دال سے دلیم اور بھہ سے بھتہ خور

یوسف-2

محفلین
اور 10 محرم کا روزہ بھی عیسائی رکھتے تھے۔۔ مگر اسے حضور :pbuh:نے اپنایا۔۔۔ ۔ ہمارا اسلام اتنا تنگ نظر نہیں جتنا کچھ مولیوں نے بنا دیا۔۔۔ ۔
یہ ”ہمارا اسلام“ اور ”تمہارا اسلام“ ہی نے تو ”بھانت بھانت کا اسلام“ (حدیث کے الفاظ میں 73 فرقے) ایجاد کرڈالا ہے۔ :D
(پیشہ ور) مولویوں کے بنائے ہوئے ”تیرے میرے“ اسلام کو ترک کردیجئے۔ اور صرف اور صرف حضرت محمد :pbuh: کے لائے ہوئے اصل اسلام (قرآن و صحیح حدیث) کو تھام لیجئے۔ اس دین حق میں نہ کچھ اضافہ کیجئے اور نہ کمی کیجئے کہ اللہ نے اپنے دین کو چودہ سو سال قبل حضور :pbuh: کی زندگی میں ہی مکمل کردیا تھا۔:)
 
اس بارے میں پوری معلومات رکھیں جناب، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دن کے روزے کا حکم دیا ہے 9 اور10 یا پھر 10 اور 11
اور یہ روزہ یہودی رکھتے تھے
اور ماشا ء اللہ بڑھائی نہیں میرا کل بھی روزہ تھا اور آج بھی اللہ کے کرم سے روزہ ہے۔۔۔ 10 محرم اور 11 محرم کا۔۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
حلم۔۔ جہاں اسکے معنی تحمل اور بردباری کے ہیں وہیں یہ لفط نرمی، ملائمت اور نرم دلی کے لیے بھی بولا جاتا ہے ۔۔ اور مخصوص کھانا جسے حلیم کا نام دیا جاتا ہے صرف اسی لیے حلیم کہلاتا ہے کہ اس کے تمام اجزا کو گلا کر نرم و ملائم کر دیا جاتا ہے۔۔۔ مولویوں کے بے جا فتووں نے خدا کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑا۔۔۔ وہ خدا ہی کیا جس کی خدائی میں دلیم کو حلیم کہنے سے یا حلیم کو دلیم کہنے سے فرق پڑتا ہو۔۔۔ یہ انتہائی جہالت ہے۔
میری بات کو یوں سمجھنے کی کو شش کیجیئے
اگر میں یہاں یہ لکھ دوں:
اردو محفل کے منتظم جناب شمشاد انتہائی برد بار اور حلیم الطبع ہیں یا حلیم ہیں
تو کیا شمشاد اسی بنا پر کہ میں نے انہیں حلیم کہہ دیا خدائی دعوائی کر بیٹھیں گے یا خدا کی خدائی میں کوئی فرق پڑ جائے گا
میں شاکر۔۔۔۔۔ ہوں
کیا میں خدا ہوں ۔۔۔۔۔ کیونکہ خدا بھی تو شاکر و علیم ہے
 

وجی

لائبریرین
جی میں نے صرف ایک بات کی تھی۔۔ اور آپ نے دوسرے روزے کی تفصیلی حدیث پہلے ہی بیان کردی ہے۔۔۔ ۔ بات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر کوئی چیز یا کام مشہور ہو جائے۔۔ تو اس کے اپنانے سے اسلام نے ہر گز منع نہیں کیا۔۔۔ ۔
اسلام اس بات پر اس شہ کو اپنانے کا حکم نہیں دیتا کہ وہ مشہور ہوجائے جناب یا پھر کوئی بڑا حاکم اسکا حکم دے یا پھر تہذیب چلی آرہی ہو ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب پہلی بار مکے میں کھل کر اسلام کی بات کی تو
ہوئی طریقے اپنائے جو انکے خاندان میں رائج تھے کہ کوئی بڑی بات بتانی ہوتی تھی تو
دعوت کرنا ، اونچی جگہ پر چڑھنا اور کپڑے پھاڑنا
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو کام کیئے کیونکہ ان میں کوئی عار نہیں تھا مگر کپڑے پھاڑنا معیوب و شان کے خلاف تھا اس لیئے نہیں کیا
 
