دیوانِ میر حسن

شمشاد

لائبریرین

رات غیرونکا بیانِ آہ و زاری کر گئے
آپ اچھی آ کے میری غمگساری کر گئے

کچھ بگڑے اور کچھ زلفین بناتے آن کر
رات مجھ بیمار کی تم اور بھاری کر گئے

غیر اپنے روبرو یون تمسے مل مل بیٹھتے
کیا کہین کل ہم بڑی خاطر تمھاری کر گئے

کاہلا سنکر مجھے آئے پہ چپ بیٹھے رہے
کہنے سنے کو ذرا بیار داری کر گئے

سیکڑون بیدل ترے کوچے مین دل کے واسطے
اپنے جی سے تو نہایت خاکساری کر گئے

لیکے دامن مُنھ پر اپنے اُسکے کوچہ کی طرف
جب ہم آئے موسمِ ابرِ بہاری کر گئے

باد چلکر جس طرح منھ برس جاتا ہے کہین
آہ بھرتے آن نکلے اشکباری کر گئے

کیا کرینگے یاد اس دنیا مین آ کر وے غریب
صرف غم مین اپنی جو اوقات ساری کر گئے

اب کہان آہون کی دوستی اور کہان وہ فوجِ اشک
ہم بھی کوئی دن غمون کی فوجداری کر گئے

قیس کا مدت سے برہم ہو گیا تھا سلسلہ
اپنی ہم دیوانگی سے اُسکو جاری کر گئے

غیر کو اودھر بٹھایا رات اور ایدھر مجھے
دشمنی مین بارے اتنی دوستداری کر گئے

حال میرا اُس سے جو پوچھا کسی نے تو کہا
وے ہے یہ جو آ کے کل یان بیقراری کر گئے

ہَٹے کٹے ہین بھلے چنگے ہین اُنکو کیا ہوا
سوجے پھولے آئے تھے گلا گذاری کر گئے

مجھسے چھپکر میرے ہمسایون مین آئے رات کو
گالیان دیدیکے ناحو میری خواری کر گئے

کل محلہ سے حسن کے دل طلب کرتے تھے جو
آج یان بھی آ کے وے خانہ شماری کر گئے​
 

شمشاد

لائبریرین

تنہا نہ ایک نرگس ڈھل ڈل کے دیکھتی ہے
تجھکو تو شمع بھی کچھ گھل گھل کے دیکھتی ہے

بازی بگڑ گئی ہو تو اُسکو سنوارے
دل کو قوی ہو دیجیے جی کو نہ ہارے

عاشق ہون جبسے رنگ سنہری کا اُسکے مین
لیجاتے ہین دھوان مری آہون کا نیاریے

شبنم کی طرح سیر چمن بھی ضرور ہے
رو دھو کے ایک رات یہان بھی گذاریے

مارا حسن بتون نے بنارس کے تب سے آہ
جبسے لگے پھنے یہ مشر و کٹاریے​
 

شمشاد

لائبریرین

مُنھ کہان یہ کہ کہون جائیے اور سو رہیے
خوب اگر نیند ہے تو آئیے اور سو رہیے

تکیہ زانو کا مرے کیجیے بے خوف و خطر
آپ تشریف اِدھر لائیے اور سو رہیے

آج کی چاندنی وہ ہے کہ کس شوخ کے ساتھ
کھول آغوش لپٹ جائیے اور سو رہیے

یونتو ہرگز نہین آنے کی تمھین نیند مگر
مجھسے قصہ مرا کہوائیے اور سو رہیے

غم ہوا تھا مری راتون کا تمھین کس کس دن
مُنھ مرا آپ نہ کھلوائیے اور سو رہیے

گر رہین ہم بھی کہین پائنتی اب جائین کہان
آپ اتنا ہمین فرمائیے اور سو رہیے

بخت جاگے ہین شبِ ماہ مین جو یار ہے پاس
چاندنی تخت پہ بچھوائیے اور سو رہیے

اُس ادا کا ہون مین دیوانہ کہ انگڑائی لے
