جاسم محمد
محفلین
دھاری دار پاجامے والا لڑکا
02/06/2019 احمد نعیم چشتی
فلم بہت جاندار ہے۔ آپ دیکھنا شروع کریں تو پھر آپ دیکھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ ایک سحر ہے جو آپ کو جکڑ لیتا ہے۔ کہانی ایسی ہے کہ دل میں اترتی جاتی ہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ دل میں ہی کہیں ٹھہر سی جاتی ہے۔ فلم کا اختتام ایسا ہے کہ آپ دم بخود رہ جاتے ہیں اور آنکھوں میں نمی پھیل جاتی ہے۔
فلم The Boy in Striped Pajamas اسی نام کے ناول پہ مبنی ہے جو سن دوہزار چھ میں شائع ہوا۔ آئرش مصنف جان بائنے کی تخلیق ہے جو شائع ہوتے ہی دنیا بھر میں مشہور ہو گیا۔
فلم دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے نازی کیمپوں میں بد ترین نسل کشی اور بربریت کو انوکھے انداز میں پیش کرتی ہے۔ یہ یہودیوں پر ہونے والے ظلم کی داستان ہے جسے ہم ایک بچے کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔
یہ ایک آٹھ سالہ برونو کی کہانی ہے جس کا والد نازی کیمپ میں کمانڈنٹ تعینات ہے۔ اسے معلوم نہیں کہ کیمپ میں قید لوگوں پہ کیا کیا ظلم ڈھائے جاتے ہیں۔ اپنے گھر کی کھڑکی سے دور کیمپ میں پھرتے قیدیوں کو دیکھ کے سوچتا ہے کہ شاید یہ محنت کش کسان ہیں جو کھیتوں میں کام کرتے پھرتے ہیں۔
برلن سے آکر دیہاتی علاقے میں رہنا اسے پسند نہیں۔ نہ باہر جانے کی اجازت نہ کوئی گھر میں کھیلنے والا دوست۔ اس کے سبھی دوست تو برلن میں ہی رہتے تھے۔ وہ تنہائی کا شکار ہے اور اداس سا پھرتا رہتا ہے۔ ایک دن گھر کی دیوار پھلانگ کر جنگل میں نکل جاتا ہے اور کیمپ کی خاردار باڑ تک جا پہنچتا ہے۔
باڑ کے پار آٹھ سالہ سیموئیل سے بات چیت ہوتی ہے جو اپنے والد کے ساتھ قید ہے۔ دونوں دوست روز ملنے لگتے ہیں۔ برونو سیموئیل کے لیے کھانے کی چیزیں اور کھیلنے کے لیے گیند اور بورڈ بھی لے آتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے گپ شپ کرتے ہیں۔ دونوں معصوم بچے نہیں جانتے کہ کیمپ میں کیسے لوگوں کا قتل عام کیا جاتا ہے۔
ایک دن سیموئیل پریشان ہوتا ہے۔ کہتا ہے کہ میرا والد مارچ کرنے گیا اور نہ جانے کہاں کھو گیا۔ وہ نہیں جانتا کہ اس کے والد کو گیس چیمبر میں ہجوم کے ساتھ راکھ کر دیا گیا۔
برونو اس کے والد کی تلاش میں مدد کرنا چاہتا ہے۔ سیموئیل اس کے لیے دھاری دار وردی اور ٹوپی لاتا ہے جو برونو پہن کر باڑ کے نیچے سے زمین کھود کر کیمپ میں چلا جاتا ہے۔ جہاں برونو اور سیموئیل ایک ہجوم کے ساتھ ہی گیس چیمبر میں ٹھونس دیے جاتے ہیں اور بھسم ہو جاتے ہیں۔
معصوم بچوں کا گیس چیمبر میں جلنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ جرمنی میں معصوم لوگوں کی نسل کشی انسانیت کے لیے شرمناک عمل تھا۔ کسی خاص کمیونٹی سے تعلق رکھنا کون سا جرم ہے؟
