دیئے گئے لفظ پر شاعری - دوسرا دور

شرما کے یہ کیوں سب پردہ نشیں ۔،آنچل کو سنوارا کرتے ہیں
کچھ ایسی نظر والے بھی ہیں جو چھپ چھپ کے نظارا کرتے ہیں

مگر گیت کی طرح شرمانے کی بات بھی پرانی اوراِس کا خیال بھی اب تو دقیانوسی ہوکر رہ گیا ہے۔سوشل میڈیانے چھوٹ پٹی جو دیدی ہے صلاحیتوں کے اظہار ،ٹیلنٹ کی نمائش اور اُپج کے مظاہروں کی ۔اب کون اجنبی کو دیکھ کر بدحواس ہوتا ہے ،کسے ماحول کی ہلکی سی نامانوسیت سے بھی آہوے رَم خوردہ کی طرح وحشت زدہ ہوجانا قبول ہےاور کون لاج سے مرمرجانے کی شاعرانہ تھرل کا صورت گر ہوگا۔۔۔۔۔
ہیں
 

سیما علی

لائبریرین
شرما کے یہ کیوں سب پردہ نشیں ۔،آنچل کو سنوارا کرتے ہیں
کچھ ایسی نظر والے بھی ہیں جو چھپ چھپ کے نظارا کرتے ہیں

مگر گیت کی طرح شرمانے کی بات بھی پرانی اوراِس کا خیال بھی اب تو دقیانوسی ہوکر رہ گیا ہے۔سوشل میڈیانے چھوٹ پٹی جو دیدی ہے صلاحیتوں کے اظہار ،ٹیلنٹ کی نمائش اور اُپج کے مظاہروں کی ۔اب کون اجنبی کو دیکھ کر بدحواس ہوتا ہے ،کسے ماحول کی ہلکی سی نامانوسیت سے بھی آہوے رَم خوردہ کی طرح وحشت زدہ ہوجانا قبول ہےاور کون لاج سے مرمرجانے کی شاعرانہ تھرل کا صورت گر ہوگا۔۔۔۔۔
ہیں


برسوں رہے ہیں آپ ہماری نگاہ میں
یہ کیا کہا کہ ہم تمہیں پہچانتے نہیں

نوح ناروی

پہچانتے
 
قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے۔۔۔اُس کا پیام دل کے سوا کون لاسکے

نقادوں اور تجزیہ نگاروں کو خواجہ میردرؔد کی کس شاعرانہ خوبی نے اپنی طرف مائل (متوجہ) کیا؟اِس سیدھے سے سوال کا جواب ایسا سیدھا نہیں ہے مگر بہرحال ہے ضرور اور وہ یہ کہ اُن کے اکثر اشعارپر دنیاداری کی عام باتوں کا گمان ہوتا ہے مگر غورکریں تو اِن شعروں کے تانے بانے کہیں اور جاملتے ہیں۔یعنی ہرجگہ مجاز کے پردےمیں حق کا نوراور عقل کی اوٹ سے جنوں کا شعورجھلکتا نظر آتا ہے:​
اللہ رے!حسنِ یار کی خوبی کہ خود بخود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بیہوش نے بھی کام کیا۔۔ ہوشیار کا۔۔۔۔۔۔۔(تصرف)​
راہ
 
آخری تدوین:
برسوں رہے ہیں آپ ہماری نگاہ میں
یہ کیا کہا کہ ہم تمہیں پہچانتے نہیں

نوح ناروی

پہچانتے
حضرتِ استاد اِس شعرپر شترگربہ کا حکم لگائیں گے مگر بہرحال نوح ناروی ایک مشاق شاعر اور فصیح الملک حضرت ِ داغ کے شاگر دتھے اور نہ صرف شاگرد بلکہ جانشینی کا تاج ِ مرصعٰ بھی آپ ہی کے سر پرسجاجگمگا رہا ہے۔’’طوفانِ نوح‘‘، ’’سفینہ ٔ نوح ‘‘ اور’’اعجازِ نوح‘‘حضرت کے کلام کے صحائف ہیں۔۔۔۔۔
یہ ۔کیا۔، کہا۔ کہ۔ داؔغ کوپہچانتے نہیں
وہ ایک ہی تو شخص ہے تم جانتے نہیں

