[دیوان غالب] تبصرے اور تجاویز

فریب

محفلین
شمشاد بھائی تو کسی اور کتاب میں مصروف ہیں تو ان کی جگہ کیا میں ن والی غزلیں post کر سکتا ہوں؟
 

الف عین

لائبریرین
میں نے یہان ہی جو غزلیات پوسٹ کر دی تھیں، اس پوسٹ کو ڈیلیٹ نہیں کر سکا (یہ کیا چکر ہے نبیل، پوسٹ کو ختم کرنا ممکن نہیں رہا۔ اس پوسٹ کو ایڈت کرنا ہی ممکن ہو سکا ہے، اس لئے میری 16 فروری کی پوسٹ پھر سے پڑھ لیں۔
شگفتہ آپ مناسب تبدیلیاں کر لیجئے۔ س سے ل اور ی بھی آپ کر چکی/رہی ہیں۔ فریب نے نون سے کرنا شروع کر دیا ہے۔
فائنل نسخےکے بارے میں ایک الگ پوسٹ کر رہا ہوں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
اعجاز اختر صاحب۔ دوبارہ کوشش کر کے دیکھیں، اب پوسٹ‌ایڈٹ کرنا ممکن ہوجانا چاہیے۔
 

الف عین

لائبریرین
نبیل۔ اب تو میں نے ایڈٹ کر کے ہی کام چلا لیا ہے۔ اردو ویب ایڈیٹر کے بارے میں الگ سے ایک اور پوسٹ کروں گا۔
 

الف عین

لائبریرین
اعراب اور املا

میں نے کوشش کی ہے کہ جہاں اعراب ضروری ہوں وہاں ضرور ٹائپ کروں۔ خاص کر اس لئے کہ قاری پڑھنے میں تلفظ کی غلطی بھی نہ کرے اور کم از کم بحر سے خارج کر کے نہ پڑھے۔ اکثر میں نے دیکھا ہے کہ عروض سے نا بلد حضرات ’گُل سِتاں‘ کو ’گُلِس تاں‘ پڑھتے ہیں یا اس کا اُلٹا۔ الفاظ دونوں صحیح ہیں لیکن کہیں بحر میں پہلا درست ہے، کہیں دوسرا۔
یہاں بھی اکثر لوگ ہ کو ھ اور ھ کو ہ ٹائپ کر دیتے ہیں، یہ غلطی مجھ سے بھی کبھی ہو جاتی ہے۔ اور غالب کے اشعار میں ایک ایسی غلطی ہوئی کہ خود بھی انجوائے کرتا رہا۔ جب میں نے ’گہر بار‘ کو ’گھربار‘ لکھا!!
غالب کو ٹائپ کرتے ہوئے ایک یوں ہی سا مشاہدہ ہوا کہ غالب نے اپنے کلام میں اضافت کا کس قدر اور کتنا عمدہ استعمال کیا ہے۔ جیسے ہوں گرمئِ نشاطِ تصور سے نغمہ سنج ۔۔ میں عندلیبِ گلشنِ ناآفریدہ ہوں،
 

الف عین

لائبریرین
شگفتہ تمھاری س تا ل غزلیات کہاں ہیں۔ چاہے تو مجھے الگ سے بھیج دو۔ میں تصحیح اور ترتیب دے لوں گا۔
 

رضوان

محفلین
ردیف واؤ کی چھپائی کافی حد تک کر دی ہے، باقیماندہ کی بھی کوشش ہے کہ جلد ہی مکمل کر لیں۔ نوک پلک سنوار لیں گے آخر میں۔
 

الف عین

لائبریرین
الف ردیف کی ذیل کی غزلیات نہیں مل سکی ہیں۔ اگر بیل یا کسی کے بھی پاس ٹائپ کی ہوئی ہوں تو یہاں پوسٹ کر دیں، یا میرے ای میل پر بھیج دیں:
aijazakhtar at gmail dot com
نالۂ دل۔۔۔۔۔۔ نایاب تھا
عرضِ نیازِ عشق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں رہا
رشک کہتا ہے۔۔۔آشنا
جور سے باز آئے۔۔۔۔دکھلائیں کیا
 

رضوان

محفلین
جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا
کہتے ہیں ہم تجھ کو منہ دکھلائیں کیا

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہیگا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاؤ
جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا

ہو لیے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ
یا رب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا


موجِ خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے
آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا

عمر بھر دیکھا کیے مرنے کی راہ
مر گیے پر دیکھیے دکھلائیں کیا


پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
 

رضوان

محفلین
رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف
عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا


ذرّہ ذرّہ ساغرِ مے خانہ نیرنگ ہے
گردشِ مجنوں بہ چشمک‌ہاے لیلیٰ آشنا


شوق ہے ساماں طرازِ نازشِ اربابِ عجز
ذرّہ صحرا دست گاہ و قطرہ دریا آشنا

میں اور ایک آفت کا ٹکڑا وہ دلِ وحشی کہ ہے
عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا

شکوہ سنجِ رشکِ ہم دیگر نہ رہنا چاہیے
میرا زانو مونس اور آئینہ تیرا آشنا

کوہکن نقّاشِ یک تمثالِ شیریں تھا اسد
سنگ سے سر مار کر ہووے نہ پیدا آشنا​
 

رضوان

محفلین
عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا


جاتا ہوں داغِ حسرتِ ہستی لیے ہوئے
ہوں شمعِ کشتہ درخورِ محفل نہیں رہا


مرنے کی اے دل اور ہی تدبیر کر کہ میں
شایانِ دست و خنجرِ قاتل نہیں رہا


بر روئے شش جہت درِ آئینہ باز ہے
یاں امتیازِ ناقص و کامل نہیں رہا


وا کر دیے ہیں شوق نے بندِ نقابِ حسن
غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا


