کاہے کوئل شورمچائے رے موہے اپنا کوئی یاد آئے رے
تونے کاہے کو نین پھِرائے رے کوئی جاکے اُسے سمجھائے۔۔۔رے
۔۔۔۔مورے دل سے جو نکلے ہائے رے کوئی دوش میرا بتلائے رے
کہدو کہدو کوئل سے نہ گائے رے موہے اپنا کوئی یاد آئے
مورے نینوں میں نیر بھر آئے رے موہے بیتے وہ دن یاد آئے رے
کاہے آگ لگی ہِردَے میں کوئی ہِردَے کی آگ بجھائے۔۔ رے
میرا جیون پل پل جائے رے رہوں کب تک آس لگائے رے
کوئی جاکے اُسے سمجھائے رے میری موت سے پہلے آئے رے
فلم’’۔آگ‘‘گلوکارہ:شمشاد بیگم،موسیقار:رام گنکولی،شاعر: دیپکؔ،سنہ ۴۸ء میں یہ فلم منظرِ عام پر آئی۔گیت کے بعض عام الفاظ بھی خاص یوں ہوگئے کہ ایک تو مدت ہوگئی اِنھیں سنے ہوئے کہ اب نغمہ نگاری کابھی وہ چلن نہیں رہا جو تھا او ر پھر اتنے عرصےمیں تہذیب و ثقافت ، زبان اوربول چال بھی کچھ سے کچھ ہوگئی ۔لہٰذا نغمے کی فرہنگ پیش کی جاتی ہے۔۔۔۔
کا۔۔کا مطلب کیا اور ہے کا مطلب ہے تو دونوں کو ملا کر یوں کہیں گے کیا ہے۔موہے کا مطلب مجھے اور نین پھرائے کا مطلب آنکھیں پھیرلینا یعنی رُخ پھیر لینا اور دوش کا مطلب قصور ہے اورنیر کا مطلب آنسو ہے اور ہِردَے کہتے ہیں کلیجے کواور میراجیون پل پل جائے رے کا مطلب ہے میری عمر دن بدن ڈھلے جارہی ہے ۔۔۔۔۔۔میرا خیال ہے یہی اِس نغمے کے بعض مشکل الفاظ تھے ۔۔۔۔۔اب پورے گیت کا مفہوم سنیں: کیا ہے جو کوئل اتنا شور کررہی ہے ؟مجھے اِس کی آواز سے اپنا بچھڑا ساتھی یاد آرہا ہے ۔کوئی ہے جو اُسے سمجھائے کہ اُس نے جوبیوجہ نظر یں پھیری ہیں تو کہیں میری ہاے اُسے لے نہ ڈوبے ۔۔کوئل سے پھر یہ کہو کہ نہ گائے کہ مجھ بِرہا کی ماری(ہجر کی ستائی) کے کلیجے میں آگ لگ جاتی ہے ،جس سے میری زندگی تیزی سے ختم ہوئی جاتی ہے ۔ اُسے کہو اِس سے پہلے کہ موت میرا خاتمہ کردے مجھے مل جائے یعنی ٹک میرجگر سوختہ کی جلد خبر لے کیا یار بھروسا ہے چراغِ سحری کا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئل