دیئے گئے لفظ پر شاعری - دوسرا دور

گُلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز، اِسے بار بار دیکھ

آیا ہے تُو جہاں میں مثالِ شرار ،دیکھ
دَم دے نہ جائے ہستیِ نا پائدار، دیکھ

مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تُو میرا شوق دیکھ، مِرا انتظار دیکھ

کھولی ہیں ذوقِ دید نے آنکھیں تری اگر
ہر رہ گذر میں نقشِ کفِ پاے یار دیکھ



انتظار
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
سفر
 
کیسی بلندی کیسی پستی!
نیند بھی کھلی نہ تھی کہ ہائے دھوپ ڈھل گئی غفلت ہٹی تو جوانی نہ تھی
پاؤں جب تلک اٹھے کہ زندگی پھسل گئی جسم و جاں میں طاقت نہ تھی
پات پات جھڑ گئے کہ شاخ شاخ جل گئی ایک بھی صلاحیت باقی نہ رہی
چاہ تو نکل سکی، نہ پر عمر نکل گئی خواہشیں دم توڑگئیں
گیت اشک بن گئے نغمہ نوحہ بن گیا
چھند ہو دفن گئے شعر مردہ ہوگئے
ساتھ کے سبھی دیے دھواں دھواں پہن گئے عزیز و اقارب،دوست احباب ایک ایک کرکے دنیا سے چلتے بنے
اور ہم جھکے جھکے میں جھکی ہوئی کمر
موڑ پر رکے رکے اور بڑھاپے کی کمزوری لیے
عمر کے چڑھاؤ کا اتار دیکھتے رہے زندگی کی رونقیں دیکھنے کے بعد تنہائی کا زہر پینے کواکیلارہ گیا
کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے کہاں وہ محفل اور کہاں یہ سناٹا۔۔۔۔۔۔
میں اپنے آپ سے گھبراگیا ہوں
مجھے اے زندگی
۔ دیوانہ کردے
زندگی
 
آخری تدوین:
زندگی صحرا بھی ہے اور زندگی گلشن بھی ہے
پیار میں کھوجائیے تو زندگی مدھوبن بھی ہے

آپ نے ٹھیک کہا کہ خوبصورت دل و دماغ کی خوبصورتیاں پیار کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں اور بلاامتیاز سب میں تقسیم ہوجاتی ہیں۔ یہ جتنی بٹتی ہیں اتنی بڑھتی ہیں اور نہ صرف اپنی بلکہ پوری انسانیت کی زندگی گل و گلزار ، باغ و بہار کردیتی ہیں مگرحضورفطرت ِ انسانی میں اور بھی تو ہزاروں عیب ثواب ہیں ،وہ بھی تو اپنا اثردکھاتے ہیں ، اُنھیں کس طرح کاؤنٹر کیاجائے ۔۔۔۔۔؟اِس کے لیے آپ ابوالکلام آزاد کا افسانہ ’’محبت ‘‘ پڑھیں جو بہت عرصہ پہلے اُن کے رسالے ’’الہلال‘‘ میں شایع ہوا تھا اور اب ’’الہلال کے افسانے ‘‘کے عنوان سے ’’ریختہ ‘‘ پر دستیاب ہے، ضرورپڑھیں۔۔۔۔۔فرصت ملی تو یہاں یا کسی اور لڑی میں اُس کا خلاصہ نذرِ قارئین کروں گا۔۔۔

گلشن
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
کیسی بلندی کیسی پستی!
نیند بھی کھلی نہ تھی کہ ہائے دھوپ ڈھل گئی غفلت ہٹی تو جوانی نہ تھی
پاؤں جب تلک اٹھے کہ زندگی پھسل گئی جسم و جاں میں طاقت نہ تھی
پات پات جھڑ گئے کہ شاخ شاخ جل گئی ایک بھی صلاحیت باقی نہ رہی
چاہ تو نکل سکی، نہ پر عمر نکل گئی خواہشیں دم توڑگئیں
گیت اشک بن گئے نغمہ نوحہ بن گیا
چھند ہو دفن گئے شعر مردہ ہوگئے
ساتھ کے سبھی دیے دھواں دھواں پہن گئے عزیز و اقارب،دوست احباب ایک ایک کرکے دنیا سے چلتے بنے
اور ہم جھکے جھکے میں جھکی ہوئی کمر
موڑ پر رکے رکے اور بڑھاپے کی کمزوری لیے
عمر کے چڑھاؤ کا اتار دیکھتے رہے زندگی کی رونقیں دیکھنے کے بعد تنہائی کا زہر پینے کواکیلارہ گیا
کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے کہاں وہ محفل اور کہاں یہ سناٹا۔۔۔۔۔۔
میں اپنے آپ سے گھبراگیا ہوں
مجھے اے زندگی
۔ دیوانہ کردے
زندگی
باقی ہے یہی ایک نشاں موسمِ گُل کا
جاری رہے گلشن میں بیاں موسمِ گُل کا

