میں وہ شاعر ہوں جو شاہوں کا ثنا خواں نہ ہوا
یہ وہ جرم ہے جو مجھ سے کسی عنواں نہ ہوا
اس گنہ پر میری اک عمر اندھیرے میں کٹی
مجھ سے اس موت کے میلے میں چراغاں نہ ہوا
اور شہروں میں سنی محفلِ یاراں ہی کی بات
نہ حکایت کبھی ایسی نہ شکایت اتنی
تیرِ مژگاں بھی کبھی اُن کو پہونچنے نہ دیا
گو خود ہی سے ہے آنکھوں کو محبت اتنی
چشم گریاں میں وہ سیلاب تھے اے یار کہ بس
گرچہ کہتے رہے مجھ سے میرے غم خوار کہ بس
گھر تو کیا گھر کی شباہت بھی نہیں ہے باقی
ایسے ویراں ہوئے ہیں درو دیوار کہ بس
احمد فراز