دریا

شمشاد

لائبریرین
ہر اک مژگاں پہ میرے اشک کے قطرے جھمکتے ہیں
تماشا مفتِ خوباں ہے لبِ دریا چراغاں ہے
(میر)
 

شمشاد

لائبریرین
خوں بستہ جب تلک تھیں دریا رُکے کھڑے تھے
آنسو گرے کروڑوں پلکوں کے ٹک ہلائے
(میر)
 

محمد وارث

لائبریرین
کبھی لہریں ترا چہرہ جو بنانے لگ جائیں
میری آنکھیں مجھے دریا میں بہانے لگ جائیں

(بیدل حیدری)
 

شمشاد

لائبریرین
صلہ تیرا تری زنجیر یا شمشیر ہے میری
کہ تیری رہزنی سے تنگ ہے دریا کی پہنائی
(علامہ)
 

شمشاد

لائبریرین
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
(علامہ)
 

محمد وارث

لائبریرین
ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا
(غالب)
 

فاتح

لائبریرین
ہم تو دریا ہیں، ہمیں اپنا ہنر معلوم ہے
جس طرف بھی چل پڑیں گے راستہ ہو جائے گا​
 

شمشاد

لائبریرین
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوںسے نہ ٹالے جائیں گے
(فیض احمد فیض)
 

محمد وارث

لائبریرین
اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موجِ تند جولاں بھی
نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ و بالا

یہی شیخِ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیمِ بوذر و دلقِ اویس و چادرِ زہرا

(اقبال)
 

شمشاد

لائبریرین
اونچی جس کی لہر نہیں ہے ، وہ کیسا دریا
جس کی ہوائیں تند نہیں ہیں ، وہ کیسا طوفان
(علامہ)
 

محمد وارث

لائبریرین
سینے کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا
خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا

تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
 

شمشاد

لائبریرین
میں کن چشموں سے ان کا حال پوچھوں
وہ دریا جو زمیں میں کھو گئے ہیں
(احمد فواد)
 

شمشاد

لائبریرین
دریائے اشک چشم سے جس آن بہہ گیا
سُن لیجیؤ کہ عرش کا ایوان بہہ گیا
(ابراھیم ذوق)
 
Top