سمجھتے کیوں نہیں یہ شاعرِ کرخت نواشاعر کو مست کرتی ہے تعریف شعر امیرؔ
سو بوتلوں کا نشہ ہے اس واہ واہ میں
امیر مینائی
شاعر
سمجھتے کیوں نہیں یہ شاعرِ کرخت نوا
سخن کہاں کا جو لہجے کی دلکشی سے گئے؟
عرفان ستار
دلکش یا دلکشی
گلوں نے آبلہ پائی کی کوئی داد نہ دیفضائے قدس میں حیرت کا وہ دلکش سماں ہو گا
کہ بندہ میہماں معبود برحق میزباں ہو گا
میزبان
گل چُن کے لے گئے ہو تم اب کے بہار بھیگلوں نے آبلہ پائی کی کوئی داد نہ دی
چمن میں خار ہی چھالوں کے میزبان ہوئے
عامر عثمانی
خار
ضربِ خیال سے کہاں ٹوٹ سکیں گی بیڑیاںنہ آسماں سے شکایت نہ باغباں سے مجھے
میرے جنوں نے نکالا ہے گلستاں سے مجھے
جنوں
پھولے ہے گرچہ باغ میں بلبل ہزار شاخچمن سے آ رہی ہے بُوئے کباب
کسی بلبل کا دل جلا ہو گا
بلبل
سرو قد لالہ رخ و غنچہ دہن یاد آیاپھولے ہے گرچہ باغ میں بلبل ہزار شاخ
اس سرو قد کو دیکھے تو ہو شرمسار شاخ
کسی کے پاے شکستہ پہ بار گزری ہےسرو قد لالہ رخ و غنچہ دہن یاد آیا
پھر بہار آئی مجھے لطف چمن یاد آیا
بہار
نئی بہار کا مژدہ بجا سہی لیکنسرو قد لالہ رخ و غنچہ دہن یاد آیا
پھر بہار آئی مجھے لطف چمن یاد آیا
بہار
پائے سفر شکستہ ہوئے مدتیں ہوئیںکسی کے پاے شکستہ پہ بار گزری ہے
خلافِ حُسنِ توقع بہار گزری ہے
شیکب جلالی
پائے شکستہ
پھر کسی دھیان نے ڈیرے ڈالےپائے سفر شکستہ ہوئے مدتیں ہوئیں
میں راستے میں ہوں ابھی ، پہنچا کہیں نہیں..!!
جون ایلیا
مہک
آنے والی برکھا دیکھیں کیا دکھلائے آنکھوں کونہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یوں ہی ذرا سی کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ
برکھا
کچھ اور زخم محبت میں بڑھ گئی ہے کسک
پریتم ایسی پریت نہ کریو
اب کون سے موسم سے کوئی آس لگائے