مجھسے کہتا ہے کہین جائیے اور سو رہیے

ڈر خدا کا ہے نہین اور صنم کو لیکر
ایک جا پر تجھے دکھلائیے اور سو رہیے

طپشِ عشق کی گرمی سے جلے جاتے ہین
چھانؤن ٹھنڈی کہین ٹک پائیے اور سو رہیے

یہ بلا فکر سے کچھ بند ہوئی یے کہ حسن
جی مین آتا ہے کہ کچھ کھائیے اور سو رہیے​
 

شمشاد

لائبریرین

جلد حُسن و جمال جاتا ہے
نہین رہتا یہ حال جاتا ہے

جب تلک دیکھتا نہین اُسکو
دل مین کیا کیا خیال جاتا ہے

کونسے وقت عرضِ حال کرون
وہ تو ہر وقت ٹال جاتا ہے

جسکا ہوتا ہے غم سے دل بھاری
وہ ترے در پہ ڈال جاتا ہے

سرسون آنکھون مین کیون نہ پھولے اب
زرد اوڑھے دوشال جاتا ہے

صاف سمجھا نہین مجھے عاشق
بات کہتے سنبھال جاتا ہے

جان دیتا ہون جلد دیکھون تو
نامہ بر کیسی چال جاتا ہے

نکتہ چینون نے کچھ کہا تو کیا
کوئی اسمین کمال جاتا ہے

کچھ رہائی نظر نہین آتی
یون ہی اب کا بھی سال جاتا ہے

آہ مثلِ شبِ جوانی جلد
کیا یہ روزِ وصال جاتا ہے

دلبری وہ صنم کرے میری
کچھ بھلا احتمال جاتا ہے

یون خدا کی خدائی ہے معمور
پر کب اپنا خیال جاتا ہے

تو تو خوش ہو حسن کے جانے سے
تیرا رنج و ملال جاتا ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

میں نے دشمن سے دوستداری کی
اپنے ہاتھون سے اپنی خواری کی

خاک در خاک ہو گئے آخر
یان تلک ہمنے خاکساری کی

غم کا دریا بھرا تھا کیا دل مین
جس سے چشمون نے نہر جاری کی

جس طرف دل گیا گئے ہم بھی
جان کی اپنی پاسداری کی

کچھ بھی اُسنے کیا نہ قول و قرار
ہمنے ہر چند بیقراری کی

اُسنے جانا نہہ کان و کان بھی کچھ
رات دن مین نے آہ و زاری کی

تسپہ حیرت ہے یہ کہ تو نہ حسن
کس بھروسے پہ اشکباری کی​
 

شمشاد

لائبریرین

ہمسے گر محجوب ہو کر نازنین رہ جائین گے
ہم بھی اپنے مُنھ پہ دھر کر آستین رہجائین گے

بس نہو اپنا تو پھر کیا کیجیے وقتِ وداع
آپ کو ہم تھام کر اپنے تئین رہجائین گے

دیر و کعبہ پر نہین کچھ منحصر اے دوستان
دل جہان ہو گا ہمارا ہم وہین رہجائین گے

ناتوانون کا نہ چھوڑو ساتھ راہِ عشق مین
ورنہ یہ فرقت زدہ اندوہگین رہجائین گے

یاد مین اُ س زلف کی جاتے ہین ابتو ہم چلے
شام جب سر پر پڑیگی تب کہین رہجائین گے

اپنی خاطر جمع ہے زلفِ پریشان سے تری
سب نکل جاوینگے آخر اک ہمین رہجائین گے

تیغ ابرو ہی سے کر لیوینگے سازش یار لوگ
طاق پر تیرے دھرے سب بغض و کین رہجائین گے

پہلے اپنے بزم سے غیرون کو اُٹھوا دے شتاب
ورنہ میرے جاتے جاتے یہ لعین رہجائین گے

ہنستے جاتے ہو جدائی مین تمھین تو کھیل ہے
ہمکو رونا ہے کہ ہم تم بن غمین رہجائین گے

