۔ لیکن یہودیوں نے ایسا کیا کیا کہ جرمن مسیحیوں نے لاکھوں کی تعداد میں مختلف طریقوں سے مار دئیے۔
سام دشمنی
لفظ سام دشمنی سے مراد یہودیوں کے خلاف تعصب یا نفرت ہے۔ ہالوکاسٹ یعنی نازی جرمنی اور اس کے حلیفوں کی طرف سے 1933 سے 1945 کے دوران ریاستی سرپرستی میں یورپی یہودیوں پر ہونے والا ظلم و ستم اور قتل عام سام دشمنی کے حوالے سے تاریخ کی سنگین ترین مثال ہے۔ سام دشمنی کی اصطلاح 1879 میں جرمن صحافی ول ھیم مار نے تخلیق کی جس سے مراد یہودیوں سے نفرت کے علاوہ یہودیوں سے منصوب مختلف لبرل کاسماپولیٹن اور اٹھارویں اور اُنیسویں صدی کے عالمی سیاسی رجحانات سے نفرت کا اظہار ہے۔ جن رجحانات پر نکتہ چینی کی جاتی تھی اُن میں شہری حقوق، آئینی جمہوریت، آزاد تجارت، سوشلزم، فنانس، سرمایہ داری اور عدم تشدد کے نظریات شامل تھے۔
تاہم یہودیوں سے مخصوص نفرت جدید دور اور سام دشمنی کی اصطلاح کے رائج ہونے سےپہلے موجود تھی۔ تمام تر تاریخ کے دوران سام دشمنی کے اظہار کے عام ترین رویوں میں پوگروم یعنی یہودیوں کے خلاف تشدد آمیز فسادات تھے۔ سرکاری حکام اکثر ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے تھے۔ اکثریہ تشدد آمیز فسادات اس لئے ہوئے کیونکہ یہودیوں کے متعلق یہ جھوٹی افواہیں پھیلا دی گئیں کہ وہ لوگ اپنے دینی مقاصد میں عیسائی بچوں کا خون استعمال کرتے ہیں۔
جدید دور میں سام دشمنوں نے اپنی نفرت کے نظرئیے میں سیاسی جہت کا بھی اضافہ کر دیا۔ اُنیسویں صدی کی آخری تہائی کے دوران جرمنی، فرانس اور آسٹریا میں یہود دشمن سیاسی جماعتیں تشکیل دی گئیں۔ "پروٹوکول آف دی ایلڈرلی آف زائیون" جیسی تصنیفات نے ایک بین الاقوامی یہودی سازش کے فراڈ پر مبنی نظریات کیلئے حمایت فراہم کی۔ سیاسی سام دشمنی کا ایک اہم حصہ قوم پرستی تھا جس میں اکثر یہودیوں کی غیر وفادار شہریوں کے طور پر مذمت کی جاتی تھی۔
اُنیسویں صدی کی غیر ملکیوں سے خوف پر مبنی قومی اور نسلی تحریک "والکِش تحریک" (لوک یا عوامی تحریک) جرمن فلسفیوں، دانشوروں اور فنکاروں پر مشتمل تھی جو یہودی روح کو جرمن قوم کیلئے اجنبی خیال کرتے تھے اور اُنہوں نے یہودی نظرئیے کو غیر جرمن ہونے کی حیثیت سے متعارف کرایا تھا۔ نسلی بشریات کے نظریہ سازوں نے اِس تصور کیلئے جعلی سائینسی جواز فراہم کیا۔ نازی پارٹی کو 1919 میں قائم کیا گیا اور اِس کی قیادت ایڈولف ہٹلر نے سنبھالی۔ نازی پارٹی نے نسل پرستی پر مبنی نظریات کو سیاسی اظہار دیا۔ نازی پارٹی نے اپنی مفقبولیت جزوی طور پر یہود مخالف پراپیگنڈے کی تشہیر کی بنیاد ہر ہی حاصل کی۔ لاکھوں افراد نے ہٹلر کی کتاب "مائین کیمپف" (یعنی میری جدوجہد) خریدی جس میں یہودیوں کو جرمنی سے خارج کر دینے پر زور دیا گیا۔
