محسن حجازی
محفلین
معافی چاہتا ہوں!
معافی کس بات کی؟ رہنے دیں، اس عمر میں سبکو ہی ہری ہری سوجھتی ہے۔
سب آپ کی صحبت کا اثر ہے جناب۔
ٹائٹل میں کسی جگہ اردو ویب کا پتہ www.urduweb.org انگریزی میں لکھنا بہتر نہ ہوگا؟کل رات کو محترم سید شاکر القادری صاحب نے اس ڈیزائن میں کچھ تبدیلیاں تجویز کی تھیں، ان ترامیم کے بعد یہ نیا ڈیزائن آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں
بہت دن سے جناب محسن صاحب مجھے کہی نا کہی دیوانِ غالب نسخۂ اردو ویب ڈاٹ آرگ (مکمل کے بارے میں بتاتے کہ وہاں آپ کی غزل کو یہ ہوا وہ ہوا ایک دفعہ تو ایک ایسا لفظ استعمال کیا جس کا مطلب مجھے کہی نہیںملا خیر مجھے رات سوتے جاگتے محسن بھائی کی باتیں یاد آئے آپ کی غزل کو یہ ہو گیا سوچ سوچ کر آج جرعہ جرعہایک تو ہمارے ذہن میں سوال یہ اٹھا کہ کیا چھوٹے دھمکیاں نہیں دیتے؟
دوسرا آپ نے فرہنگ غالب یہیں پر اچانک رکھ چھوڑی میرا خیال ہے کہ نمونہ تھا؟
اب ہم آتے ہیں اپنے تاثرات کی جانب بحوالہ دیوان غالب نسخہ برقیتیہ۔ اتارنے کے بعد جو ہم نے دیکھا تو پہلی ہی غزل میں چند اشعار سرخ تھے ہمیں گمان گزرا کہ غالبا غالب نے وفات سے پہلے تاکید کردی ہوگی کہ میاں فلاں فلاں اشعار و غزلیات بچوں کے پڑھنے کی ہرگز نہیں، انہیں قطعی نہ شائع کیا جائے، یہ محض بالغوں کے واسطے ہیں اس واسطے یہاں بھی سرخ کر چھوڑے ہیں کہ صاحب اپنی ذمہ داری پڑھیے! پڑھنے پر ہم کو یہ اشعار سمجھ بھی نہ آئے تو گویا دل سے مسرت کے زمزمے پھوٹ نکلے اس مستند دلیل پر کہ ہم ابھی بچے ہیں، معصوم ہیں کہ دیوان غالب سے تو یار لوگ فال بھی نکالا کرتے ہیں سو ہمیں بھی سند معصومیت مل گئی۔
تاہم غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ اوپر کچھ اعداد لکھے ہوئے ہیں۔۔۔ ایک۔۔۔ دو۔۔۔ تین۔۔۔ ہائیں؟ ایں چہ چکر است؟ دیوان غالب میں ریاضی؟ پھر ہم کو یاد آیا کہ علمی کتابوں میں وہ جو دستور ہے کہ بات سیدھے سبھاؤ یا بین السطور ہرگز نہیں لکھ دیا کرتے کچھ چھپ چھپا کر حاشیوں پر بھی درج کی جاتی ہے تاکہ قاری کی علمی پیاس کا امتحان بھی ہو اور قاری محسوس بھی کرے کہ وہ واقعی بہت عالم فاضل شخصیت ہے حالانکہ اس تکلف کی قطعا ضرورت ہمارے لحاظ سے نہ تھی کہ ہم ہمہ وقت خود کو ہمہ جہت شخصیت سمجھتے ہیں سو اس حاشیہ آرائی کا محض تکلف کیا گیا۔
بہرطور جو ہم حاشیوں کی طرف متوجہ ہوئے تو بہت باریکی میں لکھا تھا کہ یہ اشعارفلاں ریاست کے فلان الدولہ کے ذاتی کتب خانے سے فلاں سن میں برآمد ہوئے تاہم اس پر اختلاف ہے کہ غالب کے ہیں یا نہیں بایں ہمہ اس پر علما میں کافی سر پھٹول بھی ہو چکی ہے تاہم کوئی تصفیہ طے نہیں پایا سو ہم کو تو محض ٹائپ ہی کرنا ہے ہمارا کیا جاتا ہے کیے دیتے ہیں و علی ہذا القیاس۔
اس قسم کے حاشیوں کو پڑھنے کے بعد خواہش ہوئی کہ اس دیوان کو نستعلیق میں ہونا چاہئے سو اس پر نستعلیق جو لگایا نوری والا تو دیوان کم عاشق کا گریبان زیادہ ہو گیا کہ ہرچند کہیں ہے کہیں نہیں ہے۔ سو ہم کو خیال ہوا کہ محفل پر جو منصوبہ چل رہا ہے اس میں دو گھنٹے مزید دیے جائیں سو ہم ہفتے کے روز بھی حاضر ہوئے اس خوف سے کہ غالب تو زندہ نہیں مگر ان کی بھتیجی تو ماشااللہ زندہ سلامت ہے ہم سے باز پرس کرنے کو کہ میاں کے کام کے ہو؟
