فاتح بھائی حویلی تو پھر بھی مل گئی تھی، اب وارث بھائی پورا قصبہ مانگ رہے ہیں، وہ نہیں مل رہا۔
مجھے یاد ہے کہ محفل پر جب میں نیا نیا وارد ہوا تھا تو وارث بھائی نے مجھ پر "ثمر قند و بخارا" لُٹا دیے تھے۔ تو ان پر ایک قصبہ وارنا تو کچھ اہمیت ہی نہیں رکھتا۔
یہاں ایک ادبی معرکہ کا ذکر کرتا چلوں کہ حافظ شیرازی نے لکھا تھا:
اگر آں تُرک شیرازی بَدست آرد دلِ ما را
بخالِ ہندویش بخشم ثمرقند و بخارا را
اس پر کافی شعرا نے طبع آزمائی کی۔ ایک فارسی شاعر "فایض" نے اسے یوں نظم کیا۔
اگر آں تُرک شیرازی بَدست آرد دلِ ما را
بخالِ ہندویش بخشم سر و دست و تن و پا را
اگر کس چیز میبخشد ز ملک خویش میبخشد
نہ چوں حافظ کہ میبخشد ثمرقند و بخارا را
پروین اعتصامی نے اس کے جواب میں لکھا:
اگر آں تُرک شیرازی بَدست آرد دلِ ما را
بخالِ ہندویش بخشم تمامِ روح و اعضا را
سر و دست و تن و پا را بخاکِ گور میبخشند
نہ بر آں تُرک شیرازی کہ افسُوں کردہ دل ہا را
اور ان سب کے جواب میں "پیام" نے تو حد ہی کر دی، فرماتے ہیں:
اگر آں تُرک شیرازی بَدست آرد دلِ ما را
بخال ہندویش ہرگز نمیبخشم ثمرقند و بخارا را
سر و دست و تن و پا را، تمامِ روح و اعضا را
بسی نی حافظ و نی فایض و پرویں ندانستند
اگر آں تُرک شیرازی بَدست آرد دلِ ما را
ہمی دارد خودم را ہم خدایم ختم عظما را
حافظ کے اس مشہور زمانہ شعر پر درج بالا تظمین سے ملتی جلتی تظمین "صائب تبریزی" اور "شہریار" نے بھی کی ہے۔