اگر موجیں ڈبو دیتیں تو کچھ تسکین ہو جاتی
کناروں نے ڈبویا ہے مجھے اس بات کا غم ہے
غم
نگاہ ِیار جسے آشناے راز کرے
وہ اپنی خوبیِ قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے
دلوں کو فکرِ دوعالَم سے کر دیا آزاد
ترے جُنوں کا خُدا سلسلہ دراز کرے
غمِ جہاں سے جسے ہو فراغ کی خواہش
وہ اُن کے دردِ مَحبّت سے ساز باز کرے
(حسرت موہانی)
فراغ
وہ اپنی خوبیِ قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے
دلوں کو فکرِ دوعالَم سے کر دیا آزاد
ترے جُنوں کا خُدا سلسلہ دراز کرے
غمِ جہاں سے جسے ہو فراغ کی خواہش
وہ اُن کے دردِ مَحبّت سے ساز باز کرے
(حسرت موہانی)
فراغ