اب جو کچھ چاہین کہین پر ہم یہانسے جب گئے
پھر یہ سب افسوس کرتے نازنین رہجائین گے

رنگ و رو اُڑ جائین گے لالہ رخون کے ایک دن
ہان مگر اک داغ انکے دلنشین رہجائین گے

باز رکھ اسکو سفر سے سرنہ یہ جاتے ہی عمر
دل کے سب ارمان دل مین ہمنشین رہجائین گے

اور نہین تو یہ مقرر ہے کہ بسمل کی طرح
کر کے قاتل پر نگاہِ واپسین رہجائین گے

دو جہان سے ہم کنارے ہو کے جاوینگے حسن
ہاتھ ملتے ہمپہ یہ دنیا و دین رہجائین گے​
 

شمشاد

لائبریرین

کئی دن سے تیرے چھپ رہنے مین اشک آنکھونسے برسا ہے
نکل خورشید رع گھر سے کہ عالم خوب ترسا ہے

نہین معلوم ہہے کس عالم بالا پہ گھر تیرا
وگرنہ اے اثر نالہ تو میرا عرش فرسا ہے

خدا ناترس کیا کافر ہے دل تیرے کہ کیا کہیے
نہ ایسا گبر ہے کوئی نہ ایسا کوئی ترسا ہے

نہین ملبوس بہتر کوئی اس عریان تنی سے بھی
یہی ہے اپنی محمودی یہی اپنا اورسا ہے

لگے کب پشم کو یہ عزت دنیا گدائی کی
کہ اُنکا بوریا مسند ہے اور قالین چرسا ہے

حسن صنعت سے بٹھلا اور بھی تو قافیہ لا کر
کہ تا اہلِ ہنر جانے کہ اسمین کچھ ہنر سا ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

ترا ہر چند دل پتھر سے بھی کچھ سخت تر سا ہے
و لیکن سچ اگر پوچھے تو کب میرے جگر سا ہے

سوا ہی حسن تیرا مہِ تابان سے اے مہ رو
کہ ابرو ہے بلال آ سا تری اور منھ قمر سا ہے

گریبان چاک اور خاموش مجھکو دیکھ کہتا ہے
کرون کیا بات اس سے یہ تو کچھ دیوار و در سا ہے

مین اپنے دل کو جب دیکھون ہون تب روتے ہی پاتا ہون
یہ ہمسایہ بھی کچھ میری طرح سے نوحہ گر سا ہے

رقیب و روسیہ کی کل جو تم تعریف کرتے تھے
مین اُسکو آج جو دیکھا تو اک گیدی نفر سا ہے

تصدیق روسیہ کی کل جو تم تعریف کرتے تھے
قفس مین اسکو رہنے دے کہ یہ بے بال و پر سا ہے

نصحیت مجھکو بھی کرتا ے ناصح کچھ سنا تمنے
بھلا مین کیا کہون اب اسکو یہ تو جانور سا ہے

وہ جو باریک بین ہین وہ میان کو دیکھ کہتے ہین
نہین اتنی کمر اسکی کہ کہیے مو کمر سا ہے

سریت جی پہ کرتا ہے مثالِ اشکِ غم دیدہ
حسن تیرے سخن مین بھی مقرر کچھ اثر سا ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

تمہین کچھ ایک نہ دنیا مین جفاکار ملے
جو ملے مجھکو سو ایسے ہی وفا دار ملے

ساتھ اپنے مین اُسے خواب مین سوتے دیکھا
بارے مدت مین مجھے طالعِ بیدار ملے

جی تو ایسا ہی خفا تھا کہ نہ ملیے گا کبھی
پر ترے ہنس کے لپٹجانے مین ناچار چلے

ایسے ملنے سے تو کچھ اُنکے دل اپنا نہ ملا
یون تو ملنے کو ملے ہمسے پہ بیزار ملے

کچھ بلا تیرے سوا اپنا کہین جی نہ لگا
ورنہ دنیا مین بہت ہمکو طرحدار ملے

وے اِسے دیکھ رُکے اور یہ اُنھین دیکھ رُکا
جیسے کُھُنَسائے ہوئے ہون کہین دو یار ملے

