دیئے گئے لفظ پر شاعری - دوسرا دور

سیما علی

لائبریرین
دیکھ تو چشمِ حقیقت سے مگر ریاض
وہ آنکھ ہی کیا دیکھ نہ سکے جو کوئی خواب

بے سبب امید لگا رکھی ہے کل سے
تعبیر کیا ملے گی جو دیکھا نہ کوئی خواب

تعبیر
 

سیما علی

لائبریرین
پانی نہیں کہ اپنے ہی چہرے کو دیکھ لوں
منظر زمیں کے ڈھونڈتا ہوں ماہتاب میں

پھر تیرگی کے خواب سے چونکا ہے راستہ
پھر روشنی سی دوڑ گئی ہے سحاب میں

سحاب
 

سیما علی

لائبریرین
شَرابِ حُسن سے گَر ہو نہ تِشنَگی سیراب
جَواز یہ ہے کہ تُو نے سَراب دیکھا تھا

عجیب دَور تھا ایک ایک پَل تھی نیند حَرام
اَور اُس پہ دونوں نے اِک مِل کَے خواب دیکھا تھا

پَل
 
میں وہ شاعر ہوں جو شاہوں کا ثنا خواں نہ ہوا
یہ وہ جرم ہے جو مجھ سے کسی عنواں نہ ہوا
اس گنہ پر میری اک عمر اندھیرے میں کٹی
مجھ سے اس موت کے میلے میں چراغاں نہ ہوا

عمر
 

شمشاد

لائبریرین
باہزاراں اضطراب و صدہزاراں اشتیاق
تجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا یاد ہے
حسرتؔ موہانی

اشتیاق
 
دنیا بھی عجب قافلہ تشنہ لباں ہے
ہر شخص سرابوں کے تعاقب میں رواں ہے
تنہا تیری محفل نہیں ہوں کہ میرے ساتھ
اک لذت پابندی اظہار و بیاں ہے

محفل
 

سیما علی

لائبریرین
اور شہروں میں سنی محفلِ یاراں ہی کی بات
نہ حکایت کبھی ایسی نہ شکایت اتنی
تیرِ مژگاں بھی کبھی اُن کو پہونچنے نہ دیا
گو خود ہی سے ہے آنکھوں کو محبت اتنی
  • پروفیسر عزیز احمد
مژگاں
 

شمشاد

لائبریرین
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
میر تقی میر

سیلاب
 
چشم گریاں میں وہ سیلاب تھے اے یار کہ بس
گرچہ کہتے رہے مجھ سے میرے غم خوار کہ بس
گھر تو کیا گھر کی شباہت بھی نہیں ہے باقی
ایسے ویراں ہوئے ہیں درو دیوار کہ بس
احمد فراز

درو دیوار
 

سیما علی

لائبریرین
دود داغ سر سودا زدہ کرتا ہے سیاہ
اے جنوں ہم کبھی رکھتے ہیں جو دستار سفید
روشن اے ماہ کیا تو نے سیہ خانہ مرا
تیرے جلوے سے ہوئے ہیں در و دیوار سفید

امام بخش ناسخ

جلوے
 

شمشاد

لائبریرین
مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں
مرے ہم راہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی
ساحر لدھیانوی

رسوا
 
Top