لاریب مرزا
محفلین
زبردست، ہم نے اس سڑک پہ تصویر بنانے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ طوطے جو اڑے ہوئے تھے۔ اوپر سے اس وقت ہم بیٹھے بھی فرنٹ سیٹ پہ ہوئے تھے تو چڑھائی، اترائی بالکل سامنے تھی۔ ہم دعا کر رہے تھے کہ یہ سڑک جلدی جلدی ختم ہو جائے۔ لیکن سڑک اتنی لمبی لگ رہی تھی کہ سمجھو شیطان کی آنت۔ چڑھائی ختم ہوئی تو اترائی گلے پڑ گئی۔ ہم نے تو کلمہ طیبہ کا ورد جاری رکھا، یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ابھی گئے کہ ابھی۔ پہلی دفعہ جائیں تو کمزور دل لوگوں کا یہی حال ہوتا ہے۔چڑھائی تو پھر بھی نسبتاً آسان ہے، خصوصاََ اگر آٹومیٹک گیئر والی گاڑی ہو تو مزید آسان ہے۔ لیکن اترائی تو ظالم ہے۔بابوسر ٹاپ سے لے کر کے کے ایچ تک ایک فٹ بھی شاہد ہی ایسا آتا ہو جہاں سلوپ نہ ہو۔ ہماری تحقیق کے مطابق یہ دنیا کی عظیم ترین اترائیوں (یا چڑھائیوں) والی پکی سڑکوں میں سے ایک ہے، کہ جس میں 32 کلومیٹر میں تقریباً 3200 میٹر یا دس ہزار فٹ اترنا یا چڑھنا پڑتا ہے۔
بابوسر سے بل کھاتی سڑک کا کچھ ایسا منظر دکھائی دیتا ہے۔ یہ ہمارے 2015 کے ٹرپ کی تصویر ہے۔
ناران سائیڈ کا سین کچھ ایسا تھا۔
آپ نے خود ڈرائیونگ کی تھی یہاں؟؟
آخری تدوین: