شمشاد
لائبریرین
رات غیرونکا بیانِ آہ و زاری کر گئے
آپ اچھی آ کے میری غمگساری کر گئے
کچھ بگڑے اور کچھ زلفین بناتے آن کر
رات مجھ بیمار کی تم اور بھاری کر گئے
غیر اپنے روبرو یون تمسے مل مل بیٹھتے
کیا کہین کل ہم بڑی خاطر تمھاری کر گئے
کاہلا سنکر مجھے آئے پہ چپ بیٹھے رہے
کہنے سنے کو ذرا بیار داری کر گئے
سیکڑون بیدل ترے کوچے مین دل کے واسطے
اپنے جی سے تو نہایت خاکساری کر گئے
لیکے دامن مُنھ پر اپنے اُسکے کوچہ کی طرف
جب ہم آئے موسمِ ابرِ بہاری کر گئے
باد چلکر جس طرح منھ برس جاتا ہے کہین
آہ بھرتے آن نکلے اشکباری کر گئے
کیا کرینگے یاد اس دنیا مین آ کر وے غریب
صرف غم مین اپنی جو اوقات ساری کر گئے
اب کہان آہون کی دوستی اور کہان وہ فوجِ اشک
ہم بھی کوئی دن غمون کی فوجداری کر گئے
قیس کا مدت سے برہم ہو گیا تھا سلسلہ
اپنی ہم دیوانگی سے اُسکو جاری کر گئے
غیر کو اودھر بٹھایا رات اور ایدھر مجھے
دشمنی مین بارے اتنی دوستداری کر گئے
حال میرا اُس سے جو پوچھا کسی نے تو کہا
وے ہے یہ جو آ کے کل یان بیقراری کر گئے
ہَٹے کٹے ہین بھلے چنگے ہین اُنکو کیا ہوا
سوجے پھولے آئے تھے گلا گذاری کر گئے
مجھسے چھپکر میرے ہمسایون مین آئے رات کو
گالیان دیدیکے ناحو میری خواری کر گئے
کل محلہ سے حسن کے دل طلب کرتے تھے جو
آج یان بھی آ کے وے خانہ شماری کر گئے