عبداللہ محمد
محفلین
اس سب کے دوران بھی نانگا پربت جی نے بادلوں کا گھونگٹ اوڑھے ہی رکھا-
یہ شاید رائیکوٹ پیک ہے، جس کی بلندی 7000 میٹر کے قریب قریب ہے۔نانگا پربت سے ملحقہ چوٹیاں
نانگاپربت کی جانب پیٹھ ہی کرنی ہوتی تو اتنا "وخت" کاہے کو کیا۔اچھا کیا۔ ننگا پربت کی طرف پیٹھ کرنے کی اجازت نہیں ہے
جب سانس اکھڑنے لگتا تو ایسا نظارہ سامنے آ جاتا اور کہتا ارے صاحب مجھے دیکھو پریشان کیوں ہوتے ہو اور بس بڑھے چلو !!
اسی مناسبت سے اس تصویر کو نانگا پربت کی پورٹریٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔یہاں آپ کا 50 ملی میٹر اچھا کام آیا ہے
روزمرہ میں تو نانگاپربت ہی کہا جاتا ہے۔ویسے اس پہاڑ کو نانگا پربت کہیں گے یا پھر ننگا پربت؟
ویسے اس پہاڑ کو نانگا پربت کہیں گے یا پھر ننگا پربت؟
نانگا پربتروزمرہ میں تو نانگاپربت ہی کہا جاتا ہے۔
ویسے اسی بابت پہلے بھی کہیں بات چیت ہوئی ہے شاید۔
بہت خوب سفر نامہ اور تصاویر!!
ہمیں کبھی موقع ملا تو ہم بھی ایسی کوئی ٹریکنگ ضرور کریں گے۔ ان شاء اللہ!!
عبداللہ محمد آپ نے کے کے ایچ والے راستے کا انتخاب کیوں کیا؟؟ بابوسر والے راستے کا کیوں نہیں؟؟
یاز بھائی، آپ کو اگر گلگت جانا ہو تو آپ کونسے راستے کا انتخاب کریں گے؟؟ نیز دونوں میں سے بہتر راستہ کونسا ہے اور کیوں؟؟
بہتر راستہ یقیناً بابوسر والا ہے، کہ پنڈی سے خنجراب تک تمام سڑک بہترین ہے۔ صرف بابوسر کی اترائی کا مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے ناتجربہ کار ڈرائیور کو پرہیز کرنا چاہئے۔بہت خوب سفر نامہ اور تصاویر!!
ہمیں کبھی موقع ملا تو ہم بھی ایسی کوئی ٹریکنگ ضرور کریں گے۔ ان شاء اللہ!!
عبداللہ محمد آپ نے کے کے ایچ والے راستے کا انتخاب کیوں کیا؟؟ بابوسر والے راستے کا کیوں نہیں؟؟
یاز بھائی، آپ کو اگر گلگت جانا ہو تو آپ کونسے راستے کا انتخاب کریں گے؟؟ نیز دونوں میں سے بہتر راستہ کونسا ہے اور کیوں؟؟
بالکل درست، وہاں ناتجربہ کار ڈرائیورز بھی دیکھے۔ ان کو چڑھائی میں ہی مسئلہ ہو رہا تھا تو اترائی کا جانے کیا حال ہو گا۔ ویسے جاتے ہوئے سب سے زیادہ ڈر ہمیں اسی سانپ سڑک پہ لگا تھا۔ لیکن واپسی پہ تاثرات بدل چکے تھے اور ہم اس سڑک سے لطف اندوز ہوئے۔بہتر راستہ یقیناً بابوسر والا ہے، کہ پنڈی سے خنجراب تک تمام سڑک بہترین ہے۔ صرف بابوسر کی اترائی کا مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے ناتجربہ کار ڈرائیور کو پرہیز کرنا چاہئے۔
اور رہی میری ذاتی چوائس کی، تو اب میں ایک راستے سے جانا اور دوسرے سے آنا چاہوں گا۔ تاہم ضروری نہیں کہ اس خیال پہ عمل بھی ضرور ہی کروں۔