جب پُھول مرے چاکِ گریباں پہ ہنسے تھے
لمحہ وہی گزرا ہے گراں موسمِ گُل کا

نادان گھٹاؤں کے طلب گار ہوئے ہیں
شعلوں کو بنا کر نگراں موسمِ گُل کا

سُوکھے ہوئے پتّوں کے جہاں ڈھیر ملے ہیں
دیکھا تھا وہیں سیلِ رواں موسمِ گُل کا

شکیب جلالی

سیلِ رواں
 

اربش علی

محفلین
ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا
اِس دشت سے بہتر ہے نہ دِلّی نہ بخارا
جس سَمت میں چاہے صفَتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہُنَر کر
کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارا


صحرا
 

سیما علی

لائبریرین
اذیتوں کے تمام نشتر مری رگوں میں اتار کر وہ
بڑی محبت سے پُوچھتا ہے "تمھاری آنکھوں کو کیا ہوا ہے؟"
لفظ آپ نے نہیں دیا تو ہم نے نشتر

تری نگاہ سے بچنے میں عمر گزری ہے
اتر گیا رگ جاں میں یہ نشتر پھر بھی


رگِ جاں
 
اذیتوں کے تمام نشتر مری رگوں میں اتار کر وہ
بڑی محبت سے پُوچھتا ہے "تمھاری آنکھوں کو کیا ہوا ہے؟"
اگلے شعر کے لیے لفظ ندارد۔۔۔۔۔۔ایسا ہوا تو خیرجلدی میں ہوگا مگر شرکاءِ(شُرکائے) مقابلہ کے لیے یہ سہولت نکل آئی کہ اب وہ اپنی مرضی کا لفظ لیں گے اور اُس پراپنی مرضی کا شعر پیش کریں گے ۔شعردینے کے بعد تو خیر اپنی مرضی سے اگلے شعر کےلیے لفظ دیا ہی جائے گا ۔۔۔۔۔۔نہ دیا تو مرضی کا یہ سلسلہ بجائے خود کھیل کااُصول ہوجائیگا، میں ایسا نہیں ہونے دوں گا، میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔۔۔۔نہیں ، نیور، نہ، نو،نانانا۔۔۔۔۔۔تو لیجے میں ایک نہیں تین الفاظ کیا ہوا ہے میں ایک مزید کیاجمع کرکے مجاؔز کا شعر پیش کرنے چلا:​
کیا کیا ہوا ہے ہم سے جُنوں میں نہ پوچھیے
اُلجھے کبھی زمیں سے۔ کبھی آسماں سے ہم​
زمیں /آسماں
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
نہ دیا تو مرضی کا یہ سلسلہ بجائے خود کھیل کااُصول ہوجائیگا، میں ایسا نہیں ہونے دوں گا، میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔۔۔۔نہیں ، نیور، نہ، نو،نانانا۔۔۔۔۔۔تو لیجے میں ایک نہیں تین الفاظ کیا ہوا ہے میں ایک مزید کیاجمع کرکے مجاؔز کا شعر پیش کرنے چلا:​
کیا کیا ہوا ہے ہم سے جُنوں نہ پوچھیے
اُلجھے کبھی زمیں سے کبھی آسماں سے ہم​
زمیں /آسماں
عجیب انتشار ہے زمیں سے آسمان تک
غبار ہی غبار ہے زمیں سے آسمان تک

وبائیں قحط زلزلے لپک رہے ہیں پے بہ پے
یہ کس کا اقتدار ہے زمیں سے آسمان تک
راغب مرادآبادی

