروری نہیں ہے اور ”معترض“ ہونا بھی غیر ضروری ہے
ابھی کل ہی کسی دھاگے میں شعائر اللہ کی بات ہورہی تھی، اس خاکسار نے عرض کیا تھا کہ قرآن مجید میں حج کے موقع پر قربانی کیلئے لیجائے جانے والے جانوروں اور انکے گلے میں لٹکائی گئی تختیوں کو بھی شعائر اللہ کہا گیا ہے۔ اس پر آپ نے از راہِ طنز فرمایا تھا کہ مسلمان کل کلاں شعائراللہ کے اس فلسفے کو استعمال کرتے ہوئے گلی گلی میں تبرکات اور آثار کو شعائر اللہ کا نام دیکر انکے اردگرد طواف اور پوجا پاٹ شروع کرسکتے ہیں۔کوئی لفظ ”شعائر اسلامی“ سے ٹکراتا ہوا محسوس ہو تو انہیں اُس لفظ کو تبدیل کرنے یا ترک کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہونا
بہت ہی خوبصورت انداز میں سمجھایا۔۔ابھی کل ہی کسی دھاگے میں شعائر اللہ کی بات ہورہی تھی، اس خاکسار نے عرض کیا تھا کہ قرآن مجید میں حج کے موقع پر قربانی کیلئے لیجائے جانے والے جانوروں اور انکے گلے میں لٹکائی گئی تختیوں کو بھی شعائر اللہ کہا گیا ہے۔ اس پر آپ نے از راہِ طنز فرمایا تھا کہ مسلمان کل کلاں شعائراللہ کے اس فلسفے کو استعمال کرتے ہوئے گلی گلی میں تبرکات اور آثار کو شعائر اللہ کا نام دیکر انکے اردگرد طواف اور پوجا پاٹ شروع کرسکتے ہیں۔
میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے ایک گروہ کی خوش عقیدگیوں کو تو آپ غلو فی الدین یقیناّ سمجھتے ہی ہیں لیکن دوسرے گروہ کی بدعقیدگیوں پر بھی کبھی نظر ڈالئیے۔۔۔ یعنی اگر ایک گروہ پر اگر ایک کیفیت غالب ہے جسکے تحت وہ متبرک آثار کو اللہ سے منسوب ہونے کی وجہ سے اپنی عقیدت اور احترام اور ادب کا مرکز بناتے ہیں تو دوسری طرف بھی ایک گروہ اسی "ادب واحترام " کی دُھن میں ہر چیز کو اللہ کی عظمت کے منافی سمجھتے ہوئے نیست و نابود کرنے پر تلا ہوا ہے۔۔Attitude تو وہی ہے بس سمت کا فرق ہے۔۔
وہ مولانا روم والی مثنوی کی مشہور حکایت تو آپ نے پڑھی ہی ہوگی جس میں ایک شاگرد کو ایک کے دو دو نظر آتے ہیں اور ایک آئینےکے حصول کی ظاطر جب وہ دوسرے کو چکنا چور کرتا ہے تو دونوں ہی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ بقول اکبر۔۔۔
میں نے چاہا تھا کہ کٹ جائیں جو ناقص شعر ہوں
یہ نتیجہ تھا کہ کل دیوان رخصت ہوگیا۔۔۔ ۔
مذہبی انتہا پسدی دہشت گردی فرقہ واریت قتل و غارت مسلمانوں کے خلاف جہاد بھی تو پہلے نہیں ہوتا تھا نا صبر بھائی ایک وقت میں سانس لینا بھی خدا کی فرمانی اور نا فرمانی ہو گا بلکہ اب بھی ہے جو ان کے مذہب یا عقیدے سے اختلاف کرے مارا تو جا رہا ہے آج بھی اور کیا چاہیے ؟ خدا جسے زندہ چھوڑ دیتا ہے مذہبی جنونی اسے نہین چھوڑتے یہ خدا کا کام اپنے ہاتھ مین لے چکےمجھے کوئی اس سوال کا جواب دیگاکہ
اتنے طویل عرصے بعد ہی یہ خیال کیوں کر آیا کہ لفظ "حلیم" کو کسی ڈش کے لیئے استعمال کرنا
نافرمانی کے زمرے میں آتا ہے
کیا آج سے پہلے نہیں آتا تھا
یا کسی "عالم" کو الہام ہوا ہے اس بارے میں
اس کا علاج بھی ہے فتویٰ بازوں کے پاس۔ وہ یہ کہ اردو زبان کی چھٹی کرا کر قومی زبان عربی قرار دے دی جائے۔اس طرح کے تو ہمارے بہت سے الفاظ شرک قرار پائیں گے۔ مثلا نماز کو لے لیجیے، یہ مجوسیوں کی عبادت کا نام تھا جسے وہ اپنی قبل از اسلام کی فارسی میں نماژ کہتے تھے، یہ اسلام سے پہلے مجوسی عبادت کے لیے مخصوص تھا، لیکن اسلام لانے کے بعد ایرانیوں نے اسی لفظ کو اسلامی عبادت کے لیے منتخب کر لیا اور غیر عرب مسلم دنیا میں اب یہی لفظ مستعمل ہے۔ اس طرح اور بہت سے 'مجوسی' الفاظ ہیں جو اسلام سے قبل بالکل الگ معنوں میں استعمال ہوتے تھے لیکن اب اسلامی سیاق و سباق میں استعمال ہوتے ہیں جیسے خدا، روزہ، یزدان، ایزد، فرشتہ، سروش، بہشت، دوزخ، سرنوشت وغیرہ۔