نہ کہ مین ساتھ تھا جسکے وہ لگا کہنے کہ بس
مجھسے اب کام نرکھ جا ترے حقدار ملے

مین یہ سنکر جو گلے لگنے کو دورا تو وہ شوخ
ہنس کے پھر بولا کہ چل چل مری پیزار ملے

کہ غزل اور حسن ایسی کوئی رتبہ کی
آفرین جو شعرا سے تجھے ہر بار ملے​
 

شمشاد

لائبریرین

نغمہ و عشق سے ہین سجے و زنار ملے
ایک آواز پہ دو ساز کے ہین تار ملے

مین تو آشفتہِ دل اور دل آشفتہ زلف
خوب ہم دونون گرفتار گرفتار ملے

مصلحت ہے کہ تری چشم کو ہے دل سے حجاب
رنج ہو اور جو بیمار سے بیمار ملے

دن توقع ہی توقع مین کہانتک گذرین
مر گئے ہجر مین بس ابتو کہین یار ملے

اپنی ہی وضع پہ لاوینگے خدا خیر کرے
بیطرح رہتے ہین اس شوخ سے عیار ملے

درد و رنگ و الم و حسرت و داغ و غم و رشک
مجھکو کیا کیا نہ ترے عشق مین آزار ملے

کیا بڑی عمر ہے دل مین ابھی گذرا تھا مرے
کہ مزا ہووے جو ایسے مین وہ دلدار ملے

بارے تو آن ہی پہونچا مرا جی شاد ہوا
مین نے اب جانا کہ ہین دونون کے اسرار ملے

موند لے جب تو ان آنکھون کو جہانسے تو حسن
دل کی آنکھون سے تجھے یار کا دیدار ملے​
 

شمشاد

لائبریرین

کیا ہنسے اب کوئی اور کیا رو سکے
دل ٹھکانے ہو تو سب کچھ ہو سکے

جس طرح جی چاہتا ہے اُس طرح
کون میرے درد دل کو کھو سکے

گھر مین جو چاہے سو کہلے پر اُسے
میرے مُنھ پر کوئی کچھ کہہ تو سکے

جو ہمیشہ ساتھ سویا ہو ترے
وہ اکیلا کس طرح اب سو سکے

کون اب داغِ جگر کو اے حسن
بن مرے اشک ندامت دھو سکے​
 

شمشاد

لائبریرین

سب نقش اس فلک کے نگینے پہ آ رہے
کارِ جہان تمام کمینے پہ آ رہے

آگے جو دلبری تھی سو عاشق کشی ہے اب
جو کام مہر کے تھے سو کینے پہ آ رہے

غصے مین جوش مارا جو دریاے حسن نے
جلوے نزاکتون کے پسینے پہ آ رہے

ڈرتا ہے دل کہ اسپہ ترقی نہو کہین
ملنے کے وقت ابتو مہینے پہ آ رہے

تو کچھ نہ بولے اور مزہ ہو کہ میرا ہاتھ
کاندھے سے تیرے مستی مین سینے پہ آ رہے

دریاے دل کی موج سے خطرا ہے چشم کو
مت یہ کہین اُچھل کے سفینے پہ آ رہے

پُولی تلے گذر گئی لاکھون کی عمر اب
گنبد مین کوئی کونسے جینے پہ آ رہے

جنکا دماغ عرش پہ تھا اب ہین پائمال
کوٹھے پہ جو کہ رہتے تھے زینے پہ آ رہے

گنجِ نہان سے دل کے تو واقف ہوے نہ ہم
کیا فائدہ جو زر کے دفینے پہ آ رہے

دو دن کے چاو چوز حسن کے وہ ہو چکے
پھر رفتہ رفتہ اپنے قرینے پہ آ رہے​
 

شمشاد

لائبریرین

لو دل پر اُسکی تیغ سے بیداد ہو گئی
تن کے قفس سے جان تو آزاد ہو گئی

اک دو ہی آہین سُنکے خفا ہمسے ہو چلے
دلسوزی ایک عمر کی برباد ہو گئی

بارے ہزار شکر کہ آیا تو اس طرف
اُجڑی ہوئی یہ بستی پھر آباد ہو گئی

نالہ سُنا جو میرا تو بلبل کو جی ملا
ہمدرد وہ سمجھ کے مجھے شاد ہو گئی

دل خاک ہو رہا تھا زبس اہل بزم کا
تجھ بن شراب شیشہ مین سب گاد ہو گئ

کہتےتھے ہم کہ آگے نہ تھے شوخ بیوفا
تو نے کہا کہ تھے تو بس اسناد ہو گئی

کس کا حسن کہانکا تعشق کدھر کا دھیان
وہ دن گئے تپاک کے وہ یاد ہو گئی​
 

شمشاد

لائبریرین

بسکہ چون بد زمانہ یہ گھٹاتا ہے مجھے
دن بدن اور ہی عالم نظر آتا ہے مجھے

حسن نیرنگیِ عالم کا عجب رنگ سے کچھ
عین نیرنگی مین سو رنگ دکھاتا ہے مجھے

اتنا معلوم تو ہوتا ہے کہ جاتا ہون کہین
کوئی ہے مجھمین کہ مجھسے لئے جاتا ہے مجھے

یاد مین کسکی کرون مجھکو کہان ہوش و حواس
اپنی ہی یاد سے یہ عشق بھلاتا ہے مجھے

طرفہ عالم ہے کہ ہر ایک سے وہ مایہ ناز
آپ رہتا ہے الگ اور بھڑاتا ہے مجھے

چھوڑ کر مجھکو وہ تنہا کوئی جاتا ہے کہین
یہ بھی اِک چھیڑ ہے اُسکو کہ کڑھاتا ہے مجھے

مجھکو کیون کھینچے لئے جاے ہے تقصیر مری
عمر ٹک رہ تو سہی کون بلاتا ہے مجھے

مجھ مین اور دل مین سدا ہے سبقِ عشق کا درس
مین سناتا ہون اُسے اور وہ سناتا ہے مجھے

