دیئے گئے لفظ پر شاعری - دوسرا دور

گانا اِسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے
دُکھتے ۔ہوئے دلوں کی ۔فریاد۔ یہ ۔صدا ہے
پرندے کے دُکھی دل کی فریاد کو لوگوں نے گانا کیوں سمجھ لیا؟کیونکہ اُس فریاد میں دل سے اُٹھ کر لبوں پر آتے آتے لَے، رِدم،ترنم، آہنگ اور نغمہ پیدا ہوگیا تھا ۔وہ نغمہ کیاتھا؟۔وہ نغمہ یہ بھی ہوسکتا ہے :’’کسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو‘‘، اور یوں بھی ہوسکتا ہے :’’خداوندا یہ کیسی آگ سی جلتی ہے سینے میں‘‘یا پھر یہ کہ :’’اُس کے غم کو غمِ ہستی تو میرے دل نہ بنا ‘‘یاپھریہ’’میرے محبوب تجھے یاد کروں یا نہ کروں‘‘کیا یہ ایک پرندے کی فریاد تھی یا ہر پرندے کی پکار ہے ؟یہ ہر ذی نفس، جانداراورزندہ کا تقاضا ہے کہ اُسے باتیں کرنے اورہنسنے بولنے کے لیے اپنی طرح کا کوئی دوسرا چاہیے ۔کیا دنیا میں اِس کا انتظام اور بندوبست ہے؟ بیشک ہے ربِ کریم نے اپنی مخلوقات کو تشنہ، بے آس اور بے سہارا نہیں چھوڑا ۔اُس نے ہر چیز کا جوڑا پیدا کیا ہے لہٰذا جنھیں ہم جانتے ہیں اور جس کی ہمیں خبر نہیں ، سب کا جوڑ موجود ہے ۔رب کی اِس عنایت پر ہمیں کیا کہنا چاہیے ؟ رب کی اِس مہربانی پراُس کی دوسری نعمتوں کی طرح ہمیں شکر ادا کرنا چاہیے اور الحمد للہ رب العالمین کہنا چاہیے۔۔۔۔
خوش
تیرے خوش پوش فقیروں سے وہ ملتے تو سہی
جو یہ کہتے ہیں وفا پیرہن چاک میں ہے
وفا
 
کاو کاوِ سخت جانی ہاے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جُوے شِیر کا

صبح
صبح بہار و شام خزاں کچھ نہ کچھ تو ہو
بے نام زندگی کا نشاں کچھ نہ کچھ تو ہو
جینے کے واسطے کوئی صورت تو چاہیئے
ہو شمع انجمن کہ دھواں کچھ نہ کچھ تو ہو
شمع
 

اربش علی

محفلین
زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اُٹھّے گا گفتگو کا
مِری خموشی نہیں ہے، گویا مزار ہے حرفِ آرزو کا

کوئی دل ایسا نظر نہ آیا نہ جس میں خوابیدہ ہو تمنّا
الٰہی، تیرا جہان کیا ہے، نگار خانہ ہے آرزو کا

کمالِ وحدت عیاں ہے ایسا کہ نوکِ نشتر سے تُو جو چھیڑے
یقیں ہے مجھ کو گرے رگِ گُل سے قطرہ انسان کے لہو کا

مزار

 

اربش علی

محفلین
صبح بہار و شام خزاں کچھ نہ کچھ تو ہو
بے نام زندگی کا نشاں کچھ نہ کچھ تو ہو
لفظ دینا بھول گئیں۔ چلیے، "زندگی" فرض کر لیتا ہوں۔

مَوت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگی

مَوت
 

اربش علی

محفلین
صبح بہار و شام خزاں کچھ نہ کچھ تو ہو
بے نام زندگی کا نشاں کچھ نہ کچھ تو ہو
جینے کے واسطے کوئی صورت تو چاہیئے
ہو شمع انجمن کہ دھواں کچھ نہ کچھ تو ہو
شمع
غمِ ہستی کا اسد کس سے ہو جُز مرگ علاج!
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سَحَرہوتے تک

مرگ
 
زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اُٹھّے گا گفتگو کا
مِری خموشی نہیں ہے، گویا مزار ہے حرفِ آرزو کا