برونو اور سیموئیل امن اور محبت کی علامت ہیں جو محبت، دوستی اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے پہ یقین رکھتے ہیں۔ دونوں بچے خوبصورت احساسات کے مجسمے ہیں۔ انسانوں کے تعلقات ان بچوں کے رشتے ایسے ہونے چاہیے۔
فلم سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ فطرت انسان کو خوبصورت پیدا کرتی ہے۔ معصوم اور محبت کرنے والا۔ جیسے انسان بڑا ہوتا ہے اس میں نفرت اور بے جا غرور جیسے گھٹیا جذبے پیدا ہو جاتے ہیں۔ وہ خطرناک درندہ بن جاتا ہے۔ کیا عقل انسان کے لیے مسائل پیدا کرتی ہے؟ یہ سوال جنم لیتا ہے۔
برونو کا باپ کیمپ میں قیدیوں کے قتل میں براہ راست ملوث ہوتا ہے۔ اس کا اپنا بیٹا بھی اسی ظلم کا شکار ہو جاتا ہے۔ ظلم جنگل کی آگ کی مانند ہوتا ہے جس کی لپیٹ میں سب کچھ راکھ ہو جاتا ہے۔
فلم کے آخر پہ برونو کے باپ کی چیخ نازی کیمپوں میں زندہ جلائے جانے والے ہر قیدی کی پکار ہے۔
گیس چیمبر سے بدبودار دھواں اٹھتا رہتا ہے۔ انسانی جسموں اور ہڈیوں کے جلنے سے پیدا ہونے والا دھواں۔
فضا میں برونو اور سیموئل کے معصوم جسموں کی سڑاند دراصل اس درندگی کا نتیجہ ہے جو دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی تاریخ کا سیاہ باب بنی۔ آٹھ سالہ بچوں کے جذبے کتنے پاکیزہ تھے۔ ان کی دوستی کتنی سچی تھی۔ ان کے احساسات کتنے خوبصورت تھے۔ وہ سب نفرت کی آگ میں راکھ ہو گئے۔ فلم ہمارے اندر بسی نفرت کی چنگاری کو گلزار بنانے کی سعی کرتی ہے۔
فلم نہایت متاثر کن ہے۔ دیکھنے کے قابل ہے۔
02/06/2019 احمد نعیم چشتی
فلم بہت جاندار ہے۔ آپ دیکھنا شروع کریں تو پھر آپ دیکھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ ایک سحر ہے جو آپ کو جکڑ لیتا ہے۔ کہانی ایسی ہے کہ دل میں اترتی جاتی ہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ دل میں ہی کہیں ٹھہر سی جاتی ہے۔ فلم کا اختتام ایسا ہے کہ آپ دم بخود رہ جاتے ہیں اور آنکھوں میں نمی پھیل جاتی ہے۔
فلم The Boy in Striped Pajamas اسی نام کے ناول پہ مبنی ہے جو سن دوہزار چھ میں شائع ہوا۔ آئرش مصنف جان بائنے کی تخلیق ہے جو شائع ہوتے ہی دنیا بھر میں مشہور ہو گیا۔
فلم دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے نازی کیمپوں میں بد ترین نسل کشی اور بربریت کو انوکھے انداز میں پیش کرتی ہے۔ یہ یہودیوں پر ہونے والے ظلم کی داستان ہے جسے ہم ایک بچے کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔
یہ ایک آٹھ سالہ برونو کی کہانی ہے جس کا والد نازی کیمپ میں کمانڈنٹ تعینات ہے۔ اسے معلوم نہیں کہ کیمپ میں قید لوگوں پہ کیا کیا ظلم ڈھائے جاتے ہیں۔ اپنے گھر کی کھڑکی سے دور کیمپ میں پھرتے قیدیوں کو دیکھ کے سوچتا ہے کہ شاید یہ محنت کش کسان ہیں جو کھیتوں میں کام کرتے پھرتے ہیں۔
