درست تلفظ کیا ہے؟

باب افتعال ومفاعلہ کے مصادرمیں دوران گفتگو واقع ہونے والی تلفظ کی اغلاط ۔

انتہاء ؛اجتناب ؛ افتراق ؛ ؛انتظام ؛ امتحان ؛ التجاء؛ وغیرہ ان کلمات میں حرف ،، ت ؛؛کو اکثر لوگ فتحہ ( زبر ) کے ساتھ مثلا اِنتَہاء پڑھتے ہیں جبکہ درست ؛؛ ت ؛؛ کے کسرہ( زیر) کے ساتھ ِانتِہاء ہےِ ۔
اسیطرح مشاھدہ ، َمطالعہ،مکالمہ مباحثہ وغیرہ میں ،الف کے بعد والا حرف ہمیشہ مفتوح ہو گا ۔ جیسے مباحَثہ : اسے مکسور پڑھنا غیر صحیح ہے
 

حسان خان

لائبریرین
معلوماتی پوسٹ کے لیے بہت شکریہ۔ مجھ سمیت زیادہ تر لوگ بابِ مفاعلہ کے اکثر مصادر ہمیشہ مکسور ہی پڑھتے ہیں۔ آج پتا چلا کہ یہ غلط ہے۔
 
معلوماتی پوسٹ کے لیے بہت شکریہ۔ مجھ سمیت زیادہ تر لوگ بابِ مفاعلہ کے اکثر مصادر ہمیشہ مکسور ہی پڑھتے ہیں۔ آج پتا چلا کہ یہ غلط ہے۔

السلام علیکم! حسان بھائی

مراسَلہ کا مطالَعہ؛ غلطیوں کا مشاہَدہ ؛ خلوص کا مظاہَرہ کرتے ہوئے اس بے نوا عدیم العلم کی بے ربط تحریر

کو لائق اعتِناء جان کراظہار خیال کرتے ہوئے قابل اعتِبار سمجھ کر اس پر اعتِماد کیا ؛ جس کے لیے سراپا امتِنان وتشکر ہوں ۔

جزاکم اللہ تعالی وایانا احسن الجزا فی الدارین ۔
 

مؤثرہ

محفلین
السلام علیکم! حسان بھائی

مراسَلہ کا مطالَعہ؛ غلطیوں کا مشاہَدہ ؛ خلوص کا مظاہَرہ کرتے ہوئے اس بے نوا عدیم العلم کی بے ربط تحریر

کو لائق اعتِناء جان کراظہار خیال کرتے ہوئے قابل اعتِبار سمجھ کر اس پر اعتِماد کیا ؛ جس کے لیے سراپا امتِنان وتشکر ہوں ۔

جزاکم اللہ تعالی وایانا احسن الجزا فی الدارین ۔

تحریر تو بڑی زبردست ہے مگر اب اس کی تشریح کون کرے گا ۔؟
 
السلام علیکم! حسان بھائی

مراسَلہ کا مطالَعہ؛ غلطیوں کا مشاہَدہ ؛ خلوص کا مظاہَرہ کرتے ہوئے اس بے نوا عدیم العلم کی بے ربط تحریر

کو لائق اعتِناء جان کراظہار خیال کرتے ہوئے قابل اعتِبار سمجھ کر اس پر اعتِماد کیا ؛ جس کے لیے سراپا امتِنان وتشکر ہوں ۔

جزاکم اللہ تعالی وایانا احسن الجزا فی الدارین ۔
السلام علیکم
جناب افصح و احسن عبارت۔ بہت خوب!
سطر بالا میں مفتوحہ اور سطر زیریں میں مکسورہ کی مزید امثال ہی مزین نہیں بلکہ اسلوب متن بھی خوب مثال ہے۔
ما شآء اللہ
 
مغالطات سے اجتِناب کرانے کے لیے انتہائی مناسَبت رکھنے والا مکالَمہ اختِیار کیا ہے آپ نے۔
اس کا مطالعہ ، مشاہدہ اور معاینہ کرنے کے بعد اب اشتباہ ختم ہوگیا ، لہذا مباحثے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یہ مشارَکت آپ کا ہم اصحابِ اشتیاق پر امتِنان ہے۔
 