حاجی امین الحسینی کی ہٹلر سے ملاقات
اس جرمن پروپیگنڈہ نیوزریل میں یروشلم کے سابق مفتی اعظم حاجی امین الحسینی، جو ایک عرب قوم پرست اور ممتاز مسلمان مذہبی رہنما تھے، پہلی بار ہٹلر سے ملاقات کرتے ہیں۔
سلطنت کی چانسلری میں منعقدہ اس ملاقات کے دوران ہٹلر نے ایک عوامی بیان دینے یا ایک خفیہ مگر رسمی معاہدہ طے کرنے کے بارے میں الحسینی کی درخواست ماننے سے انکار کر دیا- اس معاہدے میں جرمنی کو درج ذیل باتوں کا عہد کرنا تھا: 1) عرب زمین پر قبضہ نہ کرنے کا عہد، 2) آزادی کے لیے عرب جدوجہد کو تسلیم کرے گا، اور 3) فلسطین میں مجوزہ یہودی وطن کو "ہٹانے" کی حمایت کرے گا۔ ہٹلر نے تصدیق کی کہ "فلسطین میں ایک یہودی وطن کے خلاف جدوجہد" یہودیوں کے خلاف اُن کی جدوجہد کا حصہ رہے گی۔ ہٹلر نے کہا کہ: وہ "یہودی کمیونسٹ یورپی سلطنت کی مکمل تباہی تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں" گے؛ اور جب جرمن افواج عرب دنیا کے بالکل قریب پہنچ جائیں گی تو جرمنی عرب دنیا کیلئے ایک یقین دہانی جاری کرے گا کہ "آزادی کا لمحہ اب اُن کی مُٹھی میں ہے۔" اس کے بعد الحسینی کی ذمہ داری ہو گی کہ "وہ عرب کارروائی سرانجام دینے کی تیاری کریں جو اُنہوں نے خفیہ طور پر تیار کی ہے"۔ فیوہرر یعنی جرمن رہنما نے کہا کہ جرمنی عربوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا اور جرمن مقصد صرف "اس وقت برطانوی اقتدار کے تحفظ کے ماتحت رہنے والے یہودیوں کا مکمل خاتمہ ہو گا۔"
مکمل نقل
جرمن رہنما نے یروشلم کے مفتی اعظم سے ملاقات کی جو عرب قوم پرستی کے سب سے زیادہ بااثر افراد میں سے ایک تھے۔ مفتی اعظم بیک وقت فلسطین میں عربوں کے مذہبی رہنما اور ان کے سب سے بڑے منصف اعلیٰ اور مالیاتی منتظم تھے۔ اُن کی قوم پرستی کی وجہ سے انگریزوں نے انہیں بری طرح پریشان کیا اور اُن کے سر کی قیمت 25,000 پاؤنڈ لگا دی۔ اُن کا مہم جوئی سے پر سفر اُنہیں اٹلی سے جرمنی لے آیا۔
1933 میں نازیوں کے اقتدار پر قبضے کے ساتھ پارٹی نے یہود مخالف اقتصادی بائیکاٹ کا حکم دیا۔ کتابوں کو نذر آتش کیا اور تعصب پر مبنی یہود مخالف قانون سازی کی۔ 1935 میں نیورمبرگ قوانین نے نسلی بنیادوں پر "خون" کے حوالے سے یہودیوں کی توجیح کی اور آرین اور غیر آرین کے درمیان مکمل علیحدگی کا حکم دیا اور یوں نسلی تعصب پر درجہ بندی کو قانونی حیثیت دے دی۔ 9 نومبر 1938 کی شب نازیوں نے یہودی عبادت گاہوں (سناگاگز) کو تباہ کر دیا۔ (اِس اقدام کو کرسٹک ناخٹ پوگروم یا ٹوٹے شیشے کی رات کہا جاتا ہے)۔ اِس واقعے سے تباہی کے دور کی طرف سفر کا آغاز ہو گیا جس میں قتل و غارتگری نازیوں کی یہود دشمنی کا واحد نقطہ ارتکاز بن گئی۔