دیئے گئے لفظ پر شاعری - دوسرا دور

دوسرے مصرعے پر نظرِ ثانی کریں۔ بہرِ واماندہ اقامت ہی سہی۔

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا

ناصح
شہر کا شہر ہی ناصح ہو تو کیا کیجئے گا
ورنہ ہم رند رو بھڑ جاتے ہیں دو چار کے ساتھ
احمد فراز
شہر
 

اربش علی

محفلین
بہت پہلے سے اُن قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی! ہم دُور سے پہچان لیتے ہیں

نگاہِ بادہ گوں! یوں تو تری باتوں کا کیا کہنا
تری ہر بات لیکن احتیاطاً چھان لیتے ہیں

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سُنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

آہٹ
 
تَر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

فرشتہ/فرشتے/فرشتگاں
آسمانوں سے فرشتہ تو نہیں اترے گا
شعر اتریں گے صحیفہ تو نہیں اترے گا
پار جانا ہے تو دریا میں اترنا ہو گا
سوچتے رہنے سے تو دریا نہیں اترے گا
دریا
 
بہت پہلے سے اُن قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی! ہم دُور سے پہچان لیتے ہیں

نگاہِ بادہ گوں! یوں تو تری باتوں کا کیا کہنا
تری ہر بات لیکن احتیاطاً چھان لیتے ہیں

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سُنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

آہٹ
آہٹ سی ہوئی تھی نہ کوئی برگ ہلا تھا
میں خود ہی سر منزل شب چیخ پرا تھا
لمحوں کی فصیلیں بھی میرے گرد کھڑی تھیں
مں پھر بھی تجھے شہر میں آوارہ لگا تھا
محسن نقوی
برگ
 

اربش علی

محفلین
سِرِشکِ چشمِ مُسلم میں ہے نَیساں کا اثر پیدا
خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گُہر پیدا
کتابِ مِلّتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
ربود آں تُرکِ شیرازی دلِ تبریز و کابل را
صبا کرتی ہے بُوے گُل سے اپنا ہم‌سفر پیدا
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹُوٹا تو کیا غم ہے
کہ خُونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سَحَر پیدا

کوہ
 
سِرِشکِ چشمِ مُسلم میں ہے نَیساں کا اثر پیدا
خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گُہر پیدا
کتابِ مِلّتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
ربود آں تُرکِ شیرازی دلِ تبریز و کابل را
صبا کرتی ہے بُوے گُل سے اپنا ہم‌سفر پیدا
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹُوٹا تو کیا غم ہے
کہ خُونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سَحَر پیدا

کوہ
زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی
زندگی
 

اربش علی

محفلین
زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی
زندگی
برتر از اندیشۂ سُود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی
تُو اسے پیمانۂ اِمروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم‌دواں، ہر دم جواں ہے زندگی
اپنی دُنیا آپ پیدا کر اگر زِندوں میں ہے
سِرِّ آدم ہے، ضمیرِ کُن فَکاں ہے زندگی

دنیا
 
دنیا میں ہوں دنیا کا طلبگار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں

مگر اکبرالہ آبادی صاحب المعروف بہ لسان العصر ہمیں بتائیں آپ کوکیوں جتانا پڑاکہ آپ دنیا پرست نہیں اور یہ کہ راہگیرکی طرح بازارِ جہاں سے گزر جائیں گے خرید وفروخت ہرگز نہیں کریں گے ، کیوں یہ بات دنیا کو بتاناپڑی ،کس لیے؟
اکبرالہ آبادی کا جواب تھا کہ جب مجھے بطور شاعر شہرت ملی تو دنیا داروں نے میری قیمت لگانا شروع کردی ۔ وہ میرے فکر وخیال کی قدر کرتے ہوئے ، اِسے خاصے کی چیزسمجھ کر سودے بازی نہیں کررہے تھے بلکہ مجھ سے میرا تخیل خرید کر اسے کوڑے دان میں ڈالنے کے لیے میرے پیچھے پڑے تھے ۔ آپ کے وہ خطرناک خیالات کیا تھے جنھیں دنیا نے اپنے لیے ہلاکت کا سامان سمجھا؟میں اہلِ مغر ب کی کورانہ تقلید پر اپنی قوم کو برا بھلا کہتا تھا اور وہ مجھے اپنی من مانیوں کی راہ سے ہٹانایا پرے دھکیلنا چاہتے تھے۔تو آپ نے تو اپنی قیمت اُن پر تنقیدی شعر لکھ کر اور زیادہ بڑھانا شروع کردی تھی ، ایسا کیوں کیا؟اُنھیں اپنی دولت دکھانے کے لیے جو مجھے خدا سے ملی تھی:​
غرور اُنھیں ہے تو مجھ کو بھی ناز ہے اکبر۔۔۔۔سِوا خدا کے سب اُن کا ہے اور خد امیرا​
خریدار
 
دنیا میں ہوں دنیا کا طلبگار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں

مگر اکبرالہ آبادی صاحب المعروف بہ لسان العصر ہمیں بتائیں آپ کوکیوں جتانا پڑاکہ آپ دنیا پرست نہیں اور یہ کہ راہگیرکی طرح بازارِ جہاں سے گزر جائیں گے خرید وفروخت ہرگز نہیں کریں گے ، کیوں یہ بات دنیا کو بتاناپڑی ،کس لیے؟
اکبرالہ آبادی کا جواب تھا کہ جب مجھے بطور شاعر شہرت ملی تو دنیا داروں نے میری قیمت لگانا شروع کردی ۔ وہ میرے فکر وخیال کی قدر کرتے ہوئے ، اِسے خاصے کی چیزسمجھ کر سودے بازی نہیں کررہے تھے بلکہ مجھ سے میرا تخیل خرید کر اسے کوڑے دان میں ڈالنے کے لیے میرے پیچھے پڑے تھے ۔ آپ کے وہ خطرناک خیالات کیا تھے جنھیں دنیا نے اپنے لیے ہلاکت کا سامان سمجھا؟میں اہلِ مغر ب کی کورانہ تقلید پر اپنی قوم کو برا بھلا کہتا تھا اور وہ مجھے اپنی من مانیوں کی راہ سے ہٹانایا پرے دھکیلنا چاہتے تھے۔تو آپ نے تو اپنی قیمت اُن پر تنقیدی شعر لکھ کر اور زیادہ بڑھانا شروع کردی تھی ، ایسا کیوں کیا؟اُنھیں اپنی دولت دکھانے کے لیے جو مجھے خدا سے ملی تھی:​
غرور اُنھیں ہے تو مجھ کو بھی ناز ہے اکبر۔۔۔۔سِوا خدا کے سب اُن کا ہے اور خد امیرا​
خریدار
یہ سوچ کر کے غم کے خریدار آ گئے
ہم خواب بیچنے سر بازار آ گئے
یوسف نہ تھے مگر سر بازار آ گئے
خوش فہمیاں یہ تھیں کہ خریدار آ گئے
احمد فراز
خواب
 

اربش علی

محفلین
گُلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز، اِسے بار بار دیکھ

آیا ہے تُو جہاں میں مثالِ شرار ،دیکھ
دَم دے نہ جائے ہستیِ نا پائدار، دیکھ

مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تُو میرا شوق دیکھ، مِرا انتظار دیکھ

کھولی ہیں ذوقِ دید نے آنکھیں تری اگر
ہر رہ گذر میں نقشِ کفِ پاے یار دیکھ



انتظار
 
Top