تاہم اس تحریر کی وجہ تسمیہ دیوان غالب ہرگز نہیں بلکہ ہمارے ایک رکن خرم شہزاد خرم کی ایک بے ساختہ غزل ہے جس کا مطلع ہم کو آتے جاتے کھاتے پیتے یاد آتا رہتا ہے
زندگی امتحان ہے خرم۔۔۔
ویسے دیوان غالب کی حواشی میں بیان کردہ احوال پڑھ کر ہم کو بھی خیال آيا کہ ہم اس مصرعے کو کچھ یوں تبدیل کریں:
زندگی امتحان ہے محسن۔۔۔
اور اس کے بعد شور مچا دیں کہ دیکھئے صاحب ہماری غزل خرم صاحب کے ذاتی کتب خانے سے برآمد ہو رہی ہے ایں چہ ظلم است! خرم صاحب بے شک نواب الدولہ نہ سہی تاہم اس میں کوئی کلام نہیں کہ ہم تو غالب کی سطح کے آدمی ہیں، اس قسم کا واقعہ اور وہ بھی ہماری زندگی میں پیش آنا کچھ عجب نہیں بلکہ عین قرین قیاس ہے۔ تاہم یہ خرم صاحب کی خوش قسمتی کہ جو بے ساختگی
زندگی امتحان ہے خرم۔۔۔
میں موجود ہے، وہ ہم کو
زندگی امتحان ہے محسن ۔۔۔
میں محسوس نہ ہوئی اور ہم اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے سے باز رہے وگرنہ اسلام آباد کی چیز راولپنڈی کے کسی ذاتی کتب خانے سے نکل آنا کچھ عجب نہیں جب کہ اس سے پہلے فوج کا چمکتا اسلحہ لال مسجد سے برآمد بھی ہو چکا ہو۔ ویسے زندگی امتحان ہے محسن موزوں نہ بیٹھنے پر ہم خوش بھی ہیں کہ شاید زندگی محض خرم صاحب کا ہی امتحان ہے، ہم بری الذمہ ہیں کہ
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔۔۔
اردو کی تمام مشہور و معروف غزلیات پر یار لوگوں نے گرہیں لگائی ہیں، ہم خرم صاحب کے کلام پر کچھ طبع آزمائی کرتے ہیں:
زندگی امتحان ہے خرم
مشکل میں جان ہے خرم
تیز رفتاری کا یہ انجام ہوا
ہاتھ میں چلان ہے خرم
غالب کی بھتیجی ہیں وہ
گویا غالب پٹھان ہے خرم
استعفی کیوں نہیں دیتا وہ
بہت سخت جان ہے خرم
منصفی کس سے چاہو گے؟
یہ پاکستان ہے خرم!
ہمارا خیال ہےکہ پانچ اشعار ہو گئے ہیں غزل کے واسطے اسے تسلسل اور ترنم سے پڑھئے بہت لطف رہے گا۔ دوسری غزل جو ہمارے تخیل و تصور میں تیر کی طرح ترازو ہے، وہ جناب وارث صاحب کی غزل ہے
عشق میں بھاگنا حلال نہیں
شاعری فقط قیل و قال نہیں
سو اس پر ہم گرہ بعد میں لگائیں گے، ابھی ہم کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے سوتے اپنے حلق کی طرح خشک ہوتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں، ہم پانی پی کر آتے ہیں!
ویسے قادری صاحب کی بھی ایک غزل ہے وہ ہم کلام رہا دیر تک ایک لطف نا تمام رہا۔۔۔۔ دیر تک!
بھئی پڑھتے پڑھتے ہماری تو زبان میں موچ آگئی ہے اور یہ وہ ہوا ہے جو پچھلے بائیس سالوں میں کبھی نہ ہوا سو ہم تو ترجمانی سے قاصر ہیں۔
مغل صاحب تحاریر لکھتے ہوئے پانچ سات زبانوں کی لغات سامنے رکھتے ہیں ، ایک ایک میں چمچہ پھیرتے جاتے ہیں، اور مراسلہ تیار!
پیارے صاحب۔۔ جو دل میں ہوتا ہے اسے لکھ دیتا ہوں اور یہ کہ لغت کی ضرور مجھے بہت کم پڑتی ہے ۔۔۔ آپ سے فون پر بات ہوئی تھی تو کیا
آپ نے اندازہ نہیں لگایا تھا کہ میری عمومی گفتگو بھی ایسی ہی ہوت ہے۔۔۔۔ زبان کی موچ کیلئے مجرب نسخہ ہے کہ دانتوں تلے دبائے رکھیں۔
نہ رہے گی زبان ، نہ آئے گی موچ