میرے ناخونون مین مین تجھسے کئی چار ابرو
اپنی کیا تیغ سے ہر دم تو ڈراتا ہے مجھے

طاہرِ رنگِ حنا ہون تو لگون تیرے ہاتھ
چٹکیون مین تو عبث یار اُڑاتا ہے مجھے

تجھکو منظور جفا مجھکو ہے مطلوب وفا
نہ یہ بھاتا ہے تجھے اور نہ وہ بھاتا ہے مجھے

جو مری چڑھ ہے اُسی بات کا ہی تجھکو ذوق
آہ تو دیدہ و دانستہ کھجاتا ہے مجھے

پھر پھر آئینہ مین مُنھ دیکھنے لگتا ہے حسن
ایکدم آپ مین وہ شوخ جو پاتا ہے مجھے​
 

شمشاد

لائبریرین

نگہ سے چشم سے ناز و ادا سے
خدا محفوظ رکھے ہر بلا سے

کسی کی بیوفائی سے مجھے کیا
مین اپنے کام رکھتا ہون وفا سے

بہت مانگین دعائین ہاتھ اُٹھا کر
نہ نکلا کام کچھ آخر دعا سے

مجھے ڈر ہے کہین رسوا نہو تو
جو مین رسوا ہوا تیری بلا سے

حسن دیتا ہے تو کیون جی بتون پر
ملا دینگے تجھے کیا یہ خدا سے​
 

شمشاد

لائبریرین

بوالہوس ہو اُسے اِسے چاہے
جو تجھے چاہے سو کسے چاہے

کر دے ایکدم مین اُسکو کچھ کا کُچھ
یار تیرا حسن جسے چاہے

چشم تر رات مجھکو یاد آئی
اپنی اوقات مجھکو یاد آئی

نالہ دل پر آہ کی مین نے
بات پر بات مجھکو یاد آئی

ابھی بھولی تھی دخت رز تو یہ
پھر وہ بد ذات مجھکو یاد آئی

زلف مین دیکھ خال کو اُسکے
شب کی وہ گھات مجھکو یاد آئی

دیکھ لالہ کا رنگ اُسکی کفک
آج ہیہات مجھکو یاد آئی

جی پہ جسکے ستم کہین دیکھا
دل کی اوقات مجھکو یاد آئی

دیکھ روتے حسن کو شدت سے
پر کی برسات مجھکو یاد آئی​
 

شمشاد

لائبریرین

دل ہی نہ جان دینے پر اپنی دلیر ہے
اس زندگی سے اپنا بھی جی ابتو سیر ہے

تیرے تو جلد آنے مین ہرگز نہین قصور
تو کیا کرے یہ میرے نصیبون کی دیر ہے

مجھکو سوادِ کط نہین اور عشق ہےہ دو حرف
جسکا نہ پیش ہےہ نہ زبر ہے نہ زیر ہے

ممکن نہین کہ پھیر ملے تیری بات کا
پایا ہے کسنے اسکو یہ دریا کا پھیر ہے

گھر مین رقیب کیون نہ جتا دے سپہ گری
اپنی گلی مین کہتے ہین کُتا بھی شیر ہے

مت استخوان سوختہ پر میرے روئیو
آتش چھپی ہے اسمین یہ چونیکا ڈھیر ہے

جس طرح گرد ماہ کے ہالہ ہو جلوہ گر
یون تن پہ خوشنما ترے دامن کا گھیر ہے

کس کس کے غم کو سنئیے حسن اب وہ دل نہین
اپنی ہی سرگذشت سے جی اپنا سیر ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

