دیئے گئے لفظ پر شاعری - دوسرا دور

اربش علی

محفلین
جس طرح کی ہیں یہ دیواریں، یہ در جیسا بھی ہے
سر چھپانے کو میسر تو ہے، گھر جیسا بھی ہے

اس کو مجھ سے،مجھ کو اس سے نسبتیں ہیں بے شمار
میری چاہت کا ہے محور ،یہ نگر جیسا بھی ہے

چل پڑا ہوں شوقِ بے پروا کو مرشد مان کر
راستہ پر پیچ ہے یا پر خطر جیسا بھی ہے

سب گوارا ہے تھکن، ساری دکھن ،ساری چبھن
ایک خوش بو کے لیے ہے یہ سفر جیسا بھی ہے

وہ تو ہے مخصوص اک تیری محبت کے لیے
تیرا انورؔ با ہنر یا بے ہنر جیسا بھی ہے

(انور مسعود)

سفر
 

اربش علی

محفلین
تکیے پر ترے سر کا نشاں اب بھی پڑا ہے
چادرمیں ترے جسم کی مہکار رچی ہے
رچی
اس میں رچی بسی ہے مہک زلفِ یار کی
ہے دل کی دھڑکنوں کی امیں آج بھی غزل
مثلِ سَحَر لطیف تو مانندِ شب عمیق
شعلہ کبھی ، صبا کبھی ، شبنم کبھی غزل
(حفیظ تائب)

شعلہ
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
مقام ہوش سے گزرا مکاں سے لا مکاں پہنچا
تمہارے عشق میں دیوانۂ منزل کہاں پہنچا

نظر کی منزلوں میں بس تمہیں حسن مجسم تھے
متاع آرزو لے کر میں الفت میں جہاں پہنچا

اسی نے عشق بن کر دو جہاں کو پھونک ڈالا ہے
وہ شعلہ جو تری نظروں سے دل کے درمیاں پہنچا

پھونک
 
Top