اقتدار
 
ایک نشترسا رگِ جاں میں ۔اُترنے دینا
زندہ رہنا ہے تو زخموں کو نہ بھرنے دینا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو وہی بات ہوئی جو فیض نے کہی تھی
تمھاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں ، کسی بہانے تمھیں یاد کرنے لگتے ہیں۔فیض صاحب اساتذہ شعرا سے تھے اِس لیے اُن کی بات میں زیادہ خوبصورتی،باریکی، نزاکت، لطافت،بصیرت،تجربہ ، ہنر اور کشش ہے جبکہ کچھ کم سہی یہی سب کچھ قیوم طاہر صاحب کے ہاں بھی ہے ۔قیوم طاہرصاحب راولپنڈی سے شایع ہونے والے ایک ادبی رسالے ’’۔آفاق‘‘ کے مدیر ہیں اور چاہتے ہیں دنیا میں ادبیات کا ایسا بول بالا ہو کہ ہرشخص صاف ستھرے ، اُجلے اُجلے ، نکھرے نکھرے ، منزہ، معطر، مودب انداز میں گفتگو کرتا نظر آئے اور یاوہ گوئی، لغویات ، بیہودگی سے دنیا کی جان چھوٹ جائے مگر ہم دیکھتے ہیں اُن کی یہ مخلصانہ کوشش ،یہ جان جوکھم میں ڈالنے والی مہم اور یہ سچا مشن ایک چراغ کی طرح ہے کہ جل اُٹھتا ہے اور بجھ جاتا ہے ۔۔۔۔۔بجھ جاتا ہے اور پھر جلنے لگتا ہے:
شب انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
کبھی اک چراغ جلا دیا۔۔۔۔۔۔ کبھی اک چراغ بجھا دیا
رہنا
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
یوں کس طرح کَٹے گا کڑی دھوپ کا سفر
سَر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں

دھوپ
ہر شے ہے پر ملال بڑی تیز دھوپ ہے
ہر لب پہ ہے سوال بڑی تیز دھوپ ہے

چکرا کے گر نہ جاؤں میں اس تیز دھوپ میں
مجھ کو ذرا سنبھال بڑی تیز دھوپ ہے

ساغر صدیقی

سنبھال
 

سیما علی

لائبریرین
ایک نشترسا رگِ جاں میں ۔اُترنے دینا
زندہ رہنا ہے تو زخموں کو نہ بھرنے دینا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو وہی بات ہوئی جو فیض نے کہی تھی
تمھاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں ، کسی بہانے تمھیں یاد کرنے لگتے ہیں۔فیض صاحب اساتذہ شعرا سے تھے اِس لیے اُن کی بات میں زیادہ خوبصورتی،باریکی، نزاکت، لطافت،بصیرت،تجربہ ، ہنر اور کشش ہے جبکہ کچھ کم سہی یہی سب کچھ قیوم طاہر صاحب کے ہاں بھی ہے ۔قیوم طاہرصاحب راولپنڈی سے شایع ہونے والے ایک ادبی رسالے ’’۔آفاق‘‘ کے مدیر ہیں اور چاہتے ہیں دنیا میں ادبیات کا ایسا بول بالا ہو کہ ہرشخص صاف ستھرے ، اُجلے اُجلے ، نکھرے نکھرے ، منزہ، معطر، مودب انداز میں گفتگو کرتا نظر آئے اور یاوہ گوئی، لغویات ، بیہودگی سے دنیا کی جان چھوٹ جائے مگر ہم دیکھتے ہیں اُن کی یہ مخلصانہ کوشش ،یہ جان جوکھم میں ڈالنے والی مہم اور یہ سچا مشن ایک چراغ کی طرح ہے کہ جل اُٹھتا ہے اور بجھ جاتا ہے ۔۔۔۔۔بجھ جاتا ہے اور پھر جلنے لگتا ہے:
شب انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی​
کبھی اک چراغ جلا دیا۔۔۔۔۔۔ کبھی اک چراغ بجھا دیا
رہنا
رہنا تھا اس کے ساتھ بہت دیر تک مگر
ان روز و شب میں مجھ کو یہ فرصت نہیں ملی
منیر نیازی

روز و شب
 
روز و شب ہم نے اشک باری کی آنسوبرسائے ، رویا کیے
انتہا ہے یہ بے قراری کی بیچینی اور اضطراب کی انتہا
میرا دامن سیاہ تھا پھر بھی گناہوں سے
اے خدا تو نے پاسداری کی واہ میرے رب ِ غفور و رحیم کی رحمت
جانے کب کا میں مر گیا ہوتاجیسے پودے پتے پانی نہ ملنے سے مرجھا کر ختم ہوجاتے ہیں
ان کی یادوں نے آبیاری کی محبوب کے خیال سے ذکر سے اور یادسے یہ حادثہ پیش نہ آیا۔بہت خوب!ماشاء اللہ!!
کوستا ہی رہا مجھے ہر دم
قدر کیا جانے وہ بھکاری کی بیشک ضرورتمندوں ، بے آسرا اور غریب غربا سے تنگ آکر اُنھیں برا بھلا کہتے سنا یا جھڑکیاں دے کربھگاتے دیکھا
خاک ہوں خاک میں ہی ملنا ہے رعایت لفظی مگر معنویت سمیٹے اور حقیقت بیان کرتی ہوئی ۔۔
بو بھی آتی ہے خاکساری کی خاک اور خاکساری کی رعایت خوب ہے، واہ
کام میں نے کیا مصور کا
میں نے شعروں میں دست کاری کیا مجھے تو حضرتِ آتش یاد آگئے :شاعری بھی کام آتش ہے مرصع ساز کا
میں تو مجنون بن گیا بسملؔ
مجھ پہ لوگوں نے سنگ باری کی بہت خوب!
ایک نئے ، جواں عمر اور حال کے شاعر مرتضٰی بسمل کا شعرکہنے کا انداز کسی پختہ کار شاعر کی طرح ہے ۔مجھے حیرت ہوئی کہ پاکستان کے ایک مضافاتی علاقے میں رہنے والے ایک نوجوان کا ادبی ذوق آسمانوں کی خبر لارہا ہے ،واہ ، سبحان اللہ ، مرحبا۔۔۔۔۔۔۔۔


