دیئے گئے لفظ پر شاعری - دوسرا دور

یہ بھی بڑا کرم ہے سلامت ہے جسم ابھی
اے خسروانِ شہر۔۔۔۔قبائیں مجھے نہ دو
یہ غزل مہدی حسن کی گائی یادگار غزلوں میں سے ایک ہے ۔کلام احمد فراز کاہے ۔شعلہ تھا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو ۔میں کب کا جاچکا ہوں صدائیں مجھے نہ دو۔جو زہر پی چکا ہوں تمھی نے مجھے دیا ۔ اب تم تو زندگی کی دعائیں مجھے نہ دو۔یہ بھی بڑا کرم ہے سلامت ہے جسم ابھی ۔اے خسروانِ شہر قبائیں مجھے نہ دو۔ایسا نہ ہو کبھی کہ پلٹ کر نہ آسکوں۔ہر باردُور جاکے صدائیں مجھے نہ دو۔کب مجھ کو اعترافِ محبت نہ تھا فراز۔کب میں نے یہ کہا ہے سزائیں مجھے نہ دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو۔۔(جمہوریت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اجازت ہے کہ دوفعل امر کے صیغے میں بھی چلےگا جیسے جانا سے جاؤ اور لینا سے لو اور یہی لفظ اعداد کے معنوں میں بھی قبول ہے جیسے دوتین چار )
 
ہوا چار سو رحمتوں کا بسیرا اجالا اجالا سویرا سویرا
حلیمہ کو پہنچی خبر آمنہ کی مرے گھر میں آؤ حضور آ گئے ہیں

ہواؤں میں جذبات ہیں مرحبا کے فضاؤں میں نغمات صل علیٰ کے
درودوں کے کجرے سلاموں کے تحفے غلامو سجاؤ حضور آ گئے ہیں

کہاں میں ظہوری کہاں ان کی باتیں کرم ہی کرم ہے یہ دن اور راتیں
جہاں پر بھی جاؤ دلوں کو جگاؤ یہی کہتے جاؤ حضور آ گئے ہیں
محمد علی ظہوری

کرم
ایسا نہیں کہ تیرے بعد اہل کرم نہیں ملے
لوگ تو کم نہیں ملے ، لوگوں سے ہم نہیں ملے
اعتبار ساجد
لوگ
 
یہ بھی بڑا کرم ہے سلامت ہے جسم ابھی
اے خسروانِ شہر۔۔۔۔قبائیں مجھے نہ دو
یہ غزل مہدی حسن کی گائی یادگار غزلوں میں سے ایک ہے ۔کلام احمد فراز کاہے ۔شعلہ تھا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو ۔میں کب کا جاچکا ہوں صدائیں مجھے نہ دو۔جو زہر پی چکا ہوں تمھی نے مجھے دیا ۔ اب تم تو زندگی کی دعائیں مجھے نہ دو۔یہ بھی بڑا کرم ہے سلامت ہے جسم ابھی ۔اے خسروانِ شہر قبائیں مجھے نہ دو۔ایسا نہ ہو کبھی کہ پلٹ کر نہ آسکوں۔ہر باردُور جاکے صدائیں مجھے نہ دو۔کب مجھ کو اعترافِ محبت نہ تھا فراز۔کب میں نے یہ کہا ہے سزائیں مجھے نہ دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو۔۔(جمہوریت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اجازت ہے کہ دوفعل امر کے صیغے میں بھی چلےگا جیسے جانا سے جاؤ اور لینا سے لو اور یہی لفظ اعداد کے معنوں میں بھی قبول ہے جیسے دوتین چار )
 
بادباں کھول دو کہ اب وقت ہے چلنے والا
ایسا لگتا کہ طوفاں بھی ہے ٹلنے والا
تم بھی چاہو تو مجھے چھوڑ کہ جا سکتے ہو
میں تو آلام سے لڑ کر ہوں سنبھلنے والا

طوفان
 
طوفانِ نوح نے تو ڈبوئی زمیں فقط ،میں ننگِ خلق ساری خدائی ڈبوگیا۔زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے ، ہم تو اِس جینے کے ہاتھوں مرچلے۔سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے،اِس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے بڑھ کے طوفان کو آغوش میں لے لے اپنی ، ڈوبنے والے ترے ہاتھ سے ساحل تو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔

گیا
 
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر ، لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔جلاہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا،کریدتے ہوجو اب راکھ جستجو کیا ہے۔وہ کہیں بھی گیا لَوٹا تو مرے پاس آیا، بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی ۔کروں گا کیا جو محبت میں ہوگیا ناکام، مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آتا/آتی/آتے /
 
جو کہامیں نے کہ پیار آتا ہے مجھ کو تم پر،ہنس کے کہنے لگےاور آپ کو آتا کیاہے۔نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے ،مزا تو تب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی۔جب بھی آتا ہےمرا نام ترے نام کے ساتھ ، جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں۔۔۔۔۔

ہیں
 
آخری تدوین:
طوفانِ نوح نے تو ڈبوئی زمیں فقط ،میں ننگِ خلق ساری خدائی ڈبوگیا۔زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے ، ہم تو اِس جینے کے ہاتھوں مرچلے۔سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے،اِس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے بڑھ کے طوفان کو آغوش میں لے لے اپنی ، ڈوبنے والے ترے ہاتھ سے ساحل تو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔

گیا
مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا
ان خالی کمروں ناصر اب شمع جلاؤں کس کے لئے
ناصر کاظمی
شمع
 
جو کہامیں نے کہ پیار آتا ہے مجھ کو تم پر،ہنس کے کہنے لگےاور آپ کو آتا کیاہے۔نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے ،مزا تو تب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی۔جب بھی آتا ہےمرا نام ترے نام کے ساتھ ، جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں۔۔۔۔۔

ہیں
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
غالب
انداز
 
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر ، لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔جلاہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا،کریدتے ہوجو اب راکھ جستجو کیا ہے۔وہ کہیں بھی گیا لَوٹا تو مرے پاس آیا، بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی ۔کروں گا کیا جو محبت میں ہوگیا ناکام، مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آتا/آتی/آتے /
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پر ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
غالب

بات
 
Top