یہ ”ہمارا اسلام“ اور ”تمہارا اسلام“ ہی نے تو ”بھانت بھانت کا اسلام“ (حدیث کے الفاظ میں 73 فرقے) ایجاد کرڈالا ہے۔ :D
(پیشہ ور) مولویوں کے بنائے ہوئے ”تیرے میرے“ اسلام کو ترک کردیجئے۔ اور صرف اور صرف حضرت محمد :pbuh: کے لائے ہوئے اصل اسلام (قرآن و صحیح حدیث) کو تھام لیجئے۔ اس دین حق میں نہ کچھ اضافہ کیجئے اور نہ کمی کیجئے کہ اللہ نے اپنے دین کو چودہ سو سال قبل حضور :pbuh: کی زندگی میں ہی مکمل کردیا تھا۔:)
بات چلی تو چلتی جائے گی۔۔۔ نا تو کوئی اضافہ کر سکتا ہے، نا ترمیم کیوں کہ میرے اللہ نے اسکی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔۔۔ اور بات ان مولویوں کی کہی جو ہر کہیں اپنے فتوے جھاڑتے رہتے ھیں۔۔۔ یہ مشرک وہ بدعتی۔۔ یہ نا کرو وہ نا کرو۔۔۔ یہ بات صحابہ کے زمانے میں کب تھی۔۔ آپ کیوں کر رہے ہو؟ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اگر ایک بات شریعت کے منافی نہیں تو اس کے اختیار کرنے میں کب اسلام منع کرتا ہے؟
 

یوسف-2

محفلین
۔۔ ۔ بات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر کوئی چیز یا کام مشہور ہو جائے۔۔ تو اس کے اپنانے سے اسلام نے ہر گز منع نہیں کیا۔۔۔ ۔
سبحان اللہ کیا ”فتویٰ“ جاری کیا ہے، جناب نے۔ اس ”فتویٰ “ کی رو سے چونکہ بہت سی ہندووانہ اور مشرکانہ رسمیں ایسی ہیں جو برصغیر کے مسلمانوں میں عام اور مشہور ہوچکی ہیں، لہٰذا اسلام اس کے اپنانے سے ہرگز منع نہیں کرتا۔ واؤ مفتی صاحب کیا کہنے :eek:
 

شاکرالقادری

لائبریرین
اگر میں بھی اسی طرح کے مولویوں کا رویہ اپناؤں تو
لفظ "یوسف ثانی" پر گرفت کر سکتا ہوں ۔۔۔ یوسف ثانی کا مطلب ہمیشہ سے یہی ہے کہ ایک یوسف تو اللہ کے پیغمبر تھے یہ وہ تو نہیں لیکن صفات و ذات کے اعتبار سے اس کا ثانی ہے ۔۔ یعنی اسی جیسا ہے۔ یا اسی کا ہم پلہ ہے۔
کیا یہ شرک فی النبوت نہیں ہوگا۔۔ کیا اپنے آپ کو کسی نبی کا ہم پلہ سمجھ لینا نہیں ہوگا لیکن نہیں ایسا ہرگز نہیں ۔۔۔ یہ ایک جاہلانہ بات ہوگی ۔۔ جو کو حلیم کو دلیم کہنے پر اصرار کرنے والا مولوی ہی کر سکتا ہے۔
اردو ادب میں اور شاعری میں ہمیشہ لفظ "یوسف ثانی" کو کسی کے "حسن و جمال" کو مبالغہ آمیز انداز میں بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس میں ہرگز شک فی النبوت کا احتمال نہیں لہذا یوسف ثانی بے غم رہیں میں کوئی ایسا فتوا نہیں دونگا ۔۔۔ اور یوسف ثانی آپ تو خوبصورت بھی ہیں ما شأ اللہ :)
 
اسلام اس بات پر اس شہ کو اپنانے کا حکم نہیں دیتا کہ وہ مشہور ہوجائے جناب یا پھر کوئی بڑا حاکم اسکا حکم دے یا پھر تہذیب چلی آرہی ہو ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب پہلی بار مکے میں کھل کر اسلام کی بات کی تو
ہوئی طریقے اپنائے جو انکے خاندان میں رائج تھے کہ کوئی بڑی بات بتانی ہوتی تھی تو
دعوت کرنا ، اونچی جگہ پر چڑھنا اور کپڑے پھاڑنا
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو کام کیئے کیونکہ ان میں کوئی عار نہیں تھا مگر کپڑے پھاڑنا معیوب و شان کے خلاف تھا اس لیئے نہیں کیا
میری دوسری پوسٹ پڑھ لین ۔۔ جہاں شریعت سے ٹکراؤ نا آئے۔۔۔۔ وہ چیز آپ رائج کر سکتے ھیں جیسے غزوہ خندق کا واقعہ ۔۔ خندق کا طریقہ اسلام سے پہلے کافر لوگ استعمال کرتے تھے۔۔۔ مگر ہم نے اپنایا ۔۔ کیوں کہ یہ فائدہ مند تھی۔ اور اسلام کے منافی بھی نہیں۔۔
 
