محصور ِ تلاطم آج بھی ہو، گو تم نے کنارے ڈھونڈ لیئےیاد رفتہ کی وجہ سے ابھی تک یہ لڑی یہیں رکی ہے
تو پھر نیا شعر کیوں نا لکھا جائے
جاگے ہیں افلاس کے مارے، اُٹھے ہیں بے بس دکھیارے
سینوں میں طوفاں کا تلاطم ، آنکھوں میں بجلی کے شرارے
تلاطم
وہ وقت آگیا ہے کہ ساحل کو چھوڑ کر
گھرے سمندروں میں اتر جانا چاہیے
فراز
کتاب
کھیل کا اصول یہ ہے کہ دیئے گئے شعر میں سے ہی کوئی لفظ دینا ہوتا ہے۔ جبکہ " کتاب " کا لفظ آپ کے دیئے شعر میں نہیں ہے۔