عشق اک مجنون بوڑھا دیوتا
ناشناسائی پہ حیراں
بے حسی پر سخت نالاں دہر کی
ہاتھ میں اک لے کے پڑیا زہر کی
بال بکھرائے
سمیٹے دھجیاں ملبوس کی
پاؤں میں پہنے ہوئے زخموں کی نعلینِ کہن
پتھروں کو کھٹکھٹاتا پھر رہا ہے
ڈالتا پھرتا ہے نظریں قہر کی
اپنے جھولے میں لیے کچھ بت پرانے
اور کچھ گڑیاں کسی بیتے زمانے کی
نہ جانے زیر لب کیا بڑبڑاتا پھر رہا ہے
بے خبر ہے اپنی حالت سے
خلقت ہنس رہی ہے ہر گلی کے موڑ پر
اور سن رہا ہے سسکیاں بھی فطرت نمناک کی
پر بیچ رستوں کی لگامیں تھام کر بھی
کائناتوں تجردّ انگلیوں سے باندھ کر بھی
دل میں کوئی غم چھپائے پھر رہا ہے
وقت کی دھڑکن پہ رکھتا اپنے قدموں کے نشاں
چکرا رہا ہے
اڑتے پھرتے کاغذوں پتوں پروں کے درمیاں
ہنس رہا ہے
روتے روتے
رو رہا ہے ہنستے ہنستے
پتھروں، پتھر گروں کے درمیاں
عشق اک مجنون بوڑھا دیوتا
ہاتھ میں اک لے کے پڑیا زہر کی
شاعر نا معلوم
حیراں