اور عربی بھی سعودی عرب والیاس کا علاج بھی ہے فتویٰ بازوں کے پاس۔ وہ یہ کہ اردو زبان کی چھٹی کرا کر قومی زبان عربی قرار دے دی جائے۔
جب آپ جیسے دانشور نے اپنے تئیں میرے قلمی نام پر ” علمی اعتراض“ کرکے خود ہی اس اعتراض کو ”جاہلانہ“ قرار دے دیا تو اب اس باب میں مجھے اور کیا کہنا چاہئے تھا۔ کیا میں یہ کہتا کہ: واہ واہ کیا ”جاہلانہ اعتراض“ کیا ہےاگر میں بھی اسی طرح کے مولویوں کا رویہ اپناؤں تو
لفظ "یوسف ثانی" پر گرفت کر سکتا ہوں ۔۔۔ یوسف ثانی کا مطلب ہمیشہ سے یہی ہے کہ ایک یوسف تو اللہ کے پیغمبر تھے یہ وہ تو نہیں لیکن صفات و ذات کے اعتبار سے اس کا ثانی ہے ۔۔ یعنی اسی جیسا ہے۔ یا اسی کا ہم پلہ ہے۔
کیا یہ شرک فی النبوت نہیں ہوگا۔۔ کیا اپنے آپ کو کسی نبی کا ہم پلہ سمجھ لینا نہیں ہوگا لیکن نہیں ایسا ہرگز نہیں ۔۔۔ یہ ایک جاہلانہ بات ہوگی ۔۔ جو کو حلیم کو دلیم کہنے پر اصرار کرنے والا مولوی ہی کر سکتا ہے۔
اردو ادب میں اور شاعری میں ہمیشہ لفظ "یوسف ثانی" کو کسی کے "حسن و جمال" کو مبالغہ آمیز انداز میں بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس میں ہرگز شک فی النبوت کا احتمال نہیں لہذا یوسف ثانی بے غم رہیں میں کوئی ایسا فتوا نہیں دونگا ۔۔۔ اور یوسف ثانی آپ تو خوبصورت بھی ہیں ما شأ اللہ
ناموں کی مماثلت کا مجھے بھی ”مکرر تجربہ“ ہے۔ پہلے پہل میں اپنے ”ذاتی اور پیدائشی“ نام سے اخبارات و جرائد میں لکھا کرتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ”میرے نام“ سے کوئی اور بھی لکھنے لگا۔ جب ”اُن“ کے لکھے پر مجھے داد ملنے لگی تو اس خیال سے کہ کہیں میرے لکھے پر انہیں ”بے داد“ نہ مل رہی ہو، ایک روزنامہ کے ادبی صفحہ پر ”مجھے ناموں سے نہ پہچان“ جیسے اک مضمون میں خود کو ”یوسف ثانی“ ڈیکلیئرڈ کردیا اور اسی قلمی نام سے فکاہیہ کالم نویسی بھی شروع کردی۔ ابھی اس نئے نام سے لکھتے ہوئے ایک عشرہ ہی گزرا تھا کہ 1994 میں روزنامہ جنگ لندن میں ایک کتاب کی تقریب رونمائی کے اشتہار پر نظر پڑی۔ کتاب کے مصنف کی حیثیت سے ”یوسف ثانی“ کا نام لکھا دیکھ کر ”دلی مسرت“ ہوئی کہ اب میں اتنا ”مشہور“ ہوگیا ہوں کہ احباب مجھے بتلائے بغیر ”میرے نام“ کتابیں چھپوا کر اس کی تقریب رونمائی لندن میں بھی کرنے لگے ہیں۔ لیکن قبل اس کے کہ جنگ لندن سے وابستہ میرے ہم پیشہ ساتھی مجھے ”ایسی ویسی نظروں“ سے دیکھنا شروع کرتے، میں نے دل پر پتھر رکھ کر اسی اخبار میں ایک ”وضاحتی مراسلہ“ لکھ مارا کہ گو کہ میں بھی ”یوسف ثانی“ ہونے کا دعویدار ہوں اور ایک عشرے سے زائد عرصہ سے اسی نام سے لکھ رہا ہوں،اور مستقبل قریب و بعید میں اسی نام سے میری بہت کتابیں وغیرہ بھی منظر عام پر آنے والی ہیں لیکن ان ”حقائق“ کے باوجود ہر خاص و عام کو مطلع کیا جاتا ہے کہ اشتہار ھٰذا کے کتاب کا مصنف یہ احقر ہرگز نہیں ہے۔ اب پتہ نہیں ”وہ والے یوسف ثانی“ کدھر ہیں، یہ والا تو اِدھر آپ کے سامنے ہے۔