داؔغ مگر داغ کامقطع قبول نہیں ۔یہاں داغ ایک معروف شاعرانہ تخلص کے بطور نہیں بلکہ دھبّے کے مفہوم میں ایک لفظ ہے، جیسے داغِ دل ہم کو یاد آنےلگے ، لوگ اپنے دیے جلانے لگے ،خود فریبی سی خود فریبی ہے ، پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے۔۔۔۔۔۔کچھ نہ پاکر بھی مطمئن ہیں ہم ،عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے،یہی رستہ ہے اب یہی منزل ، اب یہیں دل کسی بہانے لگے،داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے ، داغ ِ دل ہم کو یاد آنے لگے۔۔۔۔۔۔
داغ
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم ۔ قتل ۔کرو۔ہو کہ ۔کرامات کرو ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کلیم عاجز

ہو

چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی​
عزیز تر ہے متاعِ امیر و سُلطاں سے
وہ شعر جس میں ہو بجلی کا سوز و براقی​
متاع
 
ہم ہیں متاعِ کوچہ و بازار کی طرح
اُٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح
۔۔۔۔۔۔۔۔مجروؔح۔ لکھ رہے۔ وہ۔ اہلِ وفاکا نام
۔۔۔۔۔۔۔۔ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گنہگارکی طرح
طرح
 
شرما گئے لجا گئے دامن چھڑا گئے
اے عشق مرحبا وہ یہاں تک تو آ گئے

دل پر ہزار طرح کے اوہام چھا گئے
یہ تم نے کیا کیا مری دنیا میں آ گئے

ہزار
ہزار نقص ہیں مجھ میں میرے کمال کو دیکھ
مجھے نہ دیکھ دلآویزی خیال کو دیکھ
گدائے حسن تیرا خوگر سوال نہیں
نگاہ شوق میں رعنائی سوال کو دیکھ
خیال
 
ہم ہیں متاعِ کوچہ و بازار کی طرح
اُٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح
۔۔۔۔۔۔۔۔مجروؔح۔ لکھ رہے۔ وہ۔ اہلِ وفاکا نام
۔۔۔۔۔۔۔۔ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گنہگارکی طرح
طرح
دنیا کو نہیں تاب میرے درد کی یارب
دے مجھ کو اسا لیب فغاں اور طرح کے
ناصر کاظمی
دنیا
 

سیما علی

لائبریرین
دنیا کو نہیں تاب میرے درد کی یارب
دے مجھ کو اسا لیب فغاں اور طرح کے
ناصر کاظمی
دنیا
جب کہا اور بھی دنیا میں حسیں اچھے ہیں
کیا ہی جھنجلا کے وہ بولے کہ ہمیں اچھے ہیں

