شکیل احمد خان23
محفلین
مُدت کے بعد اُس نے جو کی لُطف کی نگاہ
جی خوش تو ہوگیا مگر آنسو نکل پڑےآنسو
مُدت کے بعد اُس نے جو کی لُطف کی نگاہ
جی خوش تو ہوگیا مگر آنسو نکل پڑے
آنسو
تیرے خوش پوش فقیروں سے وہ ملتے تو سہیگانا اِسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے
دُکھتے ۔ہوئے دلوں کی ۔فریاد۔ یہ ۔صدا ہے
پرندے کے دُکھی دل کی فریاد کو لوگوں نے گانا کیوں سمجھ لیا؟کیونکہ اُس فریاد میں دل سے اُٹھ کر لبوں پر آتے آتے لَے، رِدم،ترنم، آہنگ اور نغمہ پیدا ہوگیا تھا ۔وہ نغمہ کیاتھا؟۔وہ نغمہ یہ بھی ہوسکتا ہے :’’کسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو‘‘، اور یوں بھی ہوسکتا ہے :’’خداوندا یہ کیسی آگ سی جلتی ہے سینے میں‘‘یا پھر یہ کہ :’’اُس کے غم کو غمِ ہستی تو میرے دل نہ بنا ‘‘یاپھریہ’’میرے محبوب تجھے یاد کروں یا نہ کروں‘‘کیا یہ ایک پرندے کی فریاد تھی یا ہر پرندے کی پکار ہے ؟یہ ہر ذی نفس، جانداراورزندہ کا تقاضا ہے کہ اُسے باتیں کرنے اورہنسنے بولنے کے لیے اپنی طرح کا کوئی دوسرا چاہیے ۔کیا دنیا میں اِس کا انتظام اور بندوبست ہے؟ بیشک ہے ربِ کریم نے اپنی مخلوقات کو تشنہ، بے آس اور بے سہارا نہیں چھوڑا ۔اُس نے ہر چیز کا جوڑا پیدا کیا ہے لہٰذا جنھیں ہم جانتے ہیں اور جس کی ہمیں خبر نہیں ، سب کا جوڑ موجود ہے ۔رب کی اِس عنایت پر ہمیں کیا کہنا چاہیے ؟ رب کی اِس مہربانی پراُس کی دوسری نعمتوں کی طرح ہمیں شکر ادا کرنا چاہیے اور الحمد للہ رب العالمین کہنا چاہیے۔۔۔۔
خوش
یاد ماضی کے دئیے یوں دل ویراں میں جلیںدل میں اِک درد اُٹھا، آنکھوں میں آنسو بھر آئے
بیٹھے بیٹھے ہمیں کیا جانیے کیا یاد آیا
یاد
سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئیویراں ہے مے کدہ، خُم و ساغَر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ رُوٹھ گئے دن بہار کے
بہار
تنہا ئی
زمانہ مبتلا کیا کیا قیاس آرائیوں میں ہےجسے آپ گِنتے تھے آشنا، جسے آپ کہتے تھے با وفا
میں وہی ہوں مومنِ مبتلا، تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مبتلا
صبح بہار و شام خزاں کچھ نہ کچھ تو ہوکاو کاوِ سخت جانی ہاے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جُوے شِیر کا
صبح
لفظ دینا بھول گئیں۔ چلیے، "زندگی" فرض کر لیتا ہوں۔صبح بہار و شام خزاں کچھ نہ کچھ تو ہو
بے نام زندگی کا نشاں کچھ نہ کچھ تو ہو
صبح بہار و شام خزاں کچھ نہ کچھ تو ہو
بے نام زندگی کا نشاں کچھ نہ کچھ تو ہو
جینے کے واسطے کوئی صورت تو چاہیئے
ہو شمع انجمن کہ دھواں کچھ نہ کچھ تو ہو
شمع
میرے سنگ مزار پر پر فرہادزمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اُٹھّے گا گفتگو کا
مِری خموشی نہیں ہے، گویا مزار ہے حرفِ آرزو کا
کوئی دل ایسا نظر نہ آیا نہ جس میں خوابیدہ ہو تمنّا
الٰہی، تیرا جہان کیا ہے، نگار خانہ ہے آرزو کا
کمالِ وحدت عیاں ہے ایسا کہ نوکِ نشتر سے تُو جو چھیڑے
یقیں ہے مجھ کو گرے رگِ گُل سے قطرہ انسان کے لہو کا
مزار
زندگی مرگ کی مہلت ہی سہیغمِ ہستی کا اسد کس سے ہو جُز مرگ علاج!
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سَحَرہوتے تک
مرگ
دوسرے مصرعے پر نظرِ ثانی کریں۔ بہرِ واماندہ اقامت ہی سہی۔زندگی مرگ کی مہلت ہی سہی
بہر داماندہ اقمت ہی سہی
دوستی وجہ عداوت ہی سہی
دشمنی بہر رفاقت ہی سہی
دوستی ،دوست
نہ نالوں کی شورش ہے نہ غل ہے آہ و زاری کازنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جُنوں کی
اب سنگ مُداوا ہے اِس آشفتہ سَری کا
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اِس کارگہِ شیشہ گری کا
ٹُک میرِ جگر سوختہ کی جَلد خبر لے
کیا یار بھروسا ہے چراغِ سَحَری کا
شورش
کیوں نہ اقبال کی ایک نظم پیش کروں۔
کل جہاں اک آئینہ ہے حسن کی تصویر کاکیوں نہ اقبال کی ایک نظم پیش کروں۔
حضرتِ انسان
جہاں میں دانش و بینش کی ہے کس درجہ ارزانی
کوئی شے چھُپ نہیں سکتی کہ یہ عالَم ہے نورانی
کوئی دیکھے تو ہے باریک فطرت کا حجاب اتنا
نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسّم ہاے پِنہانی
یہ دنیا دعوتِ دیدار ہے فرزندِ آدم کو
کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوقِ عُریانی
یہی فرزندِ آدم ہے کہ جس کے اشکِ خُونیں سے
کِیا ہے حضرتِ یزداں نے دریاؤں کو طوفانی
فلک کو کیا خبر یہ خاک داں کس کا نشیمن ہے
غرَض انجم سے ہے کس کے شبستاں کی نگہبانی
اگر مقصودِ کُل مَیں ہُوں تو مجھ سے ماورا کیا ہے
مرے ہنگامہ ہاے نَو بہ نَو کی انتہا کیا ہے؟
کُل