کوئی دل ایسا نظر نہ آیا نہ جس میں خوابیدہ ہو تمنّا
الٰہی، تیرا جہان کیا ہے، نگار خانہ ہے آرزو کا

کمالِ وحدت عیاں ہے ایسا کہ نوکِ نشتر سے تُو جو چھیڑے
یقیں ہے مجھ کو گرے رگِ گُل سے قطرہ انسان کے لہو کا

مزار

میرے سنگ مزار پر پر فرہاد
رکھ تیشہ کہے ہے اے استاد
موند آنکھیں سفر عدم کا کر
بس ہے دیکھا نہ عالم ایجاد
میر تقی میر
سنگ
 

اربش علی

محفلین
زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جُنوں کی
اب سنگ مُداوا ہے اِس آشفتہ سَری کا

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اِس کارگہِ شیشہ گری کا

ٹُک میرِ جگر سوختہ کی جَلد خبر لے
کیا یار بھروسا ہے چراغِ سَحَری کا

شورش
 

اربش علی

محفلین
زندگی مرگ کی مہلت ہی سہی
بہر داماندہ اقمت ہی سہی
دوستی وجہ عداوت ہی سہی
دشمنی بہر رفاقت ہی سہی
دوستی ،دوست
دوسرے مصرعے پر نظرِ ثانی کریں۔ بہرِ واماندہ اقامت ہی سہی۔

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا

ناصح
 
زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جُنوں کی
اب سنگ مُداوا ہے اِس آشفتہ سَری کا

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اِس کارگہِ شیشہ گری کا

ٹُک میرِ جگر سوختہ کی جَلد خبر لے
کیا یار بھروسا ہے چراغِ سَحَری کا

شورش
نہ نالوں کی شورش ہے نہ غل ہے آہ و زاری کا
وہ اب پہلا سا ہنگامہ نہیں ہے بے قراری کا
ہنگامہ
 

اربش علی

محفلین
کیوں نہ اقبال کی ایک نظم پیش کروں۔

حضرتِ انسان

جہاں میں دانش و بینش کی ہے کس درجہ ارزانی
کوئی شے چھُپ نہیں سکتی کہ یہ عالَم ہے نورانی
کوئی دیکھے تو ہے باریک فطرت کا حجاب اتنا
نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسّم ہاے پِنہانی
یہ دنیا دعوتِ دیدار ہے فرزندِ آدم کو
کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوقِ عُریانی
یہی فرزندِ آدم ہے کہ جس کے اشکِ خُونیں سے
کِیا ہے حضرتِ یزداں نے دریاؤں کو طوفانی
فلک کو کیا خبر یہ خاک داں کس کا نشیمن ہے
غرَض انجم سے ہے کس کے شبستاں کی نگہبانی
اگر مقصودِ کُل مَیں ہُوں تو مجھ سے ماورا کیا ہے
مرے ہنگامہ ہاے نَو بہ نَو کی انتہا کیا ہے؟

کُل
 
کیوں نہ اقبال کی ایک نظم پیش کروں۔

حضرتِ انسان

جہاں میں دانش و بینش کی ہے کس درجہ ارزانی
کوئی شے چھُپ نہیں سکتی کہ یہ عالَم ہے نورانی
کوئی دیکھے تو ہے باریک فطرت کا حجاب اتنا
نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسّم ہاے پِنہانی
یہ دنیا دعوتِ دیدار ہے فرزندِ آدم کو
کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوقِ عُریانی
یہی فرزندِ آدم ہے کہ جس کے اشکِ خُونیں سے
کِیا ہے حضرتِ یزداں نے دریاؤں کو طوفانی
فلک کو کیا خبر یہ خاک داں کس کا نشیمن ہے
غرَض انجم سے ہے کس کے شبستاں کی نگہبانی
اگر مقصودِ کُل مَیں ہُوں تو مجھ سے ماورا کیا ہے
مرے ہنگامہ ہاے نَو بہ نَو کی انتہا کیا ہے؟

کُل
کل جہاں اک آئینہ ہے حسن کی تصویر کا
حال کس پتھر پہ لکھا ہے میری تقدیر کا
حسن
 
Top