چڑھائی تو پھر بھی نسبتاً آسان ہے، خصوصاََ اگر آٹومیٹک گیئر والی گاڑی ہو تو مزید آسان ہے۔ لیکن اترائی تو ظالم ہے۔بابوسر ٹاپ سے لے کر کے کے ایچ تک ایک فٹ بھی شاہد ہی ایسا آتا ہو جہاں سلوپ نہ ہو۔ ہماری تحقیق کے مطابق یہ دنیا کی عظیم ترین اترائیوں (یا چڑھائیوں) والی پکی سڑکوں میں سے ایک ہے، کہ جس میں 32 کلومیٹر میں تقریباً 3200 میٹر یا دس ہزار فٹ اترنا یا چڑھنا پڑتا ہے۔بالکل درست، وہاں ناتجربہ کار ڈرائیورز بھی دیکھے۔ ان کو چڑھائی میں ہی مسئلہ ہو رہا تھا تو اترائی کا جانے کیا حال ہو گا۔ ویسے جاتے ہوئے سب سے زیادہ ڈر ہمیں اسی سانپ سڑک پہ لگا تھا۔ لیکن واپسی پہ تاثرات بدل چکے تھے اور ہم اس سڑک سے لطف اندوز ہوئے۔
بالکل ایسی ہی اترائی/چڑھائی لواری ٹاپ پر بھی ہے۔چڑھائی تو پھر بھی نسبتاً آسان ہے، خصوصاََ اگر آٹومیٹک گیئر والی گاڑی ہو تو مزید آسان ہے۔ لیکن اترائی تو ظالم ہے۔بابوسر ٹاپ سے لے کر کے کے ایچ تک ایک فٹ بھی شاہد ہی ایسا آتا ہو جہاں سلوپ نہ ہو۔ ہماری تحقیق کے مطابق یہ دنیا کی عظیم ترین اترائیوں (یا چڑھائیوں) والی پکی سڑکوں میں سے ایک ہے، کہ جس میں 32 کلومیٹر میں تقریباً 3200 میٹر یا دس ہزار فٹ اترنا یا چڑھنا پڑتا ہے۔
بابوسر سے بل کھاتی سڑک کا کچھ ایسا منظر دکھائی دیتا ہے۔ یہ ہمارے 2015 کے ٹرپ کی تصویر ہے۔
ناران سائیڈ کا سین کچھ ایسا تھا۔
لواری کی بھی کافی چڑھائی اور اترائی ہے۔ خصوصاََ چترال سائیڈ والی اترائی پہ اسی طرح کے بے تحاشا ہیئرپن موڑ ہیں۔ تاہم وہ بابوسر کی اترائی سے عددی اعتبار سے کافی کم ہے۔بالکل ایسی ہی اترائی/چڑھائی لواری ٹاپ پر بھی ہے۔
پکی بات ہے؟ اندازہ ہے کہ درے سے دریائے سندھ تک اترائی اڑھائی سے تین ہزار میٹر کے درمیان ہو گیجس میں 32 کلومیٹر میں تقریباً 3200 میٹر یا دس ہزار فٹ اترنا یا چڑھنا پڑتا ہے۔
پائکس پیک ہائیوے 30 کلومیٹر میں 2000 میٹر اوپر جاتی ہے۔ وہاں سے واپس آتے شدید دھند میں گاڑی چلاتے کچھ ڈر سا لگا تھاہماری تحقیق کے مطابق یہ دنیا کی عظیم ترین اترائیوں (یا چڑھائیوں) والی پکی سڑکوں میں سے ایک ہے، کہ جس میں 32 کلومیٹر میں تقریباً 3200 میٹر یا دس ہزار فٹ اترنا یا چڑھنا پڑتا ہے۔
جی بالکل۔ بابوسر پاس 4173 میٹر پہ ہے، جبکہ چلاس 1000 میٹر کے لگ بھگ۔پکی بات ہے؟ اندازہ ہے کہ درے سے دریائے سندھ تک اترائی اڑھائی سے تین ہزار میٹر کے درمیان ہو گی
زبردست!اس سب کے دوران بھی نانگا پربت جی نے بادلوں کا گھونگٹ اوڑھے ہی رکھا-
مجھے سرچ کے دوران کسی ایک آئی لینڈ پہ ایک سڑک ملی تھی۔ شاید ہوائی کے قرب و جوار کا تھا۔ اس میں سڑک سمندر کے کنارے سے شروع ہو کر پہاڑ کی ٹاپ تک جا رہی تھی۔ اس کی بلندی 3200 میٹر سے زائد تھی۔ دوبارہ ملی تو شیئر کروں گا۔پائکس پیک ہائیوے 30 کلومیٹر میں 2000 میٹر اوپر جاتی ہے۔ وہاں سے واپس آتے شدید دھند میں گاڑی چلاتے کچھ ڈر سا لگا تھا
انٹرنیٹ کے مطابق 1265 میٹرجی بالکل۔ بابوسر پاس 4173 میٹر پہ ہے، جبکہ چلاس 1000 میٹر کے لگ بھگ۔