یہ دَور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ
حکیم الامت کے محضر میں
صنم کدہ ہے جہاں، اور مردِ حق ہے خلیل
یہ نکتہ وہ ہے — کہ پوشیدہ لاالہ میں ہے
صنم کدہ: بت خانہ،
خلیل: حضرت ابراہیم (علیہ السلام)۔
تاریخِ انبیاء (علیہم السلام) میں رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے بعد، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک منفرد مقام حاصل ہے، جب آپ اپنی قوم کی طرف بھیجے گئے، تو آپ نے عقل ومنطق، دلیل و برہان، اور نظر و استدلال سے اپنی قوم کو سمجھانے کی ہر کوشش کی، لیکن جب وحیِّ ربانی کی شرینی، آپ کے حُسنِ اسلوب، لہجے کی مٹھاس، اور استدلال کی قوت سے بھرے بیان نے، ان عقل کے اندھوں پر کوئی اثر نہ کیا، تو اپنے انتہائی جرأت سے اپنی قوم کو مخاطب کرکے کہا: 《اور اللہ کی قسم، جب تم (یہاں سے) پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے، تو میں تمہارے (ان) بتوں کی خبر لینے کی تدبیر ضرور سوچوں گا》[سورہ الانبیاء: آیت 57]،
چونکہ جناب ابراہیم (علیہ السلام) کی سیرتِ مبارکہ ہر دور میں امتِ مسلمہ کے لئے مشعلِ راہ ہے۔۔
کس لطیف پیرائے میں علامہ صاحب نے دنیا کو بت کدے، اور مردِ حق کو خلیل اللہ کے ساتھ تشبیہ دی ہے، البتہ یہ ہرگز نہ سمجھیے گا، کہ وہ کسی بھی مردِ مومن کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملا رہے ہیں، ہرگز نہیں، بلکہ اس تشبیہ کا مقصد یہ ہے، کہ جو بھی اپنی زندگی کے لئے خلیل اللہ کی سیرت سے روشنی لے گا، وہ اس دنیا، اس کے مقام و مرتبے، جاہ و جلال، شان و شوکت اور مال و دولت کو کوئی اہمیت نہیں دے گا، مگر یہ کے ان چیزوں کا ہدف دینِ حنیف، اور بندگانِ خدا کی خدمت ہو۔
مردِ حق کے لئے توحید سے خالی دنیا اس بت کدے کی مانند ہے، جس میں مختلف انواع و اقسام کے بے جان پتھر رکھ دیے گئے ہوں، لہذا وہ ایسی دنیا اسی نظر سے دیکھے گا، جس نظر سے ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے شہر کے بت خانے کو دیکھا تھا۔ علامہ صاحب کہتے ہیں کہ یہی وہ راز ہے، جو لا الہ الا اللہ میں پوشیدہ ہے، یعنی کلمہءِ توحید کا مطلب ہر خدا کی نفی، اور ہر بت کو توڑنا ہے، چاہے وہ شہرت کا بت ہو، فانی دنیا کے حصول کا بت ہو، غرور و تکبر کا بت ہو، یا دنیاوی جاہ و منصب کا بت ہو۔ گویا دوسرے لفظوں میں علامہ صاحب یوں کہنا چاہتے ہیں، کہ اپنے دل سے ان سارے بتوں کو نکال دو، تاکہ تیرا دل لا الہ الا اللہ کے نور کو حقیقی معنوں میں محسوس کر سکے۔