محمد وارث
لائبریرین
یعنی کہ "ڈنکے سے بیلن تک" کسی افسانے کا نام بھی ہو سکتا ہے۔شادی وہ جو ڈنکے کی چوٹ پر کی جائے!
یعنی کہ "ڈنکے سے بیلن تک" کسی افسانے کا نام بھی ہو سکتا ہے۔شادی وہ جو ڈنکے کی چوٹ پر کی جائے!
ارے حضرت کاہے کا پہنچا ہوا، آپ حضرات کی صحبت کا فیض ہے کہ حال دل اور حالت زار کو الفاظ مل گئے ہیں۔یہ شعر ایک پہنچا ہوا شاعر ہی کہہ سکتا ہے جو یہ بھی جانتا ہے کہ "تکرار" میں کیا بہار ہے! کیوں عظیم صاحب قبلہ۔
چلیں "پہنچے" ہوئے سے آپ دس پندرہ سال "سزا" کاٹ چکا ہوا مجرم مراد لے لیں۔ارے حضرت کاہے کا پہنچا ہوا، آپ حضرات کی صحبت کا فیض ہے کہ حال دل اور حالت زار کو الفاظ مل گئے ہیں۔
تیرہ سالچلیں "پہنچے" ہوئے سے آپ دس پندرہ سال "سزا" کاٹ چکا ہوا مجرم مراد لے لیں۔
پہلی شادی کے لیے حکومت بھی جانتی ہے کہ لڑکے کے اپنا ابا اماں نے پہلے ہی بہت شرطیں لگائی ہوتی ہیں۔ کبھی اے خان صاحب ادھر آئے تو ان سے پوچھیے گا۔شکر ہے، پہلی شادی کے لیے کوئی ایسی، یا ملتی جلتی شرط عائد نہ کی گئی ہے ۔۔۔! وگرنہ، لڑکی کو، لڑکی کے اماں ابا وغیرہ کو منانے کے بعد بی بی کونسل کو بھی منانا پڑتا ۔۔۔!
چلیں "پہنچے" ہوئے سے آپ دس پندرہ سال "سزا" کاٹ چکا ہوا مجرم مراد لے لیں۔
15+10 = 25تیرہ سال
10 + 13 = 23 ÷ 2 = 11،515+10 = 25
اوسط = 25/2 = 12.5
باقی 6 ماہ کا معمہ آپ دونوں خود حل کرلیجیے۔
10 + 13 = 23 ÷ 2 = 11،5
15 +13 = 28 ÷ 2 = 14
11،5 + 14 = 25،5 ÷ 2 = 12،75
لیجیے میری طرف سے فرق صرف 3 ماہ کا رہ گیا۔
بھائی ہمارا تو حساب کتاب بھی فلسفیانہ ہوتا ہے۔
فلسفی بھائی اب ذرا آستین چڑھالیجیے۔
بھائی ہمارا تو حساب کتاب بھی فلسفیانہ ہوتا ہے۔
مثلا وارث بھائی نے کہا "دس پندرہ" یعنی
10 +15 = 25
25 طاق عدد ہے، جبکہ زوجین یعنی میاں اور بیوی، 2 یعنی جفت عدد بنتا ہے۔ لہذا مساوات کا تقاضا ہے کہ 25 کے عدد میں ایک کم یا اضافہ کر کے اس کو جفت بنا دیا جائے۔ ہم سب کیونکہ ازواج کی تعداد میں اضافے کے قائل ہیں لہذا ایک عدد بڑھا کر طاق عدد کو جفت یعنی 26 بنا لیتے ہیں۔
اب نکالیے اوسط یعنی 2 / 26 = 13
بوقت ضرورت مزید "فلسفہ" استعمال کر کے کسی بھی عدد کو بڑھایا یا گھٹایا جا سکتا ہے۔
دین میں ایسی کوئی تصریح نہیں۔دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی سے اجازت اسلام میں ضروری نہیں ہے، یہ صرف پاکستانی قانون میں ہے ۔
خبردار!خبردار!خبردار! معاشرتی بناؤ کو معاشرتی بگاڑ سمجھنے والو ۔معاشرتی بگاڑ
دین میں ایسی کوئی تصریح نہیں۔
البتہ کسی معاشرتی بگاڑ سے بچاؤ کے لیے کوئی قانون سازی کی جائے تو اس کو خلافِ اسلام قرار دینے کی کوئی معقول وجہ سمجھ نہیں آتی۔
میرے تبصرے کی نوعیت بالکل عمومی تھی کہ دین میں اس معاملے میں معاشرتی سطح پر قانون سازی کی جاسکتی ہے۔میرا خیال ہے کہ دوسری شادی سے معاشرتی بگاڑ نہیں ہوتا۔
بلکہ دوسری شادی کی ضرورت ہوتے ہوئے ، دوسری شادی کی اجازت یا ماحول نہ ہونے کے باعث "معاشرتی بگاڑ" کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اتنا تو آپ بھی سمجھتے ہوں گے۔
میرے تبصرے کی نوعیت بالکل عمومی تھی کہ دین میں اس معاملے میں معاشرتی سطح پر قانون سازی کی جاسکتی ہے۔
معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا اس موضوع پر بحث ہو سکتی ہے، اور اگر بات کی جائے تو ہو سکتا ہے کہ دونوں طرف کے قوی دلائل مل جائیں۔
مالبتہ معاشرتی بگاڑ کی تعریف ہمارے معاشرے میں کچھ اور ہوگی ، عرب میں کچھ اور اور مغرب میں کچھ اور۔ اس کا لحاظ رکھنا ضروری ہو گا۔