برلن سے آکر دیہاتی علاقے میں رہنا اسے پسند نہیں۔ نہ باہر جانے کی اجازت نہ کوئی گھر میں کھیلنے والا دوست۔ اس کے سبھی دوست تو برلن میں ہی رہتے تھے۔ وہ تنہائی کا شکار ہے اور اداس سا پھرتا رہتا ہے۔ ایک دن گھر کی دیوار پھلانگ کر جنگل میں نکل جاتا ہے اور کیمپ کی خاردار باڑ تک جا پہنچتا ہے۔
باڑ کے پار آٹھ سالہ سیموئیل سے بات چیت ہوتی ہے جو اپنے والد کے ساتھ قید ہے۔ دونوں دوست روز ملنے لگتے ہیں۔ برونو سیموئیل کے لیے کھانے کی چیزیں اور کھیلنے کے لیے گیند اور بورڈ بھی لے آتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے گپ شپ کرتے ہیں۔ دونوں معصوم بچے نہیں جانتے کہ کیمپ میں کیسے لوگوں کا قتل عام کیا جاتا ہے۔
ایک دن سیموئیل پریشان ہوتا ہے۔ کہتا ہے کہ میرا والد مارچ کرنے گیا اور نہ جانے کہاں کھو گیا۔ وہ نہیں جانتا کہ اس کے والد کو گیس چیمبر میں ہجوم کے ساتھ راکھ کر دیا گیا۔
برونو اس کے والد کی تلاش میں مدد کرنا چاہتا ہے۔ سیموئیل اس کے لیے دھاری دار وردی اور ٹوپی لاتا ہے جو برونو پہن کر باڑ کے نیچے سے زمین کھود کر کیمپ میں چلا جاتا ہے۔ جہاں برونو اور سیموئیل ایک ہجوم کے ساتھ ہی گیس چیمبر میں ٹھونس دیے جاتے ہیں اور بھسم ہو جاتے ہیں۔
معصوم بچوں کا گیس چیمبر میں جلنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ جرمنی میں معصوم لوگوں کی نسل کشی انسانیت کے لیے شرمناک عمل تھا۔ کسی خاص کمیونٹی سے تعلق رکھنا کون سا جرم ہے؟
برونو اور سیموئیل امن اور محبت کی علامت ہیں جو محبت، دوستی اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے پہ یقین رکھتے ہیں۔ دونوں بچے خوبصورت احساسات کے مجسمے ہیں۔ انسانوں کے تعلقات ان بچوں کے رشتے ایسے ہونے چاہیے۔
فلم سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ فطرت انسان کو خوبصورت پیدا کرتی ہے۔ معصوم اور محبت کرنے والا۔ جیسے انسان بڑا ہوتا ہے اس میں نفرت اور بے جا غرور جیسے گھٹیا جذبے پیدا ہو جاتے ہیں۔ وہ خطرناک درندہ بن جاتا ہے۔ کیا عقل انسان کے لیے مسائل پیدا کرتی ہے؟ یہ سوال جنم لیتا ہے۔
برونو کا باپ کیمپ میں قیدیوں کے قتل میں براہ راست ملوث ہوتا ہے۔ اس کا اپنا بیٹا بھی اسی ظلم کا شکار ہو جاتا ہے۔ ظلم جنگل کی آگ کی مانند ہوتا ہے جس کی لپیٹ میں سب کچھ راکھ ہو جاتا ہے۔
فلم کے آخر پہ برونو کے باپ کی چیخ نازی کیمپوں میں زندہ جلائے جانے والے ہر قیدی کی پکار ہے۔
گیس چیمبر سے بدبودار دھواں اٹھتا رہتا ہے۔ انسانی جسموں اور ہڈیوں کے جلنے سے پیدا ہونے والا دھواں۔
فضا میں برونو اور سیموئل کے معصوم جسموں کی سڑاند دراصل اس درندگی کا نتیجہ ہے جو دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی تاریخ کا سیاہ باب بنی۔ آٹھ سالہ بچوں کے جذبے کتنے پاکیزہ تھے۔ ان کی دوستی کتنی سچی تھی۔ ان کے احساسات کتنے خوبصورت تھے۔ وہ سب نفرت کی آگ میں راکھ ہو گئے۔ فلم ہمارے اندر بسی نفرت کی چنگاری کو گلزار بنانے کی سعی کرتی ہے۔
فلم نہایت متاثر کن ہے۔ دیکھنے کے قابل ہے۔