فریب نے کہا:نالہ دل میں شب، اندازﹺ اثر نایاب تھا
تھا سپندﹺ بزمﹺ وصلﹺ غیر گو بے تاب تھا
مقدمﹶ سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے
خانہ عاشق مگر سازﹺ صدائے آب تھا
نازشﹺ ایّام خاکستر نشینی، کیا کہوں
پہلوئے اندیشہ، وقفﹺ بسترﹺ سنجاب تھا
کچھ نہ کی، اپنے جنونﹺ نارسا نے، ورنہ یاں
ذرّہ ذرّہ، رﹸوکشﹺ خورشیدﹺ عالم تاب تھا
آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے؟
کل تلک تیرا بھی دل، مہرو وفا کا باب تھا
یاد کر وہ دن، کہ ہر اک حلقہ تیرے دام کا
انتظارﹺ صید میں اﹺک دیدہ بے خواب تھا
میں نے روکا رات غالب کو وگرنہ دیکھتے
اس کے سیلﹺ گریہ میں گردوں کفﹺ سیلاب تھا
اعجاز اختر نے کہا:کولمبیا ڈاٹ ایڈو کے دیوانِ غالب سے کچھ غزلیں تو مل گئی ہیں، اگرچہ نالۂ دل۔۔۔۔۔تھا والی غزل ابھی نہیں دیکھی کہ ی ردیف کی جمع کر رہا تھا۔ تب معلوم ہوا کہ یہاں بھی ادھورا کام ہے ابھی۔ آخری غزل ان کے شمار کے حساب سے 179 نمبر کی ہے، 180 سے نہیں ہیں۔
چناں چہ اب ہمیں اس غزل کے بعد سے:
سیماب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے ہم
حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار کے
یعنی جرأتِ رندانہ چاہئے والی غزل سے غزلیات اور قصائد، رباعیات چاہئے۔ میں دو قصائد ٹائپ کر چکا ہوں۔ شگفتہ فریب اور رضوان، ذرا ان باقی غزلوں کا کچھ کرو۔ میں آج موجود مواد کو مرتب کرتا رہا ہوں۔