نہ اُٹھا خواب عدم سے ہمیں ہنگامہء حشر
کہ پڑے چین سے ہم زیرِ زمیں اچھے ہیں

زیرِ زمین
 
زیرِ زمیں سے آتا ہے جو گُل سو زربکف
قاروں نے راستے میں۔۔ لُٹایا خزانہ کیا
۔۔۔۔۔۔۔اُڑتا ہے شوقِ راحتِ منزل سے اسپِ عمر
۔۔۔۔۔۔۔مہمیز کہتے ہیں گے کسے ۔۔۔۔۔۔تازیانہ کیا
غالؔب کی ایک غزل سب کہاں کچھ لالہ و گُل میں نمایاں ہوگئیں کا مطلع یہی شعریعنی سب کہاں کچھ لالہ و گُل میں نمایاں ہوگئیں ، خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں ۔۔۔۔آتؔش کے مندرجہ بالا شعریعنی زیرِ زمیں سے آتا ہے جو گُل سو زربکف کے ہم پلّہ ہے ۔یعنی غالؔب کے خیال میں یہ خوبصورت پھو ل دنیا کے وہی حسین وجمیل لوگ ہیں جو مرکر زمین میں دفن ہوئے تھے اب پھولوں کی صورت پھر دنیا میں جلوہ گر ہوگئے ہیں اور آتؔش کے خیال میں پھولوں میں لگا زیرہ سونے کے ذرات کی طرح ہے کہ زمین سے یہ خزانہ لے کر پُھوٹتے ہیں ۔یوں لگتا ہے کہ قارون کے بیش بہاخزانے سے اپنا حصہ لیکر آئے ہیں۔۔۔۔
جبکہ دوسرے شعر؛ اُڑتا ہے شوقِ راحتِ منزل سے ۔۔۔۔۔۔۔الخ ، میں اسپِ عمر کا مطلب تو انسان کی زندگی ہے جو ایک گھوڑے کی طرح قبرکا آرام پانے کے لیےآگے اور آگے اورآگے بڑھے جارہی ہے ،اِس دُھن میں اِسے بھگانے اور تیزدوڑانے کے لیےمزید زورزبردستی اور دباؤ کی بھی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
یہ باتیں مجھے اِس لیے سمجھانا پڑرہی ہیں کہ نمبرایک خودمجھے ’’۔ٹیچری‘‘کا بہت شوق ہے اور نمبردو کہ انگریزی کے چکر میں ہماری اُردُو بھی چکراسی گئی ہے چنانچہ اکثر پڑھنے والوں کو مہمیز کا مطلب، تازیانے کا مفہوم ،زر سے کیا مراد لی گئی اور بکف کسے کہا ۔۔۔۔۔۔۔معلوم نہیں ہوگا ۔ اِس لیے میں بتا دیتا ہوں کہ جس طرح زیر ِ زمیں کا مطلب سب جانتے ہیں زمین کے نیچے ہے اِسی طرح گُل ،پھول کو کہتے ہیں ،زرکا مطلب سونا یعنی گولڈ ہے اور کف ہتھیلی جبکہ قارون، فرعون کے وزیر کا نام تھا جو بہت بہت بہت مالدار تھا اورراحت آرام کو ، اسپ گھوڑے کو ، مہمیز ایک پھرکی جیسی چیز جو گھوڑسوار کے جوتوں میں لگی ہوتی تھی اُسےگھوڑے کےپیٹ پر رگڑنے سے رفتار بڑھتی تھی ،تازیانہ ہنٹر کو کہتے ہیں۔۔۔۔۔
قارون
 
آخری تدوین:
دیکھ اے قارونِ اعظم ، دیکھ اے سرمایہ دار
نامرادی ۔ کا ۔۔مُرقع، بے کسی ۔ کا ۔ ۔شاہ کار

سیماب اکبرآبادی نے نامرادی کی تصویر اور بیکسی کا مزار مزدورکو اُس کی حالتِ زار دیکھ کر قراردیا ہے اور قارونِ اعظم۔۔۔۔۔۔۔۔۔کھاتے پیتے ، مال دار مگر بے حِس لوگوں کو کہا۔​