اگر میں بھی اسی طرح کے مولویوں کا رویہ اپناؤں تو
لفظ "یوسف ثانی" پر گرفت کر سکتا ہوں ۔۔۔ یوسف ثانی کا مطلب ہمیشہ سے یہی ہے کہ ایک یوسف تو اللہ کے پیغمبر تھے یہ وہ تو نہیں لیکن صفات و ذات کے اعتبار سے اس کا ثانی ہے ۔۔ یعنی اسی جیسا ہے۔ یا اسی کا ہم پلہ ہے۔
کیا یہ شرک فی النبوت نہیں ہوگا۔۔ کیا اپنے آپ کو کسی نبی کا ہم پلہ سمجھ لینا نہیں ہوگا لیکن نہیں ایسا ہرگز نہیں ۔۔۔ یہ ایک جاہلانہ بات ہوگی ۔۔ جو کو حلیم کو دلیم کہنے پر اصرار کرنے والا مولوی ہی کر سکتا ہے۔
اردو ادب میں اور شاعری میں ہمیشہ لفظ "یوسف ثانی" کو کسی کے "حسن و جمال" کو مبالغہ آمیز انداز میں بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس میں ہرگز شک فی النبوت کا احتمال نہیں لہذا یوسف ثانی بے غم رہیں میں کوئی ایسا فتوا نہیں دونگا ۔۔۔ اور یوسف ثانی آپ تو خوبصورت بھی ہیں ما شأ اللہ :)
بہت خوبصورت ۔۔۔۔
 

باباجی

محفلین
صفات کو لے کر ذات کا دفاع :cool:

ارے بندگانِ خدا
ہمیں لگتا ہے اپنی اوقات بھول گئی ہے
ناپاکی سے پاکی میں آنے والا خاکی
خالق کا دفاع کر رہا ہے :eek:

اسےجیسے مرضی پکارا جائے
یہواہ، خدایا ۔ اللہ ۔گاڈ

وہ سنتا ہے
ہاں
ہم نہیں سنتے
 
کراچی بھر میں ہر جگہ حلیم بنی ہے۔
بھتہ خوروں نے بیٹھ کر کھائی اور ان کے گھروں کو بھی بھیجی۔۔۔
روزنامہ امت کے لطیفوں کو سنجیدگی سے نہ لیا جائے۔۔:D
 
سبحان اللہ کیا ”فتویٰ“ جاری کیا ہے، جناب نے۔ اس ”فتویٰ “ کی رو سے چونکہ بہت سی ہندووانہ اور مشرکانہ رسمیں ایسی ہیں جو برصغیر کے مسلمانوں میں عام اور مشہور ہوچکی ہیں، لہٰذا اسلام اس کے اپنانے سے ہرگز منع نہیں کرتا۔ واؤ مفتی صاحب کیا کہنے :eek:
جناب اگر کسی کی سمجھ میں کوئی چیز نہ آیے تو بندہ کیا کر سکتا ہے۔۔۔؟ نیچے لکھا بھی جو شریعت کے منافی نا ہو۔۔۔ اگر آپ کا ارادہ بحث کا ہے تو، ایک علیحدہ دھاگا کھول لیں۔۔۔ ویسے میں نا تو کوئی مفتی ہوں جو " فتوی " دونگا۔۔۔۔ :redrose: یہ آپکے لیے۔۔
 

یوسف-2

محفلین
حلم۔۔ جہاں اسکے معنی تحمل اور بردباری کے ہیں وہیں یہ لفط نرمی، ملائمت اور نرم دلی کے لیے بھی بولا جاتا ہے ۔۔ اور مخصوص کھانا جسے حلیم کا نام دیا جاتا ہے صرف اسی لیے حلیم کہلاتا ہے کہ اس کے تمام اجزا کو گلا کر نرم و ملائم کر دیا جاتا ہے۔۔۔ مولویوں کے بے جا فتووں نے خدا کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑا۔۔۔ وہ خدا ہی کیا جس کی خدائی میں دلیم کو حلیم کہنے سے یا حلیم کو دلیم کہنے سے فرق پڑتا ہو۔۔۔ یہ انتہائی جہالت ہے۔
میری بات کو یوں سمجھنے کی کو شش کیجیئے
اگر میں یہاں یہ لکھ دوں:
اردو محفل کے منتظم جناب شمشاد انتہائی برد بار اور حلیم الطبع ہیں یا حلیم ہیں
تو کیا شمشاد اسی بنا پر کہ میں نے انہیں حلیم کہہ دیا خدائی دعوائی کر بیٹھیں گے یا خدا کی خدائی میں کوئی فرق پڑ جائے گا
میں شاکر۔۔۔ ۔۔ ہوں
کیا میں خدا ہوں ۔۔۔ ۔۔ کیونکہ خدا بھی تو شاکر و علیم ہے
جس طرح دال دلیہ سے بنا ”دلیم“ آپ کے لئے اتنا ”مقدس اور محترم“ ہے کہ اس کا غلط العام نام (جو اللہ تبارک تعالیٰ کا ایک صفاتی نام ہے ) کو تبدیل کرنے پر آپ اس قدربرہم ہورہے ہیں، اسی طرح بہت سے مسلمانوں کے نزدیک اللہ اور اس کے 99 صفاتی نام بھی بہت مقدس و محترم ہیں۔ انہیں بھی ان ناموں کو کھانے پینے یا دیگرمعمولی چیزوں کے لئے استعمال کرنے پر سخت ”اعتراض“ ہے۔ :) ۔
اگر آپ اردو زبان و ادب سے بخوبی واقفیت رکھتے ہوں تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس زبان میں ”شعائر اسلامی سے جڑے“ بہت سے الفاظ کی ”بے توقیری“ کے لئے ”بے دین ادباء و شعراء“ نے دیدہ و دانستہ انہیں حقیر اور ادنیٰ سے منسوب کرکے مشہور کردیا ہے تاکہ ہم جیسے عاشقانِ اردو نادانستہ طور پرہی سہی ”اردو زبان و ادب“ کو شعائر اسلامی پر ترجیح دنے میں کوئی مضائقہ نہ سمجھیں۔ :)
 
جس طرح دال دلیہ سے بنا ”دلیم“ آپ کے لئے اتنا ”مقدس اور محترم“ ہے کہ اس کا غلط العام نام (جو اللہ تبارک تعالیٰ کا ایک صفاتی نام ہے ) کو تبدیل کرنے پر آپ اس قدربرہم ہورہے ہیں، اسی طرح بہت سے مسلمانوں کے نزدیک اللہ اور اس کے 99 صفاتی نام بھی بہت مقدس و محترم ہیں۔ انہیں بھی ان ناموں کو کھانے پینے یا دیگرمعمولی چیزوں کے لئے استعمال کرنے پر سخت ”اعتراض“ ہے۔ :) ۔
اگر آپ اردو زبان و ادب سے بخوبی واقفیت رکھتے ہوں تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس زبان میں ”شعائر اسلامی سے جڑے“ بہت سے الفاظ کی ”بے توقیری“ کے لئے ”بے دین ادباء و شعراء“ نے دیدہ و دانستہ انہیں حقیر اور ادنیٰ سے منسوب کرکے مشہور کردیا ہے تاکہ ہم جیسے عاشقانِ اردو نادانستہ طور پرہی سہی ”اردو زبان و ادب“ کو شعائر اسلامی پر ترجیح دنے میں کوئی مضائقہ نہ سمجھیں۔ :)
میرے بھائی اگر کسی کا شکریہ ادا کرنا ہو تو کیا۔۔ یہ لفظ ٹھیک ہے؟ " مشکور ہوں"
 
رب اللہ تعالیٰ کا ایک مشہور صفاتی نام ہے لیکن اسی رب کے کلام یعنی قرآن کریم میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے عام انسانوں کیلئے بھی یہی لفظ استعمال کیا ہے۔۔اس پر کیا کہیں گے؟ بہتر ہوگا کہ آپ شرک یا بے ادبی کے بارے میں اپنے تصورات کی تصحیح کرلیں کیونکہ انکی زد سے تو کوئی محفوظ نہیں رہا
 
Top