دل

عمر سیف

محفلین
نظر کے سامنے حسنِ بہار رہنے دے
جمالِ دید کو پروردگار رہنے دے
سوالِ شوق کا کوئی جواب ہو کہ نا ہو
ہمارے دل میں اُمیدِ بہار رہنے دے ۔۔۔
 

تیشہ

محفلین
یہ جھوٹے لوگ جب سچی رفاقت مانگتے ہیں
خدُا سے ہم فقط دل کی حفاظت مانگتے ہیں

لہو کاغذ میں کیسے جذب کرلیتی ہے دنیا ۔؟
کہ ایسے تجربے ہونے کی قیمت مانگتے ہیں

مکانوں میں انہیں کیوں قید کرنے پر مصر ہو
ہمارے دل تو صحراؤں کی وسعت مانگتے ہیں

زمانے بھر کو ہم نے بانٹ دی ہیں ساعتیں سب
اب اپنے آپ سے ملنے کی فرصتُ مانگتے ہیں

زیادہ خواہشوں کو سر چڑھایا ہی نہیں ہے
مقدر سے فقط حسب ِضرورت مانگتے ہیں
تمھارے بعد آنے والے کچھ افسردہ چہرے
ہنسی آتی ہے جب ہم سے محبت مانگتے ہیں
ہم اپنے خال وخد پہچان تو لیتے ہیں ساجد
ہمارے آئینہ گر ہم سے حیرت مانگتے ہیں ۔
 

تیشہ

محفلین
آج بخت رسا نے حد کردی
یعنی تیری عطا نے حد کردی

تیری خوشبو اُڑا کے لے آئی
آج بادِ صبا نے حد کردی

دشتِ میں آگیا سمندر آج
ایک پیاسی صدا نے حد کردی

سب ستارے بھی ہوگئے مدھم
آج اُس کی ضیا نے حد کردی

ہم نے اِک 'بات کی جداُئی کی
اور اُس بے وفا نے حد کردی

تیری تصویر، آنکھ میں پانی
درد، چاہت، وفا نے حد کردی

دُکھ سبھی کا تھا اُس کے شعروں میں
شاعر بے نوا نے حد کردی ۔ ۔۔ ۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
درد میں کوئی موسم پیارا نہیں ہوتا
دل ہو پیاسا تو پانی سے گزارہ نہیں ہوتا
 

قمراحمد

محفلین
یہ تخیلات کی زندگی، یہ تصورات کی بندگی
فقط اِک فریب خیال پر مری زندگی ہے رواں‌ دواں
مرے دل پہ نقش ہیں آج تک وہ باحتیاط نوازشیں
وہ غرور و ضبط عیاں عیاں، وہ خلوص و ربط نہاں نہاں
نہ سفر بشرط مآل ہے نہ طلب بقید سوال ہے
فقط ایک سیری ذوق کو میں بھٹک رہا ہوں ‌کہاں کہاں
 

عمر سیف

محفلین
جو تمھاری مان لیں ناصحا، تو رہے گا دامنِ دل میں کیا
نہ کسی عدو کی عداوتیں، نہ کسی صنم کی سروتیں
 

تیشہ

محفلین
میرے دل کی راکھ کرید مت اسے مسکرا کے ہوا نہ دے
یہ چراغ پھر بھی چراغ ہے کہیں تیرا ہاتھ جلا نہ دے
نئے دور کے نئے خواب ہیں،نئے موسموں کے گلاب ہیں
یہ محبتوں کے چراغ ہیں انہیں نفرتوں کی ہوا نہ دے

میرے ساتھ چلنے کے شوق میں بڑی دھوپُ سر پہ اٹھائے گا
تیرا ناک نقشہ ہے موم کا کہیں غم کی آگ گھلا نہ دے

میں غزل کی شبنمی آنکھ سے یہ دکھوںُ کے پھول چناُ کروں
میری سلطنت میرا فن رہے مجھے تاج و تخت خداُ نہ دے ۔۔ ۔۔ ۔
 

راجہ صاحب

محفلین
سلیقہ عشق میں میرا، بڑے کمال کا تھا
کہ اختیار بھی دل پر عجب مثال کا تھا

میں اپنے نقش بناتی تھی جس میں بچپن سے
وہ آئینہ تو کسی اور خط و خال کا تھا
 

تیشہ

محفلین
تم چھپا لو میرا دل اوٹ میں اپنے دل کی
اور مجھے میری نگاہوں سے بھی اوجھل کردو
مسلہ ہوں تو نگاہیں نہ چراؤ مجھ سے
اپنی چاہت سے توجہ سے مجھے حل کردو
اپنے غم سے کہو ہر وقت میرے ساتھ رہے
ایک احسان کرو اسکو مسلسل کردو
مجھ پہ چھا جاؤ کسی آگ کی صورت جاناں
اور میری ذات کو سوکھا ہوا جنگل کردو
 

تیشہ

محفلین
ہر شام اسُ سے ملنے کی عادت سی ہوگئی
پھر رفتہ رفتہ اس سے محبت سی ہوگئی
اک نام جھلملانے لگا دل کے طاق پر
اِک یاد جیسے باعث ِراحت سی ہوگئی ۔ ۔
 
Top