جو موجِ دریا لگی یہ کہنے، سفر سے قائم ہے شان میری
گہر یہ بولا صدف نشینی ہے مجھ کو سامان آبرو کا
سپاس شرطِ ادب ہے ورنہ کرم ترا ہے ستم سے بڑھ کر
ذرا سا اک دل دیا ہے، وہ بھی فریب خوردہ ہے آرزو کا
جو گھر سے اقبال دور ہوں میں، تو ہوں نہ محزوں عزیز میرے
مثال گوہر وطن کی فرقت کمال ہے میری آبرو کا