جس طرح کوئی شجر پر سے ثمر لے اُترے
اشک نصیبون سے عجب شام و سحر لے اُترے

پوچھ مت حالت بخت سیہ و چشمِ سفید
ہم نصیبون سے عجب شام و سحر لے اُترے

کون سوتے نظر آیا تمہین کوٹھے پہ کہو
یک بیک چونکہ کے کیون تیغ و سپر لے اُترے

چڑھ سکے مُنہ نہ مرے چاک جگر کے ہرگز
نار و سوزن کو مسیحا بھی اگر لے اُترے

یون تو پیتا نہین دل ہاتھ سے ساقی کے شراب
جام اسکے لئے اب حور مگر لے اُترے

مُنھ چڑھین ہم کسی محبوب کے اب کیونکہ بھلا
اپنی قسمت سے تو ہم زور نہ زر لے اُترے

دل تو اشکون ہی مین تھا پر نہین معلوم حسن
اس مسافر کو یہ بہکا کے کدھر لے اُترے​
 

شمشاد

لائبریرین

نہ فقہ نہ منطق نہ حکمت کا رسالہ ہے
اس فن محبت کا نسخا ہی نرالا ہے

خطرا ہے مجھے ابتو چپ رہنے سے بھی اپنے
کیا ہے کہ نہ سوزش ہے وہ آہ نہ نالا ہے

دل ہی نہ کھلے اپنا تو کیجیے کیا ورنہ
سبزا ہے گلستان ہے گلزار ہے لالا ہے

کیونکر نہ ثمر لادے شاخ مژہ لخت دل
سو خون جگر سے مین اس تیر کو پالا ہے

ہے دل مین وہ لیکن دکھلائی نہین دیتا
باہر تو اندھیرا ہے اور گھر مین اُجالا ہے

تعجیل نکر اے دل آنے تو لگا ہے وہ
ملجائیگا بوسہ بھی کیا مُنھ کا نوالا ہے

کیفیت میخانہ بس دیکھلی اب کیا ہے
ساقی ہے نہ صہبا ہے شیشہ ہے نہ پیالا ہے

یہ چال اگر ہے تو رہنے کا نہین اب دل
بیطرح سے اسنے تو کچھ پانؤن نکالا ہے

تو ہوتا تو کیا ہوتا کل نام ترا لیتے
گلشن مین حسن کو مین گرنے سے سنبھالا ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

یان سے پیغام جو لیکر گئے معقول گئے
اُسکی باتون مین لگے ایسے کہ سب بھول گئے

تو تو معشوق ہے تجھکو تو بہت عاشق ہین
غم اُگھون کا ہے جو وہ جان سے نرمول گئے

بیکلی اپنی کا اظہار تو کرتا نہین مین
گلرخان دیکھکے تم مجھکو عبث بھول گئے

کیونکہ کھٹکا نرہے سبکو اُدھر جانیکا
آہ کیا کیا نہ اسی خاک مین مقبول گئے

اپنی نیکی و بدی چھوڑ گئے دنیا مین
گرچہ دونون نر ہے قاتل و مقتول گئے

زلف مین اُسکی بہت رہ کے نہ اترائیو دل
مجھسے کتنے ہی مری جان یہان جھول گئے

پہلی باتون کا محبت کی حسن ذکر نکر
بس وہ دستور گئے اور وہ معمول گئے​
 
Top