استاد داغ کی یہ غزل فیس بک پر دیکھی ہے۔ اس میں تیسرے شعر کے قافیے پر مخمصے کا شکار ہوں۔ اہلِ علم و فن احباب سے راہنمائی دی درخواست ہے۔

کتاب عشق کے اُلٹے ورق اول سے آخر تک
مگر سمجھے نہ ہم اس کا سبق اول سے آخر تک

بری ہے ابتدا بھی انتہا بھی تیری الفت کی
کہ اس میں ہیں غم و رنج و قلق اول سے آخر تک

بشر کو گر نہ ملتی کس کو ملتی عشق کی دولت
نہیں تھا کوئی اس کا مستحق اول سے آخر تک

مَےِ انگور تحفے میں تجھے دیتا ہوں اے زاہد
رہے گا تیز یکساں یہ عرق اول سے آخر تک

ہزاروں دوست دشمن بزم میں اس کی رہے لیکن
رہا اک شکل پر نظم و نسق اول سے آخر تک

لکھوں اُس کو جواب اے داغ کیا میں سخت حیران ہوں
لکھے ہیں خط میں مضمون ادق اول سے آخر تک

بشر کو گر نہ ملتی کس کو ملتی عشق کی دولت
نہیں تھا کوئی اس کا مستحق اول سے آخر تک
یہاں درست کیا ہے؟ مستحِق یا مستحَق؟ ۔۔ اگر مستحِق درست لفظ ہے تو یہاں دیگر قوافی میں حرف ماقبل قاف سب مفتوح ہیں۔
مرزا غالب کی ’’ ۔۔ ۔۔ کافِر نہیں ہوں میں‘‘ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہے، کہ وہاں دیگر سب قوافی میں حرف ماقبل راء مفتوح ہیں: (برابَر، گوہَر، در پَر، پتھَر وغیرہ)۔


الف عین صاحب، فاتح صاحب، محمد وارث صاحب، مزمل شیخ بسمل صاحب، اور محمد خلیل الرحمٰن صاحب سے خصوصی توجہ کی درخواست ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
میرے خیال میں یہاں داغ نے آزادی برتی ہے کہ درست تلفظ استعمال نہیں کیا قافئے کی مجبوری کی وجہ سے۔
 
استاد داغ کی یہ غزل فیس بک پر دیکھی ہے۔ اس میں تیسرے شعر کے قافیے پر مخمصے کا شکار ہوں۔ اہلِ علم و فن احباب سے راہنمائی دی درخواست ہے۔

کتاب عشق کے اُلٹے ورق اول سے آخر تک
مگر سمجھے نہ ہم اس کا سبق اول سے آخر تک

بری ہے ابتدا بھی انتہا بھی تیری الفت کی
کہ اس میں ہیں غم و رنج و قلق اول سے آخر تک

بشر کو گر نہ ملتی کس کو ملتی عشق کی دولت
نہیں تھا کوئی اس کا مستحق اول سے آخر تک

مَےِ انگور تحفے میں تجھے دیتا ہوں اے زاہد
رہے گا تیز یکساں یہ عرق اول سے آخر تک

ہزاروں دوست دشمن بزم میں اس کی رہے لیکن
رہا اک شکل پر نظم و نسق اول سے آخر تک

لکھوں اُس کو جواب اے داغ کیا میں سخت حیران ہوں
لکھے ہیں خط میں مضمون ادق اول سے آخر تک

بشر کو گر نہ ملتی کس کو ملتی عشق کی دولت
نہیں تھا کوئی اس کا مستحق اول سے آخر تک
یہاں درست کیا ہے؟ مستحِق یا مستحَق؟ ۔۔ اگر مستحِق درست لفظ ہے تو یہاں دیگر قوافی میں حرف ماقبل قاف سب مفتوح ہیں۔
مرزا غالب کی ’’ ۔۔ ۔۔ کافِر نہیں ہوں میں‘‘ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہے، کہ وہاں دیگر سب قوافی میں حرف ماقبل راء مفتوح ہیں: (برابَر، گوہَر، در پَر، پتھَر وغیرہ)۔


