دل کی بات شعر کے ساتھ

سارہ خان

محفلین
اس عالمِ حیرت و عبرت میں کچھ بھی تو سراب نہیں ہوتا
کوئی نیند مثال نہیں بنتی، کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا

اک عمر نمو کی خواہش میں، موسم کے جبر سہے تو کھلا
ہر خوشبو عام نہیں ہوتی، ہر پھول گلاب نہیں ہوتا
سلیم کوثر
 

صائمہ شاہ

محفلین
یہ شرط ہے دستک ہو اگر۔۔۔۔۔۔۔ دست یقیں سے
در چھوڑ کے دیوار بھی کھل جائے کہیں سے
لگتا ہے کہ سچ مچ کہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ موجود ہے دنیا
ہم وہم بھی کرتے ہیں تو کرتے ہیں یقیں سے
 

زبیر مرزا

محفلین
نگہ الجھی ہوئی ہے رنگ و بو ميں
خرد کھوئی گئی ہے چار سو ميں
نہ چھوڑ اے دل فغان صبح گاہی
اماں شايد ملےاللہ ھو ميں
 
میرے شہر کے لوگوں میں کچھ بات تو ھو گی​
میرے بنا سنسان وھاں ،آج کی رات تو ھو گی​
میں رھتا نہ تھا اک پل بھی جس کے بناء​
کسی قدر اکیلی شائد آج وہ ذات تو ھو گی​
 
شعر کا خیال تو بہت عمدہ ہے، لیکن مجھ کو پہلا مصرعہ کچھ بے وزن لگ رہا ہے۔۔۔۔ شاید آپ سے لکھنے میں لفظ کچھ آگے پیچھے ہو گئے ہیں۔ میرے ناقص خیال میں اسکو یوں ہونا چاہئے :۔
جکڑی ہوئی ہے ان میں میری ساری کائنات
گو دیکھنے میں نرم ہیں تیری کلائیاں۔۔۔۔ !

دیکھ لیں محب بھائی اب پڑھنے میں کچھ بہتر ہے یا نہیں؟؟؟

بالکل متفق ہوں میں ، مجھے بھی ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کچھ گڑبڑ ہو رہی ہے۔

تصحیح کے لیے شکریہ۔
 

کاشفی

محفلین
نہیں کچھ اس کی پرسش، الفتِ اللہ کتنی ہے
یہی سب پوچھتے ہیں، آپ کی تنخواہ کتنی ہے
(اکبر الہ آبادی)
 

کاشفی

محفلین
بتاؤں آپ سے مرنے کے بعد کیا ہوگا
پلاؤ کھائیں گے احباب، فاتحہ ہوگا:)
(اکبر الہ آبادی)
 

کاشفی

محفلین
نہ سُنّی ہے خوش اور نہ شیعہ ہے شاد
ہے دونوں کے مرکز میں برپا فساد

غمِ ٹرکی و ماتمِ پرشیا
مسدس اُدھر ہے اِدھر مرثیا
(اکبر الہ آبادی)
 
Top