کا
 
آخری تدوین:
کاہے کوئل شورمچائے رے موہے اپنا کوئی یاد آئے رے
تونے کاہے کو نین پھِرائے رے کوئی جاکے اُسے سمجھائے۔۔۔رے
۔۔۔۔مورے دل سے جو نکلے ہائے رے کوئی دوش میرا بتلائے رے
کہدو کہدو کوئل سے نہ گائے رے موہے اپنا کوئی یاد آئے
مورے نینوں میں نیر بھر آئے رے موہے بیتے وہ دن یاد آئے رے
کاہے آگ لگی ہِردَے میں کوئی ہِردَے کی آگ بجھائے۔۔ رے
میرا جیون پل پل جائے رے رہوں کب تک آس لگائے رے
کوئی جاکے اُسے سمجھائے رے میری موت سے پہلے آئے رے
فلم’’۔آگ‘‘گلوکارہ:شمشاد بیگم،موسیقار:رام گنکولی،شاعر: دیپکؔ،سنہ ۴۸ء میں یہ فلم منظرِ عام پر آئی۔گیت کے بعض عام الفاظ بھی خاص یوں ہوگئے کہ ایک تو مدت ہوگئی اِنھیں سنے ہوئے کہ اب نغمہ نگاری کابھی وہ چلن نہیں رہا جو تھا او ر پھر اتنے عرصےمیں تہذیب و ثقافت ، زبان اوربول چال بھی کچھ سے کچھ ہوگئی ۔لہٰذا نغمے کی فرہنگ پیش کی جاتی ہے۔۔۔۔
کا۔۔کا مطلب کیا اور ہے کا مطلب ہے تو دونوں کو ملا کر یوں کہیں گے کیا ہے۔موہے کا مطلب مجھے اور نین پھرائے کا مطلب آنکھیں پھیرلینا یعنی رُخ پھیر لینا اور دوش کا مطلب قصور ہے اورنیر کا مطلب آنسو ہے اور ہِردَے کہتے ہیں کلیجے کواور میراجیون پل پل جائے رے کا مطلب ہے میری عمر دن بدن ڈھلے جارہی ہے ۔۔۔۔۔۔میرا خیال ہے یہی اِس نغمے کے بعض مشکل الفاظ تھے ۔۔۔۔۔اب پورے گیت کا مفہوم سنیں: کیا ہے جو کوئل اتنا شور کررہی ہے ؟مجھے اِس کی آواز سے اپنا روٹھاساتھی یاد آرہا ہے ۔کوئی ہے جو اُسے جاکر سمجھائے کہ اُس نے جوبیوجہ نظر یں پھیری ہیں تو کہیں میری ہاے اُسے لے نہ ڈوبے ۔۔کوئل سے پھر یہ کہو کہ نہ گائے کہ مجھ بِرہا کی ماری(ہجر کی ستائی) کاکلیجہ جلتا ہے،جس سے میری زندگی تیزی سے ختم ہوئی جاتی ہے ۔ میرے پریتم سےکہو اِس سے پہلے کہ موت میرا خاتمہ کردے مجھے مل جائے یعنی ٹک میرجگر سوختہ کی جلد خبر لے کیا یار بھروسا ہے چراغِ سحری کا۔​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
کوئل
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
دیکھ اے قارونِ اعظم ، دیکھ اے سرمایہ دار
نامرادی ۔ کا ۔۔مُرقع، بے کسی ۔ کا ۔ ۔شاہ کار

سیماب اکبرآبادی نے نامرادی کی تصویر اور بیکسی کا مزار مزدورکو اُس کی حالتِ زار دیکھ کر قراردیا ہے۔۔۔۔۔۔​

