تیری بے رخی کے دیار میں، گهنی تیرگی کے حصار میںیہ جو اپنی جاں کے حریف ہم تیری بے رخی کا شکار تھے
جو گلہ کریں بھی تو کیا کریں ... تیرے اپنے رنج ہراز تھے
شاعر: نامعلوم
بے رخی
زخم پر چھڑکیں کہاں طفلانِ بے پروا نمک
کیا مزہ ہوتا اگر .. پتّھر میں بھی ہوتا نمک
غالب
بےپروا