گو میں رہا رہینِ ستمہاے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

دل سے ہواے کشتِ وفا مٹ گئی کہ واں
حاصل سواے حسرتِ حاصل نہیں رہا


بیدادِ عشق سے نہیں ڈرتا مگر اسد
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا​
 

الف عین

لائبریرین
کولمبیا ڈاٹ ایڈو کے دیوانِ غالب سے کچھ غزلیں تو مل گئی ہیں، اگرچہ نالۂ دل۔۔۔۔۔تھا والی غزل ابھی نہیں دیکھی کہ ی ردیف کی جمع کر رہا تھا۔ تب معلوم ہوا کہ یہاں بھی ادھورا کام ہے ابھی۔ آخری غزل ان کے شمار کے حساب سے 179 نمبر کی ہے، 180 سے نہیں ہیں۔
چناں چہ اب ہمیں اس غزل کے بعد سے:
سیماب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے ہم
حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار کے
یعنی جرأتِ رندانہ چاہئے والی غزل سے غزلیات اور قصائد، رباعیات چاہئے۔ میں دو قصائد ٹائپ کر چکا ہوں۔ شگفتہ فریب اور رضوان، ذرا ان باقی غزلوں کا کچھ کرو۔ میں آج موجود مواد کو مرتب کرتا رہا ہوں۔
 

فریب

محفلین
نالہ دل میں شب، اندازﹺ اثر نایاب تھا
تھا سپندﹺ بزمﹺ وصلﹺ غیر گو بے تاب تھا
مقدمﹶ سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے
خانہ عاشق مگر سازﹺ صدائے آب تھا
نازشﹺ ایّام خاکستر نشینی، کیا کہوں
پہلوئے اندیشہ، وقفﹺ بسترﹺ سنجاب تھا
کچھ نہ کی، اپنے جنونﹺ نارسا نے، ورنہ یاں
ذرّہ ذرّہ، رﹸوکشﹺ خورشیدﹺ عالم تاب تھا
آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے؟
کل تلک تیرا بھی دل، مہرو وفا کا باب تھا
یاد کر وہ دن، کہ ہر اک حلقہ تیرے دام کا
انتظارﹺ صید میں اﹺک دیدہ بے خواب تھا
میں نے روکا رات غالب کو وگرنہ دیکھتے
اس کے سیلﹺ گریہ میں گردوں کفﹺ سیلاب تھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
فریب نے کہا:
نالہ دل میں شب، اندازﹺ اثر نایاب تھا
تھا سپندﹺ بزمﹺ وصلﹺ غیر گو بے تاب تھا
مقدمﹶ سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے
خانہ عاشق مگر سازﹺ صدائے آب تھا
نازشﹺ ایّام خاکستر نشینی، کیا کہوں
پہلوئے اندیشہ، وقفﹺ بسترﹺ سنجاب تھا
کچھ نہ کی، اپنے جنونﹺ نارسا نے، ورنہ یاں
ذرّہ ذرّہ، رﹸوکشﹺ خورشیدﹺ عالم تاب تھا
آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے؟
کل تلک تیرا بھی دل، مہرو وفا کا باب تھا
یاد کر وہ دن، کہ ہر اک حلقہ تیرے دام کا
انتظارﹺ صید میں اﹺک دیدہ بے خواب تھا
میں نے روکا رات غالب کو وگرنہ دیکھتے
اس کے سیلﹺ گریہ میں گردوں کفﹺ سیلاب تھا

السلام علیکم

فریب ، یہاں ٹیکسٹ میں بعض جگہوں پر ڈبے نظر آرہے ہیں اس لئے یہی‌ غزل دیوانِ غالب میں دوبارہ پوسٹ کردی ہے ۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اعجاز اختر نے کہا:
کولمبیا ڈاٹ ایڈو کے دیوانِ غالب سے کچھ غزلیں تو مل گئی ہیں، اگرچہ نالۂ دل۔۔۔۔۔تھا والی غزل ابھی نہیں دیکھی کہ ی ردیف کی جمع کر رہا تھا۔ تب معلوم ہوا کہ یہاں بھی ادھورا کام ہے ابھی۔ آخری غزل ان کے شمار کے حساب سے 179 نمبر کی ہے، 180 سے نہیں ہیں۔
چناں چہ اب ہمیں اس غزل کے بعد سے:
سیماب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے ہم
حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار کے
یعنی جرأتِ رندانہ چاہئے والی غزل سے غزلیات اور قصائد، رباعیات چاہئے۔ میں دو قصائد ٹائپ کر چکا ہوں۔ شگفتہ فریب اور رضوان، ذرا ان باقی غزلوں کا کچھ کرو۔ میں آج موجود مواد کو مرتب کرتا رہا ہوں۔


اعجاز صاحب

یہ آخری اپ ڈیٹ ہے میں اسی کے تحت آگے کا حصہ اب دیکھوں گی ۔ اگر مزید اپ ڈیٹ کرچکے ہیں تو بتائیے ۔

شکریہ
 
Top