الف عین صاحب، فاتح صاحب، محمد وارث صاحب، مزمل شیخ بسمل صاحب، اور محمد خلیل الرحمٰن صاحب سے خصوصی توجہ کی درخواست ہے۔
پہہلی بات:::
میرے نزدیک یہ معاملہ روز مرہ بولی جانے والی زبان سے تعلق رکھتا ہے. جس کے گرد و نواح میں جو زبان عام ہے وہ وہی بولتا ہے. داغ نے بھی ایسا کر لیا تو کیا عجب ؟؟؟ غالب نے لفظ صاحِب کو صاحَب باندھا جس پر نولوی نجم الغنی نے باقاعدہ تنقید کی ہے بحر الفصاحت میں. اور حسرت نے اپنی کتاب اصلاح سخن میں بھی اعتراض اٹھایا. پھر یہیں بس نہیں ہوتی. لغات جو مشہور اور مستند ہیں ان میں بھی اس تلفظ کو غلط کہا ہے. اب کیا کہئے گا؟
ان باتوں کی حیثیت در حقیقت اب کچھ بھی نہیں. کہاں تک بچیں گے؟
ایک شاعر جو استاد ہو وہ بھی الفاظ کے تلفظ کو نہیں جانتا. ما سوائے دو باتوں کے..
١. کونسا حرف متحرک ہے.
2. کونسا حرف ساکن ہے.

بس یہی دو باتیں ہیں جن سے مصرع بحر میں رہتا ہے. کہاں زبر کہاں زیر کہاں پیش یہ کسکو معلوم؟ اور اس سے حاصل بھی کیا؟
مثال کے طور پر ایک عام لفظ کو لیجئے. "محبت"
میں ایک ہزار فیصد گارنٹی کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس لفظ کو کسی بھی شاعر یا کسی اردو لٹریچر میں پی ایچ ڈی کئے ہوئے استاد سے پڑھوا لیجئے. اس لفظ کو میم مضموم سے مُحبت ہی پڑھے گا. جب کہ درست تلفظ کے لئے لغت دیکھ لیں. :)
یہی معاملہ شاعروں کا ہے. جہاں جیسا لفظ اور تلفظ عام ہے اسے ہی باندھا جاتا ہے. یہ پہلی صورت ہے. اور دوسری صورت ہے کہ اپنی آسانی کے لئے غلط تصرفات کو بھی روا رکھتے ہیں. :) اور پھر کہتے ہیں کہ ریختہ میں کلام ہم سے نہ کر. یہ ہماری زبان ہے پیارے. :D
 

فاتح

لائبریرین
یوں تو مستحِق اور مستحَق دونوں ہی درست ہیں لیکن مختلف معانی میں لیکن یہاں محل مستحِق کا ہی ہے اور داغ نے غالب کی سنت پر عمل کرتے ہوئے آزادی برتی ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
الف عین صاحب مزمل شیخ بسمل صاحب اور فاتح صاحب کے ارشادات سے میں نے اخذ کیا ہے کہ:

ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں؟
اور
ادب میں بھی طبقہ اشرافیہ کے لئے جملہ حقوق و ’’ناحقوق‘‘ محفوظ ہیں؟

جنابان:
الف عین ، محمد وارث ، محمد خلیل الرحمٰن ، متلاشی ، محب علوی ، محب اردو صاحبان۔
جی! تبھی غلط العام صرف اس غلط کو کہا جاتا ہے جسے "اہلِ زبان ادبا و شعرا" نے غلط باندھا ہو جب کہ اس کی الٹ غلط "العوام" ہے اور اسے کبھی درجۂ قبولیت نہیں ملتا۔۔۔
اگر میرا گھر ہے تو مجھے اختیار ہے کہ میں اپنے گھر کی کیاریوں میں گلاب لگاؤں یا چنبیلی اگاؤں۔۔۔ اسی طرح اہلِ زبان کو یہ اختیار ہے کہ وہ کسی لفظ کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔۔۔ اس میں اشرافیہ یا عوام کا ذکر کہاں سے آ گیا؟
 