انتہا
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
ایک نئے ، جواں عمر اور حال کے شاعر مرتضٰی بسمل کا شعرکہنے کا انداز کسی پختہ کار شاعر کی طرح ہے ۔مجھے حیرت ہوئی کہ پاکستان کے ایک مضافاتی علاقے میں رہنے والے ایک نوجوان کا ادبی ذوق آسمانوں کی خبر لارہا ہے ،واہ ، سبحان اللہ ، مرحبا۔۔۔۔۔۔۔۔
آپکے مرتضیٰ بسمل سے ہمیں اپنی بسمل صابری یاد آگئیں
پاکستان منٹگمری ساہیوال میں پیدا ہوئیں۔
گورنمنٹ گرلز کالج ساہیوال میں بطور لیکچرر مقرر ہوئیں اور وہیں سے پروفیسر کی حیثیت سے سبکدوش ہوئیں ۔
اُنکا ایک شعر ہمیں بہت پسند ہے

اب وعدۂ فردا میں کشش کچھ نہیں باقی
دہرائی ہوئی بات گزرتی ہے گراں اور

اور اب انتہا پہ شعر

طرفہؔ قریشی

طرفہ قریشی
کے اشعار
جمال ابتدا بن کر جلال انتہا ہو کر
بشر دنیا میں آیا مظہر شان خدا ہو کر

مری درماندگی پر کیوں نہ دنیا رشک فرمائے
کہ اپنے پاؤں توڑے میں نے منزل آشنا ہو کر

مرے ذوق فنا کا ماحصل اتنا تو ہو یارب
زمیں کا چاند بن جاؤں کسی کا نقش پا ہو کر

نقشِ پا
 
رَوندے ہے نقشِ پا کیطرح خلق یاں مجھے
اے ۔عمرِ رفتہ۔ چھوڑ۔ گئی۔ تو کہاں مجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خواجہ میردرد
ہے بھی حقیقت گو بیان میں غُلو ہے مگر جھٹلا تو سکتے نہیں کہ بڑھاپا سو خرابیوں کی ایک خرابی ہے۔اب جبکہ جدیدایجادات کا دوردوراہے تو نوجوان اُن میں مست ہیں ۔ ایسے میں بوڑھی ماں یا ضعیف باپ آواز دے تو سنی ان سنی کردی جاتی ہے اور اگر مارے باندھے پہنچ بھی گئے تو ایسی بے دلی اور بیزاری اور ناگواری سے کام کریں گے جیسے ایک بوجھ تھاکہ زمین پر دے مارا۔۔۔۔۔۔بچو! کب تک بچے رہوگے عمرِ رفتہ ایک دن تم سے بھی یہی کہلوائے گی جوخواجہ میردرد نے کہا، بیان میں غُلو ضرور ہے مگر کہا تو سچ ہے۔۔۔۔۔
عمرِ رفتہ
 

اربش علی

محفلین
غزل اس نے چھیڑی، مجھے ساز دینا
ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا

قفس لے اُڑوں مَیں ہوا اب جو سنکے
مدد اتنی اے بالِ پرواز دینا

کرے دل کا بیوہار کیا ان سے کوئی
بصد شوق لینا، بصد ناز دینا

نہ خاموش رہنا مِرے ہم صفیرو!
جب آواز دوں تم بھی آواز دینا

کوئی سِیکھ لے دل کی بےتابیوں سے
ہر انجام میں رنگِ آغاز دینا

دلیلِ گراں باریِ سنگِ غم ہے
صفی! ٹوٹ کر دل کا آواز دینا

قفس
 
Top