ایک نشترسا رگِ جاں میں
۔اُترنے دینا
زندہ رہنا ہے تو زخموں کو نہ بھرنے دینا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو وہی بات ہوئی جو فیض نے کہی تھی
تمھاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں ، کسی بہانے تمھیں یاد کرنے لگتے ہیں۔فیض صاحب اساتذہ شعرا سے تھے اِس لیے اُن کی بات میں زیادہ خوبصورتی،باریکی، نزاکت، لطافت،بصیرت،تجربہ ، ہنر اور کشش ہے جبکہ کچھ کم سہی یہی سب کچھ قیوم طاہر صاحب کے ہاں بھی ہے ۔قیوم طاہرصاحب راولپنڈی سے شایع ہونے والے ایک ادبی رسالے ’’۔آفاق‘‘ کے مدیر ہیں اور چاہتے ہیں دنیا میں ادبیات کا ایسا بول بالا ہو کہ ہرشخص صاف ستھرے ، اُجلے اُجلے ، نکھرے نکھرے ، منزہ، معطر، مودب انداز میں گفتگو کرتا نظر آئے اور یاوہ گوئی، لغویات ، بیہودگی سے دنیا کی جان چھوٹ جائے مگر ہم دیکھتے ہیں اُن کی یہ مخلصانہ کوشش ،یہ جان جوکھم میں ڈالنے والی مہم اور یہ سچا مشن ایک چراغ کی طرح ہے کہ جل اُٹھتا ہے اور بجھ جاتا ہے ۔۔۔۔۔بجھ جاتا ہے اور پھر جلنے لگتا ہے:
شب انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
کبھی اک چراغ جلا دیا۔۔۔۔۔۔ کبھی اک چراغ بجھا دیا
رہنا