کا

اب پورے گیت کا مفہوم سنیں: کیا ہے جو کوئل اتنا شور کررہی ہے ؟مجھے اِس کی آواز سے اپنا بچھڑا ساتھی یاد آرہا ہے ۔کوئی ہے جو اُسے سمجھائے کہ اُس نے جوبیوجہ نظر یں پھیری ہیں تو کہیں میری ہاے اُسے لے نہ ڈوبے ۔۔کوئل سے پھر یہ کہو کہ نہ گائے کہ مجھ بِرہا کی ماری(ہجر کی ستائی) کے کلیجے میں آگ لگ جاتی ہے ،جس سے میری زندگی تیزی سے ختم ہوئی جاتی ہے ۔ اُسے کہو اِس سے پہلے کہ موت میرا خاتمہ کردے مجھے مل جائے یعنی ٹک میرجگر سوختہ کی جلد خبر لے کیا یار بھروسا ہے چراغِ سحری کا۔
بھیا بہت بہت شکریہ
اتنے پیارے پیرائے میں سمجھاتے ہیں سلامت رہیے ۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
کاہے کوئل شورمچائے رے موہے اپنا کوئی یاد آئے رے
تونے کاہے کو نین پھِرائے رے کوئی جاکے اُسے سمجھائے۔۔۔رے
۔۔۔۔مورے دل سے جو نکلے ہائے رے کوئی دوش میرا بتلائے رے
کہدو کہدو کوئل سے نہ گائے رے موہے اپنا کوئی یاد آئے
مورے نینوں میں نیر بھر آئے رے موہے بیتے وہ دن یاد آئے رے
کاہے آگ لگی ہِردَے میں کوئی ہِردَے کی آگ بجھائے۔۔ رے
میرا جیون پل پل جائے رے رہوں کب تک آس لگائے رے
کوئی جاکے اُسے سمجھائے رے میری موت سے پہلے آئے رے
فلم’’۔آگ‘‘گلوکارہ:شمشاد بیگم،موسیقار:رام گنکولی،شاعر: دیپکؔ،سنہ ۴۸ء میں یہ فلم منظرِ عام پر آئی۔گیت کے بعض عام الفاظ بھی خاص یوں ہوگئے کہ ایک تو مدت ہوگئی اِنھیں سنے ہوئے کہ اب نغمہ نگاری کابھی وہ چلن نہیں رہا جو تھا او ر پھر اتنے عرصےمیں تہذیب و ثقافت ، زبان اوربول چال بھی کچھ سے کچھ ہوگئی ۔لہٰذا نغمے کی فرہنگ پیش کی جاتی ہے۔۔۔۔
کا۔۔کا مطلب کیا اور ہے کا مطلب ہے تو دونوں کو ملا کر یوں کہیں گے کیا ہے۔موہے کا مطلب مجھے اور نین پھرائے کا مطلب آنکھیں پھیرلینا یعنی رُخ پھیر لینا اور دوش کا مطلب قصور ہے اورنیر کا مطلب آنسو ہے اور ہِردَے کہتے ہیں کلیجے کواور میراجیون پل پل جائے رے کا مطلب ہے میری عمر دن بدن ڈھلے جارہی ہے ۔۔۔۔۔۔میرا خیال ہے یہی اِس نغمے کے بعض مشکل الفاظ تھے ۔۔۔۔۔اب پورے گیت کا مفہوم سنیں: کیا ہے جو کوئل اتنا شور کررہی ہے ؟مجھے اِس کی آواز سے اپنا بچھڑا ساتھی یاد آرہا ہے ۔کوئی ہے جو اُسے سمجھائے کہ اُس نے جوبیوجہ نظر یں پھیری ہیں تو کہیں میری ہاے اُسے لے نہ ڈوبے ۔۔کوئل سے پھر یہ کہو کہ نہ گائے کہ مجھ بِرہا کی ماری(ہجر کی ستائی) کے کلیجے میں آگ لگ جاتی ہے ،جس سے میری زندگی تیزی سے ختم ہوئی جاتی ہے ۔ اُسے کہو اِس سے پہلے کہ موت میرا خاتمہ کردے مجھے مل جائے یعنی ٹک میرجگر سوختہ کی جلد خبر لے کیا یار بھروسا ہے چراغِ سحری کا۔​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
کوئل
شام کو آواز چشموں کی سُلاتی ہے مجھے
صبح فرشِ سبز سے کوئل جگاتی ہے

بزمِ ہستی میں ہے سب کو محفل آرائی پسند
ہے دلِ شاعر کو لیکن کُنجِ تنہائی پسند

کُنج
 
چھوڑا کہیں نہ مجھ کو نسیم ِ بہار نے
کُنجِ قفس میں بھی مجھے آئی اُبھارنے
۔۔۔۔۔۔۔۔سراج الدین بیدؔم شاہ وارثی


چلیں اِس بہانے کہ ۔ دئیے گئے لفظ پر شعرتلاش کرکے یہاں پیش کریں ،بعض ایسے شاعروں سے بھی ملاقات ہوجاتی ہے جن کا اب سے پہلے کچھ پتا نہ تھا ۔سراج الدین بیدم شاہ وارثی سے آج ہی ملنے کا موقع ملا۔حیرت ہوتی ہے اور اپنی علمی بے بضاعتی پر شرمندگی بھی کہ ایسے ایسے اعلیٰ درجہ کے شاعر بھی موجود ہیں جن کے کلام ، رنگ و اُسلوب ، فکروخیال اور شگفتہ بیانی کا اب تک علم بھی نہ تھااور وہی بات جو جگن ناتھ آزاد نے کسی کے لیے کہی ہوگی مجھے اپنے لیے کہی معلوم ہوتی ہےیعنی ابتدایہ تھی کہ میں تھا اور دعویٰ علم کا انتہایہ ہے کہ اِس دعوے پہ شرمایا بہت۔۔۔لگے ہاتھوں بیدم کے چند اشعار اور سنتے جائیں:
میں ہوش و حواس اپنے اس بات پہ کھوبیٹھا ، ہنس کر جو کہاتونےآیا میرا دیوانہ۔جی چاہتا ہے تحفے میں بھیجوں میں اُنھیں آنکھیں،درشن کا تو درشن ہو نذرانے کا نذرانہ ۔قفس میں قید رکھ یا قید سے آزاد رہنے دے،بہرصورت چمن ہی میں مجھے صیاد رہنے دے۔مجھی کو دیکھ لیں اب تیرے دیکھنے والے،تو آئینہ ہے میرا تیرا آئینہ ہوں میں۔۔۔۔۔۔یوں لگتا ہے شعرنہیں کہہ رہے کان میں کچھ کہہ رہے ہیں اورروح بھی گوش برآواز ہے۔۔۔​
مجھے
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
چھوڑا کہیں نہ مجھ کو نسیم ِ بہار نے
کُنجِ قفس میں بھی مجھے آئی اُبھارنے
۔۔۔۔۔۔۔۔سراج الدین بیدؔم شاہ وارثی