اگر میرا گھر ہے تو مجھے اختیار ہے کہ میں اپنے گھر کی کیاریوں میں گلاب لگاؤں یا چنبیلی اگاؤں۔۔۔ اسی طرح اہلِ زبان کو یہ اختیار ہے کہ وہ کسی لفظ کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔۔۔ اس میں اشرافیہ یا عوام کا ذکر کہاں سے آ گیا؟
اشرافیہ کا ذکر آ گیا نا، جناب۔ اگر میں اشرافیہ میں ہوں اور اپنے باغیچے کے گوبھی کے پھول کو موتیا قرار دیتا ہوں تو تسلیم نہ کرنے والا آنکھوں کے موتیا کا مریض کہلائے گا، اور اگر میں اشرافیہ میں نہیں ہوں تو اسی بات پر مجھے موتیا کا مریض کہا جائے گا۔

بات پھول لگانے یا بونے کی نہیں ہے، بات پھول کو نام دینے کی ہے؛ یہ قافیہ ہے یہ ردیف ہے۔ میں چاہوں تو گوبھی کے پھولوں کا ہار پہن لوں، کوئی مجھے روک نہ سکے تو نہ روک سکے، میں اس کو ہنسنے سے نہیں روک سکوں گا۔

زبان صرف میری نہیں، سب کی ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
اشرافیہ کا ذکر آ گیا نا، جناب۔ اگر میں اشرافیہ میں ہوں اور اپنے باغیچے کے گوبھی کے پھول کو موتیا قرار دیتا ہوں تو تسلیم نہ کرنے والا آنکھوں کے موتیا کا مریض کہلائے گا، اور اگر میں اشرافیہ میں نہیں ہوں تو اسی بات پر مجھے موتیا کا مریض کہا جائے گا۔
آپ نجانے کیوں اس قدر ڈپریسڈ ہو رہے ہیں۔۔۔ غلط العوام اور غلط العام کی تعریف آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔
 

فاتح

لائبریرین
اشرافیہ والی بات تو یہ بھی ہے!۔
تو کیا فرانسیسی زبان میں نئے الفاظ شامل کرنے کے لیے اہلِ عرب کی رائے مستند قرار دے دی جائے یا جاپانی زبان کے قواعد پنجابیوں سے بنوائے جائیں؟ اور اگر ایسا کرنے سے منع کیا جائے تو اشرافیہ و عوام کی بحث کھڑی کری جائے؟؟؟؟
 

منیر انور

محفلین
بہت شکریہ محترم آسی صاحب ۔۔ میں اپنا نکتہ نظر پیش کئے دیتا ہوں ۔۔۔ لیکن پہلے غالب کی ایک اور غزل کے چند اشعار تبرکآ ملاحظہ کر لیجے ۔۔۔

گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیونکر ہو
کہے سے کچھ نہ ہوا پھر کہو تو کیونکر ہو

ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام وصال
کہ گر نہ ہو تو کہاں جائیں ، ہو تو کیونکر ہو

تمہین کہو کہ گذارہ صنم پرستوں کا
بتوں کی ہو اگر ایسی ہی خو تو کیونکر ہو

الجھتے ہو تم اگر دیکھتے ہو آئینہ
جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو تو کیونکر ہو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا مختصر نکتہ نظر بس اتنا ہے کہ غلطی ، غلطی ہے ۔۔ کوئی بھی کرے ۔۔۔ وہ غالب ہو ۔۔ میر ہو ۔۔۔ کہ داغ ہو ۔۔۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔ غلطی کو تجربہ کہہ کر چھپانا یا پھر انہیں اہل زبان ہونے کی رعایت دینا ۔۔ یا یہ کہ انہوں نے رعایت لی ہے ۔۔ اس کی مثال تو ایسے ہی ہے جیسے ہم اپنے کسی " حضرت " کی ہر بات کو درست ثابت کرنے پر تل جائیں ہر قیمت پر ۔۔۔۔
 
Top