چلیں اِس بہانے کہ ۔ دئیے گئے لفظ پر شعرتلاش کرکے یہاں پیش کریں ،بعض ایسے شاعروں سے بھی ملاقات ہوجاتی ہے جن کا اب سے پہلے کچھ پتا نہ تھا ۔سراج الدین بیدم شاہ وارثی سے آج ہی ملنے کا موقع ملا۔حیرت ہوتی ہے اور اپنی علمی بے بضاعتی پر شرمندگی بھی کہ ایسے ایسے اعلیٰ درجہ کے شاعر بھی موجود ہیں جن کے کلام ، رنگ و اُسلوب ، فکروخیال اور شگفتہ بیانی کا اب تک علم بھی نہ تھااور وہی بات جو جگن ناتھ آزاد نے کسی کے لیے کہی ہوگی مجھے اپنے لیے کہی معلوم ہوتی ہےیعنی ابتدایہ تھی کہ میں تھا اور دعویٰ علم کا انتہایہ ہے کہ اِس دعوے پہ شرمایا بہت۔۔۔لگے ہاتھوں بیدم کے چند اشعار اور سنتے جائیں:
میں ہوش و حواس اپنے اس بات پہ کھوبیٹھا ، ہنس کر جو کہاتونےآیا میرا دیوانہ۔جی چاہتا ہے تحفے میں بھیجوں میں اُنھیں آنکھیں،درشن کا تو درشن ہو نذرانے کا نذرانہ ۔قفس میں قید رکھ یا قید سے آزاد رہنے دے،بہرصورت چمن ہی میں مجھے صیاد رہنے دے۔مجھی کو دیکھ لیں اب تیرے دیکھنے والے،تو آئینہ ہے میرا تیرا آئینہ ہوں میں۔۔۔۔۔۔​
مجھے


بہت خوش ہے مجھے وہ یاد کر کے
بھری دنیا میری برباد کر کے

جلا کر پر میرے صیاد مجھ کو
سزا دیتے ہیں کیوں آزاد کر کے

جلانے کی ضرورت کیوں پڑی تھی
نشیمن کو مرے آباد کر کے

رہبر مصباحی

نشیمن
 
بہت خوش ہے مجھے وہ یاد کر کے
بھری دنیا میری برباد کر کے

جلا کر پر میرے صیاد مجھ کو
سزا دیتے ہیں کیوں آزاد کر کے

جلانے کی ضرورت کیوں پڑی تھی
نشیمن کو مرے آباد کر کے

رہبر مصباحی

نشیمن
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
علامہ اقبال
بسیرا
 

سیما علی

لائبریرین
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
علامہ اقبال
بسیرا
ہوا چار سو رحمتوں کا بسیرا اجالا اجالا سویرا سویرا
حلیمہ کو پہنچی خبر آمنہ کی مرے گھر میں آؤ حضور آ گئے ہیں

ہواؤں میں جذبات ہیں مرحبا کے فضاؤں میں نغمات صل علیٰ کے
درودوں کے کجرے سلاموں کے تحفے غلامو سجاؤ حضور آ گئے ہیں

کہاں میں ظہوری کہاں ان کی باتیں کرم ہی کرم ہے یہ دن اور راتیں
جہاں پر بھی جاؤ دلوں کو جگاؤ یہی کہتے جاؤ حضور آ گئے ہیں
محمد علی ظہوری

کرم
 
Top